• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھ سکتی ہے ؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کلیم بھائی بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا مشکوک ہے۔۔
(از عمران اسلم: لنک)


نوٹ:
کیا بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھ سکتی ہے؟ بحث کو نیو دھاگہ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ اہل علم اپنی آراء وخیالات اس دھاگہ میں پیش فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

Mera name Mrs. Razia Kaleem he
Main apny miyaa Mr. Kaleem Haider shb k kehny pr Mohaddis Forum pr rigistar hoi hoo
Mrs. Razia Kaleem​
السلام علیکم

کچھ بھائیوں نے قرآن مجید سے آیات پیش کی ہیں اس پر کوئی تذکرہ نہیں، اپنی رائے دوں گا دنیاوی طریقہ کار کے مطابق جس پر سمجھنے کے لئے جتنے بھی نام لکھوں گا وہ فرضی ہونگے ۔

ہر لڑکی کا نام کے ساتھ والد کا نام نہیں ہوتا کوئی بھی دو نام ہوتے ہیں جس میں پہلا نام اصل ھے اور دوسرا نام سپورٹ کے لئے۔ جیسے "رضیہ ناز"
کچھ گھر والے لڑکی کے نام کے ساتھ والد کا پہلا نام یا فیملی نام لگاتے ہیں۔ جیسے "رضیہ یسین" " رضیہ بٹ"

پیدائش پرچی پر لڑکی کا پورا نام اور اس کے نیچے والد کا پورا نام لکھا ہوتا ھے۔

اسی طرح اگر تعلیم ھے تو اسناد پر اور پھر شناختی کارڈ پر بھی ایسے ہی لکھا جاتا ھے۔

لڑکی کی شادی کے بعد جو شناختی کارڈ اگر پہلے بنا ہوا ہو تو "ب" فارم پر امینڈمنٹ کے ذریعے شناختی کارڈ پر والد کا نام کٹوا کر خاوند کا پورا نام لکھوایا جاتا ھے اور یہ بہت ضروری ھے۔ جیسے

شادی کے بعد لڑکی کا نام جو ھے وہی رہتا ھے کچھ قانونی ضابطے ہیں جس کی بنا پر اس کے آئی ڈی کارڈ پر ولدیت کی جگہ خاوند کا پورا نام لکھا جاتا ھے جو بہت ضروری ھے۔ اس کے ساتھ خاوند کے شناختی کارڈ پر جو اس کی رہائش کا ایڈریس لکھا ہوتا ھے وہ بھی لکھا جاتا ھے اور والدین کے گھر کا ایڈریس نکال دیا جاتا ھے۔

اگر کوئی لڑکی اپنے عزیز رشتہ داروں میں یا کہیں کسی میٹنگ میں اور کسی بھی جگہ جب اپنا تعارف کرواتی ھے تو کنواری ہونے کی صورت میں وہ اپنا تعارف ایسے کروائے گی۔
مس رضیہ ناز یا مس رضیہ یسین یا مس رضیہ بٹ

اور اگر لڑکی شادی شدہ ھے تو وہ اپنا تعارف ایسے کروائے گی۔
مسیز کلیم یا مسیز حیدر یا مسیز کلیم حیدر اگر سامنے والا ریکویسٹ کرے کہ آپکا پرسنل نام کیا ھے تو پھر وہ چاہے تو مسیز رضیہ ناز بتائے یا چاہے تو مسیز رضیہ کلیم بتائے۔

اگر کسی کو مزید ضرورت ہو تو کچھ بھی پوچھ سکتا ھے۔

والسلام
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
اصولی بات یہ ہے کہ اولاد کی نسبت اسکے باپ کی طرف ہونی چاہئے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ،شادی شدہ ہو یا غیر ،صحابیات میں یہی تھا اب ھمارے سماج میں الٹا ہوگیا ہے تو یہ غلط ہے شادے شدہ عورت بھی اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف کرے گی
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے, بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔

اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟

(رفیق طاہر، 31 مئی 2011)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
آج کل واٹس اپ پر یہ میسج بہت زیادہ شیئر کیا جا رھا ھیکہ بیوی اپنے شوھر کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگا سکتی یہ حرام ھے.
حالانکہ یہ بات سمجھ سے باھر ھے. اہل علم حضرات کے آراء اس تھریڈ میں پڑھے.
میرا اشکال یہ ھیکہ اگر یہ حرام ھے تو معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ، محمد ابن حنفیہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کی نسبت باپ کی طرف نہیں ھے. آخر اسکا کیا جواب ھوگا؟؟؟ ان بزرگ شخصیت نے باپ کی طرف نسبت نہیں کی تھی؟؟؟ کیوں؟؟؟
براہ کرم کوئ صاحب رہنمائ فرمائیں.
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے، لیکن یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے مثال کے طور پر کوئی شخص کسی بچے (اس بچےکے والد کا علم ہو یا نہ ہو) کو لے پالک بناتا ہے یعنی اڈاپٹ کرکے اس کی پرورش کرتا ہے توپرورش کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اس لے پالک بچے کا باپ ظاہر کرے، کیونکہ قرآن ِ کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے ،پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہوتا ، لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں ، گناہ ہے ، اور حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے۔لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا ، جیساکہ خود اللہ تبارک وتعالی نے سورت احزاب میں فرمایا ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ [الأحزاب : 4 ، 5]

اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا، یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو ، اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے۔تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔

مزید تفصیلات کیلئے مذکورہ آیات کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں، نیز مختلف احادیث میں بھی کسی دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرنے پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جیساکہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ :

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر» صحيح البخاري (8/ 156)

ترجمہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے(اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو)یہ کفر ہے۔“

عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)

ترجمہ:جس شخص نے اپنے آپ کو( حقیقی والد کے علاوہ)کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔

قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کوحقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے، جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے،بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طورپراپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں ، صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے، عام طور پر شادی سے پہلےوالد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے۔اورشادی کے بعدشوہر کانام لکھتے ہیں،اور چونکہ تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو، البتہ اگر کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کا نام لکھنے میں نسب مشتبہ ہوتا ہواور(مثال کے طورپر)لوگ اس کے شوہر کو اس کا والد سمجھنے لگتے ہوں تو اس عورت کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لکھنا درست نہ ہوگا۔

بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے اپنے نام کے ساتھ آپﷺ کا نام نہیں لگایا اس لئے یہ ناجائز ہے تو اس جواب اوپر ہی آچکا ہے کہ عورت کیلئے اپنے نام کے ساتھ بطور تعارف والد یا شوہر میں سے کسی کا نام لگانا ضروری نہیں بلکہ کوئی لگانا چاہے تو جائز ہے اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ بیوی کیلئےاپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا ضروری ہے تو پھر یہ اعتراض درست تھا کہ جب ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے اپنے ناموں کے ساتھ آپﷺ کا نام نہیں لگایا توہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟لیکن چونکہ ہم اسے ضروری نہیں کہہ رہے بلکہ جواز کی بات کررہے ہیں ،اس لئے مذکورہ اعتراض یا استدلال بھی درست نہیں ہے۔
لہذا قرآن و احادیث کی روشنی میں پوری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ:
’’عورت کے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں ، صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے، عام طور پر شادی سے پہلےوالد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہےاورشادی کے بعدشوہر کانام لکھتے ہیں،اور چونکہ اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو‘‘َ۔

تحریر: محمد عاصم،متخصص فی الافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ما هو السبب في أنّ الزوجة لا تُضاف إلى نسَب زوجها

سؤال:
السؤال :
قرأت ردك على السؤالين رقم 2537 و4362 الخاص باحتفاظ الزوجة باسم والدها بعد زواجها . وآية سورة الأحزاب التي ذكرتها تنص على أن الطفل (أو الطفلة) الذي يتبنى يجب أن يحمل اسم والده (اسم زوج الأم الأول) . لكن كيف نطبق ذلك على زوجة غيرت اسمها (بكل بساطة) بسبب الزواج ؟ هي لا تدعي أنها تنتسب إلى زوجها ، لكنها تحمل اسمه فقط . إذا كان السبب هو النسل ، فأرجو أن تذكر الدليل من القرآن والسنة.
شكرا لك على مساعدتك وتوضيحك . وجزاك الله خيرا

الجواب:

الجواب :
الحمد لله
إن آثار مشابهة الغرب في التسمية كثيرة ، ومنها ما توارد الناس - الآن - على حذفه بين أسمائهم وأسماء آبائهم ، وهو لفظة " ابن " ، أو " ابنة"، وكان هذا سببه - أولا - تبنِّي بعض الأسر لأولاد ، أضافوا أسماءهم إلى أسمائهم ، فصار يقال لهم ( فلان فلان ) ، ويقال لأولادهم الحقيقيين ( فلان بن فلان ) ، ثم توارد الناس - في القرن الرابع عشر - على إسقاط لفظة ( ابن ) و (ابنة ) ، وهو الأمر المرفوض لغة وعادة وشرعاً . فإلى الله المشتكى.

ومن الآثار - كذلك - نسبة الزوجة إلى زوجها .
والأصل : أنها تكون ( فلانة بنت فلان ) ، لا ( فلانة زوجة فلان ) ! ، والله تعالى يقول { ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله } [ الأحزاب / 5] ، وكما أن هذا الأمر يكون في الدنيا فإنه يكون كذلك في الآخرة ، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة ، يقال هذه غدرة فلان بن فلان " . رواه البخاري (5709) ، ومسلم (3265).
قال الشيخ بكر أبو زيد حفظه الله : وهذا من أسرار التشريع ، إذ النسبة إلى الأب أشد في التعريف ، وأبلغ في التمييز ، لأن الأب هو صاحب القوامة على ولده وأمِّه في الدار وخارجها ، ومِن أجله يظهر في المجامع والأسواق ، ويركب الأخطار في الأسفار لجلب الرزق الحلال والسعي في مصالحهم وشؤونهم ، فناسبت النسبة إليه لا إلى ربات الخدور ، ومَن أمرهن الله بقوله { وقرْن في بيوتكن } [ الأحزاب / 33 ] . أ.هـ " تسمية المولود " ( ص 30 ، 31 ) .
وعليه : فإنه ليست هناك علاقة نسب بين الزوج والزوجة فكيف تُضاف إلى نَسَبه ، ثم هي قد تُطلَّق ، أو يموت زوجها ، فتتزوج مِن آخر ، فهل تستمر نسبتها في التغير كلما اقترنت بآخر ؟
يُضاف إلى ذلك : أن لنسبتها إلى أبيها أحكاماً تتعلق بالميراث والنفقة والمحرمية ، وغيرها ، وإضافة نسبها إلى الزوج ينسف ذلك كله ثم الزّوج منتسبٌ إلى أبيه فما علاقتها بنسب أبي زوجها !! ، هذه مغالطة للعقل والواقع ، وليس في الزوج ما يفضله على زوجته حتى تنتسب هي له ، بينما هو ينتسب إلى أبيه !
لذا وجب على كل من خالفت ذلك فانتسبت لزوجها أن تعيد الأمر إلى جادته وصوابه .
نسأل الله أن يصلح أحوال المسلمين .

الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نسبة المرأة إلى زوجها بعد الزواج
اجاب عليها فضيلة الشيخ د. خالد الماجد
التاريخ 6/6/1429 هـ السؤال
فضيلة الشيخ:
عادة منتشرة بكثرة عندنا وفي بلدان المسلمين عموما، وأعرضها على شكل سؤال: هل يجوز للمرأة إن تزوجت أن تأخذ اسم الزوج وعائلة الزوج؟ علماً أن الوضع يكون أسهل وبدون مشاكل إذا أخذت الزوجة اسم عشيرة زوجها، ففي بعض الأحيان يتصور الموظفون في الدوائر الحكومية أننا غير متزوجين حتى نريهم عقد الزواج.
وهكذا في الفنادق وفي حالة صرف الإعانات الخيرية، فما هو الصواب؟
وما مشروعية هذه العادة ومن أين أتت.
وجزاكم الله كل خير.


الجواب
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده:
لا يجوز نسبة المرأة إلى زوجها ولا إلى عشيرة زوجها، وهو من كبائر الذنوب؛ لما يأتي:
أولاً: ورود الأمر الصريح بالانتساب إلى الآباء يقول الله جل وعلا: (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله)، ومعنى هذا أن دعوتهم إلى غير آبائهم ليس من القسط، بل من الظلم.
ثانياً: ورود النهي الصريح عن الانتساب لغير الأب، يقول الله جل وعلا: (وما جعل أدعياءكم أبناءكم، ذلكم قولكم بأفواهكم والله يقول الحق وهو يهدي السبيل)، ويقول النبي صلى الله عليه وسلم: (ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر) ولحديث سعد بن أبي وقاص أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من ادعى لغير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام) متفق عليه. ولحديث علي المتفق عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ومن ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفاً ولا عدلاً) فهذه النصوص صريحة في النهي وهي تتناول مجرد الانتساب بالاسم وإن لم يعن الانتساب حقيقة، بل هي دالة على أن هذا الفعل من كبائر الذنوب لكونه متوعداً عليه بعقوبة غليظة، وهذا شأن الكبائر.
ثانياً: أن الانتساب للزوج أو عشيرته تقليد ظاهر للكفار؛ فإنهم أول من ابتدعها، وقد أمرنا بمخالفة صراط المغضوب عليهم والضالين من اليهود والنصارى فضلاً عن غيرهم من أهل الشرك والإلحاد، والنصوص الآمرة بمخالفتهم والنهي عن تقليدهم ظاهرة معلومة.
ثالثاً: أن هذا الانتساب فيه إهانة بالغة للمرأة، يجعلها مملوكة للرجل كما يملك العبد، أو تملك الأشياء، ويسلبها كرامتها وحقها في حفظ نسبها والاعتزاز به وهي فطرة فطر الله الناس عليها.
رابعاً: أن القول بأن انتسابها لزوجها أرفق بها وأبعد لها عن المشاكل ليس بمسوغ لمخالفة الشرع، وفضلاً عن ذلك فإنه قول مشكوك في صحته، إذ إن كل شخص مطالب بما يثبت هويته سواء أكان ببطاقة شخصية أو وثيقة عائلية أو جواز سفر، فلا فرق مؤثراً.
والله أعلم وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
ایک دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا :
١۔ جو حضرات بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کے نام کی بجائے باپ کا نام لکھنے کی رائے رکھتے ہیں ان کی دلیل صرف کفار سے مشابہت نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیت ادعوہم لأبائہم ہو أقسط عند اللہ ہے اور اس سلسلے میں دیگر شرعی نصوص ہیں ۔
٢ ۔ جن نصوص میں غیرباپ کی طرف نسبت کرنے سے منع کیا گیا ہے اس میں عدم جواز کا تعلق نسبت بحیثیت باپ سے ہے مطلب کوئی شخص کسی اور کو اپنا باپ نہیں کہہ سکتا ( واللہ أعلم ) جبکہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگنا یہ اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ وہ اس کا باپ ہے بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اس کا شوہر ہے ۔ مثلا ایک نام ہے نصرت نذیر اس سے ہر کوئی سمجھے گا کہ نذیر نصرت کا شوہر ہے ۔ اور یہ رواج تو اتنا شہرت پکڑ چکا ہے کہ اگر بیٹی اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام لگا لے تو لا علم لوگ اس کو شوہر کا نام ہی سمجھتے ہیں ۔
٣۔ استاد محترم انس نضر صاحب کی رائے مجھے بہت اچھی لگی ہے کہ باپ کی طرف نسبت کرنا بہتر ہے کیونکہ باپ ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے کسی بھی صورت بدلتا نہیں جبکہ شوہر بدل بھی سکتا ہے ۔
یہ بات کافی تکلیف دہ محسوس ہوئی ہے کہ کہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا ایک کافرانہ رسم تھی جسے قبول اسلام پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
بہت عمدہ بحث ہوچکی ہے۔ میں صرف اس بحث میں اس حد تک حصہ ڈالنا چاہتا ہوں اس کو دو سوالوں میں منقسم کریں
ایک سوال یہ ہے کہ بیوی کو اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام ضرور لگانا چاہئے ؟
جبکہ
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگاسکتی ہے؟
دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر سوال اس حوالے سے ہے کہ بیوی کو ضروری طور پر اپنے شوہر کا نام ساتھ لگانا چاہئے۔ تو جواب ہوگا کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ دوسرا سوال جواز کے حوالے سے ہے کہ کیا بیوی کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ یعنی اگر ایسا کرلے تو گناہ گارہوگی یا نہیں ہوگی؟؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ گار نہیں ہوگی ۔ کیونکہ ابوّت والے تعارف کی طرح زوجیت بھی ایک تعارف ہے ، ایسا عرف جہاں زوجیت کا تعارف مستعمل ہو ، وہاں اس تعارف کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلامی معاشرہ ہی میں ممکن ہے کہ ایک عورت اپنے والد کے ذریعے سے تعارف کروائے تو بھی اس کے لئے آسان اور ایک شوہر کے ذریعے سے کروائے تو بھی آسان۔ لیکن یورپ جہاں زوجیت کے بندھن میں اسی وقت بندھا جاتا ہے جب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے لئے کچھ باقی نہ رہ جائے۔ اور وہ ساری زندگی عملی طور پر مخفی انداز میں ہوتےرہے ہوں۔ وہاں تو یہ ممکن ہی نہیں ۔ اس لحاظ سے یہ تو ایک آسانی ہے اسی غیر ابیہ والے انتساب کے ساتھ خلط ملط کرنا قطعا صحیح نہیں ہے۔
یہ بات کافی تکلیف دہ محسوس ہوئی ہے کہ کہ بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا ایک کافرانہ رسم تھی جسے قبول اسلام پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ جیسا کہ کہہ بھی چکا ہوں کہ یہ اسلامی معاشرہ ہی میں ممکن ہے کہ ایک عورت اپنے والد کے ذریعے سے تعارف کروائے تو بھی اس کے لئے آسان اور ایک شوہر کے ذریعے سے کروائے تو بھی آسان۔ لیکن یورپ جہاں زوجیت کے بندھن میں اسی وقت بندھا جاتا ہے جب حقوق زوجیت کی ادائیگی کے لئے کچھ باقی نہ رہ جائے۔ اور وہ ساری زندگی عملی طور پر مخفی انداز میں ہوتےرہے ہوں۔ وہاں تو یہ ممکن ہی نہیں ۔
 
Last edited:
Top