• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس روایت میں خلف کا تعین ہوتا ہے

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق
سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اونٹ پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا گذرہوا ان کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے ایک بھائی تھے۔ان میں سے ایک اونٹ کوچلارہاتھا اور دوسرا ہانک رہا تھا۔تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہوسواری اور سوار پر نیز چلانے والے اور ہانکنے والے پر [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات ]

کیا اس روایت میں خلف کا تعین ہے


اسی فورم پر اس روایت کو پیش کر کے یہ کہا گیا اس روایت میں خلف کا تعین "خلف بن ہشام کے طور پر ہوا ہے
جبکہ میری معلومات تک یہ روایت اس خلف کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس میں اس خلف کا تعین نہیں ہوتا ہےاس خلف کے تعین کے لئے جو دلائل دیئے گئے ہیں اس کو ذیل میں نقل کر کے اس کا رد پیش کرتے ہیں
دلیل1: امام بلاذری کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کا نام ملتا ہے اور امام بلاذری نے اپنی کتاب میں پچاس(50) مقامات پر اپنے اس شیخ کا نام مع والد(خلف بن ہشام)لکھا ہے اور بتیس(32)مقامات پرلقب (البزار)کے ساتھ (خلف بن ہشام البزار) لکھا ہے۔ پھر بھی کوئی کہے کہ خلف کا اتا پتہ نہیں تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
جواب: کتب الرجال میں امام بلاذری کے اساتذہ میں صرف ایک خلف بن ہشام کا نام ضرور ہے مگر امام بلاذری نے انساب میں صرف ایک خلف بن ہشام سے ہی روایت نہیں کی ہے یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے یہاں ہم بلاذری سے امام بلاذری کے ایک اور خلف نامی استاذ کی سند کو پیش کر رہے ہیں

حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ (بْنُ جرير) قال: قال أبي- وأحسبه رواه عن الحسن البصري- قال:
لما بلغ أهل الكوفة(انساب الاشراف للبلاذری 3/51)
حَدَّثَنَا
خَلَفُ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْحَنْظَلِيِّ، قَالَ(انساب الاشراف للبلاذری2/434)
حَدَّثَنَا
خلف بْن سالم، وأحمد بْن إِبْرَاهِيمَ، قالا حدثنا وهب ابن جَرِيرٍ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءَ:
عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ الزُّبَيْرِيِّ عَنْ أَشْيَاخِهِ قَالُوا: لَمَّا وَقَعَتِ الفتنة
(انساب الاشراف للبلاذری2/283)

یہ چند روایات کی سند ہم نے مثال کے طور پر پیش کی ہیں خلف بن سالم سے متعدد روایات بلاذری میں موجود ہیں جو امام بلاذری کے استاذ ہیں اور موصوف خود یہ مانتے ہیں کہ جیسا اگے آرہا ہے کہ" استاذ و تلامذہ کا استعیاب نہیں کیا گیا ہے" تو اس روایت میں خلف سے مراد خلف بن سالم بھی ہو سکتا ہے کسی اور خلف کا ہونا بھی ممکن ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
دلیل 2:

حیرت ہے کہ موصوف نے کہا کہ خلف کی تذکرہ عبدالوارث کے تلامذہ میں نہیں ملتا اور عبدالوارثکے تلامذہ میں خلف کا تذکرہ نہیں ملتا۔۔
اور اس بنا پر موصوف نے خلف کی غیر معلوم کہنے کی کوشش کی ۔
عرض ہے کہ کیا اسی منطق سے عبدالوارث بن سعید کو بھی غیر معلوم کہہ دیا جائے ؟ یہی کہتے ہوئے کہ عبدالوارث کے تلامذۃ میں خلف کا ذکر نہیں ملتا اور خلف کے تلامذہ میں عبدالوارث کا ذکر نہیں ملتا؟
اگر کہا جائے کہ عبدالوارث کے استاذ جو سعید ہیں ان سے عبدالوارث کا تعین ہو جاتا ہے کیونکہ سعید کے تلامذہ میں عبدالوارث کا ذکر ملتا ہے تو ٹھیک اسی طرح خلف کے جو شاگرد امام بلاذری ہہیں ان سے بھی خلف کا تعین ہو جاتا ہے کیونکہ امام بلاذری کے اساتذہ میں خلف بن ہشام کا تذکرہ ملتا ہے دیکھئے(سیر اللام النبلاء)
لہذا جب خلف کے شاگرد سے خلف کا تعین ہو گیا اور عبدالوارث کے استاذ سے عبدالوارث کا تعین ہو گا اور ان دونوں کے بیچ تحدیث ہے جو خود ان دونوں کے بیث شاکگرد و استاذ کے رشتہ کی صریح دلیل ہے تو اب الگ سے ان کے بیچ اس رشتہ کے کہیں اور تذکرہ کی تلاش کی ضرورت کیوں پڑی؟
اگر ان دونوں کے بیچ عن کا صیغہ ہوتا تو ایک شبہ ہوسکتا تھا کہ ان کونوں کیآپس میں اس سند میں واضح طور دونوں کے بیچ سماع کی صراحت موجود ہے تو مذید قیل و قال کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے
جواب: اس روایت میں عبدالوارث کا نام بمعہ والد کے پورا نقل ہوا ہے اور سعید بن جمھان کے تلامذہ میں بھی واضح طور پر اس کا پورا نام موجود ہے جس سے اس کا تعین بآسانی ہو تا ہے مگر خلف میں اگر یہ خلف بن ہشام ہے تو امام بلاذیری نے اس کا نام بمعہ لقب یا ان سے والد کے نام کے ساتھ پورا پیش نہیں کیا صرف خلف کے نام سے نقل کیا اور خلف نام کے دو استاذ امام بلاذری کی کتاب میں موجود ہے جیسا ہم نقل کر آئے ہیں یہ وجہ ہے کہ سعید بن جمھان کے تلامذہ عبدالوارث کا تعین ہوتا ہے مگر اس طرح سے امام بلاذری کے استاذ میں خلف کا نام آنے سے اس کا تعین ممکن نہیں ہے
دلیل 3
اور ماتم تو یہ ہے کہ آنکھوں کے سامنے سند کے اندر ہی یہ رشتہ ثابت ہوجانے کے بعد یہ حضرت الگ سے قیل و قال تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ قیل و قال اس طرح کی دلیل دیکھ کر ہی صادر ہوتے ہیں تو جب سامنے صریح دلیل موجود ہے تو صریح دلیل کے ہوتے ہوئے اس کے مطابق کسی فتوی کی تلاش کیوں؟
یہ تو ایسے ہی ہوا کہ کوئی صحیح اور صریح حدیث مل جاے تو یہ کہا جاے کہ اس کے مطابق کسی نے فتوی نہیں دیا اس لئے اس صریح دلیل کو نہیں مانا جائے گا اس بابت قدرے تفصیل سے ہمار کتاب انوار البدر کےاخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
علاوہ بریں یہ بات بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اساتذہ اور تلامذۃ کے رشتوں کے باین کرنے میں کسے نے استیعاب کا دعوی نہیں کیا ہے بلکہ کسی نے استیعاب کی کوشش بھی نہیں کی ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے ۔
معلوم ہوا کہ کسی بھی محدث نے کسی راوی کے تلامذۃ یا استاتذہ کے ذکر کرنے میں استیعاب کا دعوی نہیں کیا ہے نیز کسی نے جو مختصر فہرست پیش بھی کی تو مشہو ر مصنفات حدیث کو سامنے رکھتے ہیں پیش کی ہے نہ کہ اس کے لئےکتب انساب اور کتب تاریخ کو بھی کھنگال ڈالا ہے ۔
اس لئے کتب انساب وغیر میں تلامذہ و اساتذہ کے ایسے رشتہ بھی سامنے آسکتے ہیں جن کا تذکرہ کسی محدث نے نہیں کیا بلکہ کتب حدیث میں بھی ایسے رشتے سامنے آتے رہتے ہیں اور کوئی بھی صاحب علم ان رشتوں کا انکار نہیں کرتافتدبر۔
جواب:
اس کے الگ سے قیل و قال کی ضرورت اس لے محسوس ہوئی ہے کہ اس میں خلف کا تعین نہیں ہے اور موصوف یہ خود مانتے ہیں کہ استاذ تلامذہ کا استیعاب نہیں کیا گیا تو پر جب اس روایت میں نام پوری طرح واضح نہیں ہے تو پھر اس میں صرف خلف کے نام سے خلف بن ہشام کا تعین کیسے کر رہے ہیں جبکہ اگر یہ "خلف" خلف بن ہشام ہوتا تو امام بلاذری اس کو خود کیونکر نہ واضح کر دیا ہے یہ خلف بن ہشام ہے کیونکہ ان سے خلف بن سالم نے بھی روایت کی ہے
مگر انہوں نے صرف خلف کا نام دیا ہے تو پھر اس خلف کا اسی طبقہ میں کسی اور خلف کا ہونا کیونکر ممکن نہیں جبکہ موصوف خود فرما چکے کہ استاذ اور تلامذہ کا استیعاب نہیں کیا گیا ہے تو اس رویات میں صرف خلف نام سے منسوب راوی خلف بن ہشام ہی کیسے ہے وہ خلف بن سالم بھی سکتا ہے یا اس طبقہ میں مشہور کوئی اور خلف بھی ہو سکتا ہے اب دیکھتے ہیں اس طبقہ میں کتنے خلف ہیں جن کا ہونا ممکن ہے کیونکہ استعیاب تو نہیں کیا گیا اور نہ خلف کا تعین صرف خلف کے نام سے ہو رہا ہے ذیل میں ہم اس طبقے میں کتنے خلف ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں
(1)

خلف بن خليفة بن صاعد بن برام الأشجعى
یہ خلف بن خلیفہ اس طبقہ میں نہیں ہے جس میں خلف بن ہشام ہے یہ لکھنے والے نے خطا کی ہے یا جان بوجھ کر لکھا ہے مگر یہ خلف اس طبقہ میں نہیں ہے ان کی وفات 181 ہجری میں ہیوئی ہے اور امام بلاذری نے اس سے روایت کم از کم دو واسطوں سے نقل ہے اس لیے جس نے یہ لکھا کہ یہاں خلف سے مراد خلف بن خلیفہ ہے تو اس نے بھی غلطی کی ہے یہاں کوئی بھی خلف ہو سکتا ہے مگر خلف بن خلیفہ کا ہونا ممکن نہیں


(2)
خَلَفُ بْنُ سَالِمٍ الْمُخَرِّمِي
اس کے حوالے سے ہم بتا چکے ہیں اس سے بھی امام بلاذری نے روایت کی ہے اور یہ بھی ان کے استاذ میں سے ہیں اور یہ بھی اسی طبقہ میں ہیں جس میں خلف بن ہشام ہے۔

(3)
خلف بن أيوب العامرى ، أبو سعيد البلخى
یہ خلف بن ایوب گو کہ ان کے طبقہ میں نہیں ہیں مگر معاصرین میں سے ہیں اور یہ اہل بلخ کے فقھاء میں سے تھے ان کے تلامذہ میں اہل بغداد میں سے بھی ہیں جیسا امام احمد بن حنبل وغیرہ تو یہ امام بلاذری کا ان سے روایت کرنا ممکن ہے تو اس روایت میں خلف یہ بھی ہو سکتے ہیں۔
ان تمام کے علاوہ یہ کوئی مجھول راوی بھی ہو سکتا ہےتو اس روایت میں خلف کا تعین خلف بن ہشام کرنا ممکن نہیں ہے۔
دلیل 4
اور موصوف معترض نے ایک ایک بات تو بالکل متعصب تقلیدیوں جیسی کہہ ڈالی اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ لکھا کہ:
((اسی کے طبقے میں ایک خلف اور ہے اور وہ خلف بن خلیفہ بن صاعد بن برام الاشجعی ہے جس کو اخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا))
عرض ہے کہ اس پر مجھے تقلیدیوں کا وہ اعترض یاد آگیا جو وہ مسند احمد میں موجود سینے پر ہاتح باندھنے والی سند پر کدرتے ہیں چنانچہ اس سند میں امام اھمد کے استذ اور سفیان کے شادرد کی جگہ یحیحی بن سعید کا ذکر ہے اس پر تقلیدی کہتے ہیں کہ اس طبقھ میں چار یحیی بن سعید ہیں بعض ضعیف ہے اس لئے کیسے معلوم ہو گا کہ یہاں کون ہے؟
اب بتالائے کہ اس طبقہ میں چار یحیی بن سعید ہونے کا یہ مطلب کیسے ہوگا کہ یہ چاروں امام احمد کے استاذ بھی ہوسکتے ہیں ؟ کیا امام احمد کی سندوں میں بھی ان کے اساتذہ کی جگہ پر ان چاروں کا نام آیا ہے ؟ یا کتب رجال ان چاروں کو امام احمد کے اساتذہ میں گنایا گیا ہے؟؟ اگر نہیں تو ظاہر ہے کہ یہاں وہی یحیی ہیں جو امام احمد کے استاذ ہیں تفصیل میری کتاب انوار البدر میں ہے۔
ٹھیک اسی طرح یہاں بھی اس طبقہ میں بھی ایک اور خلف ہونے کا مطلب نہیں کہ یہ خلف امام بلاذری کا استاذ بھی ہوگا اس لئے یہاں وہی خلف مراد ہوگا جو امام بلاذری کا استاذ ہے اور امام بلاذری کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کا ذکر ان کی کتاب میں ملتا ہے اور کتب رجال میں بھی ان کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کا ذکر کیا ہے اور وہ ہیں خلف بن ہشام دیکھے (سیر اعلام النبلاء)
جواب:
ایک طرف موصوف خود فرما رہے ہیں کہ تمام استاذ اور تلامذہ کا استعیاب ممکن نہیں ہے اور یہاں استعیاب کر رہے ہیں کہ اس طبقہ میں اگر ایک اور خلف ہے تو کیا وہ امام بلاذری کے استاذ کی فہرست میں شامل ہے یا ان کی کتاب میں ایک اور خلف کا ذکر ہے جبکہ موصوف کے مطابق اگر استعیاب نہیں ہے تو پھر اس طبقہ کا ایک اور خلف کیونکر ممکن نہیں ہے تو میری معلومات کی حد تک اس روایت میں خلف کا تعین "خلف بن ہشام" سے نہیں ہوتا ہے اور جب تک واضح دلائل سے خلف کا تعین نہیں ہوتا یہ روایت خلف کے نامعلوم ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔واللہ اعلم
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد بن جُمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: (لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق).

الانساب الاشراف میں سند اس طرح سے ھے !!
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
اور میں نے سنا ھے کہ احمد بن یحیی البلاذری کا آخری عمر میں حافظہ خراب ھوگیا تھا۔ والله اعلم۔

اور سعید بن جمھان پر جروحات ہیں خاص سفینہ والے طرق پر
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
روی البزار في مسنده (9/286) حدثنا السكن بن سعيد قال حدثنا عبدالصمد قال حدثنا أبي (عبد الوارث) وحدثنا حماد بن سلمة عن سعيد بن جهمان عن سفينة رضي الله عنه أن النبي ﷺ كان جالساً فمر رجل على بعير وبين يديه قائد وخلفه سائق فقال : « لعن الله القائد والسائق والراكب »

اس روایت میں معاویہ رضي الله عنه اور ابوسفیان رضی الله عنه کا نام ہی نہیں ہے۔

السكن بن سعيد مجھول ھے اس میں۔ والله اعلم
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
تهذيب التهذيب - (4 / 13)
سعيد بن جمهان : (1) الاسلمي أبو حفص البصري.
روى عن سفينة وعبد الله بن أبي أوفى وأبي القين وله صحبة وعبد الرحمن وعبد الله ومسلم أولاد أبي بكرة. قلت: وقال البخاري في حديثه عجائب .


قال ابو داؤد :
هو ثقة إن شاء الله، وقوم يقعون فيه(وقوم يضعفونه )،
إنما يخاف ممن فوقه وسمى رجلا.يعني سفينة
وہ (سعیدبن جمھان) ان شاء اللہ ثقہ ہے اور بعض لوگ اسے ضعیف قراردیتے ہیں انہیں اس سے اوپر کے طریق میں یعنی سفینہ والے طریق میں خوف ہے
[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 218، تهذيب الكمال للمزي: 10/ 377 ومابین القوسین عندہ]
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
سعید بن جمھان پر جروحات ہیں خاص سفینہ والے طرق پر
جمہور محدثین کی نذدیک سعید بن جمہان کی سفینہ سے روایات بھی صحیح مانی جاتی ہیں آپ نے جو امام ابوداود کے حوالے سے جرح پیش کی ہے اس میں امام ابوداود نے بعض کی رائے بتائی ہے جبکہ خود انشاء اللہ ثقہ کہا ہے تو جمہور محدثین نے سعید بن جمہان کی سفینہ سے روایات کو قبول کیا ہے خاص طور پر "تیس سال خلافت پھر بادشاہت" والی حدیث کے صحیح ہونے پر اجماع ہے جس کو شیخ سنابلی صاحب نے بلاوجہ ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
٩٢٨ - قال يحيى بن معين حدثنا هاشم بن القاسم عن حشرج بن نباتة هو العبسي قال قلت لسعيد بن جمهان لقيت سفينة قال لقيته ببطن مكة زمن الحجاج وأقمت عنده ثمان ليال أسأله عن أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم

تاریخ الاوسط ج۱ صفحہ ۱۹۲

سعید بن جمھان نے کہا میری ملاقات ھوئی مکہ میں حجاج کے دور میں سفینہ رضی اللہ عنہ سے۔ میں وہاں آٹھ راتیں رکا رہا اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال کیا سفینہ رضی الله عنه سے (یعنی احادیث سیکھیں).
نوٹ : ترجمعہ میں نے خود کیا ھے لہذا غلطیاں ھوسکتی ہیں۔

(1) اگر یہ روایت صحیح ہے، تو سوال یہ ھے کہ صرف آٹھ راتوں میں کتنا علم سیکھ لیا ھوگا ابن جمھان نے؟
پھر اک نقطہ یہ بھی ھے کہ۔ جمھان جو باتیں سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ھے۔ وہ باتیں سفینہ رضی اللہ عنہ کا دوسرا کوئی بھی شاگرد روایت نہیں کرتا۔
اس سے تو یہی ظاہر ھوتا ھے کہ سعید بن جمھان نے صرف آٹھ راتوں میں علم لیا سفینہ رضی اللہ عنہ سے۔ اور یہ ایک قلیل مدت ہے۔ لہذا جمھان کو اس میں وھم ھوا ھوگا۔ اور ویسے بھی جمھان پر جروحات موجود ہیں۔ کہ یہ منفرد باتیں روایت کرتا ھے سفینہ رضی اللہ عنہ سے۔۔

(2) اور اگر اوپر والی روایت ثابت نہیں۔ تو پھر سعید بن جمھان کا سفینہ رضی اللہ عنہ سے سماع کیسے ھے؟ سعید بن جمھان کب پیدا ھوئے ؟ اور سفینہ رضی اللہ عنہ کب فوت ھوئے؟
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
سعید بن جمھان نے کہا میری ملاقات ھوئی مکہ میں حجاج کے دور میں سفینہ رضی اللہ عنہ سے۔ میں وہاں آٹھ راتیں رکا رہا اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال کیا سفینہ رضی الله عنه سے (یعنی احادیث سیکھیں)
یہ تمام باتیں محدثین کی نظروں میں ہیں اس کے باوجود سعید بن جمہان کی سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت پر جمہور نے اعتماد کیا ہے اور سعید بن جمہان کو ثقہ کن محدثین نے کہا ہے وہ بھی پیش ہے

saeed bn jhuman.jpg



جمہور کے اس کو ثقہ کہنے کے بعد ایک آدھ جرح وہ بھی مفسر نہ ہو صرف چند شکوک کا اظہار ہو کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں اور رہی بات سعید بن جمہان کی سفینہ رضی اللہ عنہ سے سماع کی بات تو اس پر تو انقطاع کا کسی ایک نے بھی نقل نہیں کیا ہے
 
Top