• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
احناف کے پاس جو دلیل ہے اسکی بھی اگر وضاحت ہو تو بات واضع ہو جائے گی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

بھائی صحیح سامنے آنے کے بعد اسے قبول نہ کرنا یہ اہل حق کا شیوہ نہیں - اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی -

ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -

اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔


اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔


اس طرح رفع الیدین کے مطالق ایک فتویٰ پڑھے !


کیا وجہ ہے کہ احناف رفع الیدین والی صحیح احادیث کو قبول نہیں کرتے؟


http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-وجہ-ہے-کہ-احناف-رفع-الیدین-والی-صحیح-احادیث-کو-قبول-نہیں-کرتے؟.30419/#post-239023




 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بھائی صحیح سامنے آنے کے بعد اسے قبول نہ کرنا یہ اہل حق کا شیوہ نہیں - اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم!
اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا؛

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)

جب (امام نماز میں)قرآن پڑھے تو (اے مقتدی حضرات تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ) اس کو توجہ سے سنو (اور اس توجہ کو تلاوتِ قرآن کی طرف کامل رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ) خاموش رہو (ایسا نہ ہو کہ اس سے توجہ ہٹا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور رحمت الٰہی سے محروم ہو جاؤ بلکہ خاموش ہو کر سنو) تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس کی تائید میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛


سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)


ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "

نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں یہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے۔

اسی بات کی تائید صحابہ کرام بھی کرتے ہیں؛


صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ


زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

سنن الترمذی: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ:
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


تفسیر ابن کثیر سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ قراءت جائز نہیں؛


(مفہوم صرف خط کشیدہ حصوں کا ہے)
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظاما له واحتراما لا كما كان يتعمده كفار قريش المشركون في قولهم "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"( اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه") ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما رواه مسلم في صحيحه من حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (بلكہ يہ تاكيد فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو) وكذا رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة أيضا وصححه مسلم بن الحجاج أيضا ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري عن أبي عياض عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة فلما نزلت هذه الآية "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" والآية الأخرى أمروا بالإنصات(ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا)۔ قال ابن جرير: حدثنا أبو كريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن المسيب بن رافع قال ابن مسعود: كنا يسلم بعضنا على بعض في الصلاة فجاء القرآن "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" (ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" وقال أيضا حدثنا أبو كريب حدثنا المحاربي عن داود بن أبي هند عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود فسمع ناسا يقرؤن مع الإمام فلما أنصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا أما آن لكم أن تعقلوا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا " كما أمركم الله (ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو)۔قال وحدثني أبو السائب حدثنا حفص عن أشعث عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه فنزلت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" (یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی)۔وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن من حديث الزهري عن أبي أكتمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال "أهل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل نعم يا رسول الله قال "إني أقول ما لي أنازع القرآن" قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا)۔ وقال الترمذي هذا حديث حسن وصححه أبو حاتم الرازي وقال عبدالله بن المبارك عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته(امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے) ولكنهم يقرؤن فيما لا يجهر به سرا في أنفسهم(ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے) ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرا ولا علانية فإن الله تعالى قال "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"(کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون") قلت: هذا مذهب طائفة من العلماء أن المأموم لا يجب عليه في الصلاة الجهرية قراءة فيما جهر فيه الإمام لا الفاتحة ولا غيرها(ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ) وهو أحد قولي الشافعية وهو القديم كمذهب مالك ورواية عن أحمد بن حنبل لما ذكرناه من الأدلة المتقدمة وقال في الجديد يقرأ الفاتحة فقط في سكتات الإمام(امام شافعی کا جدید قول ہے کہ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے) وهو قول طائفة من الصحابة والتابعين فمن بعدهم وقال أبو حنيفة وأحمدبن حنبل: لا يجب على المأموم قراءة أصلا في السرية ولا الجهرية بما ورد في الحديث "من كان له إمام فقراءته قراءة له"(ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے'') وهذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده عن جابر مرفوعا وهو في موطأ مالك عن وهب بن كيسان عن جابر موقوفا (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے) وهذا أصح وهذه المسألة مبسوطة في غير هذا الموضع وقد أفرد لها الإمام أبو عبدالله البخاري مصنفا على حدة واختار وجوب القراءة خلف الإمام في السرية والجهرية أيضا والله أعلم (البتہ صرف امام بخاری امام کی اقتدا میں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کی قراءت کے قائل ہیں) وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في الآية قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" يعني في الصلاة المفروضة(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا حکم فرض نماز کے لئے ہے) وكذا روي عن عبدالله بن المغفل. وقال ابن جرير: حدثنا حميد بن مسعدة حدثنا بشر بن المفضل حدثنا الجراري عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاص يقص فقلت ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان الموعود؟ قال فنظرا إلي ثم أقبلا على حديثهما قال فأعدت فنظرا إلي وأقبلا على حديثهما قال فأعدت الثالثة قال فنظرا إلي فقالا: إنما ذلك في الصلاة "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" وكذا قال سفيان الثوري عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير عن مجاهد في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة.(مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز کے لئے ہے) وكذا رواه غير واحد عن مجاهد وقال عبدالرزاق عن الثوري عن ليث عن مجاهد قال: لا بأس إذا قرأ الرجل في غير الصلاة أن يتكلم وكذا قال سعيد بن جبير والضحاك وإبراهيم النخعي وقتادة والشعبي والسدي وعبدالرحمن بن زيد بن أسلم أن المراد بذلك في الصلاة وقال شعبة عن منصور سمعت إبراهيم بن أبي حمزة يحدث أنه سمعمجاهدا يقول في هذه الآية "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة والخطبة يوم الجمعة.( مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز خطبہ جمعہ کے بارے میں ہے) وكذا روى ابن جريج عن عطاء مثله وقال هشيم عن الربيع بن صبيح عن الحسن قال في الصلاة وعند الذكر.(حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز ذکر کے بارے میں ہے) وقال ابن المبارك عن بقية سمعت ثابت بنعجلان يقول: سمعت سعيد بن جبير يقول في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال الإنصات يوم ألأضحى ويوم الفطر ويوم الجمعة وفيما يجهر به الإمام من الصلاة (سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم عید الاضحی، عید الفطر ، جمعہ (کے خطبہ) اور جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے کے بارے میں ہے)۔

رکوع میں ملنے سے رکعت کا مل جانا بھی اسی بات کی دلیل ہے؛


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)

رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز (كى ركعت) پالى ۔
والسلام
 

LAEEQ.KHAN

رکن
شمولیت
دسمبر 22، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
54
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

بھائی صحیح سامنے آنے کے بعد اسے قبول نہ کرنا یہ اہل حق کا شیوہ نہیں - اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی -

ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -

اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )


حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔


امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:


والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔


( ترمذی، ج1، ص:41 )


یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔


امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :


ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔


( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )


یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔


اس طرح رفع الیدین کے مطالق ایک فتویٰ پڑھے !


کیا وجہ ہے کہ احناف رفع الیدین والی صحیح احادیث کو قبول نہیں کرتے؟


http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-وجہ-ہے-کہ-احناف-رفع-الیدین-والی-صحیح-احادیث-کو-قبول-نہیں-کرتے؟.30419/#post-239023





جازاک اللھ خیرا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام کے پیچھے قراءت (سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے) کی ممانعت قرآن سے؛


وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)

جب (امام نماز میں)قرآن پڑھے تو (اے مقتدی حضرات تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ) اس کو توجہ سے سنو (اور اس توجہ کو تلاوتِ قرآن کی طرف کامل رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ) خاموش رہو (ایسا نہ ہو کہ اس سے توجہ ہٹا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور رحمت الٰہی سے محروم ہو جاؤ بلکہ خاموش ہو کر سنو) تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت احادیث سے؛


سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)

ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "

نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں [H2]سورہ فاتحہ [/H2]ہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے(الحجر) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سورہ فاتحہ کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے (مسلم)۔

امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت آثارسے؛


صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ


زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

سنن الترمذی: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ:
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

قارئین کرام! نام نہاد ’’غیر مقلدین‘‘ (حقیقتاً یہ اندھے مقلد ہیں) کی قرآن دشمنی ملاحظہ کریں کہ یہ لوگ سورہ فاتحہ کو قرآن ہی سے خارج قرار دیتے ہیں اور جتنی بھی احادیث میں قراءت قرآن کے وقت خاموش رہنے کے احکام آئے ہیں ان سے سورہ فاتحہ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ کیا سورہ فاتحہ پر بھی قراءت کا اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں۔

سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے


صحيح بخارى: كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: بَاب مَا جَاءَ فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
وسميت أم الكتاب لأنه يبدأ بكتابتها في المصاحف ويبدأ بقراءتها في الصلاة

اس کا نام ام الکتاب اس لئے ہے کہ قرآن پاک کی تحریر اس سے شروع ہوتی ہے اور نماز میں قراءت کی ابتدا بھی اسی سے ہوتی ہے۔

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةَ بِ { الْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } ـــالحدیث


رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قراءت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے ـــــــــــــ الحدیث
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امام کے پیچھے قراءت (سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے) کی ممانعت قرآن سے؛


وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)

جب (امام نماز میں)قرآن پڑھے تو (اے مقتدی حضرات تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ) اس کو توجہ سے سنو (اور اس توجہ کو تلاوتِ قرآن کی طرف کامل رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ) خاموش رہو (ایسا نہ ہو کہ اس سے توجہ ہٹا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور رحمت الٰہی سے محروم ہو جاؤ بلکہ خاموش ہو کر سنو) تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت احادیث سے؛


سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)

ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "

نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں [H2]سورہ فاتحہ [/H2]ہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے(الحجر) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سورہ فاتحہ کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے (مسلم)۔

امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت آثارسے؛


صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ


زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

سنن الترمذی: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ:
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

قارئین کرام! نام نہاد ’’غیر مقلدین‘‘ (حقیقتاً یہ اندھے مقلد ہیں) کی قرآن دشمنی ملاحظہ کریں کہ یہ لوگ سورہ فاتحہ کو قرآن ہی سے خارج قرار دیتے ہیں اور جتنی بھی احادیث میں قراءت قرآن کے وقت خاموش رہنے کے احکام آئے ہیں ان سے سورہ فاتحہ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ کیا سورہ فاتحہ پر بھی قراءت کا اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں۔

سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے


صحيح بخارى: كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: بَاب مَا جَاءَ فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
وسميت أم الكتاب لأنه يبدأ بكتابتها في المصاحف ويبدأ بقراءتها في الصلاة

اس کا نام ام الکتاب اس لئے ہے کہ قرآن پاک کی تحریر اس سے شروع ہوتی ہے اور نماز میں قراءت کی ابتدا بھی اسی سے ہوتی ہے۔

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةَ بِ { الْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } ـــالحدیث


رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قراءت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے ـــــــــــــ الحدیث
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح وضاحت موجود ہے اب کسی کو سمجھ نہیں آئے تو کیا کر سکتے ہیں

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )


حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔


امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:


والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔


( ترمذی، ج1، ص:41 )


یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔


امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :


ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔


( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )


یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس وقت امام ثنا پڑھے، مقتدی اس وقت ثنا کے بجائے سورۂ فاتحہ پڑھے ۔پھر امام کی قرأۃ غور سے سنے اور آخر میں امام کے ساتھ مل کر آمیں کہے۔ امام کو چاہئے کہ اَللّٰہم بَاعِدْ بَیْنِیْ…الخ والی ثنا پڑھے تاکہ مقتدی کو فاتحہ اچھی طرح پڑھنے کا موقع ملے۔
محترم! اس کا مطلب ہے کہ آپ اصولی طور پر قرآنی آیت ’’وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‘‘ کی ممانعت سورہ فاتحہ کے لئے بھی تسلیم کرتے ہو وگرنہ اتنا لمبا چکر لگانے کی ضرورت نہ ہوتی۔
سیانے کہتے ہیں کہ ایک غلطی کو چھپانے کے لئے انسا غلطی پر غلطی کیئے جاتا ہے یہی حال نام نہاد غیر مقلدین (حقیقتاً یہ اندھوں کے اندھے مقلد ہیں) کا ہے۔ امام کی اقتدا کی بجائے امام کو حکم صادر فرما رہے ہیں کہ وہ اَللّٰہم بَاعِدْ بَیْنِیْ والی ’’دعاء‘‘ پڑھے۔کیسےاللہ جل شانہٗ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی نافرمانی کراتے ہوئے
امام سے سبقت کرنے کا حکم
صادر فرما رہے ہیں۔ فوا اسفا

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر رکعت کے بعد امام سکتہ کرے اور انہی سکتات میں مقتدی بھی ایک ایک آیت پڑھتا رہے اور آخری آیت امام سے پہلے ختم کرے پھر امام و مقتدی مل کر بلند آواز سے آمین کہیں۔
یہاں بھی اصولی طور پر مذکورہ آیت کی مخالفت سے بچنے کی تلقین موجود ہے بشرطیکہ کوئی نظرِ بصیرت سے دیکھے تو۔
دوسرے یہ کہ یہاں بھی امام کو امام کی بجائے مقتدی بنایا جارہا ہے۔
مقتدی کا کام ہے امام کی اقتدا کرے نہ کہ امام مقتدی بن جائے
۔

جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں پڑھے گا، بکلہ فاتحہ کے بعد خاموش رہ کر خوب دھان سے قرأۃ پر غور کرے گا۔

یہاں کھل کر اقرار کر لیا کہ قراءتِ قرآن کے وقت قراءت نہ کرے۔ مگر ساتھ ہی اپنا ذاتی فیصلہ قرآن اور حدیث کے خلاف صادر فرمادیا کہ جری قراءت کے وقت بھی سورہ فاتحہ پڑھے۔ اس کا مطلب نہ اللہ کی ماننی ہے اور نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماننی ہے تو ’’اپنے بڑوں‘‘ کی۔
محترم! اوپر طریقہ نمبر ایک اور دو لکھنے کا کیا مقصد تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اس طرح پڑھنے میں بھی مزا آئے گا اور سننے میں بھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر امام سکتات نہ کرے تو سورۂ فاتحہ نہ پڑھنی چاہئے، ہر گزنہیں! بلکہ سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
قارئین! یعنی اگر امام نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ کی اور رسول سلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کنا جائز ہے۔ واہ مفتی صاحب!!!!!!!!!!!!!!!!!!


اتنی دلائل کے بعد ہم مسلمانوں سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم سورۂ فاتحہ امام کے پیچھے کیوں نہ پڑھیں گے؟ نہ ماننے والوں پر ہم کوئی فتوی نہیں لگاتے ،لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ ہم اپنی نمازوں کو سورۂ فاتحہ کی قرأۃ سے سجاتے۔ اللہ ہمارے سینوں کو قرآن و حدیث اور فہم سلف کی محبت سے لبریز فرمائے اور ہمیں بلا جھجک حق کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
جناب آنکھیں اگر ہیں بند تو ـــــــــــــــــ۔


بعض لوگ وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن میں آیا ہے کہ امام کے پیچھے قرأۃ کرنے والے کے منہ میں آگ بھردی جائے گی۔ انہیں اللہ سے خوف کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایسی روایات منگھڑت اور موضوع ہے۔ ایسا کہنا قرآن کی توہین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ مین رکھیں۔ آمین
یہ روایات جن محدثین نے ذکر کی ہیں وہ اور جو روات ہیں وہ، ان تک آپ کی یہ بات کون پہنچائے گا۔ روایات ملاحظہ فرمائیں؛

مصنف ابن أبي شيبة من كره القراءة خلف الامام

(1) عن عبد الله بن شداد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (من كان له إمام فقراءته له قراءة) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کی بھی قراءت ہے۔

(2) عن علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة.: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہجس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔

(3) عن سعد قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام في فيه جمرة: سعد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے ۔

(4) عن زيد بن ثابت قال : لا قراءة خلف الامام:.زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں مقتدی پر کوئی قراءت نہیں ۔

(5) عن نافع وأنس بن سيرين قال : قال عمر بن الخطاب تكفيك قراءة الامام:. عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کفایت کر جاتی ہے۔

(6) عن إبراهيم قال : قال الاسود لان أعض على جمرة أحب إلي من أن أقرأ خلف الامام أعلم أنه يقرأ.ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہچاہئے کہ جو امام کے پیچھے قراءت کرے اس کا منہ پتھروں سے بھر دیا جائے۔

(7) عن جابر قال : لا يقرأ خلف الامام.جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کی اقتدا میں کوئی قراءت نہ کرے۔

(8) عن زيد بن ثابت قال : لا يقرأ خلف الامام إن جهر ولا إن خافت. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سری نماز میں قراءت نہ کرو۔

(9) عن زيد بن ثابت قال : من قرأ خلف الامام فلا صلاة له. زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

(10) عن الاسود بن يزيد أنه قال : وددت أن الذي يقرأ خلف الامام ملئ فوه ترابا.اسود بن یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہجو امام کے پیچھے پڑھے اس کا منہ مٹی سے بھر دینا چاہئے۔

(11) سألت أبا سعيد عن القراءة خلف الامام فقال : يكفيك ذاك الامام. ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(12) عن سعيد بن جبير قال : سألته عن القراءة خلف الامام قال : ليس خلف الامام قراءة. سعيد بن جبير رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کی اقتدا میں قراءت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(13) عن ابن المسيب قال : أنصت للامام. ابن المسيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے خاموش رہو۔

(14) عن محمد قال : لا أعلم القراءة خلف الامام من السنة. محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت سنتِ رسول نہیں۔

(15) عن إبراهيم أنه كان يكره القراءة خلف الامام وكان يقول تكفيك قراءة الامام . ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت کرنے کو مکروہ جانتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(16) سألت سويد بن غفلة أقرأ خلف الامام في الظهر والعصر فقال : لا. سويد بن غفلۃ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کی جائے؟ فرمایا کہ نہیں۔

(17) الضحاك ينهى عن القراءة خلف الامام. ضحاك رحمۃ اللہ علیہ امام کے پیچھے قراءت سے منع فرماتے تھے۔

(18) عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (إنما جعل الامام ليوتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا). ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔

(19) عن أبي وائل قال : تكفيك قراءة الامام. ابی وائل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔

(20) عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (كل من كان له إمام فقراءته له قراءة). جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top