• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالیٰ میلاد پاک کرنے اور خوشی کے اظہار کرنے سے روکا ہے؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا اللہ تعالیٰ نے میلاد پاک کرنے اور خوشی کے اظہار کرنے سے روکا ہے؟

سعیدی (تنبیہ نمبر۷) : ذکر میلاد کے دشمن سے پوچھوکیا اللہ نے میلاد پاک کا جلسہ کرنے و جلوس نکالنے اور خوشی کا اظہار کرنے سے منع کیا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ فرماتا ہے: افعلوا الخیر، وما تفعلوا من خیر فان اللہ بہ علیم ومن تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم۔ یعنی اچھے کام کیا کرو، ان کا ثواب ملے گا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ آپ نے اور آپ کے اصحاب اہل بیت نے میلاد منایا ہے ۔کمامر)۔

محمدی
کیا اللہ اور اس کے رسول نے ان بیس سے زائد باتوں سے روکا ہے؟

اول:سنت کے دشمن، میلادی بدعتی سے پوچھو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اذان کے اندر حی علی خیر العمل کے الفاظ کہنے سے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم کیوں نہیں کہتے۔ اذان کے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ کے بعد محمد رسول اللہ کہنے اور ملانے سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم میلادی لوگ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کیوں نہیں کہتے۔ اذان کے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ دو دفعہ کہنے سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم اس کارخیر کو دو دفعہ کیوں نہیں کہتے۔ جنازہ غائبانہ پڑھنے سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم اس کارخیر (نمازِ جنازہ) کو کیوں نہیں ادا کرتے۔ دوبارہ نماز جنازہ سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم اس کار خیر کو دوبارہ کیوں نہیں کرنے دیتے۔ اذان کے اندر اشھد ان امیر المومنین وامام المتقین علیا ولی اللہ الخ کہنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں تو پھر تم اس کارخیر سے آج تک کیوں محروم ہو۔ مغرب کی اذان کے بعد جماعت سے پہلے دو رکعت پڑھنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم آج تک اس کار خیر سے کیوں محروم ہو۔ جبکہ صحابہ کرام یہ دو رکعت ادا فرمایا کرتے تھے۔ عیدین سے پہلے یا پیچھے ، عیدگاہ کے اندر اللہ ورسول نے دوگانہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم آج تک اس کارخیر سے کیوں محروم ہو۔ عیدین کی جماعت کیلئے اذان اور اقامت کے الفاظ کہنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم اس کار خیر سے آج تک محروم کیوں ہو۔ اذان ترجیع کہنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم آج تک اللہ وررسول کیلئے شہادت دوبارہ کہنے کی خیر سے کیوں محروم ہو جبکہ صحابی رسول حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اس کار خیر کو اپنی زندگی میں کہتا رہا۔ امام و مقتدی کو اللہ ورسول نے نماز جہری میں آمین بالجہر سے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز تو تم آج تک اس سے محروم کیوں ہو۔ مرد مسلمان کو نماز کے اندر سینہ پر ہاتھ باندھنے سے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج تک اس سے محروم اور مانع کیوں ہو۔ نماز جنازہ کے اندر خالص دعا مانگنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج تک میت کو اس کار خیر سے محروم کیوں کر رکھا ہے۔ فرائض کی رکعتوں مثلاً مغرب کی نماز کے اندر چوتھی رکعت ملا کر ادا کرنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج اس زیادتی خیر سے محروم کیوں ہو۔ فرائض میں بجائے سبحانک اللہم کے اللہم باعدبینی وبین خطایای الخ پڑھنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم آج تک اپنے لئے طلب خیر سے کیوں محروم ہو، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرائض میں یہ دعائیہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم پھر اس وقت قنوت پڑھنے سے کیوں روکتے ہو۔ عیدین کی زوائد تکبیرات ۱۲عدد کہنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج تک اس خیر سے کیوں محروم ہو۔ سحری کی اذان دینے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر تم اس کار خیر سے آج تک کیوں محروم ہو جبکہ یہ اذان سحری زمانہ نبوی میں ہوا کرتی تھی۔ نماز جنازہ کے اندر سورت فاتحہ پڑھنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج تک اس کارخیر سے محروم کیوں ہو۔ نمازجنازہ کی تکبیرات کے وقت رفع الیدین کرنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ ہرگز نہیں تو پھر تم تکبیرات عیدین کے رفع یدین کی اس کار خیر سے محروم کیوں ہو جبکہ ان دونوں موقعوں پر صحابہ کرام سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ تشھد اول میں عبدہ ورسولہ کے بعد درود شریف پڑھنے سے اللہ ورسول نے منع فرمایا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو تم آج تک میلاد والے کی ذات بابرکات پر درود پڑھنے کی خیر سے محروم کیوں ہو۔ سجدہ تلاوت خیر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے پندرہ سجدے صحابہ کرام کو بتائے ان میں سورت حج کے دو سجدے بھی تھے (ابو داؤد، ابن ماجہ مشکوٰۃ) مگر آج تک یہ میلادی حضرات سورت حج کے اس دوسرے سجدہ سے کنی کتراتے ہیں۔ تو جب بقول سعیدی میلاد منانے سے خدا و رسول نے منع نہیں فرمایا لہٰذا میلاد منانا چاہئے تو اسی اصول کے تحت ہم کہتے ہیں کہ جب خدا و رسول نے ان موقعوں پر ان کاموں سے منع نہیں فرمایا تو انصاف کا تقاضا تو یہ ہے اس سعیدی میلادی کو یہ سب کام کرنے چاہئیں تا کہ سعیدی پر الزام نہ آئے کہ دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو۔ الخ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا صرف میلاد ہی خیر کا کام ہے؟
دوم:
اس سعیدی میلادی سے پوچھیں کہ میلادیوں کے نزدیک صرف میلاد منانا ہی خیر ہے یا یہ کام بھی خیر میں شامل ہیں، ہم کہتے ہیں کہ بظاہر یہ بھی اسی طرح خیر ہیں جس طرح میلادیوں کی نظر میں میلاد منانا خیر ہے مگر میلاد کا منانا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب اہل بیت سے ہرگز ہرگز ثابت نہیں اور ایسی جھوٹ کی نسبت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے : لعنۃ اللہ علی الکاذبین ۔ ہاں ان اکیس کاموں میں بہت سے کام ایسے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب اہل بیت کیا کرتے تھے مگر سعیدی میلادی کے نزدیک یہ خیر کے کام نہیں۔ میلادیوں کا قانون ہی علیحدہ ہے کہ جو جی میں آیا اس کو کار خیر بنا لیا اور جو خیر کے کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب سے ثابت ہیں وہ ان کے نزدیک خیر نہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا صحابہ کرام کےتین کام خیر نہیں تھے؟
سوم:
بات ہو رہی ہے خیر کی، تین صحابہ کرام نے تین کام خیر کے سمجھ کر کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خیروں کا خیر ہونے سے انکار فرما دیا لہٰذا ثابت ہوا کہ جو جو خیر کے کام بدعتی لوگ سمجھ کر کرتے ہیں جب تک ان کی خیر ہونے کی تصدیق عدالت نبوی سے نہ ہو جائے وہ فقط کسی کے خیر سمجھنے سے خیر نہیں ہو جاتے لہٰذا میلاد بھی ایسی خیر ہے جس کی تصدیق عدالت نبوی سے نہیں ہوئی لہٰذا میلاد منانا خیر نہ ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا تابعین، آئمہ محدثین و مفسرین میلاد کرتے تھے

سعیدی: تابعین چاروں، امام اور محدثین و مفسرین بھی ذکر میلاد کرتے سنتے آئے ہیں اور اپنے اپنے طریقے کے مطابق اس کو مناتے رہے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ و رسول کریم و صحابہ کرام و آل اطہار واولیاء اللہ کے ماننے والے اس ذکر پاک کے انعقاد سے کبھی منہ نہ موڑیں گے۔ غیر مقلدوں کے امام ابن جوزی فرماتے ہیں میلاد منانے والے سارا سال امن و امان میں رہتے ہیں اور رحمتوں و برکتوں کا ان پر نزول ہوتا ہے (المیلاد النبوی) (ہم میلا د کیوں مناتے ہیں ص: ۳۰)

محمدی
اول: فرائض و واجبات ، سنن و نوافل و مستحبات کے ادا کرنے کے طریقے شریعت خود بتاتی ہے اگر میلاد منانا بھی فرض، واجب سنت مستحب ہوتا تو اس کے منانے کا طریقہ بھی شریعت بتاتی، فقہ حنفی میں اس کے منانے کا طریقہ نہیں لکھا چونکہ میلاد منانا نہ فرض نہ واجب نہ سنت نہ مستحب ہے اس لئے شریعت اور فقہ میں اس کے منانے کا بیان نہیں ہے۔ سعیدی میلادی نے اپنی دبی زبان سے یہ اقرار کر لیا کہ تابعین، چار ائمہ، محدثین مفسرین اپنے اپنے طریقے کے مطابق مناتے تھے گویا یہ میلاد منانا نہ فرض ہے نہ سنت نہ واجب ہے نہ مستحب کیونکہ اگر میلاد واجب و فرض و سنت مستحب ہوتا تو دیگر فرائض و واجبات سنن و نوافل اور مستحبات کی طرح لوگوں کے اپنے اپنے طریقے نہ چلتے بلکہ طریقہ رسول طریقہ اصحاب طریقہ آل اطہار کو اپناتے اور میلاد منانے کا طریقہ چاروں فقہوں میں ہوتا کہ میلاد منانے کا وقت کب سے کب تک ہوتا ہے جیسے جمعہ و عیدین کا ایک وقت ہوتا ہے، اگر اس دن عید میلاد نہ منائی جا سکے مثلاً بارش ہو جائے تو پھر دوسرے دن منانا چاہئے (جیسے عیدین کے متعلق حدیث و فقہ میں لکھا موجود ہے) اس کیلئے جلوس نکالنے کی جگہ کون سی ہے۔ مسجد، مدرسہ، بازار، میدان، اس کی تعیین ہوتی کہ جیسے عیدین کیلئے عیدگاہ یا مسجد مقرر ہے۔ اس میں دوگانہ ، نماز عیدین کی طرح کیوں نہیں ہے، عیدین کی طرح راستہ بدل ہے کہ نہیں، عیدین کی ادائیگی کے وقت اللہ اکبر اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر واللہ الحمد کہنا مسنون ہے، عید میلاد کیلئے یہ کہنا چاہئے کہ نہیں۔ اس کی وضاحت ہوتی یا کوئی دوسرے الفاظ مثلاً جشن عید میلاد النبی زندہ باد کے کہنے کی وضاحت ہوتی یا نعرہ رسالت نعرہ حیدری نعرہ خلافت وغیرہ۔

فقہ کی کتابوں اور حدیث کی کتابوں میں یہ عنوان باندھا جاتا۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کے اقوال و افعال بیان کئے جاتے لہذا میلاد منانے کی جو نسبت تابعین ائمہ اربعہ کی طرف کی گئی ہے یہ غلط ہے، ان کی طرف یہ صاف جھوٹ لکھا ہے بلکہ سلف صالحین صحابہ تابعین ائمہ اربعہ محدثین کے متعلق کسی حد تک وضاحت پہلے آ چکی ہے کہ ان کے دور میں یہ بدعت نہیں تھی ، یہ بدعت ۷۰۰کی پیداوار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا میلاد منانے سے سارا سال امن رہتا ہے؟

ابن جوزی کی نسبت جو نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے لکھا کہ میلاد منانے سے سارا سال امن امان رہتا ہے، سردست میں اس نقل کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے پاس یہ کتاب موجود نہیں مگر کم از کم ہمارے دور میں یہ معاملہ الٹ ہے کیونکہ جب سے حکومت نے میلاد منانے کی سرپرستی قبول کی ہے اس وقت سے ملک میں امن امان کا مسئلہ بگڑتا جا رہا ہے، قتل و غارت، لوٹ مار عام ہوتی جا رہی ہے اخبارات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس سال بھی حکومت اور عوام نے زور شور دھوم دھام سے میلاد منایا مگر نہ خونریزی رکی نہ ڈاکہ زنی ختم ہوئی اور نہ دیگر لوٹ مار کے کاروبار رکے بلکہ میلاد کے مہینہ کے بعد ساتویں ماہ ماہ رمضان میں اسلام آباد، مظفر آباد، راولہ کوٹ، بالا کوٹ وغیرہ میں جو زلزلہ آیا اس نے تو امن امان کی ساری صورت حال بگاڑ کے رکھ دی، الامان والحفیظ۔ رحمتوں برکتوں کے نزول کے بجائے تباہی و بربادی کا نزول ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خود میلادیوں کے نزدیک میلاد کی حیثیت میں اختلاف

نیز خود میلادیوں بریلویوں کے ہاں میلاد کی حیثیت میں بھی اختلاف ہے ایک صاحب اسے واجب قرار دیتے ہیں چنانچہ مولوی دیدار علی صاحب اپنی کتاب اصول الکلام فی بیان المولد والقیام ص:۵۸میں لکھتا ہے کہ میلاد سنت اور واجب ہے مگر یہی مولوی دیدار علی اسی کتاب کے ص:۱۵پر پہلے لکھتا ہے کہ میلاد شریف کا سلف صالحین سے قرون اولی میں کوئی ثبوت نہیں یہ بعد میں ایجاد ہوئی (اصول الکلام ص:۱۵، بحوالہ البریلویت اردو ص:۲۱۷عربی ص:۱۲۴) بھلا جو عمل سلف صالحین میں نہ ہوا ہو وہ سنت اور واجب کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ سنت و واجب کی تعریف ہدایہ میں یہی لکھی گئی ہے کہ جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو۔

مفتی احمد یار گجراتی بریلوی لکھتا ہے محض میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا اس کے ذکر کے موقعہ پر خوشبو لگانا گلاب چھڑکنا، شیرین تقسیم کرنا غرضیکہ خوشی کااظہار جس جائز طریقے سے ہو وہ مستحب ہے اور باعث برکت، آج بھی اتوار کو عیسائی اس لئے عید مناتے ہیں کہ اس دن دستر خواں اترا تھا اور حضور کی تشریف آوری اس مائدہ سے کہیں بڑھ کر نعمت ہے لہٰذا ان کی ولادت کا دن بھی یو م العید ہے(جاء الحق ص:۲۳۱بحوالہ البریلویت اردو ص:۲۱۸عربی ص:۱۱۵) اور یہی گجراتی مولوی مفتی لکھتا ہے۔ اگر کوئی واجب سمجھے تو اس کا یہ سمجھنا بہت برا ہو گا (جاء الحق) حالانکہ مستحب کے متعلق فقہ حنفی میں لکھا ہوا ہے ومستحبہ وہو ما فعلہ النبی مرۃ وترکہ اخری و ما احبہ السلف (در مختار ج:اول ص، بحث مستحبات وضو) کہ مستحب وہ کام ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہو اور کبھی چھوڑا ہو اور جس کو سلف صالحین اچھا جانتے ہوں۔ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام تابعین اور سلف صالحین میلاد نہیں مناتے تھے اور فقہ حنفی میں ہے کہ جب سنت اور بدعت کا حکم لگانے میں شک ہو جائے تو ایسے کام کو چھوڑنا بدعت پر عمل کرنے سے بہتر ہے (ردالمحتار ج:۱، ص:۴۷۵) اذا ترد دالحکم بین سنۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ راجحا علی فعل البدعۃ۔ اور واجب کے متعلق ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ واجب وہ کام ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ کیا ہو اور کبھی بھی اس کا ترک کرنا ثابت نہ ہو۔

حالانکہ علماء تو بیان کرتے ہیں کہ میلاد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہیں منایا، تابعین چاروں ائمہ اور محدثین کے ذکر میلاد کی حقیقت پہلے بالوضاحت بیان کر آیا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سعیدی: حضرت الشیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ھ جن کو دیوبندیوں غیر مقلدوں نے اپنا مقتدا و پیشوا تسلیم کیا ہے وہ بارگاہ الوھیت میں عرض کرتے ہیں۔ اے اللہ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے آپ کے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں… البتہ ایک عمل تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقعہ پر میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں، اور نہایت ہی عاجزی و انکساری محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں۔ اے اللہ وہ کون سا مقام ہے جہا ں میلاد پاک سے زیادہ تیری خیروبرکت کا نزول ہوتا ہو؟ اس لئے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بیکار نہیں جائے گا بلکہ یقینا تیری بارگاہ میں قبول ہو گا، اور جو کوئی درودوسلام پڑھے اور اس کے ذریعہ سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہو سکتی (اخبار الاخیار اردو ص:۶۲۴)(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۳۱)

محمدی
اول: اگر یہ اقرار نامہ محدث دہلوی کا لفظ بلفظ انہیں کا ہے اور اس میں سعیدی کشید بھی نہیں ہے (کیونکہ فی الحال میرے پاس یہ کتاب موجود نہیں ہے۔ محمدی) تو پھر اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ دہلوی، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ وغیرہ کو جو فرائض ہیں ان کو آپ ادا نہیں فرمایا کرتے تھے اور اگر نماز ادا بھی کرتے تھے تو اتنی عاجزی اور انکساری اور خلوص کے ساتھ ادا نہیں کرتے تھے ہاں آپ صرف یہ میلاد اور درود و سلام والا عمل ایسا کرتے تھے اس لئے فرماتے ہیں کہ میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے آپ کی دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں الخ یا پھر یہ مطلب ہے کہ نمازو روزہ حج زکوٰۃ صدقات والدین کے ساتھ حسن سلوک ہمسایہ سے اچھا سلوک وغیرہ وغیرہ بھی کیا کرتا ہوں مگر ان کی حیثیت میرے نزدیک یہ ہے کہ ان کو تیری دربار میں پیش کرنے کو لائق نہیں سمجھتا کیونکہ یہ تو ہیں خدا و رسول کے بتائے ہوئے طریقے و سلیقے۔ میرے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، میرے نزدیک جس کام کی اہمیت ہے جس کو میں آپ کی دربار میں پیش کر کے فخر محسوس کر رہا ہوں وہ ہے میر ا ذاتی کردار جس میں قرآن و سنت کی طرف سے رہنمائی حاصل نہیں ہے، یہ میرا ذاتی عمل ہے میں نے ہی اس کو بدعت حسنہ سمجھ کر ادا کیا ہے گویا محدث دہلوی کے نزدیک نماز روزہ، حج زکوٰۃ صدقہ خیرات والدین کے حقوق ہمسایوں کے حقوق، حسن اخلاق اقرباء کے حقوق کی پاسداری، اتنی اہمیت نہیں رکھتے جن کا حکم کتاب و سنت میں واضح انداز میں موجود ہے، ان کے نزدیک اہمیت اس کام کی ہے جس کا حکم نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ صحابہ کرام نے نہ تابعین نہ تبع تابعین نے دیا نہ اہل بیت اطہار نے دیا نہ فقہاء محدثین نے دیا۔ اپنی خواہش سے ایک عمل کیا اور اس پر عمل کر کے اللہ کی دربار میں پیش کر دیا اور آرزو یہ کہ میرا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی دربار میں قبول ہو گا۔

مگر اس کے مقابلہ میں زمانہ نبوی کا ایک عمل اور اقرار نامہ کتب احادیث بخاری شریف ص:۷۵۷ج دوم میں موجود ہے کہ خانہ ساز عمل (جیسا کہ محدث دہلوی نے خانہ ساز عمل پیش کیا ہے) طے کر کے اپنا اقرار نامہ ازواج مطہرات کو تین اصحاب نے پیش کیا تھا کہ ایک آئندہ ساری زندگی ہمیشہ روزہ سے رہے گا دوسرا ساری زندگی ہر رات قیام کرتا رہے گا سوئے گا نہیں ، تیسرا ساری زندگی نکاح شادی نہیں کرے گا گویا یہ تین اشخاص محدث دہلوی کی طرح اپنے اس اقرار نامہ پر خوش و خرم ہو کر چلے گئے کہ ہمارے یہ عمل اللہ ورسول کے نزدیک قبول ہوں گے۔ اللہ ورسول ضرور خوش ہوں گے اور اپنی رضا کا ٹکٹ ہمیں عطا فرمائیں گے، مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب اسوہ حسنہ نے یہ اقرار نامہ سنا تو خوش ہونے کے بجائے الٹا ان پر ناراض ہو گئے اور ان کو بلوا کر ان کے اقرار نامے کی خرابی بیان فرمائی کہ یہ اقرار نامہ یہ عمل یہ حسن نیت اپنی جگہ تمہیں اچھا لگا ہے مگر ضروری نہیں کہ تمہارا پسندیدہ اور خود ساختہ عمل اور حسن نیت اللہ ورسول کے ہاں بھی اچھا عمل ہو، تمہارے اقرار اور حسن نیت میں ایک خرابی ہے کہ جس کی وجہ سے تمہارے یہ اعمال اور تمہاری یہ حسن نیت اللہ ورسول کے ہاں قبول نہیں وہ ہے میری سنت کی خلاف ورزی تو اس اقرار نامہ کے مطابق اگر تم نے یہ عمل کیا تو تم اسوہ حسنہ محمدی کے خلاف عمل کرنے والے بن جاؤ گے اور تم کو اللہ ورسول کی رضامندی حاصل نہیں ہو گی اور آخر ت میں اس عمل سے سرخروئی نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سب کیلئے اسوہ حسنہ (نمونہ) بنا کر بھیجا ہے تم میں سے کسی کو یہ مقام حاصل نہیں کہ جو تم کرو کہو وہ اللہ کی رضا سمجھی جائے ہاں میں جو کروں جو کہوں وہ اللہ کی رضا کے کام ہوں گے کہ میرے پاس اللہ کا کنکشن (وحی) موجود ہے وہ ہر وقت میرے ساتھ رابطہ کئے ہوئے ہے اور مجھے بتاتے رہتے ہیں ، میں اپنی مرضی سے نہیں بولتا، اس کی وحی سے بولتا ہوں، دیکھو میرا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے کہ میں ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہوں ان کے علاوہ باقی مہینوں میں کبھی روزہ دار ہوتا ہوں اور کبھی افطا ر میں ، اور رات کے وقت نفلی عبادت کرتا ہوں مگر ساری رات نہیں، کچھ حصہ سوتا ہوں اور کچھ حصہ اٹھ کر قیام کرتا ہوں نفل پڑھتا ہوں، میں نے شادیاں کی ہوئی ہیں یہ ہے میری سنت یہ ہے میرا اسوہ حسنہ آگے فرمایا: فمن رغب عن سنتی فلیس منی کہ جو میرے طریقہ اور میری سنت کی پروا نہ کرے اور اس کو حقیر جانے ، قلیل جانے اور میری سنت کو معمولی حیثیت دے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی مکمل رضا اور آخرت کی سرخروئی کا مکمل سبب نہ سمجھے اور اپنے بنے بنائے عملوں، چاہتوں اور حسن نیتوں کو فوقیت دے، وہ میرے تعلق داروں سے نہیں، میرا تعلق دار وہ ہے جو میرے فرمان میرے طریق میری سنت کو پسند کرے اور میری سنت کو کافی سمجھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت تعظیماً کھڑے ہونا جائز نہیں ہے۔
دوم: درود و سلام نماز کے اندر پڑھنے کو اہلحدیث فرض اور قبولیت نماز اور قبولیت دعا کیلئے شرط اور ضروری سمجھتے ہیں مگر سنت کے مطابق ، ہاں میلاد مناتے وقت یا بعد آپ کی تشریف آوری سمجھتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہو کر آپ پر درود سلام نہیں پڑھتے کیونکہ یہ طریق آپ کے بتائے ہوئے اسوہ حسنہ کے خلاف ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اپنی زندگی میں تعظیماً قیام کرنے (کھڑے ہونے) سے منع فرمایا ہے:
عن ابی امامۃ قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی عصا فقمنالہ فقال لا تقوموا کما یقوم الاعاجم یعظم بعضہ بعضا۔(ابوداؤد مشکوۃ ص:۴۰۳)
کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی کے سہارے ایک دن باہر تشریف لائے تو ہم آپ کیلئے کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عجمی لوگوں کی طر ح کھڑے نہ ہوا کرو کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تعظیم اسی طرح کیا کرتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
لم یکن شخص احب الیہم من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکانوا اذا راؤہ لم یقوموا لما یعلمون من کرھیتہ ذلک۔ (ترمذی حسن صحیح مشکوٰۃ ص:۴۰۳)
کہ صحابہ کرام کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات برکات تھی (مگر) صحابہ کرام جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے کہ تشریف لا رہے ہیں آپ کیلئے (تعظیماً) کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ (تعلیم نبوی ) جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو مکروہ اور ناپسند فرماتے ہیں۔ یہ تو ہے ذاتی تشریف آوری کی بات تو پھر آپ کی روحانی تشریف آوری پر قیام کیسے جائز ہو گا اور اللہ تعالیٰ ایسے قیام کو کیسے قبول فرمائے گا جس قیام کو خود اسوہ حسنہ والے ناپسند فرماتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگان دین احناف وغیرہ نے قیام میلاد النبی سے منع فرمایا ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احناف نے قیام میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منع فرمایا ہے

و یقومون عند تولدہ صلی اللہ علیہ وسلم ویزعمون ان روحہ صلی اللہ علیہ وسلم یجی وحاضر۔ فزعمہم باطل بل ہذا الاعتقاد شرک قد منع الائمۃ عن مثل ہذا (قاضی شہاب الدین تحفۃ القضاۃ، بحوالہ فتاویٰ رشیدیہ ص:۲۳۷، انوار التوحید سیالکوٹی ص:۳۳۵) لہٰذا شیخ دہلوی کا یہ اقرار نامہ شریعت محمدیہ کے خلاف اور عمل ونظریہ صحابہ کرام و تصریحات علماء حنفیہ کے خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سوم : قاضی شہاب الدین نے شیخ دہلوی کے عمل کو قابل رد قرار دے دیا ہے اور اس عمل اور اعتقاد کو شرک بتایا ہے۔

چہارم: ہمارے نزدیک میلاد نبوی منانے والی جگہ کے مقابلہ میں وہ مقام زیادہ برکت والا ہے جہاں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں، ورنہ آپ کو کہنا پڑے گا کہ روضہ نبوی سے زیادہ برکت والی جگہیں پاکستان و ہندوستان والی وہ جگہیں ہیں جہاں لوگ میلاد مناتے ہیں الخ۔

پنجم : میلاد منانے کی وہ جگہ جہاں بعض اوقات روایات موضوعہ پڑھی جاتی ہیں اور سنائی جاتی ہیں ایسی جگہوں کے متعلق احمد رضا صاحب کا فتویٰ ابھی گزرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاک منزہ ہیں اس سے کہ ایسی ناپاک جگہ تشریف فرما ہوں البتہ وہاں ابلیس شیاطین کا ہجوم ہو گا الخ۔

ششم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ شر البقاع اسوا قہاء خیر البقاع مساجدہا (ابن حبان مشکوٰۃ ص:۷۱) کہ شر کی جگہ بازاریں ہیں اور خیروبرکت کی جگہیں مساجد ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا المدینۃ خیرہم (مشکوٰۃ ص:۲۳۹) کہ ان کیلئے مدینہ خیر کی جگہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف کی طرف اشارہ فرما کر فرمایا: واللہ انک لخیر ارض اللہ۔(مشکوٰۃ ص:۲۳۸) کہ اللہ کی قسم بیشک تو (اے مکہ شریف) اللہ تعالیٰ کی ساری زمین سے زیادہ خیروبرکت والی جگہ ہے۔
 
Top