• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا آپ ﷺ کا اجتہاد بھی وحی تھا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا آپ ﷺ کا اجتہاد بھی وحی تھا؟

سوال یہ ہے کہ اگر یہ مانتے ہیں کہ آپ ﷺ کا اجتہاد وحی تھا تو پھر وحی میں خطا ہوگئی اور سنت پر عمل کرنا از خود غلط ثابت ہوگیا۔ اور اگر اجتہادوحی نہیں تو پھر ماننا چاہئے کہ آپ ﷺ انسان ہیں اور مجتہد سے غلطی اور صواب دونوں ہوسکتے ہیں ۔ آپ ﷺ سے بھی ایسی خطأ ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اس لئے آپ ﷺ کا اجتہاد جو دین ودنیاوی امور میں ہے وہ وحی نہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اجتہاد کرنا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ علماء میں کچھ اس کے قائل ہیں کہ آپ کو صرف دنیوی امور میں اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا اور کچھ تمام امور میں اجتہاد کی اجازت نہ ہونے کے قائل ہیں۔ اس تمام تر اختلاف کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو دینی ودنیاوی اجتہاد کئے ہیں اگر وہ درست تھے تو وحی نے ان کی تائید کردی جن کا قبول کرنا واجب ٹھہرا اور اگر کہیں خطا ہوبھی گئی تو وحی نے انہیں درست کرکے تصویب فرمادی اور فرض کی مہر ثبت کردی۔اور ہمیں ان کی اتباع کا حکم دیا۔ اب اس تبدیلی پر عمل واجب اور خلاف اولی کا ترک بھی واجب ہو گیا۔ اولی سے امت احتجاج لے سکتی ہے اور خلاف اولی سے نہیں۔ مثلاً:

…آپ ﷺ نے حضرات شیخین سے مشورہ کے بعداساری بدر سے فدیہ لینے کا اجتہادکیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی:

{ وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أنْ یَکُوْنَ لَہُ أَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْأرْضِ، أتُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْآخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ لَوْ لَا کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔}(انفال: ۶۷،۶۸، سنن ترمذی: ۱۷۱۴) کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے قیدی ہوں جب تک کہ وہ اچھی طرح زمین میں دشمنوں کا خون نہ بہادے۔کیا تم دنیاوی سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ غالب وحکیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا پہلے سے لکھا نہ ہوتا تو تمہیں ضرور جو کچھ تم نے لیا ہے اس میں بڑی سزا ملتی۔

…لیکن اگر کسی غیر نبی کے اجتہاد میں خطأ ہو جیسا کہ ہوا بھی ہے تو اس کی اصلاح کون کرے گا؟ اور اسے کون باور کرائے گا کہ اس کی یہ خطأ ہے؟ جو بہر حال ہے ۔ یہی تو فرق ہوتا ہے نبی وغیر نبی میں۔جبکہ رسول کی خطأ کی اصلاح ہوتے ہی اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے مگرمجتہد کی خطأ کے باوجود اس کی تقلید بھی لوگ نہیں چھوڑتے۔

…عبد اللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ آپ ﷺ نے اس کے مسلمان بیٹے کا اکرام کرتے ہوئے اوردل رکھنے کے لئے پڑھ لی۔ یہ بیٹا اسلام میں اپنے باپ کی وجہ سے خوب آزمایاگیا۔ فتنہ کو دور کرنے کے لئے اور ابن ابی کے دوستوں کی تالیف قلب کے لئے آپ ﷺ نے یہ سب کچھ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:

{وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہِ إنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وِمَاتُوْا وَہُمْ فَاسِقُوْنَ}۔(توبہ: ۸۴) ۔ اور آئندہ ان میں جو مرجائے اس کی نماز جنازہ آپ کبھی نہ پڑھئے اور نہ ہی اس کی قبر پر آپ کھڑے ہوئیے۔بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا کفر کیا ہے اور وہ اس حالت میں مرے جب وہ فاسق تھے۔

…نابینا صحابی کی آمد پر آپ ﷺ کا توجہ نہ دینا جب کہ آپ ﷺ صنادید قریش کو اسلام پیش فرما رہے تھے شاید کہ وہ ایمان لے آئیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:

{عَبَسَ وَتَوَلّٰی أَنْ جَائَ ہُ الْأعْمٰی}(عبس: ۱۔۵) تیوری چڑھائی اور منہ موڑا صرف اس بات پر کہ اس کے پاس ایک نابینا آگیا۔

…رہی حدیث، کھجور کے شگوفوں میں پیوند کاری کی تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا: لَا أَظُنُّ أَنَّ ہَذَا یُغْنِیْ شَیْئًا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کرنا انہیں فائدہ دے گا۔ اس جملے کو صحابہ کرام نے غلط سمجھا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اگلے سال جب پھل نہ نکلا تو آپ ﷺ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا: کُنْتُ ظَنَنْتُ ظَناً ، أَنْتُمْ أعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ۔ میں نے تو ایک خیال ظاہر کیا تھا باقی دنیا (اس پیوندکاری)کے معاملے میں تم زیادہ مجھ سے بہتر جانتے ہو۔

یہ اجتہاد تو نہیں تھا بلکہ ایک خیال تھا۔اسی طرح آپﷺکے ارشادات و معمولات آپ ﷺکی مخصوص عادات سے وابستہ تھے حتی کہ آپﷺ کھانے ، پینے اور پہننے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ بعض باتیں اورمعاملات، قضاء اور حسن معاشرت کے بارے میں ہوا کرتیں جو محض دنیاوی ہوتیں مگر ان کا دین اور دعوت دین سے گہرا تعلق ہوتا۔ آپ ان کے بارے میں مشورہ بھی فرماتے۔ اپنی رائے بھی دیا کرتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح کسی صحابی کو کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہوتا تو گاہے مجمع میں اور گاہے تنہائی میں آپﷺ سے حل دریافت کر لیتا۔ الغرض یہ تمام ارشادات ، اعمال اور وضاحتیں جب ذخائر حدیث میں مرتب ہوئیں تو مضامین کے اعتبار سے ان کی پانچ اقسام بن گئیں۔

اقسام حدیث:
رسول اکرم ﷺ کچھ کہتے، کرتے اور کچھ کو برقرار رکھتے۔ آپ ﷺ کا کچھ فرمانا:یہ قول ہے۔ جسے صحابہ سنتے ، یاد کرتے اور بیان کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کا کچھ کرنا فعل ہے جو صحابہ کرام نے خود دیکھا اور پھر اسے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ آپ ﷺ کا کسی چیز کو برقرار رکھنا ، یعنی آپ ﷺ کے سامنے یا موجودگی میں کو ئی کام ہوا یا کوئی بات کہی گئی یا کسی چیز کے بارے میں آپ ﷺ کو خبر دی گئی اور آپ ﷺ نے اسے ناپسند نہیں فرمایا یہ تقریر ہے ۔ اسے بھی صحابۂ رسول اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔آپ ﷺ کی شخصیت کے خدوخال اور اخلاق کیسے تھے ؟ یہ بھی روایت ہوئے تو آپ ﷺ کی خلقی اور اخلاقی صفات کہلائیں ۔یہ سب زبان حال اور زبان قال میں ہوا جو عین {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٍ یُّوْحٰی} کی تفسیر ہے۔اس لئے محدثین نے لفظ حدیث کی متعدد اقسام بیان کی ہیں:

۱۔ حدیث قولی:
مثلاً ام المومنین سیدہ عائشہ ، ابوہریرہ، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: اَلنَّاسُ مَعَادِنُ، خِیَارُہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُہُمْ فِی الإِسْلاَمِ إِذَا فَقُہُوْا، وَالأَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ، فَمَا تَعَارَفَ مِنْھَا اِئْتَلَفَ وَمَا تَنَاکَرَ مِنْھَا اخْتَلَفَ۔ لوگ کانوں کی مانند ہیں۔دور جاہلیت میں ان میں کے بہترین انسان، اسلام میں بھی بہترین ہونگے بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کرلیں۔ (عالم ارواح میں) روحیں لشکروں کی مانند آپس میں گتھی ہوئی ہوا کرتی ہیں۔ جو ان میں وہاں باہم متعارف ہوگئیں وہ ایک دوسرے سے دنیا میں مانوس ہو جایا کرتی ہیں اور جو وہاں ایک دوسرے سے ناواقف رہیں وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے پرے رہتی ہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۳۳۶، صحیح مسلم : ۲۶۳۸، سنن ابی داؤد :۴۸۳۴، مسنداحمد:۵۳۹، المعجم الکبیر: ۱۰۵۵۷ )

۲۔حدیث فعلی:
نزول وحی کے مطابق آپ ﷺ کی عملی روش کو کہتے ہیں۔مثلاً ام المؤمنین ؓ فرماتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یُحِبُّ التَّیَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ، فِیْ طَہُوْرِہِ، وَتَنَعُّلِہِ ، وَتَرَجُّلِہِ، وَفِی شَأْنِہِ کُلِّہِ۔

رسول اللہ ﷺ اپنے وضو میں اور جوتاپہننے یا کنگھی کرنے میں اور اپنے تمام کاموں میں دائیں جانب کو حتی الامکان پسند فرمایا کرتے تھے۔۔ ( صحیح بخاری : ۳۵۸۰ )

۳۔ حدیث تقریری:
جسے اچھا سمجھ کر برقرار رکھا اور غلط نہ سمجھا ۔ جہاں اصلاح کی ضرورت تھی وہ کی۔ مثلاً مضاربہ کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا جو اہل مدینہ کیا کرتے۔ روز عید بچیوں کا گیت گانا یاآپ ﷺ کے دسترخوان پر ضب(گوہ) کا کھایا جانا۔یا سیدہ عائشہ ؓ کا گڑیوں سے کھیلنا ، کو برقرار رکھا۔یہ حدیث تقریری ہے۔ سیدنا عمر وؓبن العاص کہتے ہیں:

غزوہ ذات السلاسل کی ایک سرد رات میں محتلم (wet dream)ہو گیا۔ ڈر گیا کہ سردی میں نہایا تو کہیں مر نہ جاؤں،میں نے تیمم کیا۔اور نماز فجر اپنے ساتھیوں کو بھی پڑھا دی۔ان صحابہ نے میری اس حرکت کو آپﷺ سے بیان کر دیا۔آپﷺنے فرمایا: عمروبن العاص:تم نے اپنے ساتھیوں کو نماز ، حالت جنابت میں ہی پڑھا دی؟میں نے عرض کی کہ سردی کی وجہ سے نہانہ سکا ۔ میں نے یہ سنا ہواتھا:{ وَلَا تَقْتُلُوْا أنْفُسَکُمْ إنَّ اﷲ َکَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا} تم مت قتل کرو اپنے آپ کوبلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بڑا رحیم ہے۔آپﷺ یہ سنتے ہی کھلکھلائے اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ ( سنن ابی داؤد: ۳۳۴،)

حافظ ابن حجر فتح الباری (۱؍۵۴۱) میں فرماتے ہیں:
رسولﷺنے سیدنا عمروؓبن العاص کو کسی بھی قسم کی ملامت نہ فرمائی بلکہ آپ ﷺ کا اس عمل کو برقرار رکھنا تقریر کہلاتا ہے۔اس لئے ایسی روزمرہ کی باتیں آپ ﷺ نے قلمبند نہیں کرائیں۔

۴۔ حدیث وصفی:
صحابیٔ رسول، رسول اکرم ﷺ کی کوئی صفت بیان کرے جس کا تعلق آپ کے خُلُق (morals) اور خَلق (features ) سے ہو۔

خُلُقی مثال:
صحیح بخاری :۶،۱۹۰۲،۳۲۲۰، ۳۵۵۴، ۴۹۹۷، صحیح مسلم:۲۳۰۸، میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے :

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ أَجْوَدُ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ وَکَانَ یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُوْلُ اﷲِﷺ أَجْوَدُ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ رسول اکرم ﷺ انتہائی سخی انسان تھے بالخصوص رمضان میں جبریل علیہ السلام سے ملاقات کے بعد تو انتہائی سخی ہو جایا کرتے ۔ رمضان کی ہر رات جناب جبریل آپ ﷺ سے آ ملتے اور قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ آپ ﷺ سخاوت کے معاملے میں ہوا سے بھی زیادہ تیزہوتے۔

۵۔ خَلقی مثال:
سیدنا انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ رَبْعَۃً ، لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ وَلاَ بِالْقَصِیْرِ، حَسَنَ الْجِسْمِ، وَکَانَ شَعْرُہُ لَیْسَ بِجَعْدٍ وَلاَسَبْطٍ، أَسْمَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشَی یَتَکَفَّأُ۔رسول اکرم ﷺ منجھلے قد کے تھے۔ لانبے تھے نہ پستہ قد۔ جسم مبارک حسین تھا۔ آپ ﷺ کے بال مبارک گتھے تھے نہ ڈھیلے، خاکی رنگت تھی جب چلتے تو جھک جھک جایا کرتے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ:
آپ کے اخلاق قرآن کی سچی تصویر تھے۔

اخلاق میں قول وکردار سب شامل ہے۔عملاً جب آپ کرکے دکھا دیتے تو یہ عمل صحابہ کے ذہن میں زیادہ پختگی کے ساتھ بیٹھ جاتا۔اور کرنے کا صحیح ڈھنگ بھی انہیں آجاتا۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top