• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی تھے

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
عبداللہ کشمیری صاحب ! میرا سوال پھر حاضر ہے :
آپ ہی بتائیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو کس خانہ میں رکھتے ہو؟
آپ ہی کہتے ہیں کہ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ ہو وہ بدعت ہے۔
میرا سوال ابھی آپ پر اُدھار ہے۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
راناصاحب۔

خداراہ اپنی خرافات کو دین کا حصہ

ثابت کرنے کے لیئے ان نفوس قدسیہ

کو مت استعمال کرو۔

اللہ ہم سب کو عقل سلیم دے

آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بطور معلومات :
بخاری و صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے آج سے بیسیوں سال پہلے کے احناف نے بھی یہ اعتراض اٹھایا ، مولانا ابو القاسم بنارسی صاحب نے ان کو یہی جواب دیا تھا ، کہ نماز استخارہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، لہذا یہ عمل بدعت نہیں بلکہ سنت ہے ۔ (دیکھیں دفاع صحیح بخاری ص 293 )

نوٹ :خلیل رانا صاحب یہ جواب آپ کےلیے نہیں ۔
 

Usman Ali

مبتدی
شمولیت
جنوری 01، 2016
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
افسوس!!!
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اچھا عمل حدیث سے ثابت نہیں۔۔ لیکن ان کے عمل کو اپنی بدعت کی تعریف کے مطابق بدعت بھی نہیں کہ پاتے۔۔ اور استخارے کی حدیث کو پیش کرتے ہیں۔۔ کمال ہے۔۔ دیکھتے ہے سچاءی۔۔۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث لکھنے سے پہلے، غسل کرتے، دو رکعت نفل پڑھتے
یعنی
۱) پا بندی سے حدیث لکھنے سے پہلے
۲) پابندی سے غسل کرنا
۳) دو رکعت نفل پڑھنا
لیکن اسکو سنت ثابت کرنے کے لءے یہ حدیث پیش کی


اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔


جس میں صرف دو رکعت نفل پڑھنا ہے۔۔۔!!! باقی عمل؟؟؟

نوٹ ::: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ہر بدعت کو برا نہیں سمجھتے تھے، جیسے اہلسنت نہیں سمجھتے
 

Usman Ali

مبتدی
شمولیت
جنوری 01، 2016
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
امام بخاری کا عمل۔۔۔۔۔ بدعت یا سنت؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
۱) پا بندی سے حدیث لکھنے سے پہلے
۲) پابندی سے غسل کرنا
۳) دو رکعت نفل پڑھنا
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ کام کیے ، نہ دن کی تحدید کی ، نہ اس کی کوئی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھا ،
اس کو دوسروں پر واجب قرار دیا ، اور نہ ہی نہ کرنے والوں پر کوئی فتوی لگایا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہر اہم کام کے لیے استخارہ کرنا ثابت ہے ، وہ حدیث لکھنے کو اہم سمجھتے تھے ، لہذا پہلے استخارہ کر لیا کرتے تھے ۔
رہا غسل کا اہتمام کرنا ، یہ بھی اسی قبیل سے ہے ، لوگ ہر روز دفتر یا سکول جانے سے پہلے نہا کر جاتے ہیں ، صفائی ستھرائی کو برقرار رکھنے کے لیے ، امام صاحب بھی طہارت و نظافت کے التزام کے لیے ایسا کیا کرتے تھے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
عمر اثری صاحب !
دلیل خاص یہ ہوتی ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز پڑھو۔یہ الفاظ ہوں ۔
جیسے تم لوگ کہتے ہو کہ کس حدیث میں لکھا ہے کہ میلاد کے دن جلوس نکالو۔
حمیر یوسف صاحب !
تم نے کوشش تو بہت کی لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے عمل پر حدیث نہ دکھا سکے کہ
میری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرو پھر دورکعت نماز پڑھو۔
ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہر عمل کا نام لے کر حدیث موجود ہو تو اس پہ عمل کرنا لازمی ہے
ہم کہتے ہیں کہ ہر ثواب کی نیت سے کیے گئے عمل پہ بلا واسطہ یا بلواسطہ کوئی حکم موجود ہونا چاہئے
اس طرح کے اور بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں مثلا نحو و صرف بھی تو بدعت ہے اہل حدیث کانفرنسیں اور دفاع پاکستان کانفرنسیں بھی تو بدعت ہیں اسی طرح کے اعتراض کی وضاحت میں نے مندرجہ ذیل تھریڈ میں کی ہوئی ہے
قرآن پہ زبر زیر بعد میں داخل کی گئی ہے
مثلا جب ایک مالک ملازم کو کہتا ہے کہ پانی پلاؤ اور جو میں نے حکم دیا ہے صرف وہی کام کرنا ہے اگر کوئی اور کام کیا تو نوکری سے نکال دوں گا
تو اب وہ نوکر اگر اپنے پاس پانی کا گلاس رکھتا ہو گا تو مالک کو پل دے گا ورنہ پہلے وہ گلاس ڈھونڈے گا اور پھر جا کر پانی کا کولر وغیرہ ڈھونڈے گا پھر پانی اس میں بھرے گا اور پھر لا کر اسکو پلائے گا
اب وہ مالک اگر رانا خلیل جیسا ہوا تو پھر وہ لازمی اسکو نوکری سے نکال دے گا کہ میں نے تمھیں گلاس ڈھونڈنے کا حکم کہاں دیا تھا لیکن اگر تھوڑی سی بھی عقل ہو گی تو وہ جانتا ہو گا کہ ملازم کے لئے گلاس ڈھونڈنا تو لازمی ہے

اب اسی طرح موجود ہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک فیکٹری کے مالک اور چوکیدار کی مثال لیتے ہیں مگر اسکو دو مختلف طرح سے لیتے ہیں
1۔ مالک چوکیدار سے کہتا ہے کہ جو بھی اندر فیکٹری میں آئے اس کی لازمی تلاشی لینی ہے پس وہاں ایک رانا صاحب چلے جاتے ہیں اور بغیر تلاشی اندر جانے پہ بضد ہوتے ہیں تو چوکیدار مالک کا حکم بتاتا ہے کہ جو بھی آئے اسکی تلاشی لینی ہے تو رانا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے مالک کا یہ حکم دکھاؤ کہ رانا صاحب کی بھی تلاشی لینی ہے تو چوکیدار کہتا ہے کہ بھئی مالک نے جب یہ کہا کہ جو بھی آئے اسکی تلاشی لینی ہے تو جو میں تمام لوگ آ جاتے ہیں پس آپکو بھی تلاشی دینی ہو گی تو وہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے مجھے وہ الفاظ دکھاؤ اب یہاں پہ چوکیدار درست ہو گا مگر رانا صاحب غلط ہوں گے (بالکل اسی طرح جب ہم انکو مطلق استخارہ کا حکم دکھاتے ہیں کہ ہر کام سے پہلے استخاری کرو تو وہ کہتے ہیں کہ خاص حدیث بارے استخارہ کا حکم بتاؤ)

2۔ مالک چوکیدار سے کہتا ہے کہ رانا صاحب کو بغیر تلاشی کے اندر نہیں آنے دینا اسکی لازمی تلاشی لینی ہے پس وہاں کوئی سید آ جاتا ہے تو چوکیدار کہتا ہے کہ تم تلاشی کے بغیر اندر نہیں جا سکتے یہ مالک کا حکم ہے تو وہ سید کہتا ہے کہ مجھے مالک کا حکم دکھاؤ وہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ مالک نے کہا تھا کہ رانا صاحب کو بغیر تلاشی کے اندر نہیں آنے دینا تو سید کہتا ہے کہ میں تو رانا صاحب نہیں ہوں مالک نے میرے بارے بھی اگر کہا ہے تو مجھے وہ حکم دکھاؤ یا مطلق ہی سب کا کہا ہے تو مجھے وہ حکم دکھاؤ تو چوکیدار کہتا ہے کہ مجھے نہیں پتا میں نے بغیر تلاشی تمھیں اندر نہیں جانے دینا اب یہاں پہ چوکیدار غلط ہو گا (بالکل اسی طرح جب میلادی ہم سے میلاد کی خوشی منانے کا کہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یا تو میلاد کی خوشی اس طرح منانے کا بتا دو یا مطلق ہی حکم بتا دوں کہ خوشی کیسے منائی جائے)

پس یہی فرق ہے ہمارے میلاد کی دلیل مانگنے میں اور آپکی امام بخاری رحمہ اللہ کے استخارہ کی خاص دلیل مانگنے میں-
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
حضرت غور فرمائیں یہ تو آپ نے اپنے پہ خلاف لکھ دیا کہ
‘‘ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہر عمل کا نام لے کر حدیث موجود ہو تو اس پہ عمل کرنا لازمی ہےہم کہتے ہیں کہ ہر ثواب کی نیت سے کیے گئے عمل پہ بلا واسطہ یا بلواسطہ کوئی حکم موجود ہونا چاہئے‘‘

جب ہم کہتے ہیں کہ میلاد کے جلسہ میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، فضائل ومناقب رسول تعظیم وتوقیر رسول کرناقرآن وحدیث سے ثابت ہے ، تو آپ کہتے ہیں کہ کسی آیت یا حدیث میں میلادکانام ثابت نہیں۔
اَب کہہ رہے ہیں کہ
ہر ثواب کی نیت سے کیے گئے عمل پہ بلا واسطہ یا بلواسطہ کوئی حکم موجود ہونا چاہئے۔
ہم سے دلیل خاص کیوں مانگتے ہو؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
حضرت غور فرمائیں یہ تو آپ نے اپنے پہ خلاف لکھ دیا کہ
‘‘ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہر عمل کا نام لے کر حدیث موجود ہو تو اس پہ عمل کرنا لازمی ہےہم کہتے ہیں کہ ہر ثواب کی نیت سے کیے گئے عمل پہ بلا واسطہ یا بلواسطہ کوئی حکم موجود ہونا چاہئے‘‘

جب ہم کہتے ہیں کہ میلاد کے جلسہ میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، فضائل ومناقب رسول تعظیم وتوقیر رسول کرناقرآن وحدیث سے ثابت ہے ، تو آپ کہتے ہیں کہ کسی آیت یا حدیث میں میلادکانام ثابت نہیں۔
اَب کہہ رہے ہیں کہ
ہر ثواب کی نیت سے کیے گئے عمل پہ بلا واسطہ یا بلواسطہ کوئی حکم موجود ہونا چاہئے۔
ہم سے دلیل خاص کیوں مانگتے ہو؟
اسکی وضاحت میں نے مندرجہ ذیل لنک میں کی ہوئی ہے کہ بدعت نفس عبادت میں بھی ہو سکتی ہے اور وقت عبادت میں بھی ہو سکتی ہے
بدعت کی تعریف اور مدلول

کچھ باتیں یہاں دوبارہ پیسٹ کر دیتا ہوں
ہر وہ عبادت مشروع ہے جسکو شریعت نے کرنے کا حکم فرض واجب یا مندوب وغیرہ کے طور پر دیا ہو اور بغیر مشروع عبادت بدعت ہے لیکن یہاں تھوڑی سی پیچیدگی ہے کہ مشروع خالی نفس عبادت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسکا طریقہ اور وقت کا تعلق بھی مشروع ہونے یا نہ ہونے سے ہے اسی تناظر میں ہم مشروع عبادات کی مزید قسمیں کرتے ہیں
1- ایسی مشروع عبادت جس میں واضح طریقہ اور وقت بھی بتایا ہوتا ہے مثلا فرض نماز
2-ایسی مشروع عبادات جس میں طریقہ یا وقت میں سے کوئی ایک چیز بتائی ہوتی ہے مثلا (نفل نماز)
3-بعض دفعہ مشروع عبادت کی دونوں چیزیں یعنی طریقہ اور وقت ہمارے اوپر چھوڑا گیا ہوتا ہے مثلا اللہ کا ذکر کرنا یا دعا مانگنا وغیرہ

اب اس تقسیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ان شاءاللہ اپنی رائے سے اوپر تعریف کے مطابق مشروع لفظ کی وضاحت کرتا ہوں اہل علم اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا

1۔جب نفس عبادت ہی شریعت میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ عبادت غیر مشروع ہو گی اور بدعت کہلائے گی چاہے اسکا وقت اور طریقہ جو بھی ہو مثلا دھمال وغیرہ

2- جب نفس عبادت مشروع ہو اور ساتھ طریقہ اور وقت بھی بتا دیا گیا ہے تو وہ طریقہ اور وقت بھی مشروع ہو گیا پس اس عبادت میں اس طریقہ یا وقت کے خلاف نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ اوپر شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی تعریف کے مطابق بدعت ہو گی مثلا فرض نماز کا طریقہ اور وقت دونوں مشروع ہیں پس اسکے خلاف کرنا بدعت ہو گا

3-جس مشروع عبادت کا طریقہ تو بتا دیا گیا ہے مگر وقت نہیں بتایا گیا تو وہ طریقہ مشروع ہو گیا مگر وقت مشروع نہیں بلکہ اختیار دیا گیا ہے پس ایسی صورت میں مشروع طریقے کے خلاف کرنا تو بدعت ہو گا لیکن ساتھ ساتھ اگر وقت کو فکس کر دیا گیا تو سمجھو کہ وقت کو بھی مشروع بنانے کی کوشش کی گئی جو شریعت نے نہیں کیا پس وہ بھی بدعت ہو گا کیونکہ اس میں شریعت نے جب کوئی قید نہیں رکھی تو قید کرنا بھی شریعت بنانا ہے مثلا عمومی نوافل کا طریقہ تو مشروع ہے مگر وقت مشروع نہیں یعنی کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے البتہ کچھ خاص راتوں کے نوافل کا معاملہ اور تہجد کا معاملہ اور ہے جس میں وقت بھی شریعت نے ہی مشروع کیا ہوا ہے

4-جس مشروع عبادت کا طریقہ اور وقت دونوں ہی نہیں بتائے گئے البتہ وہ نفس عبادت مشروع ہے یعنی اس کے کرنے کا حکم ملتا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ وہ عبادت تو مشروع ہے مگر اسکا وقت اور طریقہ مشروع نہیں بلکہ اس میں اختیار دیا گیا ہے پس اگر کوئی اس کے طریقہ یا وقت کو فکس کر دیتا ہے تو سمجھو کہ اس نے اس طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا پس ایسا کرنا بھی نئی ایجاد یعنی بدعت ہو گی مثلا مسنون اذکار کے علاوہ عمومی اذکار وغیرہ- اسی میں عمومی درود پڑھنا بھی آ جاتا ہے جو بذات خود تو درود پڑھنا مشروع عبادت ہی ہے مگر اسکا طریقہ اور وقت غیر مشروع ہے پس کوئی مسلمان کسی بھی وقت اس کو پڑھ سکتا ہے البتہ اگر وہ وقت یا طریقہ فکس کر دیتا ہے کہ ہر اذان سے پہلے لازمی پڑھنا ہے تو یہ بدعت ہو گا

غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کرنے کا مفہوم:
یہاں ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کسی نے ایک مشروع عبادت میں غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا ہے مثلا جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت درود پڑھنا جائز ہے مگر اگر کوئی اذان سے پہلے فکس کر دے تو وہ بدعت میں آئے گا اس پر کہا جاتا ہے کہ ہم اسکو فکس تو نہیں کر رہے کیونکہ کسی دوسرے کو لازمی پڑھنے کا نہیں کہتے پس اگر کوئی خؤد ہی اپنی مرضی سے پڑھنا چاہے تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ اہل حدیث حضرات بھی تو درس دینے کا وقت ہر تراویح کے بعد فکس کر دیتے ہیں یا تراویح کے بعد اسکا ترجمہ بتاتے ہیں وغیرہ جسکو تراویح کے بعد فکس کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے یہی سوال بھائی زاہد مغل صاحب نے کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی خاص وقت کو متعین کرتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے اور وہی نیت ہی اسکے بارے بتاتی ہے کہ وہی وقت فکس کیوں کیا جا رہا ہے پس بغیر کسی وجہ کے غیر ارادی طور پر تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایک وقت ہمیشہ کے لئے فکس کر لے مثلا اگر کوئی ہر اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی وجہ لازمی ہو گی اور اگر کوئی تراویح کے فورا بعد درس دینا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے بھی کوئی وجہ ہو گی اس وجہ کے ہونے کا انکار کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا
اب بدعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اس وجہ پر ہو گا اب اگر وہ وجہ زیادہ ثواب کا حصول ہو تو درست نہیں ہو گا البتہ دوسری وجوہات درست ہو سکتی ہیں اس وجہ کو سمجھنے کے لئے میں ایک دو اسی قسم کی عبادت کی مثالیں لکھتا ہوں اور ان میں وقت فکس کرنے کی وجوہات بتاتا ہوں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے کہ کون سی وجہ سے ایسا کرنا درست ہے اور کون سی وجہ سے غلط ہے
1۔قرآن پڑھنا مشروع ہے اب کوئی شام کے وقت ہی فکس کر لے اور وجہ اپنی فرصت بتائے تو یہ فکس کرنا بدعت نہیں ہو گا کیونکہ فکس کرنے کا مقصد زیادہ ثواب کا حصول نہیں
2۔تراویح کے بعد درس دینا اسکی وجہ یہ ہو کہ اس وقت موقع ہے لوگوں کو دعوت دینے کا- کیونکہ رمضان میں ویسے بھی لوگ دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تازہ قرآن سنا ہوتا ہے تو اسکی تفسیر بھی سن لیں تو یہ وجہ معقول ہے البتہ اگر کوئی یہی کام زیادہ ثواب کی نیت سے کرتا ہے کہ باقی وقت کی بجائے اس وقت زیادہ ثواب ہو گا تو درست نہیں ہو گا بلکہ بدعت ہو گی
 
Top