عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
کیا اس ملک میں اللہ کی حکمرانی ہے؟
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ہمارےملک میں قائم نظام جمہوریت کو ایک قانون کے ذریعے کتاب و سنت کے تابع کردیا گیا ہے۔پھر ملک میں رائج نظام کے درج ذیل کفریہ معاملات کا کیا جواب ہے؟
شرک کی سرپرستی
اسلام معبودانِ باطلہ کی عبادت اوراطاعت سے دستبردار ہو کر اللہ کی بندگی کرنے کا نام ہے۔لاالہ الا اللہ اسلام کی بنیاد ہے،یہ توحیدکا اعلان سب انبیاءکادین ہے۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب التوحید،کشف الشبہات اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زیارت القبور کا مطالعہ کیجیے،ائمہ دین اپنی تحریرات میں اس مسئلہ کو کثرت سے بیان کرتے ہیں۔حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب یااللہ مدد پڑھیے یا مبشرربانی صاحب کی کتاب کلمہ گومشرک یا مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد کی شائع کردہ حافظ مقصود صاحب کی کتاب مزاروں اور درباروں کی شرعی حیثیت،یہی مسئلہ بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بہت سی قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ نےشرک کی مذمت کی ہے۔اسے ظلم عظیم قرار دیا ہےاور اس کی وجہ سے تمام اعمال کے باطل ہونے کی خبر دی ہے۔شرک کی اتنی مذمت کیوں کی گئی ہے؟اس لئے کے وہ ناقابل معافی جرم ہے اگر ایک مشرک نے دنیا ہی میں شرک سے توبہ نہ کی اور توحید کا راستہ نہ اپنایا اور شرک کرتے کرتے ہی فوت ہوگیا تو اس کے لیے معافی کی کوئی صورت نہیں اس کے لیے جہنم کی دائمی سزا ہے۔جیسے کافر اللہ کو نہ ماننے والاہمیشہ جہنم میں رہے گا ایسے ہی اللہ کو ماننے کے باوجود شرک کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گاان دونوں کو جہنم کے عذاب سےکبھی نجات نہیں ملے گی،یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے آکر اپنی قوم کو سب سے پہلےتوحید کا درس دیا اور شرک سے روکا‘‘(یااللہ مدد،ص:۳۰)مزید لکھتے ہیں:
(یااللہ مدد،ص:30)’’توحید الوہیت میں شرک بہت عام ہو رہا ہے مشرکین عرب کا شرک بھی یہی ہے،ہندو جو مورتیوں کے پجاری ہیں ان کا شرک بھی یہی ہے اور آج کل نے نام نہاد مسلمانوں کے اندر بھی اس شرک کے مظاہر عام ہیں‘‘
الشیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے آدمی مرتد(مسلمان ہونے کےبعدکافر)ہوجاتا ہے‘‘(فتاوی دارلافتاء،ص14ج2)
ہفت روزہ اہل حدیث میں اس عنوان پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔
محمد منیرقمرسیالکوٹی(ترجمان شریعت کورٹ الخبر۔سعودی عرب) لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہی ہے کہ کم ازکم عقیدہ توحید تو ہم خانقاہوں پر ہی لٹا رہے ہیں۔نذریں ان کے لیے مانی جاتی ہیں جبکہ غیر اللہ کے نام کی نذرماننا شرک ہے۔قبروں کا طواف کی جاتا ہے،مزاروں پر جانورذبح کئے جاتے ہیں،قسمیں انہی کی کھائی جاتی ہیں اور مشکل کے وقت فریاد یں انہیں سے کی جاتی ہیں جبکہ یہ تمام امور شرکیہ ہیں اور جہاں شرک آگیا وہاں سے توحید کی دولت اُٹھ گئی اور جو گوہر توحید سے تہی دست ہوگیا وہ سمجھ لےکہ اس کا سب کچھ لٹ گیا‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،ج۲۸شمارہ۱۷ص۲۴)
حافظ عبدالقیوم ظہیرلکھتے ہیں:
’’میں یہ بات پورے وثوق اور یقین سے کہتا ہوں کہ اگر حکمران طبقے نے مزاروں پر ہونے والی خرافات پر توجہ نہ دی تو پاکستان پر عذاب الہٰی کو آنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔۔۔۔۔مشرک اپنے خالق کو بھول کرغیراللہ کے دربار کو اپنی امیدوں کا مرکزومحوربنا بیٹھا ہے،حکمران ٹولہ بھی خانقاہوں اور درباروں کا اسیر ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے ان قبروں پر لگ رہے ہےاور عوام ہیں کہ وہ بھی اس راہِ شرک پر بے ہنگم اوربےفکردوڑتے چلے جارہےہیں‘‘
(ہفت روزہ اہلحدیث،ج27شمارہ34ص19)
بتائیے جس نظام میں مزاروں پر غیراللہ کو سجدے ہوتے ہوں ،انہیں مشکل کشااورحاجت روا کہا جاتا ہو۔پھر ان خانقاہوں کا انتظام وانصرام اس ملک کے وزیراوقاف کرتے ہوں جنہیں اس’’خدمت اسلام‘‘پرعنداللہ ماجور ہونے کی پوری پوری امید ہو کیا اس نظام میں حاکمیت اللہ کی ہوگی؟شرک کے حاملین ریڈیو،ٹیلی ویژن اور کتب کے ذریعےآزادی کے ساتھ شرک وکفر کی دعوت دیتے ہیں۔
ہفت روزہ’’اہل حدیث‘‘میں محمد زبیر عقیل فاضل مدینہ یونیورسٹی کا سوال آج بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے لکھتے ہیں:
مرکزی جمعیت اہل حدیث کی یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ ان کے امیر پروفیسر ساجد میرصاحب نے مسلم لیگ کی قیادت کا متنبہ کیا:’’اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ انبیاءکرامنےسب سے پہلےجس برائی کا خاتمہ کیا وہ شرک کی بیماری تھی تاکہ اللہ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا نہ جاسکے،آج جب کے360تو کیا ہزاروں بت پوجے جارہے ہیں کیا اس بت پرستی کے موسم بہار میں صحیح اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہےاور کیا وہ بھی اسلامی نظام کہلوا سکتا ہے جس میں اسلام کی بنیادی اکائی توحید کی نفی ہو رہی ہے اور کیا اللہ کی واحدانیت سے انحراف کرکے کسی اور مسئلےپر وحدت امت ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔۔۔اگر کوئی جماعت اپنی داخلی پالیسی میں اسلام کے اس اہم رکن سے منحرف ہے تو وہ کس طرح اور کون سے اسلام کی دعویدار ہے‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد28شمارہ4ص19)
’’ہم کاروان نجات کی کاخاطر شرک و بدعت کی تائید نہیں کرسکتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کاایک فرد بھی کسی مزارپر نہیں جائے گا کیونکہ ہم شرک کو اللہ کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں اور ایک ظلم سے بچنے کے لیے ہم قوم کے بچوں،جوانوں اور بزرگوں کو شرک جیسےعظیم ظلم کی نگری میں نہیں جھونک سکتے۔۔۔۔ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ شرک و بدعت اللہ اور اس کے رسولﷺکےخلاف بغاوت ہے۔مسلم لیگ کے سٹیج سے اس کااظہار اور اعادہ ہرگزہرگز نہیں ہونا چاہیے مزاروں پر جا کر دعائیں مانگنا،پھولوں کی چادریں چڑھانا اور حاجتیں مانگنا اس فیشن کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دینا چاہیے’’(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد25شمارہ35)