• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اسلام اﷲ کا دین ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
15037300_1101938236583739_6152091910301618113_n.jpg

کیا اسلام ﷲ کا دین ہے ؟

تحریر : محمّد سلیم

"حضرت انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جنت ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور جہنم نفسانی خواہشات سے ڈھکی ہوئی ہے ۔"

صحیح مسلم ۔ کتاب الجنتہ و صفتہ نعیمھا ۔

اس حدیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جنت میں جانے کے لئے ہر وہ کام کرنا ضروری ہے جو انسانی نفس پہ بھاری ہوتا ہے اور جہنم میں جانے کے لئے نفس کی پیروی کافی ہے ۔

کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام کوئی آسمانی مذہب نہیں بلکہ یہ کچھ انسانوں کا سوچا سمجھا پلان تھا جس نے ایک معاشرے کو اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ آیئے ذرا اس سوچ کو عقل و شعور کے پیمانے پہ پرکھتے ہیں ۔

سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام اپنے خالق کو اور اپنے ماننے والوں کو دے کیا رہا ہے ۔

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد صلی ﷲ علیہ وسلم ہی اس دین کے خالق ہیں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اس سے کیا مالی و معاشرتی فوائد حاصل ہوئے ؟

اگر آپ آج سے 1400 سال پیچھے چلے جائیں تو پتہ چلے گا کہ اسلام کا آغاذ انتہائی غربت سے ہوا ۔ حضرت عائشہ رض روایت کرتی ہیں کہ خود نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے گھر تین تین دن چولہا نہیں جلتا تھا ۔

پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم پہ پوری زندگی کوئی ایک بھی سال ایسا نہیں گزرا جب آپ کو زکات ادا کرنی پڑی ہو ۔ کبھی ضرورت سے زیادہ مال آجاتا تو رات گزارنی بھاری ہو جاتی جب تک اس مال کو تقسیم نہ کر دیتے ۔ یعنی مالی حالت اس قابل نہ تھی جس کے متعلق یہ گمان ہو کہ یہ تھا وہ ہدف جس کو پانے کے لئے دینِ اسلام کو تخلیق کیا گیا ۔

اب آجائے جسمانی فوائد پر :

نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں گیارہ نکاح فرمائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے فائدہ تصور کیا جائے تو کیا اس فائدے کے حصول کی یہی ایک صورت تھی ؟ جی نہیں ۔ عرب معاشرے میں کثرتِ ازواج اور لونڈیوں سے ازدواجی تعلق کا رجحان تو پہلے سے موجود تھا ۔ اور اس کے لئے کسی قسم کی پابندی بھی نہ تھی ۔ دین تو انسان کو بیوی کی حاجات اور ضروریات پوری کرنے کا پابند بناتا ہے جبکہ کہ عربوں میں جو رواج پہلے موجود تھے ان میں بغیر کسی پابندی کے اس سے کہیں زیادہ خواتین سے لطف اندوز ہوا جا سکتا تھا ۔ تو پھر کسی دین کی تخلیق کیوں ضروری تھی ؟ یہ بات عقل و شعور کے معیار پر کسی طور پوری نہیں اترتی ۔

معاشرتی زاویہ :

معاشرتی زاویہ سے اگر دیکھیں تو حضرت محمّد صلی ﷲ علیہ وسلم عرب کے سب سے معزز قبیلے قریش کے معزز خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہوئے ۔ خانۂ کعبہ جو پوری دنیا کے مذاہب کی عبادت کا مرکز تھا کی کنجیاں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے پاس ہوا کرتی تھیں ۔ لہٰذا اگر اس مناسبت سے بھی جائزہ لیا جائے تو نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت سے کوئی ایسا دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہوا جس کو ان کے اعلانِ نبوت کا سبب قرار دیا جا سکے ۔ بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان کی سیدھی سادھی اور آسان ترین زندگی ایک مشکل ترین زندگی میں تبدیل ہو گئی ۔

اب اس سارے معاملے کا ایک دوسرے پہلو سے جائزہ لیتے ہیں :

اگر کوئی شخص کوئی نیا عقیدہ یا کوئی نیا دین دنیا میں متعارف کرواتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہو کہ اس کے بتائے ہوئے دین کو زیادہ سے زیادہ لوگ اپنائیں تو اسے کیا سہولیات لوگوں کو دینی چاہئیں ؟

1 ۔ اس دین میں امراء کو شامل کرنا چاہئے اور غرباء کے لئے بھی سہولیات کا سامان ہونا چاہئے ۔

مگر دینِ اسلام کو شروع میں اپنانے والوں میں غرباء کی کثرت تھی ۔

ایک حدیث کے مطابق ایک صحابی نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے پوچھا ۔ کیا ایک کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے ؟ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا ۔ کیا تم لوگوں میں کسی کے پاس دو کپڑے بھی ہیں ؟

غزوۂ بدر جن لوگوں نے لڑا انہوں نے بھوک کی شدت سے پیٹ پہ پتھر باندھ رکھے تھے ۔ 313 مسلمان تھے یہ ساری دنیا جانتی ہے مگر ان 313 میں سے لڑنے کے روایتی ہتھیار یعنی تلواریں صرف 18 افراد کے پاس تھیں ۔ باقی سب کا انحصار غیر روایتی ہتھیار مثلاً ڈنڈے, پتھر اور کچھ ایسے تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے ۔ اور جن لوگوں سے مقابلہ تھا وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے ۔

اگر میں یہ فرض کر لوں کہ ان تمام لوگوں کو آگے چل کر ملنے والی حکمرانی کا لالچ دے کر میدان میں لایا گیا تھا تو اس بات کی ضمانت کس طرح دی گئی کہ ایک ہزار مشرکین و کفار جو کہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے کے مقابلے میں فتح تین سو تیرہ تقریباً نہتے مسلمانوں کا ہی مقدر بنے گی ؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا عقلمند نہ تھا ان میں جو یہ سوال پوچھتا کہ بچیں گے تو حکمران بنیں گے ؟ اور پھر بعد میں جو حکمران بنے انہوں نے کیا فوائد حاصل کئے ؟ شروع کے چار خلفائے راشدین میں ایک ہی مالدار شخصیت حضرت عثمان غنی رض کی تھی جن کا مال ان کے دورِ خلافت میں بڑھا نہیں بلکہ کم ہی ہوا ۔

2 ۔ ظلم و ستم کی انتہا :

اوائلِ اسلام میں جس نے بھی اسلام قبول کیا اس پر مکہ کے مشرکین اور کفار نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چچا انہیں کھجور کے پتوں کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے آگ کا دھواں دیتا ۔ جرم کیا تھا ؟ قبولِ اسلام ۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ ان کو امیہ گلے میں رسی باندھ کر رسی کا سرا بچوں کو پکڑا دیتا اور وہ ان کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے ۔ کئی کئی دن بھوکا رکھا جاتا ۔ ان کو تپتی ہوئی ریت پہ لٹایا جاتا ۔ جرم کیا تھا ؟ قبولِ اسلام ۔

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ سمیہ رضی عنہا کو ابو جہل نے ان کی شرم گاہ میں نیزہ گھونپ کر ہلاک کر ڈالا ۔ جرم کیا تھا ؟ قبولِ اسلام ۔

عمار کے والد یاسر کو بھی تپتی ریت میں ننگا کر کے لٹایا جاتا جس کو وہ سہہ نہ سکے اور شہید ہو گئے ۔ ان کا جرم کیا تھا ؟
قبولِ اسلام ۔

عمار بن یاسر پر بھی ظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی ۔

یہ تھے وہ انعام و اکرام جو اسلام قبول کرنے کے عوض ملا کرتے ۔ کیا خاصیت تھی اس پیغام میں کہ جو اسے قبول کرتا وہ جل مرنے کو تو راضی ہو جاتا مگر دین چھوڑنے پہ کسی طور راضی نہ ہوتا ؟

سہولیات کیا تھیں ؟

صبح صبح سخت سردی میں اپنی نیند خراب کر کے اٹھو اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے (غسل یا ) وضو کر کے نماز پڑھو ۔ پھر یہاں بات ختم نہیں ہوتی ۔ دوپہر ہو تو دوبارہ ظہر کی نماز ادا کرو ۔ سہہ پہر کو پھر شام کو اور رات کو جب نیند اپنے عروج پر ہو تو نماز ادا کر کے سو جاؤ ۔پھر آدھی رات گزرنے پر دوبارہ اٹھ کر تہجد بھی پڑھنی ہے ۔ رمضان میں فجر سے لے کر مغرب تک نہ کھانا کھانا ہے نہ پانی پینا ہے ۔ حج کرنا ہے ۔ پرائی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا ۔ اپنے کمائے ہوئے مال سے غریبوں کا حصہ زکات یا صدقات کی صورت میں نکالنا ہے ۔ شراب جیسی نشہ آور چیز جس میں عرب گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے ہوئے تھے اسے یکسر چھوڑ دینا ہے ۔

غرض ہر وہ کام جو انسان کی خواہش ہوتا ہے ۔ جس میں اس کی تمام تو دلچسپیوں کا سامان ہوتا ہے ۔ اسے چھوڑنا ہے اور ہر وہ کام جو تکلیف دہ ہے ۔ نفس کے خلاف ہے اسے اپنانا ہے ۔

بدلے میں ملے گا کیا ؟ جنت ۔ کب ؟ مرنے کے بعد جب دوبارہ زندہ ہوں گے تب ۔

اور اس زندگی میں ؟ صرف تکالیف اور مصائب ۔

کیا یہ کوئی بہتر پلان تھا جس سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکتا تھا ؟ کیا دنیا کا کوئی ایک بھی کاروباری شخص مجھے اس قسم کے پلان پر اپنی کوئی پراڈکٹ مارکیٹ میں متعارف کر کے دکھا سکتا ہے ؟ ہم سے تو ریزر کا بلیڈ نہیں بکتا جب تک اس میں ایک عدد خوبصورت لڑکی نہ دکھا دیں ۔ تو پھر یہ کس انسان کا پلان تھا جس نے عورت کو سر تا پا پردے سے ڈھک دیا پھر بھی دنیا کا کامیاب ترین پلان ؟

اور اگر اب بھی کسی کو لگتا ہے کہ یہ خالقِ حقیق کی جگہ کسی انسان کا سوچا ہوا منصوبہ تھا تو اسے دہرا کر دکھا دیں ۔

یعنی اعتماد کا یہ عالم کہ جس وقت اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی اس وقت یہ آیات پیش کر دیں ۔

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰهِ وَالۡفَتۡحُۙ‏ ﴿۱﴾ وَرَاَيۡتَ النَّاسَ يَدۡخُلُوۡنَ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اَفۡوَاجًا ۙ‏ ﴿۲﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَاسۡتَغۡفِرۡهُ‌ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا‏ ﴿۳﴾


یعنی پہلے سے پتہ تھا کہ لوگ فوج در فوج اس دین میں داخل ہوں گے ؟

پھر جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی اس کا نام قرآن رکھا گیا ۔ یعنی سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ۔ کس کو پتہ تھا نزولِ قرآن کے وقت کے یہ کتاب دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن جائے گی ؟

آج میں یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں ۔ مجھے نہیں پتہ کتنے لوگ اس پوسٹ کو پسند کریں گے ۔ اس پوسٹ کے لائیکس پچاس ہوں گے یا سو میں آج نہیں جانتا ۔ کیا میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ پوسٹ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹ بنے گی ۔ یقیناً نہیں ۔ مگر قرآن کا خالق پہلے سے جانتا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہو گی ۔ کیسے ؟ کون سی سائنس ہے اس کے پیچھے ؟

اگر دینِ اسلام اور قرآن اللہ تعالیٰ کی بجائے کسی انسان کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اعتماد کا یہ عالم نہ ہوتا ۔

(ایک ضروری بات : میں وقت کی شدید کمی کا شکار ہوں لہٰذا اپنے پیج اور کچھ گروپس کے علاوہ کسی اور گروپ میں اپنی پوسٹ شیئر نہیں کر سکتا ۔ لیکن میری تمام پوسٹس تمام مسلمانوں کے لئے حاضر ہیں ۔ جو چاہے جب چاہے ان کو شیئر کرے کاپی کر لے اور پیسٹ کر لے ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ بے شک میرا نام مٹا کر اپنا نام ڈال لے مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ صرف اتنا تعاون درکار ہے کہ جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ اس پوسٹ کو پڑھا جانا چاہئے وہاں اسے خود شیئر کر لیں ۔ شکریہ )

 
Top