ایک مثال
اگرثقہ رواۃ کی سند سے کسی روایت میں یہ آگیا کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بد دعاکرتے تھے تو یہ تعجب کی بات نہیں ہے۔
کیونکہ ثقہ رواۃ ہی کی سند سے ایک روایت ایسی بھی ہے جس میں یہ آگیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بلکہ ان کے والد اور ان کے بھائی پر بھی لعنت کی ملاحظہ ہو:
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق
سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اونٹ پر
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا گذرہوا ان کے ساتھ
معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے ایک بھائی تھے۔ان میں سے ایک اونٹ کوچلارہاتھا اور دوسرا ہانک رہا تھا۔تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہوسواری اور سوار پر نیز چلانے والے اور ہانکنے والے پر [أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات]
ملاحظہ فرمائیے اس کے ساری راوی ثقہ ہیں ۔
لیکن اصل مدعا پر آنے سے قبل مناسب ہے کہ ایک بے جان شبہہ کا ازالہ کردیا جائے ۔
ایک شبہ کا ازالہ
اسی فورم پر ایک صاحب نے حدیث خلافت تیس سال والے میرے مضمون پر اعتراض کے ضمن میں اس روایت کے بارے میں لکھا ہےکہ
امام بلاذری کا استاذ خلف کون ہے یہ پتہ نہیں ۔
حالانکہ امام بلاذری کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کا نام ملتا ہے ۔
اور امام بلاذری نے اپنی اس کتاب میں پچاس (50) مقامات پر اپنے اس شیخ کا نام مع والد (خلف بن هشام) لکھا ہے ۔
اور بتیس (32) مقامات پر لقب(البزار)کے ساتھ (خلف بن هشام البزار) لکھا ہے۔
پھر بھی کوئی کہے کہ خلف کا اتا پتہ نہیں تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ موصوف نے کہا کہ خلف کا تذکرۃ عبدالوارث کے تلامذہ میں نہیں ملتا اور عبدالوارث کے تلامذہ میں خلف کا تذکرہ نہیں ملتا۔
اوراس بنا پرموصوف نے خلف کو غیر معلوم کہنے کی کوشش کی ۔
عرض ہے کہ کیا اسی منطق سے عبدالوارث بن سعید کو بھی غیر معلوم کہہ دیا جائے ؟
یہی کہتے ہوئے کہ عبدالوارث کے تلامذہ میں خلف کا ذکر نہیں ملتا اور خلف کے تلامذہ میں عبدالوارث کا ذکر نہیں ملتا؟؟
اگرکہا جائے کہ عبدالوارث کے استاذ جو سعید ہیں ان سے عبدالوارث کا تعین ہوجاتا ہے کیونکہ سعید کے تلامذہ میں عبدالوارث کا ذکر ملتا ہے تو تو ٹھیک اسی طرح خلف کے جو شاگرد امام بلاذری ہیں ان سے بھی خلف کا تعین ہوجاتا ہے کیونکہ امام بلاذی کے اساتذہ میں خلف بن ھشام کا تذکرہ ملتا ہے دیکھئے: [سير أعلام النبلاء ط الرسالة 13/ 162 ]
لہٰذا جب خلف کے شاگرد سے خلف کا تعین ہوگیا اور عبدالوارث کے استاذ سے عبدلوارث کا تعین ہوگا ۔اوران دونوں کے بیچ صیغہ تحدیث ہے جو خود ان دونوں کے بیچ شاگرد واستاذ کے رشتہ کی صریح دلیل ہے تو اب الگ سے ان کے بیچ اس رشتہ کے کہیں اور تذکرہ کی تلاش کی ضرورت کیوں پڑی ؟
اگران دونوں کے بیچ عن کا صیغہ ہوتا تو ایک شبہ ہوسکتا تھا کہ ان دونوں کی آپس میں ملاقات ہے یا نہیں اور یہ شبہہ بھی معاصرت کے ثبوت کے بعد زائل ہوجاتا لیکن جب اس سند میں واضح طور دونوں کے بیچ سماع کی صراحت موجود ہے تو اب مزید قیل وقال کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
اور ماتم تو یہ ہے کہ آنکھوں کے سامنے سند کے اندر ہی یہ رشتہ ثابت ہوجانے کے بعد یہ حضرت الگ سے قیل و قال تلاش کررہے ہیں حالانکہ یہ قیل و قال اس طرح کی دلیل دیکھ کر ہی صادر ہوتے ہیں تو جب سامنے صریح دلیل موجود ہے تو صریح دلیل کے ہوتے ہوئے اس کے مطابق کسی فتوی کی تلاش کیوں ؟
یہ تو ایسے ہی ہوا کہ کوئی صحیح اور صریح حدیث مل جائے تو یہ کہا جائے کہ اس کے مطابق کسی نے فتوی نہیں دیا اس لئے اس صریح دلیل کو نہیں مانا جائے گا ۔اس بابت قدرے تفصیل ہماری کتاب انوار البدر کے اخیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔
علاوہ بریں یہ بات بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اساتذہ اورتلامذہ کے رشتوں کے بیان کرنے میں کسی نے استیعاب کا دعوی نہیں کیا ہے بلکہ کسی نے استیعاب کی کوشش بھی نہیں کی ہے ۔اور یہ ممکن بھی نہیں ہے حافظ مغلطاي (المتوفى: 762) یہی بات واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأن لا أستوعب شيوخ الرجل وزيادة على ما ذكره الشيخ، ولا الرواة إلا قليلا بحسب النشاط وعدمه، لئلا يعتقد معتقد أن الشيخ رحمه الله تعالى استوفى في جميع ذلك، ويعلم أن الإحاطة متعذرة ولا سبيل إليها
اس کتاب (إكمال تهذيب الكمال) میں میری شرط یہ ہے کہ میں کسی راوی کے تمام اساتذہ وتلامذہ کا استیعاب نہیں کروں گا اور نہ شیخ مزی کی ذکر کردہ فہرست پر اضافہ کروں گا البتہ بسا اوقات حسب نشاط بعض کا ذکر کردوں گا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ شیخ مزی رحمہ اللہ نے تمام اساتذہ و تلامذہ کا استعیاب کرلیا ہے اور یہ جان لے کہ یہ استیعاب محال وناممکن ہے اسے انجام دینے کی کوئی سبیل نہیں ہے[إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 1/ 5]
معلوم ہوا کہ کسی بھی محدث نے کسی راوی کے تلامذہ یا اساتذہ کے ذکرنے میں استیعاب کا دعوی نہیں کیا ہے ۔نیز کسی نے جو مختصر فہرست پیش بھی کی تو مشہور مصنفات حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کی ہے نہ کہ اس کے لئے کتب انساب اور کتب تاریخ کو بھی کھنگال ڈالا ہے ۔
اس لئے کتب انساب وغیرہ میں تلامذہ و اساتذہ کے ایسے رشتہ بھی سامنے آسکتے ہیں جن کا تذکرہ کسی محدث نے نہیں کیا بلکہ کتب حدیث میں بھی ایسے رشتے سامنے آتے رہتے ہیں اورکوئی بھی صاحب علم ان رشتوں کا انکار نہیں کرتا۔ فتدبر۔
اور موصوف معترض نے ایک بات تو بالکل متعصب تقلیدیوں جیسی کہہ ڈالی اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ لکھا کہ :
((اسی کے طبقے میں ایک خلف اور ہے اور وہ خلف بن خلیفہ بن صاعد بن برام الاشجعی ہے جس کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا))
عرض ہے کہ اس پر مجھے تقلیدیوں کا وہ اعتراض یاد آگیا جو وہ مسند احمد میں موجود سینے پر ہاتھ باندھنے والی سند پر کرتے ہیں چنانچہ اس سند میں امام احمد کے استاذ اور سفیان ثوری کے شاگر کی جگہ یحیی بن سعید کا ذکر ہے ۔اس پر تقلیدی کہتے ہیں کہ اس طبقہ میں چار یحیی بن سعید ہیں بعض ضعیف ہے ۔اس لئے کیسے معلوم ہوگا کہ یہاں کون ہے ؟
اب بتلائے کہ اس طبقہ میں چار یحیی بن سعید ہونے کا یہ مطلب کیسے ہوگا کہ یہ چاروں امام احمد کے استاذ بھی ہوسکتے ہیں ؟ کیا امام احمد کی سندوں میں بھی ان کے اساتذہ کی جگہ پر ان چاروں کا نام آیا ہے؟ یا کتب رجال ان چاروں کو امام احمد کے اساتذہ میں گنایا گیا ہے؟؟ اگر نہیں تو ظاہرہے کہ یہاں وہی یحیی ہیں جو امام احمد کے استاذ ہیں ۔تفصیل میری کتاب انوار البدر میں ہے۔
ٹھیک اسی طرح یہاں بھی اس طبقہ میں بھی ایک اور خلف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خلف امام بلاذری کا استاذ بھی ہوگا ۔اس لئے یہاں وہی خلف مراد ہوگا جو امام بلاذری کا استاذ ہے۔اورامام بلاذری کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کاذکر ان کی کتاب میں ملتا ہے اور کتب رجال میں بھی ان کے اساتذہ میں صرف ایک ہی خلف کا ذکرکیا ہے اور وہ ہیں خلف بن ھشام دیکھئے: [سير أعلام النبلاء ط الرسالة 13/ 162 ]
عود الی المقصود:
بہرحال اوپر بلاذری کی جو روایت پیش کی گئی ہے اس کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں ۔
لیکن بعض حضرات ثقہ رواۃ والی اس روایت میں امیر معاویہ اور ان کے والد کے نام کے ذکر کو صحیح نہیں مانتے اس کی وجہ یہ بتلاتے کہ امام بزار نے اسی روایت کو بیان کیا تو ان کی روایت میں یہ نام نہیں چنانچہ :
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا السكن بن سعيد ، قال : حدثنا عبد الصمد ، قال : حدثنا أبي.وحدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر رجل على بعير وبين يديه قائد وخلفه سائق ، فقال : لعن الله القائد والسائق والراكب.[مسند البزار: 9/ 286]
حالانکہ اس روایت میں امام بزار کے شیخ السکن بن سعید غیرمعروف ہیں کسی نے بھی ان کو ثقہ نہیں کہا ہے ۔
امام ہیثمی نے یہ روایت نقل کرکے یہ ضرور کہا ہے کہ :
رواه البزار، ورجاله ثقات[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 1/ 113]
لیکن خود امام ہیثمی نے ہی دوسری جگہ کہہ دیا:
و
شيخ البزار السكن بن سعيد ولم أعرفه[مجمع الزوائد للهيثمي: 7/ 111]
اس سے معلوم ہوا کہ السکن بن سعید امام ہیثمی کی نزدیک بھی غیرمعروف ہے ۔اور اجتماعی ثوثیق میں ان سے وہم ہوا ۔
یعنی بزار والی یہ روایت سندا ضعیف ہی ہے ۔
اب غور کریں کہ جب ضعیف سند والی روایت میں نام ذکر نہ ہونے سے بعض لوگ ثقہ رواۃ والی سند میں نام کے ذکر کئے جانے کو غلط بتلاتے ہیں ۔
تو پھرمصنف ابن ابی شیبہ کی ثقہ رواۃ والی سند میں امیر معاویہ کے نام کے تذکرے کو غلط کیوں نہ کہا جائے جبکہ اس کے برخلاف کئی ثقہ والی روایت میں امیر معاویہ کے نام کا تذکرۃ نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں تو نام کا تذکرۃ نہ کرنے والئے متقنین ائمہ حدیث میں سے ہیں ۔
واضح رہے کہ بزار والی روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود بھی ہمارے نزدیک بلاذری کی ثقہ رواۃ والی روایت دیگر علل کے سبب ثابت نہیں ہے اس کی تفصیل ہم نے حدیث خلافت تیس سال والی روایت کی تحقیق میں پیش کردی ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت امیر معاویہ کے ذکر کے ساتھ شاذ یعنی ضعیف ہے ۔