• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جہنم آسمان میں ہے؟کفار کی ارواح کے لئے تو دروازے نہیں کھولے جاتے مگر کونسے!جنت کے یا جہنم کے؟

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
ہماری آیتوں کو جھٹلانےوالوں اور ان سے اکڑنے والوں کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہو کیں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گذر جائے
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیررحمہ اللہ نے ہیڈنگ لگائی ہے ’’کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے‘‘اور ابن ماجہ کی ایک حدیث پیش کی ہے جس میں آسمان کے دروازے نہ کھلنے اور روح کو قبر کی طرف لوٹا دیے جانے کا ذکر ہے۔۔مگر!!!
ڈاکٹرعثمانی سے متاثر ایک بھائی نے مجھ سے کہا کہ یہاں
أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ سے مراد ابواب الجنتہ ہے اور اسکی دلیل میں بخآری کی یہ دو احادیث پیش کیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَائَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ
أَبْوَابُ الْجَنَّةِ

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 1824
قتیبہ اسماعیل بن جعفر، ابوسہیل اپنے والد سے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي أَنَسٍ مَوْلَی التَّيْمِيِّينَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ
أَبْوَابُ السَّمَائِ
وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ
وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ

یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابن ابی انس تیمیوں کے غلام، ابی انس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور شیطان زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 1825
وہ کہتے ہیں کہ ان احادیث میں سے پہلی حدیث میں ابواب الجنتہ کہا اور دوسری میں اسی کو ابواب السما کہ کر پکارا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت کے ان الفاظ ابواب السما سے مراد ابواب الجنتہ ہے اس سے مراد جہنم کے دروازے نہیں ہے۔اور یہ کہ ابواب الجنتہ اور ابواب جہنم کو ساتھ ذکر کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جہنم آسمان ہی میں ہے۔
میری گذارش ہے @اسحاق سلفی بھائی یا@کفایت اللہ صاحب یا کسی بھی عالم سے کہ اس کی صحیح تفسیر و شرح بتا دیں۔
جزاک اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
میری گذارش ہے @اسحاق سلفی بھائی یا@کفایت اللہ صاحب یا کسی بھی عالم سے کہ اس کی صحیح تفسیر و شرح بتا دیں۔
جزاک اللہ خیر
اس موضوع پر ایک سوال و جواب
(موقع الإسلام سؤال وجواب )
پر موجود جو کافی معلومات کا حامل ہے ،ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أين توجد الجنة ، وأين توجد النار ؟
السؤال:
أين تقع الجنة والنار؟ فالبعض يقول إن جهنم في جوف الأرض ، فهل هذا صحيح ؟

سوال : جنت اور جہنم کہاں واقع ہے ۔بعض کا کہنا ہے کہ جہنم زمین کے اندر ہے کیا یہ بات صحیح ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
الذي نص عليه أهل العلم أن الجنة في السماء السابعة ، والنار في الأرض السفلى.
اہل علم کا کہنا ہے کہ :جنت ساتویں آسمان میں ہے،اور جہنم سب سے نچلی زمین میں ۔
وقد روى البخاري (7423) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ( إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ )
اور امام بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ۔ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیان کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔

وروى البيهقي في "البعث والنشور" (455) بسند ضعيف عن ابن مسعود قال : " الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ الْعُلْيَا، وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ السَّابِعَةِ السُّفْلَى " ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ) المطففين/ 18 ، (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) المطففين/ 7 ، قال البيهقي عقبه :
" حَدِيثُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمَا ذَكَرَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْضِعِ رُوحِ الْمُؤْمِنِ وَالْكَافِرِ : يَدُلُّ عَلَى هَذَا " انتهى .

اور بیہقی ؒ نے "البعث والنشور" میں ضعیف سند سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ابن مسعود فرماتے ہیں : جنت اوپر والے ساتویں آسمان میں ہے،اور دوزخ سب نچلی ساتویں زمین میں ہے ، اور انہوں نے سورہ الطففین کی یہ آیتیں پڑھیں : (إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ)
اور اس کے بعد انہوں نے سیدنا براء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث نقل فرمائی جس میں مومن و کافر کی روح کے مکان کا ذکر ہے ،اور بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ روایات بھیاسی بات پر دلیل ہیں ؛
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ۔
وقال الحافظ ابن رجب رحمه الله :
" روى عطية عن ابن عباس، قال: الجنة في السماء السابعة، ، وجهنم في الأرض السابعة . أخرجه أبو نعيم

اور حافظ ابن رجب نے ابن عباس کا قول نقل فرمایا ہے :
جنت ساتویں آسمان میں آسمان میں ہے ،اور دوزخ ساتویں زمین میں ۔

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .
وروى ابن أبي الدنيا بإسناده عن قتادة ، قال: كانوا يقولون: إن الجنة في السموات السبع ، وإن جهنم لفي الأرضين السبع .
وقد استدل بعضهم لهذا بأن الله تعالى أخبر أن الكفار يعرضون على النار غدواً وعشياً ـ يعني في مدة البرزخ ـ وأخبر أنه لا تفتح لهم أبواب السماء ، فدل أن النار في الأرض " انتهى من " التخويف من النار" (ص 62-63) .

سئل ابن عثيمين رحمه الله : أين توجد الجنة والنار؟
فأجاب :
" الجنة في أعلى عليين ، والنار في سجين ، وسجين في الأرض السفلى ، كما جاء في الحديث: ( الميت إذا احتضر يقول الله تعالى: اكتبوا كتاب عبدي في سجين في الأرض السفلى) ، وأما الجنة فإنها فوق في أعلى عليين ، وقد ثبت عن النبي عليه الصلاة والسلام ( أن عرش الرب جل وعلا هو سقف جنة الفردوس) ".
انتهى من " فتاوى نور على الدرب " (4/ 2) بترقيم الشاملة .
وقال الشيخ أيضا :
" مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.
والدَّليل على أنَّ النَّارَ في الأرض : قول الله تعالى: ( كَلاَّ إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) وسِجِّين الأرض السُّفلى ؛ فالنَّار في الأرض .
وقد رُوِيَ في هذا أحاديثُ ؛ لكنها ضعيفة ، ورُوِيَ آثار عن السَّلف كابن عباس، وابن مسعود ، وهو ظاهر القرآن قال تعالى: ( إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ) الأعراف/40 ، والذين كذَّبوا بالآيات واستكبروا عنها : لا شَكَّ أنهم في النّار " .
انتهى مختصرا من "الشرح الممتع" (3/ 174-175) .

راجع إجابة السؤال رقم : (14526) .
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے (١) اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے (٢) اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
اس کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
’’ اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے، یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوسکتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیساکہ مسند احمد، جلد ٢ صفحہ ٣٦٤، ٣٦٥ کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور حافظ عبد السلام بھٹوی فرماتے ہیں :
( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ : یہ پچھلی آیت میں مذکور وعید ’’ پس چکھو عذاب ۔۔ ‘‘ کی کچھ تفصیل ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، جیسا کہ مومن کی روح کے اوپر چڑھنے کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے، مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٨٨، ح : ١٨٥٦١ ]
حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭ: یہ ایک محاورہ ہے جو ایسے کام کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ نہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں۔(تفسیر القرآن الکریم )
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
اس موضوع پر ایک سوال و جواب
(موقع الإسلام سؤال وجواب )
پر موجود جو کافی معلومات کا حامل ہے ،ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أين توجد الجنة ، وأين توجد النار ؟
السؤال:
أين تقع الجنة والنار؟ فالبعض يقول إن جهنم في جوف الأرض ، فهل هذا صحيح ؟

سوال : جنت اور جہنم کہاں واقع ہے ۔بعض کا کہنا ہے کہ جہنم زمین کے اندر ہے کیا یہ بات صحیح ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
الذي نص عليه أهل العلم أن الجنة في السماء السابعة ، والنار في الأرض السفلى.
اہل علم کا کہنا ہے کہ :جنت ساتویں آسمان میں ہے،اور جہنم سب سے نچلی زمین میں ۔
وقد روى البخاري (7423) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ( إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ )
اور امام بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ۔ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیان کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔

وروى البيهقي في "البعث والنشور" (455) بسند ضعيف عن ابن مسعود قال : " الْجَنَّةُ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ الْعُلْيَا، وَالنَّارُ فِي الْأَرْضِ السَّابِعَةِ السُّفْلَى " ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ) المطففين/ 18 ، (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) المطففين/ 7 ، قال البيهقي عقبه :
" حَدِيثُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمَا ذَكَرَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْضِعِ رُوحِ الْمُؤْمِنِ وَالْكَافِرِ : يَدُلُّ عَلَى هَذَا " انتهى .

اور بیہقی ؒ نے "البعث والنشور" میں ضعیف سند سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ابن مسعود فرماتے ہیں : جنت اوپر والے ساتویں آسمان میں ہے،اور دوزخ سب نچلی ساتویں زمین میں ہے ، اور انہوں نے سورہ الطففین کی یہ آیتیں پڑھیں : (إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ)
اور اس کے بعد انہوں نے سیدنا براء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث نقل فرمائی جس میں مومن و کافر کی روح کے مکان کا ذکر ہے ،اور بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ روایات بھیاسی بات پر دلیل ہیں ؛
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ۔
وقال الحافظ ابن رجب رحمه الله :
" روى عطية عن ابن عباس، قال: الجنة في السماء السابعة، ، وجهنم في الأرض السابعة . أخرجه أبو نعيم

اور حافظ ابن رجب نے ابن عباس کا قول نقل فرمایا ہے :
جنت ساتویں آسمان میں آسمان میں ہے ،اور دوزخ ساتویں زمین میں ۔

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .
وروى ابن أبي الدنيا بإسناده عن قتادة ، قال: كانوا يقولون: إن الجنة في السموات السبع ، وإن جهنم لفي الأرضين السبع .
وقد استدل بعضهم لهذا بأن الله تعالى أخبر أن الكفار يعرضون على النار غدواً وعشياً ـ يعني في مدة البرزخ ـ وأخبر أنه لا تفتح لهم أبواب السماء ، فدل أن النار في الأرض " انتهى من " التخويف من النار" (ص 62-63) .

سئل ابن عثيمين رحمه الله : أين توجد الجنة والنار؟
فأجاب :
" الجنة في أعلى عليين ، والنار في سجين ، وسجين في الأرض السفلى ، كما جاء في الحديث: ( الميت إذا احتضر يقول الله تعالى: اكتبوا كتاب عبدي في سجين في الأرض السفلى) ، وأما الجنة فإنها فوق في أعلى عليين ، وقد ثبت عن النبي عليه الصلاة والسلام ( أن عرش الرب جل وعلا هو سقف جنة الفردوس) ".
انتهى من " فتاوى نور على الدرب " (4/ 2) بترقيم الشاملة .
وقال الشيخ أيضا :
" مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.
والدَّليل على أنَّ النَّارَ في الأرض : قول الله تعالى: ( كَلاَّ إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ) وسِجِّين الأرض السُّفلى ؛ فالنَّار في الأرض .
وقد رُوِيَ في هذا أحاديثُ ؛ لكنها ضعيفة ، ورُوِيَ آثار عن السَّلف كابن عباس، وابن مسعود ، وهو ظاهر القرآن قال تعالى: ( إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ) الأعراف/40 ، والذين كذَّبوا بالآيات واستكبروا عنها : لا شَكَّ أنهم في النّار " .
انتهى مختصرا من "الشرح الممتع" (3/ 174-175) .

راجع إجابة السؤال رقم : (14526) .
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
جزاک اللہ خیر برادر اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیھقی والی روایت تو ضعیف ہے تو عقائد میں ضعیف روایت کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟پلیز وضاحت کر دیں
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے (١) اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے (٢) اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
اس کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
’’ اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے، یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوسکتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیساکہ مسند احمد، جلد ٢ صفحہ ٣٦٤، ٣٦٥ کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور حافظ عبد السلام بھٹوی فرماتے ہیں :
( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ : یہ پچھلی آیت میں مذکور وعید ’’ پس چکھو عذاب ۔۔ ‘‘ کی کچھ تفصیل ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، جیسا کہ مومن کی روح کے اوپر چڑھنے کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے، مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٨٨، ح : ١٨٥٦١ ]
حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭ: یہ ایک محاورہ ہے جو ایسے کام کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ نہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں۔(تفسیر القرآن الکریم )
جزاک اللہ خیر
بخاری کی ان دونوں احادیث کی شرح بھی بتا دیں پلیز کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی حدیث میں ابواب الجنتہ کے الفاظ ہیں اور دوسری میں اسی کے لئے ابواب السماء کے الفاظ ہیں تو کیا اس سے مراد اعمال ہیں؟کیونکہ آگے کے الفاظ میں جہنم کے دروازوں کے بند ہونے کا بھی ذکر ہے
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
@اسحاق سلفی بھائی
پلیز اسکی وضاحت کر دیجئے کسی محدث کی شرح کے ذریعے
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ
محترم قارئین میں نے یہ سوال عالم دین @رفیق طاھر صاحب سے انکی ویب سائٹ پر بھی کیا تھا جس کا انہوں نے مجھے میل کے ذریعے مندرجہ ذیل جواب دیا ہے اس میں میری اس بات کا کسی حد تک جواب تو ہے مگر مکمل جواب اور وضاحت نہیں ہے انہی سے میں نے دوبارہ سوال کے ذریعے رہنمائی چاہی مگر تا حال جواب نہیں آیا شاید وہ کچھ مصروف ہوں ان کو یہاں بھی ٹیگ کیا ہے تاکہ اگر وہ یہاں تشریف لائیں تو ان سوالوں کے جواب دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں
یا پھر محترم@کفایت اللہ صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ جواب دے دیں۔شکریہ ویسے کفایت اللہ صاحب یہاں پر ٹیگ نہیں ہو سکے۔

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں, پھر آگے بات کریں!
جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔
اللہ � کا فرمان ذی شان ہے :
ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ [التين : 5]
پھر ہم نے اسے نیچوں میں سے سب سے نیچے لوٹا دیا۔
اس آیت مبارکہ سے جہنم کا نیچے ہونا معلوم ہوتا ہے۔
رسول الله ﷺ کافر کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ
حتى کہ اسے آسمان دنیا تک لیجایا جاتا ہے , اسکے لیے دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو کھولا نہیں جاتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے حتى اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔[الأعراف: 40] اللہ� فرماتے ہیں اسکا اندارج سجین میں کردو نچلی زمین میں, تو اسکی روح کو زور سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا , تو اسے پرندوں نے اُچک لیا یا اسے ہوا ہی کسی دور جگہ لے گری۔[الحج: 31] پھر اسکی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔
مسند احمد:18534
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
· دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔
· اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔
· اور اللہ تعالى کے فرمان "انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے" سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ � فرماتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو نبیﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ � اور اسکے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا»
یہ پتھر تھا , جسے ستر سال قبل جہنم میں پھینکا گیا ,تو وہ اب تک جہنم میں گرتا رہا حتى کہ اسکے پیندے میں پہنچ گیا۔
صحیح مسلم: 2844
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم زمین میں ہے, کیونکہ یہ آواز زمین پہ سنی گئی , جسے رسول اللہ ﷺ نے بھی سماعت فرمایا اور آپ کے اصحاب نے بھی۔
سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ
بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔
مستدرک حاکم : 8698
اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔
تنبیہ:
اولا: جن روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات جنت اور جہنم کو دیکھا تویاد رہے کہ ان روایات میں یہ ذکر نہیں کہ جہنم کو آسمانوں میں دیکھا!
البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں جہنم کے عذاب کو زمین پہ دیکھنے کا ذکر موجود ہے:
رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي، فَأَخْرَجَانِي إِلَى الأَرْضِ المُقَدَّسَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، وَرَجُلٌ قَائِمٌ، بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ
میں نے رات کو (خواب میں) دو آدمیوں کو دیکھا, وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدسہ کی طرف لے گئے, تو (میں نے دیکھا کہ) ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اور ایک کھڑا ہے اسکے ہاتھ میں لوہے کے آنکس (درانتی کی طرح مڑے ہوئے چھوٹے چھُرے) ہیں ..... الخ
صحیح البخاری: 1386
اس طویل حدیث میں مختلف لوگوں کے عذاب کا ذکر ہے , ہم نے اسکا ابتدائی حصہ ذکر کرنے پہ اکتفاء کیا ہے کیونکہ ہمارا مستدل اس میں موجود ہے کہ یہ عذاب نبی مکرم ﷺ نے سرزمین مقدس میں ہوتے دیکھا ہے۔ جس سے جہنم کے زمین پر ہونے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ � نے جہنم کو زمین میں دیکھا ہے۔ معراج کی رات بھی آپ ﷺ کو ارض مقدسہ کی طرف لیجایا گیاتھا, تو ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے معراج کی رات بھی جہنم کو سرزمین مقدس میں دیکھا ہو۔
ثانیا: روایات میں "آسمان" مرئی کا محل اور ظرف نہیں بلکہ دیکھنے والے کا ہے۔ جنت اور جہنم کو تو نبی مکرم ﷺ نے زمین پہ رہتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔
رہی یہ بات کہ منکرین حدیث مرنے کے بعد روح کے اسی جسم میں لوٹنے کا انکار کرتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا قرآن کے بر خلاف ہے ۔ اور اسکی دلیل کےطور پر وہ یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں :
وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون:۱۰۰)
اور انکے پیچھے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے ۔
اور یہ آیت پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ روح وبدن کے مابین قیامت تک آڑ ہے لہذا قیامت سے قبل روح بدن میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور اس ضمن میں وہ سنن ابی داود کی حدیث۴۷۵۳جو کہ مسند احمد ۱۸۵۳۴ میں مفصلا ذکر ہوئی ہے , اسکا انکار کرتے ہیں کیونکہ اس میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسمانوں میں کوئی قبر یا برزخ ہے جہاں روحوں کو نئے بدن دے کر انہیں ثواب یا عذاب دیا جاتا ہے ۔
لیکن اللہ تعالى نے کتاب عزیز قرآن مجید فرقان حمید کی یہ خوبی رکھی ہے کہ کوئی بھی باطل پرست اسکی آیات بینات سے اپنا باطل نظریہ ثابت نہیں سکتا۔ اور یہی معاملہ یہاں ہے ۔ اک ذرا غور کرنے سے معاملہ صاف ہو جاتا ہے کہ یہ آیات انکے موقف کے خلاف ہیں , انکے حق میں نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
اللہ کا فرمان ہے : حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں, ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے , ایک پردہ ہے ۔
المؤمنون: 99-100
ان آیات بینات پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالى فرما رہے ہیں "جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے" تو جسے موت آرہی ہے وہ مرنے سے قبل "روح وجسد کا مجموعہ ہے" نہ کہ صرف بدن یا صرف روح !۔ اور پھر فرمایا کہ "وہ کہتا ہے" اب اختلاف یہاں ہے کہ کہنے والا کون ہے؟ روح کہہ رہی ہے یا روح وجسد کا مجموعہ ؟! ادنی تأمل سے بھی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہاں "قال" کا مرجع ہے "أحدھم" اور وہ بالاتفاق روح وبدن کا مجموعہ ہے نہ کہ صرف روح ۔ کیونکہ زندہ انسان روح وجسم کا مرکب ہوتا ہے ۔ تو اس کا صاف معنى بنتا ہے کہ مرنے کے بعد وہی روح وجسد کا مجموعہ جسے موت آئی تھی اللہ سے درخواست کرتا ہے کہ مجھے لوٹا دیجئے ۔ تو جب مرنے کے بعد کہنے والا بھی روح وجسد کا وہی مجموعہ ہے جسے موت آئی تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے تبھی تو وہ روح وجسد کا مجموعہ اللہ کے حضور عرض گداز ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا "قال روحہ ربی ارجعون" بلکہ فرمایا ہے "قال رب ارجعون"...اور روح کو بدن سے جدا کرنے کی یہاں کوئی دلیل موجودنہیں ہے ۔ کیونکہ قال کا مرجع ہی روح وجسد کا مجموعہ ہے ۔ فتدبر !
پھر فرمایا : وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ تو یہاں بھی ورائہم کا مرجع وہی احدھمہی ہے ۔ جسکا معنى صاف ظاہر ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور فیما ترکت کے مابین ایک آڑ ہے, نہ کہ روح وجسد کے درمیان ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ومن وراء أرواحھم یا ومن وراء اجسادھم یا ومن بین ارواحھم واجسادھم نہیں فرمایا ۔ اور یہی بات حدیث نبوی میں ذکر ہوئی ہے " فتعاد روحہ فی جسدہ ".....خوب سمجھ لیں۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
محترم اسحاق سلفی بھائی اور محترم رفیق طاہر صاحب کے جواب میں ایک دلیل مشترک ہے اور وہ بیہقی والی’’ضعیف‘‘روایت سے سجین کا ثابت ہونا،میرا سوال ان دونوں محترم بھائیوں سے یہ ہے کہ پلیز جواب دیجئے کہ عقائد میں ایک ضعیف روایت سے استدلال کیوں کیا جارہا ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم اسحاق سلفی بھائی اور محترم رفیق طاہر صاحب کے جواب میں ایک دلیل مشترک ہے اور وہ بیہقی والی’’ضعیف‘‘روایت سے سجین کا ثابت ہونا،میرا سوال ان دونوں محترم بھائیوں سے یہ ہے کہ پلیز جواب دیجئے کہ عقائد میں ایک ضعیف روایت سے استدلال کیوں کیا جارہا ہے؟
اس لئے کہ :
وروى الحاكم (8698) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ " وصححه الحاكم ووافقه الذهبي
اور امام حاکم نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :جنت آسمان میں ہے ،اور دوزخ زمین میں ہے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی انکی تصحیح میں موافقت فرمائی ۔
 
Top