• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے؟

بسم اللہ الرحمن الر حیم

وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْظِیْم (الحجر:۸۷)

(اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی [آیات] یعنی قرآنِ عظیم عطا کیا)

ترتیب : عبدالرؤف ہانجی السلفی
ناشر : ادارہ دارالسلفیہ خیرپورہ،آرونی کشمیر
فون نمبر : 8803045299, 9018617641
ای میل : darussalafia@gmail.com

کیا امام کے پیچھے بھی سورۃ الفاتحہ ضروری ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الر حیم

سورہ الفاتحہ کی اہمیت :

سورہ الفاتحہ ہر نمازمیں پڑھنی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَاکَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْظِیْم (الحجر:۸۷)

(اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی [آیات] یعنی قرآنِ عظیم عطا کیا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اُم القرآن یعنی سورہ الفاتحہ ہی سبع المثانی ہے اور قرآنِ عظیم ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب التفسیر،حدیث: ۴۷۰۴)

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۷۴؁ھ]لکھتے ہیں:

’’مراد سبع مثانی سے سورۂ الفاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں بسم اللہ سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالی نے ہمیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس میں جو حدیثیں ہیں ان سے اس پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر، سورۂ الحجر، آیت ۸۷ کی تفسیر،ترجمہ جوناگڑہی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی شان ہے:

لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

(سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں)

(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)

احادیث و آثار :


(۱)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘

(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)

(۲)

سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)

(۳)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’[اے صحابہ!] تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا،’’جی ہاں! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا :’’کچھ نہ پڑھوسوائے سورۂ فاتحہ کے۔‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث:۶۳)

یہ حدیث ’’عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ہیں ، جو صحیح سند ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۲۸؁ھ] فرماتے ہیں:

’’ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمرو بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت حجت ہوتی ہے۔‘‘

(مجموع الفتاویٰ، الحدیث، سُئل شیخ الاسلام عن الحدیث: تعریفہ و اقسامہ ج۱۸ص۸)

عبدالرشید نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’ اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو (جو عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہو)حجت مانتے ہیںاور صحیح سمجھتے ہیں۔‘‘

(ابن ماجہ اور علم الحدیث،ص۱۴۱،مکتبہ الحق دیوبند)
(نیز دیکھئے الکواکب۔۔ص۵۶)


(۴)
سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراء ت بھاری ہوگئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ’’میں تمہیں دیکھتا ہوںکہ تم امام کے پیچھے( قرآن )پڑھتے ہو؟‘‘عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : ’’یا رسولَ اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا:

’’لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَاِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِھَا


(ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں ہوتی)

(حوالجات: مسنداحمد: حدیث۲۳۱۲۵واللفظ لہ۔سنن ابی داؤد: حدیث۸۲۳۔ ترمذی، حدیث: ۳۱۱۔جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۷۔ دارقطنی، حدیث: ۱۲۰۰۔ مستدرک الحاکم، حدیث: ۸۶۹۔ صحیح ابن خزیمہ)

حدیثِ مسند احمد کی تصحیحات:

(۱)اس حدیث کی سند کو مسند احمد کے محقق الشیح شعیب الارناوؤط رحمہ اللہ


[المتوفیٰ: ۱۴۱۱؁ھ] نے’’صحیح لِغیرہ‘‘ کہا۔(حدیث ۲۳۰۴۷)


(۲)امام ترمذی رحمہ اللہ


[المتوفیٰ:۲۷۹؁ھ] نے کہا’’حَدِیْثٌ حَسَنٌ‘‘ (حدیث:۳۱۱)


(۳)ابن خزیمہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۳۱۱؁ھ] نے اپنی’’ صحیح ‘‘میں درج کی ہے اور صحیح ابن خزیمہ کی تمام احادیث امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں


(صحیح ابن خزیمہ:قبل حدیث ۱)


(۴)امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی’’ صحیح ‘‘کے اندر درج کیا ہے


(حدیث: ۱۸۴۵،۱۷۸۲)


امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کتاب میں صرف وہ احادیث درج کی ہیں جو آپ کے نزدیک صحیح ہیں۔

(۵) امام دارقطنی نے کہا ’’یہ حدیث حسن ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں‘‘

(حدیث: ۱۲۰۰)


(۶) امام خطابی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۲۸۸؁ھ] نے فرمایا:’’یہ حدیث مقتدی پر سورۃ الفاتحہ کے واجب (فرض) ہونے میں صریح (واضح اور صاف) ہے، چاہے امام جہراً قرأۃ کرتا ہو یا سراً۔‘‘

اور فرمایا:

اِسْنَادُہُ جَیْدٌلَا طَعْنَ فِیْہِ(اس کی سند عمدہ ہے جس میں کوئی طعن نہیں)


(معالم السنن، بحوالہ عون المعبود:ج۳ص۳۲ح۸۱۸)


(۷) علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۸۵۲؁ھ] نے فرمایا: اَخْرَجَہُ اَبُوْ دَاوُدٍبِاِسْنَادِ رِجَالہ ثِقَات (اسے ابوداؤد نے ایسی سند سے روایت فرمایا ہے جسکے سبھی راوی ثقہ[سچے]ہیں)


(الدرایہ مع الہدایہ أولین، ص۱۲۱باب فی القرأۃ، مکتبہ بلال دیوبند)


(۸) علامہ البانی [المتوفیٰ:۱۹۹۹؁ء] نے اسے صحیح قرار دیا


(صحیح ترمذی: حدیث )


(۹) محدث العصر حافظ زبیر علی زئی [المتوفیٰ:۱۴۳۳؁ھ] نے اسے صحیح قرار دیا


(الکواکب الدریہ: ص۶۳)


(رحمہم اللہ علیہم اجمعین)


(۵)

سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا

لَا صَلَاۃَلِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اِمَام وَ غَیْر اِمَام

(اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، امام ہو یا مقتدی یا منفرد)

(کتاب القرأۃ للبیہقی رحمہ اللہ،حدیث:۱۱۵۔اس حدیث کی سند صحیح ہے دیکھئے الکواکب ص۶۶ تا ۶۷)

٭٭٭٭٭٭

جاری ہے --------
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحابہ رضی اللہ عنہم اور فاتحہ خلف الامام :


(ا)

امیر المؤمنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ:

یزید بن شریک (تابعی)سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قرأۃ خلف الامام کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سورۂ فاتحہ پڑھ‘‘تو میں(یزید) نے کہا:اور اگر آپ (امام) ہوں تو؟فرمایا اگر میں ہو(تو بھی پڑھ)میں نے پوچھا اگر آپ قرأۃ بالجہر کر رہیں ہوں؟ تو فرمایا:’’اور اگر میں جہر سے پڑھوں(تو بھی پڑھ)۔


(المستدرک للحاکم،حدیث:۸۷۳۔اردو ترجمہ،حدیث:۸۰۶۔امام حاکم نے فرمایا ’’صَحِیْحٌ‘‘۔ جزء القرأۃ، حدیث: ۵۱۔ دارقطنی، حدیث: ۱۱۹۷،۱۱۹۸۔اور امام دارقطنی نے کہا ’’ھَذَا اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ‘‘اور کہا:’’رُوَاتُہُ کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ‘‘(یعنی اس کے سبھی راوی ثقہ ہیں) ۔ اس اثر کی سند بالکل صحیح ہے دیکھئے الکواکب، ص ۸۵ تا ۹۰)

مصنَف عبدِالرزاق میں صحیح سند سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مغرب کی ایک(پہلی)رکعت میں قرأۃ بھول گئے تو آپ نے دوسری رکعت میں دودفعہ سورۂ فاتحہ پڑھی۔


(حدیث نمبر ۲۷۵۱ )


معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ سورۂ فاتحہ کو ہر رکعت میں پڑھنا ضروری سمجھتے تھے اسی لئے دوسری رکعت میں دو دفعہ پڑھی تھا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ طریقہ صحیح حدیث کے خلاف تھا اور آپ کے پیچھے کبار صحابہ کی ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔ تو بعد میں آپ نے صحابہ سے استفسار کرکے نماز لوٹائی۔

چنانچہ مصنف عبدالزراق میں ایک دوسری اثر میں ہے کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے[نماز کا]اعادہ فرمایا تھا[یعنی دوبارہ پڑھی تھی]

(حدیث: ۲۷۵۵)

(یہ دونوں آثار حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں

(دیکھئے نصر الباری، ص۲۶۷)


(نیز دیکھئے معرفۃسنن و آثار للبیہقی،حدیث:۱۲۷۳)

(۲)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ:

آپ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: مَنْ صَلَّی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأ فِیْھَا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَہِی خِدَاجٌ ثَلِاثاًغَیْرُ تَمَامٍ(جس نے کوئی نماز پڑھی اس میں سورۂ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، پوری نہیں ہے، یہ بات آپ نے تین دفعہ دہرائی)تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا:


اِقْرَأ بِھَا فِیْ نَفْسِک
[اسکو اپنے دل میں پڑھ]

(صحیح مسلم، حدیث: ۸۷۸[ترقیم] ۔سنن ابی داؤد ، حدیث: ۸۲۱۔سنن ترمذی،حدیث:۲۹۵۳۔سنن نسائی،حدیث: ۹۱۰۔سنن ابن ماجہ، حدیث: ۸۳۸)

امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث ان الفاظ سے نقل فرمائی:

سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب امام سورۂ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور امام سے پہلے ختم کرلو، پس بیشک وہ جب ’’وَلَاالظَّالٓیْن‘‘ کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین اس کے موافق ہوگئی تو وہ اس کے لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔


(جزء القرأۃ،حدیث:۲۸۳،۲۳۷۔مشہور تقلیدی ’’محقق‘‘محمد بن علی النیموی [المتوفیٰ: ۱۳۲۲؁ھ] نے اس اثر کے بارے میں لکھا’’واسنادہ حسن‘‘بحوالہ آثار السنن ج۱ ص۵۸۹ حدیث: ۳۵۸۔مکتبہ مدینہ دیوبند)

الفاظ کی تشریح :

(۱) لفظ ’’خِدَاج‘‘کی تشریح:

مشہور عربی اردو لغت ’’القاموس الوحید‘‘ میں ہے: اَخْدَجَ الصَّلَاۃَ:اچھی طرح نماز نہ پڑھنا ، بعض’’ارکان‘‘ میں کمی کرنا


(ج۱ص۴۱۳کالم۳)


المنجد[گیارہ ’’علمائِ دیوبند ‘‘کی تصحیح شدہ]میں ہے: خَدَجَت…صَلَاتہ: بعض’’ارکانِ نماز‘‘ میں کمی کرنا


(ص۲۶۰کالم۲مادہ’’خَدَجَ‘‘[فرید بکڈپو])


بغیر رکن کے نماز کا حکم :

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۵۵۷؁ھ]فرماتے ہیں:

’’نماز کے ارکان پندرہ ہیں… (۳)سورۂ فاتحہ ‘‘

(غنیہ الطالبین، مترجم باب نمبر ۱، ارکانِ نماز ص۶۰)

(۱) رکن کی تعریف:’’رکن ایسی چیز ہے کہ ضروری کام اسکے بغیر مکمل نہ ہو اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت میں اس کام کا کوئی اعتبار [value] نہ ہو۔‘‘

(اصول سرخسی،ج۲ص۱۷۴۔فقہ الحدیث،ج۱ص۳۷۸)

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اگر کسی رکن کو جان بوجھ کر یا بھول کو چھوڑدیا تو نماز باطل ہوگئی۔‘‘

(غنیہ الطالبین[مترجم ]باب نمبر ۱، ھیاتِ نماز ص۶۲)

مزید فرماتے ہیں:’’سورۂ فاتحہ کی قرأۃ فرض ہے اور یہ نماز کا رکن ہے جس کے چھوڑنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔‘‘

(غنیہ الطالبین[ مترجم]حصہ دوم،باب نمبر۶،نماز کے آداب، ص۵۳۰ )

باب کے آخر میں فرماتے ہیں:’’ہمارے بیان کردہ طریقۂ نماز میں امام اور مقتدی اور منفرد اور تمام لوگ شامل ہیں۔‘‘


(ص۵۳۳)


شاہ محدث دہلوی رحمہ اللہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس کے رکن ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

لَا صَلَاۃَ اِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اور لاَ تُجْزِیُ صَلَاۃُ رَجُلٍ حَتَّی یُقِیْمُ ظَہْرَہُ فِی الرَّکُوْعِ وَ السُّجُوْدِ

[یعنی کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجدہ میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے]

جس عمل کو شارع علیہ السلام نے ’’صلوۃ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے۔

(حجۃ اللہ بالغۃ[اردوترجمہ خلیل احمد ] ص۳۲۷، باب نماز میں ضروری امور)

(۲) الفاظ ’’فِیْ نَفْسِکَ‘‘کی تشریح:


(۱)امام نووی رحمہ اللہ [المتوفیٰ۶۷۶؁ھ]فرماتے ہیں:

’’بعض مالکیہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد دل میں غور و تدبر کرنا ہے حالانکہ یہ درست نہیں، کیونکہ پڑھنا کہتے ہیں جب زبان کو حرکت دی جائے یا کم از کم پڑھنے والا خود سن سکے اسی لئے تو اس بات پر اتفاق[اجماع]ہے کہ اگر کوئی جنبی اپنے دل میں قرآن پر غور و تدبر کرے زبان کو حرکت دئے بغیر تو اسے قرآن پڑھنا نہیں کہیں گے۔‘‘

[ملخصاً](شرح صحیح مسلم ،ج۲ص۱۱۶ تحت حدیث: ۸۸۱کتاب الصلاۃ۔ مکتبہ دارالسلام)

(ب) یہی بات مولانا انور شاہ شوپیانی [اہلحدیث،المتوفیٰ ۱۹۳۰؁ء] بھی فرماتے ہیں: ؎


اگر بے غسل آسِت کہنہ مسلمان چُھو دِلہ سیتن کران سُوی یاد قُرآن
چُھو نہ تس منع ہرگز در شریعت سُو قرأت گونہ شرعاً چِھس یہی وت

(تعلیمِ سنت،حصہ اول ص۲۹دربیانِ کیفیت صلاۃ)

[ان دونوں اشعار کا معنی بھی وہی ہیں جو امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان ہوا۔]


(ج) محدثِ دیوبند انور شاہ لولابی کشمیری [المتوفی ۱۳۵۲؁ھ] فرماتے ہیں:

’’اور وہ جو معاصر مدرسین حضرات اسے تفکر و تدبر پر محمول کرتے ہیں لُغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور قرأۃ فی النفس اس معنی میں قطعاً ثابت نہیں…


الخ (عرف الشذی، ج۱ ص۳۸۶مکتبہ دارالایمان سہانپور)


(د) فتاوی دارِالعلوم میں ہے:

قرأۃ بغیر حرکت لب معتبر نہیں۔سوال [۴۳۹] اگر کوئی شخص نماز بلا حرکت ِلب جی میں پڑھے تو نماز ہوگی یا نہیں۔
الجواب:۔قرأۃ وغیرہ ایسے معتبر نہیں ہے۔


(فتاویٰ دارالعلوم ج۲ ص۲۴۰)


(ہ) ملا علی القاری الحنفی [المتوفی ۱۰۲۴؁ھ] فرماتے ہیں:

[فِیْ نَفْسِکَ] سراً غیر جھر (یعنی بغیر آواز کے خفیہ پڑھنا)


(مِرقاۃُ المفاتیح، ج۲ص۵۰۷تحت حدیث۸۲۳)


(ن)’’مفتی‘‘محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:

’’اپنے دل میں (یعنی آہستہ آواز سے)


(معارف القرآن، ج۴ص۱۶۵تحت سورۃ الاعراف آیت ۲۰۵)

(ذ)[تعصبی]محمد الیاس گھمن دیوبندی نے کہا:

سِراً فی نفسہ(آہستہ [دل] میںپڑھا جائے)
(نماز اہل السنہ ص۱۳۱)

(ح) درمختار میں ہیں:

’’واَدنی الجھر اسماع غیرہ وادنی المنافتۃ اسماع نفسہ اور ادنی درجہ جہر کا سنانا غیر کا ہے یعنی جو اس کے قریب نہ ہو کذا فی الشامی اور ادنیٰ درجہ آہستگی کا سنانا ہے اپنے آپ کو اور اپنے قریب کے شخص کو۔


(درمختار [اردو] ج۱ص۲۷۷)


الغرض یہاں’’فی نفسک‘‘ کا معنی یہ ہیں کہ بغیر بلند آواز کے ہونٹوں کو برابر حرکت دیتے ہوئے پڑھنا۔


(۳)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:

آپ نے فرمایا:

اِقْرَأ خَلْفَ الْاِمَامِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ
(امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ)

[مصنف ابن ابی شیبتہ ح۳۷۷۳۔کتاب القرأۃ للبیہقی اور امام بیہقی نے فرمایا: وَھٰذَا اِسْنَاد صَحِیْحٌ لَا غُبَار عَلَیْہ ِ(یعنی یہ اثر سنداً صحیح ہے اس پر کوئی دھول نہیں۔ دیکھئے الکواکب ص۹۴ تا ص۹۵)]

(۴)

سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ:


سیدنا محمود بن ربیع(صحابیٔ صغیر)فرماتے ہیں کہ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ ایلیاء [شام میں ایک مقام] میں تھے۔ ایک دن عبادہ [رضی اللہ عنہ]کسی وجہ سے صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو ابو نُعَیم [مؤذن]نے اقامت کہہ کر نماز پڑھانی شروع کردی۔ یہ [ابو نعیم ]وہ شخص ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں سب سے پہلے اذان دی تھی۔ پس میں[نافع] اور عبادہ[رضی اللہ عنہ] کے ساتھ آیا لوگوں نے صفیں بنالی تھیںاور ابونعیم اونچی آواز کر رہے تھے۔ تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے سورۂ فاتحہ پڑھی، حتی کہ میں نے اسے اچھی طرح سمجھ لیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میںنے پوچھا: میں نے آپ کو سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا ہے[اسکی آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟] آپ نے فرمایا: جی ہاں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نماز وں میں وہ نمازپڑھائی تھی جس میں اونچی قرأۃ کی جاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قرأۃ اونچی آواز سے ہورہی ہو تو کوئی آدمی [بھی]سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔

(جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷، اور امام دارقطنی نے کہا’’ھذا اسناد حسن، ورجالہ ثقات کلہم‘‘ یعنی یہ سند حسن درجہ کی ہے اور اس کے سبھی راوی سچے اورعادل ہیں۔ اس اثر کی سند صحیح ہے دیکھئے الکواکب ص۵۰ تا ۵۵)

ان کے علاوہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرأۃ خلف الامام ثابت ہے: مثلاً:

(۱) سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ:


(جزء القرأۃ، حدیث: ۵۷،۱۰۵۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص۹۲)


(۲) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ:

(کتاب القرأۃ، حدیث: ۲۳۱۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص۹۷)

(۳) سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ:

(جزء القرأۃ، حدیث: ۶۰۔وسندہ صحیح۔ الکواکب ص ۹۹ تا ۱۰۰)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ------
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ائمۂ اسلام اور فاتحہ خلف الامام :

(۱) امام بخاری رحمہ اللہ [المتوفیٰ ۲۵۶؁ھ] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی اثر کے تحت رقمطراز ہیں:

’’اسی طرح ابی بن کعب، حذیفہ بن الیمان اور عبادۃبن الصامت رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے اور سیدنا علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہم اور متعدد اصحابِ نبی سے اسی طرح مذکور [و مروی] ہے۔‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۔ وسندہ صحیح نصر الباری ص۷۸)

(۲) امام ترمذی حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے تحت رقمطراز ہیں:

’’اکثر صحابہ اور تابعین کا قرأۃ خلف الامام کے بارے میں اس حدیث پر عمل ہے۔ مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحٰق [رحمہم اللہ] بھی اسی کے قائل ہیں کہ قرأۃ خلف الامام جائز ہے۔‘‘

(سنن ترمذی، تحت حدیث: ۳۱۱)

(۳) سیدنا حسن البصری تابعی رحمہ اللہ [المتوفی ۱۱۰؁ھ] نے فرمایا:

’’ امام کے پیچھے ہر نماز میں، سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھ۔‘‘


(کتاب القرأۃ،حدیث:۲۴۲۔ مصَنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۷۶۲۔ وسندہ صحیح: الکواکب ص ۲۷)

(۴)امام شافعی رحمہ اللہ[المتوفی ۱۵۰؁ھ] فرماتے ہیں:

’’کسی آدمی کی نماز جائز نہیںجب تک وہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھ لے، چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قرأۃ کررہا ہو یا سری، مقتدی پر یہ لازم ہے کہ سری اور جہری [دونوں نمازوں میں] سورۂ فاتحہ پڑھے۔‘‘

(معرفہ السنن و الآثار للبیہقی[جلد۲،باب القراء ت خلف الامام ] حدیث ۹۲۸، نصر الباری ص ۲۴۸تحت حدیث:۲۲۶)

(۵)امام ترمذی، امام اہل السنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اس کے باوجود امام احمد بن حنبل [رحمہ اللہ] نے قراۃخلف الامام کو اختیار کیا اور یہ کہ آدمی سورۂ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔‘‘

(ترمذی، تحت حدیث:۳۱۱)

(۶) امام بخاری اور امام بیہقی رحمہما اللہ :

امام بخاری اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے اس موضوع کے ثبوت پر مستقل دو کتابیں تحریر فرمائی ہے۔ یعنی یہ دونوں نہ صرف فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں بلکہ اسکے قائل و داعی بھی ہیں۔


(۷) امام الاوذاعی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۵۰؁ھ) نے فرمایا:

’’امام پر یہ [لازم و] حق ہے کہ وہ نماز شروع کرتے وقت، تکبیر اولیٰ کے بعد سکتہ کرے اور سورۂ فاتحہ کی قرأۃ کے بعد ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سورۂ فاتحہ پڑھ لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ [مقتدی] اسی کے ساتھ سورۂ فاتحہ پڑھے اور جلدی پڑھ کر ختم کرے پھر کان لگا کر سنے۔‘‘

(کتاب القرأۃ، حدیث: ۲۴۷۔ وسندہ صحیح: نصر الباری ص۱۱۷)

(۸) شاہ محدث دہلوی رحمہ اللہ [المتوفیٰ: ھ]

’’اور مقتدی پر واجب ہے کہ چپ کھڑا رہے اور قرآن کو سنتا رہے۔ پھر اگر امام جہر سے پڑھتا ہے تو جب وہ سکوت کیا کرے اس وقت وہ پڑھ لیا کرے اور اگر آہستہ پڑھ رہا ہے تو مقتدی کو اختیار ہے (کہ اگر فاتحہ بھی پڑھے یا ضم بھی ملالے)اگر مقتدی پڑھے تو سورۂ فاتحہ پڑھ لے مگر اس طرح سے پڑھے کہ امام اس کے پڑھنے سے اپنا پڑھنا نہ بھول جائے اور یہی میرے نزدیک سب سے بہتر قول ہے اور تمام احادیث کی تطبیق اس کے مطابق ہوسکتی ہے۔

(حجۃ اللہ بالغۃ[اردو] ص۳۳۵،باب نماز کے اذکار سات مستحنہ کا بیان)

(۹) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ (حوالہ گذر چکا ہے)

(۱۰) اشرف علی تھانوی دیوبندی [المتوفی ] کا فتویٰ:

’’اب رہا یہ امر کہ مقتدیوں کو جو قرأۃ خلف الامام سے منع کیا جاتا ہے تو اس باب میں کوئی حدیث نہیں ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منع ثابت ہو۔‘‘


(تقریر ترمذی ص۶۸)


ایک اور جگہ اس شخص کے بارے میں، جو وہاں جمعہ پڑھتا ہے جہاں حنفیہ کی اکثر شرائط مفقود ہوتی ہیں،کہا:’’ ایسے موقعہ پر فاتحہ خلف الامام پڑھ لینا چاہئے تاکہ امام شافعی کے مذہب کے بناء پر نماز ہوجائے۔‘‘


(تجلیات رحمانی ص۲۳۳، بحوالہ آینئہ دیوبندیت ص ۱۸۷)


(۱۱) محدث دیوبند انور شاہ لولابی کشمیری فرماتے ہیں:

’’لَمْ اَرِ فِیْ نَقْلِ عَنِ الْاِمَامِ اَنَّ الْقِرْأۃَ فِیْ السِّرِیَّۃِ لَا تَجُوْزُ‘‘

(فیض الباری ج۲ص۲۸۱، تحت حدیث:۵۳۰)

یعنی میں نے کسی جگہ یہ لکھا ہوا نہیں دیکھا کہ سری میں امام ابوحنیفہ نے قرأۃ کوناجائز کہا ہے۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ واَمَّا الامام اَبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی فالمحقَّق عندی من مذھبہ: اَنہ حَجَرَ عن القراء ۃ فی الجھریہ، واَجاز بھا فی السِّریۃ‘‘ انہوں نے صرف جہری میں قرأۃ سے روکا ہے اور سری میں پڑھنے کی اجازت دی ہے۔‘‘

(فیض الباری ،کتاب الاذان،ج۳ ص۳۲،تحت حدیث:۷۵۱)

حنفیوں کی سب سے معتبر کتاب’’الھدایہ‘‘میں لکھا ہے:

’’محمد بن حسن الشیبانی [تلمیذ ابو حنیفہ] سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد …پڑھنا احتیاتاً مستحسن [بہتر] ہے۔‘‘

(الھدایہ [درسی] ج۱ص۱۲۲، باب فصل فی القرأۃ)

یہی قول الفقیہ ابو اللیث سمرقندی حنفی [متوفیٰ ۳۷۵؁ھ]نے بھی کتاب ’’فتاویٰ النوازل‘‘ میں نقل کیا ہے۔

(فتاوی النوازل، کتاب الصلاۃ، فصل فی القرأۃ،ص۷۵۔مکتبہ دار الایمان دیوبند)

(۱۲) امام کے پیچھے سراً قرأۃ کرنے میں کوئی نقصان نہیں۔ علامہ ابن عبدالبَر رحمہ اللہ [المتوفی: ۴۶۴؁ھ] فرماتے ہیں۔

’’وقد اجمع العلماء علی ان من قرأ خلف الامام فصلاتہ تامۃ ولا اعادۃ علیہ‘‘[یعنی اس بات پرعلَماء کا اجماع ہے کہ جس نے قراء ت خلف الامام کی تو اس کی نماز مکمل ہے، دوبارہ نہیں پڑھنی]

(الاستذکار،کتاب الصلوۃ،باب ترک القراء ۃ خلف الامام فیما جھر فیہ، ج۱ص۴۷۰)

(۱۳) رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’ارشاد خدا وندی میں جو حدیث قدسی میں واقع ہے قسمت الصلوٰۃ بینی و بین عبدی نصفین۔ پس جب اس کو اس قدر خصوصیت بالصلوٰۃ ہے تو اگر سکتات میں اس کو پڑھ لو تو رخصت ہے اور یہ قدر قلیل آیات میں محل ثنا میں ختم بھی ہوسکتی ہیں اور خلط قرأۃ امام کی نوبت نہیں آتی۔‘‘

(تالیفات رشیدیہ ، ص۵۱۲ [سبیل الرشاد])

٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے -----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑنے کا آسان طریقہ :

جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس وقت امام ثنا پڑھے، مقتدی اس وقت ثنا کے بجائے سورۂ فاتحہ پڑھے ۔پھر امام کی قرأۃ غور سے سنے اور آخر میں امام کے ساتھ مل کر آمیں کہے۔ امام کو چاہئے کہ اَللّٰہم بَاعِدْ بَیْنِیْ…الخ والی ثنا پڑھے تاکہ مقتدی کو فاتحہ اچھی طرح پڑھنے کا موقع ملے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر رکعت کے بعد امام سکتہ کرے اور انہی سکتات میں مقتدی بھی ایک ایک آیت پڑھتا رہے اور آخری آیت امام سے پہلے ختم کرے پھر امام و مقتدی مل کر بلند آواز سے آمین کہیں۔

جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں پڑھے گا، بکلہ فاتحہ کے بعد خاموش رہ کر خوب دھان سے قرأۃ پر غور کرے گا۔

اس طرح پڑھنے میں بھی مزا آئے گا اور سننے میں بھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر امام سکتات نہ کرے تو سورۂ فاتحہ نہ پڑھنی چاہئے، ہر گزنہیں! بلکہ سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اعتراضات اور جوابات :

اعتراض نمبر -1

(ا) سورۂ اعراف آیت ۲۰۴ وَاِذَا قُرِاَالْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْلَہْ وَاَنْصِتُوْا [اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم غور کرو اور خاموش رہو]کی رُو سے امام کے پیچھے قرأۃ منع ہے۔


جواب:

پہلی بات یہ کہ صحیح حدیث، قرآنی آیت کی تشریح کرتی ہے۔ قرآن میں احکامات مُجْمَل [مختصر]ہیں اور احدیث میں انکی تفصیل۔ اس آیت سے مراد سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرآن ہے۔

اس کو اس طرح سمجھے: اللہ تعالیٰ سورۂ المائدہ آیت ۳ میں فرماتا ہیں:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ…الخ

[یعنی تم لوگوں پر حرام کیا گیا وہ جانور جو خود مرجائے اور خون…الخ]


اس آیت کی رو سے ہر جانور جو ذبح کئے بغیر مرجائے حرام ہے اور اسی طرح ہر قسم کا خون بھی حرام ہے۔ لیکن سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً[حکماًمرفوع]روایت ہے کہ: ہمارے لئے دو خود مردہ جانور اور دو قسم کے خون حلال کئے گئے ہیں۔ پس وہ خود مردہ جانور ٹڈی اور مچھلی ہیں اور دو قسم کے خون تلی اور جگر ہے۔

(ابن ماجہ، حدیث: ۳۲۱۸، بیہقی الکبریٰ، حدیث:۱۲۴۱ ،واللفظ لہ)

معلوم ہوا کہ اگر مچھلی مری ہوئی ہو تو بھی حلال ہے۔ حالانکہ قرآن میں اَلْمَیْتَۃُ [خود مردہ] کو حرام کہا گیا۔ قرآن کا حکم عام ہے اور حدیث کا حکم خاص ہے۔ خاص حکم کو عام پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ الغرض قرآن میں [سورۂ فاتحہ کے سوا ]قرآن پڑھنے کی ممانعت ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

اعتراض نمبر -2

(۲) حدیث میں آیا ہے: وَاِذَا قَرَئَ فَانْصِتُوْا [اور جب امام قرأۃ کرے تو تم خاموش رہو]
(صحیح مسلم، حدیث: ۴۰۴[ترقیم: ۹۰۵])


اسی طرح: مَنْ کَانَ لَہُ اِمَامٌ فَقِرْاَۃُ الْاِمَامِ لَہُ قِرأتٌ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۸۵۰) [جس کا کوئی امام نہ ہو تو امام کی قرأۃ اسی کی قرأۃ ہے]


جواب:

اس کا جواب بھی واضح ہے کہ سورۂ فاتحہ کے علاوہ امام کے پیچھے کچھ بھی نہ پڑھو۔ ایک حدیث دوسرے حدیث کی تشریح کرتی ہے۔ صحیح مسلم کی یہ حدیث سورۂ اعراف کی آیت ۲۰۴ کی طرح عام حکم میں ہے اور فاتحہ پڑھنے والی روایات خاص حکم میں ہیں۔یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو پھر خاموش ہوجاو۔

رہی سنن ابن ماجہ کی روایت تو وہ ضعیف ہے۔ اگر صحیح بھی مانی جائے تو عام حکم میں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ امام کے پیچھے کچھ بھی نہ پڑھو سِوائے سورۂ فاتحہ کے(دیکھئے احادیثِ سابقہ)

٭٭٭٭٭٭٭

اعتراض نمبر -3


حدیث میں آیا ہے:

لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِداً (سنن ابی داؤد،حدیث:۸۲۲)

[جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں]

اس سے معلوم ہوا کہ جو حکم فاتحہ کا ہے وہی حکم دوسرے سورہ کا بھی ہے!!


جواب نمبر۱

:۔صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں:

’’اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھے تو جائز ہے۔ اور اگر زیادہ پڑھے تو بہتر ہے۔‘‘


(صحیح بخاری، حدیث: ۷۷۲)


اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:

’’جس نے سورۂ فاتحہ پڑھی اس کی نماز جائز ہوگی اور جس نے [اس سے زیادہ] قرأۃ کی تو یہ افضل ہے۔‘‘


(صحیح مسلم،حدیث:۴۴)


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

یُجْزِیُٔ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَاِنْ زَادَفَھُوَ خَیْرٌ

[سورۂ فاتحہ کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ پڑھے تو بہتر ہے]

(مسند حُمَیْدی،حدیث:۹۹۶۔کتاب القرأۃ،حدیث:۱۵)

رئیس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا بڑا ہی پیارا جواب دیا ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:

’’ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:


تُقْطَعُ الْیَدُ فَیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعَدًا

[چار درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا پس اس سے زیادہ]


(صحیح بخاری،حدیث: ۶۷۸۹۔مسلم: ۴۴۹۲)


یعنی جب چار درہم کی چوری ثابت ہوگئی تو یہ ہاتھ کاٹنے کے لئے کافی ہے اس میں چار درہم سے زائد کی شرط نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں بھی ’’فصاعدا‘‘ لفظ ہے۔

اسی طرح قرأۃ خلف الامام میں سورۂ فاتحہ کافی ہے۔ اس سے زائد بہتر ہیں ضروری نہیں۔
‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث:۴)


جواب نمبر۲: ۔

انور شاہ لولابی کشمیری فرماتے ہیں:

’’ پھر احناف نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس حدیث سے مراد فاتحہ اور سورت ملانے کا وجوب ہے لیکن یہ[بات]لُغت کے خلاف ہے کیونکہ اہل لغت کا اس پر اتفاق [اجماع] ہے کہ ’’ف‘‘ کے بعد جو ہو وہ غیر ضروری ہوتا ہے۔ سِیْبُویہ [ایک نحوی ]نے اپنی کتاب ’’الکتاب‘‘ کے باب الاضافہ میں اس کی سراحت کی ہیں۔‘‘

(العرف الشذی علی جامع الترمذی، ج۱ص ۳۶۹، مکتبہ دار الایمان دیوبند)

معلوم ہوا کہ جو حکم سورۂ فاتحہ کا ہے وہ دوسری سورہ کا نہیں ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
رکوع میں مِلنے والی رکعت کا مسئلہ :

اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض کے نزدیک رکوع میں ملنے والی رکعت ہوجاتی ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہوتی۔

جن کے نزدیک نہیں ہوتی ہے انکی دلیل یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس [نماز میں] پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے تو انہوں نے صف میں ملنے سے پہلے [ہی]رکوع کرلیا [پھر اس حالت میں صف میں مل گئے] پس صحابہ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصاً وَلاَ تَعْدُ[یعنی اللہ تیری حرص زیادہ کرے اور پھر ایسا نہ کرنا]

(صحیح بخاری،حدیث: ۷۸۳، جزء القرأۃ،حدیث: ۱۳۵)

(۱) خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فَلَیْسَ لِاَحِدٍ اَنْ یَّعُوْدَ لِمَا نِہَیَ النَّبِیُّ عَنْہُ وَلَیْسَ فِیْ جَوَابِہِ اَنَّہُ اِعْتَدَّ بَالرَّکُوْعِ عَنِ الْقِیَامِ

[یعنی کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایسا کام کرے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اور آپ کے جواب میں یہ بات نہیں ہے کہ انہوں [ابوبکرہ]نے قیام کے بغیر ہی رکوع کو شمار کرلیا تھا]

(جزء القرأۃ، تحت حدیث: ۱۳۶۔نصر الباری ص۱۸۶)

(۲)ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

لَا یَرْکَعَنَّ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

[یعنی تم میں سے کوئی آدمی بھی سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر ہرگز رکوع نہ کرے]

وَکَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا تَقُوْلُ ذٰلِکَ

[یعنی اُمی جان سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بھی یہی فرمایا کرتی تھیں]

(جزء القرأۃ،حدیث : ۱۰۶ ، ۱۳۳۔ و سندہ صحیح:نصر الباری ص۱۶۳)

(۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لَا یُجْزِئَکَ اِلَا اَنْ تُدْرِکَ الْاِمَامَ قَائِماً قَبْلَ اَنْ یَّرْکَعَ

[یعنی تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک تو رکوع سے پہلے امام کو حالتِ قِیام میں نہ پالے]

(جزء القرأۃ، حدیث:۱۳۲۔وسندہ صحیح :نصرالباری ص۱۸۲)

جن کے نزدیک رکوع مل جانے سے رکعت ہوجاتی ہے:

اگرچہ چند ایک صحابہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ مُدْرک الرکوع [رکوع پانے والا]کی رکعت ہوگی۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ اگر امام کو رکوع میں دیکھو تو رکوع نہ کیا جائے بلکہ امام کے رکوع سے اُٹھنے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح انسان شکوک میں نہیں پڑتا۔

نِیز جس حدیث میں آیا ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے آئے اور امام کسی بھی حالت میں ہو تو وہی کرو جو امام کررہا ہے۔‘‘

(ترمذی، حدیث:۵۹۱۔ ابوداؤد،حدیث: ۵۰۶)وہ سنداً ضعیف ہے اس لئے رکوع سے اُٹھنے کے انتظار کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔

رہا اس مسئلہ پر اجماع کا دعوی تو وہ باطل ہے، کیونکہ علامہ ابن حزم [المتوفی ۴۵۶؁ھ]

صحیح سند کے ساتھ امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

مَنِ ادَّعیٰ الْاِجْمَاعَ فَھُوَ کَاذِبٌ لَعَلَّ النَّاسَ اِخْتَلَفُوْا (المحلیٰ: ج۱۰ص۴۲۲ مسئلہ نمبر ۲۰۲۵، مسائل احمد روایۃ عبداللہ، مسئلہ:۱۵۸۷،اعلام المؤقعین[اردو]ج۱ص۳۹) [یعنی جس نے اختلافی مسائل میں اجماع کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے]


حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس مسئلہ میں صحابہ کرام کے اپنے درمیان اور علمائِ سلف کے درمیان اختلاف ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زید بن وہب، امام بخاری وغیرہ [رحمہم اللہ]کی تحقیق میں مدرکِ الرکوع کی رکعت نہیں ہوتی، جب صحابہ میں اختلاف ہوتو پھر مرفوع احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ مرفوع حدیث عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘(الکواکب ص ۱۴۵)

نیز ہمارے سامنے اللہ کا یہ فرمان بھی ہے:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئً فَرَدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ(النساء:۵۹)

[یعنی جب ان (بڑوں) میں اختلاف ہوجائے تو اللہ (کے فرمان) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث)کی طرف رجوع کرو]


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز جنازہ میں بھی سورۂ فاتحہ ضروری ہے :


(۱)

نماز جنازہ بھی نماز ہی ہے اسلئے یہاں بھی فاتحہ کا وہی حکم ہے جو عام نمازوں میں ہوتا ہے۔

(۲)

طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ !

میں نے ابن عباس [رضی اللہ عنہ] کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا۔ انہوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورہ پڑھی اور [دونوں]بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سُنَّۃٌ وَ حَقٌٌّّ [یعنی یہ سنت ہے اور حق ہے]


(نسائی، حدیث: ۱۹۸۹ واللفظ لہ ۔ صحیح بخاری،حدیث: ۱۳۳۵ [اختصاراً])

(۳)

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’نماز میں سنت یہ ہے کہ تم تکبر کہو پھر سورۂ فاتحہ پڑھو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو۔ پھر خاص طور پر میت کے لئے دعا کرو، قرأۃ صرف پہلی تکبیر میں کرو پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھردو۔

(مصَنف ابنِ ابی شیبۃ،ج۳ص۲۹۶،تحت حدیث:۱۲۴۹۷۔ مصَنف عبدِالرزاق،حدیث: ۶۴۲۷[ علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس سند کے بارے میں فرمایا: اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ۔فتح الباری،ج۳ص۲۰۴،تحت حدیث:۱۲۶۹])

(۴)

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ [نماز جنازہ میں] پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جنازہ میں فاتحہ پڑھیں۔‘‘

(غنیہ الطالبین حصہ دوم، باب۷ ص۵۵۷، نماز جنازہ)

(حاشیہ از ناقل: سنن ابن ماجہ،حدیث:۱۴۹۶، وسندہ حسن شھر بن حوشب ثقہ الجمہور)(اقول: اخرجہ عنہ مسلم [حدیث رقم:۵۴۶۹]وقال ابن الحجر:وشھر حسن الحدیث [فتح الباری،ج۳ص۶۵۔تحت حدیث:۱۱۳۲] شرحِ صحیح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۶۷۶؁ھ ]نے تفصیل سے اس کی توثیق نقل فرمائی ہیں۔ دیکھئے: مقدمہ، باب بیان ان الاسناد من الدین)

شیخ صاحب اپنے موقف کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’…کیونکہ مجاہد کا بیان ہے کہ میں نے اَٹھارہ سے زیادہ صحابہ سے نمازِ جنازہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ تکبیر کہہ کر فاتحہ پڑھو۔‘‘

(غنیہ الطالبین حصہ دوم، باب۷ص۵۵۷،نماز جنازہ )


٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خلاصہ الکلام :

اتنی دلائل کے بعد ہم مسلمانوں سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم سورۂ فاتحہ امام کے پیچھے کیوں نہ پڑھیں گے؟ نہ ماننے والوں پر ہم کوئی فتوی نہیں لگاتے ،لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ ہم اپنی نمازوں کو سورۂ فاتحہ کی قرأۃ سے سجاتے۔ اللہ ہمارے سینوں کو قرآن و حدیث اور فہم سلف کی محبت سے لبریز فرمائے اور ہمیں بلا جھجک حق کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

بعض لوگ وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن میں آیا ہے کہ امام کے پیچھے قرأۃ کرنے والے کے منہ میں آگ بھردی جائے گی۔ انہیں اللہ سے خوف کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایسی روایات منگھڑت اور موضوع ہے۔ ایسا کہنا قرآن کی توہین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ مین رکھیں۔ آمین

جو لوگ غلو سے کام لے کر مقتدیوں کو فاتحہ خلف الامام سے روکتے ہیں۔ انہیں دعوت دی جاتی ہیں کہ قرآن ، حدیث ، اجماع یا آثارِ سلف سے ایک صریح اور واضح دلیل پیش کریں۔ جس میں سورۂ فاتحہ کا لفظ ہو اور پھر ممانعت وارد ہو۔ضعیف اور عقلی دلائل کو قرآن و حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنا بڑی جسارت ہے۔ اللہ صحیح راستے کی ہدایت دے۔ آمین


اس موضوع پر اس وقت کافی علمی مواد موجود ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے:

(۱) الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الصلوۃ الجھریۃ [دوسرا نام: مسئلہ فاتحہ خلف الامام] الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

(۲) نصر الباری فی تحقیق جزء القرأۃ للبخاری: الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

(۳) کتاب القرأۃ: امام البیہقی رحمہ اللہ

(۴) شرح صحیح بخاری ، ج۱ص۶۸۸ تا ۶۹۸:داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ

(۵) توضیح الکلام: ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

(۶) فوزالمرام فی قراء ۃ فاتحہ خلف الامام: عبدالرحمٰن فاضل دیوبند



٭٭٭٭٭٭٭
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے -



آمین یا رب العالمین
 
Last edited:

kbadakhshan05

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 11، 2015
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
احناف کے پاس جو دلیل ہے اسکی بھی اگر وضاحت ہو تو بات واضع ہو جائے گی
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top