• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بد فعلی کرنے والے کی بخشش ہوسکتی ہے اورکیا وہ شادی کرسکتا ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا لواطت کرنے والوں کی بخشش ہوسکتی ہے اورکیا وہ شادی کرسکتا ہے ؟

لواطت وغیرہ کرنے کے بعد اس سےتوبہ کرنے اوراس گناہ کوترک کرنے والوں کے بارہ میں اسلام کی راۓ کیا ہے ؟

کیا انہیں رجم کرنا واجب ہے ، کیا ان کی بخشش ممکن ہے ، اورکیا وہ دوسری جنس سے شادی کرسکتے ہیں ؟


الحمد للہ :

بلاشبہ لواطت ایک بہت بڑی معصیت بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اورلوط علیہ السلام کی قوم نے بھی جب یہ شنیع اورقبیح جرم کرنا نہ چھوڑا اوراپنی سرکشی میں حد سے گزر گۓ تواللہ تعالی نے انہیں کئي قسم کی عبرتناک سزائيں دے کر ھلاک کردیا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورجب ہمارا حکم آپہنچا توہم نے اس بستی کوزیروزبر کردیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا ، اور ان پر تہ بہ تہ کنکریلے پتھر برساۓ جوتیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے } ھود ( 81 - 83 ) ۔

پھر اللہ تعالی نے دھمکاتے ہوۓ یہ بات فرمائي کہ ان کے بعد جوبھی ان جیسا کام کرے گا :

{ اورظالموں سے وہ کوئي دور بھی نہ تھے } ھود ( 83 ) ۔

اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اوران ( لوط علیہ السلام ) کوان کے مہمانوں کے بارہ میں پھسلایا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں ( اورکہا ) میرا عذاب چکھو ، اوریقینی بات ہے کہ انہیں صبح سویرے ہی ایک جگہ پکڑنے والے مقرر ہ عذاب نے غارت کردیا } القمر ( 37 - 38) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

( جسے بھی تم قوم لوط والا فعل کرتےہوۓ پاؤ توفاعل ( کرنے والے ) اورمفعول ( جس کے ساتھ کیا جاۓ ) دونوں کوقتل کردو )

مسند احمد حدیث نمبر ( 2727 ) ، اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ حدیث نمبر ( 6589 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔


امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :

( فاعل اورمفعول کوقتل کردو )

اسے سنن اربعہ نے روایت کیا اوراس کی سند صحیح ہے امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔

ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اسی حکم کوجاری کرتےہوۓ صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد خالد رضی اللہ تعالی عنہ کوطرف یہی حکم لکھا تھا اوراس مسئلہ میں سب سے سخت تھے ۔

ابن قصار اورہمارے شيخ کا کہنا ہے کہ :

صحابہ کرام کا ایسے شخص کے قتل پر اجماع ہے ، لیکن صرف اسے قتل کرنے کی کیفیت میں ان کا اختلاف ہے :

ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اسے بلندی سے گرا دیا جاۓ ۔

اورعلی رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے : اس پر دیوار گرا دی جاۓ ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں : ان دونوں کوپتھروں سے ہلاک کیا جاۓ ۔

تواس طرح صحابہ کرام اس کے قتل کرنےمیں تو متفق ہیں لیکن صرف قتل کی کیفیت میں اختلاف را ۓپایا جاتا ہے ، جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم کے ساتھ زنا کرنے والے کے حکم کے بھی موافق ہے ، اس لیے کہ دوجگہوں پر وطی کسی بھی حال میں جائز نہیں ۔

اوراسی لیے اسے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں جمع کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(
تم جسے بھی قوم لوط والا عمل کرتے ہوۓ پاؤ اسے قتل کردو ) ۔[

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کی ہے کہ :

( جوبھی محرم کے ساتھ وطی کرے اسےقتل کردو ) ۔

اورایک حدیث میں اس طرح کے الفاظ ہیں :

( جوبھی کسی چوپاۓ کےساتھ وطی کرے اسے قتل کردو اوراس چوپاۓ کوبھی اس کے ساتھ قتل کرو )

مسنداحمد حدیث نمبر ( 2420 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 4464 ) سنن ترمذی حدیث نمبر( 1454 ) مستدرک حاکم ( 4 / 355 ) ۔

اورپھر یہ ( قتل کا ) حکم شارع کے بھی موافق ہے اس لیے کہ محرمات جتنی بھی سخت اوربڑھی ہوں گی اس کے اعتبارسے سزا بھی بڑھ جاۓ گی اورسخت ہوگی ، توجس کے ساتھ کسی بھی حال میں وطی حلال نہیں اس کے ساتھ وطی کرنا بہت زیادہ شنیع اورسخت جرم ہوگا بالمقابل اس کے جس کے ساتھ بعض اوقات وطی کرنا حلال بھی ہوجاتا ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک روایت میں اس پر نص بھی بیان کی ہے ۔
دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 40 - 41 ) ۔

اوراسی طرح ۔۔۔۔۔ جیسے فحش کام کا بھی معاملہ ایسا ہی ہے ، اس میں کوئي شک نہیں کہ یہ کام حرام اورکبیرہ گناہ ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے اس پر نص بھی بیان کی ہے ۔

دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 24 /251 )

اوررہا مسئلہ سوال میں مذکور حد ( یعنی موت تک اسے رجم کرنا ) کا تو اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ اس طرح کی حد توشادی شدہ زانی کے متعلق ہے ، لیکن لواطت کے جرم کی شرعی حد توقتل ہے ( اورراجح یہ ہے کہ اسے تلوار کےساتھ قتل کیا جاۓ ) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ۔

لیکن اس قتل کی کیفیت میں اختلاف بھی اوپر بیان ہوا اب رہا مسئلہ ۔۔۔۔ کا تواس میں حد نہیں بلکہ تعزیر ہے ۔

دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 24 / 253 ) ۔

لیکن اگر اس جرم کا مرتکب یا پھر جوجرم بھی حد واجب کرنے والا ہے اس سے توبہ کرلے اوراس گناہ کوچھوڑ کراستغفار کرتا ہوا اپنے کیے پر نادم بھی ہو اوریہ عھد کرے کہ وہ اس کام کودوبارہ نہیں کرے گا تواس کے بارہ میں شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گیاتو ان کا جواب تھا :

( اگروہ اللہ تعالی کی جانب صحیح طور پر رجوع کرتا اورسچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا اعترا ف کرلے اور اس پر حد قائم کردی جاۓ )

مجموع الفتاوی ( 34 / 180 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئ یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے }
الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

اگر وہ اللہ تعالی کی طرف صحیح اورسچی توبہ کرے تو اس میں کوئي مانع نہیں کہ وہ شادی کرے جو کہ اس پر اپنے آپ کوعفت وعصمت میں رکھنے پر ممد ومعاون ثابت ہوگي ، اوراس میں اللہ تعالی کے حلال کردہ کی اتباع بھی ہے ۔

اورسب سے زيادہ علم تو اللہ تعالی کے پاس ہی ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرماۓ ،آمین یارب العالمین ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد


http://islamqa.info/ur/5177
 

BlueJayWay

مبتدی
شمولیت
ستمبر 08، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
13
ہم جنس پرستی کا فعل خدائے بزرگ و برتر کے ایک برگزیدہ نبی (ان پر ان گنت درود و سلام ہو) کے نام سے منسوب کرنا تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے۔
کیا کسی نے کبھی نوحیت، ہودیت وغیرہ کا بھی سنا؟
بیمار ذہنیت۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہم جنس پرستی کا فعل خدائے بزرگ و برتر کے ایک برگزیدہ نبی (ان پر ان گنت درود و سلام ہو) کے نام سے منسوب کرنا تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے۔
کیا کسی نے کبھی نوحیت، ہودیت وغیرہ کا بھی سنا؟
بیمار ذہنیت۔
جزاک الله -

بلکل متفق - اس ہم جنس پرستی کے بدفعل کو ایک جلیل القدر نبی حضرت لوط علیہ سلام سے منسوب کرنا بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے- یہ ایسے ہی ہے جیسے امّت محمدیہ کے کسی بد فعل کو محمّد صل الله علیہ و آ له وسلم کے نام سے منسوب کردیا جائے (نعوز باللہ میں ذالک)-

الله ہمارے علماء کو ہدایت دے اور اس قبیح حرکت پر توبہ کرنے کی توفیق دے (آمین)-
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کام کو ’قوم لوط کا عمل‘ یا اغلام بازی وغیرہ کہنا چاہیے ناکہ لواطت وغیرہ۔

12- بَاب مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ
۱۲- باب: قوم لوط کے عمل (اغلام بازی) کی سزا کا بیان​

2561- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ >۔
* تخريج: د/الحدود ۲۹ (۴۴۶۲)، ت/الحدود ۲۴ (۱۴۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۹، ۳۰۰) (صحیح)

۲۵۶۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کو تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل(اغلام بازی) کر رہا ہے ،تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو ''۔
 

BlueJayWay

مبتدی
شمولیت
ستمبر 08، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
13
جو بھی ہو اللہ کے اس عظیم نبی علیہ السلام کا اس نام سے کوئی لنک نہیں ہونا چاہئے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کام کو ’قوم لوط کا عمل‘ یا اغلام بازی وغیرہ کہنا چاہیے ناکہ لواطت وغیرہ۔
جو بھی ہو اللہ کے اس عظیم نبی علیہ السلام کا اس نام سے کوئی لنک نہیں ہونا چاہئے۔
@اسحاق سلفی بھائی اوپر جو میں نے پوسٹ شیئر کی ہے اور ان دونوں پوسٹوں پر آپ کی توجہ مذکور ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ہم جنس پرستی کا فعل خدائے بزرگ و برتر کے ایک برگزیدہ نبی (ان پر ان گنت درود و سلام ہو) کے نام سے منسوب کرنا تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے۔
کیا کسی نے کبھی نوحیت، ہودیت وغیرہ کا بھی سنا؟
بیمار ذہنیت۔
جو بھی ہو اللہ کے اس عظیم نبی علیہ السلام کا اس نام سے کوئی لنک نہیں ہونا چاہئے۔

اس کا جواب برادر گرامی قدر محمد نعیم یونس نے اختصار سے بہت اچھادیا ہے ۔جزاہ اللہ احسن الجزاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کام کو ’قوم لوط کا عمل‘ یا اغلام بازی وغیرہ کہنا چاہیے ناکہ لواطت وغیرہ۔
اس کام کو ’قوم لوط کا عمل’‘ حدیث میں کہا گیا ہے :
مسند احمد حدیث نمبر ( 6707) میں وارد ہے :
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " هِيَ اللُّوطِيَّةُ الصُّغْرَى "، يَعْنِي الرَّجُلَ يَأْتِي امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا ))
( إسناده حسن، وقد اختلف في رفعه ووقفه، والموقوف أصح.)
یعنی ۔لوطیت صغری ۔یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے دبر میں جماع کرے‘‘
یہ ایسے ہی ہے ،جیسے ایک مذہب کو۔مسیحیہ ۔کہا جاتا ہے۔۔حالانکہ جناب مسیح عیسی اس مذہب سے بری ہیں ،تاہم وہ لوگ مسیح کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں؛
ایسے یہاں یہ مراد وہ لوگ ہیں جو جناب لوط کے مخاطب تھے ،،اس لیئے ۔۔قوم لوط کا عمل ۔۔کہنا غلط نہیں ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مستند و مشہور محدث علامہ ابوبکر الآجری نے اس ۔۔عمل بد ۔۔کی مذمت میں ایک کتاب مرتب فرمائی ہے ،اس کا نام ہے :
’‘ ذم اللواط ’‘
اللواط2.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عقوبة اللواط ۔قوم لوط کے عمل کے مرتکب کی سزا

--------------------------
ما هي عقوبة اللواط ، وهل هناك فرق بين الفاعل والمفعول به ؟.
قوم لوط کے عمل كى سزا كيا ہے، اور كيا فاعل اور مفعول كے مابين كوئى فرق پايا جاتا ہے ؟​

أولا :
جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال وقد عاقب الله فاعليها بما لم يعاقب به أمة من الأمم ، وهي تدل على انتكاس الفطرة ، وطمْس البصيرة ، وضعف العقل ، وقلة الديانة ، وهي علامة الخذلان ، وسلم الحرمان ،
نسأل الله العفو والعافية .
ترجمہ :
اول:
لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے،
اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالى نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، اللہ تعالى سے ہم عافيت و معافى طلب كرتے ہيں.


قال تعالى : ( وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ . إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ . فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ . وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ ) الأعراف/80- 84 .
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب لوط ( عليہ السلام ) نے اپنى قوم كو كہا كيا تم ايسى فحاشى كرتے ہو جو تم سے قبل كسى نے بھى نہي كى، يقينا تم عورتوں كى بجائے مردوں سے شہوت والے كام كرتے ہو، بلكہ تم تو حد سے بڑھى ہوئى قوم ہو، اس كى قوم كا جواب تھا كہ اسے تم اپنى بستى سے نكال باہر كرو يہ پاكباز لوگ بنے پھرتے ہيں، تو ہم نے اسے اور اس كے گھر والوں كو نجات دى، مگر اس كى بيوى پيچھے رہ جانے والوں ميں سے تھى، اور ہم نے ان پر آسمان سے پتھروں كى بارس برسائى، تو آپ ديكھيں كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا ﴾الاعراف ( 80 - 84 ).
دوسرے مقام پر قرآن کابیان ہے :
وقال سبحانه : ( لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ . فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ . فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ .
إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُقِيمٍ ) الحجر/72- 76 إلى غير ذلك من الآيات .
ترجمہ :
﴿ تيرى عمر كى قسم يقينا يہ تو اپنى مدہوشى ميں حيران پھرتے ہيں تو انہيں صبح كے وقت ايك چنگاڑ نے پكڑ ليا، اور ہم نے ان كى بستى كا اوپر والا حصہ نيچے كر ديا، اور ہم نے ان پر آسمان سے كنكروں كى بارش برسائى، يقينا اس ميں عقلمندوں كے ليے نشانياں ہيں، اور يہ باقى رہنے والى راہ ہے ﴾الحجر ( 72 - 76 ).
اس كے علاوہ كئى ايك آيات اور بھى ہيں.
وروى الترمذي (1456) وأبو داود (4462) وابن ماجه (2561) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ ) وصححه الألباني في صحيح الترمذي .
ترجمہ :
ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
وروى أحمد (2915) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( لَعَنَ اللَّهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ، ثَلاثًا ) وحسنه شعيب الأرنؤوط في تحقيق المسند .
اور مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سےمروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قوم لوط جيسا عمل كرنے والے پر اللہ تعالى لعنت فرمائے، اللہ تعالى اس شخص پر لعنت فرمائے جو قوم لوط والا عمل كرتا ہے، يہ تين بار فرمايا"
مسند احمد حديث نمبر ( 2915 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شيخ شعيب الارناؤط نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اجماع صحابہ کرام
وقد أجمع الصحابة على قتل اللوطي ، لكن اختلفوا في طريقة قتله ، فمنهم من ذهب إلى أن يحرق بالنار ، وهذا قول علي رضي الله عنه ، وبه أخذ أبو بكر رضي الله عنه ، كما سيأتي . ومنهم قال : يرمى به من أعلى شاهق ، ويتبع بالحجارة ، وهذا قول ابن عباس رضي الله عنه .
ومنهم من قال : يرجم بالحجارة حتى يموت ، وهذا مروي عن علي وابن عباس أيضاً .
ومنهم من قال : يعزر التعزير البليغ الذي يراه الحاكم .
اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.
ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.
اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
فقہاء کرام ؒ
ثم اختلف الفقهاء بعد الصحابة ، فمنهم من قال يقتل على أي حال كان ، محصنا أو غير محصن .
ومنهم من قال : بل يعاقب عقوبة الزاني ، فيرجم إن كان محصنا ، ويجلد إن كان غير محصن .
اور صحابہ کرام کے بعد کے فقہاء کرام ؒ ۔ ميں سے بعض كا قول ہے كہ اسے قتل كيا جائيگا ،،چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہو، شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور كچھ كا قول ہے كہ: بلكہ زانى جيسى سزا دى جائيگى، اگر تو شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا،
اور اگر غير شادى شدہ ہے تو اسے كوڑے مارے جائينگے.
http://islamqa.info/ur/38622
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاک الله -

بلکل متفق - اس ہم جنس پرستی کے بدفعل کو ایک جلیل القدر نبی حضرت لوط علیہ سلام سے منسوب کرنا بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے- یہ ایسے ہی ہے جیسے امّت محمدیہ کے کسی بد فعل کو محمّد صل الله علیہ و آ له وسلم کے نام سے منسوب کردیا جائے (نعوز باللہ میں ذالک)-

الله ہمارے علماء کو ہدایت دے اور اس قبیح حرکت پر توبہ کرنے کی توفیق دے (آمین)-
میرے بھائی یہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے - اور حدیث میں قوم لوط کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نہ کی نبی علیہ السلام کی طرف

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

( جسے بھی تم قوم لوط والا فعل کرتےہوۓ پاؤ توفاعل ( کرنے والے ) اورمفعول ( جس کے ساتھ کیا جاۓ ) دونوں کوقتل کردو )

مسند احمد حدیث نمبر ( 2727 ) ، اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ حدیث نمبر ( 6589 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
 
Top