• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بیٹی کو بوجھ سمجھ کے والدین اور اسلام نے اپنی زندگی جینے اور جیتنے کا پورا حق نہیں دیا؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا بیٹی کو بوجھ سمجھ کے والدین اور اسلام نے اپنی زندگی جینے اور جیتنے کا پورا حق نہیں دیا؟؟

(ایک محترمہ کی بات کی وضاحت میں )

بات غلط نہیں مگر اس کا رخ غلط جانب ضرور ہے. کس والد کی خواہش نہ ہو گی کہ اس کی بیٹی فرض کریں ایک روشن فکر عالمہ،ایک صحیح الدماغ فاضلہ، ایک آفاق کی وسعتوں کو کھوجنے والی جستجو کار یا استادِ فن نہ بنے. کیا اسے یہ سب بننے اور کرنے سے اس کے والد نے روک دیا؟ اچھا ، جنھیں یہ موقع دے دیا گیا کیا انھوں نے کتابیں لکھ لکھ کے لائبریریاں بھر دیں اور کیا ان کے تھیسز اور ریسرچ پیپرز نے دنیا بدل ڈالی؟ اسے بھی چھوڑئیے. یہ دیکھئے کہ کیا مرد سارے مصنف بن گئے؟ ریسرچر بن گئے؟ یقینا جواب ہو گا کہ جی نہیں تو پھر رکاوٹ کیا والدین ہوئے؟ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دراصل یہ عہد overall ہمارے downfall کا عہد ہے. اس میں عورت کو اس کا حق نہیں مل رہا یا اس کی ساری صلاحیتوں کے مکمل اظہار کو مناسب میدان نہیں مل رہا تو یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھی کپ نہیں لاتی.

ہمارا ڈاکٹر بھی تشخیص صحیح نہیں کرتا. ہمارا عالم بھی مجتہدانہ بصیرت پر مبنی رائے پیش نہیں کرتا. یہاں تک کہ ہمارا دکاندار سودا درست نہیں دیتا اور ہمارا سویپر صفائی تک ٹھیک نہیں کرتا. چنانچہ جب ہم مقابلے میں یورپ یا مغرب میں اپنی صنف یا پیشے کو بہتر اور فروغ پذیر دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاں کے ہر طبقے کو یوں لگنے لگتا ہے کہ شاید اس کے پیچھے رہنے کا باعث اس کے خلاف برتے جانے والے اس کے اپنوں کے مخصوص رویے یا مخصوص عقائد ہیں. اور ایسا موقع پا کر لبرل ہمیں باور کرانے آجاتے ہیں کہ اور کچھ نہیں بلکہ اس سب کا ذمے دار اسلام ہے. وہی ایسی پابندیاں عاءد کرتا اور ایسی ذہن سازی کرتا ہے۔ اب اس میں بھلا کسے شک کہ اسلام نے چند اصول دے کے عورت اور مرد دونوں کو بلا امتیاز برابر اس کارگہ حیات میں لا اتارا ہے. چلو بعد کے ادوار کو تو سر دست آپ چھوڑئیے. خود عہد رسالت کے ایک خالص دیہی ماحول میں وە کون سا کام ہے جس میں عورت شریک نہیں رہی؟

سیدہ خدیجہ نے تجارت کی اور اپنی شادی کا پیغام خود بھیجا. سیدہ صفیہ کو رسول اللہ ص نے کھیتوں سے اکیلے کام کرکے آتے پایا تو سواری کی پیش کش کی. صحابہ کے مسجدوں سے انسلاک اور محبت کے باوجود مسجد کی صفائی کرنے میں ایک عورت ممتاز تھی. خواتین نے جنگوں میں کردار ادا کیا اور وە بہترین داعی بھی بنیں . انھوں نے مسجدوں میں جا کے نماز پڑھی اور انھوں نے ہجرتیں بھی کیں. وقت آیا تو سیدہ عایشہ نے جنگ جمل کی قیادت کی.ادب اور ان کی زبان دانی کے مظاہر دیکھنے ہوں تو سیدہ خنسا کو دیکھئے کہ حسان بن ثابت جیسے نابغہ شاعر کے کلام سے جنھوں نے غلطیاں نکالیں. ام معبد کو دیکھئے کہ آج احادیث کے ذخیرے میں ان سے زیادە فصیح سراپائے رسول کا بیان کسی اور کی زبانی نہیں ملتا.

  • تو کیا آج عورت کے شکوے اور پیچھے رہ جانے کا باعث اسلام ہے؟
  • اور کیا ایک سازگار ماحول میں محض والدین نے بوجھ سمجھ کے بیٹی کے پر کاٹ رکھے اور اس کی پرواز روک رکھی ہے؟

جی نہیں یہاں اگر عبید شرمین چنائے ہے تو یہاں پردے میں ایک خاتون پائیلٹ بھی ہے. یہاں اگر کوئی تعلیم کے نام پر ملالہ ہے تو یہاں میڈم فرحت اور میڈم نگہت ہاشمی بھی ہیں.یہاں اگر عاصمہ جہانگیر ہے تو یہاں میڈم کنول قیصر بھی ہیں . یہاں سمیحہ راحیل قاضی ہیں اور یہاں ہر شعبہ حیات میں عورت کا ایک قابل قدر مثبت اور تعمیری کردار ہے. رہا وە مثالی کردار جو مزید ہو سکتا تھا تو یہ اس عہد زوال میں ہماری پوری امت پر اتری شام زوال کے گہرے سائے ہیں . جس کا کوئی ایک بالخصوص ذمہ دار نہیں اور کوئی ایک بالخصوص استحصال کی زد میں بھی نہیں.

ہاں بطور صنف یا پیشہ کہیں کمی کہیں زیادتی ہو سکتی ہے. وگرنہ سبھی برابر جھیل رہے ہیں. سبھی کے درد ہیں ، کہیں کم کہیں زیادہ

یوسف سراج
 
Top