• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا احناف احادیث نبوی ﷺ کو چھوڑ کر ابو حنیفہؒ کے اقوال پر عمل کرتے ہیں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک بحث کے دوران حد درجہ قابل احترام بھائی محمد ارسلان نے یہ فرمایا کہ احناف احادیث رسول خدا ﷺ کو چھوڑ کر ایک امتی ابو حنیفہؒ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔
چوں کہ بندہ نے ایسا کچھ نہیں دیکھا اس لیے عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس پر ممدوح نے فرمایا کہ بندہ ایک الگ تھریڈ بنا کر اپنی رائے بیان کرے اور ان کو ٹیگ کر دے۔
تو بندہ کی رائے یہ ہے کہ ایسا کوئی موقع نہیں ہے جہاں حدیث صریح و صحیح و غیر متعارض موجود ہو اور اس کے مقابل مجرد (تنہا) ابو حنیفہؒ کا قول ہو اور احناف کے تمام علماء اسی قول کو ترجیح دیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ احناف کا مفتی بہ قول ہمیشہ ایسے کسی قول کے خلاف ملے گا۔
البتہ اگر احناف کی جانب میں بھی دلائل ہوں اور ان کے تحت اس حدیث کا معنی دیگر سمجھا جائے تو یہ احناف کی اپنی فقہ (سمجھ) ہے جس میں وہ دوسرے کے مکلف نہیں۔

چنانچہ اس سلسلے میں بندہ کی طلب یہ ہے کہ ممدوح و محترم ارسلان بھائی ایسے مقامات کا حوالہ دینے کے ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ انہوں نے تتبع و تلاش کے باوجود احناف کے حق میں علمائے احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں پائی۔ چنانچہ میں اس سلسلے میں دلائل کو تلاش کروں گا۔
میں اپنی مکمل کوشش کروں گا کہ اس موضوع کے دوران ان کا ساتھ مکمل دے سکوں۔
یاد رہے کہ احادیث کے معاملے میں علمائے احناف کے اصولوں کا اعتبار کیا جائے گا اور ایک ایک کر کے موضوعات کو چھیڑا جائے گا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک بحث کے دوران حد درجہ قابل احترام بھائی محمد ارسلان نے یہ فرمایا کہ احناف احادیث رسول خدا ﷺ کو چھوڑ کر ایک امتی ابو حنیفہؒ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔
چوں کہ بندہ نے ایسا کچھ نہیں دیکھا اس لیے عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس پر ممدوح نے فرمایا کہ بندہ ایک الگ تھریڈ بنا کر اپنی رائے بیان کرے اور ان کو ٹیگ کر دے۔
تو بندہ کی رائے یہ ہے کہ ایسا کوئی موقع نہیں ہے جہاں حدیث صریح و صحیح و غیر متعارض موجود ہو اور اس کے مقابل مجرد (تنہا) ابو حنیفہؒ کا قول ہو اور احناف کے تمام علماء اسی قول کو ترجیح دیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ احناف کا مفتی بہ قول ہمیشہ ایسے کسی قول کے خلاف ملے گا۔
البتہ اگر احناف کی جانب میں بھی دلائل ہوں اور ان کے تحت اس حدیث کا معنی دیگر سمجھا جائے تو یہ احناف کی اپنی فقہ (سمجھ) ہے جس میں وہ دوسرے کے مکلف نہیں۔

چنانچہ اس سلسلے میں بندہ کی طلب یہ ہے کہ ممدوح و محترم ارسلان بھائی ایسے مقامات کا حوالہ دینے کے ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ انہوں نے تتبع و تلاش کے باوجود احناف کے حق میں علمائے احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں پائی۔ چنانچہ میں اس سلسلے میں دلائل کو تلاش کروں گا۔
میں اپنی مکمل کوشش کروں گا کہ اس موضوع کے دوران ان کا ساتھ مکمل دے سکوں۔
یاد رہے کہ احادیث کے معاملے میں علمائے احناف کے اصولوں کا اعتبار کیا جائے گا اور ایک ایک کر کے موضوعات کو چھیڑا جائے گا۔
آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز سلام سے نہیں کیا، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں ہم آپ کو سلام کر دیتے ہیں۔
السلام علیکم
بھائی! آپ نے مہذب انداز میں ہمیں مخاطب کیا، اگرچہ ہم اپنی تعریف ہونے سے ڈرتے ہیں لا محالہ کہیں دل میں تکبر نہ آ جائے، اور اپنی تعریف میں غلو کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ بہرحال جو آپ نے مہذب انداز اختیار کیا اس پر آپ کا بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا

تھریڈ کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل ٹھیک ہے، آپ کو ایک علیحدہ موضوع کھول کر بات کرنے کی تلقین میں نے ہی کی تھی، لہذا اب ہم آپ سے گفتگو کی شروعات کرتے ہیں۔

ہمیں فقہ حنفی پر بہت سارے اعتراضات ہیں، جن میں سب سے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ فقہ حنفی کے جید علماء کی کتابوں جیسے اصول کرخی وغیرہ میں ایک عبارت کچھ یوں ملتی ہے جس کا مفہوم یہاں نقل کیا جاتا ہے کہ:
"اگر قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث ابوحنیفہ صاحب کے قول سے ٹکرا جائے تو یا تو اس آیت اور حدیث کو منسوخ سمجھا جائے گا یا تاویل کر کے ابوحنیفہ صاحب کے قول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی"

یہ اور اسی طرح کے دیگر اقوال فقہ حنفی کے جید علماء کی کتابوں میں عام پائے جاتے ہیں، بہرحال ہمیں فقہ حنفی کے متعلق جو کچھ معلومات ہیں (مکمل معلومات ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا) اس کے مطابق ہم یہاں آپ سے گفتگو و شنید کرنا چاہیں گے، اور اگر آپ چاہیں تو یہاں میرے علاوہ کسی اور سے محو گفتگو ہونے سے گریز کرنے کی گزارش بھی کر سکتے ہیں۔

لہذا ہمارا جو پہلا اعتراض ہے آپ اس کے متعلق وضاحت پیش کریں کہ اس قول کی کیا حیثیت ہے، یہ کس تناظر میں کہا گیا ہے، اس کو فقہ حنفی میں کس طرح سمجھایا جاتا ہے۔

والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز سلام سے نہیں کیا، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں ہم آپ کو سلام کر دیتے ہیں۔
السلام علیکم
بھائی! آپ نے مہذب انداز میں ہمیں مخاطب کیا، اگرچہ ہم اپنی تعریف ہونے سے ڈرتے ہیں لا محالہ کہیں دل میں تکبر نہ آ جائے، اور اپنی تعریف میں غلو کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ بہرحال جو آپ نے مہذب انداز اختیار کیا اس پر آپ کا بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا

تھریڈ کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل ٹھیک ہے، آپ کو ایک علیحدہ موضوع کھول کر بات کرنے کی تلقین میں نے ہی کی تھی، لہذا اب ہم آپ سے گفتگو کی شروعات کرتے ہیں۔

ہمیں فقہ حنفی پر بہت سارے اعتراضات ہیں، جن میں سب سے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ فقہ حنفی کے جید علماء کی کتابوں جیسے اصول کرخی وغیرہ میں ایک عبارت کچھ یوں ملتی ہے جس کا مفہوم یہاں نقل کیا جاتا ہے کہ:
"اگر قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث ابوحنیفہ صاحب کے قول سے ٹکرا جائے تو یا تو اس آیت اور حدیث کو منسوخ سمجھا جائے گا یا تاویل کر کے ابوحنیفہ صاحب کے قول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی"

یہ اور اسی طرح کے دیگر اقوال فقہ حنفی کے جید علماء کی کتابوں میں عام پائے جاتے ہیں، بہرحال ہمیں فقہ حنفی کے متعلق جو کچھ معلومات ہیں (مکمل معلومات ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا) اس کے مطابق ہم یہاں آپ سے گفتگو و شنید کرنا چاہیں گے، اور اگر آپ چاہیں تو یہاں میرے علاوہ کسی اور سے محو گفتگو ہونے سے گریز کرنے کی گزارش بھی کر سکتے ہیں۔

لہذا ہمارا جو پہلا اعتراض ہے آپ اس کے متعلق وضاحت پیش کریں کہ اس قول کی کیا حیثیت ہے، یہ کس تناظر میں کہا گیا ہے، اس کو فقہ حنفی میں کس طرح سمجھایا جاتا ہے۔

والسلام
وعلیکم السلام
واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔ جزاک اللہ خیرا کہ متنبہ فرما دیا۔
ان شاء اللہ جلد عرض کرتا ہوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محمد ارسلان بھائی کافی دیر سے نیٹ کے مختلف مقامات کی سیر کر رہا ہوں۔ کئی جگہ اس موضوع پر بحث ہوئی ہے اور اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ بعض جگہ ناقص اور بعض جگہ کامل۔
مجھے سب سے مناسب اور تفصیلی جواب اون اسلام کا محسوس ہوا تو بجائے کاپی پیسٹ کرنے کے اس کا لنک دیدیتا ہوں۔ لنک
اس میں کوئی بات قابل وضاحت محسوس ہو یا کوئی اشکال ہو تو بتائیے گا۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محمد ارسلان بھائی کافی دیر سے نیٹ کے مختلف مقامات کی سیر کر رہا ہوں۔ کئی جگہ اس موضوع پر بحث ہوئی ہے اور اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ بعض جگہ ناقص اور بعض جگہ کامل۔
مجھے سب سے مناسب اور تفصیلی جواب اون اسلام کا محسوس ہوا تو بجائے کاپی پیسٹ کرنے کے اس کا لنک دیدیتا ہوں۔ لنک
اس میں کوئی بات قابل وضاحت محسوس ہو یا کوئی اشکال ہو تو بتائیے گا۔
جزاک اللہ خیرا
بھائی! بہتر تو یہ ہے کہ ہماری گفتگو جامع اور مختصر الفاظوں پر محیط ہو، اسی موضوع پر میں بھی کئی مضامین اور بحوث کے لنکس آپ سے شئیر کر سکتا ہوں، لیکن کسی بھی دو فریق جو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہو، اور تعصب سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کا موقف جاننے کی غرض سے محو گفتگو ہوں تو وہاں یہی بہتر طریقہ ہے کہ اپنے اپنے الفاظوں میں اپنا موقف بیان کیا جائے۔

مضمون کے حوالے سے عرض ہے کہ مضمون بہت لمبا ہے، جس کو پڑھنے کے لیے وقت درکار ہے، اس کا بہتر حل تو یہ ہے کہ آپ آسان الفاظ میں اس کا خلاصہ بیان کر دیں کہ اس مضمون میں علماء احناف نے کس طرح اپنے ائمہ کا دفاع کیا ہے، اور آیت یا حدیث کے مقابلے میں قول ابوحنیفہ کے ترک کرنے پر کس طرح رضامندی ظاہر کی ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی! بہتر تو یہ ہے کہ ہماری گفتگو جامع اور مختصر الفاظوں پر محیط ہو، اسی موضوع پر میں بھی کئی مضامین اور بحوث کے لنکس آپ سے شئیر کر سکتا ہوں، لیکن کسی بھی دو فریق جو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہو، اور تعصب سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کا موقف جاننے کی غرض سے محو گفتگو ہوں تو وہاں یہی بہتر طریقہ ہے کہ اپنے اپنے الفاظوں میں اپنا موقف بیان کیا جائے۔
مضمون کے حوالے سے عرض ہے کہ مضمون بہت لمبا ہے، جس کو پڑھنے کے لیے وقت درکار ہے، اس کا بہتر حل تو یہ ہے کہ آپ آسان الفاظ میں اس کا خلاصہ بیان کر دیں کہ اس مضمون میں علماء احناف نے کس طرح اپنے ائمہ کا دفاع کیا ہے، اور آیت یا حدیث کے مقابلے میں قول ابوحنیفہ کے ترک کرنے پر کس طرح رضامندی ظاہر کی ہے؟


چلیں مضمون بعد میں پڑھ لیجیے گا۔ میں اپنی رائے بیان کر دیتا ہوں۔
اس کے لیے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مختلف دلائل کی روشنی میں ایک قاعدہ بنایا جاتا ہے اور اس قاعدہ پر کسی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
جیسے ایک مسئلہ ہے کہ جس شخص کو سمت قبلہ کا علم نہ ہو اور معلوم بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ کیا کرے۔ احناف کہتے ہیں (غالبا دیگر کا بھی یہی مسلک ہے) کہ وہ تحری (غور و فکر) کرے گا اور جس سمت اس کو اطمینان ہوگا اس سمت رخ کرکے نماز پڑھ لے گا۔
اس مسئلہ کی بنیاد کیا ہے۔ بوقت اشتباہ اجتہاد لازم ہونا۔
اور اس کی بنیاد کیا ہے؟ قرآن کریم کی آیت۔ ما جعل علیکم فی الدین من حرج۔ تمہارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر اس پر لازم کیا جائے کہ وقت میں نماز بھی پڑھے اور درست سمت منہ بھی کرے تو یہ واضح حرج ہے۔
اب اس پر دلائل ڈھونڈتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے۔ اینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ تم جس طرف رخ کرو وہیں اللہ متوجہ ہے۔
اسی طرح کچھ آثار میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ایک سریہ میں تھے تو بادلوں کی وجہ سے رات میں قبلہ مشتبہ ہوگیا۔ تو سب نے تحری کر کے نماز پڑھی۔ صبح دیکھا تو قبلہ غلط تھا۔ نبی ﷺ نے انہیں درست قرار دیا۔ یہ آثار ضعیف ہیں لیکن ان کے مطابق ابتدائی زمانے کے علماء نے عمل کیا ہے۔ شاید ضعف بعد کے راویوں میں ہو۔ اس کے علاوہ درجہ حسن کو بھی شاید یہ پہنچے۔ بہر حال ہمیں یہ پتا چل گیا کہ جس کو قبلہ کا علم نہیں ہے وہ تحری کرے گا۔
اب ہمیں ایک آیت اس کے خلاف معنی دیتی ہوئی ملتی ہے۔ فولوا وجوهكم شطره۔ اپنا رخ مسجد الحرام کی جانب کرو۔ تو ہم کیا کریں گے؟ کیا اس آیت کو چھوڑ دیں گے یا ان دلائل کو جن کی بنیاد پر یہ مسئلہ اخذ کیا ہے؟ یقینا نہیں۔ تو ہم اسے سب سے پہلے تطبیق دیں گے کہ اس آیت کا مطلب ہے مسجد الحرام کی طرف رخ کرو جب تمہیں اس کا علم ہو۔ اور ہمارے دلائل اور مسئلہ اس صورت کا ہے جب علم نہ ہو۔
اگر کہیں تطبیق ممکن نہ ہو تو پھر منسوخ یا مرجوح وغیرہ سمجھا جائے گا۔

تو خلاصہ یہ ہوا کہ ایک قاعدہ شرعیہ کو دلائل کی روشنی میں اخذ کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر مسئلہ نکالا جاتا ہے۔ جب مسئلہ نکل آتا ہے اور بعد میں اس کے معارض حدیث یا آیت ملتی ہے تو اسے نسخ، ترجیح یا تطبیق پر محمول کیا جاتا ہے۔

اسی کو کرخیؒ نے فرمایا ہے:۔
الأصل: أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح.والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق.
اصول: جو آیت ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو اسے نسخ یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا۔ اور اولی یہ ہے کہ تطبیق کی جہت سے تاویل پر محمول کیا جائے۔

یہاں اصحاب کے قول سے وہی مسئلہ بمعہ اپنے تمام دلائل کے مراد ہے۔ اسی بات کو علامہ نسفی نے سمجھا ہے (جنہیں ان کا شاگرد کہا جاتا ہے۔ واللہ اعلم) چنانچہ اس کی مثال دی ہے:۔
قال: من مسائله أن من تحرى عند الاشتباه واستدبر الكعبة جاز عندنا لأن تأويل قوله تعالى:{فولوا وجوهكم شطره[البقرة : 144} إذا علمتم به وإلى حيث وقع تحريكم عند الاشتباه
یہ بعینہ وہی مثال ہے جو میں نے اوپر مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شقوں کی بھی مثالیں دی ہیں اور ان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔

اس ساری بات کی بنیاد یہ سمجھنے پر ہے کہ مسائل فقہ بغیر دلائل کے اخذ نہیں ہوتے۔ اور یہاں نسخ و ترجیح و تطبیق کا عمل اصل میں اس قول کے لیے نہیں بلکہ اس کے بیک گراؤنڈ میں موجود مضبوط دلائل کے لیے ہوتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
چلیں مضمون بعد میں پڑھ لیجیے گا۔ میں اپنی رائے بیان کر دیتا ہوں۔
اس کے لیے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مختلف دلائل کی روشنی میں ایک قاعدہ بنایا جاتا ہے اور اس قاعدہ پر کسی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
جیسے ایک مسئلہ ہے کہ جس شخص کو سمت قبلہ کا علم نہ ہو اور معلوم بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ کیا کرے۔ احناف کہتے ہیں (غالبا دیگر کا بھی یہی مسلک ہے) کہ وہ تحری (غور و فکر) کرے گا اور جس سمت اس کو اطمینان ہوگا اس سمت رخ کرکے نماز پڑھ لے گا۔
اس مسئلہ کی بنیاد کیا ہے۔ بوقت اشتباہ اجتہاد لازم ہونا۔
اور اس کی بنیاد کیا ہے؟ قرآن کریم کی آیت۔ ما جعل علیکم فی الدین من حرج۔ تمہارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر اس پر لازم کیا جائے کہ وقت میں نماز بھی پڑھے اور درست سمت منہ بھی کرے تو یہ واضح حرج ہے۔
اب اس پر دلائل ڈھونڈتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے۔ اینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ تم جس طرف رخ کرو وہیں اللہ متوجہ ہے۔
اسی طرح کچھ آثار میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ایک سریہ میں تھے تو بادلوں کی وجہ سے رات میں قبلہ مشتبہ ہوگیا۔ تو سب نے تحری کر کے نماز پڑھی۔ صبح دیکھا تو قبلہ غلط تھا۔ نبی ﷺ نے انہیں درست قرار دیا۔ یہ آثار ضعیف ہیں لیکن ان کے مطابق ابتدائی زمانے کے علماء نے عمل کیا ہے۔ شاید ضعف بعد کے راویوں میں ہو۔ اس کے علاوہ درجہ حسن کو بھی شاید یہ پہنچے۔ بہر حال ہمیں یہ پتا چل گیا کہ جس کو قبلہ کا علم نہیں ہے وہ تحری کرے گا۔
اب ہمیں ایک آیت اس کے خلاف معنی دیتی ہوئی ملتی ہے۔ فولوا وجوهكم شطره۔ اپنا رخ مسجد الحرام کی جانب کرو۔ تو ہم کیا کریں گے؟ کیا اس آیت کو چھوڑ دیں گے یا ان دلائل کو جن کی بنیاد پر یہ مسئلہ اخذ کیا ہے؟ یقینا نہیں۔ تو ہم اسے سب سے پہلے تطبیق دیں گے کہ اس آیت کا مطلب ہے مسجد الحرام کی طرف رخ کرو جب تمہیں اس کا علم ہو۔ اور ہمارے دلائل اور مسئلہ اس صورت کا ہے جب علم نہ ہو۔
اگر کہیں تطبیق ممکن نہ ہو تو پھر منسوخ یا مرجوح وغیرہ سمجھا جائے گا۔

تو خلاصہ یہ ہوا کہ ایک قاعدہ شرعیہ کو دلائل کی روشنی میں اخذ کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر مسئلہ نکالا جاتا ہے۔ جب مسئلہ نکل آتا ہے اور بعد میں اس کے معارض حدیث یا آیت ملتی ہے تو اسے نسخ، ترجیح یا تطبیق پر محمول کیا جاتا ہے۔

اسی کو کرخیؒ نے فرمایا ہے:۔
الأصل: أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح.والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق.
اصول: جو آیت ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو اسے نسخ یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا۔ اور اولی یہ ہے کہ تطبیق کی جہت سے تاویل پر محمول کیا جائے۔

یہاں اصحاب کے قول سے وہی مسئلہ بمعہ اپنے تمام دلائل کے مراد ہے۔ اسی بات کو علامہ نسفی نے سمجھا ہے (جنہیں ان کا شاگرد کہا جاتا ہے۔ واللہ اعلم) چنانچہ اس کی مثال دی ہے:۔
قال: من مسائله أن من تحرى عند الاشتباه واستدبر الكعبة جاز عندنا لأن تأويل قوله تعالى:{فولوا وجوهكم شطره[البقرة : 144} إذا علمتم به وإلى حيث وقع تحريكم عند الاشتباه
یہ بعینہ وہی مثال ہے جو میں نے اوپر مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شقوں کی بھی مثالیں دی ہیں اور ان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔

اس ساری بات کی بنیاد یہ سمجھنے پر ہے کہ مسائل فقہ بغیر دلائل کے اخذ نہیں ہوتے۔ اور یہاں نسخ و ترجیح و تطبیق کا عمل اصل میں اس قول کے لیے نہیں بلکہ اس کے بیک گراؤنڈ میں موجود مضبوط دلائل کے لیے ہوتا ہے۔
خیر یہ مسائل تو علمی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، بہرحال آپ کی بات کی تحقیق کی جانی چاہیے، کیونکہ الفاظوں کے ہیر پھیر سے احناف کچھ بھی ثابت کر سکتے ہیں، یہ تمام آیات و احادیث خیر القرون میں بھی موجود تھیں، یہ مسائل ان دنوں میں بھی تھے، لہذا وہ تقلید کا شکار نہیں ہوئے تھے، نہ ہی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ ہم آیت یا حدیث کی تاویل کر لیں گے۔

آپ مجھے مختصرا یہ بتائیں کہ ابوحنیفہ کا قول اگر قرآن کی آیت یا صحیح حدیث سے ٹکرا گیا تو آپ کس کی بات مانیں گے؟ قرآن و حدیث کی یا ابوحنیفہ کی۔

نوٹ: اب یہ نہ کہیئے گا کہ ابوحنیفہ کبھی قرآن و حدیث کے خلاف بات نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمارے پاس صحیح اسناد کے ساتھ ابوحنیفہ پر جرح موجود ہے، لہذا اگر آپ نے ایسا کہا تو میں اسے جھوٹ سمجھوں گا کہ ابوحنیفہ سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ اب آپ مختصرا بتائیں کہ احناف میں کتاب اللہ کی آیت یا صحیح حدیث کا کیا مقام ہے۔

اور ایک اہم بات اشماریہ بھائی! میں اکثر آپ کی پوسٹس پڑھتا ہوں، لیکن مجھے یہ پوسٹس دین اسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کرنے سے خالی نظر آتی ہیں، آپ کی پوسٹس میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک غیر واضح اور مبہم گفتگو ، دوسرا تاویل۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ مجھے مختصرا یہ بتائیں کہ ابوحنیفہ کا قول اگر قرآن کی آیت یا صحیح حدیث سے ٹکرا گیا تو آپ کس کی بات مانیں گے؟ قرآن و حدیث کی یا ابوحنیفہ کی۔

نوٹ: اب یہ نہ کہیئے گا کہ ابوحنیفہ کبھی قرآن و حدیث کے خلاف بات نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمارے پاس صحیح اسناد کے ساتھ ابوحنیفہ پر جرح موجود ہے، لہذا اگر آپ نے ایسا کہا تو میں اسے جھوٹ سمجھوں گا کہ ابوحنیفہ سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ اب آپ مختصرا بتائیں کہ احناف میں کتاب اللہ کی آیت یا صحیح حدیث کا کیا مقام ہے۔


احناف میں سب سے اہم کتاب اللہ کی آیت ہے پھر حدیث متواتر پھر حدیث مشہور اور پھر خبر واحد۔
جرح کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ جرح اکثر علماء پر موجود ہے اور اسناد صحیح بھی ہیں لیکن صرف یہ نہیں دیکھا جاتا۔ تعصب دیکھا جاتا ہے، حسد دیکھا جاتا ہے، جرح کی حیثیت دیکھی جاتی ہے، خارجی قرائن دیکھے جاتے ہیں، اس عالم کے دیگر اقوال دیکھے جاتے ہیں، اس کے شاگردوں کے اقوال دیکھے جاتے ہیں اور اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔ علامہ ذہبی جیسے ائمہ جرح و تعدیل بھی زیادہ سے زیادہ حافظہ پر ہلکی سی جرح تسلیم کرتے ہیں اور وہ بھی تعدیل کے قائلین کے ساتھ۔ تو یہ بے فائدہ ہے۔ جس شخص کو امت قبول کر چکی ہو اور ائمہ نے اس کے مناقب میں کتابیں لکھی ہوں اور اس پر جرح کرنے والوں پر سخت تنقید کی ہو اور انہیں متعصب قرار دیا ہو اس پر جرح پیش کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔
البتہ اگر ایسا ہوتا ہے کہ امام اعظمؒ بلا دلیل بات کرہے ہوں تو نہ صرف قرآن و حدیث کی بات مانی جائے گی بلکہ فقہ حنفی میں یہ بھی دکھاؤں گا ان شاء اللہ کہ ابو حنیفہ رح کی بات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
عبد الحئی لکھنویؒ کا ترجمہ (حالات) آج پڑھ رہا تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اسی مسئلہ پر عمل کرتا ہوں جس میں مجھے قرآن و حدیث سے دلیل مل جائے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ بتایا (کشف ہوگا یا خواب) کہ فقہ حنفی کے ائمہ کے اقوال میں سے جو حدیث کے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کروں اور فقہاء کے اختیارات پر چلوں۔ (فیوض الحرمین۔ الفاظ میرے ہیں)۔ تو جب اس قسم کے علماء گزرے ہوں تو پھر فقہ حنفی قرآن و حدیث کی صریح مخالفت میں کیسے رہ سکتا ہے؟

خیر یہ مسائل تو علمی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، بہرحال آپ کی بات کی تحقیق کی جانی چاہیے، کیونکہ الفاظوں کے ہیر پھیر سے احناف کچھ بھی ثابت کر سکتے ہیں، یہ تمام آیات و احادیث خیر القرون میں بھی موجود تھیں، یہ مسائل ان دنوں میں بھی تھے، لہذا وہ تقلید کا شکار نہیں ہوئے تھے، نہ ہی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ ہم آیت یا حدیث کی تاویل کر لیں گے۔
صحابہ سے ایک آیت کو منسوخ قرار دینا وغیرہ ثابت ہے۔ یہ اصول اس لیے نہیں بیان کیا کہ صحابہ نے اصول کہیں بیان ہی نہیں کیے۔ لیکن ان کا عملی استعمال واضح نظر آتا ہے۔ علماء اصول فقہ نے ان پر باقاعدہ ابحاث کی ہیں۔

اور ایک اہم بات اشماریہ بھائی! میں اکثر آپ کی پوسٹس پڑھتا ہوں، لیکن مجھے یہ پوسٹس دین اسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کرنے سے خالی نظر آتی ہیں، آپ کی پوسٹس میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک غیر واضح اور مبہم گفتگو ، دوسرا تاویل۔
میں عموما اعتراضات کے جوابات اور فقہ حنفی کے اقوال کی وضاحت کر رہا ہوتا ہوں۔ مجھے اس کے بجائے علمی ابحاث پسند ہیں لیکن میرے بھائی مجھے اس کے لیے فارغ ہونے نہیں دیتے۔ پھر اعتراض بھی کوئی علمی بندہ نہیں کرتا۔ جب محترم عبدہ بھائی یا محترم خضر حیات بھائی کوئی اعتراض یا بحث کرتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے میں تحقیق کرتا ہوں اور میرے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔
البتہ غیر واضح اور مبہم اگر آپ علمیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو ظاہر ہے میں معذور ہوں۔ آپ خود اس لائن میں آ گئے ہیں جہاں آپ کو خاموش رہنا چاہیے تھا یا پھر علم اتنا حاصل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے علاوہ میری کوشش ہوتی ہے کہ مکمل وضاحت کروں۔
تاویل کے سلسلے میں بات یہ ہے کہ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جو آپ لوگوں کا موقف ہے وہی مدلل اور صحیح ہے حالاں کہ میرے بھائی ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ چار فقہ ختم ہو گئے ہوتے۔ ہر کسی کے پاس اپنی بات کے لیے مضبوط دلیل ہوتی ہے اور سمجھنے کا الگ انداز بھی۔ اس کا رد صرف اس سے بھی مضبوط دلیل سے کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کی صرف وضاحت کر رہا ہوتا ہوں۔ اکثر تمام باتیں اور مسائل پہلے سے حل شدہ ہوتے ہیں جنہیں علمائے احناف نے یا دیگر علماء نے ہی حل کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اسے اپنی زبان دیتا ہوں۔ اب اگر کوئی یہ چاہے کہ دوسرا اس کی بات سنتے ہی مان جائے تو عوام میں تو یہ ہو بھی جاتا ہے لیکن ہم لوگ تحقیق کرنا اور مطمئن ہونا پسند کرتے ہیں۔
ویسے یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ہر کوئی اپنے فہم و سمجھ کا پہلے دفاع کرتا ہے ہر ممکن طریقے اور تحقیق کے ذریعے۔

کیا آپ واضح کر سکتے ہیں کہ میری پوسٹس میں کیا ہونا چاہیے دین اسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کرنے کے لیے؟؟ میں اس پر غور کروں گا۔

آپ اگر اس مسئلہ سے مطمئن ہو چکے ہوں تو اگلا مسئلہ بیان کیجیے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
احناف میں سب سے اہم کتاب اللہ کی آیت ہے پھر حدیث متواتر پھر حدیث مشہور اور پھر خبر واحد۔
جرح کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ جرح اکثر علماء پر موجود ہے اور اسناد صحیح بھی ہیں لیکن صرف یہ نہیں دیکھا جاتا۔ تعصب دیکھا جاتا ہے، حسد دیکھا جاتا ہے، جرح کی حیثیت دیکھی جاتی ہے، خارجی قرائن دیکھے جاتے ہیں، اس عالم کے دیگر اقوال دیکھے جاتے ہیں، اس کے شاگردوں کے اقوال دیکھے جاتے ہیں اور اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔ علامہ ذہبی جیسے ائمہ جرح و تعدیل بھی زیادہ سے زیادہ حافظہ پر ہلکی سی جرح تسلیم کرتے ہیں اور وہ بھی تعدیل کے قائلین کے ساتھ۔ تو یہ بے فائدہ ہے۔ جس شخص کو امت قبول کر چکی ہو اور ائمہ نے اس کے مناقب میں کتابیں لکھی ہوں اور اس پر جرح کرنے والوں پر سخت تنقید کی ہو اور انہیں متعصب قرار دیا ہو اس پر جرح پیش کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔
البتہ اگر ایسا ہوتا ہے کہ امام اعظمؒ بلا دلیل بات کرہے ہوں تو نہ صرف قرآن و حدیث کی بات مانی جائے گی بلکہ فقہ حنفی میں یہ بھی دکھاؤں گا ان شاء اللہ کہ ابو حنیفہ رح کی بات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
عبد الحئی لکھنویؒ کا ترجمہ (حالات) آج پڑھ رہا تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اسی مسئلہ پر عمل کرتا ہوں جس میں مجھے قرآن و حدیث سے دلیل مل جائے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ بتایا (کشف ہوگا یا خواب) کہ فقہ حنفی کے ائمہ کے اقوال میں سے جو حدیث کے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کروں اور فقہاء کے اختیارات پر چلوں۔ (فیوض الحرمین۔ الفاظ میرے ہیں)۔ تو جب اس قسم کے علماء گزرے ہوں تو پھر فقہ حنفی قرآن و حدیث کی صریح مخالفت میں کیسے رہ سکتا ہے؟


صحابہ سے ایک آیت کو منسوخ قرار دینا وغیرہ ثابت ہے۔ یہ اصول اس لیے نہیں بیان کیا کہ صحابہ نے اصول کہیں بیان ہی نہیں کیے۔ لیکن ان کا عملی استعمال واضح نظر آتا ہے۔ علماء اصول فقہ نے ان پر باقاعدہ ابحاث کی ہیں۔


میں عموما اعتراضات کے جوابات اور فقہ حنفی کے اقوال کی وضاحت کر رہا ہوتا ہوں۔ مجھے اس کے بجائے علمی ابحاث پسند ہیں لیکن میرے بھائی مجھے اس کے لیے فارغ ہونے نہیں دیتے۔ پھر اعتراض بھی کوئی علمی بندہ نہیں کرتا۔ جب محترم عبدہ بھائی یا محترم خضر حیات بھائی کوئی اعتراض یا بحث کرتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے میں تحقیق کرتا ہوں اور میرے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔
البتہ غیر واضح اور مبہم اگر آپ علمیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو ظاہر ہے میں معذور ہوں۔ آپ خود اس لائن میں آ گئے ہیں جہاں آپ کو خاموش رہنا چاہیے تھا یا پھر علم اتنا حاصل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے علاوہ میری کوشش ہوتی ہے کہ مکمل وضاحت کروں۔
تاویل کے سلسلے میں بات یہ ہے کہ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جو آپ لوگوں کا موقف ہے وہی مدلل اور صحیح ہے حالاں کہ میرے بھائی ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ چار فقہ ختم ہو گئے ہوتے۔ ہر کسی کے پاس اپنی بات کے لیے مضبوط دلیل ہوتی ہے اور سمجھنے کا الگ انداز بھی۔ اس کا رد صرف اس سے بھی مضبوط دلیل سے کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کی صرف وضاحت کر رہا ہوتا ہوں۔ اکثر تمام باتیں اور مسائل پہلے سے حل شدہ ہوتے ہیں جنہیں علمائے احناف نے یا دیگر علماء نے ہی حل کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اسے اپنی زبان دیتا ہوں۔ اب اگر کوئی یہ چاہے کہ دوسرا اس کی بات سنتے ہی مان جائے تو عوام میں تو یہ ہو بھی جاتا ہے لیکن ہم لوگ تحقیق کرنا اور مطمئن ہونا پسند کرتے ہیں۔
ویسے یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ہر کوئی اپنے فہم و سمجھ کا پہلے دفاع کرتا ہے ہر ممکن طریقے اور تحقیق کے ذریعے۔

کیا آپ واضح کر سکتے ہیں کہ میری پوسٹس میں کیا ہونا چاہیے دین اسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کرنے کے لیے؟؟ میں اس پر غور کروں گا۔

آپ اگر اس مسئلہ سے مطمئن ہو چکے ہوں تو اگلا مسئلہ بیان کیجیے۔
پہلا سوال
اگر آپ کے نزدیک بھی قرآن و حدیث کے مقابلے میں قول ابوحنیفہ کی کوئی حیثیت نہیں، تو آپ واضح طور پر کیوں نہیں کہہ دیتے:
"اگر ابوحنیفہ کا قول قرآن و حدیث سے ٹکرائے تو ہم حنفی اس کو دیوار پر مار دیں"
یہ واضح طور پر کہیے، اگر آپ کا یہی عقیدہ ہے تو؟

دوسرا سوال
اگر آپ کے نزدیک بھی قرآن و حدیث کی اہمیت فقہ حنفی سے زیادہ ہے تو پھر فقہ حنفی میں کیوں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں، جو واضح طور پر دین اسلام کے احکامات سے ٹکراتے ہیں۔ دلیل کے لیے دیکھیں۔ "بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام"
 
Top