• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیاچوتھی صدی ہجری میں تقلید پر اجماع ہو گیا تھا

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
کیا چوتھی صدی ہجری میں تقلید پر اجماع ہو گیا تھا ؟
564 زائر 26/02/13 admin محمد رفیق طاہر
السؤال كامل
میں نے ایک جگہ یہ پڑھا ہے کہ چوتھی صدی میں تقلید پر علماء کا اجماع ہو گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ چند علماء کے نام اور ان کے بیانات بھی تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چوتھی صدی کے کسی عالم یا علماء نے تقلید کو رد کیا ہے؟؟؟
جواب السؤال
الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب وإليه المرجع والمآب
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اولا : اجماع حجت ہی نہیں ہے !
ثانیا : تقلید کی حجیت پر اجماع کا دعوى بھی باطل ہے !
کیونکہ
اجماع کی تعریف عموما یہ کی جاتی ہے کہ کسی بھی زمانہ کے تمام تر علماء کرام کسی شرعی مسئلہ پر متفق ہوں ۔
جبکہ اجماع کا دعوى کرنے والے سب کا اتفاق کبھی نقل کرتے بلکہ اختلاف سے نہ آشنا ہونے کی بناء پر " لا اعلم خلافا " کو " اجماع " کہہ دیتے ہیں ۔
اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ جس نے اجماع کے وجود کیا دعوى کیا وہ جھوٹا ہے ۔
لہذا پہلے تو اجماع کا دعوى کرنے والے اپنے کسی بھی مزعومہ اجماع پر کسی بھی زمانہ کے تمام تر علماء مجتہدین کا ہی اتفاق ثابت کریں !
گوکہ اجماع کی یہ تعریف بھی محتاج دلیل ہے کہ " کسی بھی زمانہ کے تمام تر علماء کرام کسی شرعی مسئلہ پر متفق ہوں " کیونکہ جو دلائل اجماع کی حجیت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ان میں " علماء " کی تخصیص نہیں ہے بلکہ لفظ "امت" یا "مؤمنین" استعمال ہوا ہے ۔ جو کہ مجتہدین وغیر مجتہدین سب کو شامل ہے اور اختصاص کی دلیل بھی نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ ہمارے نزدیک ان دلائل میں سے کسی بھی دلیل سے اجماع کی حجیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری تحقیق کے مطابق وہ تمام تر دلائل جو اجماع کی حجیت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں اجماع کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں !
ثالثا : اجماع کی حجیت کو تسلیم کرنے والوں کا ماننا ہے کہ کسی ایک مسئلہ پر اجماع ہو جائے تو اسکے خلاف اجتہاد کرنا یا عمل کرن ناجائز ہوتا ہے ۔ چوتھی صدی ہجری میں اجماع کا دعوى اس بات پر دلیل ہے کہ اس سے قبل کوئی بھی مقلد نہ تھا , اور تقلید نہ کرنے پر امت جمع تھی اور اس میں عوام وخواص سب متفق تھے لہذا تقلید نہ کرنے پر اجماع تقلید پر اجماع سے پہلے ہو چکا ہے لہذا بعد والا اجماع انکے اپنے اصول کے مطابق ہی باطل ٹھہرا ۔ خوب سمجھ لیں ۔
رابعا : چوتھی صدی ہجری میں بھی بہت سے علماء کرام سے تقلید کا رد ثابت ہے مثلا :
۱۔ أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن عبد الملك بن سلمة الأزدي الحجري المصري المعروف بالطحاوي (المتوفى: 321هـ) اپنی کتاب العقیدۃ الطحاویۃ میں فرماتے ہیں " وأكرمهم عند الله أطوعهم وأتبعهم للقرآن " نیز فرماتے ہیں "وَنَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يُثَبِّتَنَا عَلَى الْإِيمَانِ وَيَخْتِمَ لَنَا بِهِ وَيَعْصِمَنَا مِنَ الْأَهْوَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْآرَاءِ الْمُتَفَرِّقَةِ وَالْمَذَاهِبِ الرَّدِيَّةِ مِثْلِ الْمُشَبِّهَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ "
۲۔ أبو الحسن علي بن إسماعيل بن إسحاق بن سالم بن إسماعيل بن عبد الله بن موسى بن أبي بردة بن أبي موسى الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب الإبانة عن أصول الديانة ج ۱ ص۱۴ میں فرماتے ہیں " فإن كثيرا من الزائغين عن الحق من المعتزلة وأهل القدر مالت بهم أهواؤهم إلى تقليد رؤسائهم ومن مضى من أسلافهم، فتأولوا القرآن على آرائهم تأويلا لم ينزل به الله سلطانا، ولا أوضح به برهانا، ولا نقلوه عن رسول رب العالمين، ولا عن السلف المتقدمين. وخالفوا روايات الصحابة رضي الله عنهم عن نبي الله صلى الله عليه وسلم في رؤية الله عز وجل بالأبصار، وقد جاءت في ذلك الروايات من الجهات المختلفات، وتواترت بها الآثار وتتابعت بها الأخبار."
اسی طرح اپنی ایک اور کتاب رسالة إلى أهل الثغر بباب الأبواب ج ۱ ص ۱۰۲ میں فرماتے ہیں " ولم يقلد بعضهم بعضاً فيما صاروا إليه من جميع ذلك، لما كلفوه من الاجتهاد وأمروا به" نیز ج۱ ص ۱۱۱ پر رقمطراز ہیں "ويفارقوا بذلك من ذمه الله في تقليده لمن يعظمه في سادته بغير دلالة تقتضي ذلك " پھر صفحہ ۱۱۶ پر فرماتے ہیں " وفيما ذكرنا دلالة على صحة ما استندوا إلى الاستدلال، وقوة لما عرفوا الحق منه، فإذا كان ذلك على ما وصفنا، فقد علمتم بهت أهل البدع لهم في نسبتهم لهم إلى التقليد، وسوء اختيارهم في المفارقة لهم، والعدول عما كانوا عليه معهم وبالله التوفيق"
۳۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) اپنی کتاب تفسير القرآن العظيم ج ۱۱ ص ۳۰۵ میں لکھتے ہیں " وفيه دليل على الأمر بالنظر والاستدلال وإبطال التقليد "
۴۔ محمد بن محمد بن محمود، أبو منصور الماتريدي (المتوفى: 333هـ) نے اپنی کتاب التوحید ج۱ ص ۳ میں باقاعدہ پورا باب باندھا ہے " إبْطَال التَّقْلِيد وَوُجُوب معرفَة الدّين بِالدَّلِيلِ " پھر اسکے تحت رقمطراز ہیں " فَإنَّا وجدنَا النَّاس مختلفي الْمذَاهب فِي النَّحْل فِي الدّين متفقين على إختلافهم فِي الدّين على كلمة وَاحِدَة أَن الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ حق وَالَّذِي عَلَيْهِ غَيره بَاطِل على اتِّفَاق جُمْلَتهمْ من أَن كلا مِنْهُم لَهُ سلف يُقَلّد فَثَبت أَن التَّقْلِيد لَيْسَ مِمَّا يعْذر صَاحبه لإصابة مثله ضِدّه على أَنه لَيْسَ فِيهِ سوى كَثْرَة الْعدَد اللَّهُمَّ إِلَّا أَن يكون لأحد مِمَّن ينتهى القَوْل إِلَيْهِ حجَّة عقل يعلم بهَا صَدَقَة فِيمَا يدعى وبرهان يقهر المنصفين على إِصَابَته الْحق فَمن إِلَيْهِ مرجعه فِي الدّين بِمَا يُوجب تَحْقِيقه عَنهُ فَهُوَ المحق وعَلى كل وَاحِد مِنْهُم معرفَة الْحق فِيمَا يدين هُوَ بِهِ كَأَن الَّذِي دَان بِهِ هُوَ مَعَ أَدِلَّة صدقه وَشَهَادَة الْحق لَهُ قد حصرهم إِذْ مُنْتَهى حجج كل مِنْهُم مَا يضْطَر التَّسْلِيم لَهُ لَو ظفر بهَا وَقد ظَهرت لمن ذكرت وَلَا يجوز ظُهُور مثلهَا لضده فِي الدّين لما يتناقض حجج مَا غلبت حججه وَأظْهر تمويه أَسبَاب الشّبَه فِي غَيره وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاللَّه الْعَظِيم "
پھر اسکے بعد اپنی کتاب میں جابجا تقلید کو برا کہا ہے اور اسکا رد فرمایا ہے مثلا ج ۱ ص ۱۶۷ پر رقمطراز ہیں " وَلَو لم يكن لما عَلَيْهِ أهل التَّوْحِيد سوى أَدِلَّة صدق الدعاة إِلَيْهِ والبراهين النيرة مَعَهم وهم الرُّسُل مِمَّا لَا يُوجد شَيْء من ذَلِك لأحد من منكرى الصَّانِع الْوَاحِد لَكَانَ ذَلِك كَافِيا فَكيف وَمَا من شَيْء إِلَّا وَهُوَ بجوهره يشْهد بحدثه وَأَنه حدث لمحدث حَكِيم لَوْلَا تعنت الْمُلْحِدِينَ بِمَا ادعوا من قدم الْأَعْيَان مِمَّا لَا سَبِيل لَهُم فِي الرُّجُوع إِلَيْهِ إِلَّا إِلَى تَقْلِيد من لَيْسَ مَعَه دَلِيل أَو جعله سفهه وَهُوَ عَجزه عَن الْوُقُوف على كَون شَيْء لَا عَن شَيْء دَلِيلا لَهُ وَلَا ريب أَن كلا مِنْهُم يعلم من نَفسه جهلا بأَشْيَاء ثمَّ الْعلم بهَا وعجزا عَن أَشْيَاء ثمَّ قدرته عَلَيْهَا وضرورة إِلَى أَشْيَاء ثمَّ غنى عَنْهَا فَحق من هَذَا وَصفه أَن لَا يَثِق بِرَأْيهِ وَلَا ينفع مَا يرى أَنه من إِشَارَة عقله مَعَ مَا لَا يَخْلُو أَن من رد ذَلِك إِلَى الطبائع الَّتِي لَا تعقل مَا يُولد مِنْهَا وَبهَا وَكَذَلِكَ النُّجُوم أَو إِلَى عدد من الصانعين مِمَّا كَانَ بَدْء أَمرهم الْجَهْل والعمى أَو إِلَى تَقْلِيد أقاويل فِي قدم الْأَشْيَاء على ماهي عَلَيْهِ مِمَّا يتناقض ويتضاد فَأنى لَهُم الْعقل مَعَ هَذِه الْأُصُول المتجاهلة الَّذين هم فروعها أَو الْوُقُوف على حقائق الْأَشْيَاء حَتَّى يدعونَ فِي شَيْء من حِكْمَة أَو سفها وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاللَّه "
پھر اسی طرح اپنی کتاب تفسير الماتريدي (تأويلات أهل السنة) ج ۱ ص ۴۹۷ میں اہل تقلید کے تصعب مذہبی اور ہٹ دھرمی کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں " وقوله: (وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ. . .) الآية.
لقائلٍ أن يقول: أَليس فيما كان فريقٌ منهم يسمعُون كلام اللَّه ثم يحرفونه ما يجب أَن يدفع الطمع عن إيمان هَؤُلَاءِ؟
فهو - واللَّه أعلم - لوجهين:
أَحدهما: أَنهم كانوا أصحاب تقليد؛ كقوله: (إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ).
فأخبر - عَزَّ وَجَلَّ - أَن هَؤُلَاءِ -وإن رأَوا الآيات العجيبة- فإنهم لا يؤمنون أَبدًا؛ لأَنهم أَصحاب تقليد، لا ينظرون إلى الحجج والآيات. "
پھر ج ۱ ص ۶۲۱ پر مزید لکھتے ہیں " وقوله: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا).
يحتمل هذا وجهين:
يحتمل: أن آباءهم كانوا أوصوهم ألا يفارقوا دينهم الذي هم عليه، فقالوا عند ذلك: لا ندع وصية آبائنا، كقوله: (أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ).
أو كانوا قومًا سفهاء أصحاب التقليد، فقالوا: إنا قلدنا آباءنا، فلا نقلد غيرهم. "
نیز ج ۲ ص ۳۹۸- ۳۹۹ پر رقمطراز ہیں :
"أحدهما: أن ذلك الزمان لم يكن زمان حِجاجٍ ونظرٍ في أمر الدِّين؛ إنما كان ذلك الزمانُ زمانَ تقليدٍ في أمر الدِّين، وتناهٍ في أمر الدنيا، وتفاخرٍ بكثرة الأموال والمواشي؛ فبعث اللَّه - تعالى - رسولًا نشأ من بين أظهرهم، دعاهم إلى ترك التقليد في الدِّين، واتباع الحجج التي لا يبلغها أهل الحجاج بعقولهم دون أن يكون لهم المعونة من علم الوحي، وما فيه من حكمة الربوبية؛ فكيف والقوم أصحاب التقليد؟! إمّا ثقة بأئِمتهم الذين ادعوا علم الكتب المنزلة، وإما ثقة وإيمانًا بآبائهم فيما نشئوا عليه: أن الحق لا يشذ عنهم، على ما في ذلك من الاختلاف الذي يمنعهم الأمرين جميعًا، لكنهم إذا لم يكونوا أهل نظر في الدّين ومحاجةٍ فيه، لم يعرفوا أن ذلك يمنعهم التقليد؛ فأظهر لهم الحجج، وأنبأهم بالمودع من حجاج أنبيائهم في كتبهم، وألزمهم أن في آبائهم من يلزم التقليد، كانوا أحق بذلك بما كان عندهم أن آباءهم كانوا على دينهم بما بيَّن من تغييرهم وتبديلهم، وتركِ الواجب عليهم من حق الاتباع، واللَّه أعلم. "
پھر اسی طرح ج ۲ ص ۴۴۰ پر لکھتے ہیں " وقوله: (لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا (99)
يحتمل قوله: (لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ) من الأتباع الذين كان إيمانهم إيمانَ تقليدٍ، لا إيمانًا بالعقل؛ لأن من كان إيمانه إيمانا بالعقل فهو لا يصد، ولا يصرف عنه أبدًا؛ لما عرف حسن الإيمان وحقيقته بالعقل، فهو لا يترك أبدًا، وأما من كان إيمانه إيمان تقليد: فلم يكن إيمانهُ إيمانَ حقيقة، فمثله يصد عنه، إلا أن من يمن اللَّه عليه فيشرح صدره؛ حتى يكون على نور منه، وذلك أحد وجوه اللطف.
والمقلد غير معذور؛ لما معه ما لو استعمله لأوضح له الطريق، وأراه قبح ما آثر من التقليد، ولا قوة إلا باللَّه. "
مزید اسی کتاب کی ج ۳ ص ۶۳۵ پر رقمطراز ہیں " وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ... (104) الآية، كأنها نزلت في مشركي العرب، وكانوا أهل تقليد، لا يؤمنون بالرسل، ولا يقرون بهم، "
۵۔ أبو جعفر النَّحَّاس أحمد بن محمد بن إسماعيل بن يونس المرادي النحوي (المتوفى: 338هـ) اپنی کتاب إعراب القرآن ج ۲ ص ۸۱ پر رقمطراز ہیں " وفي هذه الآية أعظم الفائدة لمن تدبّرها وذلك أنّ فيها منعا منه التقليد لعالم إلا بحجة يبيّنها لأن الله جلّ وعزّ خبّر أنه أعطى هذا آياته فانسلخ منها فوجب أن يخاف مثل هذا على غيره وأن لا يقبل منه إلا بحجة."
پھر اسی کتاب میں ج ۳ ص ۲۲۴ پر لکھتے ہیں "وَقالُوا رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا وَكُبَراءَنا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلا (67) رَبَّنا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً (68)
وقرأ الحسن إنّا أطعنا ساداتنا بكسر التاء لأنه جمع مسلّم لسادة، وكان في هذا زجر عن التقليد."
۶۔ أبو الحسن على بن الحسين بن على المسعودي (المتوفى: 346هـ) اپنی کتاب التنبيه والإشراف ج ۱ ص ۳ میں لکھتے ہیں " وذكرنا في كتاب (نظم الأعلام في أصول الأحكام) وكتاب (نظم الأدلة، في أصول الملة) وكتاب (المسائل والملل. في المذاهب والملل) تنازع المتفقهين في مقدمات أصول الدين والحوادث التي اختلفت فيها آراؤهم وما يذهب اليه من القول بالظاهر وإبطال للقياس والرأى والاستحسان في الأحكام إذ كان الله جل وعز قد أكمل الدين وأوضح السبيل وبين للمكلفين ما يتقون في آياته المنزلة وسنن رسوله المفصلة التي زجرهم بها عن التقليد ونهاهم عن تجاوز ما فيها من التحديد ...... "
۷۔ أحمد محمد بن علي بن محمد الكَرَجي القصَّاب (المتوفى: نحو 360هـ) نے اپنی کتاب النكت الدالة على البيان في أنواع العلوم والأحكام ج ۱ ص ۱۶۳ میں باقاعدہ باب قائم کیا ہے " في القياس والتقليد وفي إنزاله - جل وتعالى - الكتاب حاكما بيننا في اختلافنا حجة لنا في باب الفقه في إبطاله التقليد والقياس. "
اور پھر اس میں مختلف انداز سے اسکا رد فرمایا ہے ۔
۸۔ أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ) اپنی کتاب أحکام القرآن ج ۲ ص ۳۲۶ میں رقمطراز ہیں " فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى بُطْلَانِ التَّقْلِيدِ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَكَمَ بِبُطْلَانِ قَوْلِهِمْ إذْ لَمْ يَكُنْ معهم برهان عليه "
اسی طرح اپنی کتاب الفصول في الأصول ج ۳ ص ۲۹۹ میں فرماتے ہیں " لَمْ يَجُزْ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِمْ تَقْلِيدُ الْوَاحِدِ مِنْهُمْ بِلَا نَظَرٍ وَلَا اسْتِدْلَالٍ"
پھر اسکے بعد اسی کتاب میں ج ۳ ص ۳۶۹ پر تقلید کی مذمت میں ایک باقاعدہ باب قائم کیا ہے "بَابٌ الْقَوْلُ فِي وُجُوبِ النَّظَرِ وَذَمِّ التَّقْلِيدِ" اور پھر اس باب کا آغاز انتہائی گرم الفاظ سے کرتے ہوئے رقمطراز ہیں "ِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي وُجُوبِ النَّظَرِ وَإِثْبَاتِ حُجَجِ الْعُقُولِ.
فَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: النَّظَرُ وَاجِبٌ، وَحُجَجُ الْعُقُولِ صَحِيحَةٌ ثَابِتَةٌ، تُعْرَفُ بِهَا صِحَّةُ الْمَذَاهِبِ مِنْ فَاسِدِهَا.
وَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْجَهْلِ وَالْغَبَاوَةِ: لَا مَدْخَلَ لِلْعَقْلِ فِي تَصْحِيحِ شَيْءٍ وَلَا إفْسَادِهِ، وَإِنَّمَا تُعْرَفُ صِحَّةُ الْمَذَاهِبِ وَفَسَادُهَا مِنْ طَرِيقِ الْخَبَرِ "
اور پھر ص ۳۷۱ پر تقلید کے قائلین کی دلیل سے ہی تقلید کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں "كَذَلِكَ الْمُقَلِّدُ: إنَّمَا يَفْزَعُ فِي إثْبَاتِ التَّقْلِيدِ وَإِبْطَالِ النَّظَرِ، إلَى النَّظَرِ وَالْحِجَاجِ، فَيُنَاقِضُ فِي مَذْهَبِهِ، وَيَهْدِمُ مَقَالَتَهُ بِحِجَاجِهِ."
اور پھر اسی طرح انہوں نے تقلید کی مذمت میں طویل بحث فرمائی ہے ۔
۹۔ أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) اپنی کتاب بحر العلوم المعروف تفسیر سمرقندی ج ۱ص۱۱۲ میں رقمطراز ہیں " قال الله تعالى: أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ، معناه أيتبعون آباءهم وإن كانوا جهالاً فيتابعوهم بغير حجة؟ فكأنه نهاهم عن التقليد وأمرهم بالتمسك بالحجة. "
پھر اسی کتاب کی ج ۱ ص ۴۲۳ میں فرماتے ہیں "قال الله تعالى: أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ يعني: أيتبعون آباءهم وإن كان آباؤهم جهالاً، فنهاهم الله عن التقليد، وأمرهم بالتمسك بالحق وبالحجة. "
۱۰۔ أبو بكر الخوارزمي محمد بن العباس (المتوفى: 383هـ) اپنی کتاب مفيد العلوم ومبيد الهموم ج ۱ ص ۱۷ میں رقمطراز ہیں " فالنظر رأس السعادة عند أهل الدنيا والدين فبقاء الدولة وقاعدة الأمور وأساس التدابير وصحة الاعتقاد وخلاصة التوحيد في ناصية النظر كما أن أساس الكفر والشرك في ناصية التقليد "
مزید ج ۱ ص ۱۹ پر لکھتے ہیں "ونعرف أن التقليد باطل "
پھر ص ۲۱ پر لکھتے ہیں "فعرفت أن الدين بالحجة والبرهان دون التقليد الذي هو عصا العميان"
یاد رہے کہ اسکے علاوہ اور بھی بہت سے علماء قرن رابع سے تقلید کی مذمت منقول ہے لیکن بغرض اختصار اور بر بناء قلت وقت اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ اور مشت از خروارے چند مثالیں جو ہم نے پیش کی ہیں لطف کی بات تو یہ ہے کہ ان میں بھی ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کے نام بھی شامل ہیں کہ دیوبندی لوگ عقیدہ میں جن کی تقلید کرتے ہیں , صد افسوس کہ وہ بھی تقلید کی مذمت ہی کرتے ہیں کاش کہ یہ اپنی تقلید میں سچے بن جائیں اور اور صحیح طور پر ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کی بات کو مان لیں اور عقیدہ تقلید سے توبہ کر لیں کہ انکے عقیدہ کے دونوں امام اس شنیع فعل کی مذمت فرماتے ہیں ۔
إن شاء پھر کبھی تفصیل سے اس بارہ میں لکھیں گے , واللہ الموفق والمعین .
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا چوتھی صدی ہجری میں تقلید پر اجماع ہو گیا تھا ؟
564 زائر 26/02/13 admin محمد رفیق طاہر

اجماع کی تعریف عموما یہ کی جاتی ہے کہ کسی بھی زمانہ کے تمام تر علماء کرام کسی شرعی مسئلہ پر متفق ہوں ۔
جبکہ اجماع کا دعوى کرنے والے سب کا اتفاق کبھی نقل کرتے بلکہ اختلاف سے نہ آشنا ہونے کی بناء پر " لا اعلم خلافا " کو " اجماع " کہہ دیتے ہیں ۔
اجماع کی ایک قسم اجماع سکوتی بھی ذکر کی جاتی ہے۔
حسامی بحث اجماع ملاحظہ فرمائیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
چلیں اشماریہ بھائی آپ اجماع سکوتی ہی ثابت کر دیں اللہ آپ کو جزاے خیر عطا فرماے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
چلیں اشماریہ بھائی آپ اجماع سکوتی ہی ثابت کر دیں اللہ آپ کو جزاے خیر عطا فرماے
آمین
بھائی جب اتنی بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ "لا اعلم خلافا" اور خلاف ملتا بھی نہیں ہے تو اجماع سکوتی خود ہی ثابت ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر واضح اختلاف ہو تو پھر نہیں ہوتا۔
میں نے ایک جزئی کے بارے میں بات کی تھی۔
تفصیلی تحقیق پھر کبھی ان شاء اللہ
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
آمین
بھائی جب اتنی بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ "لا اعلم خلافا" اور خلاف ملتا بھی نہیں ہے تو اجماع سکوتی خود ہی ثابت ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر واضح اختلاف ہو تو پھر نہیں ہوتا۔
میں نے ایک جزئی کے بارے میں بات کی تھی۔
تفصیلی تحقیق پھر کبھی ان شاء اللہ


 
Top