• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ امام اور علیہ السلام لکھنا شیعیت ہے ؟

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ نے جو آنکهوں کی نعمت آپکو دی هے اسکا حق ادا کردیا ۔ اب سامنے والے کے پاس سوائے فرار کے کوئی راستہ نہ بچا ۔
اللہ آپ سے راضی هو دل سے دعاء نکل رہی هے ۔
میرا مخاطب اب حمزہ صاحب تهے
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
سرخیل اہل حدیث نواب والا جاہ ابو الطیب سید صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے بھی سیدنا حسینؓ کو امام لکھا ہے:
’’بعد قتل امام حسین لشکر بتخریب مدینہ فرستاد۔۔‘‘[بغیۃ الرائد،ص63]
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
دیکھیے بات یہ ہے کہ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کوئی ایسی صریح نص نہیں ملتی کہ انبیاے کرام علیھم السلام یا صحابۂ کرامؓ کے اسماے گرامی کے ساتھ التزاماً کیا الفاظ لکھے جائیں؟نبی اکرم ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ درود لکھا جاتا ہے جب کہ دیگر انبیا کے ناموں کے ساتھ محض سلام پر اکتفا کیا جاتا ہے حالاں کہ غالباً مسلم شریف میں واقعۂ معراج کے ضمن میں موسی ﷺ بھی آیا ہے؛اب اسے بھی کاتب کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ علیہ السلام کا انبیا کے ساتھ مختص ہونا کوئی صریح اجماعی مسئلہ بھی نہیں کہ غیر انبیا کے لیے اس کا استعمال ممنوع ٹھیرایا جائے!
تیسری بات یہ ہے کہ سیدنا علی،جناب فاطمہ اور حضرات حسنین علیھم السلام میں سے ہر ایک کے لیے علیہ السلام یا علیھاالسلام کا اندراج محض صحیح بخاری شریف ہی میں نہیں ہے بل کہ دیگر بے شمار ائمہ محدثین کے یہاں بھی ملتا ہے؛مثلاً امام احمد،حافظ ابن حزم اور امام ابو اسحاق الشیرازی وغیرھم رحمھم اللہ ؛یہ محض یادداشت سے لکھ دیے ہیں اور بھی بہت سے نام ہیں ؛اس لیے اسے کاتبوں کے ذمے لگا کر بات کو اڑا دینا کوئی ٹھوس علمی دلیل نہیں ہے بل کہ ایک احتمال ہے جب تک کہ خود کسی کاتب یا اس مصنف کی صراحت نہ ہو؛اس طرح تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی کے لیے امام ،شیخ الاسلام اور دیگر القاب بھی کاتبوں کی خوش اعتقادی کا نتیجہ ہیں !!اصل یہ ہے کہ انھیں مصنف ہی کی جانب سے خیال کیا جائے گا۔
میں اس باب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ اصل میں کسی مصنف کے ذوق اور میلان طبع پر منحصر ہے کہ وہ کسی برگزیدہ ہستی کے لیے کیا دعائیہ کلمہ پسند کرتا ہے؟پس ہر ایک اپنے رجحان طبع کے مطابق دعائیہ کلمہ لکھ دیتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ ہر امام یا محدث کے یہاں اس کا استعمال نہیں ملتا بل کہ جس نے لکھا ہے اسی کی کتابوں میں ملتا ہے؛جس نے یہ کلمہ استعمال نہیں کیا ،اس کی کتابوں میں یہ مذکور نہیں ۔
اس ضمن میں یہ تحقیق بھی کی جانی چاہیے کہ جس امام نے غیر انبیا کے لیے علیہ السلام لکھا ہے،اس کی مختلف کتابوں میں دیکھا جائے کہ کیا ہر کتاب میں ان کا یہی اسلوب ہے یا ایک آدھ ہی میں ہے؟اگر تو زیادہ یا اکثر کتابوں میں یہ پایا جائے تو بالیقین انھی کا لکھا ہوگا اور اگر ایک آدھ کتاب یا نسخے ہی میں ہو تو پھر یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ شاید کاتب کا تصرف ہو؛گو،حتمی پھر بھی نہیں کہا جا سکتا۔
اور آخری گزارش یہ ہے کہ اس پر اتنا حساس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ہر صحابیؓ کا اپنا مقام ہے؛ہر کوئی صدیق یا فاروق نہیں ؛اسی طرح کرم اللہ وجہہ صرف حضرت علیؓ کے لیے بولا اور لکھا جاتاہے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل بیت کے اسماے گرامی کے ساتھ علیہ السلام تحریر کیا جائے۔
ایک بات جاتے جاتے اور ذہن میں آ گئی کہ مختلف علاقوں کا بھی اپنا عرف اور انداز تعظیم و توقیر ہوتا ہے؛مثلاً ہمارے یہاں صحابہؓ اور علما کے لیے حضرت کا استعمال عام ہے جب کہ عربوں میں ایسا نہیں ؛اسی طرح یہاں مولانا بہ کثرت مستعمل ہے کہ جب کہ وہاں الشیخ زیادہ رائج ہے ؛تو ان باتوں پر چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے اور ہر ایک کو اپنے میلان طبع کے مطابق بولنے اور لکھنے کی آزادی ہونا چاہیے الا یہ کہ اس میں کسی واضح نص یا اجماع کی خلاف ورزی ہو؛ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم
السلام علیکم
جہاں تک میرہ علم ہے اور میری خیال ہے کہ انبیاء ، صحابہ اور بزرگان کے لئے علی الترتیب علیہ السلام ، رضی اللہ اور رحمہ اللہ خود قرآن میں اللہ تعالے نے ہی خاص کئے ہیں
اور جہاں تک مجھے علم ہے اللہ تعالی نے کسی بھی غیر نبی کے سلام کے الفاظ استمعال نہیں کئے یہی قرآن کا اسلوب ہے
ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہئے مزید یہ کہ سیدنا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پھر علیہ السلام کے لئے علی رضہ سے زیادہ حقدار ہیں پتا نہیں آپ کو کس نے منع کیا ہوا ہے ان کو علیہ السلام کہنے سے۔۔۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم
جہاں تک میرہ علم ہے اور میری خیال ہے کہ انبیاء ، صحابہ اور بزرگان کے لئے علی الترتیب علیہ السلام ، رضی اللہ اور رحمہ اللہ خود قرآن میں اللہ تعالے نے ہی خاص کئے ہیں
اور جہاں تک مجھے علم ہے اللہ تعالی نے کسی بھی غیر نبی کے سلام کے الفاظ استمعال نہیں کئے یہی قرآن کا اسلوب ہے
ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہئے مزید یہ کہ سیدنا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پھر علیہ السلام کے لئے علی رضہ سے زیادہ حقدار ہیں پتا نہیں آپ کو کس نے منع کیا ہوا ہے ان کو علیہ السلام کہنے سے۔۔۔
اس کی دلیل عنایت فرما دیں کتاب اللہ سے؛جزاکم اللہ
اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ مجھے دیگر صحابہؓ کو علیہ السلام کہنے سے کس نے روکا ہے ؟
تو عرض ہے کہ مجھے کسی نے روکا ہے نہ ہی لازم کیا ہے بل کہ اس معاملے میں اختیار ہے کہ میں جو چاہوں دعائیہ کلمہ استعمال کروں؛جزاکم اللہ خیراً
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
اللہ تعالی نے سورہ الصافات مین کچھ انبیاء کو سلام کئے ہیں اور پھر اخیر میں تمام انبیاء کو سلام کیا ہے اس سے زیادہ کون سا دلیل ہے کہ انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہونا چاہئے کیوں کہ ان پر خود اللہ تعالی نے ہی سلام کئے ہیں
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ( 79 )

یعنی) تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ( 109 )
کہ ابراہیم پر سلام ہو

سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ( 120 )
کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ( 130 )
کہ اِل یاسین پر سلام

اور اللہ تعالی نے سورہ الصافات کا اختتام بھی انبیاء سلام بھیج کر کیا پے اور اس تمام انبیاء کو شامل کرلیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ سلام صرف مخصوص انبیاء کو کیا گیا ہے۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ( 181 )

اور پیغمبروں پر سلام

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( 182 )

اور سب طرح کی تعریف خدائے رب العالمین کو (سزاوار) ہے


انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہے آپ اس کو کسی بھی غیر نبی کے لئے استمعال نہیں کر سکتے۔

ہاں رضی اللہ عنہ اور رحمہ اللہ پر اختلاف ضرور ہے کچھ علماء تابعین و محدیثین کے لئے بھی رضی اللہ عنہ استعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ قرآن کریم نے رضی اللہ عنہ جماعت صحابہ کے لئے استعمال کیا ہے اس لئے میں اس خیال کا ہوں صحابہ کے لئے ہین رضی اللہ عنہ لکھا جائے باقی صلحاء امت کے لیے رحمہ اللہ ہی صحیح ہے

اسسے نہ صرف نبی غیر نبی اور صحابہ غیر صحابی کی تفریق ہوجاتی ہے بلکہ نبی اور غیر نبی کا مقام و مرتبہ میں بھی فرق آجاتا ہے ۔۔ شیعہ تو چونکہ اماموں کو معصوم اور وحی کا آنا ان پر حلال مانتے ہیں اس لیے وہ ضرور بل ضرور علیہ السلام لکھتے ہیں ۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم
اللہ تعالی نے سورہ الصافات مین کچھ انبیاء کو سلام کئے ہیں اور پھر اخیر میں تمام انبیاء کو سلام کیا ہے اس سے زیادہ کون سا دلیل ہے کہ انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہونا چاہئے کیوں کہ ان پر خود اللہ تعالی نے ہی سلام کئے ہیں
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ( 79 )

یعنی) تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ( 109 )
کہ ابراہیم پر سلام ہو

سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ( 120 )
کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ( 130 )
کہ اِل یاسین پر سلام

اور اللہ تعالی نے سورہ الصافات کا اختتام بھی انبیاء سلام بھیج کر کیا پے اور اس تمام انبیاء کو شامل کرلیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ سلام صرف مخصوص انبیاء کو کیا گیا ہے۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ( 181 )

اور پیغمبروں پر سلام

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( 182 )

اور سب طرح کی تعریف خدائے رب العالمین کو (سزاوار) ہے


انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہے آپ اس کو کسی بھی غیر نبی کے لئے استمعال نہیں کر سکتے۔

ہاں رضی اللہ عنہ اور رحمہ اللہ پر اختلاف ضرور ہے کچھ علماء تابعین و محدیثین کے لئے بھی رضی اللہ عنہ استعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ قرآن کریم نے رضی اللہ عنہ جماعت صحابہ کے لئے استعمال کیا ہے اس لئے میں اس خیال کا ہوں صحابہ کے لئے ہین رضی اللہ عنہ لکھا جائے باقی صلحاء امت کے لیے رحمہ اللہ ہی صحیح ہے

اسسے نہ صرف نبی غیر نبی اور صحابہ غیر صحابی کی تفریق ہوجاتی ہے بلکہ نبی اور غیر نبی کا مقام و مرتبہ میں بھی فرق آجاتا ہے ۔۔ شیعہ تو چونکہ اماموں کو معصوم اور وحی کا آنا ان پر حلال مانتے ہیں اس لیے وہ ضرور بل ضرور علیہ السلام لکھتے ہیں ۔۔۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

جزاک الله - بلکل صحیح فرمایا آپ نے - میں بھی اس تھریڈ کے حوالے سے یہی سوره الصافات کا حوالہ دینا چاہتا تھا- لیکن آپ بازی لے گئے -(ابتسامہ)-
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم
اللہ تعالی نے سورہ الصافات مین کچھ انبیاء کو سلام کئے ہیں اور پھر اخیر میں تمام انبیاء کو سلام کیا ہے اس سے زیادہ کون سا دلیل ہے کہ انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہونا چاہئے کیوں کہ ان پر خود اللہ تعالی نے ہی سلام کئے ہیں
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ( 79 )

یعنی) تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ( 109 )
کہ ابراہیم پر سلام ہو

سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ( 120 )
کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام

سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ( 130 )
کہ اِل یاسین پر سلام

اور اللہ تعالی نے سورہ الصافات کا اختتام بھی انبیاء سلام بھیج کر کیا پے اور اس تمام انبیاء کو شامل کرلیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ سلام صرف مخصوص انبیاء کو کیا گیا ہے۔

وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ( 181 )

اور پیغمبروں پر سلام

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( 182 )

اور سب طرح کی تعریف خدائے رب العالمین کو (سزاوار) ہے


انبیاء کے لئے علیہ السلام ہی مخصوص ہے آپ اس کو کسی بھی غیر نبی کے لئے استمعال نہیں کر سکتے۔

ہاں رضی اللہ عنہ اور رحمہ اللہ پر اختلاف ضرور ہے کچھ علماء تابعین و محدیثین کے لئے بھی رضی اللہ عنہ استعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ قرآن کریم نے رضی اللہ عنہ جماعت صحابہ کے لئے استعمال کیا ہے اس لئے میں اس خیال کا ہوں صحابہ کے لئے ہین رضی اللہ عنہ لکھا جائے باقی صلحاء امت کے لیے رحمہ اللہ ہی صحیح ہے

اسسے نہ صرف نبی غیر نبی اور صحابہ غیر صحابی کی تفریق ہوجاتی ہے بلکہ نبی اور غیر نبی کا مقام و مرتبہ میں بھی فرق آجاتا ہے ۔۔ شیعہ تو چونکہ اماموں کو معصوم اور وحی کا آنا ان پر حلال مانتے ہیں اس لیے وہ ضرور بل ضرور علیہ السلام لکھتے ہیں ۔۔۔
ماشاءاللہ آپ نے دلائل پیش کیے لیکن گزارش ہے کہ اس سے آپ کا مدعا ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ سلام صرف پیغمبروں کے لیے خاص ہے!
دیکھیے سورت نمل میں فرمایا:
وسلٰم علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ(آیت:59)
”اور سلام ہو ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔“
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے بہ قول اس میں چنیدہ بندوں سے مراد صحابۂ کرامؓ ہیں
اب اگر آپ کی منطق کو لیا جائے تو یہاں صرف انبیا ہی مراد ہونے چاہییں جب کہ ایسا نہیں ہے اور جلیل القدر مفسر اور صحابیِ رسول نے یہاں غیر انبیا مراد لیے ہیں؛پس آپ کا دعویٰ درست ثابت نہ ہوا۔
اسی طرح ہر نماز میں ہم پڑھتے ہیں:السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین۔۔یعنی سلام ہو ہم پر اور خدا کے نیک بندوں پر
اس سے بھی سلام کے انبیا علیھم السلام کے ساتھ خاص ہونے کی نفی ہوتی ہے۔
امید ہے غور فرمائیں گے؛والسلام علیکم(ویسے کیا آپ کو سلام کہہ سکتا ہوں؟؟ابتسامہ)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
بر صغیر میں اہل حدیث کے جلیل القدر عالم ،عظیم مفسر اور شہرۂ آفاق مناظر مولانا ثناء اللہ امرت سری قدس اللہ روحہ (جنھیں اہل حدیث شیخ الاسلام کے پر شکوہ لقب سے یاد کرتے ہیں) بھی سیدنا حسینؓ کو امام اور علیہ السلام کہنے کو جائز ٹھیراتے ہیں؛چناں چہ لکھتے ہیں:
امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک اندوہ ناک واقعہ ہے۔
اور ان کے فتاویٰ کے مرتب و مدون مولانا داود راز رحمہ اللہ بھی اس کو برقرار رکھتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی اس کے جواز کے قائل ہیں؛الحمدللہ(فتاویٰ ثنائیہ،جلد اول،ص368)
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
بر صغیر میں اہل حدیث کے سر گروہ شیخ الکل فی الکل الامام المحدث السید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نےسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوامام حسین لکھا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ،جلداول256)
اسی طرح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ بھی امام تحریر کیا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ،جلد سیوم،ص452)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اسسے نہ صرف نبی غیر نبی اور صحابہ غیر صحابی کی تفریق ہوجاتی ہے بلکہ نبی اور غیر نبی کا مقام و مرتبہ میں بھی فرق آجاتا ہے ۔۔ شیعہ تو چونکہ اماموں کو معصوم اور وحی کا آنا ان پر حلال مانتے ہیں اس لیے وہ ضرور بل ضرور علیہ السلام لکھتے ہیں ۔۔۔
آپ نے کہیں لکھا ہے کہ جناب حنفی ہیں ؛اگرجناب علماے دیوبند سے انتساب رکھتے ہیں تو عرض ہے کہ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اگرچہ علیہ السلام تو شایدنہیں لکھا لیکن انھیں امام کے لقب سے ضرور پکارا ہے!ملاحظہ ہو ان کا رسالہ جس کا عنوان ہے:در تحقیق شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ و کردار یزید
(یہ ان کے ایک فارسی مکتوب کا ترجمہ ہے جو مولانا انوار الحسن شیرکوٹی نے کیا ہے اور اس پر مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مرحوم نے تقریظ لکھی ہے؛شایع کردہ:تحریک خدام اہل سنت والجماعت،لاہور)
 
Top