کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 4,999
- ری ایکشن اسکور
- 9,800
- پوائنٹ
- 722
ماہ رمضان میں اکثر لوگ کہاکرتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایجاد کی ہے۔اوراسی پربس نہیں بلکہ بعض لوگ یہ بات کہہ کراس سے بدعت حسنہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط ہے کہ جماعت کے ساتھ تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے اور سچائی یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی ہوتی بلکہ ابوبکررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی جماعت کے ساتھ تراویح ہوتی تھی بلکہ اس سے بھی قبل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی باجماعت تراویح ہوتی تھی۔
اوراس بات کی دلیل کہیں اور نہیں بلکہ عین اسی حدیث میں موجود ہے جسے پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ باجماعت تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے ۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔
آئیے پوری حدیث دیکھتے ہیں:
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ» ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: «نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ» يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی اس طرح نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحیح البخاری(٣/٤٥):ـکتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان،رقم ٢٠١٠]
اس حدیث میں غور کیجئے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جب پہلی رات عبدالرحمن بن عبدالقاری کے ساتھ مسجد میں آئے تو مسجد میں یہ منظر دیکھا:
فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ،
لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی رات مسجد میں یہ منظر بھی دیکھا:
وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ،
اورکوئی اس طرح نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔
صحیح بخاری کی شرح کرنے والے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَحَاصِلُهُ أَنَّ بَعْضَهُمْ كَانَ يُصَلِّي مُنْفَرِدًا وَبَعْضَهُمْ يُصَلِّي جَمَاعَةً
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اکیلے نماز پڑھ رہے تھے اور بعض جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے[فتح الباري لابن حجر 4/ 252]
غورکریں بخاری کی اسی روایت میں صاف دلیل موجود ہے کہ لوگ شروع ہی سے جماعت کے ساتھ نماز تراویح پڑھ رہے تھے ۔ یعنی اس رات مسجد میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آمدسے قبل ہی لوگ جماعت سے نمازتراویح پڑھ رہے تھے اورلوگوں کا یہی عمل عہد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں بھی تھا بلکہ عہد رسالت سے ہی یہ عمل جاری تھا۔
ایسی صورت میں یہ کہنا قطعا درست نہیں کہ باجماعت نماز تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے؟
اوراس بات کی دلیل کہیں اور نہیں بلکہ عین اسی حدیث میں موجود ہے جسے پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ باجماعت تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے ۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔
آئیے پوری حدیث دیکھتے ہیں:
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ» ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: «نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ» يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی اس طرح نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحیح البخاری(٣/٤٥):ـکتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان،رقم ٢٠١٠]
اس حدیث میں غور کیجئے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جب پہلی رات عبدالرحمن بن عبدالقاری کے ساتھ مسجد میں آئے تو مسجد میں یہ منظر دیکھا:
فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ،
لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسی رات مسجد میں یہ منظر بھی دیکھا:
وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ،
اورکوئی اس طرح نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک جماعت نماز پڑھ رہی تھی۔
صحیح بخاری کی شرح کرنے والے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَحَاصِلُهُ أَنَّ بَعْضَهُمْ كَانَ يُصَلِّي مُنْفَرِدًا وَبَعْضَهُمْ يُصَلِّي جَمَاعَةً
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اکیلے نماز پڑھ رہے تھے اور بعض جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے[فتح الباري لابن حجر 4/ 252]
غورکریں بخاری کی اسی روایت میں صاف دلیل موجود ہے کہ لوگ شروع ہی سے جماعت کے ساتھ نماز تراویح پڑھ رہے تھے ۔ یعنی اس رات مسجد میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آمدسے قبل ہی لوگ جماعت سے نمازتراویح پڑھ رہے تھے اورلوگوں کا یہی عمل عہد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں بھی تھا بلکہ عہد رسالت سے ہی یہ عمل جاری تھا۔
ایسی صورت میں یہ کہنا قطعا درست نہیں کہ باجماعت نماز تراویح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے؟