• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا احناف کی نماز عند اللہ مقبول نہیں؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کا ترجمہ اگر الحجة للغت العربية والاردوية والفارسية @رحمانی صاحب کر دیں تو بہت اچھا رہے گا!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یعنی کے ارسال کا ثبوت بھی نہیں ہے!
تو بلا ثبوت امام مالک سے بد ظنی کیوں کی جائے! پھر یہی حسن ظن کیوں نہ رکھا جائے کہ امام مالک ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کے قائل تھے!

زبردست!
یعنی کہ پیروکاروں کے کاموں کو امام کے ذمہ ڈال دیا جائے!
یہ ایک قرینہ تو ہو سکتا ہے، لیکن ثبوت نہیں!
کل کو کوئی منچلا آکر کہہ دے گا کہ عیسی علیہ السلام کے عقائد و نظریات و مسلک بھی وہی ہوتا ہے جو عیسائی علماء بیان کریں!
دوم کہ آپ نے بھی کہا کہ تمام علماء احناف اگر ایک بیان کریں، تو وہ امام ابو حنیفہ کا مسلک ہوتا ہے، لیکن یہاں ہاتھوں کو نماز می باندھنے میں مالکی علماء کا اختلاف ہے!
اور وہ امام مالک سے ہی مختلف روایت کرتے ہیں!
لہٰذا یوں بھی ارسال کو امام مالک کا مسلک قرار دینا ثابت نہیں ہوتا!

آپ نے ایک روایت بیان کرکے، اسے امام مالک کا مسلک قرار دیدیا!
لیکن آپ نے یہ تحقیق نہیں کی کہ مالکیہ کے ہاں اس روایت کے علاوہ بھی روایات ہیں!
اور مالکیہ اس مؤقف کو امام مالک سے زیادہ ''المدونہ '' کا مسلک قرار دیتے ہیں!
اور مالکیہ خود اس کی توضیح پیش کرتے ہیں کہ یہاں کراہت استحباب کی نفی نہیں، بلکہ اعتقاد للوجوب کے لئے ہے!
آگے اس کی تفصیل پیش کروں گا!

کیوں بھای ! امام مالک پر مالکیہ کی اجارہ داری ہے کیا؟
اشماریہ بھائی! ویسے ایک سوال ہے، یہ تحقیقی اصول آپ اپنے دماغ پر بوجھ ڈال کر خود تراشتے ہیں؟ یا کوئی اور ایسی پٹی پڑھاتا ہے؟
خیر! ابھی آپ کے اس اصول کے بطلان کا بیان تو چھوڑتے ہیں!
لیکن یہ بات آپ کو تو قبول ہوگی، کہ مالکی تو آپ بھی نہیں! تو آپ کی بات کہ امام مالک کا یہ مسلک ہے یا وہ مسلک ہے، کیوں مانا جائے!
ہم مالکیہ سے ہی پوچھ لیتے ہیں؛

(جاری ہے)
نہیں نہ کوئی اور مجھے یہ اصول پڑھاتا ہے اور نہ میں تراشتا ہوں۔ یہ اصول اس وقت ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں اور ان کے مطابق مسلک بیان کرتے ہیں۔ دو مثالیں دیکھیں:

http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?languagename=ar&View=Page&PageID=2112&PageNo=1&BookID=3
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=55837

ایک میں اسے مدونہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرے میں مقدمات ابن رشد سے۔ جب ایک اصول ساری دنیا میں معروف ہے اور اسے علماء کرام سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو میرے پیارے بھائی! صرف اپنا مسلک بچانے کے لیے اسے توڑنے اور مروڑنے کا کیا فائدہ ہے؟
http://www.awqaf.ae/Fatwa.aspx?SectionID=9&RefID=14329
اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ابن القاسم کی روایت مقدم ہوتی ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں ابن القطانؒ وغیرہ کی مدونہ پر جرح نقل نہیں کیجیے تو بہتر ہے کہ وہ ایک تو مالکی نہیں ہیں اور مالکی فقہاء امام مالکؒ کی فقہ کو زیادہ جانتے ہیں دوسرا اس کتاب سے ان کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث کی کتاب نہیں ہے، یہ امام مالکؒ کی آراء کی کتاب ہے۔
یہ اصول کہاں ہے؟
نہیں نہ کوئی اور مجھے یہ اصول پڑھاتا ہے اور نہ میں تراشتا ہوں۔ یہ اصول اس وقت ساری دنیا کے علماء کرام جانتے ہیں اور ان کے مطابق مسلک بیان کرتے ہیں۔ دو مثالیں دیکھیں:

http://www.alifta.net/Fatawa/Fatawa...me=ar&View=Page&PageID=2112&PageNo=1&BookID=3
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=55837

ایک میں اسے مدونہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرے میں مقدمات ابن رشد سے۔ جب ایک اصول ساری دنیا میں معروف ہے اور اسے علماء کرام سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو میرے پیارے بھائی! صرف اپنا مسلک بچانے کے لیے اسے توڑنے اور مروڑنے کا کیا فائدہ ہے؟

(الجزء رقم : 6، الصفحة رقم: 365)
السؤال الثاني من الفتوى رقم ( 1257 )
س2: بعض العلماء يسدل في الصلاة، وبعضهم يقبض، وبعض من يقبض لا يصلي وراء من يسدل، وبعض من يسدل لا يصلي وراء من يقبض فأفتونا بذلك؟
ج2 : ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يضع يده اليمنى على يده اليسرى في الصلاة فريضة أو نافلة ، وبهذا قال جمهور الفقهاء وهو الصواب، وكره مالك ذلك في الفريضة للاعتماد، وأجازه في النافلة، وذكر أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد في كتابه (المقدمات): أن وضع اليدين إحداهما على الأخرى في الصلاة من مستحبات الصلاة، وقال: ومعنى كراهية مالك له أن يعد من واجبات الصلاة ا.هـ. ومع ذلك فاقتداء من يسدل بمن يقبض، واقتداء من يقبض بمن يسدل، كلاهما صحيح باتفاق العلماء.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

یہاں تو یہ لکھا ہوا ہے!
رہی بات مسلک بچانے کے لئے تڑوڑنے مڑوڑنے کی، تو میرے بھائی! ہمارے مسلك کو کسی امتی کے قول سے کوئی حرف نہیں آنے والا! کیوں کہ ہمارا مسلک کی بنیاد کسی امتی کا قول نہیں، بلکہ وحی الہٰی ہے!
بات یہ ہے کہ مالک سے المدونۃ کے علاوہ بھی روایت ہے، جسے مالکیہ نے خود بیان کیا ہے!​
http://www.awqaf.ae/Fatwa.aspx?SectionID=9&RefID=14329
اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ابن القاسم کی روایت مقدم ہوتی ہے۔
یہ بعض کا مؤقف ہے، میں نے اس کی تفصیل بیان کی ہے، کتابوں کے لنک بھی دیئے ہیں، ان کا مطالعہ کریں!
ویسے بھی ابن القاسم کی روایت کی توضیح بھی بیان کی ہے، انہیں مالکی فقہاء نے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
أبو عبد الله محمد بن علي بن السنوسي الخطابي المالكي (المتوفي 1276 ه) اپنی کتاب شفاء الصدر بأري المسائل العشر میں فرماتے ہیں:
المسألة الثانية في القبض
وفيه أربعة مذاهب. قال ابن عرفة: وفي إرسال يديه ووضع اليمنی علی اليسری أربعة مذاهب.
الأول: استحبابه في الفرض والنفل. قال في المواق: ﴿وفي رواية أشهب عن مالك، أنّ وضع اليد اليمنی علی اليسری مستحب في الفريضة والنافلة. قال اب رشد: وهذا هو الأظهر لأنّ الناس كانوا يؤمرون به في الزمن الأول.
قال البناني: وهو قول مالك في رواية مطرّف، وابن الماجشون عنه في الواضحة، وقول المدنيين من أصحابنا واختياره جماعة من المحقّقين، منهم اللّخمي، وابن عبد البرّ، وأبو بكر بن العربي وابن رشد وابن عبد السلام، وعدّه ابن رشد في مقدماته من فضائل الصلاة، تبعه القاضي في قواعده ونسبه في الإكلمال إلی الجمهور، وكذا نسبه لهم الحفيد ابن رشد، وهو قول الأئمة الثلاثة الشافعي وأبو حنيفة وأحمد وغيرهم من أئمة المذاهب كما ذکره في الاستذكار. انظر نصوص من ذكرنا في رسالة الشيخ المسناوي في القبض.
قال الترمذي: ﴿والعمل علی هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي ﷺ ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه علی شماله في الصلاة﴾
الثاني: إباحة القبض في الفرائض والنفل كما في العتبية. قال البناني: وهو قال مالك في سماع القرینين وقول أشهب في رسم شكّ في طوافه. قال الزرقاني: ﴿وروی أشهب عن مالك: لا بأس به النافلة والفرض، كذا قال أصحاب مالك المدنيون، وروي مطرّف وابن الماجشون أنّ مالكا استحسنه﴾.
قال ابن عبد البرّ: ﴿لم يأت فيه عن النبي ﷺ خلاف وهو قول جمهور الصحابة والتابعين، وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك ابن المنذر وغيره عن مالك غيره، وروی ابن القاسم عن مالك الإرسال وصار اليه أكثر أصحابه﴾.
الثالث: التفصيل: جوازه في النافلة وكراهته في الفرضية، قال في التوضيح: وهو مذهب المدونة، قال فيها: ولا يضع يمناه علی يسراه في فریضة وذلك جائز في النوافل لطول القيام. قال صاحب البيان(التبيان): ﴿ظاهرها الكراهة في الفرض والنفل إلاّ إن طال في النافلة﴾. وذهب إلی أنّ مذهبا الجواز في النافلة مطلقا لجواز الاعتماد فيها من غير ضرورة. فهذان تأويلان علی قول المدونة بالكراهة. الثالث، تأويل عبد الوهاب، الكراهة في الفرض لأجل الاعتماد. وقال بعضهم: إنما كرهه مخافة أن یعتاد وجوبه وإلاّ فهو مستحب. وقال عياض: ﴿مخافة أن يظهر من الخشوع ما لا يكون في الباطن﴾. قال في التوضيح: ﴿وتفرقته في المدونة بين الفريضة والنافلة تردّه وتردّ الذي قبله﴾. قال ابن العربي: كره مالك وضع اليد علی الأخری في الصلاة، وقال أنّه ما سمع فيه شيء في قوله تعالی ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾. قال ابن العربي: قد سمعنا وروينا فيه محاسن، والصحيح أنّه يفعل في الفريضة.
الرابع: المنع في الفريضة والنافلة. قال في التوضيح: رواه العراقيون. وقال البناني: حكاه الباجي وتبعه ابن عرفة. قال الشيخ المسناوي: وهو من الشذوذ بمكان. ثم قال المسناوي أیضاً: إذا تقّرر الخلاف في أصل القبض كما تری وجب الرجوع إلی الكتاب والسنّة كما قال تعالی ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ﴾، وقد وجدت سنّة عن رسول الله ﷺ قد حكمت بمطلوبية القبض في الصلاة، بشهادة ما في الموطأ والصحيحين وغيرهما من الأحاديث السالمة من الطعن، فالواجب الانتهاء اليها والوقوف عندها والقول بمقتضاها﴾.
وهذه الطريقة التي أشار إليها المسناوي هي طريقة المتقدّمين من أنهم يقلّدون أئمتهم ويتّبعونهم في الجليل والحقير ما لم يروا بينهم خلافاً وإلاّ رجعوا إلی الكتاب والسنّة فإنّه المأمور به كتاباً وسنّةٌ وإجماعاً، وقد حکی الغزالي في الإحياء عن الأئمة أنّهم حرّموا علی تابيهم اتباعهم فيما خالف نصّ الكتاب السنّة. وقال القرافي في الفرق الثامن والسبعين: أنّه لا يجوز العمل والفتوی بقول الإمام المخالف نص الكتاب والسنّة، وأنّ العامل والمفتي به عاص لله ورسوله وأن كان الإمام غير عاص لأنّه قائل باجتهاده فهو مأجور والمقلّد له عاص لأنّه مصادم لما جاء عليه النص فهو مأزور لعمله وإفتائه بغیر شرع، والعمل والفتوی بغیر شرع حرام، وقال:﴿فعلی أهل العصر تفقد مذابهم، فكلّما وجدوه من هذا النوع حرّم عليهم الفتوی به والعمل، ولا یعری مذهب من المذاهب عنه﴾. وليس للمقلّد أن يقول لعلّ إمامي اطّلع في ذلك علی ما لم أطّلع عليه كما يقول به أهل الطريقة الثانية، فإنّ غاية ما فيه احتمال أنّه بلغه ذلك الحديث أو لم يبلغه و علی احتمال بلوغه، هل ثبت عنده مرجح أو لم يثبت وعلی احتمال الثبوت هل المرجوح هو المعمول به في نفس الأمر أو ضدّه، والقاعدة الأصولية والعقلية أنّه لا يزاحم اليقين بالشك، فإنّه حين اطّلاعه علی النص ذو يقين في عين حكم النازلة فلا يتركه إلی غيره، والمسؤول عنه تركه العمل بعد اطلاعه علی النص لأنه حين الاطّلاع عالَمٌ يحرم عليه ترك علمه، لأنّنا أمرنا بالسؤال إلاّ حين الجهل بالحكم في ذلك. فالذي عليه الجمهور كما مرّ هو القبض. قال النووي: ﴿وهو مذهب الشافعي وأحمد وأبي حنيفة والأوزاعي وابن المبارك وسفيان الثوري وإسحاق بن راهويه وأبي إسحاق المروزي واب المنذر، وعن مالك روايتان، الأولی مثل الجمهور، والثانية الإرسال ولا يضع إحداهما علی الأخری وهي رواية جمهور أصحابه وهي الأشهر عندهم وهي مذهب اللّيث بن سعد﴾.
وحجّة الجمهور ما تراه في أحاديث المسألة المسرود: في ذلك، فنها حديث وائل بن حجر الطويل المتقدم في مسألة الرفع، وحديث سهل بن سعد قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنی علی ذراعه اليسری في الصلاة. قال أبو حازم: ولا ؤعله إلاّ يَنمي ذلك إلی رسول الله ﷺ وفي رواية إلاّ يُنمی ذلك ولم يقل ينمي. أخرجه البخاري والموطأ.
هُلب الطائي قال: كان رسول الله ﷺ يؤمّنا فيأخذ شماله بيمينه. أخرجه الترمذي.
ابن مسعود: كان يصلّی فيضع اليسری علی اليمنی فرآه رسول الله ﷺ فوضع يده اليمنی علی اليسری. أخرجه أبو داود. وفي رواية النسائي قال: راءاني رسول الله ﷺ قد وضعت شمالي يمينی في الصلاة فأخذ يميني فوضعها علی شمالي.
وائل بن حجر قال: رأيت النبي ﷺ إذا كان قائما في الصلاة قبض يمينه علی شماله، أخرجه النسائي.
،وبو ضحيف أنّ عليّا قال: السنّة وضع الكف علی الكف في الصلاة.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 23 - 29 شفاء الصدر بأري المسائل العشر - أبو عبد الله محمد بن علي بن السنوسي المالكي الخطابي (المتوفي 1276 ه) - دار الامام مالك للكتاب، الجزائر
----
أبو عبد الله محمد بن علي بن السنوسي الخطابي المالكي (المتوفي 1276 ه)
اپنی دوسری کتاب شفاء الصدر بأري المسائل العشر میں قدرے اسی طرح رقم کرتے ہیں:

﴿الفصل الثاني في حكم المسئلة الثانية في حكم القبض﴾ وحاصل ما للعلماء فيه أربعة أقوال أذكرها اجمالا م تفصيلا قال ابن عرفة: وفي إرسال يديه ووضع اليمنی علی اليسری أربعة مذاهب.
الأول: استحبابه في الفرض والنفل. قال في المواق: ﴿وفي رواية أشهب عن مالك، أنّ وضع اليد اليمنی علی اليسری مستحب في الفريضة والنافلة. قال اب رشد: وهذا هو الأظهر لأنّ الناس كانوا يؤمرون به في الزمن الأول.
قال البناني: وهو قول مالك في رواية مطرّف، وابن الماجشون عنه في الواضحة، وقول المدنيين من أصحابنا واختياره جماعة من المحقّقين، منهم اللّخمي، وابن عبد البرّ، وأبو بكر بن العربي وابن رشد وابن عبد السلام، وعدّه ابن رشد في مقدماته من فضائل الصلاة، تبعه القاضي في قواعده ونسبه في الإكلمال إلی الجمهور، وكذا نسبه لهم الحفيد ابن رشد، وهو قول الأئمة الثلاثة الشافعي وأبو حنيفة وأحمد وغيرهم من أئمة المذاهب كما ذکره في الاستذكار. انظر نصوص من ذكرنا في رسالة الشيخ المسناوي في القبض.
قال الترمذي: ﴿والعمل علی هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي ﷺ ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه علی شماله في الصلاة﴾
الثاني: إباحة القبض في الفرائض والنفل كما في العتبية. قال البناني: وهو قال مالك في سماع القرینين وقول أشهب في رسم شكّ في طوافه. قال الزرقاني: ﴿وروی أشهب عن مالك: لا بأس به النافلة والفرض، كذا قال أصحاب مالك المدنيون، وروي مطرّف وابن الماجشون أنّ مالكا استحسنه﴾.
قال ابن عبد البرّ: ﴿لم يأت فيه عن النبي ﷺ خلاف وهو قول جمهور الصحابة والتابعين، وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك ابن المنذر وغيره عن مالك غيره، وروی ابن القاسم عن مالك الإرسال وصار اليه أكثر أصحابه﴾.
الثالث: التفصيل: جوازه في النافلة وكراهته في الفرضية، قال في التوضيح: وهو مذهب المدونة، قال فيها: ولا يضع يمناه علی يسراه في فریضة وذلك جائز في النوافل لطول القيام. قال صاحب البيان(التبيان): ﴿ظاهرها الكراهة في الفرض والنفل إلاّ إن طال في النافلة﴾. وذهب إلی أنّ مذهبا الجواز في النافلة مطلقا لجواز الاعتماد فيها من غير ضرورة. فهذان تأويلان علی قول المدونة بالكراهة. الثالث، تأويل عبد الوهاب، الكراهة في الفرض لأجل الاعتماد. وقال بعضهم: إنما كرهه مخافة أن یعتاد وجوبه وإلاّ فهو مستحب. وقال عياض: ﴿مخافة أن يظهر من الخشوع ما لا يكون في الباطن﴾. قال في التوضيح: ﴿وتفرقته في المدونة بين الفريضة والنافلة تردّه وتردّ الذي قبله﴾. قال ابن العربي: كره مالك وضع اليد علی الأخری في الصلاة، وقال أنّه ما سمع فيه شيء في قوله تعالی ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾. قال ابن العربي: قد سمعنا وروينا فيه محاسن، والصحيح أنّه يفعل في الفريضة.

وأراده بقوله روينا فيه محاسن والله أعلم. ما أخرجه البخاري في تاريخه وابن أبي شيبة في مصنفه وابن جرير وابن حاتم والدارقطني في الافراد وأبو الشيخ والحاكم وابن مردوديه به والبيهقي في سننه عن علی بن أبي طالب في قوله فصل لربك وانحر انه قال وضع يده اليمنی علی وسط ساعد يده اليسری ووضعها علی صدره في الصلاة وما أخرجه أبو الشيخ والبيهقي في سننه عن أنس عن أنس عن النبي صلی الله عليه وسلم مثله وما أخرجه ابن أبي حاتم وابن شاهين في سننه وابن مردوديه والبيهقي عن ابن عباس في قوله فصل لربك وانحر قال وضع اليمنی علی اليسری عند النحر في الصلاة فهذه ثلاثة أقوال فی حكم القبض والی حاصلها أشار ابو الحصن علی المدونة بقول ابن رشد يتحصل فی المسئلة ثلاثة أقوال أحدها أن ذالك جائز في المكتوبة والنافلة لا يكره فعله ولا يستحب والثاني أن ذلك مكروه يستحب تركه في الفريضة والنافلة الا اذا طال القيام في النافلة فيكون فعل ذلك جائزا غیر مکروه ولا مستحب وهو قول مالك في المدونة والثالث أن ذلك مستحب فعله في الفريضة والنافلة مكروه تركه فيها وهو قوله في رواية مطرف وابن الماجشون عنه فی الواضحة وقد قيل فی قوله فصل الربك وانحر أن ذلك وضع اليد اليمنی علی ذراعه اليسری في الصلاة تحت النحر وقد تأول قول مالك لم يختلف في أن ذلك من هئية الصلاة التي تستحسن فيها وانما كره ولم يأمر به استحسانا مخافة أ يعد ذلك من واجبات الصلاة والأظهر أنه اختلاف من القول صح من سماع أشهب وابن نافع من رسم الصلاة الاول من كتاب الصلاة الثاني ا
ھ. وأما القول الرابع وهو المنع فی الفريضة والنافلة فقال فی التوضيح رواه العراقيون وقال البناني حكاه الباجي وتبعه ابن عرفة قال المسناوي وهو من الشذوذ وأشار اليها جميعا الشيخ زروق في شرح الرسالة بما نصه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 106 - 107 كتاب المسائل العشر المسمى بغية المقاصد وخلاصة المراصد - أبو عبد الله محمد بن علي بن السنوسي المالكي الخطابي (المتوفي 1276 ه) - مطبعة المعاهد بجوار قسم الجمالية بمصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محمد بن أحمد بن الحاج المسناوى المالكي الفاسي (المتوفي 1136 ه) نے اسی موضوع پر ایک کتاب تالیف فرمائیں؛ نصرة القبض والرد على من أنكر مشروعيته فى صلاة الفرض، اس میں فرماتے ہیں:

المبحث الأول:
في حكم القبض في صلاتي النفل والفرض
اعلم أنّ قبض اليسری باليمنی، في قيام الصلاة وبدله، مُختلف فيه في مذهب مالك علی أربعة أقوال مذكورة في مشاهير كتب أئمة مذهبه، كمختصر ابن حاجب وابن عرفة وغيرهما.
الاستحباب، والكراهة، والجواز، والمنع:
فأما قول باستحبابه في الفرض والنفل وترجيحه فيها علی الإرسال والسّدل، فهو قول مالك في ﴿الواضحة﴾
وسماع القرينين أیضاً، وختياره غير واحد م المحققين كالإمامين أبي الحسن اللخمي، والحافظ أبو عمر عبد البرّ، والقاضييں أبي بكر بن العربي، وأبي الوليد ابن رشد.
وعدّه في ﴿مقدماته﴾ من فضائل الصلاة، وتبعه القاضي عياض في ﴿قواعده﴾.
وكذا القرافي في كتاب ﴿الذخيرة﴾ صدر بأنه من الفضائل، ثم ذكر بعده ما فيه من الخلاف، ومن اصطلاحه فيه تقديم المشهور علی غيره نبّه عليه في خطبته، قال: وهو في الصّحاح عنهﷺ، ومثل ما للقرافي، لابن جزي في قوانيه، ونسبه عياض في ﴿الإكمال﴾ إلی الجمهور، وهو أيضاً في ﴿الذخيرة﴾ للقرافي و﴿الميزان﴾ للشعراني قول الأئمة الثلاثة الشافعء، وأبي حنيفة، وابن حنبل، وزاد ابن عبد البر في ﴿الاستذكار﴾ علی نسبته لمن ذكر نسبته لسفيان الثوري وإسحاق ب راهويه، وأبي ثور، وداود بن علي، وأبي جعفر الطبري، وغیرهم من أئمة المذاهب.
قال القبّاب في ﴿شرح قواعد عياض﴾ قال اللخمي: ان القبض أحسن للحديث الثابت عن النبيّ ﷺ في البخاري ومسلم، ولأنها وقفة العبد الذليل لربه.
وحديث البخاري المشار إليه هو ما رواه في باب وضع اليمنی علی اليسری في الصلاة؛ عن عبد الله بن مسلمة، عن مالك عن أبي حازم، عن سهل بن سعد قال: ﴿كَان النَّاسُ يُؤْمَرُونَ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدّ الُیُمْنَی عَلَ ذِرَاعِهِ اليُسْرُی فَي الصَّلَاةِ، قال أبو حازم: لا أعلَمه إلاَّ يَنْمي ذَلك للنبيّ ﷺ﴾. قال ح: قوله: ﴿كان الناس يؤمرون﴾ هذا حكمه الرفع، لأنه محمول علی أن الآمر بذلك هو النبيّ ﷺ كما سيأتي، وقوله: قال أبو حازم: لا أعلمه، أي سهل بن سعد إلأ يَنْمِي بفتح أوله وسكون النون وكسر الميم، وفي رواية إسماعيل بن أبي أويس، عن مالك ببناء يُنمي للمفعول، وعليها فالهاء في أعلمه ضمير شأن، والحديث علی هذا مرسَلّ، لأن أبا حازم لم يعين مَن نماه، قال أهل اللغة: نميت الحديث إلی غيري: رفعته وأسندته، قال ابن حجر: وفي اصطلاح أهل الحديث إذا قال الراوي: نميت فمراده يرفع ذلك إلی النبيّ ﷺ ولو لم يقيد.
واعترض بعضهم هذا، وقال: إنه معلول، لأنه ظن أبي حازم، قال ابن حجر: ورُدَّ بأن أبا حازم لو لم يقل: لا أعلمه إلخ، لكان في حكم المرفوع، لأن قول الصحابي: كنا نؤمر كذا، يُصرف بظاهره إلی مَن له الأمر، وهو النبيﷺ، لأن الصحابي في مقام تعريف الشَّرع فيحمل علی مَن صدر عنه الشرع، ومثله قول عائشة: ﴿كُنَّا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ﴾، فإه محمول في ذلك بين أهل النقل والله أعلم، ثم قال ابن حجر: فإن قيل: لو كان مرفوعاً ما احتاج أبو حازم إلی قوله: لا أعلمه إلی آخر الحديث، فالجواب أنه أراد الانتقال إلی التصريح، فالأول لا يقال له: مرفوع، وإنما يقال له: حكم المرفوع. ا
ھ.
وحديث مسلم هو ما أخرجه في باب وضع اليد علی الأخری في الصلاة،عن وائل بن حجر أنه رأی النبيّ ﷺ يفعل ذلك، فاظر لفظه فيه. وقال الموَّاق: ابن عرفة وروی القرينان: لأن الناس كانو يُؤمرون به في الزمن الأول، وأن النبيّ ﷺ كان يفعله. ا
ھ.
ونقل الموَّاق أيضاً عن ابن العربي أنه قال: كره مالك وضع اليد علی الأخری في الصلاة، وقال: إنه ما سمع بشيء في قوله ﴿فَصَلِّ لِرَبِكَ وَاَنْحَرّ﴾ ابن العربي: قد سمعنا وروينا محاسن، والصحيح أن ذلك يُفعل في الفريضة. ا
ھ.
وذُكر في ﴿سنن المهتدين﴾، عن ابن عبد البر أنه قال في ﴿تمهيده﴾ لا وجه لكراهة وضع اليمنی علی اليسری في الصلاة، لأن الأشياء أصلها الإباحة، ولم ينه الله ولا رسوله عن ذلك، فلا معی لمن كره ذلك، هذا لم ترا إياحته عن رسول الله ﷺ فكيف وقد ﴿صحَّ عنه فعله ولحضّ عليه﴾. قال ابن حجر: قال ابن عبد البرّ: لم يأت عن النبيّ ﷺ فيه خلاف، وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في ﴿الموطأ﴾ ولم يهکِ ابن المنذت وغيره عن مالك غيره.
وروي ابن القاسم عن مالك الإرسال، وعنه التفرقة الفريضة والنافلة. ا ه.
ونص ما في ﴿موطأ﴾ مالك عن عبد الكريم بن أبي المخارق البصري أنه قال: من كلام النبوه: ﴿إذا لم تستح فاصنع ما شئت﴾، ووضع اليدين إحداهما علی الأخری في الصلاة، ﴿يضع اليمنی علی اليسری﴾ وتعجيل الفطر والإستيناء بالسحور. ا ه.
وعبد الكريم هذا وإن كان ضعيفاً حتی قيل: إنه أضعف رجال ﴿الموطأ﴾ قد تُوبع علی هذا في ﴿الموطأ﴾ أيضاً، عن أبي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي أنَّه قال: ﴿كان النّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليدَ اليُمنَی عَلَی ذِراعهِ اليُسرَی فِي الصَّلاَةِ﴾، قال أبو حاز: لا أعلمه إلا أنه ينمي ذلك. ا ه.
وقد رواه البخاري كما تقدم بعض الكلام عليه، وقال ابن حجر أيضاً: ﴿قال العلماء: الحكمة في هذه الهيئة أنه يحصل بها اشتغال اليدين، وهو أمنع من العبث وأقرب إلی الخشوع، وكأن البخاري لا حظ ذلك، فعقبه بباب الخشوع، ومن اللطائف قول بعضهم: القلب موضع النية، والعاد أن مَن أحترز علی شيء جعل يديه عليه﴾ وقال عياض في ﴿الإكمال﴾: ﴿ذهب جمهور العلماء من أئمة الفتوی إلی أخذ الشمال باليمين في الصلاة، وأنه من سننها، وتمام خشوعها، وضبطها عن الحركة ولعبث، وهو أحد القولين لمالك في الفرض والنفل، ورأی طائفة إرسال اليدين في الصلاة، منهم الليث، وهو القول الآخر لمالك﴾، ثم قال: ﴿والآثار بفعل النبيّ ﷺ والحضّ عليه صحیحة، والاتفاق علی أنه ليس بواجب﴾، وعن علي رضی الله عنه في قوله تعالی: ﴿فَصَلِ لِرَبِكَ وَاَنْحَرْ﴾ أن معانه وضع اليمنی علی اليسری في الصلاة، یعني علی الصدر عند النحر، وقيل معنی ذلك غير هذا من نحر الأضحية وصلاة العيد، وقيل: نحر البُدن بمعنی، وصلاة الصبح بجَمع. ا
ھ منه بلفظه.
ويرجح القبض أيضاً نص الأئمة كما في الموَّاق علی أن ما اختُلف في مشروعيته هو أرفعُ درجه من المباح، قال عز الدين عبد السلام الشافعي في ﴿قواعده﴾: إن كان الخلاف في المشروعية، فالفعل أفضل، فما كره أحد الأئمة راه غير ففعله أفضل، كرفع اليدين في التكبيرات، قال: وإنما قلنا هذا لأن الشرع يحاط لفعل المندوبات كما يحاط لفعل الواجبات. ا
ھ.
وهذا مقتضی مذهب مالك أيضاً، فأنه نص في الموطأ علی أن النذر المباح لا يُوفی به، وذهب فيما كره واستحبه غيره إلی أنه يلزم الوفاء به ألا تراه قد كره هدی المعيب فيما المعييب ونذره، والإجارة علی الحج، مع قوله: يلزم نذره، وتنفيذ الوصية بالحج ترجيحاً لما اختلف في مشروعيته علی المباح، ومقتضی هذا كما قال الشيخ علي الأجهوري موافقة مذهب مالك لما ذكره عز الدين، كما أن مقتضاه أيضاً أن فعل القبض أفضل م تركه، لاندراجه في هذه القائده.
وأما القول بكراهته فيهما، فقد ذهب إليه طائفة منهم: الليث بن سعد إمام أهل مصر، وهو القول الأخير لمالك، ومذهب ﴿المدونة﴾ في الفریضة، قال فيها: ولا يضع يمناه علی يسراه في فريضة، ذلك جائز فی النوافل لطول القيام، قال ﴿صاحب البيان﴾: ظاهره أن الكراهة في الفرض والنّفل، إلا أطال في النفل فيجوز (ح)، وذهب غيره إلی أن مذهبه الجواز في النافلة مطلقاً لجواز الاعتماد فيها من غیر ضرورة.
وقال الليث: سدل اليدين في الصلاة أحبّ، إلا أن يطوَّل في القيام فلا بأس أن يضع اليمنی علی الیسری في الصلاة.
واختُلف في توجيه الكراهة المروية عن مالك علی أقوال، والذي عليه المحققون كالقاضي عبد الوهاب، وغيره أنه إنما كره لمن بقصد الاعتماد، أي تخفيف القيام عن نفسه بذلك، إذا هو شبيه المستند، ولهذا قال مرَّة: ﴿لا بأس به في النوافل لطول الصلاة﴾، وذلك أنَّ النافلة يجوز فيها الجلوس من غير عذر، وكيف بالاعتماد، فأمَّا مَن فعله تَسنّناً وغیر اعتماد فلا يكرهه، فليس هو كما قال أبو الحسن علي الأجهوري تعليلاً بالمظنَّة، بل إذا انتقی الاعتماد عند القائل به لم يكره القبض بخالف التوجيهين الأخيرين الآتيين، فإنهما تعليل بالمظنَّة، وعلی هذا مشی عياض في ﴿قواعده﴾ حيث قيَّد استحباب القبض بما إذا لم يُرد الاعتماد، وقال بعضهم: إنما كره مخافة أن يُعتقد وجوبه، وإلا فهو مستحب، وقال آخرون: مخافة أن يُظهر من الخشوع ما لا يكون في الباطن، قال في ﴿التوضيح﴾: وتفرقته في ﴿المدونة﴾ بين الفريضة والنافلة يردّ الذي قبله، وزاد الأجهوري في تضعيف الثاني نقلاً عن بعضهم أنه يؤدي إلی كراهة كر المندوبات.
وفي ﴿رحلة العیَّاشي﴾ أبي سالم بن عبد الله بن أبي بكر بن عياش ما نصه: ﴿وأما القبض، فقد عُلم ما فيه من الخلاف، وقد به أئمة محققون من أهل المذهب، کاللخمي وغيره، خصوصاً إن عُلل بخشية اعتقاده الوجوب فإن ما هذا سبيله من المكروهات لا يعتدّ به المحققون إذا صحَّت به الأحاديث، سيما مع انتفاء العلة كهذه المسألة، فلو طُرد ذلك أَدَّی إلی ترك السُّنن كلها أو غالبها المداوم عليها، لأن المداومة عليها ذريعة إلی ذلك، وإنما قال الإمام رضی الله عنه بذلك في مسائل قليلة لعارض في الوقت اقتضی ذلك، كقول بعض العوام في آخر ستّ من شوال العيد لاثاني، فرأی الإمام قطع هذه المفسدة، وأم من عودها، فلا معنی لترك ما جاءت به الأحاديث الصحيحة إلا محض التقليد الذي لا رُبدة له إذا مُخض، ويسمج في السمع إطلاق الكراهة والمنع فيما صحَّ عنه ﷺ أنه فعله أو أمر به ورغَّب فيه إلاَّ لضرورة أسمج من ذلك، قال: وقد رأيتُ كثيراً من المالكية یقبضون أيديهم في الصلاة، وذلك لخفَّة الأمر فيه، كما تقدم، ولكون السدم في البالد المشرقية كلها شعار الروافض ولا يفعله من الأئمة إلأ المالكية، والعوام يعتقدون أنَّه لا يفعله إلاَّ الرافضة، فمن رأوه سادلاً يديه في الصلاة قالوا: إنَّه رافضي. ا ه.
ومن الشيوخ من حمل ما روي عن مالك فيه من قوله: ﴿لا أعرفه﴾، علی أنه لا يعرفه من لوازم الصلاة وواجبتها التی لا بدَّ منها، ونحو هذا تأويل ابن رزد قول مالك في ﴿المدونة﴾: لا أعرف قول الناس في الركوع: سبحان ربي العظيم، وفي السجود: سبحان ربي الأعلی، وأنكره، قال ابن رشد: أنكر وجوبه وتعيّنه، لا أن تركه أحسن من فعله، لأنه من السُّنة التي يستحب العمل بها عند الجميع، قال الشيخ سالم السنهوري: ونحو هذا التأويل لابن بشير، واب العربي في كل إنكار صدر عن مالك أو غیره من الأمة لما هو من جنس المشروع كأذان الفذّ، وقراءة يٓس عند رأس المیّت، وغسل اليد قبل الطعام، والتصدّق بزِنة شعر المولود، وقل المضحي: اللَّهم منك وإليك، والقنوت في وتر النصف الأخير رمضان، وما يتكلم به الناس عند محاذاة الركن من قولهم: اللَّهم أيماناً بك، ورفع اليدين عند الإحرام. ا ه.
وانظر الموَّاق، فإن كلامه يقتضی عدم اختصاص ابن البشير وابن العربي بذلك التأويل، فقد تبیَّن أنه لا كراهة في القبض علی مذهب ﴿المدونة﴾ لمن فعله تسنّاً ولغير اعتماد بنا علی أصح التأويلات عند النَّقَّاد.
وأما القول بإباحته في الفرخ والنَّفل التخيير بينه وبيين الإرسال والسدل، فهو قال مالك في سماع القرينیں من كتاب الصلاة الأول، وقل أشهب في رسم من شكّ في طوافه من سماع ابن القاسم من ﴿جامع العُتبّية﴾، وذهب إلیه طائفة منهم الأوزاوي إمام أهل الشام، وأما القول بمنعه فيها، فهو إحدی روايتي العراقيين من أصحبانا، وقد تقدمت روایتهم الأخری، وهذا القول وإن حكاه الباجی، ومَن تبعه كابن عرفة من الشذوذ بمکان، كما لا يخفي علی مَن وقف علی كلام أئمة هذا الشأن، هذا إن حُمل المنع فيه علی ما يتبادر منه من التحريم كما هو مقتضي حكايته مقابلاً للقول بالكراهة، وكلام الأبي في ﴿إكمال الإكمال﴾، والقاضي أبي العباس القلشاني في ﴿شرح مختصر ابن حاجب﴾ کالصريح في ذلك، أما إن حُمل علی الكراهة، وهو الظاهر من جهة المعني، فهو راجع ألی القول الثاني فلا إشكال (ح) والله أعلم، وإذا تقرر الخلاف في أصل المسألة كما تری، وليس أحد من الناس حجة علی صاحبه وجب الرجوع إلی كتاب وسنّة رسوله عليه السلام كما قال تعالی: ﴿فَإِن ﴾، والرد إلی الله هو كتابه ولم نجد فيه آية ترفع الإشكال، ووجدنا سنّة رسول الله ﷺ قد حكمت بمطلوبية القبض في الصلاة بشهادة ما في ﴿الموطأ﴾ و﴿الصحيحین﴾ من الأھاديث السالمة من الطعن فالوجب الانتهاء اليها والقول بمقتضاها، قال الله تعالی: =﴿وما كان لمومن﴾، جعلنا الله من الذین يستمعون القول أحسنة، وممن تمسك بهدي المصطفی عليه السلام وسننه، تتمة يذكر فيها بداية المجتهد.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 31 - 44 نصرة القبض والرد على من أنكر مشروعيته فى صلاة الفرض - محمد بن أحمد بن الحاج المسناوى المالكي الفاسي (المتوفي 1136 ه) - دار ابن حزم، بیروت
---
محمد المكي بن مصطفى بن محمد بن عزوز الحسني الإدريسي المالكي التونسي (المتوفي 1334 ه)
نے ایک کتاب هيئة الناسك في أن القبض في الصلاة هو مذهب الإمام مالك؛ تالیف فرمائی، اور اس کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
أعلم أن وضع (اليد) اليمين علی اليسری عند الصدر أو تحته في قيام الصلاة سنة قائمة محكمة باتفاق المذاهب الأربعة وغیرهم وإمامنا مالك من أولهم في ذلك نشراً وعملاً، وهو أسبق الأئمة إِليها؛ لأنه نشأ في روضة الآثار النبوية، وفيها تربی منذ عرف اليمين (من) الشمال. وهذا مختص بمالك لا مشارك له في ذلك؛ ولهذا ما شيء (في الشريعة) مؤسس علی الحديث النبوي والآثار الصحيحة إِلا ومالك السابق إِليه والمؤثر له علی غيره من السبل.
ومن جملة السنن سنة وضع اليدين لم يفارقها مالك إِلی أن فارق الدنيا كما سيأتي بيانه.
ثم نشأ الخلاف في المالكية بعد القرون الأولی علی ثلاثة أقوال: الاستحباب والكراهة والجواز كما حصله ابن رشد فی البیان نقله عن الثالبي في جامع الأمهات مفصلاً وسياتي بیان رجوع القول بالكراهة والجواز إِلی الاستحباب والسنية؛ ولو علی قول ابن القاسم.
ففي الحقيقة ليس فيه إِلا السنية – ولا كراهة – كما ستقف علی إِیضاحه إِن شاء الله.
وفي بَلاد الغرب قد يسمی القبض في الصلاة (تكفيتاً) وبه عبر بعض المؤلفين من علماء الأندل قديماً.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 54 - 56 هيئة الناسك في أن القبض في الصلاة هو مذهب الإمام مالك - محمد المكي بن مصطفى بن محمد بن عزوز الحسني الإدريسي المالكي التونسي (المتوفي 1334 ه) - دار طيبة للنشر والتوزيع، الرياض
اس میں جہاں جہاں یہ لکھا ہو کہ یہ امام مالکؒ کی روایت نہیں ہے یا یہ روایت ضعیف ہے وہ جگہیں ہائیلائٹ کر دیں۔
مالکیہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امام مالکؒ سے اور روایات بھی ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب سے مضبوط روایت ہے۔ ہاں اس کا معنی بتانے میں بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کا فلاں معنی ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالکؒ کے شاگردوں نے جو معنی بیان کیا ہے وہ امام مالکؒ کی مراد سمجھی جائے گی الا یہ کہ کوئی صریح دلیل موجود ہو۔
رہ گئی مالکیہ کے یہاں فتوے کی بات (جس کے لیے ان حضرات نے بحث کی ہے) وہ ممکن ہے کہ امام مالکؒ کے قول یا روایت مشہورہ پر نہ ہو۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ احناف میں بے شمار مسائل میں فتوی امام ابو حنیفہؒ کے قول پر نہیں ہے، شوافع میں کئی مسائل میں امام شافعیؒ کے قول پر نہیں ہے اور حنابلہ میں کئی مسائل میں فتوی امام احمد کی ضعیف روایات پر ہے۔
لہذا مالکیہ کا موجودہ فتوی الگ بات ہے اور امام مالکؒ کا مسلک الگ چیز ہے۔
یہ جو حوالے آپ نے دیے ہیں میں مدونہ سے لے کر دسوقی، صاوی اور منح الجلیل تک کئی حوالے اس کے خلاف دے سکتا ہوں اور یہ سب نہ صرف مالکی ہیں بلکہ مالکیہ کے بڑے بڑے فقہاء ہیں جن کے اقوال پر مالکیہ میں فتاوی دیے جاتے ہیں (خاص طور پر آپ کے مذکور حوالہ جات کے مصنفین کے مقابلے میں)۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ اصول کہاں ہے؟


(الجزء رقم : 6، الصفحة رقم: 365)
السؤال الثاني من الفتوى رقم ( 1257 )
س2: بعض العلماء يسدل في الصلاة، وبعضهم يقبض، وبعض من يقبض لا يصلي وراء من يسدل، وبعض من يسدل لا يصلي وراء من يقبض فأفتونا بذلك؟
ج2 : ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يضع يده اليمنى على يده اليسرى في الصلاة فريضة أو نافلة ، وبهذا قال جمهور الفقهاء وهو الصواب، وكره مالك ذلك في الفريضة للاعتماد، وأجازه في النافلة، وذكر أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد في كتابه (المقدمات): أن وضع اليدين إحداهما على الأخرى في الصلاة من مستحبات الصلاة، وقال: ومعنى كراهية مالك له أن يعد من واجبات الصلاة ا.هـ. ومع ذلك فاقتداء من يسدل بمن يقبض، واقتداء من يقبض بمن يسدل، كلاهما صحيح باتفاق العلماء.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

یہاں تو یہ لکھا ہوا ہے!
رہی بات مسلک بچانے کے لئے تڑوڑنے مڑوڑنے کی، تو میرے بھائی! ہمارے مسلك کو کسی امتی کے قول سے کوئی حرف نہیں آنے والا! کیوں کہ ہمارا مسلک کی بنیاد کسی امتی کا قول نہیں، بلکہ وحی الہٰی ہے!
بات یہ ہے کہ مالک سے المدونۃ کے علاوہ بھی روایت ہے، جسے مالکیہ نے خود بیان کیا ہے!​

یہ بعض کا مؤقف ہے، میں نے اس کی تفصیل بیان کی ہے، کتابوں کے لنک بھی دیئے ہیں، ان کا مطالعہ کریں!
ویسے بھی ابن القاسم کی روایت کی توضیح بھی بیان کی ہے، انہیں مالکی فقہاء نے!
یہاں لکھی ہوئی بات امام مالکؒ کی بات میں تاویل ہے جسے خود مالکیہ نے تاویل کہا ہے (میں نے نہیں)۔ ضوء الشموع دیکھ لیجیے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بات بنتی نہیں تو بناتے کیوں ہو!
ہمارا مدعا یہ ہے!
البتہ ایک چھوٹا سا سوال ہے اگر جواب عنایت کرنا پسند فرمائیں۔
امام مالكؒ حضرت سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه کی نماز میں ہاتھ باندھنے کی روایت خود موطا میں نقل فرمائی ہے۔ لیکن ان کے اپنے مسلک کی سب سے مشہور اور مضبوط روایت ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی ہے جیسا کہ ابن عبد البر اور بہت سارے معروف مالکی فقہاء نے نقل کیا ہے۔
تو کیا۔۔۔ وحی کی پیروی کرنے والوں کی نظر میں امام مالکؒ کی نماز اللہ کے ہاں مقبول ہوگی؟؟؟
امام مالک سے بلا عذر اس کا ثبوت مجھے اب تک نہیں ملا!
اگر آپ کے پاس امام مالک سے اس کا کوئی ثبوت ہوتو مجھے دیجیئے گا!
ہم نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ امام مالک کا مؤقف موطا امام مالک میں از خود درج کردہ حدیث کے خلاف نہیں! فتدبر!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں لکھی ہوئی بات امام مالکؒ کی بات میں تاویل ہے جسے خود مالکیہ نے تاویل کہا ہے (میں نے نہیں)۔ ضوء الشموع دیکھ لیجیے۔
ہاں تو!
تاویل کا معنی شرح و تفسیر ہے، اور یہ امام مالک کی دیگر روایت کے پیش نظر کی گئی ہے! اور اس طرح امام مالک کا اپنی موطا میں درج کردہ حدیث اور اور اس پر باب قائم کرکے اپنے مؤقف کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے!
چلیں ایک کام اور کریں!
امام مالک کے کسی شاگرد سے امام مالک کی یہ روایت دکھلا دیں کہ امام مالک نے اسے یہ روایت پڑھائی ہے، اور کہا ہو کہ یہ منسوخ ہے، یا ضعیف ہے، یا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بات بنتی نہیں تو بناتے کیوں ہو!
ہمارا مدعا یہ ہے!


ہم نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ امام مالک کا مؤقف موطا امام مالک میں از خود درج کردہ حدیث کے خلاف نہیں! فتدبر!
میں نے آپ کو اس کا ثبوت بالسند دیا تھا:
قال: وقال مالك: في وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة؟ قال: لا أعرف ذلك في الفريضة وكان يكرهه ولكن في النوافل إذا طال القيام فلا بأس بذلك يعين به نفسه
یہاں پہلے قائل ابن القاسم ہیں۔ چنانچہ ترجمہ ہوگا: "(ابن القاسم نے) کہا: مالک نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کے بارے میں کہا: میں اسے فرض (نماز) میں نہیں پہچانتا اور وہ اسے ناپسند کرتے تھے لیکن نوافل میں جب قیام طویل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے اپنی مدد کرے۔"
اس سند کی تفصیل بھی سن لیجیے!
سحنون مالكيؒ:
عَبْد السلام بْن سَعِيد بْن حبيب، شيخ المغرب، أَبُو سَعِيد التّنوخيّ الحمصيّ، ثُمَّ القيروانيّ الفقيه المالكيّ سَحْنُون، [الوفاة: 231 - 240 ه]
قاضي القيروان، ومصنف المدوَّنة.
رحل إلى مصر وقرأ عَلَى ابن وَهْب، وابن القاسم، وأشهب. وبرعَ فِي مذهب مالك. وعلى قوله المعوَّل بالمغرب.
انتهت إِلَيْهِ رئاسة العِلم بالمغرب، وتفقّه بِهِ خلق كثير. وقد تفقّه أولا على ابن غانم، غيره بإفريقية، ورحلَ فِي العِلم سنة ثمانٍ وثمانين ومائة. وسمع بِمكة من سُفْيَان بْن عُيَيْنَة، ووَكيِع، والوليد بْن مُسْلِم. وكان موصوفًا بالدّيانة والورع، مشهورًا بالسّخاء والكَرَم. فعن أشهب قَالَ: ما قَدِمَ علينا مثلُ سَحْنُون.
وعن يُونس بْن عَبْد الأعلى قَالَ: سَحْنُون سيّد أهل المغرب.
وَرَوَى عَنْهُ: جماعة، منهم يحيى بْن عَمْرو، وعيسى بْن مسكين، وحمديس، وابن المغيث، وابن الحداد.
وعن ابن عجلان الأندلسي قال: ما بُورك لأحدٍ بعد النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فِي أصحابه ما بُورِكَ لسَحْنُونَ في أصحابه، فإنهم كانوا في كل بلد أئمة. [ص:868]
وعن سحنون قال: من لم يعمل بعلمه لم ينفعه علمه بل يضره.
وقال: إذا أتى الرجلُ مجلس القاضي ثلاثة أيّام متوالية بلا حاجة ينبغي أن لا تُقْبَلُ شهادته.
وسُئِلَ سَحْنُون: أَيَسَعُ العالِم أن يَقُولُ: لا أدري فيما يدري؟ فقال: أمّا ما فِيهِ كتاب أو سنة بائنة فلا. وأمّا ما كَانَ من هذا الرأي فإنّه يَسَعُهُ ذَلِكَ؛ لأنه لا يدري أَمُصيبٌ هُوَ أَمْ مخطئ.
قال أحمد بن خالد: كان محمد بن وضاح لا يفضل أحدا ممن لقي على سُحْنُون في الفقه، وتصنيف المسائل.
وعن سحنون قال: أَكْلُ بالمسكنة خيرٌ من أكْلٍ بالعِلم.
محبّ الدنيا أعمى لم ينوره العلم.
ما أقبحَ بالعالِم أن يأتي الأمراء فيُقال هو عند الأمير. والله ما دخلت قط على السلطان إلا وإذا خرجت حاسبتُ نفسي، فوجدتُ عليها الدرك. وأنتم ترون مخالفتي لهواه، وما ألقاه به من الغلظة - والله ما أخذتُ لَهم دِرْهَمًا، ولا لبستُ لَهم ثوبا.
وقيل إن الرواة عن سحنون بلغوا تسعمائة إنسان.
وكان مولده سنة ستين ومائة.
وكان يقول: قبح الله الفقر. أدركنا مالكا، وقرأنا عَلَى ابن القاسم. وأمّا المدوّنة فأصلها أسئلة، سألَها أَسَد بْن الفُرات لابن القاسم. فلمّا رَحَل بِها سَحْنُون عرضها عَلَى ابن القاسم، وأصلح فيها كثيرًا، ثُمَّ رتّبها سَحْنُون وبَوَّبَها، واحتجّ لكثير من مسائلها بالآثار.
وتوفي في رجب سنة أربعين، وله ثمانون سنة.
(تاریخ الاسلام للذہبی)

ابن القاسمؒ:
عَبْد الرحمن بْن القاسم بْن خَالِد بْن جُنادة، الإمام أبو عَبْد الله، العُتَقيُّ مولاهم، الْمَصْرِيّ الفقيه. [الوفاة: 191 - 200 ه]
أحد الأعلام، وأكبر أصحاب مالك القائمين بمذهبه، سَمِعَ منه، ومن نافع بْن أَبِي نُعَيْم، وعبد الرحمن بْن شُرَيح، وبكر بْن مُضَر، وجماعة.
وَعَنْهُ: أصْبَغ بْن الفَرَج، وأبو الطّاهر بْن السّرْح، والحارث بْن مِسْكين، ومحمد بْن عَبْد اللَّه بْن عَبْد الحَكَم، وعيسى بْن مَثْرُود، وآخرون.
وقد أنفق أموالا جمَّه في طلب العِلْم.
قَالَ النَّسَائيّ: ثقة مأمون، أحد الفقهاء.
وعن مالك أنّه ذُكر عنده ابن القاسم فقال: عافاة الله، مثله كمثل جراب مملوءٍ مِسكًا.
وقيل: إنّ مالكًا سُئل عَنِ ابن القاسم وابن وهب، فقال: ابن وهب رجل عالم، وابن القاسم فقيه.
(تاریخ الاسلام للذہبی)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہاں تو!
تاویل کا معنی شرح و تفسیر ہے، اور یہ امام مالک کی دیگر روایت کے پیش نظر کی گئی ہے! اور اس طرح امام مالک کا اپنی موطا میں درج کردہ حدیث اور اور اس پر باب قائم کرکے اپنے مؤقف کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے!
چلیں ایک کام اور کریں!
امام مالک کے کسی شاگرد سے امام مالک کی یہ روایت دکھلا دیں کہ امام مالک نے اسے یہ روایت پڑھائی ہے، اور کہا ہو کہ یہ منسوخ ہے، یا ضعیف ہے، یا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا!
اسے کہتے ہیں تاویل در تاویل۔۔۔۔۔!!
مالکیہ کو آپ کو اپنا سربراہ بنا لینا چاہیے فتوے کا۔ سارے فتوے اسی اسٹائل پر دیجیے گا یہی دلائل دے کر۔ سب مالکی علماء حیران (اور پریشان بھی) رہ جائیں گے۔
ویسے:
امام مالک کے کسی شاگرد سے امام مالک کی یہ روایت دکھلا دیں کہ امام مالک نے اسے یہ روایت پڑھائی ہے، اور کہا ہو کہ یہ منسوخ ہے، یا ضعیف ہے، یا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا!
مالکی فقہ کے حوالے سے یہ اصول کس نے بیان کیا ہے؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سند کی تفصیل بھی سن لیجیے!
سحنون مالكيؒ:
عَبْد السلام بْن سَعِيد بْن حبيب، شيخ المغرب، أَبُو سَعِيد التّنوخيّ الحمصيّ، ثُمَّ القيروانيّ الفقيه المالكيّ سَحْنُون، [الوفاة: 231 - 240 ه]
قاضي القيروان، ومصنف المدوَّنة.
رحل إلى مصر وقرأ عَلَى ابن وَهْب، وابن القاسم، وأشهب. وبرعَ فِي مذهب مالك. وعلى قوله المعوَّل بالمغرب.
انتهت إِلَيْهِ رئاسة العِلم بالمغرب، وتفقّه بِهِ خلق كثير. وقد تفقّه أولا على ابن غانم، غيره بإفريقية، ورحلَ فِي العِلم سنة ثمانٍ وثمانين ومائة. وسمع بِمكة من سُفْيَان بْن عُيَيْنَة، ووَكيِع، والوليد بْن مُسْلِم. وكان موصوفًا بالدّيانة والورع، مشهورًا بالسّخاء والكَرَم. فعن أشهب قَالَ: ما قَدِمَ علينا مثلُ سَحْنُون.
وعن يُونس بْن عَبْد الأعلى قَالَ: سَحْنُون سيّد أهل المغرب.
وَرَوَى عَنْهُ: جماعة، منهم يحيى بْن عَمْرو، وعيسى بْن مسكين، وحمديس، وابن المغيث، وابن الحداد.
وعن ابن عجلان الأندلسي قال: ما بُورك لأحدٍ بعد النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فِي أصحابه ما بُورِكَ لسَحْنُونَ في أصحابه، فإنهم كانوا في كل بلد أئمة. [ص:868]
وعن سحنون قال: من لم يعمل بعلمه لم ينفعه علمه بل يضره.
وقال: إذا أتى الرجلُ مجلس القاضي ثلاثة أيّام متوالية بلا حاجة ينبغي أن لا تُقْبَلُ شهادته.
وسُئِلَ سَحْنُون: أَيَسَعُ العالِم أن يَقُولُ: لا أدري فيما يدري؟ فقال: أمّا ما فِيهِ كتاب أو سنة بائنة فلا. وأمّا ما كَانَ من هذا الرأي فإنّه يَسَعُهُ ذَلِكَ؛ لأنه لا يدري أَمُصيبٌ هُوَ أَمْ مخطئ.
قال أحمد بن خالد: كان محمد بن وضاح لا يفضل أحدا ممن لقي على سُحْنُون في الفقه، وتصنيف المسائل.
وعن سحنون قال: أَكْلُ بالمسكنة خيرٌ من أكْلٍ بالعِلم.
محبّ الدنيا أعمى لم ينوره العلم.
ما أقبحَ بالعالِم أن يأتي الأمراء فيُقال هو عند الأمير. والله ما دخلت قط على السلطان إلا وإذا خرجت حاسبتُ نفسي، فوجدتُ عليها الدرك. وأنتم ترون مخالفتي لهواه، وما ألقاه به من الغلظة - والله ما أخذتُ لَهم دِرْهَمًا، ولا لبستُ لَهم ثوبا.
وقيل إن الرواة عن سحنون بلغوا تسعمائة إنسان.
وكان مولده سنة ستين ومائة.
وكان يقول: قبح الله الفقر. أدركنا مالكا، وقرأنا عَلَى ابن القاسم. وأمّا المدوّنة فأصلها أسئلة، سألَها أَسَد بْن الفُرات لابن القاسم. فلمّا رَحَل بِها سَحْنُون عرضها عَلَى ابن القاسم، وأصلح فيها كثيرًا، ثُمَّ رتّبها سَحْنُون وبَوَّبَها، واحتجّ لكثير من مسائلها بالآثار.
وتوفي في رجب سنة أربعين، وله ثمانون سنة.
(تاریخ الاسلام للذہبی)

ابن القاسمؒ:
عَبْد الرحمن بْن القاسم بْن خَالِد بْن جُنادة، الإمام أبو عَبْد الله، العُتَقيُّ مولاهم، الْمَصْرِيّ الفقيه. [الوفاة: 191 - 200 ه]
أحد الأعلام، وأكبر أصحاب مالك القائمين بمذهبه، سَمِعَ منه، ومن نافع بْن أَبِي نُعَيْم، وعبد الرحمن بْن شُرَيح، وبكر بْن مُضَر، وجماعة.
وَعَنْهُ: أصْبَغ بْن الفَرَج، وأبو الطّاهر بْن السّرْح، والحارث بْن مِسْكين، ومحمد بْن عَبْد اللَّه بْن عَبْد الحَكَم، وعيسى بْن مَثْرُود، وآخرون.
وقد أنفق أموالا جمَّه في طلب العِلْم.
قَالَ النَّسَائيّ: ثقة مأمون، أحد الفقهاء.
وعن مالك أنّه ذُكر عنده ابن القاسم فقال: عافاة الله، مثله كمثل جراب مملوءٍ مِسكًا.
وقيل: إنّ مالكًا سُئل عَنِ ابن القاسم وابن وهب، فقال: ابن وهب رجل عالم، وابن القاسم فقيه.
(تاریخ الاسلام للذہبی)
میں نے اس کی سند پر نہ کوئی کلام کیا ہے، اور نہ اس کی حاجت ہے!
لہٰذا اس بحث میں میں نہیں جاتا، کہ سخنون کا روایت میں کیا مقام ہے!
اس روایت کو درست تسلیم کرتے ہوئے امام مالک سے ہی دوسری روایت پر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا!
پوری بحث کو دیکھ لیں!
امام مالک سے اس روایت کے علاوہ بھی راویت بیان کی گئی ہے! جس کا شاید آپ کو علم نہ تھا، یا شاید دانستہ یا غیر دانستہ نظر انداز فرما رہے ہیں!
اسے کہتے ہیں تاویل در تاویل۔۔۔۔۔!!
مالکیہ کو آپ کو اپنا سربراہ بنا لینا چاہیے فتوے کا۔ سارے فتوے اسی اسٹائل پر دیجیے گا یہی دلائل دے کر۔ سب مالکی علماء حیران (اور پریشان بھی) رہ جائیں گے۔
میاں جی! یہ تاویل اہل الرائے کی تاویل نہیں ہے کہ متن کا انکار لازم آئے اور تاویل تحریف و انکار ٹھہرے!
یہ تاویلات اہل السنۃ وا اہل الاثر ہے! جس میں متن کا انکار و تحریف نہیں ، بلکہ تفسیر و شرح ہوتی ہے!
مالکی فقہ کے حوالے سے یہ اصول کس نے بیان کیا ہے؟؟؟
کون سا اصول؟
میں نے تو کسی اصول و قاعدہ کا یہاں ذکر بھی نہیں کیا!
بس ایک بات پوچھی ہے!
آپ نے اس سے اصول کیا اخذ کیا ہے؟
میرے کلام سے آپ کا ماخوذ اصول ہی بیان کر دیں! کہ آپ نے یہاں سے کون سا اصول اخذ کر لیا؟

لیکن آپ نے بتایا نہیں!
یہاں ابن القطانؒ وغیرہ کی مدونہ پر جرح نقل نہیں کیجیے تو بہتر ہے کہ وہ ایک تو مالکی نہیں ہیں اور مالکی فقہاء امام مالکؒ کی فقہ کو زیادہ جانتے ہیں دوسرا اس کتاب سے ان کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث کی کتاب نہیں ہے، یہ امام مالکؒ کی آراء کی کتاب ہے۔
یہ اصول کہاں ہے؟
 
Top