• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کیا جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
.
شرم گاہ کے علاوہ جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی مین اتر کر صحابہ سے کہا ،، آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا ؟
تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دھانے پر رات گزاری ، انہوں نے رات کا وقت پہرے کے لئے تقسیم کر لیا لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا - اچانک دشمن کے ایک آدمی نے آ کر انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا - انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی ، پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا ، پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع اور سجدہ کیا اور اپنی نماز مکمل کی _ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) کی حالت میں دیکھا تو کہا جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا ؟
تو اس نے کہا میں ایک صورت کی تلاوت کر رہا تھا جسے کاٹنا (یعنی تلاوت چھوڑنا) میں نے پسند نہیں کیا -
.
***** صحیح ابو داؤد # ١٩٣ ابو داؤد #١٩٨ ، ابن خزیمہ#٣٦ ،حاکم #١٥٧/١ ، بیہقی #١٤٠/١ *****
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اہم مسئلہ بیان کیا آپ نے ،جزاکم اللہ خیرا۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
دیوبند کا فتویٰ یہ ہے ۔
جن صحابۂ کرام کا ذکر جسم سے خون نکلتے ہوئے نماز پڑھنے کا حدیث میں آیا ہے وہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی عقیل مجہول ہیں اور دوسرے راوی محمد بن اسحاق مختلف فیہ ہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک صحابی کا اپنا ذاتی فعل ہے (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خون نکلنے کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے) وہ اپنی سمجھ سے اس حالت میں نماز پڑھ رہے تھے، ممکن ہے ان کا یہی مذہب رہا ہو اور اس کے بارے میں اصل حکم ان کو نہ معلوم ہو، یا یہ کہ حکم معلوم ہو مگر نماز کی حالت میں اللہ سے مناجت کرنے کی لذت میں ایسا مستغرق تھے کہ ان کی توجہ اِدھر نہیں گئی۔ لہٰذا اس حدیث سے وضو کے نہ ٹوٹنے پر دلیل پکڑنا جائز نہ ہوگا۔ (بذل المجہود: ۱؍۱۲۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا یہ روایت واقعی ضعیف ہے ، جیسے کہ اس میں محمد بن اسحاق اور عقیل بن جابر راوی ہیں جو کہ مجہول ہیں ۔ یاپھر یہ روایت حسن درجہ کی ہے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ :
سبیلین کے علاوہ جسم کے کسی حصہ سے خون نکلنے پر وضوء ٹوٹنے کی کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خروج الدم من غير الفرج ليس من نواقض الوضوء
السؤال الثاني من الفتوى رقم 2461
س 2: أرجو العلم عن الدم هل هو مبطل للصلاة؟
جـ 2: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه. . وبعد:
لا نعلم دليلا شرعيا يدل على أن خروج الدم من غير الفرج من نواقض الوضوء والأصل أنه ليس ناقض. والعبادات مبناها على التوقيف فلا يجوز لأحد أن يقول هذه العبادة مشروعة إلا بدليل، وقد ذهب بعض أهل العلم إلى نقض الوضوء بخروج الدم الكثير عرفا من غير الفرج، فإذا توضأ من خرج منه ذلك احتياطا وخروجا من الخلاف فهو حسن لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «دع ما يريبك إلى ما لا يريبك (1) » .
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى اللجنة الدائمة ۵۔۲۸۲
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
دیوبند کا فتویٰ یہ ہے ۔
جن صحابۂ کرام کا ذکر جسم سے خون نکلتے ہوئے نماز پڑھنے کا حدیث میں آیا ہے وہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی عقیل مجہول ہیں اور دوسرے راوی محمد بن اسحاق مختلف فیہ ہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک صحابی کا اپنا ذاتی فعل ہے (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خون نکلنے کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے) وہ اپنی سمجھ سے اس حالت میں نماز پڑھ رہے تھے، ممکن ہے ان کا یہی مذہب رہا ہو اور اس کے بارے میں اصل حکم ان کو نہ معلوم ہو، یا یہ کہ حکم معلوم ہو مگر نماز کی حالت میں اللہ سے مناجت کرنے کی لذت میں ایسا مستغرق تھے کہ ان کی توجہ اِدھر نہیں گئی۔ لہٰذا اس حدیث سے وضو کے نہ ٹوٹنے پر دلیل پکڑنا جائز نہ ہوگا۔ (بذل المجہود: ۱؍۱۲۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا یہ روایت واقعی ضعیف ہے ، جیسے کہ اس میں محمد بن اسحاق اور عقیل بن جابر راوی ہیں جو کہ مجہول ہیں ۔ یاپھر یہ روایت حسن درجہ کی ہے ؟
یعنی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی جنگ میں تھے کہ ایک صحابی کوتیر لگا
جس سے جون پھوٹ نکلا اس آدمی نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا اور نماز کو پورا
کیا (بخاری ص40 ج 1) حافظ ابن حجرنے (تغلیق التغلیق ص115 ج 2) میں اس کے طرق کو جمع کیا ہے۔ ابن حبان ۔ابن خزیمہ حاکم و زہبی نے اسے صحیح کہا ۔
حوالہ : حدیث اور اھل تقلید
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک صحابی کا اپنا ذاتی فعل ہے (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خون نکلنے کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے) وہ اپنی سمجھ سے اس حالت میں نماز پڑھ رہے تھے، ممکن ہے ان کا یہی مذہب رہا ہو اور اس کے بارے میں اصل حکم ان کو نہ معلوم ہو، یا یہ کہ حکم معلوم ہو مگر نماز کی حالت میں اللہ سے مناجت کرنے کی لذت میں ایسا مستغرق تھے کہ ان کی توجہ اِدھر نہیں گئی۔ لہٰذا اس حدیث سے وضو کے نہ ٹوٹنے پر دلیل پکڑنا جائز نہ ہوگا۔ (بذل المجہود: ۱؍۱۲۱)
علامی عینی حنفی فرماتے ہیں ضب اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں صحابہ کے لیے دعا ئے خیرفرمائی اور انہیں دوبارہ وضو کرکے نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا (شرح ھدایہ ص 123 ج1 ) ۔(بحوالہ ابکارالمنن)
حوالہ : حدیث اور اھل تقلید
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دیوبند کا فتویٰ یہ ہے ۔
جن صحابۂ کرام کا ذکر جسم سے خون نکلتے ہوئے نماز پڑھنے کا حدیث میں آیا ہے وہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی عقیل مجہول ہیں اور دوسرے راوی محمد بن اسحاق مختلف فیہ ہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک صحابی کا اپنا ذاتی فعل ہے (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خون نکلنے کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے) وہ اپنی سمجھ سے اس حالت میں نماز پڑھ رہے تھے، ممکن ہے ان کا یہی مذہب رہا ہو اور اس کے بارے میں اصل حکم ان کو نہ معلوم ہو، یا یہ کہ حکم معلوم ہو مگر نماز کی حالت میں اللہ سے مناجت کرنے کی لذت میں ایسا مستغرق تھے کہ ان کی توجہ اِدھر نہیں گئی۔ لہٰذا اس حدیث سے وضو کے نہ ٹوٹنے پر دلیل پکڑنا جائز نہ ہوگا۔ (بذل المجہود: ۱؍۱۲۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا یہ روایت واقعی ضعیف ہے ، جیسے کہ اس میں محمد بن اسحاق اور عقیل بن جابر راوی ہیں جو کہ مجہول ہیں ۔ یاپھر یہ روایت حسن درجہ کی ہے ؟
شیخ شعیب ارناؤط وغیرہ نے ابوداؤد کی تحقیق میں اس کو ’’ حسن ‘‘ قرار دیا ہے ۔ دیکھیے ( سنن ابی داؤد ج 1 ص 42 حدیث نمبر 198 )
ویسے جو وضو ٹوٹنے کے قائل ہیں ، ان کی کیا دلیل ہے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یعنی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی جنگ میں تھے کہ ایک صحابی کوتیر لگا
جس سے جون پھوٹ نکلا اس آدمی نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا اور نماز کو پورا
کیا (بخاری ص40 ج 1) حافظ ابن حجرنے (تغلیق التغلیق ص115 ج 2) میں اس کے طرق کو جمع کیا ہے۔ ابن حبان ۔ابن خزیمہ حاکم و زہبی نے اسے صحیح کہا ۔
حوالہ : حدیث اور اھل تقلید
خون5.gif
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
صحیح البخاری ، باب من لم ير الوضوء إلا من المخرجين من القبل والدبر:
باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے

’’ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لاَ وُضُوءَ إِلاَّ مِنْ حَدَثٍ. وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَرُمِيَ رَجُلٌ بِسَهْمٍ،‏‏‏‏ فَنَزَفَهُ الدَّمُ فَرَكَعَ وَسَجَدَ،‏‏‏‏ وَمَضَى فِي صَلاَتِهِ. وَقَالَ الْحَسَنُ مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ. وَقَالَ طَاوُسٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَعَطَاءٌ وَأَهْلُ الْحِجَازِ لَيْسَ فِي الدَّمِ وُضُوءٌ. وَعَصَرَ ابْنُ عُمَرَ بَثْرَةً فَخَرَجَ مِنْهَا الدَّمُ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ. وَبَزَقَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى دَمًا فَمَضَى فِي صَلاَتِهِ. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَالْحَسَنُ فِيمَنْ يَحْتَجِمُ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلاَّ غَسْلُ مَحَاجِمِهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں (تشریف فرما) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس (کے جسم) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون (نکلنے) سے وضو (واجب) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (اپنی) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے (دوبارہ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفی نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔“
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیخ شعیب ارناؤط وغیرہ نے ابوداؤد کی تحقیق میں اس کو ’’ حسن ‘‘ قرار دیا ہے ۔ دیکھیے ( سنن ابی داؤد ج 1 ص 42 حدیث نمبر 198 )
ویسے جو وضو ٹوٹنے کے قائل ہیں ، ان کی کیا دلیل ہے ؟
سنن ابی داود ،
باب الوضوء من الدم
باب: خون نکلنے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 198
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَقِيلِ بْنِ جَابِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ،‏‏‏‏ فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَحَلَفَ أَنْ لَا أَنْتَهِيَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمًا فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ فَخَرَجَ يَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ رَجُلٌ يَكْلَؤُنَا ؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ،‏‏‏‏ اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِيُّ وَقَامَ الْأَنْصَارِيُّ يُصَلِّ،‏‏‏‏ وَأَتَى الرَّجُلُ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَأَى شَخْصَهُ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِيئَةٌ لِلْقَوْمِ،‏‏‏‏ فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِيهِ فَنَزَعَهُ حَتَّى رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ،‏‏‏‏ ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ،‏‏‏‏ فَلَمَّا عَرِفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ،‏‏‏‏ وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِيُّ مَا بِالْأَنْصَارِيِّ مِنَ الدَّمِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَلَا أَنْبَهْتَنِي أَوَّلَ مَا رَمَى ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے، تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کر دیا، اس مشرک نے قسم کھائی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں باز نہیں آ سکتا، چنانچہ وہ (اسی تلاش میں) نکلا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے، اور فرمایا: ”ہماری حفاظت کون کرے گا؟“، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لیے مستعد ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو“، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے (اور وہاں پہنچے) تو مہاجر (صحابی) لیٹ گئے، اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر چلایا، جو آپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا، یہاں تک کہ اس نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اور سجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہو گئے ہیں، تو بھاگ گیا، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورۃ پڑھ رہا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۴۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۴۳، ۳۵۹) قال الالبانی (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ جسم کے کسی اور مقام سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، خواہ خون اپنے نکلنے کی جگہ تک رہ جائے یا وہاں سے بہہ نکلے، یہی اکثر علماء کا قول ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ زخم کا خون زخمیوں کے لئے پاک ہے، یہ مالکیہ کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال الشيخ شعَيب الأرنؤوط :حديث حسن
 
Top