• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قلیل العربیہ تھے ؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کچھ اہل علم کا خیال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ قلیل العربیہ تھے۔ اس تھریڈ کو شروع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے قلیل العربیۃ ہونے کا جن اہل علم نے دعوی کیا ہے، کیا وہ صحیح دعوی ہے؟ کسی غلط فہمی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پر یہ بات عام ہو گئی ہے۔

میرے علم میں سب سے پہلے جس نے امام صاحب رحمہ اللہ کے قلیل العربیہ ہونے کے دعوی کو شد و مد سے بیان کیا ہے وہ امام الحرمین امام جوینی رحمہ اللہ ( 419 - 438 ھ) نے بیان کی ہے۔
امام جوینی رحمہ اللہ کا بیان
وہ اصول فقہ پر اپنی مدون کتاب ’البرھان‘ میں لکھتے ہیں:
وأما أبو حنيفة فما كان من المجتهدين أصلا لأنه لم يعرف العربية حتى قال لو رماه بأبا قبيس وهذا لا يخفى على من شدا أدنى شيء من العربية ولم يعرف الأحاديث حتى رضي بقبول كل سقيم ومخالفة كل صحيح ولم يعرف الأصول حتى قدم الأقيسة على الأحاديث ولعدم فقه نفسه اضطرب مذهبه وتناقض وتهافت فلا يخفى أن الشريعة مجامعها ( الحث ) على مكارم الأخلاق والنهي عن الفواحش والموبقات ( وإباحة نفي في المحرمات ) ( فمن ) صار في العقوبة الآيلة إلى حقوق الآدمي مثل القصاص إلى إسقاطه بالمثقل فقد خرجت القاعدة التي لأجلها ثبت القصاص حيث قال تعالى ولكم في القصاص حياة ثم ترقى من نفي القصاص إلى إنكار الحس فحكم بكونه خطأ حتى ضرب العقل على العاقلة وأثبت فيه الكفارة مع نفيه الكفارة عن العمد وصار في العقوبات الثابتة لله تعالى إلى أن قطع السرقة يسقط فيما كان أصله على الإباحة والأشياء الرطبة ويضم ما لا قطع فيه إليه ( وحرم انهه العبادات بترتيب أقل ما يجري من الصلاة ) وأبطل مقصود الزكوات حيث أنكر وجوبها على الفور ثم أسقطها بالموت ثم حج ذلك باعتقاده تغير حكم الله تعالى بقبول كل قاض فأباح زوجة زيد لعمرو بغير طلاق من زيد ومن غير عدة ولا نكاح من عمرو وبشهادة زور ودعوى باطلة ولم ير القصاص في القتل بالمثقل وكان يقول لا يضر مع الإيمان معصية كما لا ينفع مع الكفر طاعة فقال كل فقه بعدك حرام ووقع ذلك منه موقعا عظيما وعن هذا قيل استتيب أبو حنيفة من الإرجاء مرتين فإن هذا مذهب ( المرجئة ) فكيف يظن وحاله هذا مجتهدا (البرھان، جلد٢، ص ٨٧٣، دار الوفا، المنصورہ، مصر)
متعلقہ حصہ کو ہائی لائیٹ کیا گیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اصلا مجتہدین میں سے نہیں تھے کیونکہ وہ عربی زبان نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ و لو رماہ باباقبیس اور اس عبارت کی غلطی ہر اس شخص پر واضح ہے جو عربی زبان کاادنی سا علم بھی رکھتا ہے۔ ( اس عبارت میں باباقبیس کے لفظ پر نقد کی گئی ہے کہ ابو قبیس پر جب حرف جارہ باء داخل کی جائے گی تو وہ ابی قبیس ہو جائے گا )۔
امام غزالی رحمہ اللہ کا بیان
امام غزالی رحمہ اللہ ( 450-505 ھ) اصول فقہ پر اپنی کتاب 'المنخول‘ میں بیان فرماتے ہیں:
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول ويتبين ذلك باستثمار ثنا مذاهبه فيما سنعقد فيه بابا في آخر الكتاب الله أعلم(المنخول، جلد ١، ص ٥٨١، دارالفکر، بیروت)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مجتہد نہیں تھے کیونکہ وہ عربی زبان نہیں جانتے تھے اور اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا و لو رماہ بابو قبیس
ابن خلکان کا بیان
ابن خلکان اپنی کتاب( 608-681 ھ) اپنی کتاب "وفیات الاعیان" میں فرماتے ہیں:
ولم يكن يعاب بشيء سوى قلة العربية، فمن ذلك ما روي أن أبا عمرو بن العلاء المقرىء النحوي - المقدم ذكره - سأله عن القتل بالمثل: هل يوجب القود أم لا فقال: لا، كما هو قاعدة مذهبه خلافاً للإمام الشافعي رضي الله عنه، فقال له أبو عمرو: ولو قتله بحجر المنجنيق، فقال: ولو قتله بأبا قبيس، يعني الجبل المطل على مكة حرسها الله تعالى. وقد اعتذروا عن أبي حنيفة بأنه قال ذلك على لغة من يقول: إن الكلمات الست المعربة بالحروف - وهي أبوه وأخوه وحموه وهنوه وفوه وذو مال - أن إعرابها يكون في الأحوال الثلاث بالألف، وأنشدوا في ذلك:
إن أباها وأبا وأباها ... قد بلغنا في المجد غايتاها وهي لغة الكوفيين، وأبو حنيفة من أهل الكوفة، فهي لغته، والله أعلم.
وهذا وإن كان خروجاً عن المقصود لكن الكلام ارتبط بعضه ببعض فانتشر.
(وفیات الاعیان، جلد٥، ص ٤١٣، دار صادر، بیروت)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قلت عربی کے علاوہ کوئی عیب نہیں لگایا گیا۔ اور اس عیب میں وہ واقعہ بھی داخل ہے جو ابو عمرو بن العلا مقری نحوی کا ہے کہ اس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیا قتل مثل ( یعنی آلہ قتل کے مثل کسی شیئ سے قتل کرنے یا بعض عبارتوں کے مطابق کسی بھاری شیئ سے قتل کرنے ) کے بارے سوال کیا کہ کیا اس سے قصاص لازم آتا ہے یا نہیں؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ نہیں ! جیسا کہ ان کے مذہب کا قاعدہ ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف ہے۔اس پر ابو عمرو نحوی نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر وہ اسے منجنیق کے پتھر سے بھی قتل کر دے تو کیا پھر بھی قصاص نہیں ہو گا تو امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ اسے ابو قبیس یعنی مکہ میں موجود ایک پہاڑ سے بھی قتل کر دے تو بھی قصاص نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مزید یہ حوالہ جات بھی اس بحث میں شامل کر لیے جائیں:

عندما حققت كتابي ، وطبعته الطبعة الثانية ، سنة 2004م في دمشق ، وهو :
المعجم في أسماء بقية الأشياء ، مع الذيل والتكملة ؛ لأبي هلال العسكري ، وقد نشرته على أربع نسخ خطية ، بالإضافة إلى طبعتي السابقة له ، في بيروت ، ومن ثمة طبعة مصر القديمة .
مرت معي قضية ، توقفت عندها طويلا ، وبحثت فيها كثيرا ، ولم أوفق إلى أي شيء ، وها هي ذي .


پہلی دلیل
1- جاء في الصفحة (57) ، من طبعتي هذه :
( .... أخبرنا عسل بن ذكوان ، أخبرنا أبو عثمان المازني ، قال :
سمعت سعيد بن أوس ، يقول :
لقيت أبا حنيفة ، فحدثني بحديث فيه :
(يدخل الجنة قوم حفاة عراة منتنين ، قد محشتهم النار) ،
فقلت له :
قوم منتنون ، قد محشتهم النار !!؟؟
فقال لي :
ممن أنت !!؟؟
قلت :
من أهل البصرة .
فقال :
كل أصحابك مثلك !!؟؟
قلت : إني من أدونهم .
فقال : طوبى لقوم أنت من أدونهم ....) .

اس روایت کے مطابق سعید بن اوس نے کہا کہ میری امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں ایک لفظ منتنون کو رفع کی بجائے نصب میں پڑھا ہے جبکہ وہ فاعل تھا اور اسے رفع میں پڑھنا چاہیے تھا تو میں نے ان کی اصلاح کی تو انہوں نے میرے علم نحو پر تعجب (اچھے معنوں میں) کا اظہار کیا۔

دوسری دلیل
2- وجاء في الصفحة (65) ، من طبعتي هذه :
( ... عن الأصمعي ، عن عيسى بن عمر النحوي ، قال :
أتيت الكوفة ، وقد كثر ذكر الناس لأبي حنيفة ، فأتيته ، فإذا رجل يسأله عن مسألة ، فأجاب فيها ، فلحن في كلامه ، فقلت :
الرجل ليس هناك ، وكان يرمقني ، وأحس بإنكاري ، فسبق بإصلاح ما كان منه ، ثم أضافني ، فأجبته ، فلما طعمنا ، جعل يتتبع ما على الأرض من الفتات ، فيلقيه في فيه ، ويخرج بالخلال ما بين أسنانه ، فيلفظه ، ثم قال :
كان يقال :
كُـلْ الوغم ، وألق الفغم
فاستحسنت أموره ، وحدثت أصحابنا بها ...) .

اس روایت کے مطابق عیسی بن عمر نحوی نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد ان کے کلام میں لحن کی نشان دہی کی ہے۔

تیسری دلیل
3- وجاء في الصفحة (72) ، من طبعتي هذه :
( ... عن عمر بن عبد الرحمن السلمي ، عن المازني ، قال :
سمع أبو عمرو بن العلاء أبا حنيفة يتكلم في الفقه ، ويلحن ، فاستحسن كلامه ،
واستقبح لحنه ، فقال :
إنه لخطاب لو ساعده صواب ،
ثم قال لأبي حنيفة :
إنك أحوج إلى إصلاح لسانك من جميع الناس ....)



اس روایت کے مطابق ابو عمرو نے علاء نحوی نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے دوران ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اپنی زبان کی اصلاح کے محتاج ہیں اور ان کے بارے یہ کمنٹس جاری کیے کہ ان کی گفتگو اچھی ہوتی ہے لیکن ان کا زبان میں غلطیاں کرنا ایک قبیح عنصر ہے۔

چوتھی دلیل
4- رقم الحديث: 8
(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي الْجُمَحِيُّ ، عَنِ الْمَازِنِيِّ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ : لَقِيتُ أَبَا حَنِيفَةَ ، فَحَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ : " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُنْتِنِينَ ، قَدْ أَحْمَشَتْهُمُ النَّارُ ، فَقُلْتُ لَهُ : مُنْتِنُونَ قَدْ مَحَشَتْهُمُ النَّارُ ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتَ ؟ ، قُلْتُ : مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ ، قَالَ : أَكُلُّ أَصْحَابِكَ مِثْلُكَ ؟ ، قُلْتُ : أَنَا أَخَسُّهُمْ حَظًّا فِي الْعِلْمِ ، فَقَالَ : طُوبَى لِقَوْمٍ تَكُونُ أَخَسُّهُمْ فِي الْعِلْمِ " . (اخبار المصحفین لابی ھلال العسکری)
اس روایت کے مطابق ابو زید سعید بن اوس انصاری نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے دوران ایک حدیث میں ان کی غلطی نکالی جسے امام صاحب رحمہ اللہ نے قبول کیا اور ان کی تعریف کی۔ یہ روایت پہلی دلیل کے طور پر بھی بیان ہو چکی ہے۔

متعلقہ عبارت کو ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔ ایک پوسٹ میں مکالمہ کے دوران یہ بحث شروع ہو گئی تھی جس کے لیے ایک علیحدہ تھریڈ بنا دیا گیا ہے تا کہ یہاں اس بارے دلائل دونوں اطراف سے جمع ہو جائیں اور ایک عام قاری کے لیے کسی نتیجہ تک پہنچا آسان ہو جائے۔ امید ہے کہ جانبین آداب گفتگو اور تعصب سے بالاتر رہتے ہوئے اس موضوع کو آگے بڑھائیں گے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جہاں سے یہ سب "متاع"درآمد کیاگیاہے وہیں ان سب کا جواب شافی بھی موجود ہے۔ دیکھئے
قضية للمناقشة : هل كان أبو حنيفة النعمان لح&#1
یہ بھی دیکھئے
من نُسب إلى (اللحن) من الأئمة .. [الأرشيف] - ملتقى أهل الحديث
یہ بھی دیکھئے
هل يصح ما نسب إلى أبي حنيفة من جهله بالعربية، وهو الإمام المجتهد؟ [الأرشيف] - ملتقى أهل الحديث
پھر اس اداکوبھی دیکھئے کہ ابوالحسن علوی صاحب نے کیا"درآمد"کیاہے اورکس چیز کو وہیں چھوڑدیا۔
نسال اللہ السلامۃ من التعصب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دیکھئے
قضية للمناقشة : هل كان أبو حنيفة النعمان لح&#1
یہ بھی دیکھئے
من نُسب إلى (اللحن) من الأئمة .. [الأرشيف] - ملتقى أهل الحديث
یہ بھی دیکھئے
هل يصح ما نسب إلى أبي حنيفة من جهله بالعربية، وهو الإمام المجتهد؟ [الأرشيف] - ملتقى أهل الحديث
پھر اس اداکوبھی دیکھئے کہ ابوالحسن علوی صاحب نے کیا"درآمد"کیاہے اورکس چیز کو وہیں چھوڑدیا۔
نسال اللہ السلامۃ من التعصب
اگر آپ کوئی جواب یہاں نظر آ رہا ہے، تو ضرور وہاں سے نقل کر دیں۔ صرف کاپی، پیسٹ ہی کرنی ہے تو وقت بھی درکار نہیں ہے۔ ہاں پھر اس پر بحث ممکن ہے کہ جو جواب وہاں دیا گیا ہے وہ اصل سوال کا جواب ہے بھی یا نہیں؟

میرے بھائیَ! جہاں تک میں سمجھا ہوں وہاں تو یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر امام صاحب رحمہ اللہ کے کلام میں لحن تھا تو فلاں کے کلام میں بھی لحن تھا۔ بھئی یہ تو سوال ہی نہیں ہے کہ فلاں کے کلام میں بھی لحن تھا یا نہیں؟۔ پس وہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام میں لحن تھا، کا جواب یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے کلام میں بھی لحن تھا۔ اگر غور کریں تو اس جواب کا مطلب بھی یہی نکلتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام میں لحن اور نحو کی اغلاط تھیں۔ یعنی اس جواب میں کسی نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ امام صاحب کی زبان میں لحن یا نحو کی اغلاط نہیں تھیں بلکہ یہ کہنا چاہا ہے کہ یہ اغلاط اور لحن موجود تھا لیکن اس پر حساس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ معمول کی شیئ ہے یا دین میں نقصان دہ نہیں ہے یا اور اہل علم کے ہاں بھی تھا وغیرہ ذلک۔ محترم جنید صاحب سے گزارش ہے کہ وہ وہاں پر دیے ہوئے جوابات دوبارہ غور سے پڑھیں اور وہاں جو جوابات اس بارے موجود ہیں کہ امام صاحب کے کلام میں لحن یا نحو کی اغلاط نہیں تھیں تو اسے یہاں کاپی، پیسٹ فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میرے بھائیَ! جہاں تک میں سمجھا ہوں وہاں تو یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر امام صاحب رحمہ اللہ کے کلام میں لحن تھا تو فلاں کے کلام میں بھی لحن تھا۔ بھئی یہ تو سوال ہی نہیں ہے کہ فلاں کے کلام میں بھی لحن تھا یا نہیں؟۔ پس وہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام میں لحن تھا، کا جواب یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے کلام میں بھی لحن تھا۔ اگر غور کریں تو اس جواب کا مطلب بھی یہی نکلتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام میں لحن اور نحو کی اغلاط تھیں۔
ایسالگتاہے کہ آنجناب نے تمام روابط کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہی روابط مین سے ایک میں یہ جواب بھی موجود ہے۔
(( وأمّا ما قدح به على الإمام أبي حنيفة من عدم العلم باللّغة العربيّة فلا شكّ أنّ هذا كلام متحامل, متنكّب عن سبيل المحامل, فقد كان الإمام أبو حنيفة من أهل اللّسان القويمة، واللّغة الفصيحة.
وليس بنحويّ يلوك لســـانه .............. ولكن سيلقيّ يـقـول فـيعرب
وذلك لأنّه أدرك زمان العرب, واستقامة اللّسان, فعاصر جريرًا والفرزدق, ورأى أنس بن مالك خادم رسول الله مرّتين, وقد توفّي أنس بن مالك سنة ثلاث وتسعين من الهجرة, والظّاهر أنّ أبا حنيفة ما رآه وهو في المهد, بل رآه بعد التّمييز, يدلّ على ذلك أنّ أبا حنيفة كان من المعمّرين, وتأخّرت وفاته إلى سنة خمسين ومائة, وقد جاوز التسعين [ هذا خطأ من المؤلف رحمه الله ] من العمر, وهذا يقتضي أنّه بلغ الحلم, وأدرك بعد موت رسول الله بقدر الثّمانين لأنّه توفّي بعد مضي عشر من الهجرة, وهذا يدلّ على تقدم أبي حنيفة وإدراكه زمان العرب, وهو أقدم الأئمة وأكبرهم سنًّا, فهذا مالك على تقدّمه توفّي بعده بنحو ثلاثين سنة, ولا شكّ أنّ تغيّر اللّسان في ذلك الزّمان كان يسيرًا, وأنّه لم يشتغل في ذلك الزّمان بعلم اللّغة وفنّ الأدب أحد من مشاهير العلماء المتبوعين المعتمد عليهم في التّقليد, لعدم مسيس الحاجة إلى ذلك في ذلك العصر كما أشار إلى ذلك أبو السّعادات ابن الأثير في ديباجة كتابه (النّهاية), وكما لا يخفي ذلك على من له أنس بعلم التّاريخ, فلو أوجبنا قراءة علم العربيّة في ذلك الزّمان على المجتهد لم نقتصر على أبي حنيفة, ولزم أن لا يصحّ احتجاج علماء العربيّة بأشعار جرير والفرزدق, وهذا ما لم يقل به أحد, وإنّما اختلّ اللّسان الاختلالَ الكثير في حقّ بعض النّاس بعد ذلك العصر, وقد سلم من تغيّر اللّسان من لم يخالط العجم في الأمصار من خلّص العرب, وأدرك الزّمخشري كثيرًا منهم ممن لزم البادية, وأكثر ما أسرع التّغيّر إلى العامّة ومن لا تمييز له, وقد قال الأمير العالم الحسين بن محمد في كتاب (شفاء الأوام): إنّ الإمام يحيى بن الحسين كان عربيّ اللّسان حجازيّ اللّغة من غير قراءة, وروى عليّ بن عبد الله بن أبي الخير أنّه قرأ في العربيّة أربعين يومًا, وهذا وهو توفي على رأس ثلاث مائة من الهجرة.
وأمّا سنة ثمانين من الهجرة, فليس أحد من أهل التّمييز يعتقد أنّ أهل العلم في ذلك الزّمان كانوا لا يتمكّنون من معرفة معاني كلام الله ورسوله إلا بعد قراءة في علم العربيّة, ولو كان ذلك منهم لنقل ذلك, وعرف شيوخ التّابعين فيه, وليت شعري من كان شيخ علقمة بن قيس, وأبي مسلم الخولاني, ومسروق بن الأجدع, وجبير بن نفير, وكعب الأحبار, أو من كان شيوخ من بعدهم من التّابعين؟ كالحسن, وأبي الشّعثاء, وزين العابدين, وإبراهيم التّيميّ, والنّخعيّ, وسعيد بن جبير, وطاووس, وعطاء والشعبي ومجاهد, وأضرابهم, فما خصّ أبا حنيفة بوجوب تعلّم العربيّة, وفي أيّ المصنّفات البسيطة يقرأ في ذلك الزّمان؟
وأمّا قوله: (بأبا قبيس) فالجواب عنه من وجوه:
الأوّل: أنّ هذا يحتاج إلى طرق صحيحة, والمعترض قد شدّد في نسبة الصّحاح إلى أهلها مع اشتهار سماعها, والمحافظة على ضبطها, فكيف بمثل هذا ؟!.
الثّاني: أنّه إن ثبت بطرق صحيحة, فإنّه لم يشتهر, ولم يصحّ مثل شهرة صدور الفتيا, ودعوى الاجتهاد عن الإمام أبي حنيفة, وقد تواتر علمه وفضله, وأجمع عليه, وليس يُقدَح في المعلوم بالمظنون, بل بما لا يستحق أن يسمّى مظنونًا.
الثالث: أنّا لو قدّرنا أنّ ذلك صحّ عنه بطريق معلومة لم يقدح به لأنّه ليس بلحن بل هو لغة صحيحة, حكاها الفراء عن بعض العرب وأنشد:
إنّ أبـاها وأبا أبــــاهــا ............. قـد بلغا فـي المـجد غايتاها
الرّابع: سلّمنا أنّ هذا لحن لا وجه له, فإنّه لا يدلّ على عدم المعرفة, فإنّ كثيراً من علماء العربيّة يتكلّم بلسان العامّة ويتعمّد النّطق باللّحن, بل قد يتكلّم العربي بالعجميّة ولا يقدح ذلك في عربيّته, وعلى الجملة؛ فكيف ما دارت المسألة فإنّ ذلك لا يدلّ على قصور الإمام أبي حنيفة, بل يدلّ على غفلة المعترض به وتغفيله, وجرأته على وصم هذا الإمام الجليل وتجهيله )).
اس کے علاوہ اوردیگر جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ جوچیز زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔
ایک چیز ہے کلام میں نحوی قواعد وضوابط کاخیال نہ رکھنا جس کو لحن سے تعبیر کیاجاتاہے اوردوسری چیز ہے قلت عربیت
دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بعض لوگ اپنی جہالت سے ان دونوں میں تمیز نہیں کرتے ہیں اوردونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔

لحن توبسااوقات جیساکہ ان روابط میں موجود ہے کہ اصمعی کے بھی کلام اوردیوان میں پایاگیاہے۔فراء جو مشہور نحوی ہیں۔ ہارون رشید کے دربار میں دوران کلام لحن کا صدور ہوا۔اب کون جاہل ان کو قلت عربیت کا طعنہ دے گا۔ جہاں تک لحن کی بات ہے تو وہ عام طورپر انسان اس لئے بھی کرتاہے کہ عاۃ الناس سے بات چیت میں اس کاخیال نہیں رکھتا اوردیگر لوگ جیسے بولتے ہیں ویسے ہی وہ بھی کلام کرتاہے۔
ذَكَر الكوثريُّ في كتاب "تأنيب الخطيب، فيما ذكره في ترجمة أبي حنيفة..." ما رُمِيَ به أبو حنيفة من اللَّحْن وعَدَم إحكام النَّحْو، ومِمَّا رَوَوْه عنه في عَدَم القتل بالمثقَّل قولُه: "حتى ولو رماه بأبا قبيس"... ونافح الكوثري عن أبي حنيفة في ذلك منافحاته المعهودة. هذا، وإنِّي لستُ مِمَّن يرضى بكلِّ ما يجيءُ به الكَوْثريّ! ولا مِمَّن يَدْفَعُ كلَّ ما يأتي به!
وليسَ أبو حنيفة وحده من الفقهاء الذين كانوا يُرمون باللَّحن في كلامهم، فقد رُمِيَ بذلك مالكٌ الأصبَحيُّ، على جَلالة قدْره، ويُروَى في ذلك شيءٌ عن الأصمعيّ...
لكن من المعلوم أنَّ كثيراً من الأئمَّة كانوا يتجوَّزن في حديثِهم، وكان منهم مَنْ إذا تحدَّث إلى العامَّة لم يَحْمِل نفسَه على رُكوب الإعْراب، وكان يعدّ بعضُهم ذلك من قلَّة العقل، ومن التَّشدّق الذي نهي عنه. وطالِعْ إنْ شئتَ كلاماً حسناً للتَّاج السُّبكي في كتابه الماتع "مُعيد النِّعَم، ومبيد النِّقَم"، فهو حَسَنٌ.
ومِمَّا أذكُره الآن أنَّ أهل الأندلس كانوا يستثقلون مَنْ يلتزم الإعرابَ في كلامِه، ويستقبحون ذلك منه. وقد قرأتُ في كتاب "الغنية" للقاضي عياض في ترجمة بعضهم أنَّه مِمَّا عِيبَ عليه أنه يلتزم في كلامه كله الإعرابَ..
وما ذكرتَه يا أخي في قصَّة عيسى بن عمر النحوي= ليس فيه دليلٌ على جهل أبي حنيفة بالنَّحْو، بل فيه دليلٌ على علمِه به وعلى فَرْط ذَكائه ونَباهته، إذْ فطِنَ للحنِه ولِمَنْ عَلِمَه فأصْلحَه لتوِّه. ومَنْ ذا يَعْرَى من الزَّلل في حديثِه؟!

یادش بخیر!مولانا سید سلیمان ندوی اردو کے ادیب شہیر ہیں۔ وہ جب اپنے گائوں دیسنہ آتے تھے توگائوں والوں سے جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے ان سے گائوں کی زبان میں ہی کلام کرتے تھے۔
اگرکسی کو لحن کا واقعتااثبات کرناہی ہے تو کلام سے نہیں بلکہ جوکتابیں ان کی جانب منسوب ہیں ان سے لحن کا ثبوت دکھائے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بلکہ جوکتابیں ان کی جانب منسوب ہیں ان سے لحن کا ثبوت دکھائے۔
جمشید بھائی جان پہلے ان کتب کی نسبت الی الامام کو ثابت کرنا ہوگا۔کہ آیا یہ کتب امام صاحب کی ہیں بھی کہ نہیں۔؟ اتنا بڑا دعوای تو کردیا لیکن دعوی کی بنیاد نہیں دیکھی کہ جس دعوی پر اینٹ کو رکھا جارہا ہے وہ بھی مشکوک ہے کہ اینٹ ہے یا ریت کا ڈھیر۔
اور آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ ’’منسوب ہیں‘‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگرکسی کو لحن کا واقعتااثبات کرناہی ہے تو کلام سے نہیں بلکہ جوکتابیں ان کی جانب منسوب ہیں ان سے لحن کا ثبوت دکھائے۔


جمشید بھائی جان پہلے ان کتب کی نسبت الی الامام کو ثابت کرنا ہوگا۔کہ آیا یہ کتب امام صاحب کی ہیں بھی کہ نہیں۔؟ اتنا بڑا دعوای تو کردیا لیکن دعوی کی بنیاد نہیں دیکھی کہ جس دعوی پر اینٹ کو رکھا جارہا ہے وہ بھی مشکوک ہے کہ اینٹ ہے یا ریت کا ڈھیر۔
اور آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ ’’منسوب ہیں‘‘

نہ نومن تیل ہوگا نہ رادہا ناچے گی ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ونافح الكوثري عن أبي حنيفة في ذلك منافحاته المعهودة. هذا، وإنِّي لستُ مِمَّن يرضى بكلِّ ما يجيءُ به الكَوْثريّ! ولا مِمَّن يَدْفَعُ كلَّ ما يأتي به!

یہ کلام کس کی ہے ؟؟؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید بھائی جان پہلے ان کتب کی نسبت الی الامام کو ثابت کرنا ہوگا۔کہ آیا یہ کتب امام صاحب کی ہیں بھی کہ نہیں۔؟ اتنا بڑا دعوای تو کردیا لیکن دعوی کی بنیاد نہیں دیکھی کہ جس دعوی پر اینٹ کو رکھا جارہا ہے وہ بھی مشکوک ہے کہ اینٹ ہے یا ریت کا ڈھیر۔اور آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ ’’منسوب ہیں‘‘
اسی پر میں نے ماقبل میں بھی تنقید کی تھی کہ جب ائمہ اربعہ کے عقائد کی بات آتی ہے تو یہ ساری کتابیں الفقہ الاکبر اوردیگر کتب امام ابوحنیفہ کی ہوجاتی ہیں اورجب مسئلہ امام ابوحنیفہ سے منسوب کتابوں کاآتاہے توشک وشبہ شروع ہوجاتاہے۔
امام ابوحنیفہ کی جانب جہاں تک ان کتابوں کے منسوب ہونے کی بات ہے تو اس باب میں میری رائے وہی ہے جو شیخ ابوزہرہ نے اپنی مایہ ناز کتاب الامام ابوحنیفہ عصرہ وفقہہ وآرائہ میں بیان کئے ہیں۔ کہ یہ سب امام ابوحنیفہ کی افادات ہیں جن کو ان کے شاگردوں نے جمع کیاہے۔
ماقبل میں میں نے وضاحت کردی ہے کہ لحن الگ چیز ہے اور قلت عربیت دوسری چیز ہے۔
جہاں تک بات یہ ہے کہ یہ کلام کس کی (کا)ہے تو اوپر جو روابط دیئے ہیں اسی کے ایک ایک مراسلے کا یہ اقبتاس ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
راقم نے یہ دلائل ذکر کیے تھے:
پہلی دلیل
1- جاء في الصفحة (57) ، من طبعتي هذه :
( .... أخبرنا عسل بن ذكوان ، أخبرنا أبو عثمان المازني ، قال :
سمعت سعيد بن أوس ، يقول :
لقيت أبا حنيفة ، فحدثني بحديث فيه :
(يدخل الجنة قوم حفاة عراة منتنين ، قد محشتهم النار) ،
فقلت له :
قوم منتنون ، قد محشتهم النار !!؟؟
فقال لي :
ممن أنت !!؟؟
قلت :
من أهل البصرة .
فقال :
كل أصحابك مثلك !!؟؟
قلت : إني من أدونهم .
فقال : طوبى لقوم أنت من أدونهم ....) .

اس روایت کے مطابق سعید بن اوس نے کہا کہ میری امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں ایک لفظ منتنون کو رفع کی بجائے نصب میں پڑھا ہے جبکہ وہ فاعل تھا اور اسے رفع میں پڑھنا چاہیے تھا تو میں نے ان کی اصلاح کی تو انہوں نے میرے علم نحو پر تعجب (اچھے معنوں میں) کا اظہار کیا۔

دوسری دلیل
2- وجاء في الصفحة (65) ، من طبعتي هذه :
( ... عن الأصمعي ، عن عيسى بن عمر النحوي ، قال :
أتيت الكوفة ، وقد كثر ذكر الناس لأبي حنيفة ، فأتيته ، فإذا رجل يسأله عن مسألة ، فأجاب فيها ، فلحن في كلامه ، فقلت :
الرجل ليس هناك ، وكان يرمقني ، وأحس بإنكاري ، فسبق بإصلاح ما كان منه ، ثم أضافني ، فأجبته ، فلما طعمنا ، جعل يتتبع ما على الأرض من الفتات ، فيلقيه في فيه ، ويخرج بالخلال ما بين أسنانه ، فيلفظه ، ثم قال :
كان يقال :
كُـلْ الوغم ، وألق الفغم
فاستحسنت أموره ، وحدثت أصحابنا بها ...) .

اس روایت کے مطابق عیسی بن عمر نحوی نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد ان کے کلام میں لحن کی نشان دہی کی ہے۔

تیسری دلیل
3- وجاء في الصفحة (72) ، من طبعتي هذه :
( ... عن عمر بن عبد الرحمن السلمي ، عن المازني ، قال :
سمع أبو عمرو بن العلاء أبا حنيفة يتكلم في الفقه ، ويلحن ، فاستحسن كلامه ،
واستقبح لحنه ، فقال :
إنه لخطاب لو ساعده صواب ،
ثم قال لأبي حنيفة :
إنك أحوج إلى إصلاح لسانك من جميع الناس ....)



اس روایت کے مطابق ابو عمرو نے علاء نحوی نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے دوران ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اپنی زبان کی اصلاح کے محتاج ہیں اور ان کے بارے یہ کمنٹس جاری کیے کہ ان کی گفتگو اچھی ہوتی ہے لیکن ان کا زبان میں غلطیاں کرنا ایک قبیح عنصر ہے۔

چوتھی دلیل
4- رقم الحديث: 8
(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي الْجُمَحِيُّ ، عَنِ الْمَازِنِيِّ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ : لَقِيتُ أَبَا حَنِيفَةَ ، فَحَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ : " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُنْتِنِينَ ، قَدْ أَحْمَشَتْهُمُ النَّارُ ، فَقُلْتُ لَهُ : مُنْتِنُونَ قَدْ مَحَشَتْهُمُ النَّارُ ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَنْتَ ؟ ، قُلْتُ : مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ ، قَالَ : أَكُلُّ أَصْحَابِكَ مِثْلُكَ ؟ ، قُلْتُ : أَنَا أَخَسُّهُمْ حَظًّا فِي الْعِلْمِ ، فَقَالَ : طُوبَى لِقَوْمٍ تَكُونُ أَخَسُّهُمْ فِي الْعِلْمِ " . (اخبار المصحفین لابی ھلال العسکری)
اس روایت کے مطابق ابو زید سعید بن اوس انصاری نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے دوران ایک حدیث میں ان کی غلطی نکالی جسے امام صاحب رحمہ اللہ نے قبول کیا اور ان کی تعریف کی۔ یہ روایت پہلی دلیل کے طور پر بھی بیان ہو چکی ہے۔
ان کا جواب جمشید صاحب نے یہ نقل کیا ہے:
اس کے علاوہ جوچیز زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔
ایک چیز ہے کلام میں نحوی قواعد وضوابط کاخیال نہ رکھنا جس کو لحن سے تعبیر کیاجاتاہے اوردوسری چیز ہے قلت عربیت
دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بعض لوگ اپنی جہالت سے ان دونوں میں تمیز نہیں کرتے ہیں اوردونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔
لحن توبسااوقات جیساکہ ان روابط میں موجود ہے کہ اصمعی کے بھی کلام اوردیوان میں پایاگیاہے۔فراء جو مشہور نحوی ہیں۔ ہارون رشید کے دربار میں دوران کلام لحن کا صدور ہوا۔اب کون جاہل ان کو قلت عربیت کا طعنہ دے گا۔ جہاں تک لحن کی بات ہے تو وہ عام طورپر انسان اس لئے بھی کرتاہے کہ عاۃ الناس سے بات چیت میں اس کاخیال نہیں رکھتا اوردیگر لوگ جیسے بولتے ہیں ویسے ہی وہ بھی کلام کرتاہے۔
اس جواب سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی زبان میں لحن تھا۔ اب رہا اس کا جواب کہ
ایک چیز ہے کلام میں نحوی قواعد وضوابط کاخیال نہ رکھنا جس کو لحن سے تعبیر کیاجاتاہے اوردوسری چیز ہے قلت عربیت
دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بعض لوگ اپنی جہالت سے ان دونوں میں تمیز نہیں کرتے ہیں اوردونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام الحرمین امام جوینی، امام غزالی اور ابن خلکان نے نحوی غلطی کو قلت عربیہ کا نام دیا ہے۔ اب میرے خیال میں ان جلیل القدر ائمہ کی عربی کسی عجمی سے تو بہتر سے ہو گی۔
امام جوینی رحمہ اللہ کا بیان
وہ اصول فقہ پر اپنی مدون کتاب ’البرھان‘ میں لکھتے ہیں:
وأما أبو حنيفة فما كان من المجتهدين أصلا لأنه لم يعرف العربية حتى قال لو رماه بأبا قبيس وهذا لا يخفى على من شدا أدنى شيء من العربية ولم يعرف الأحاديث حتى رضي بقبول كل سقيم ومخالفة كل صحيح ولم يعرف الأصول حتى قدم الأقيسة على الأحاديث ولعدم فقه نفسه اضطرب مذهبه وتناقض وتهافت فلا يخفى أن الشريعة مجامعها ( الحث ) على مكارم الأخلاق والنهي عن الفواحش والموبقات ( وإباحة نفي في المحرمات ) ( فمن ) صار في العقوبة الآيلة إلى حقوق الآدمي مثل القصاص إلى إسقاطه بالمثقل فقد خرجت القاعدة التي لأجلها ثبت القصاص حيث قال تعالى ولكم في القصاص حياة ثم ترقى من نفي القصاص إلى إنكار الحس فحكم بكونه خطأ حتى ضرب العقل على العاقلة وأثبت فيه الكفارة مع نفيه الكفارة عن العمد وصار في العقوبات الثابتة لله تعالى إلى أن قطع السرقة يسقط فيما كان أصله على الإباحة والأشياء الرطبة ويضم ما لا قطع فيه إليه ( وحرم انهه العبادات بترتيب أقل ما يجري من الصلاة ) وأبطل مقصود الزكوات حيث أنكر وجوبها على الفور ثم أسقطها بالموت ثم حج ذلك باعتقاده تغير حكم الله تعالى بقبول كل قاض فأباح زوجة زيد لعمرو بغير طلاق من زيد ومن غير عدة ولا نكاح من عمرو وبشهادة زور ودعوى باطلة ولم ير القصاص في القتل بالمثقل وكان يقول لا يضر مع الإيمان معصية كما لا ينفع مع الكفر طاعة فقال كل فقه بعدك حرام ووقع ذلك منه موقعا عظيما وعن هذا قيل استتيب أبو حنيفة من الإرجاء مرتين فإن هذا مذهب ( المرجئة ) فكيف يظن وحاله هذا مجتهدا (البرھان، جلد٢، ص ٨٧٣، دار الوفا، المنصورہ، مصر)
متعلقہ حصہ کو ہائی لائیٹ کیا گیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اصلا مجتہدین میں سے نہیں تھے کیونکہ وہ عربی زبان نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ و لو رماہ باباقبیس اور اس عبارت کی غلطی ہر اس شخص پر واضح ہے جو عربی زبان کاادنی سا علم بھی رکھتا ہے۔ ( اس عبارت میں باباقبیس کے لفظ پر نقد کی گئی ہے کہ ابو قبیس پر جب حرف جارہ باء داخل کی جائے گی تو وہ ابی قبیس ہو جائے گا )۔
امام غزالی رحمہ اللہ کا بیان
امام غزالی رحمہ اللہ ( 450-505 ھ) اصول فقہ پر اپنی کتاب 'المنخول‘ میں بیان فرماتے ہیں:
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول ويتبين ذلك باستثمار ثنا مذاهبه فيما سنعقد فيه بابا في آخر الكتاب الله أعلم(المنخول، جلد ١، ص ٥٨١، دارالفکر، بیروت)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مجتہد نہیں تھے کیونکہ وہ عربی زبان نہیں جانتے تھے اور اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا و لو رماہ بابو قبیس
ابن خلکان کا بیان
ابن خلکان اپنی کتاب( 608-681 ھ) اپنی کتاب "وفیات الاعیان" میں فرماتے ہیں:
ولم يكن يعاب بشيء سوى قلة العربية، فمن ذلك ما روي أن أبا عمرو بن العلاء المقرىء النحوي - المقدم ذكره - سأله عن القتل بالمثل: هل يوجب القود أم لا فقال: لا، كما هو قاعدة مذهبه خلافاً للإمام الشافعي رضي الله عنه، فقال له أبو عمرو: ولو قتله بحجر المنجنيق، فقال: ولو قتله بأبا قبيس، يعني الجبل المطل على مكة حرسها الله تعالى. وقد اعتذروا عن أبي حنيفة بأنه قال ذلك على لغة من يقول: إن الكلمات الست المعربة بالحروف - وهي أبوه وأخوه وحموه وهنوه وفوه وذو مال - أن إعرابها يكون في الأحوال الثلاث بالألف، وأنشدوا في ذلك:
إن أباها وأبا وأباها ... قد بلغنا في المجد غايتاها وهي لغة الكوفيين، وأبو حنيفة من أهل الكوفة، فهي لغته، والله أعلم.
وهذا وإن كان خروجاً عن المقصود لكن الكلام ارتبط بعضه ببعض فانتشر.(وفیات الاعیان، جلد٥، ص ٤١٣، دار صادر، بیروت)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قلت عربی کے علاوہ کوئی عیب نہیں لگایا گیا۔ اور اس عیب میں وہ واقعہ بھی داخل ہے جو ابو عمرو بن العلا مقری نحوی کا ہے کہ اس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیا قتل مثل ( یعنی آلہ قتل کے مثل کسی شیئ سے قتل کرنے یا بعض عبارتوں کے مطابق کسی بھاری شیئ سے قتل کرنے ) کے بارے سوال کیا کہ کیا اس سے قصاص لازم آتا ہے یا نہیں؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ نہیں ! جیسا کہ ان کے مذہب کا قاعدہ ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف ہے۔اس پر ابو عمرو نحوی نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر وہ اسے منجنیق کے پتھر سے بھی قتل کر دے تو کیا پھر بھی قصاص نہیں ہو گا تو امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ اسے ابو قبیس یعنی مکہ میں موجود ایک پہاڑ سے بھی قتل کر دے تو بھی قصاص نہیں ہے۔
 
Top