• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بینک میں نوکری کرنا صحیح ہے ؟؟؟

شمولیت
اگست 10، 2013
پیغامات
365
ری ایکشن اسکور
316
پوائنٹ
90
اسلام علیکم ۔۔

اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت جگہ پر سود لینے سے منع فرمایا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے ۔۔

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥) سورہ بقرہ
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا۔ اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ سورہ بقرہ
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمہارا نقصان۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّ‌بَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٣٠﴾
سورہ آلِ عمران ۔
اےایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو۔

تو ہمارے ملک میں جو بینک کا نظام ہے وہ بھی تو سود کے زمرے میں آتا ہے تو انسان سود سے کیسے بچے کیونکہ آج کل تو تنخوائیں ئی بینک میں آتی ہیں تو وہ بھی تو ایک طرح سے سود ہی ہوا نا؟؟؟ کیا اسی طرح کسی بینک میں نوکری کرنا بھی غلط ہی ہوا ؟؟؟ کیونکہ جو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی تو رِبا سے ہی آتی ہے ۔۔
آپ سب سے گذارش ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔۔۔
جزاک اللہ ۔۔۔
کلیم حیدر
محمد ارسلان
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بینک کی ملازمت کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بینک کی ملازمت کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ کیا الیکٹریشن اور چوکیدار ان لوگوں سے مستثنیٰ ہیں جو سودی کام کرتے ہیں؟
(۲)بعض بینک ملازمین یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ مجبوراً یہ نوکری کر رہے ہیں اور کوئی وسائل نہیں کہ یہ نوکری چھوڑ دی جائے نیز ایسے لوگوں کے گھروں سے کھانا اور ان سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟ (عبداللطیف تبسم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


رائج الوقت بینک سودی ہیں اس لیے ان میں ملازمت ناجائز اور حرام ہے ۔ بینک میں الیکٹریشن اور چوکیدار سود لینے دینے والوں میں تو شامل نہیں البتہ سودی لین دین والے کاروبار میں معاون ضرور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [''گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کیا کرو۔'']
(۲) اس عذر کی کوئی وجہ جواز نہیں ایسے لوگوں کا کھانا کھانا پانی پینا درست نہیں۔ خود انہیں کھلا پلا لے اور انہیں وعظ و نصیحت کرتا رہے۔ ۳/۹/۱۴۲۱ھ
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل​
جلد 02 ص 497​
محدث فتویٰ​
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت جگہ پر سود لینے سے منع فرمایا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے ۔۔
آپ سب سے گذارش ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔۔۔
[/mention]
آپ نے اوپر کی پوسٹ مجھے ٹیگ کی ہےتو بہن کہنا یہ ہے کہ میرا اصل فیلڈ تو یہی ہیں اور اس پر معلومات بھی ہیں مگر لوگوں کے تیروں کا رخ باہر کی طرف کرنے کے لئے کہیں اور پھنس گیا ہوں-
اوپر پوسٹ میں آپنے کچھ سوال کیے ہیں جن پر فردا فردا میں اپنی معلومات دوں گا مگر چونکہ میں مستند عالم نہیں ہوں اسلیئے ان معلومات کو مسئلہ کو بہتر سمجھنے کے لئے بنیاد تو بنایا جا سکتا ہے مگر حتمی رائے کسی مستند عالم سے لازمی لے لیں

تو ہمارے ملک میں جو بینک کا نظام ہے وہ بھی تو سود کے زمرے میں آتا ہے
[/mention]
میری بہن واقعی صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ ہر ملک میں بلکہ شریعت والے ملک سعودی عرب تک میں بنک کا نظام سودی ہی ہے اس پر میرے خیال میں علماء میں اختلاف نہیں البتہ ایک نئی بینکاری شروع کی گئی ہے جسکو اسلامی بینکاری کا نام دیا گیا ہے اس کے ناجائز ہونے پر کچھ علماء اختلاف کرتے ہیں مگر وہ ایسے ہی ہے جیسے رفع یدین نہ کرنے والے تاویلیں کرتے ہیں اس پر بحث کے لئے شاہد علیحدہ سیکشن ہے

تو انسان سود سے کیسے بچے کیونکہ آج کل تو تنخوائیں ئی بینک میں آتی ہیں تو وہ بھی تو ایک طرح سے سود ہی ہوا نا؟؟؟
[/mention]
یہاں میری بہن شیطان دو چیزوں کو گڈ مڈ کر دیتا ہے جیسا کہ قرآن سود والوں کا قول بتاتا ہے کہ انما البیع مثل الربو (تجارت بھی تو سود کی طرح ہے) یہاں بھی اسی طرح لا شعوری طور پر حق کو باطل کے ساتھ مختلف طرح گڈ مڈ کرتا ہے مثلا وسوسہ ڈالتا ہے کہ سود سے بچا بھی نہیں جا سکتا سرکاری ملازم کی تنخواہ بھی تو حکومت سود کی کمائی سے دیتی ہے وغیرہ
اس کے لئے میں بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہوں گا تاکہ شیطان کو گڈ مڈ کرنے کا موقع نہ ملے اور اسکی تلبیس واضح ہو سکے
1۔کسی فی نفسہ حرام چیز کے لئے کسی خاص صورت میں شارع کی طرف سے رخصت دینے سے اسکی فی نفسہ حرمت ختم نہیں ہو گی مثلا خنزیر فی نفسہ حرام ہے لیکن فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ (جو مجبور ہو باغی اور عادی نہ ہو اس پر گناہ نہیں) کے تحت رخصت ہونے سے اس کو مطلقا جائز نہیں کہ دیں گے بلکہ سب کو اسکی فی نفسہ حرمت لازمی بتانی ہو گی
2۔فی نفسہ حرمت کو مانتے ہوئے مجبوری کی تشریح یا وضاحت یا تعین کون کرے گا تو اسکے لئے اتنے زیادہ علم کی ضرورت نہیں بلکہ اخلاص نیت کی ضرورت ہے مثلا کوئی کہے کہ میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے کتے کا گوشت کھان چاہتا ہوں تو یہ غیر باغ کے خلاف ہو گا جس سے مراد ہے کہ شریعت کے باغی ہونے کہ نیت نہ ہو اور اسکا پتا اس سے چلتا ہے کہ آیا کوئی اور راستہ زندگی بچانے کا ہے کہ نہیں- یہ شرط پوری ہونے کے بعد بھی ولا عاد کی شرط ہے کہ جتنی ضرورت ہے اتنا کھانا ہے تکے بنابنا کے کھانا شروع نہیں کر دے- اب اگر کوئی سرکاری ملازمت میں سود سمجھتا ہے مگر مجبوری ظاہر کر کے کھانا چاہتا ہے تو میرے خیال میں اسکے لئے سود جائز نہیں ہو گا کیونکہ دوسری نوکریاں حتی کہ ریڑھی لگانا، مزدوری، وغیرہ کا متبادل موجود ہے ہاں جو سرکارہ ملازمت میں سود نہیں سمجھتا تو اسکے لئے جائز ہے
اب میں بہن کے اعتراض کی طرف آتا ہوں کہ اسمیں بھی مختلف صورتوں کے لئے مختلف بات ہو سکتے ہے مثلا
1۔تنخواہوں کا بینکوں کے ذریعےسے حاصل کرنا- اسمیں ایک تو یہ بات ہے کہ اسمیں سود کے گناہ کی بجائے ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (برے کاوں میں تعاون نہ کرو) کا حکم لگتا ہے ہاں اگر کوئی سیکورٹی وغیرہ کی مجبوری ہو تو وہ اعتراض بھی ختم ہو سکتا ہے اسکی مماثلت پاکستان میں شناختی کارڈ یا حج کے لئے عورت تک کا شناختی کارڈ بنوانے سے دی جا سکتی ہے جہاں گورنمنٹ کی اپنی مجبوری ہے اور ہمیں اسنے مجبور کیا ہوا ہے

کیا اسی طرح کسی بینک میں نوکری کرنا بھی غلط ہی ہوا ؟؟؟ کیونکہ جو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی تو رِبا سے ہی آتی ہے
[/mention]
جی میری بہن بینک میں نوکری کرنا حرام ہے اسکی تھوڑی وضاحت کروں گا کہ میرے علم کے مطابق اس حرمت کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں
1۔سود کا ہونا- اسمیں اس حدیث کو بھی دیکھا جائے گا کہ سود لینے والا، دینے والا، لکھنے والا اور گواہ برابر ہوتے ہیں پس جو بنک کے ملازم ان کے تحت آتے ہیں ان کے لئے وجہ سود بھی ہو گی اور برے کام پر تعاون کی وجہ تو ہو گی ہی-
2۔برے کام میں تعاون کرنا-جیسے میں نے اوپر ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان والی آیت لکھی ہے- اس میں باقی ملازمیں آئیں گے
یوسف ثانی
خضر حیات
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سودى بنكوں ميں ملازمت كرنا !!!

مجھے بنك ميں ملازمت كرنے كى پيشكش ہوئى ہے، بنك ميں ملازمت كے متعلق حكم كے بارہ ميں مجھے مكمل يقينى علم نہيں ہے، كيونكہ بنك سودى منافع كا كاروبار كرتے ہيں، ميرى گزارش ہے كہ يہ بتايا جائے كہ آيا بنك ميں ملازمت كرنى جائز ہے يا ناجائز ؟

الحمد للہ :

آپ اس كا جواب مندرجہ ذيل حديث ميں ديكھ سكتے ہيں:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے والے، اور سود لكھنے والے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور كہا: يہ سب برابر ہيں"
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالىنے اپنى صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ) ميں روايت كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس كى شرح ميں كہتے ہيں:

اس ميں سودى معاملات كرنے والوں كى بيع لكھنے اور اس پر گواہى دينے كى صراحتا تحريم ہے، اور اس ميں باطل پر معاونت كرنے كى بھى صراحت پائى جاتى ہے. واللہ اعلم.

لہذا سودى بنك ميں ملازمت كرنے والا شخص كسى بھى طريقہ سے يا پھر عملى طور پر سودى لين دين ميں معاونت ضرور كرتا ہے، اگرچہ وہ بنك كا چوكيدار ہى كيوں نہ ہو.

ميرے مسلمان بھائى ہو سكتا ہے - جب آپ صبر كريں تو - اللہ تعالى آپ كو كوئى حلال كام مہيا كر دے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا}.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 10، 2013
پیغامات
365
ری ایکشن اسکور
316
پوائنٹ
90
ہماری حکومت ایسا نظام کیوں نہیں نافذ کرتی جس میں سود کا لینا دینا نہ ہو ۔۔ کم از کم ایسی بینک تو بنائی جا سکتی ہیں جن میں سود کا نظام نہ ہو اور انسان اپنا اکاؤنٹ بنا لے وہاں سود سے بچنے ک لئے ۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ہماری حکومت ایسا نظام کیوں نہیں نافذ کرتی جس میں سود کا لینا دینا نہ ہو
میری بہن اس بارے قرآن کہتا ہے انما علیک الابلاغ و علینا الحساب (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر پیغام پہنچانا ہے اور اور محاسبہ کرنا ہمارا کام ہے) اگرچہ فلعلک باخع نفسک علی اٰثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا کے تحت جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غم ہوتا تھا تو آپکا غم انتہائی قابل تحسین ہے اللہ آپکو اسپر اجر دے امین

کم از کم ایسی بینک تو بنائی جا سکتی ہیں جن میں سود کا نظام نہ ہو اور انسان اپنا اکاؤنٹ بنا لے وہاں سود سے بچنے ک لئے ۔۔۔
جہاں تک اکاؤنٹ بنانے کی بات ہے تو میرے خیال میں کسی بھی بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں سود نہیں ہوتا البتہ گناہ پر تعاون والی بات ہوتی ہے لیکن آپ کی جائز مجبوری کی صورت وہ بھی ختم ہو جاتی ہے جیسا کہ میں نے اوپر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی مثال دی تھی
البتہ اگر آپکی خواہش ہے بینک والے باقی کاموں کے لئے کوئی متبادل نظام دیا جائے تو اس پر ابھی مصروفیت کی وجہ سے کچھ نہیں لکھ سکتا بعد میں ان شاء اللہ کافی تفصیل سے بشرط فرصت تھریڈ شروع کروں گا جزا کِ اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سودى بنكوں سے لين دين كرنا


سودى بنكوں كے ساتھ لين دين كرنے كا حكم.

الحمد للہ :

سوال:

مندرجہ ذيل اشخاص كا حكم كيا ہے:

- وہ شخص جو بنك ميں رقم ركھے اور سال گزرنے پر فائدہ حاصل كرے؟
- كچھ مدت كے ليے بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنے والا شخص؟
- وہ شخص جو ان بنكوں ميں رقم ركھے ليكن اس پر فائدہ حاصل نہ كرے؟
- ان بنكوں ميں ملازمت كرنے والا شخص چاہے وہ مينجر ہو يا كوئى اور؟
بنك كو اپنى جگہ اور مكان كرايہ پر دينے والے كا حكم كيا ہے؟

جواب:

الحمد للہ:

بنكوں ميں نہ تو فائدہ كے ساتھ رقم ركھى جاسكتى ہے اور نہ ہى بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ يہ سب كچھ صريحا سود ہے، اور بنكوں كے علاوہ كہيں اور بھى فائدہ پر رقم ركھنى جائز نہيں، اور اسى طرح كسى شخص سے بھى فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں ہے، بلكہ سب اہل علم كے ہاں يہ حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور اللہ تعالى نے بيع حلال كى اور سود حرام كيا ہے}

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقے كو بڑھاتا ہے}

اور ايك جگہ پر فرمايا:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اخيتار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائےگا}

پھر اللہ تعالى نے اس سب كچھ كے بعد فرمايا:
{اور اگر وہ تنگ دست ہو تو اسے اس كى آسانى تك كےليے مہلت دے دو} الآيۃ ...

اللہ تعالى اس سے اپنے بندوں كو يہ تنبيہ كرنا چاہتا ہے كہ تنگ دست سے قرض كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا جائز نہيں اور نہ ہى اسے مہلت دينے كے عوض ميں زيادہ رقم عائد كرنى جائز ہے، بلكہ اس كى خوشحالى تك بغير رقم زيادہ كيے انتظار كرنا واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ وہ ادائيگى سے عاجز ہے، يہ سب كچھ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس كا فضل و كرم اور مہربانى ہے، اور انہيں ظلم اور بد ترين قسم كے لالچ سے بچانا ہے جوان كے ليے نقصان دہ ہے نہ كہ نفع مند.
اور مجبورى كے وقت بنك ميں بغير كسى فائدہ كے رقم ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اور سودى بنك ميں ملازمت كرنا جائز نہيں چاہے مينجر ہو يا منشى اور اكاؤنٹنٹ يا كوئى اور كام، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون مت كرو اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو بلا شبہ اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے}

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں.

يہ حديث امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كى ہے.

معاصى و گناہ اور برائى ميں تعاون كرنے كى حرمت پر بہت سى آيات و احاديث دلالت كرتى ہيں، اور اسى طرح مذكورہ دلائل كى روشنى ميں سودى بنكوں كو عمارتيں كرايہ پر دينا جائز نہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں سودى كاموں ميں ان كى معاونت ہوتى ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت كى نعمت سے نوازے اور سب مسلمانوں كو چاہے وہ حكمران ہيں يا محكوم اللہ تعالى سود سے جنگ كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور سود سے بچا كر ركھے، شرعى معاملات ميں جنہيں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے مباح قرار ديا ہے اسى ميں كفائت ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اس پر قادر ہے.

الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ہماری حکومت ایسا نظام کیوں نہیں نافذ کرتی جس میں سود کا لینا دینا نہ ہو ۔۔ کم از کم ایسی بینک تو بنائی جا سکتی ہیں جن میں سود کا نظام نہ ہو اور انسان اپنا اکاؤنٹ بنا لے وہاں سود سے بچنے ک لئے ۔۔۔
سود سے بچنے کا انتظام صرف ایک منظم اسلامی حکومت میں ہو سکتا ہے، ہماری حکومتیں چونکہ غیر اسلامی ہیں، چاہے آئین کتنی ہی اسلامی دفعات پر مشتمل ہوں، لیکن جب تک عملی طور پر اس ملک میں شریعت کا نظام قائم نہیں ہوتا محض آئین میں اسلامی دفعات، آئین میں اسلامی دفعات کے نعرے لگا کر اپنے نفس کو دھوکے میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔

موجودہ نام نہاد اسلامی حکومتیں سود سے بچنے کے لیے ایک علیحدہ نظام تو کجا، الٹا یہ تمام سودی ادارے حکومت کی سر پرستی میں قائم ہیں، حکومت لوگوں کو سود پر قرضے دیتی ہے، حکومت ان بینکوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائے گی، کیونکہ یہ تمام ادارے حکومت کی نگرانی میں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ، زنا، فحاشی، بےحیائی، اور شراب نوشی کے تمام تر اڈے بھی حکومت کی سرپرستی میں قائم ہیں۔

اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال جاننا اور اُن کو حلال قرار دینا نہ صرف یہ کہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے بلکہ اپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈالنے والی بات ہے، کچھ بعید نہیں کہ انسان اس عمل کی وجہ سے دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جائے۔ اللہ سے ہدایت کا سوال ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بنكوں ميں فائدہ ( سود ) پر سرمايہ كارى كرنے كا حكم


سوال:
بنكوں ميں سرمايہ كارى كرنے كا حكم كيا ہے؟ يہ علم ميں رہے كہ بنك رقم ركھنے پر فائدہ ديتے ہيں؟

جواب:

الحمد للہ:

شريعت اسلاميہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں يہ بات معلوم ہے كہ بنكوں ميں سودى فائدہ پر سرمايہ كارى كرنا شرعا حرام، اور كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{وہ لوگ جو سود كھاتے ہيں وہ نہ كھڑے ہونگے مگر اسى طرح جس طرح وہ كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے، يہ اس ليے كہ وہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود ہى كى طرح ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت حلال كى اور سود حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد، اور جو كوئى دوبارہ اس طرف لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہى اس ميں ہميشہ رہيں گے، اللہ تعالى سود كو مٹاتا ہے، اور صدقہ بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالى كسى ناشكرے اور گنہگار سے محبت نہيں كرتا} البقرۃ ( 275 - 276 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنےوالے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں"
اسے مسلم نے صحيح مسلم ميں نقل كيا ہے.
اور صحيح بخارى ميں امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے والےاور تصاوير پر لعنت فرمائى"
اور بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہلاكت والى سات اشياء سے اجتناب كرو، ہم نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ساتھ شرك كرنا، اور جادو، اور اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق قتل كرنا، اور سود كھانا، اور يتيم كا مال ہڑپ كرنا، اور ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر بھاگنا، اور پاكباز غافل مومن عورتوں پر بہتان لگانا"
اس معنى - سود كى حرمت اور اس سے بچنے كے دلائل - كى آيات اور احاديث بہت زيادہ ہيں، لہذا سب مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ سود كو ترك كرديں اور اس سے بچيں، اور ايك دوسرے كو اس سے اجتناب كرنے كى تلقين بھى كريں.

اور مسلمان حكمران اور ذمہ داران پر بھى واجب ہے كہ وہ اپنے ملك ميں بنك قائم كرنے والوں كو اس سے منع كريں، اور اللہ تعالى كے حكم كا نفاذ كرتے اور اس كى سزا سے بچتے ہوئے انہيں شريعت اسلاميہ كا پابند بنائيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{داود اور عيسى بن مريم ( عليہما السلام ) كى زبان سے بنى اسرائيل ميں سے ان لوگوں پر لعنت كى گئى جنہوں نے كفر كيا، يہ اس ليے كہ انہوں نے جو نافرمانياں اور معصيت كا ارتكاب كرتے تھے، اور وہ حد سے تجاوز كرتے تھے، وہ جو برائياں كرتے اس سے ايك دوسرے كو روكتے نہيں تھے، جو كچھ وہ كرتے تھے يقينا وہ بہت ہى برا تھا} المائدۃ ( 79 ).
اور ايك مقام پر اللہ عزوجل نے فرمايا:
{اور مومن مرد اور مومن عورتيں ايك دوسرے كے ولى ہيں، وہ ايك دوسرے كو نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے منع كرتے ہيں}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب لوگ برائى ديكھيں اور اس برائى وہ نہ روكيں تو قريب ہے كہ اللہ تعالى ان سب كو عمومى سزا دے دے"
امر بالمعروف اور نہى عن المنكر يعنى نيكى كاحكم دينے اور برائى سے منع كرنے كے وجوب ميں بہت زيادہ آيات و احاديث وارد ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں وہ حكمران ہوں يا علماء يا عام رعايا كے لوگ اور عام لوگ ان سب كو شريعت اسلاميہ پر چلنے كى توفيق عطا فرمائے، اوراس پر استقامت بخشے، اور شريعت اسلاميہ كى مخالفت كرنے والى ہر چيز سے بچنے كى توفيق عطا فرمائے. بلاشبہ اسى اللہ تعالى ہى سب سے بہتر دينے والا ہے.

الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بنكوں ميں خاص منافع پر رقم ركھنے كا حكم


سوال:
معين نفع كے ساتھ بنكوں ميں رقم ركھنے كا حكم كيا ہے.... ؟

جواب:

الحمد للہ:

معين منافع كے ساتھ بنكوں مين رقم ركھنا جائز نہيں، كيونكہ يہ معاہدہ سود پر مشتمل ہے،

اور پھر اللہ تعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:
{اور اللہ تعالى نے تجارت كو حلال كيا اور سود كو حرام قرار ديا ہے}
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو اور نہ ہى تم پرظلم كيا جائے گا}
اور يہ رقم ركھنے والا جو اس رقم پر جو كچھ حاصل كررہا ہے اس ميں كوئى بركت نہيں

كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقہ كو بڑھاتا ہے}
يہ قسم رباالنسيئۃ اور رباالفضل ميں شامل ہے، كيونكہ رقم ركھنے والا شخص بنك كو اپنى رقم اس شرط پر ديتا ہے كہ يہ رقم ايك معلوم مدت تك منافع كى معلوم مقدار كے ساتھ بنك ميں رہے گى...

مستقل فتوى اور ريسرچ كميٹى ( اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )

واللہ اعلم .
شيخ محمد صالح المنجد
 
Top