• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اہل حدیث نام اپنے آگے لگانا ضروری ہے؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اس بارے اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے کہ اہل حدیث نام اپنے ساتھ لگانا ضروری ہے یا نہیں؟
بعض اس کو ضروری سمجھتے ہیں یعنی واجب یا فرض کا درجہ دیتے ہیں
آپکا یہ دعوی محل نظر ہے۔ آپ ان علماء کے اسمائے گرامی بیان فرمائیں جنھوں نے اپنے ساتھ لفظ اہل حدیث کے استعمال کو واجب یا فرض کہا ہو۔اگر آپ کی مراد فرض اور واجب کے اصلاحی معنوں کی نہیں بلکہ صرف مبالغہ کے لئے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے تو برائے مہربانی ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز فرمائیں۔

جبکہ بعض کے نزدیک اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے، یہ ہونی چاہیے، چاہیے نام کچھ بھی ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا
جی درست فرمایا۔اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے لیکن یہ منہج جن ناموں سے موجودہ دور میں مشہور ہے یعنی اہل حدیث، سلفی، اثری وغیرہ ان ناموں کا اعلانیہ انکار کہاں تک درست ہے؟ پھر یہ کہہ دینا کہ ہمارا تعلق کسی خاص جماعت یا گروہ سے نہیں نہ ان کا دفاع ہماری ترجیح ہے جبکہ حقیقت میں کسی خاص جماعت سے تعلق رکھنا اور اعلانیہ اور ڈھٹائی سے اس کا انکار۔ اس دوغلی اور منافقانہ پالیسی کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ یاد رہے کہ یہی اصل نقطہ اعتراض ہے جس کی وجہ سے یہ موضوع معرض وجود میں آیا ہے۔

جیسا کہ سید احمد شہید بریلوی اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگاتے تھے
ویسے تو آپ عالم ہیں اور آپکا علم مجھ سے زیادہ ہے لیکن میں یہ کہنے کی جسارت کرونگا کہ ان کا نام سید احمد بریلی تھا نہ کہ بریلوی اور یہ نسبت علاقے کی طرف تھی ناکہ بریلوی مذہب کی طرف۔

اور اب کچھ حنفی علماء نے اپنے ناموں کے ساتھ سلفی لگانا شروع کر دیا ہے کہ دعوی یہ کیا ہے کہ اصل سلفی، حنفی ہیں۔
اہل حدیث جب خود کو سلفی کہتا ہے تو اس سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی طرف نسبت ہوتی ہے لیکن جب ایک حنفی خود کو سلفی کہتا ہے تو اس سے مراد صحابہ کرام کی طرف نسبت نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء کی طرف نسبت ہوتی ہے دیکھئے: وقال فی حاشیۃ الھدایۃ باب الشھادۃ (2-163) ابوحنیفہ وا صحابہ سلفنا والصحابۃ والتابعون سلف لابی حنیفۃ۔
ہدایہ کی اس عبارت پر امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پس مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم کو اپنا سلف نہیں سمجھتے صرف ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کو اپنا سلف مانتے ہیں۔فتدبر! (تحفۃ المناظر یا تناقضات المقلدین، ص38)

پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ ایک حنفی اور اہل حدیث سلف سے اپنی نسبت سے مراد الگ الگ لیتے ہیں تو یہ مثال بھی غلط ہوگئی۔

پس میرے خیال میں اگر آپ کا عقیدہ اور منہج اہل حدیث کا ہے تو بھلے آپ اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگائیں یا اہل حدیث، اس سے آپ کی اخروی نجات متاثر نہیں ہو گی۔ اور اگر آپ کا عقیدہ و منہج اہل الحدیث کا نہیں ہے اور آپ اپنے آپ کو اہل حدیث یا سلفی وغیرہ لکھتے ہیں تو اس صورت میں یہ نام آپ کو آخرت میں کچھ بھی کام نہ آئیں گے۔ پس اصل نام نہیں ہے بلکہ فکر و عمل یا عقیدہ و منہج ہے، وہ درست ہونا چاہیے۔
جب ہم محض اہل حدیث نام کو نجات کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی کہیں اور کبھی بھی میں نے ایسی کوئی بات کہی ہے تو پھر اسکا ذکر چہ معنی دارد؟ ہم لفظ اہل حدیث، سلفی یا اثری وغیرہ کو صرف اور صرف اہل باطل کے درمیان امتیاز کے لئے استعمال کرتے اور اسے ضروری سمجھتے ہیں تاکہ مخالفین کے درمیان بھی ہمیں ایک خاص پہچان حاصل ہو کہ جب قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین کا نام آئے تو ان کے ذہن میں اہل حدیث، سلفی، اثری یا محمدی کے علاوہ کوئی اور نام نہ آئے۔ ہم اس بات کو دعوت کی راہ میں روکاوٹ نہیں بلکہ آسانی سمجھتے ہیں کہ کسی کو سمجھانے کے لئے یا اپنی دعوت پیش کرنے میں بہت مشکل پیش نہیں آئے گی بلکہ کئی لوگ پہلے ہی آپ کے خاص نام کی وجہ سے آپکے منہج اور اصول و عقائد سے واقف ہونگے۔

اہل کتاب میں بھی ایک وقت میں ناموں کے بارے حساسیت بہت بڑھ گئی تھی، یہاں تک کہ اپنے باہمی اختلافات کی بدولت جب وہ فرقوں میں بٹ گئے تو اب ان فرقوں میں کسی داخل یا خارج کرنے کا کام اور اس پر مناظرہ کرنا ہی دین کی اصل خدمت قرار پائی۔
معاف کیجئے گا ہم نے تو نام پر کوئی مناظرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی اہل حدیث عالم کے بارے میں معلوم ہے کہ اس نے ایسا کیا ہو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہر جگہ اپنے نام کا ڈھنڈورا پیٹو اور وقت بے وقت لوگوں کو بتاتے پھرو کہ ہم اہل حدیث ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کم از کم جب ضرورت پڑ جائے تب تو اپنے اہل حدیث ہونے کا انکار مت کرو۔ اسی بات پر مجھے باذوق بھائی اور صراط الہدی کے پالیسی جملے پر اعتراض ہے کہ یہ لوگ اعلانیہ اپنے اہل حدیث، سلفی یا اثری ہونے کا انکار کر رہے ہیں بلکہ ان کے دفاع کے روادار بھی نہیں۔ نجانے پھر یہ لوگ کس منہ سے فہم سلف صالحین اور ان کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں جبکہ سلف صالحین کی تعلیمات لفظ سلفی، اثری اور اہل حدیث جیسے ناموں ہی سے موسوم رہی ہے اور ہے۔

اہل حدیث اور مقلدین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اہل حدیث کوئی محدود فکر و نظر والی جماعت نہیں کہ کسی کو اس میں داخل کرتے وقت چند مسائل بتا دئے جائیں کہ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔ علماء اور عامی سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب کوئی مسلک اہل حدیث میں داخل ہوتا ہے تو اسے اہل حدیث کے کچھ اصول بتائے جاتے ہیں اور انہیں اصولوں کی روشنی میں وہ آزادانہ ہر مسئلے کی تحقیق کرتا ہے۔

مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔
اہل حدیثوں میں ایسا کب اور کہاں ہوتا ہے؟ ایک آدھ مثال کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر اور جماعتی سطح پر ایسا کچھ بھی نہیں۔ زرا اس دعوے کے ساتھ چند امثال بھی ذکر فرمادیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ 'اصلی اہل حدیث' جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اہل باطل کی کثرت کے درمیان اپنی پہچان کے لئے تو لازمی مسلمان کو اپنا صفاتی، جماعتی یا منہجی نام بتانا پڑے گا ورنہ آپ رنگ برنگے مسلمانوں میں اپنا صحیح تعارف کیسے کرواو گے؟ اور یہ کوئی نئی بات نہیں صحابہ کے دور میں بھی اہل باطل سے امتیاز اور اپنے تعارف کے لئے لفظ اہل سنت کا استعمال ہوا ہے پھر اہل الرائے کے پیدا ہونے کے بعد انہیں اہل سنت نے اپنا ایک اضافی نام اہل حدیث رکھا اور اسی کو اپنی پہچان کے لئے استعمال کیا پھر آج اہل حدیث کا یہی مسلک و منہج اثری و سلفی کے ناموں سے بھی متعارف ہے۔ صحابہ نے ضرورت پڑنے پر پہچان کے لئے اپنا ایک صفاتی نام رکھا پھر اہل الرائے کے مقابلے میں اہل حدیث کا نام رکھا گیا جب کل یہ نام ضرورت تھے تو آج یہ اتنے غیر ضروری کیسے ہوگئے کہ کچھ لوگ ان ناموں سے جان چھڑانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں!

صحابہ کے عمل مبارک سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ضرورت پڑنے پر نہ صرف اپنے صفاتی نام رکھے جاسکتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ کبھی اہل باطل اپنے نام کے ساتھ اہل حدیث کے لفظ کا اضافہ کرینگے کیونکہ یہ بہت قدیم نام ہے اور ماضی سے آج تک ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ایسا نہیں ہوا تو آئندہ بھی اس کا امکان بہت کم ہے۔

میرے خیال میں کوشش کریں کہ قرون اولی کے اہل الحدیث یعنی صحابہ، تابعین، ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کی فکر و عقیدہ اور منہج و عمل کو اپنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں، اور کوئی آپ کو اہل حدیث کہتا ہے یا نہیں، یا مانتا ہے یا نہیں، یا اہل حدیث جماعت میں داخل کرتا ہے یا نہیں، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بس کام کرتے جائیں۔
آپ کے اس مشورے سے میں متفق ہوں۔

میرے تلامذہ میں بیسیوں ایسے دیوبندی اور بریلوی ہیں کہ تدریس کی بدولت ان کا عقیدہ اہل حدیث کا بن گیا اور انہوں نے نماز و دیگر مسائل میں احادیث صحیحہ کے مطابق عمل شروع کر دیا لیکن وہ اپنا تعارف بطور اہل حدیث کروانا پسند نہیں کرتے ہیں اور اس کی ان کے نزدیک کچھ وجوہات ہیں بلکہ بعض اہل حدیث تو میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ جان بوجھ کر بریلوی لگاتے ہیں کیونکہ وہ سابقہ بریلوی تھے اور اب بریلویوں میں دعوت و تبلیغ کا کام بریلوی نام سے کر رہے ہیں۔
یہ غلط سوچ اور ناپسندیدہ عمل ہے اس سے دھوکے بازی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جھوٹ کے ذریعے دعوت پھیلانا کوئی اچھا عمل نہیں ایک شخص اپنا تعارف بریلوی کہہ کر کروائے اور اس دھوکے میں وہ اہل حدیث کی دعوت دے۔ مجھے تو یہ تقیہ سے ملتی جلتی چیز لگتی ہے۔

اسے آپ حکمت کہیں یا کچھ اور نام دیں لیکن مجھے بہر حال اہل حدیث نام استعمال کرنے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔
اسے ہم دھوکے بازی کا نام دیتے ہیں اور یہی لفظ اس مذموم عمل پر صادق آتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی کئی سابقہ پوسٹس اور موجود پوسٹ میں اپنے نقطہ نظر کی خوب وضاحت کردی ہے لہذا اب میں کسی بھی معزز شخص سے خلط مبحث کی امید نہیں کرتا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اس قسم کی بحثیں دیکھ کر بڑی عبرت حاصل ہوتی ہے !
اس قسم کی بحثیں آپ کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں وہاں عبرت حاصل نہیں ہوتی؟!
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
آپ علماے اہلیحدیث کا اس سلسلہ میں موقف پیش کریں کہ وہ لوگ تو اس نام اور اس پر اٹھنے والے سوالات کا دندان شکن جواب دیا اور دے رہے ہیں اور آپ اور ہم انکو پڑھتے اے ہیں اور اگے بھیجتے بھی اے ہیں مگر اج ہم حکمت اختیار کر نا چاہتے ہیں۔ اس نام سے بچنا چاہتے ہیں۔ لیبل برا لگتا ہے۔

اور بڑا ہی افسوس ہوا آپکے اقتباس سے کہ جسے نیٹ کی دنیا میں اہلیحدیث کا حامی جانا جاتا ہے اور پہچانا جاتا ہے اور آپکے ان آرٹیکلس کی بدولت جو اپنے مسلک اہلیحدیث کے دفع میں لکھے ہیں کہ اپ ہی اس نام کے خلاف ہو گئیے بلکہ اسکے خلاف لکھنا شروع کردیا آپ سے ایسی توقع نہ تھی باذوق بھائی۔

اب ضد ہٹ دھرمی کا تو کوئی علاج نہیں ہے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
معذرت ! شاید میں آپ کو نہیں جانتا۔ البتہ جہاں تک میری یادداشت کا معاملہ ہے ، نیٹ کی دنیا میں شروع دن سے ہی میرا یہی موقف رہا ہے۔ بطور ثبوت چار سال پرانی ایک تحریر کا حوالہ پیش خدمت ہے (یہ مراسلہ ہمارے آپ کے واقفکار شاکر بھائی کے قلم سے تحریر کردہ ہے) :
میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ باذوق نے کون سا تھریڈ یا پوسٹ آج تک ایسی لکھی ہے جس میں مسلک اہلحدیث کی حمایت کی ہو۔ اللہ تعالٰی کو گواہ بنا کر اس کی ذات کی قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ باذوق سے میری اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی ہے۔ وہ نہ صرف فورم پر بلکہ ذاتی گفتگو میں بھی اپنے آپ کو اہلحدیث نہیں کہتے۔ مجھے ان سے اس بات پر اختلاف بھی ہے۔ کیونکہ میں خود اہلحدیث ہوں۔
بحوالہ : پوسٹ #24
میرے اس نظریے کی تشریح عمدہ الفاظ میں علوی بھائی نے (مراسلہ #9) جو کی ہے اس کی تحسین شاکر بھائی بھی اب کر چکے ہیں ، لہذا اب آپ ان سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس موضوع پر میرا ان سے جو اختلاف تھا ، وہ اب بھی ہے یا ختم ہو چکا ہے ؟ :)

آپ یا دوسرے بھائی شوق سے میرے نظریے کو ضد یا ہٹ دھرمی سے تعبیر کریں مگر ظاہر ہے کہ اتنے سالوں میں اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تو اب کون سا بھونچال آ جائے گا؟ :) اور الحمدللہ فورمز کی دنیا میں لکھتے وقت قرآن و حدیث سے ہٹ کر کبھی کسی مسلک، گروہ، ادارہ، فرقہ یا پیشوا کے "سرٹیفیکٹ" کی ضرورت مجھے نہ پڑی تھی اور نہ ان شاءاللہ کبھی پڑے گی۔
باقی جو لوگ جی جان سے یہاں بحث کر رہے ہیں ان کو میری طرف سے تمام تر نیک تمنائیں۔ ناچیز بچارا تو جمشید بھائی کی طرح ایسے مباحث کے مطالعے کیلیے وقت بھی بڑی مشکل سے صرف اسلیے نکال لیتا ہے کہ آدمی کو "عبرت" بھی ضرور حاصل کرنی چاہیے!! ;)
چلتے چلتے وہی پرانا سوال بطور یاددہانی آپ کی خدمت میں پیش کرتا جاؤں گا تاکہ خوش قسمتی سے امت مسلمہ کی بھلائی کا باریک سا بھی خیال اگر آ جائے تو اس لمحہ کشادہ دلی اور وسیع الذہنی سے اس سوال پر غور کرنے کی فرصت مل جائے ۔۔۔۔۔ :)
کیا یہ badge یا لیبل لگا کر ہی آدمی قرآن و سنت پر عمل کر سکتا ہے ، قرآن و سنت کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔۔۔ ورنہ نہیں ؟
P.S
کچھ الفاظ یا فقرے اگر ناگوار لگیں تو اس کیلیے تہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اس قسم کی بحثیں دیکھ کر بڑی عبرت حاصل ہوتی ہے !
میرے خیال میں تو اس میں کوئی عبرت والی بات نہیں ہے۔ معلوم نہیں آپ کس عبرت کی بات کر رہے ہیں ؟ اگر اصلاح احوال اور افہام و تفہیم اور اعتدلال کے حصول کے لیے کسی فکر و منہج کے قائلین کے مابین مکالمہ ہو تو وہ مفید بات ہے۔ یہاں ایک ہی فکر و منہج کے قائلین کی دو رائے ہیں اور ہر کوئی اپنے رائے پر عمل کر رہا ہے اور اس کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل کر رہا ہے۔

پس مکالمہ صرف اس بات پر ہے کہ اہل الحدیث میں ہر دو رائے رکھنے والوں کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اگرچہ اپنا موقف اور اس کے حق میں دلائل وہ بیان کرتا رہے اور باہمی اختلاف میں تشدد کی راہ پر نہ چلے جیسا کہ اہل تقلید نے باہمی اختلافات میں جب تقلیدی جمود کی بنیاد پر باہمی ادب و احترام کا لحاظ نہ رکھا اور اپنے ہی امام یا شیخ کی رائے کو حرف آخر سمجھا تو اس سے بدترین فرقہ واری، گروہی تعصب اور باہمی تکفیر و تضلیل کے فتووں نے جنم لیا مثلا 12 سو سالہ حنفی و شافعی طعن و تشنیع اور سب و شتم کی تاریخ پر نظر ڈالیں یا برصغیر میں حنفی بریلوی اور حنفی دیوبندی مکاتب فکر کی ایک دوسرے کے خلاف لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کریں یا دیوبندی حیاتی اور دیوبندی مماتی کے مابین مناظروں کی فہرست ملاحظہ کریں وغیرہ ذلک۔

مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے بقول تقلید نے عدم برداشت کے رویے کو جنم دیا جبکہ اہل الحدیث آزادی فکر کی تحریک تھی جس نے اختلافات کے برداشت کرنے کے رویوں کو پروان چڑھایا۔ حنفی تقلیدی جمود سے آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اہل الحدیث باہمی اختلافات میں اپنی رائے پر اس قدر اصرار کریں کہ ان کے رویوں سے محسوس ہونے لگے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنی تقلید پر مجبور کر رہے ہیں کہ ان کا مدمقابل کتاب وسنت کو اس طرح سمجھے جیسے انہیں سمجھ آتا ہے۔ پس اس مکالمہ کا مقصد تقلیدی جمود سے آزادی فکر کے اس مقصد کو پالینے کے بعد اسے برقرار رکھنا ہے بایں معنی ہے میں اپنے موقف اور اس کے دلائل کو واضح کروں اور اس پر اس قدر اصرار نہ کروں کہ دوسروں کو اپنا مقلد بنا کر ہی چھوڑوں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم
اہلحدیث مسلک کا سب سے بڑا منہج اور دعوت "عقیدہ توحید" ہے لہذا سبھی بھائیوں سے گزارش ہے کہ توحید کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ مواد شئیر کریں اور آپس کے اختلاف سے بچیں۔اس قسم کی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔باذوق بھائی کی یہ بات ٹھیک ہے کہ یوں بحث در بحث کا سلسلہ چلتا جائے گا۔دنیا میں کفر و شرک اتنا عام ہے کہ لوگوں کے عقیدے دیکھیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔بجائے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے اس قیمتی وقت کو قیمتی تحاریر لکھنے میں صرف کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
میری بات سے کسی بھائی کو تکلیف پہنچی ہو تو معذرت۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمین پر اکثریت ہمیشہ اہل باطل کی ہوتی ہے اور حق والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر وشرک بھی ہمیشہ زوروں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی علمائے سلف، محدیثین اور علمائے اہل حدیث وغیرہ آپس میں کئی مسائل پر اختلاف کی وجہ سے باہم بحث و مباحثہ کرتے رہے ہیں اس بات کا خیال کئے بغیر دنیا میں کفرو شرک عام ہے لہذا آپس کے اختلافات بھلا کر صرف کفر و شرک پر سارا زور دیں۔انہوں نے ان چیزوں کو ساتھ ساتھ چلایا ہے جس کی ماضی قریب میں مثال رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کے اختلاف کی ہے۔ جس پر علمائے اہل حدیث کی جانب سے بہت کچھ لکھا گیا۔ارسلان بھائی اس وضاحت سے آپ کو یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کسی مسئلے میں اختلاف کی صورت میں آپس ہی میں الجھ جانا اور بحث و مباحثہ کرنا (تاکہ فریقین میں سے ایک فریق کی کمزوری سامنے آجائے اور حق واضح ہوجائے) کوئی مذموم عمل نہیں بلکہ یہ عمل بہت پرانا بھی ہے اور قابل تحسین بھی کیونکہ ایک عام شخص کے لئے اس سے تحقیق میں آسانی ہوجاتی ہے اور وہ ایک موقف کو دلائل کی بنیاد پر رد کرتا ہے اور دلائل ہی کی بنیاد پر قبول کرتا ہے۔

اگر آپ اپنے اندرورنی مسائل کو صرف اسلئے نظر انداز کر دینگے کہ باہر شرک کی کثرت ہے تو آج ایک مسئلہ ہے کل کئی ایک مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے۔جس سے جماعت جب اندر سے کمزور ہوگی تو بیرونی محاز پر بھی کفرو شرک کی تردید اچھی طرح نہیں کر پائے گی۔مختصر یہ کہ آپ اسی وقت کفر،شرک و بدعت کے خلاف بہتر کام کر پائیں گے جب آپ کے اختلافات کم سے کم ہونگے یا اختلافات کو حل کرلینگے۔(اختلاف حل کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف کو زیر کر لیں اور وہ ضرور آپ کی بات مان لے بلکہ یہ ہے کہ اس کے موقف کی کمزوری کو سامنے لے آئیں پھر چاہے مخالف نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔) اگراپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان پر بات کرنے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے آپ اہل باطل کو دعوت دینگے تو ضرور وہ یہ کہینگے کہ پہلے اپنے گھر کے مسائل تو حل کرلو اس کے بعد ہمارے مسائل حل کرنا۔ اس اعتراض سے دعوت کی افادیت بھی کم ہوگی اور آپ کے پاس اس مضبوط اعتراض کا کوئی جواب بھی نہیں ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اگر آپ اپنے اندرورنی مسائل کو صرف اسلئے نظر انداز کر دینگے کہ باہر شرک کی کثرت ہے تو آج ایک مسئلہ ہے کل کئی ایک مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے۔جس سے جماعت جب اندر سے کمزور ہوگی تو بیرونی محاز پر بھی کفرو شرک کی تردید اچھی طرح نہیں کر پائے گی۔مختصر یہ کہ آپ اسی وقت کفر،شرک و بدعت کے خلاف بہتر کام کر پائیں گے جب آپ کے اختلافات کم سے کم ہونگے یا اختلافات کو حل کرلینگے۔(اختلاف حل کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف کو زیر کر لیں اور وہ ضرور آپ کی بات مان لے بلکہ یہ ہے کہ اس کے موقف کی کمزوری کو سامنے لے آئیں پھر چاہے مخالف نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔) اگراپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان پر بات کرنے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے آپ اہل باطل کو دعوت دینگے تو ضرور وہ یہ کہینگے کہ پہلے اپنے گھر کے مسائل تو حل کرلو اس کے بعد ہمارے مسائل حل کرنا۔ اس اعتراض سے دعوت کی افادیت بھی کم ہوگی اور آپ کے پاس اس مضبوط اعتراض کا کوئی جواب بھی نہیں ہوگا۔
جزاک الله خیر شاہد بھائی جان،
بہت اہم نقطہ پر روشنی ڈالی ہے آپ نے.
اصلاح تو حقیقت میں اندونی بھی ہونی چاہیے اور کفر و شرک کے خلاف بھی ہونی چاہیے.
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے اور ارسلان کے تاثرات اور ان پر دیئے لائیکس دیکھ یہ شعر ہی یاد آتا ہے ۔
محترم بشیر بھائی !آپ نے میرا نام یہاں کس وجہ سے لکھا ہے۔میری باتو ں سے کون سی ایسی بات پر آپ کو اعتراض ہے کہ آپ نے اس کو پڑھ کر مجھ پر تنقید کرنا شروع کر دی۔مجھے آپ کے اس عمل سے سخت دکھ پہنچا۔میں نے جو لکھا اس کو ایک مرتبہ بغور پڑھیئے۔میں تو اس بحث میں پڑا ہی نہیں میرا ایک بھی مراسلہ اہلحدیث نام کہلوانے یا نہ کہلوانے پر دکھا دیں۔میں نے تو ایک جنرل بات کی ہے کہ نام کے پیچھے مت پڑیں بلکہ اہلحدیث کا جو اصل منہج و فکر اور دعوت ہے یعنی "عقیدہ توحید" اس پر توجہ کریں۔اس میں تو ایسی کوئی بات قابل مذمت نہیں تھی پھر آپ نے کیوں اعتراض کیا ؟
کیا علماء کرام کو ایسی باتیں زیب دیتی ہیں اور پھر آپ کو چاہیے تھا کہ اگر میری کوئی بات آپ کو ناگوار گزرتی تو آپ اس کو دلائل سے غلط ثابت کرتے لیکن خوامخواہ آپ نے میری باتوں کی طرف اشارہ کر کے شاعری شروع کر دی اور پھر آپ نے لائکس کرنے والوں پر بھی تنقیدکی۔اب آپ خود بتائیے کہ یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا میں نے کبھی آپ کی پوسٹ پر لائکس دینے یا "جزاک اللہ خیرا" دعائیہ کلمات کا بٹن دبانے پر اعتراض کیا ہے۔بشیر بھائی آئندہ ایسے خوامخواہ تنقید مت کیجئے گا۔اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگے تو آپ مجھے سلجھے ہوئے طریقے کے ساتھ سمجھا دیں میں اپنی اصلاح کروں گا ۔ان شاءاللہ
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قرآن و حدیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمین پر اکثریت ہمیشہ اہل باطل کی ہوتی ہے اور حق والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر وشرک بھی ہمیشہ زوروں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی علمائے سلف، محدیثین اور علمائے اہل حدیث وغیرہ آپس میں کئی مسائل پر اختلاف کی وجہ سے باہم بحث و مباحثہ کرتے رہے ہیں اس بات کا خیال کئے بغیر دنیا میں کفرو شرک عام ہے لہذا آپس کے اختلافات بھلا کر صرف کفر و شرک پر سارا زور دیں۔انہوں نے ان چیزوں کو ساتھ ساتھ چلایا ہے جس کی ماضی قریب میں مثال رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کے اختلاف کی ہے۔ جس پر علمائے اہل حدیث کی جانب سے بہت کچھ لکھا گیا۔ارسلان بھائی اس وضاحت سے آپ کو یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ کسی مسئلے میں اختلاف کی صورت میں آپس ہی میں الجھ جانا اور بحث و مباحثہ کرنا (تاکہ فریقین میں سے ایک فریق کی کمزوری سامنے آجائے اور حق واضح ہوجائے) کوئی مذموم عمل نہیں بلکہ یہ عمل بہت پرانا بھی ہے اور قابل تحسین بھی کیونکہ ایک عام شخص کے لئے اس سے تحقیق میں آسانی ہوجاتی ہے اور وہ ایک موقف کو دلائل کی بنیاد پر رد کرتا ہے اور دلائل ہی کی بنیاد پر قبول کرتا ہے۔

اگر آپ اپنے اندرورنی مسائل کو صرف اسلئے نظر انداز کر دینگے کہ باہر شرک کی کثرت ہے تو آج ایک مسئلہ ہے کل کئی ایک مسائل سر اٹھائے کھڑے ہونگے۔جس سے جماعت جب اندر سے کمزور ہوگی تو بیرونی محاز پر بھی کفرو شرک کی تردید اچھی طرح نہیں کر پائے گی۔مختصر یہ کہ آپ اسی وقت کفر،شرک و بدعت کے خلاف بہتر کام کر پائیں گے جب آپ کے اختلافات کم سے کم ہونگے یا اختلافات کو حل کرلینگے۔(اختلاف حل کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف کو زیر کر لیں اور وہ ضرور آپ کی بات مان لے بلکہ یہ ہے کہ اس کے موقف کی کمزوری کو سامنے لے آئیں پھر چاہے مخالف نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔) اگراپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان پر بات کرنے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے آپ اہل باطل کو دعوت دینگے تو ضرور وہ یہ کہینگے کہ پہلے اپنے گھر کے مسائل تو حل کرلو اس کے بعد ہمارے مسائل حل کرنا۔ اس اعتراض سے دعوت کی افادیت بھی کم ہوگی اور آپ کے پاس اس مضبوط اعتراض کا کوئی جواب بھی نہیں ہوگا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پیارے بھائی !آپ نے اچھی باتیں کہی ہیں۔لیکن جو لوگ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اس لیے میں مشرک کے اور غلط کاموں کو زیادہ حیران کن نہیں سمجھتا۔مشرک تو اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور نجس و پلید ہے۔ہمارے سلف صالحین کی دعوت کا 70 فیصد حصہ "عقیدہ توحید "کی دعوت دینے پر مشتمل تھا۔سلف صالحین،آئمہ محدثین میں باوجود فروعی اختلاف کے محبت قائم تھی تو اس کی وجہ عقیدہ توحید تھی کیونکہ عقیدہ توحید ہی آپس میں باہمی محبت و اخوت کا ذریعہ ہے۔مجھے بتائیے آپ نے جو اتنی طویل بحث کی کیا اس کاکوئی فائدہ ہوا ؟الٹا لوگوں نے شاعری شروع کر دی اور آپ پر نقد شروع ہو گئی۔
نام کوئی اپنا ظاہر کرے یا نہ کرے کردار سے آدمی ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔سچا واقعہ سناتا ہوں ۔جب میں کالج میں زیر تعلیم تھا تو میری شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی۔اس سنت مبارکہ پر عمل دیکھ کر وہاں کھڑا ایک سٹوڈنٹ کہنے لگا بھائی شلوار کیوں اوپر کر رکھی کیا وہابی ہو؟
اب اندازہ لگائیے کہ سنت پر عمل کرتے دیکھ کر فورا ہی اس شخص کے زہن میں یہ خیال آیا کہ "اہلحدیث ہی سنت پر عمل کرنے والے ہیں"
دوسرا واقعہ بھی کچھ اس طرح مجھے ایک حنفی دوست نے بتایا کہ وہ کہیں شادی یا فوتگی پر گیا تو وہاں داڑھی دیکھ کراور اس کی باتین سن کر اس سے ایک آدمی نے پوچھا "کیا اہلحدیث ہو"
الحمدللہ،اب اس حنفی کو بھی پتہ لگ گیا کہ سنت مبارکہ پر عمل اہلحدیث ہی کرتے ہیں۔
کالج میں ایک حنفی ٹیچر نے اپنی زبان سے خود کہا کہ:
(شاگردوں کو تہجد کی نماز کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ) "یہ اہلحدیث اللہ کے نیک بندے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں"
اصل چیز انسان کا تقوی ہے ۔اب انسان پانچ وقت کی نماز پڑھے نا اور اس بات پر جھگڑا کرتا رہے کہ اہلحدیث نام ہو یا نہ ہو۔
اب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں:
تو میں نہ ہی اسی وقت یہ کہہ دیتا ہوں کہ میں اہلحدیث ہوں اور نہ ہی اس وقت میں اپنے اہلحدیث ہونے کا انکار کرتا ہوں۔میں فورا ہی کہہ دیتا ہوں کہ میں "مسلم" ہوں۔اب یہاں مجھ پر اعتراض کیا جا سکتا کہ آپ نے کس مفاہمت کی خاطر اپنا مسلک چھپایا ہے اور اسی وقت آپ نے اپنے اہلحدیث ہونے کا اظہار کیوں نہیں کیا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
میں نے اپنا تعارف اس نام سے کروایا جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والوں کا نام اللہ نے رکھا ہے۔یعنی میں نے اپنا تعارف اللہ کے رکھے ہوئے نام سے کروایا نہ کہ انسانوں کے رکھے ہوئے نام سے۔
پھر کوئی مجھے رفع الیدین کرتے ہوئے،آمین بالجھر کہتے ہوئے ،سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھ کر یہ کہے کہ "آپ تو اہلحدیث ہیں "تو میں کہوں گا کہ "قرآن و سنت پر عمل کرنے والوں کو اگر اہلحدیث کہا جاتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اہلحدیث ہوں"۔
جتنی بحث ہم لوگ اس تھریڈ میں کر رہیں ہیں اتنا ہم توحید و شرک کے موضوع پر تحاریر لکھ کر شئیر کریں تو کتنا فائدہ ہو گا۔کیونکہ جہاں تک محدث فورم کے مقاصد کو میں سمجھا ہوں تو وہ یہ ہیں کہ:
کافر تک ایمان و اسلام کی دعوت پہنچانا۔
مشرک تک توحید کی دعوت پہچانا۔
فاسق فاجر تک تقوی کی دعوت پہچانا۔
مقلد تک اتباع سنت رسول ﷺ کی دعوت پہچانا۔
قادیونیوں تک ختم نبوت کی دعوت پہچانا۔
کروڑوں خداؤں کا شرکیہ عقیدہ رکھنے والوں تک ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی دعوت عقیدہ توحید پہچانا۔
شاہد نزیر بھائی !توحید کا مسئلہ بنیادی مسئلہ ہے جبکہ اہلحدیث لقب کا مسئلہ فروعی مسئلہ ہے اور فروعی مسئلہ بھی ایسا کہ جس پر سلف صالحین ،آئمہ محدثین میں سے شاید کسی نے بحث نہ کی ہو۔لہذا اہلحدیث لقب کی بحث کسی طرح بھی توحید و شرک کے اہم مبحث کے برابر نہیں ہو سکتی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا اللہ رب العالمین۔
یہی آرزو ہے کہ تعلیم قرآن عام ہو جائے
ہر پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہو جائے​
کسی بھائی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
المختصر یہ کہ اگر کوئی شخص خود عقیدہ توحید رکھ کر دوسروں کو عقیدہ توحید کی دعوت دیتا ہے اور قرآن و سنت کی خالص دعوت دیتا ہے لیکن اپنے اہلحدیث ہونے کا اظہار نہیں کرتا تو کوئی مسئلہ نہیں۔اہم چیز اس کی دعوت دینا ہے کہ وہ کس چیز کے لیے دعوت دے رہا ہے۔یہی بات میں نے تبلیغی جماعت والوں کو کہی تھی کہ آپ لوگ جو اتنی محنت کرتے ہیں تو دعوت بھی توحید کی دیں۔آپ جو کہتے ہیں کہ ہم 90 فیصد لوگوں کو نمازی بنائیں گے تو بالفرض 90 فیصد لوگ نمازی بن جاتے ہیں بلکہ 100 فیصد لوگ نمازی بن جاتے ہیں لیکن نماز پڑھنے کے بعد قبروں پر رکوع و سجود اور غیراللہ سے مدد مانگنے لگ جائیں تو ایسی نماز کا کیا فائدہ؟؟؟؟
اللہ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ویسے مجھے تھریڈ کا نام دیکھ کر ہنسی آ گئی۔
کیا اہل حدیث نام اپنے آگے لگانا ضروری ہے؟
آگے نہیں تو کیا پیچھے لگائیں گے۔(ابتسامہ)
تھریڈ کا نام کوئی اور ہونا چاہیے۔
 
Top