• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس ملک میں اللہ کی حکمرانی ہے؟

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
کیا اس ملک میں اللہ کی حکمرانی ہے؟
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ہمارےملک میں قائم نظام جمہوریت کو ایک قانون کے ذریعے کتاب و سنت کے تابع کردیا گیا ہے۔پھر ملک میں رائج نظام کے درج ذیل کفریہ معاملات کا کیا جواب ہے؟

شرک کی سرپرستی
اسلام معبودانِ باطلہ کی عبادت اوراطاعت سے دستبردار ہو کر اللہ کی بندگی کرنے کا نام ہے۔لاالہ الا اللہ اسلام کی بنیاد ہے،یہ توحیدکا اعلان سب انبیاءکادین ہے۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب التوحید،کشف الشبہات اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زیارت القبور کا مطالعہ کیجیے،ائمہ دین اپنی تحریرات میں اس مسئلہ کو کثرت سے بیان کرتے ہیں۔حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب یااللہ مدد پڑھیے یا مبشرربانی صاحب کی کتاب کلمہ گومشرک یا مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد کی شائع کردہ حافظ مقصود صاحب کی کتاب مزاروں اور درباروں کی شرعی حیثیت،یہی مسئلہ بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بہت سی قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ نےشرک کی مذمت کی ہے۔اسے ظلم عظیم قرار دیا ہےاور اس کی وجہ سے تمام اعمال کے باطل ہونے کی خبر دی ہے۔شرک کی اتنی مذمت کیوں کی گئی ہے؟اس لئے کے وہ ناقابل معافی جرم ہے اگر ایک مشرک نے دنیا ہی میں شرک سے توبہ نہ کی اور توحید کا راستہ نہ اپنایا اور شرک کرتے کرتے ہی فوت ہوگیا تو اس کے لیے معافی کی کوئی صورت نہیں اس کے لیے جہنم کی دائمی سزا ہے۔جیسے کافر اللہ کو نہ ماننے والاہمیشہ جہنم میں رہے گا ایسے ہی اللہ کو ماننے کے باوجود شرک کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گاان دونوں کو جہنم کے عذاب سےکبھی نجات نہیں ملے گی،یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے آکر اپنی قوم کو سب سے پہلےتوحید کا درس دیا اور شرک سے روکا‘‘(یااللہ مدد،ص:۳۰)مزید لکھتے ہیں:
’’توحید الوہیت میں شرک بہت عام ہو رہا ہے مشرکین عرب کا شرک بھی یہی ہے،ہندو جو مورتیوں کے پجاری ہیں ان کا شرک بھی یہی ہے اور آج کل نے نام نہاد مسلمانوں کے اندر بھی اس شرک کے مظاہر عام ہیں‘‘
(یااللہ مدد،ص:30)
الشیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے آدمی مرتد(مسلمان ہونے کےبعدکافر)ہوجاتا ہے‘‘(فتاوی دارلافتاء،ص14ج2)

ہفت روزہ اہل حدیث میں اس عنوان پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔
محمد منیرقمرسیالکوٹی(ترجمان شریعت کورٹ الخبر۔سعودی عرب) لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہی ہے کہ کم ازکم عقیدہ توحید تو ہم خانقاہوں پر ہی لٹا رہے ہیں۔نذریں ان کے لیے مانی جاتی ہیں جبکہ غیر اللہ کے نام کی نذرماننا شرک ہے۔قبروں کا طواف کی جاتا ہے،مزاروں پر جانورذبح کئے جاتے ہیں،قسمیں انہی کی کھائی جاتی ہیں اور مشکل کے وقت فریاد یں انہیں سے کی جاتی ہیں جبکہ یہ تمام امور شرکیہ ہیں اور جہاں شرک آگیا وہاں سے توحید کی دولت اُٹھ گئی اور جو گوہر توحید سے تہی دست ہوگیا وہ سمجھ لےکہ اس کا سب کچھ لٹ گیا‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،ج۲۸شمارہ۱۷ص۲۴)
حافظ عبدالقیوم ظہیرلکھتے ہیں:
’’میں یہ بات پورے وثوق اور یقین سے کہتا ہوں کہ اگر حکمران طبقے نے مزاروں پر ہونے والی خرافات پر توجہ نہ دی تو پاکستان پر عذاب الہٰی کو آنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔۔۔۔۔مشرک اپنے خالق کو بھول کرغیراللہ کے دربار کو اپنی امیدوں کا مرکزومحوربنا بیٹھا ہے،حکمران ٹولہ بھی خانقاہوں اور درباروں کا اسیر ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے ان قبروں پر لگ رہے ہےاور عوام ہیں کہ وہ بھی اس راہِ شرک پر بے ہنگم اوربےفکردوڑتے چلے جارہےہیں‘‘
(ہفت روزہ اہلحدیث،ج27شمارہ34ص19)
بتائیے جس نظام میں مزاروں پر غیراللہ کو سجدے ہوتے ہوں ،انہیں مشکل کشااورحاجت روا کہا جاتا ہو۔پھر ان خانقاہوں کا انتظام وانصرام اس ملک کے وزیراوقاف کرتے ہوں جنہیں اس’’خدمت اسلام‘‘پرعنداللہ ماجور ہونے کی پوری پوری امید ہو کیا اس نظام میں حاکمیت اللہ کی ہوگی؟شرک کے حاملین ریڈیو،ٹیلی ویژن اور کتب کے ذریعےآزادی کے ساتھ شرک وکفر کی دعوت دیتے ہیں۔
ہفت روزہ’’اہل حدیث‘‘میں محمد زبیر عقیل فاضل مدینہ یونیورسٹی کا سوال آج بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے لکھتے ہیں:
’’اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ انبیاءکرامنےسب سے پہلےجس برائی کا خاتمہ کیا وہ شرک کی بیماری تھی تاکہ اللہ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا نہ جاسکے،آج جب کے360تو کیا ہزاروں بت پوجے جارہے ہیں کیا اس بت پرستی کے موسم بہار میں صحیح اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہےاور کیا وہ بھی اسلامی نظام کہلوا سکتا ہے جس میں اسلام کی بنیادی اکائی توحید کی نفی ہو رہی ہے اور کیا اللہ کی واحدانیت سے انحراف کرکے کسی اور مسئلےپر وحدت امت ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔۔۔اگر کوئی جماعت اپنی داخلی پالیسی میں اسلام کے اس اہم رکن سے منحرف ہے تو وہ کس طرح اور کون سے اسلام کی دعویدار ہے‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد28شمارہ4ص19)
مرکزی جمعیت اہل حدیث کی یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ ان کے امیر پروفیسر ساجد میرصاحب نے مسلم لیگ کی قیادت کا متنبہ کیا:
’’ہم کاروان نجات کی کاخاطر شرک و بدعت کی تائید نہیں کرسکتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کاایک فرد بھی کسی مزارپر نہیں جائے گا کیونکہ ہم شرک کو اللہ کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں اور ایک ظلم سے بچنے کے لیے ہم قوم کے بچوں،جوانوں اور بزرگوں کو شرک جیسےعظیم ظلم کی نگری میں نہیں جھونک سکتے۔۔۔۔ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ شرک و بدعت اللہ اور اس کے رسولﷺکےخلاف بغاوت ہے۔مسلم لیگ کے سٹیج سے اس کااظہار اور اعادہ ہرگزہرگز نہیں ہونا چاہیے مزاروں پر جا کر دعائیں مانگنا،پھولوں کی چادریں چڑھانا اور حاجتیں مانگنا اس فیشن کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دینا چاہیے’’(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد25شمارہ35)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مسلم لیگ نے کامیاب ہونے کے بعد جب وزارتِ تعلیم اور اطلاعات و نشریات اہل تشیع کے حوالے کیا تو ہفت روزہ اہل حدیث یوں مخاطب ہوا:’’آخر میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نے اگرچہ اپنی کابینہ تو مختصر بنائی ہے مگر اطلاعات و نشریات اور تعلیم کے شعبے اہل تشیع کے حوالے کر دئیے ہیں۔کیا سید مشاہد حسین اور بیگم سید عابدہ حسین ایسی پالیسیاں ترتیب دے سکیں اور ٹی وی کا قبلہ درست کر سکیں گے جس سے اہل سنت مطمئن ہو سکیں‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد28شمارہ10ص4)
اگرچہ بیان میں وہ زور نہیں جو شرک اور مشرکین سے برأت کا اصل تقاضا ہے مگر ان حوالوں سے یہ ثابت ہوا کہ مسلم لیگ اپنی داخلی پالیسی میں توحید سے منحرف ہے،پھر کیوں اس کی قیادت میں اسلام لانے کا اعلان کیا جاتا ہے؟محمد زبیر عقیل صاحب کے سوال کاکیا جواب ہے؟
’’اگر کوئی جماعت اپنی داخلی پالیسی میں اسلام کے اس اہم رکن سے منحرف ہے تو وہ کس طرح اور کون سے اسلام کی دعویدار ہے‘‘​
ایسی جماعت کے سربراہ کے بارے میں سینٹر پروفیسر ساجد میرصاحب کیوں فرماتے ہیں:’’موجودہ وزیراعظم اگرچہ شروع ہی سے دینی اور اسلامی ذہین رکھتے ہیں لیکن ان کی خیالات اور سوچ جس نے انہیں اسلامی نظام عملاًنافذکرنےکی طرف راغب کیا وہ ان کا سو فی صد درست مشاہدہ تھا کہ موجودہ قوانین اور نظام ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوم کو اس کا حق دلوانے میں ناکام رہے ہیں‘‘(ہفت روزہ اہل حدیث،جلد30شمارہ60ص7)
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی راہنما حاجی عبدالرزاق صاحب کیوں کہتے ہیں:’’ہمارا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد صرف اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہوا ہےاور وزیراعظم نےقومی اسمبلی سے شریعت بل پاس کروا کراپنے وعدے کو نبھایا ہےجلد سینٹ سے بھی بل پاس ہوجائے گا‘‘(ہفت روزہ اہل حدیث،جلد30شمارہ10ص23)
میاں جمیل صاحب کیوں کہتے ہیں:
’’آج ہم نوازشریف کے ساتھ چل رہے ہیں توان سے بھی ہمارااتحاداسی بنیاد پر قائم ہےکہ جب وہ دوبارہ برسراقتدار آئیں تو کتاب و سنت کی بالادستی قائم کریں گے اور اسلام کا نفاذکریں گے‘‘(ہفت روزہ اہل حدیث،جلد27شمارہ43ص11)
علماء اہلحدیث تو خوب جانتے ہیں کہ داخلی پالیسی میں توحید سے انحراف کرنے والی جماعت کے لیےعملاًاسلام نافذکرناممکن ہی نہیں پھر کیوں قائد مسلم لیگ کا یہ بیان شائع کیا جاتا ہے:’’میں دوبارہ برسراقتدارآکرسب سے پہلے اسلام کا نفاذ کرونگا‘‘(ہفت روزہ اہلحدیث،جلد27شمارہ43ص10)
جب1992ءمیں پروفیسر ساجد میر نے مسلم لیگ حکومت کو آزمالیاتویہ بیان دیا:
’’جوبھی حکومت آئی اس نے نام اسلام کا لیالیکن اپنی بدکاریاں اورشرابیں نہ چھوڑنے کی بنا پراسکے نفاذ سے گریز کیا۔۔۔یہ بات یقینی ہے کہ ہماری حکومت اسلام کے نفاذ میں مخلص نہیں ہے اوراس حکومت سے اسلام کے نفاذ کی توقع کرنا عبث ہے‘‘(ہفت روزہ اہل حدیث،جلد23شمارہ43ص24)
پھر1996میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مجلس شوری کے اجلاس میں قائد مسلم لیگ کی موجودگی میں پروفیسر ساجد میر نے کیوں کہا؟’’ہماری مجلس شوری نے آپ کا ساتھ دیا………………(تاکہ)آپ کی قیادت میں اسلام اور کتاب و سنت کی بالادستی کا جھنڈا لہرائے‘‘(ہفت روزہ اہل حدیث،جلد27شمارہ26ص5)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فحاشی کی سرپرستی

رسول اللہﷺنے فرمایا:’’مرد،مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور عورت،عورت کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ مرد،مرد کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ عورت،عورت کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں نہ لیٹے‘‘(صحیح مسلم)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اس سے واضح ہے کہ اسلام کس طرح بے حیائی کے دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے،جب ایک مردکا ایک مرد کے ساتھ اور عورت کاعورت کے ساتھ بغیر کپڑے کے لیٹنا منع ہےتومردوعورت کے بےباکانہ اختلاط کو اسلام کس طرح گوارا کر سکتا ہے؟جو مغرب میں عام ہے یہی اخلاق باختہ ثقافت(بلکہ کثافت)ٹیلی ویژن کے ذریعے سے اسلامی ملکوں میں پھیلائی جا رہی ہے۔مغرب زدہ حکمران اس گندگی،بےحیائی اور اخلاق باختگی کو’’ثقافت‘‘باورکروارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان مرتد حکمرانوں سے اسلامی ملکوں کو نجات عطا فرمائے‘‘آمین(مترجم،ریاض الصالحین)
اس بات کو آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے محلوں اور بازاروں میں فحاشی اور عریانی کی تعلیم دینے والی پاکستانی اور انڈین فلموں کے اڈے’’ویڈیو سنٹر‘‘ضرور دیکھے ہونگے۔ان میں سنسر قوانین سے جواز کی باقاعدہ سند یافتہ’’قانونی‘‘فلمیں بھی ہیں۔اگر آپ غلاظت سے لتھٹری ہوئی فلموں بزور بازو بند کرانے کی کوشش کریں تو قانون کی رو سے آپ نے ویڈیو سنٹرز کے مالکان کو ان کے ’’جائز‘‘کاروبار سے منع کرکے قانون کا تقدس پامال کیا اورقانون کی رو سے آپ نے ایسا کرکے جرم کیا،اگر کوئی بااختیار افسر’’مذہبی شوق‘‘میں فحاشی پھیلانے والے سینما گھروں کے’’جائز‘‘کاروبار میں رکاوٹ ڈالے تو قانون کی رو سے اس نے معزز شہریوں کو ہراساں کرنےاوراختیارات کے ناجائز استعمال کا ’’جرم‘‘کیا ۔
اللہ کے دین میں یہ جرم ضرور ہوگامگرقانونِ پاکستان کی نظر میں یہ ہرگز جرم نہیں کہ فلم انڈسٹری میں شوٹنگ کے بہانے ایک جوان مرد ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کے ساتھ رقص کرتا،لپٹتا اور چومتا ہے،گندگی کی یہ سین(مناظر)ریکاڈ کرانے میں قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہے بلکہ فلم کو انڈسڑی کا درجہ حاصل ہے۔کتاب و سنت میں پردے کا حکم ہے جبکہ سینما گھروں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ اللہ کے احکامات کی واضح مخالفت بلکہ بغاوت ہے۔اپنی فلموں اور گانوں کے ذریعے لوگوں کو
فحاشی پر اُبھارنے والی فلم ایکڑس نورجہاں اور فلم ایکڑ دلیپ کمارکو اس ملک کے صدر رفیق تارڑ نے تمغہ امتیاز دیا
۔کون نہیں جانتا کہ ان معاملات میں قرآن کی آیات نہیں قانون کی دفعات معتبر ہیں؟پر بتائیے
اس نظام میں قرآن کا مسجد کے علاوہ کونسا مقام رہ جاتا ہے؟یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ قراردادمقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے بعد اب اس نظام میں حاکمیت صرف اللہ کی ہے؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سودی نظام کی سرپرستی​
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ (سورۃ البقرہ:۲۷۸)
’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور جوسود باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو‘‘
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ۔ (سورۃالبقرہ:۲۷۹)
’’ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کرتے ہو تو پھر اصل اموال تمہارے ہی ہیں، نہ تو تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود کا گواہ بننے والے اور سود کا کھاتا لکھنے والے کاتب سب پر لعنت فرمائی ہے‘‘(احمد،ابوداؤد،ترمذی،نسائی)
بتائیے کیا اس ملک میں بھی حاکمیت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو ملک اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اعلانِ جنگ کرنے والے سودی بنکوں کی فلک بوس عمارتوں پر مسلم بنک کا لیبل لگا ئے اور قانونی تحفظ یافتہ جوئے اور لاٹری کو اخبارات کے صفحہ اوّل کی زینت بنائے؟
غیر اسلامی تعزیرات کا نفوذ​
اسلامی تعزیرات اوراسلامی قوانین کے مقابلے میں اس ملک کے اپنے قوانین ہیں۔قانون بنانے،سکھانے،اس کی تشریح کرنے اور تمام معاملات میں اس کے ساتھ فیصلہ کرنےاوراسے فیصل منوانےکےلئے کئی ادارے قائم ہیں،علماءاسلام کے مقابلے میں ان کے قانون کے ماہرین کے لیے ترقی،اقتدار اور دولت وعزت کے دروازے کھلے ہیں۔دین اسلام کوزندگی کے اجتماعی گوشوں سےدھکیل کر نجی زندگی کےچندمعاشرتی معاملات تک محدودکردیا گیا ہے،
اس ملک کے وزیراعظم نے اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہا،قاتل،چور،زانی اور شرابی کے لیے اس ملک میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں ہیں۔عورت کے لیے سزائے موت منسوخ کردی گئی ہے۔پھریہاں اگر کسی واضح مشرک(ایسا کھلا مشرک جس کے بارے عالم ربانی فتوی صادر کردے)شخص کی بے دین بیوی کسی توحیدی عالمِ دین کے درس توحید سے متاثر ہو کرتوحید قبول کرلے اور استبراء بطن(یعنی پیٹ صاف ہونے)کے بعد شریعت کے مطابق بغیر طلاق لئے کسی موحد شخص سے نکاح کرلے تو قانون پاکستان کی رو سے ایسی عورت یقیناً’’نکاح پر نکاح‘‘کی مجرم ٹھہرئے گی اور واپس اسی مشرک کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جائے گی،نیز اس عورت کے ساتھ عظیم نیکی یعنی نکاح کرکےاِسے تحفظ دینے والا اسکا موحد خاوند’’زنا کا مجرم‘‘ قرار دے کر سزا بھگتنے پر مجبور کیا جائے گا
۔
الغرض عدالتوں کے لیے قانون وہ نہیں جو رب العالمین نے نازل فرمایا۔یوں اللہ کے دین حقہ کو دینِ نصاری کی طرح ریاست سے جدا کرنے کے باوجود کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا؟اگر ایک مسلمان بصیرت سے کام لے تو اسے قدم قدم پر ایسے قوانین دیکھنے کو ملیں گے جو پکارپکار کر کہہ رہے ہوں گے ہم قرآن و سنت کے پابند نہیں ہیں

بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی اپنی عدالتیں قانون وقت کی غیر اسلامی ہونے کی شہادت دیتی رہتی ہیں۔
1:مسڑ تنزیل الرحمن کر سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت نے14نومبر1991ءکو157صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ دیا کہ’’بنک کا سودیعنی بنک کی جانب سے کھاتہ داروں کو دی جانے والی اصل زر سے زائد رقم اور قرضوں پراصل زر سےزائد وصول کی جانے والی تمام رقوم سود ہیں اورقرآن و سنت کے مطابق ہر طرح کا سود قطعاً حرام ہے۔
سودی نظام کو غیر قانونی قرار دینے کے بعدوفاقی شرعی عدالت نے24کے لگ بھگ ان قوانین یا ان کی مختلف دفعات کو غیر اسلامی قرار دے کر انہیں قوانین کی کتب سے حذف کرنے کا حکم دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ3جون1992ءتک ان قوانین کی جگہ نئے قوانین وضع کرکے اسمبلی سے باضابطہ طور پر پاس کروانے کے بعد انہیں پاکستان میں نافذ کردے تاکہ قرآن و سنت کے احکامات پورے طور پر نافذ ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام اپنی تمام اشکال سمیت اپنے آخری انجام کو پہنچ سکے ورنہ یکم جولائی1992ءکو یہ تمام قوانین خودبخود کالعدم ہو جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ اتحاد کے وزیراعظم(جو شریعت کے نفاذ کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے)نے یکم جولائی1992ءسے چند روز قبل فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ مین اپیل دائر کر دی اور فیصلہ پر عملدرآمد کو رکوا دیا اوروہ آج تک پہلی غیر اسلامی شکل میں جوں کا توں قائم ہے۔
2:جب مسٹر بھگوان داس نےبطور قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کا حلف اُٹھایا تو شاہد اورکزئی اور مولوی اقبال نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی،جسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر خارج کردیا کہ شق(203)سی کے تحت وفاقی شرعی عدالتوں کے ججوں کامسلمان ہونا ضروری ہے باقی کسی اور عہدے کے لیے یہ پابندی نہیں(نوائے وقت14جولائی2007)
گویا عدالت نے ہی یہ فیصلہ کردیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے علاوہ تمام عدالتی نظام شریعت کا پابند نہیں ہے بلکہ آئین پاکستان کا پابند ہے۔وفاقی شرعی عدالت کا قیام بذات خود اس بات پر شاہد ہے کہ باقی تمام عدالتیں غیر شرعی ہیں۔
جمہوریت دین جدید،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بتائیے کیا اس ملک میں بھی حاکمیت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو ملک اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اعلانِ جنگ کرنے والے سودی بنکوں کی فلک بوس عمارتوں پر مسلم بنک کا لیبل لگا ئے اور قانونی تحفظ یافتہ جوئے اور لاٹری کو اخبارات کے صفحہ اوّل کی زینت بنائے؟
غیر اسلامی تعزیرات کا نفوذ

اسلامی تعزیرات اوراسلامی قوانین کے مقابلے میں اس ملک کے اپنے قوانین ہیں۔قانون بنانے،سکھانے،اس کی تشریح کرنے اور تمام معاملات میں اس کے ساتھ فیصلہ کرنےاوراسے فیصل منوانےکےلئے کئی ادارے قائم ہیں،علماءاسلام کے مقابلے میں ان کے قانون کے ماہرین کے لیے ترقی،اقتدار اور دولت وعزت کے دروازے کھلے ہیں۔دین اسلام کوزندگی کے اجتماعی گوشوں سےدھکیل کر نجی زندگی کےچندمعاشرتی معاملات تک محدودکردیا گیا ہے،
اس ملک کے وزیراعظم نے اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہا،قاتل،چور،زانی اور شرابی کے لیے اس ملک میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں ہیں۔عورت کے لیے سزائے موت منسوخ کردی گئی ہے۔پھریہاں اگر کسی واضح مشرک(ایسا کھلا مشرک جس کے بارے عالم ربانی فتوی صادر کردے)شخص کی بے دین بیوی کسی توحیدی عالمِ دین کے درس توحید سے متاثر ہو کرتوحید قبول کرلے اور استبراء بطن(یعنی پیٹ صاف ہونے)کے بعد شریعت کے مطابق بغیر طلاق لئے کسی موحد شخص سے نکاح کرلے تو قانون پاکستان کی رو سے ایسی عورت یقیناً’’نکاح پر نکاح‘‘کی مجرم ٹھہرئے گی اور واپس اسی مشرک کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جائے گی،نیز اس عورت کے ساتھ عظیم نیکی یعنی نکاح کرکےاِسے تحفظ دینے والا اسکا موحد خاوند’’زنا کا مجرم‘‘ قرار دے کر سزا بھگتنے پر مجبور کیا جائے گا۔
الغرض عدالتوں کے لیے قانون وہ نہیں جو رب العالمین نے نازل فرمایا۔یوں اللہ کے دین حقہ کو دینِ نصاری کی طرح ریاست سے جدا کرنے کے باوجود کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا؟اگر ایک مسلمان بصیرت سے کام لے تو اسے قدم قدم پر ایسے قوانین دیکھنے کو ملیں گے جو پکارپکار کر کہہ رہے ہوں گے ہم قرآن و سنت کے پابند نہیں ہیں۔

بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی اپنی عدالتیں قانون وقت کی غیر اسلامی ہونے کی شہادت دیتی رہتی ہیں۔
1:مسڑ تنزیل الرحمن کر سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت نے14نومبر1991ءکو157صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ دیا کہ’’بنک کا سودیعنی بنک کی جانب سے کھاتہ داروں کو دی جانے والی اصل زر سے زائد رقم اور قرضوں پراصل زر سےزائد وصول کی جانے والی تمام رقوم سود ہیں اورقرآن و سنت کے مطابق ہر طرح کا سود قطعاً حرام ہے۔
سودی نظام کو غیر قانونی قرار دینے کے بعدوفاقی شرعی عدالت نے24کے لگ بھگ ان قوانین یا ان کی مختلف دفعات کو غیر اسلامی قرار دے کر انہیں قوانین کی کتب سے حذف کرنے کا حکم دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ3جون1992ءتک ان قوانین کی جگہ نئے قوانین وضع کرکے اسمبلی سے باضابطہ طور پر پاس کروانے کے بعد انہیں پاکستان میں نافذ کردے تاکہ قرآن و سنت کے احکامات پورے طور پر نافذ ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام اپنی تمام اشکال سمیت اپنے آخری انجام کو پہنچ سکے ورنہ یکم جولائی1992ءکو یہ تمام قوانین خودبخود کالعدم ہو جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ اتحاد کے وزیراعظم(جو شریعت کے نفاذ کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے)نے یکم جولائی1992ءسے چند روز قبل فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ مین اپیل دائر کر دی اور فیصلہ پر عملدرآمد کو رکوا دیا اوروہ آج تک پہلی غیر اسلامی شکل میں جوں کا توں قائم ہے۔
2:جب مسٹر بھگوان داس نےبطور قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کا حلف اُٹھایا تو شاہد اورکزئی اور مولوی اقبال نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی،جسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر خارج کردیا کہ شق(203)سی کے تحت وفاقی شرعی عدالتوں کے ججوں کامسلمان ہونا ضروری ہے باقی کسی اور عہدے کے لیے یہ پابندی نہیں(نوائے وقت14جولائی2007)
گویا عدالت نے ہی یہ فیصلہ کردیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے علاوہ تمام عدالتی نظام شریعت کا پابند نہیں ہے بلکہ آئین پاکستان کا پابند ہے۔وفاقی شرعی عدالت کا قیام بذات خود اس بات پر شاہد ہے کہ باقی تمام عدالتیں غیر شرعی ہیں۔
جمہوریت دین جدید،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
 
Top