• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا ؟

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !
فیس بک پر مختلف نظریات کے حامل افراد ہر طرح کی پوسٹس کرتے ہیں۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عام آدمی کے لئے فتنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک درج ذیل پوسٹ ہے جو عثمانی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے فیس بک پر کی، جس پر اس کے حلقے کے افراد نے اسے داد دی۔
اہل علم سے درخواست ہے کہ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں۔ میں اس کی عبارت کو کاپی کر رہا ہوں۔

"
کتاب الاعتقاد / کتاب السنہ --- ابن ابی يعلى / ابو بکر الخلال --- الله نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا - نعوذبالله

قرآن کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپکو مقام محمود پر مبعوث کرے - (سورة الإسراء:٧٩)

بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے رب تعالی کہے گا:
فيقول يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعط واشفع تشفع
اے محمد اٹھو اور کہو سنا جائے گا اور شفاعت کرو قبول ہو گی مانگو اور دیا جائے گا - (صحيح البخاري: كتاب التوحيد: باب كلام الرب عز وجل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم)

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے -

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے نہ کہ عرش عظیم -
ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا - افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں

الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا - نعوذباللہ!

ابن ابی يعلى (المتوفى: 526هـ) لکھتے ہیں کہ:
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: يُقعد محمداً على العرش فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں -

وقال ابن الحارث: " نعم يقعد محمدا على العرش" وقال عبد الله بن أحمد: "وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث
ابن الحارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمد کو الله بٹھائے گا اور عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے -

السنة لأبي بكر بن الخلال (المتوفى: 311هـ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا - (جلد ١ ، صفحہ ٢٥٤ ، رقم ٣٠٣ ، دار الراية - الرياض)

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے نام نہاد مسلمانوں میں بھی یہ غلو در کر آیا ہے -

الذھبی (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں کہ:
ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا - قال: يجلسه معه على العرش
تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ: اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا - (ميزان الاعتدال: جلد ٣ صفحہ ، ٤٣٩ ، دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان)

الطبری (المتوفى: 310هـ) لکھتے ہیں کہ:
فإن ما قاله مجاهد من أن الله يقعد محمدا صلى الله عليه وسلم على عرشه ، قول غير مدفوع صحته ، لا من جهة خبر ولا نظر
پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے - (تفسير الطبري: تفسير سورة الإسراء: القول في تأويل قوله تعالى "ومن الليل فتهجد به نافلة لك")

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے -

الله ہم سب کو غلو سے بچائے -"


 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فونٹ بہت باریک ہونے کی وجہ پڑھا نہیں جارہا تھا ،اس لئے سائز تبدیل کر دیا ہے ؛
کتاب الاعتقاد / کتاب السنہ --- ابن ابی يعلى / ابو بکر الخلال --- الله نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا - نعوذبالله

قرآن کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپکو مقام محمود پر مبعوث کرے - (سورة الإسراء:٧٩)

بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے رب تعالی کہے گا:
فيقول يا محمد ارفع رأسك وقل يسمع لك وسل تعط واشفع تشفع
اے محمد اٹھو اور کہو سنا جائے گا اور شفاعت کرو قبول ہو گی مانگو اور دیا جائے گا - (صحيح البخاري: كتاب التوحيد: باب كلام الرب عز وجل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم)

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے -
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے نہ کہ عرش عظیم -
ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا - افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں

الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا - نعوذباللہ!

ابن ابی يعلى (المتوفى: 526هـ) لکھتے ہیں کہ:
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: يُقعد محمداً على العرش فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں -

وقال ابن الحارث: " نعم يقعد محمدا على العرش" وقال عبد الله بن أحمد: "وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث
ابن الحارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمد کو الله بٹھائے گا اور عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے -

السنة لأبي بكر بن الخلال (المتوفى: 311هـ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا - (جلد ١ ، صفحہ ٢٥٤ ، رقم ٣٠٣ ، دار الراية - الرياض)

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے نام نہاد مسلمانوں میں بھی یہ غلو در کر آیا ہے -

الذھبی (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں کہ:
ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا - قال: يجلسه معه على العرش
تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ: اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا - (ميزان الاعتدال: جلد ٣ صفحہ ، ٤٣٩ ، دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان)

الطبری (المتوفى: 310هـ) لکھتے ہیں کہ:
فإن ما قاله مجاهد من أن الله يقعد محمدا صلى الله عليه وسلم على عرشه ، قول غير مدفوع صحته ، لا من جهة خبر ولا نظر
پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے - (تفسير الطبري: تفسير سورة الإسراء: القول في تأويل قوله تعالى "ومن الليل فتهجد به نافلة لك")
مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے -
الله ہم سب کو غلو سے بچائے -"
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
جزاک اللہ اسحاق بھائی، مجھ سے فانٹ کا سائز تبدیل نہیں ہو رہا تھا، آپ نے کر دیا۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
حنابلہ کا یہ قول ملتا ہے کہ وہ اسی کے قائل تھے بلکہ وہ امتحان لینے کیلئے کہ فلاں سنی ہے یا نہیں یہی سوال بھی کیا کرتے تھے
جو امام احمد بن حنبل پر نقد کر رہا ہے اسے کہیں یہ ذرا شاذ قول امام مجاھد کو جو لکھا ہے اپنے منہ سے ذرا ان پر بھی کچھ فرما دیجئے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

المقام المحمود هو الشفاعة وليس إقعاد النبي صلى الله عليه وسلم على العرش
----------------------------------------------------
السؤال : ما صحة تفسير الإمام مجاهد في قوله تعالى : ( عسى أن يبعثَك ربك مقاما محمودا ) : هو أن يُجلس اللهُ تعالى محمدًا صلى الله عليه وآله وسلم معه على كرسيه ، أو أن محمداً رسول الله يُجلسه ربُّه على العرش معه ؟

الجواب :
الحمد لله
مسألة إقعاد النبي صلى الله عليه وسلم على العرش كانت وما زالت مثار جدال وحوار ، وينبغي التنبيه على عدة أمور قبل الكلام على صحة هذا الكلام أو عدم صحته :
أولاً :
ليس في إثبات قعود النبي صلى الله عليه وسلم على العرش حديث مقبول ثابت الإسناد عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والقاعدة التي تقوم عليها عقيدة أهل السنة والجماعة : أن ما سكت عنه النبي صلى الله عليه وسلم من أخبار الغيب يبقى من الغيب الذي لا يجوز الخوض فيه على وجه الجزم والإيمان .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
" حديث قعود الرسول صلى الله عليه وسلم على العرش ، رواه بعض الناس من طرق كثيرة مرفوعة ، وهي كلها موضوعة ". انتهى من" درء تعارض العقل والنقل " (3/19) .
وقال الذهبي رحمه الله :
" قضية قعود نبينا على العرش فلم يثبت في ذلك نص ، بل في الباب حديث واه ". انتهى من
" العلو " (2/1081، رقم/422) .
ثانياً :
تفسير القرآن الكريم بما ورد في صحيح السنة أولى بالاتباع من الأخذ بتفسير أحد التابعين – ولو كان بعلم مجاهد رحمه الله -، خاصة إذا عرفنا أنه قد روي عن مجاهد نفسه أنه قد فسر الآية بما يوافق الأحاديث والآثار الصحيحة كما سيأتي نقله .
فعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( يُبْعَثُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي عَلَى تَلٍّ ، وَيَكْسُونِي رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى حُلَّةً خَضْرَاءَ ، ثُمَّ يُؤْذَنُ لِي ، فَأَقُولُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ أَقُولَ ، فَذَاكَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ ) رواه أحمد في " المسند " (25/60) طبعة مؤسسة الرسالة .
وقال المحققون لهذه الطبعة : " إسناده صحيح على شرط مسلم ، رجاله ثقات رجال الشيخين غير يزيد بن عبد ربه - وهو الزُّبيدي الحمصي- فمن رجال مسلم، وعبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، اختلف في سماعه من جده ، والصحيح سماعه منه " انتهى.
ومن الآثار الموقوفة الصحيحة قول ابن عمر رضي الله عنهما : (إِنَّ النَّاسَ يَصِيرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا ، كُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَّهَا ، يَقُولُونَ يَا فُلاَنُ اشْفَعْ ، حَتَّى تَنْتَهِي الشَّفَاعَةُ إِلَى النَّبِي صلى الله عليه وسلم ، فَذَلِكَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ) رواه البخاري (4718) وبوب عليه بقوله: باب قَوْلِهِ ( عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ) اختياراً منه لهذا الوجه من التفسير .
وتفسير الآية بمقام الشفاعة العظمى هو الذي اقتصر عليه الحافظ ابن كثير في " تفسير القرآن العظيم " (5/103)، وأورده عن كثير من الصحابة والتابعين ، وقال فيه ابن جرير الطبري : إنه قول أكثر أهل التأويل .
وهذا القول أولى ما فسرت به الآية .
ثالثاً :
حكاية بعض العلماء لكلام مجاهد وعدم إنكارهم له ، لا يعني أنه يقولون بما فيه ، بل ذلك من باب التساهل في ذكر الفضائل .
حكى أبو محمد بن بشار ، عن عبد الله بن أحمد ، عن أبيه :
" أنه كان يعرض عليه الحديث ، فيقول فيه : هذا رواه كذا وكذا رجل يسميهم ، فإذا عرض عليه حديث ضعيف قال له : اضرب عليه . فعرض عليه حديث مجاهد فضعفه ، فقال : يا أبه ! أَضْرِبُ عليه ؟ فقال : لا ، هذا حديث فيه فضيلة ، فأجره على ما جرى ، ولا تضرب عليه " انتهى.
نقله في " إبطال التأويلات " (ص/489) .
وهذا النقل يدل على سبب اشتهار أثر مجاهد ، وهو سكوت بعض أئمة الحديث كالإمام أحمد عن هذا الأثر ، فظن بعض العلماء أن ذلك من باب التسليم بمضمونه ، والاعتقاد بمحتواه ، فقيل : إنه من الآثار المتلقاة بالقبول .
والواقع ليس كذلك ، فقد صرح كثير من العلماء بعدم صحة هذا الكلام الذي قاله مجاهد .
قال ابن عبد البر رحمه الله :
" على هذا أهل العلم في تأويل قول الله عز وجل : ( عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَحْمُوداً ) أنه الشفاعة .
وقد روي عن مجاهد أن المقام المحمود أن يقعده معه يوم القيامة على العرش ، وهذا عندهم منكر في تفسير هذه الآية .
والذي عليه جماعة العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم من الخالفين أن المقام المحمود هو المقام الذي يشفع فيه لأمته ، وقد روي عن مجاهد مثل ما عليه الجماعة من ذلك ، فصار إجماعا في تأويل الآية من أهل العلم بالكتاب والسنة .
ذكر ابن أبي شيبة عن شبابة ، عن ورقاء ، عن ابن أبي نجيح ، عن مجاهد في قوله تعالى : ( عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَحْمُوداً ) قال : شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم " انتهى من " التمهيد " (19/63-64) .
وقال الإمام الذهبي رحمه الله :
" ومِن أَنْكَرِ ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله : ( عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا ) قال: يجلسه معه على العرش ". انتهى من" ميزان الاعتدال " (3/439) .
وقال أيضا رحمه الله :
" وما فسر به مجاهد الآية كما ذكرناه فقد أنكره بعض أهل الكلام ، فقام المروذي وقعد وبالغ في الانتصار لذلك ، وجمع فيه كتابا ، وطرَّق قول مجاهد من رواية ليث بن أبي سليم وعطاء بن السائب وأبي يحيى القتات وجابر بن يزيد ... فأبصر - حفظك الله من الهوى - كيف آل الغلو بهذا المحدث إلى وجوب الأخذ بأثر منكر " انتهى من" العلو " (2/1081-1090، رقم/422-426) .
وقال الشيخ الألباني رحمه الله :
" ومما يدل على ذلك أنه ثبت في " الصحاح " أن المقام المحمود هو الشفاعة العامة الخاصة بنبينا صلى الله عليه وسلم .
ومن العجائب التي يقف العقل تجاهها حائرا أن يفتي بعض العلماء من المتقدمين بأثر مجاهد هذا كما ذكره الذهبي عن غير واحد منهم ، بل غلا بعض المحدثين فقال : لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن الله يقعد محمدا صلى الله عليه وسلم على العرش واستفتاني ، لقلت له : صدقت وبررت !
وإن مثل هذا الغلو لمما يحمل نفاة الصفات على التشبث بالاستمرار في نفيها ، والطعن بأهل السنة المثبتين لها ، ورميهم بالتشبيه والتجسيم ، ودين الحق بين الغالي فيه والجافي عنه ، فرحم الله امرءا آمن بما صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصفات وغيرها على الحقيقة اللائقة بالله تعالى ، ولم يقبل في ذلك ما لم يصح عنه صلى الله عليه وسلم كهذا الحديث ، [يعني حديث : (ويقعدني على العرش)] ، فضلا عن مثل هذا الأثر ". انتهى من" السلسلة الضعيفة " (865) .
وقال الشيخ الألباني أيضا رحمه الله :
" رواية الأحاديث الضعيفة من بعض المحدثين هو مما يعاب عليهم من قبل المخالفين لهم ، وإن كان هؤلاء يفعلون ما هو أسوأ من ذلك كما أوضحه شيخ الإسلام .
ومن أشهر من أخذ ذلك عليهم في هذا العصر ، ويتخذه حجة في تسخيفهم وتضليلهم الشيخ الكوثري المعروف بعدائه الشديد لأهله السنة والحديث ، ونبزه إياهم بلقب الحشوية والمجسمة ، وهو في ذلك ظالم لهم مفتر .
ولكن - والحق يقال - قد يجد أحيانا في ما يرويه بعضهم من الأحاديث والآثار ما يدعم به فريته ، مثل الحديث المروي في تفسير قوله تعالى : ( عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا ) قال : يجلسني على العرش .
والحق في تفسير المقام المحمود دون شك ولا ريب – الشفاعة - ؛ وهو الذي صححه الإمام ابن جرير في ( تفسيره )، ثم القرطبي ، وهو الذي لم يذكر الحافظ ابن كثير غيره وساق الأحاديث المشار إليها .
بل هو الثابت عن مجاهد نفسه من طريقين عنه عند ابن جرير .
وذاك الأثر عنه ليس له طريق معتبر ، فقد ذكر – الذهبي - أنه روي عن ليث بن أبي سليم وعطاء بن السائب وأبي يحيى القتات وجابر بن يزيد : والأولان مختلطان والآخران ضعيفان بل الأخير متروك متهم .... وخلاصة القول : إن قول مجاهد هذا - وإن صح عنه - لا يجوز أن يتخذ دينا وعقيدة ما دام أنه ليس له شاهد من الكتاب والسنة ". انتهى باختصار من" مختصر العلو " (14-20) .
وبهذا يتبين أن الصحيح في تفسير المقام المحمود هو مقام الشفاعة ، وليس كما ورد في هذا الأثر عن مجاهد رحمه الله .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ar/154636
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

[FONT=Georgia, Bitstream Charter, serif]سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
[/FONT]
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

[FONT=Georgia, Bitstream Charter, serif]فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں
[/FONT]​
[FONT=Georgia, Bitstream Charter, serif]http://islamqa.info/ur/154636[/FONT]​
[FONT=Georgia, Bitstream Charter, serif]
لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن زن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی، مجاهد بن جبر المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات کے ترجمے میں کہتے ہیں


ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش


تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے
[/FONT]​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
لوگ اسے امام احمد کا عقیدہ بتاتے ہیں ۔اس سے ان کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ۔جب تک صحیح ذریعہ سے یہ بات ان سے ثابت نہ ہو۔۔
اور امام ابن تیمیہ ؒ کبھی ’‘ حسن زن ’‘ کی بات نہیں کرتے ۔(کیونکہ حسن زن ۔عورتوں کے حسن کو کہا جاتا ہے ۔)
اقبال کا کہنا ہے ۔۔۔وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

لوگ اسے امام احمد کا عقیدہ بتاتے ہیں ۔اس سے ان کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ۔جب تک صحیح ذریعہ سے یہ بات ان سے ثابت نہ ہو۔۔





آگے لکھتے ہیں





شیخ صالح بن فوزان ، عبد العزیز بن فیصل کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے


@خضر حیات بھائی کا جواب بھی پڑھ لیں -


اس میں جواب دینے والی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ اس میں دو چیزیں ثابت کی گئی ہیں :
1۔ امام احمد کا عقیدہ اقعاد النبی علی العرش کا تھا ۔
2۔ یہ صرف حنبلیوں کا ہی نہیں اور بھی علماء کا عقیدہ تھا ۔
مجھے ان دو باتوں میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں ۔


 
Top