• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تقلید قرآن سے ثابت ہے ؟ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم لفظوں کے ہیر پھیر سے مدعا بیان نہیں کیا جاتا بلکہ صاف اور غیر مبہم تحریر لکھنی چاہئے تا کہ قارئین کرام بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ محترم آپ سے ایک دفعہ پھر درخواست ہے کہ اصل موضوع پر قرآن اور احادیث ہی سے لکھیں۔ ہاں اگر کہیں دیگر دلائل کی شدید ضرورت ہو تو ضرور لکھیں مگر للہ اپنا ، میرا اور قارئین کا وقت ضائع نہ کریں۔
میں پھر سے اپنے دلائل اضافہ کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ الآیۃ ان کی راہ جن پر تیرا انعام ہؤا ہے
انعام یافگان کی تفصیل قرآن نے بتائی؛
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ الآیۃ
اور جو اطاعت کرے اللہ (تعالیٰ) کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پس یہی لوگ ہیں ، نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین، جن پر اللہ تعالیٰ نےانعام کیا ہے۔
ان میں نبیین کے علاوہ سب امتی ہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (115) نساء
اورجوخلاف کرے رسول کے اس کے بعد کہ واضح ہوجائے اس پر ہدایت اور وہ پیروی کریں مومنوں کے راستے کے علاوہ کی ہم پھیر دیں گےاسے جدھر وہ پھرے گا اورہم داخل کریں گےاسے جہنم میں اور وہ بہت براٹھکانہ ہے۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ: لاَ أَنْهَى أَحَدًا يُصَلِّي بِلَيْلٍ وَلاَ نَهَارٍ مَا شَاءَ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلاَ غُرُوبَهَا "
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کہ: ابن عمر، روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جیسے میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح میں ادا کرتا ہوں کہا میں کسی کو منع نہیں کرتا کہ وہ دن جس حصہ میں جس قدر چاہے نماز پڑھنے کا قصد نہ کرو اور نہ غروب آفتاب کے وقت اس کا قصد کرو۔
صحيح البخاري - كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ - بَابُ مَنْ لَمْ يَكْرَهِ الصَّلاَةَ إِلَّا بَعْدَ العَصْرِ وَالفَجْرِ

جی جناب یہ ہے وہ حدیث، اس میں اس بات کی نفی کہاں ہے؟
اور یہ انعام یافتگان کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے، بلکہ وحی کی پیروری کرتے تھے!
قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّ‌سُلِ وَمَا أَدْرِ‌ي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأحقاف09﴾
کہہ دو میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ تمہارے ساتھ میں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے سوائے اس کے نہیں کہ میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں (ترجمہ احمد علی لاہوری)
آپ نے یہاں بتلایا نہیں کہ یہاں حدیث اور آیت میں تضاد کیا ہے؟

محترم لفظوں کے ہیر پھیر سے مدعا بیان نہیں کیا جاتا بلکہ صاف اور غیر مبہم تحریر لکھنی چاہئے تا کہ قارئین کرام بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ محترم آپ سے ایک دفعہ پھر درخواست ہے کہ اصل موضوع پر قرآن اور احادیث ہی سے لکھیں۔ ہاں اگر کہیں دیگر دلائل کی شدید ضرورت ہو تو ضرور لکھیں مگر للہ اپنا ، میرا اور قارئین کا وقت ضائع نہ کریں۔
وہ تو قارئین دیکھ رہے ہیں!
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ الآیۃ ان کی راہ جن پر تیرا انعام ہؤا ہے
انعام یافگان کی تفصیل قرآن نے بتائی؛
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ الآیۃ
اور جو اطاعت کرے اللہ (تعالیٰ) کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پس یہی لوگ ہیں ، نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین، جن پر اللہ تعالیٰ نےانعام کیا ہے۔
ان میں نبیین کے علاوہ سب امتی ہیں۔
اور انبیاء کا اور ان کے ان امتیوں کا طریقہ تقلید نہیں تھا، ان میں کوئی بھی امام ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ! صحابہ میں صدقین بھی ہیں، شہدا بھی، اور صالحین بھی!
ان میں سے کسی ایک ک ابھی امام ابو حنیفہ کا مقلد کوئی نہ تھا! نہ امام ابو حنیفہ کا اور نہ کسی اور کا!
لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کا راستہ تقلید نہ تھا، اور جو تقلید کا راستہ اختیار کرتا ہے ، وہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے راستے کو ترک کر کے ایے بدعی راستہ اختیار کرتا ہے!
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (115) نساء
اورجوخلاف کرے رسول کے اس کے بعد کہ واضح ہوجائے اس پر ہدایت اور وہ پیروی کریں مومنوں کے راستے کے علاوہ کی ہم پھیر دیں گےاسے جدھر وہ پھرے گا اورہم داخل کریں گےاسے جہنم میں اور وہ بہت براٹھکانہ ہے۔
بالکل جناب! مقلدین یہی کام کرتے ہیں کہ حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی بھی مومنوں کے رستے کو ترک کرکے ، اپنی فقہ کے قول کو اختیار کرتے ہیں! ان مقلدین کو جہنم کی آگ سے ڈرنا چاہئے!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بالکل جناب! مقلدین یہی کام کرتے ہیں کہ حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی بھی مومنوں کے رستے کو ترک کرکے ، اپنی فقہ کے قول کو اختیار کرتے ہیں! ان مقلدین کو جہنم کی آگ سے ڈرنا چاہئے!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم آپ حواس باختہ کیوں ہو گئے ہیں؟ حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد اگر ترک ہوگا تو وہ تو آقا علیہ السلام کا راستہ ترک ہوگا مؤمنین کا نہیں۔
مذکورہ آیت میں لفظ ’’وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ ‘‘سے میرا استدلال تقلیدِ مؤمنین تھا آپ اللہ جانے اس سے کیا سمجھے۔
محترم ایک تقلید ہوتی ہے جو اندھا بینا کی کرتا ہے اور ایک ہوتی ہے جو اندھا اندھے کی کرتا ہے۔ دونوں کا فرق آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر اندھا (لا علم، عامی) بینا(مجتہد، فقیہہ) کی انگلی پکڑ لے گا تو وہ بینا(مجتہد، فقیہہ) اس کو تمام گھاٹیوں سے بحفاظت گزار لے جائے گا۔ مگراگر یہی اندھا (لا علم، عامی) کسی دیگر اندھے(لا علم، عامی) کی انگلی پکڑ ے گا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ خود بھی ڈوبے گا اور دوسرے کو بھی ڈبوئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا اور نہ ہی ہر ایک کے حالات ایک جیسے رکھے۔ کچھ لوگ بہت ذہین ہیں اور کچھ بالکل بے عقل۔ اسی طرح کچھ لوگ ساری عمر دین سیکھنے اور دین کی خدمت کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور کچھ لوگ دیگر مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اور دین پر چلنے کا حکم سب کیلئے ہے۔لہٰذا عام آدمی کسی ماہر عالم کے کہنے کے مطابق چلے گا۔ اس کو اتباع کہہ لیں پیروی کرنا کہہ لیں یا تقلید سب کا مقصود ایک ہی ہے یعنی دین پر عمل کرنا۔
ابن ماجہ حدیث نمبر 49 میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے (علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدیین الحدیث) تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔
ترمذی حدیث نمبر 3574 میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے (ان الناس لکم تبع وان رجالایاتونکم من اقطارالارض یتفقہون فی الدین فاذا اتوکم فاستوصوا بھم خیرا) تحقیق لوگ تمہارے تابع ہیں اور لوگ زمین کی اطراف سے تمہارے پاس دین حاصل کرنے کیلئے آئیں گے جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے لئے میری وصیت قبول کرو بھلائی کی۔
فائدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کو لازم قرار دیا۔
مشکوٰۃ حدیث نمبر 182 میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص پیروی کرنا چاہے اسے ان لوگوں کی پیروی کرنی چاہئے جو وفات پا گئے ہیں کیونکہ زندہ لوگ فتنوں سے امن میں نہیں ہیں اور وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں الخ۔
تقلید کن کی جائز ہے؟
تقلید صرف مجتہد اور فقیہ کی جائز ہے۔ غیر مجتہد اور غیر فقیہ کی تقلید جائز نہیں۔
تقلید کون کر ے؟
غیر مجتہد و فقیہ پر مجتہد و فقیہ کی تقلید واجب ہے کہ دین پر چلنے کا حکم سب کوہے۔
وما توفیقی الا باللہ
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم آپ حواس باختہ کیوں ہو گئے ہیں؟ حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد اگر ترک ہوگا تو وہ تو آقا علیہ السلام کا راستہ ترک ہوگا مؤمنین کا نہیں۔
بد حواسی کس پر طاری ہے، یہ تو آپ کا یہی جملہ بتا رہا ہے، کہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو طرق کرنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ترک ہو گا اور مومنین کے راستہ سے انحراف نہ ہو گا، بقول آپ کے مومنین کا راستہ کچھ اور تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ کچھ اور، بقول آپ کے مومنین کا راستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ترک کرنا ہے!
اب بدحواسی کے شکار بندہ کو کچھ سمجھ آئے تو کیا آئے!
مذکورہ آیت میں لفظ ’’وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ ‘‘سے میرا استدلال تقلیدِ مؤمنین تھا آپ اللہ جانے اس سے کیا سمجھے۔
آپ کا استدلال غلط ہے!
کیونکہ مونین کا راستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی ، یعنی قرآن کو ھدیث کی پیروی ہے نہ کہ کسی امتی کی تقلید! آپ کو کہا بھی تھا کہ:
اور انبیاء کا اور ان کے ان امتیوں کا طریقہ تقلید نہیں تھا، ان میں کوئی بھی امام ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ! صحابہ میں صدقین بھی ہیں، شہدا بھی، اور صالحین بھی!ان میں سے کسی ایک ک ابھی امام ابو حنیفہ کا مقلد کوئی نہ تھا! نہ امام ابو حنیفہ کا اور نہ کسی اور کا!لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کا راستہ تقلید نہ تھا، اور جو تقلید کا راستہ اختیار کرتا ہے ، وہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے راستے کو ترک کر کے ایے بدعی راستہ اختیار کرتا ہے!
محترم ایک تقلید ہوتی ہے جو اندھا بینا کی کرتا ہے اور ایک ہوتی ہے جو اندھا اندھے کی کرتا ہے۔ دونوں کا فرق آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر اندھا (لا علم، عامی) بینا(مجتہد، فقیہہ) کی انگلی پکڑ لے گا تو وہ بینا(مجتہد، فقیہہ) اس کو تمام گھاٹیوں سے بحفاظت گزار لے جائے گا۔ مگراگر یہی اندھا (لا علم، عامی) کسی دیگر اندھے(لا علم، عامی) کی انگلی پکڑ ے گا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ خود بھی ڈوبے گا اور دوسرے کو بھی ڈبوئے گا۔
بھائی جان ! ایک تقلید ہوتی ہے اچار بنانے میں اپنی دادی کی تقلید کرنا! آپ اچار بنانے میں شوق سے اپنی دادی کی تقلید کریں یا نانی کی، بات ہے دین میں تقلید کی!
اور دین میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنا تو اندھے کی تقلید کرنے کے مترادف ہے کہ اندھے کے پیچھے اس کے ساتھ ساتھ خود بھی گمراہی کے گڑھے میں جا گرے!
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا اور نہ ہی ہر ایک کے حالات ایک جیسے رکھے۔ کچھ لوگ بہت ذہین ہیں اور کچھ بالکل بے عقل۔ اسی طرح کچھ لوگ ساری عمر دین سیکھنے اور دین کی خدمت کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور کچھ لوگ دیگر مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اور دین پر چلنے کا حکم سب کیلئے ہے۔لہٰذا عام آدمی کسی ماہر عالم کے کہنے کے مطابق چلے گا۔ اس کو اتباع کہہ لیں پیروی کرنا کہہ لیں یا تقلید سب کا مقصود ایک ہی ہے یعنی دین پر عمل کرنا۔
کسی دین اسلام کے عالم یعنی قرآن و حدیث کے عالم سے دینی مسائل پوچھنا اور اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!
یہ کہہ لیں یا وہ کہہ لیں ، یہ جہالت کا اظہار تو ہو سکتا ہے ، مگر حقیقت نہیں!
ابن ماجہ حدیث نمبر 49 میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے (علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدیین الحدیث) تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔
مقلدین حنفیہ کا اس حدیث پر بالکل عمل نہیں، اس پر عمل اہل الحدیث کا ہے، کہ خلفاء الراشدین، مثلاً سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ،اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ان میں سے کوئی بھی مقلد نہیں تھا، اسی طرح ان کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اہل الحدیث بھی کسی کی تقہید نہیں کرتے، اور مقلدین حنفیہ ان خلفائے راشدین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے، تقلید کرتے ہیں، اور وہ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی، جو ایک تو کریلہ اوپر سے نیم چڑھا کے مصداق ہے!
ترمذی حدیث نمبر 3574 میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے (ان الناس لکم تبع وان رجالایاتونکم من اقطارالارض یتفقہون فی الدین فاذا اتوکم فاستوصوا بھم خیرا) تحقیق لوگ تمہارے تابع ہیں اور لوگ زمین کی اطراف سے تمہارے پاس دین حاصل کرنے کیلئے آئیں گے جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے لئے میری وصیت قبول کرو بھلائی کی۔
فائدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی کو لازم قرار دیا۔
بالکل جناب! اس پر عمل اہل الحدیث کا ہی ہے، اہل الحدیث ہی علماء ہیں اور لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، باقی رہے مقلدین ، تو دین اسلام یعنی قرآن و حدیث سے جاہل ہوا کرتا ہے، مقلدین کے علماء لوگوں کو قرآن و حدیث نہیں بالکہ اپنی فقہ، جو اقوال ''بعض الناس'' کے اٹکل پچّو پر مبنی ہے اس کی تعلیم دیتے ہیں!
مشکوٰۃ حدیث نمبر 182 میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص پیروی کرنا چاہے اسے ان لوگوں کی پیروی کرنی چاہئے جو وفات پا گئے ہیں کیونکہ زندہ لوگ فتنوں سے امن میں نہیں ہیں اور وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں الخ۔
جی اور ان فوت شدگان میں جب عبد اللہ بن مسعود نے یہ فرمایا تھا، کوئی ایک بھی مقلد امام ابو حنیفہ نہیں تھا! اور ان میں سے کوئی بھی مقلد نہیں تھا!
دوم کہ اگر آپ یہاں سے تقلید کر رہے ہو تو پھر آپ عبد اللہ بن مسعود کے قول کی مخلافت کرتے ہوئے ان صحابہ کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں کرتے ہو؟ کرنی یہاں بھی صحابہ کی مخلافت ہے!
تقلید کن کی جائز ہے؟
تقلید صرف مجتہد اور فقیہ کی جائز ہے۔ غیر مجتہد اور غیر فقیہ کی تقلید جائز نہیں۔
تقلید کھانا پکانے اور اچار بنانے وغیرہ میں آپ نانی کی کریں، دادی کی کریں ، والدہ کی کریں یا خالہ کی کریں ، سب کی جائز ہے،
مگر دین میں کسی کی تقلید جائز نہیں!
تقلید کون کر ے؟
غیر مجتہد و فقیہ پر مجتہد و فقیہ کی تقلید واجب ہے کہ دین پر چلنے کا حکم سب کوہے۔
تقلید کو واجب قرار دینا، اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین میں تبدلی کرنا اور شریعت سازی کا شرک ہے!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شخصیت پرستی اور اندھی تقلید :

شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کے بندھن میں جکڑے لوگ اُس کوڑے کے ڈھیر کے سوا کُچھ بھی نہیں‌ جو اپنے وجود کا احساس بڑی شدت سے دلاتا ہے اور اُس کا وجود اثر بھی رکھتا ہے مگر وہ زہنوں‌اور دلوں‌ کی فضاء کو آلودہ کرنے کے سوا کُچھ نہیں‌کر سکتا۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دیوبندی حکیم الامت ان کی سوانح عمری

( تذکرۃ الرشید : 121 ،ط: بلالی پریس سادھوڑہ ) میں لکھتے ہیں :

مقلد ین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد ( یعنی اپنے مذہب کے امام کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بے چین ہو جاتے ہیں ) بلکہ اول استنکا قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو خواہ کتنی ہی دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسلہ میں بجز قیاس کچھ نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں بھی اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں یہ دل نہیں مانتا کہ قول مجتہد ( اپنے مذہب ) کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کرلیں ۔

تقلید کی شرعی حیثیت

تالیف: جلال الدین قاسمی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مولانا اشرف علی تھانوی کی رنجیدگی:

مولانا اشرف علی تھانوی مقلدین سے رنجیدہ ہو کر خون کے آنسو یوں بہاتے ہیں:

مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا و مصیب و جوباِ اور مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح ، مخالف قول امام ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس کے امر دیگر نہ ہو پھر بھی بہت سی علل اور خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کردیں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔

( فتاویٰ امدادیہ ج ص 95 )

شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب نے فرمایا:

کلام صحابی اگر مخالفت حدیث ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اسے تر ک کر دینا چاہیے اور افعال رسول صلی للہ علیہ وسلم کو اپنا مذہب قرار دینا چاہیے۔

( احسن القریٰ 147)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اور دین میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنا تو اندھے کی تقلید کرنے کے مترادف ہے کہ اندھے کے پیچھے اس کے ساتھ ساتھ خود بھی گمراہی کے گڑھے میں جا گرے!
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ
محترم آج چودہ سو سال پتہ چلا کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اندھے تھے فوا اسفا! آج تک پوری دنیائے اسلام ان کو مجتہد اور فقیہہ تسلیم کیئےرہی ہے صرف آپ سے یہ سنا ہے۔ لگتا ہے لہ میری کسی بات سے آپ گرمی کھا گئے ہیں۔ محترم آپ مجھے دشنام طرازی سے ملوث کیجئے کسی اور کو کیوں ملوث کرتے ہو۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب کسی کے پاس دلائل نہیں رہتے تو وہ ایسی باتیں شروع کردیتا ہے تاکہ جان چھوٹ جائے۔
سورۃ الفرقان آیت نمبر 73
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا

وہ لوگ جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر اندھوں اور بہروں کی طرح نہیں گرتے -
فائدہ: قرآن پاک کی کسی آیت کا وہی مفہوم صحیح ہوگا جس کی تصدیق دوسری آیات اور احادیث کرتی ہوں - اگر آیت کا مفہوم ایسا بیان کیا جائے جو دوسری آیات اور احادیث کے خلاف ہو وہ صحیح نہ ہوگا وہی صحیح ہوگا جو دوسری آیات اور احادیث سے موافقت کرے - یہی بات احادیث کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رکھنی چاہئے۔
سورۃ النساء آیت نمبر 78
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

تم جہاں کہیں بھی ہو تمہیں موت آکر رہے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں بند ہو جاؤ - اور اگر ان کو بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے- اور اگر برائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف سے ہے - آپ فرما دیں کہ سب اللہ کی طرف سے ہے - اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ بات کو سمجھتے ہی نہیں -
سورۃ الاعراف آیت نمبر 179
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنْ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمْ الْغَافِلُونَ

اور تحقیق ہم نے بہت سے انسانوں اور جنوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے - ان کے قلوب ایسے ہیں جو بات کو سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں جو دیکھتی نہیں اور ان کے کان ایسے ہیں جو سنتے نہیں - یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بے عقل ہیں اور یہ لوگ غافل ہیں -
والسلام
 
Top