• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت عمار بن یاسرؓ کا قاتل صحابی رسولﷺ تھا تفضیلیوں اور روافض کے باطل اعتراضات اور انکا مدلل

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
حضرت ابو غادیہ کو قاتل عمار بن یاسر بیان کرنے والے ساری روایات ضعیف ، ہیں اور ابو غادیہ قتل عمار سے بری ہیں

(تحقیق: بقلم اسد الطحاوی)




حضرت عمار بن یاسر کا قاتل کون تھا یہ روایت بنیادی طور پر جتنی بھی اسناد سے مروی ہیں انکا مرکزی راوی کثیر بن جبر ہے


اور کثیر بن جبر سے بیان کرنے والا ایک اسکا بیٹا ہے
اور ایک ابن عون راوی ہے
جبکہ کثیر بن جبر سے اسکے بیٹے کی روایت جو سند متصل رجال ثقات سے مروی ہے جسکو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا اسکا متن کچھ یوں ہے


5658 – حدثنا أبو جعفر محمد بن صالح بن هانئ، ثنا السري بن خزيمة، ثنا مسلم بن إبراهيم، ثنا ربيعة بن كلثوم، حدثني أبي قال: كنت بواسط القصب في منزل عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر، قال الآذن: هذا أبو غادية الجهني يستأذن، فقال عبد الأعلى: أدخلوه، فأدخل وعليه مقطعات، فإذا رجل طوال ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة، فلما قعد، قال: «كنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا» قال: «فوالله إني لفي مسجد قباء إذا هو يقول - وذكر كلمة - لو وجدت عليه أعوانا لوطئته حتى أقتله» قال: «فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى كان بين الصفين طعن رجلا بالرمح، فصرعه، فانكفأ المغفر عنه، فضربه فإذا رأس عمار بن ياسر» ، قال: يقول مولى لنا: لم أر رجلا أبين ضلالة منه


[التعليق - من تلخيص الذهبي] 5658 - سكت عنه الذهبي في التلخيص
)مستدرک الحاکم علی صحیحین ، روایت نمبر 5658)


ترجمہ:
ربعہ بن کلثوم اپنے والد (کلثوم بن جبر) سے بیان کرتے ہیں (وہ فرماتے ہیں) میں واسط القصب (نامی شہر) میں عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عامر کے گھر تھا ، اجازت لینے والے نے کہا : ابو غادیہ جہنی اندر آنے کی عجازت مانگ رہا ہے ، عبدالاعلیٰ نے کہا : اسکو اندر آنے کی اجازت دے دو ، وہ اندر آئے ، اس وقت انہوں نے تنگ کپڑے پہنے ہوئے تھے ، وہ انتہائی دراز قد آدمی تھے وہ تو اس امت کا فرد نہیں لگتے تھے (دراز قد اتنا تھا )
جب اندر آکر بیٹھ گئے تو کہنے لگے : ہم عمار بن یاسر کو سب سے معتبر اور نیک جانتے ہیں
خدا کی قسم! میں مسجد قباء میں تھا وہ (عمار بن یاسر ) باتیں کر رہا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی اللہ کی قسم!
اگر کبھی مجھے اس پر غلبہ بلا تو میں اس کو روند ڈالوں گا ، حتی کہ ان کو قتل کر ڈاوں گا
پھر جب جنگ صفین شروع ہوئی تو لشکر کی پہلی جماعت پیدل چلتے ہوئے آئی ، یہاں تک کہ وہ صفین کے درمیان پہنچ گئے ،
ایک آدمی (مجہول) نے ان(عمار بن یاسر ) کو نیزہ مارا جسکی وجہ سے وہ گر گئے ، ان کے خود نیچے گرا،
جب دیکھا تو حضرت عمار بن یاسر کا سر تھا
راوی کہتے ہیں : آقا کہا کرتے تھے کہ میں نے اس آدمی (جس مجہول نے نیزہ مار کر قتل کیا عمار بن یاسر کو ) اس سے زیادہ گمراہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔۔۔


تبصرہ:
اس پورے واقعہ میں ابو غادیہ نے بیان کیا ہےاپنی زبان سے کہ عمار بن یاسر کو قتل کرنے کا میں نے سوچا تھا جب یہ مسجد قباء میں باتیں کر رہاتھا
لیکن جنگ صفین میں ایک آدمی نے انکو نیزہ مار کر ہلاک کیا


تو عمار بن یاسر کہاں سے قاتل بن گئے ؟؟؟؟؟؟


اس روایت کی سند متصل ثقات جید راویوں پر مشتمل ہے
سند کی تحقیق درج ذیل ہے :


۱۔ سند کا پہلا راوی:


ابْن هَانِئ، أَبُو جَعْفَر الْوراق النَّيْسَابُورِي.
ثِقَة، ثَبت، أحد المكثرين.
سمع الحَدِيث الْكثير بنيسابور، وَلم يسمع بغَيْرهَا وَلَا حَدِيثا، وَلم يكن بعد أَن ضعف يصبر عَن حُضُور الْمجَالِس، وَكَانَ يفهم ويحفظ، وَكَانَ صبورا على الْفقر
(تاریخ النیسابور ، الحاکم ص ،415)


امام حاکم فرماتے ہیں اپنی تصنیف تاریخ نیشاپور میں کہ بن ھانی ابو جعفر الوراق ثقہ ثبت تھے محدثین میں میں نے نیشاپور میں ان سے کثرت سے روایت سنی ہیں ۔۔


امام ابن کثیر الدمشقی محدث فرماتے ہیں :


محمد بن صالح بن هانئ أبو جعفر الوراق النيسابوري


أحد العباد الثقات الأجواد، سمع الحديث بنيسابور، ولم يسمع بغيرها، ومن مشايخه: أبو زكريا يحيى بن محمد بن يحيى الشهيد , ولازمه مدة طويلة , وسمع السري بن خزيمة، والحسين بن الفضل، ومحمد بن إسحاق بن الصباح، وغيرهم، وروى عنه: الشيخ أبو بكر بن إسحاق، وأبو علي الحافظ، وأبو إسحاق المزكي، وغيره من المشايخ، ومصنفات الحافظ أبي أحمد مشحونة بالرواية عنه، وكان صبورا متعففا أثنى عليه الحاكم، وابن الصلاح، ولما مات صلى عليه أبو عبد الله محمد بن يعقوب بن الأخرم، وأثنى عليه بعد دفنه، وذكر أنه صحبه مدة طويلة نحوا من سبعين سنة فما رآه أتى شيئا لا يرضاه الله، عز وجل،
ولا سمع منه شيئا يسأل عنه، رحمه الله،
وكانت وفاته في سلخ ربيع الأول سنة أربعين وثلاث مائة.
(طبقات الشافعيين، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774ه
ـ


کہ یہ ثقات محدثین میں سے تھے اور آگے انکی مداح بیان کی


اسکے بعد امام ابن صلاح بیان کرتے ہیں :
(28 - مُحَمَّد بن صَالح


ابْن هَانِئ، أَبُو جَعْفَر الْوراق النَّيْسَابُورِي.
ثِقَة، ثَبت، أحد المكثرين.
سمع الحَدِيث الْكثير بنيسابور، وَلم يسمع بغَيْرهَا وَلَا حَدِيثا، وَلم يكن بعد أَن ضعف يصبر عَن حُضُور الْمجَالِس، وَكَانَ يفهم ويحفظ، وَكَانَ صبورا على الْفقر، لَا يَأْكُل إِلَّا من كسب يَده.
(طبقات الفقهاء الشافعية، عثمان بن عبد الرحمن المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643ه
ـ)


اور امام ذھبیؒ نے متعدد جگہ پے تلخیص میں اسکی روایات کے بارے میں حکم لگایا روایہ ثقات اور شرط علی مسلم
مثلا روایت نمبر ۵، ۹۹، وغیرہ پے دیکھا جا سکتا ہے


[التعليق - من تلخيص الذهبي] 5 - رواته ثقات
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 99 - على شرط مسلم


سند کا دوسرا راوی: السری بن خذیمہ


امام ذھبی انکی توثیق فرماتے ہیں کہتے ہیں الحافظ الحجت
اور امام حاکم سے شیخ ثقہ کی تو ثیق بھی بیان کرتے ہیں


128 - السري بن خزيمة بن معاوية الأبيوردي
الإمام، الحافظ، الحجة، أبو محمد الأبيوردي، محدث نيسابور.
سمع في الرحلة من: أبي عبد الرحمن المقرئ، وأبي نعيم، وعبدان بن عثمان، ومسلم بن إبراهيم، ومحمد بن الصلت، وطبقتهم.
حدث عنه: أبو بكر بن خزيمة، وإبراهيم بن أبي طالب، وأبو حامد بن الشرقي، ومحمد بن صالح بن هانئ، والحسن بن يعقوب، وعدد كثير.
قال الحاكم: هو شيخ فوق الثقة، ورد نيسابور سنة سبعين ومائتين،


(سير أعلام النبلاء)
تسیرا راوی: مسلم بن ابراھیم


امام ابن ابی حاتم اسکی توثیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے امام یحییٰ بن معین (متشدد امام) نے روایت کیا ہے
(اور امام ابن حجر ایک راوی کی توثیق میں یہ کہتے ہیں امام ابن معین کا ان سے روایت کرنا راوی کی توثیق کے لیے کافی ہے )


اور امام ابن خثیمہ امام یحییٰ بن معین سے بیان کرتے ہیں کہ مسلم بن ابراھیم ثقہ مامون ہے
(ثقہ مامون اعلیٰ درجے کی توثیق ہے )


اور امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے والد سے پوچھا فرمایا صدوق ہے


- مسلم بن ابراهيم أبو عمرو الشحام.
ويقال القصاب، مولى فراهيد الاسدي، بصري روى عن ابن عون وقرة بن خالد وابن ابى عروبة وابى خلدة وشعبة وهشام الدستوائى سمعت أبي يقول ذلك.
قال أبو محمد روى عنه يحيى بن معين ومحمد بن بشار ومحمد بن المثنى ومحمد ابن يحيى النيسابوري وابى.
نا عبد الرحمن أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما
كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: مسلم بن ابراهيم ثقة مأمون نا عبد الرحمن قال سألت أبي عن مسلم بن إبراهيم فقال: ثقة صدوق.
(الجرح والتعديل،ابی حاتم)


امام ذھبی انکی توثیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الحافظ الثقہ
75 - مسلم بن إبراهيم أبو عمرو الأزدي * (ع)
الإمام، الحافظ، الثقة، مسند البصرة، أبو عمرو الأزدي، الفراهيدي مولاهم، البصري، القصاب.
ولد: في حدود الثلاثين ومائة.
وحدث عن: عبد الله بن عون يسيرا.
(سير أعلام النبلاء)


اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو غادیہؓ نے عمار بن یاسرؓ کو قتل نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو یہ گواہی دی کہ انکی نظر میں عمار بن یاسر بائث رحمت تھے لیکن انہوں نے مسجد قباء میں خلیفہ سوم عثمانؓ کے بارے میں کچھ ایسا فرمایا کہ جس کی وجہ سے میں نے اللہ سے کہا کہ مجھے جب بھی موقع ملا تو انکو قتل کرونگا لیکن وہ صاف اور صریح بیان کرتے ہیں کہ انکو ایک شخص نے نیزا مار کر گرایا اورجب دیکھا گیا تو وہ شہید ہونے والے عمار بن یاسر تھے
یہی روایت امام ابن سعد نے بھی بیان کی ہے
لیکن انکی بیان کردہ سند میں ربیعہ بن کلثوم سے بیان کرنے والا فقط مسلم بن ابراھیم نہیں بلکہ ابن سعد نے تین رواتہ کا ذکر کیا ہے
یعنی ربیعہ بن کلثوم سے بیان کرنے والے تین راوی یہ ہیں
۱۔عفان بن مسلم (ثقہ ہے پر اختلاط کا شکار ہو گئے تھے عمر کے آخری حصے میں تو اولیٰ یہ ہے کہ انکی روایت خاص کسی ثقہ جسکو اختلاط نہ ہوا ہو اسکے مقابلے میں رد ہوگی )
۲۔مسلم بن ابراہیم
(جن سے مروی روایت مستدرک سے اوپر بیان کر آئے ہیں جس میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ ابو غادیہ نے عمار بن یاسر کو شہید کیا ہو بلکہ یہ تصریح ہے کہ ابو غادیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر کو نیزہ مار کر شہید کیا )
۳۔ موسیٰ بن اسماعیل
(یہ ثقہ ثبت ہیں )


تو امام ابن سعد کی روایت میں جو متن منکر ہے جو مسلم بن ابراہیم کی روایت کے بالکل خلاف ہے عفان بن مسلم کی وجہ سے یہی متن منکر آیا ہے جسکے اختلاط نے قاتل عمار بن یاسر کا قاتل ابو غادیہ کو بنا دیا اور متن بھی بگاڑ دیا جیسا کہ ابن سعد کی روایت یوں ہے :


قال: أخبرنا **عفان بن مسلم،** ومسلم بن إبراهيم، وموسى بن إسماعيل، قالوا: أخبرنا ربيعة بن كلثوم بن جبر قال: حدثني أبي قال: " كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر، فقلت: الإذن، هذا أبو غادية الجهني، فقال عبد الأعلى: أدخلوه، فدخل عليه مقطعات له، فإذا رجل طوال، ضرب من الرجال، كأنه ليس من هذه الأمة، فلما أن قعد قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: بيمينك، قال: نعم، وخطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم العقبة، فقال: «يا أيها الناس، ألا إن دماءكم وأموالكم حرام عليكم إلى أن تلقوا ربكم كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، ألا هل بلغت؟» ، فقلنا: نعم، فقال: «اللهم اشهد» ، ثم قال: «ألا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض» . قال: ثم أتبع ذا فقال: إنا كنا نعد عمار بن ياسر فينا حنانا، فبينا أنا في مسجد قباء إذ هو يقول: ألا إن نعثلا هذا لعثمان، فالتفت فلو أجد عليه أعوانا لوطئته حتى أقتله، قال: قلت: اللهم إنك إن تشأ تمكني من عمار، فلما كان يوم صفين أقبل يستن أول الكتيبة رجلا، حتى إذا كان بين الصفين فأبصر رجل عورة فطعنه في ركبته بالرمح، فعثر فانكشف المغفر عنه، فضربته فإذا رأس عمار. قال: فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع من النبي عليه السلام ما سمع، ثم قتل عمارا قال: " واستسقى أبو غادية فأتي بماء في زجاج فأبى أن يشرب فيها، فأتي بماء في قدح فشرب، فقال رجل على رأس الأمير قائم بالنبطية: أوى يد كفتا،


ابن سعد کی روایت میں ایسا عجیب واقعہ ہے جس میں کچھ اختلافی باتیں ہیں بالکل متضاد اور کچھ ایسی باتیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل عمار کا ایک اور بندے نے کیا اور ابو غادیہ نے قتل ہو جانے کے بعد عمار کے سر جو دھڑ سے الگ ہو گیا تب تلوار ماری اور پھر دیکھا یہ تو عمار بن یاسر ہے یعنی اس میں تو ساری باتیں متضاد ہیں لیکن پھر بھی قاتل ابو غادیہ نہیں ہے لیکن ابن سعد نے یہ تصریح کی ہے کہ ابو غادیہ کو قاتل سمجھنے والے ایک راوی نے اضاافہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
معلوم ہوا کہ اس واقعے کو مختلف لوگوں اپنی مرضی سے بیان کیا اور قاتل ابو غادیہ کو قرار دینا ایک راوی کا فہم تھا


اب ہم اسکا متن پیش کرتے ہیں :
عفان بن مسلم (اختلاط زدہ) ، موسیٰ بن اسمائیل اور مسلم بنن ابراہیم (ثقہ متقن ) نے ربیعہ بن کلثوم بن جبر نے اپنے والد سے بیان کیا :
کہ میں واسط القصب میں عبدالاعلیٰ بن عبداللہ بن عامر کے پاس تھا میں نے کہا اجازت دیجیے یہ ابو غادیہ جہنی ہے عبدالاعلیٰ نے کہا اسے اندر لاو ، وہ اسطرح اندر آیا کہ جسم پر چھوٹے چھوٹے کپڑے تھے وہ لمبا ایسا تھا گویہ اس امت کا آدمی ہی نہیں ہے
جب بیٹھ گیا تو اس(ابو غادیہ) نے کہا : میں نے رسولﷺ کی بیت کی
راوی نے کہا : میں نے پوچھا کیا تم نے اپنے ہاتھ سے بیعت کی ؟
اس (ابو غادیہ) نے کہا ہاں رسولﷺ ہمیں یوم عقبہ یعنی دسویں ذالحجہ کو خطبہ سنایا اے لوگو خبر دار تمہارے خون اور تمہارے مال اپنے رب سے ملنے تک یعنی موت تک تم پر اس طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں ہے دیکھو خبر دار کیا میں نے پہچنا دیا ؟
ہم لوگوں نے عرض کی جی ہاں ! فرمایا اے اللہ گواہ رہے پھر فرمایا دیکھو خبردار میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارے
پھر ابن سعد نے آگے اور متن اضافی درج کرتے ہوئے فرمایا :
اس نے (یعنی ابو غادیہ نے ) اسی میں یہ مضمون شامل کیا کہ ہم لوگ عمار بن یاسر کو اپنے اندر رحمت خیال کرتے تھے جس وقت ہم مسجد قباء میں بیٹھے تھے اتفاق سے عمار ، عثمان بن عفان (خلیفہ سوم) کو کہہ رہے تھے کہ خبر دار یہ نعثل ایک یہودی
میں (ابو غادیہ )ادھر ادھر دیکھنے لگا اگر مجھے انکے خلاف مددگار مل جاتے تو انہیں ضرور کچل دیتا ، اور قتل کر دیتا میں نے کہا اے اللہ اگر توں چاہے تو مجھے عمار پر قادر کر سکتا ہے جنگ صفین میں وہ لشکر کے آگے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پیادہ آئے جب وہ دونوں لشکروں کے درمیان میں تھے تو انہیں ایک شخص نے تنہا دیکھ کے گٹھنے میں نیزہ مارا جس سے وہ گرپڑے اور خود سرسے اتر گیا میں نے اسے تلوار ماری تو اتفاق سے عمار کے سر پر پڑی
راوی نے کہا ( مبہم )
میں نے اپنے نزدیک اس سے زیادہ کھلی ہوئی گمراہی والا شخص نہیں دیکھا
کہ نبیﷺ سے بھی سنا پھر بھی عمار کو قتل کر دیا
(یعنی یہ وھم راوی حدیث کا ہے جبکہ صحیح سند سے مستدرک میں صریح طور پر بات گزر چکی ہے کہ عمار کو نیزہ مارنے والا دوسرا شخص تھا جبکہ ابو غادیہ مشاہدہ کرنے والا تھا )
یعنی قاتل (ابو غادیہ ) مذکور نے پانی مانگا تو شیشے کے برتن میں پانی لایا گیا اس نے اس میں پینے سے انکار کر دیا پھر اسکے پاس مٹی کے پیالے میں پانی لایا گیا تو اس نے پیا ایک شخص نے جو امیر کے سرہانے نیزہ لیے کھڑا تھا کہا :
کہ شیشے میں پانی پینے سے توں تقوی کرتا ہے اور عمار کے قتل سے تقوی نہیں کرتا


یعنی ابو غادیہ کو قاتل کہنے والا ایک امیر شخص کا محافظ ہے اور کلثوم بن جبر کا دعویٰ ۔۔ جبکہ یہ خود ابی غادیہ سے بیان کرتا ہے کہ عمار کو نیزہ مار کر انکاخود گرانے والا کوئی اور شخص ہے
اور پھر خود کہتا ہے کہ قتل ابو غادیہ نے کیا
متن میں اتنا اضظراب ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا
اسکے بعد یہی عفان بن مسلم جو اختلاط زدہ راوی ہے اور اسکا شیخ حماد بن سلمہ جو صاحب اوھام اور غریب اور منکر روایات بیان کرنے والے لیکن ثقہ راوی ہیں
وہ ابو حفض اور ربیعہ بن کلثوم دونوں سے یہ روایت بیان کرتا ہے


17776 - حدثنا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: أخبرنا أبو حفص، وكلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال: قتل عمار بن ياسر فأخبر عمرو بن العاص، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن (1) قاتله، وسالبه في النار "، فقيل لعمرو: فإنك هو ذا تقاتله، قال: إنما قال: قاتله، وسالبه


جسکو مسند احمد میں امام احمد نے روایت کیا ہے اسکا متن یوں ہے کہ ابو غادیہ اس نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمر بن العاص سے سنا نبی پاک نے فرمایا جو عمار کا قاتل ہے وہ جہنم میں ہے
تو ان سے کہا گیا آپ بھی تو ان سے لڑنے والے اور انکا مال لینے والے ہیں تو عمر بن العاص نے کہا کہ (یہ اس کے لیے خبر ہے )
جس نے قتل کیا (عمار کو جزوی طور پر ) اور انکا مال لیا


یعنی پورا گروہ کے بارے نہیں خاص عمار بن یاسر کے قتل کرنے والے کے لیے جزوی حکم ہے


اب اس روایت میں معلوم نہیں کونسا متن ابو حفض کا بیان کردہ ہے
اور کونسا متن ربیعہ بن کلثوم کا ہے
ابو حفض مجہول ہے اور ربیعہ بن کلثوم ثقہ ہے
اور عمرو بن العاص سے کلثوم بن جبر کا سماع نہیں
اس لیے امام ذھبی نے اس روایت کو منقطع قرار دیا سیر اعلام میں


اب عفان بن مسلم کو دیکھا جائے تو انکے حافظے میں تغیر آگیا تھا جیسا کہ امام خلیلی فرماتے ہیں عفان بن مسلم کے بارے:


عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ
أَبُو عُثْمَانَ شَيْخُ الْبَصْرَةِ، مَوْلَى الْأَنْصَارِ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ مُخَرَّجُ فِي الصَّحِيحَيْنِ، سَمِعَ شُعْبَةَ، وَالْحَمَّادَيْنِ، وَغَيْرَهُمْ عُمِّرَ، وَسَمِعَ مِنْهُ الْقُدَمَاءُ، وَاحْتَجَّ بِهِ الْبُخَارِيُّ، وَتَغَيَّرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِأَشْهُرٍ، وَمَاتَ يُقَالُ بِبَغْدَادَ
(الإرشاد في معرفة علماء الحديث،ج۲، ص، ۵۹۰) أبو يعلى الخليلي،


ابو عثمان شیخ البصرہ عفان بن مسلم متفقہ علیہ ہیں امام بخاری نے صحیحین میں ان کو لیا ہے لیکن قبل موت انکے حافظے میں تغیر آگیا تھا


امام العلائی انکو المختلطین میں درج کرتے ہوئے ابن خثیمہ سے فرماتے ہیں :
34 - عفان بن مسلم:
أحد الأثبات.
من شيوخ البخاري متفق على الاحتجاج به.
قال أبو خيثمة زهير بن حرب: أنكرنا عفان قبل موته بأيام والظاهر
(المختلطين، صلاح الدين بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761ه
ـ)


امام خثیمہ کہتے ہیں ہم نے انکی موت سے قبل انکو منکر قرار دے دیا تھا


اور مستدرک والی روایت جو ان سے اوثق جنکا حافظہ تغیر سے پاک ہے اس میں ابو غادیہ سے مروی ہے کہ عمار کو نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا ایک شخص تھا


اور پھر ان سب راویوں کے علاوہ جو ثقات سے مروی ہے وہ روایت تو بالکل مختلف ہے


اب جو متن ابن سعد نے بیان کر کے کہا کہ راوی نے ابو عمارہ کو کہا کہ جو پانی چاندی کے برتن میں پینے سے پرحیض کرتا ہے وہ قتل عمار بن یاسر پر کیوں نہ رکے ؟
اس روایت سے واضح معلوم ہوجاتا ہے کہ عمار بن یاسر کو جن نے بھی قاتل کیا ان کے خود میں بھی اختلاف تھا ایک کہتا میں نے قتل کیا جبکہ دوسرا کہتا میں نے قتل کیا
جب اس قتل کے دعوے دار دو ہیں صحیح سند سے تو اسکے مقابلے میں ایک ضعیف روایت پر صحابی رسول پر الزام وارد کرنا تفضیلوں کا طریقہ ہے نہ کہ اہلسنت کا


تو ہم نے اوثق اور ثبت راویوں سے ثابت کیا کہ ابو غادیہ واقعے کا مشاہدہ کرنے والے تھے فقط جبکہ نیزہ مارنے والا عمار بن یاسر کو کوئی اور شخص تھا اور جنہوں نے مارا ان میں بھی دو آدمی ہیں اور دونوں عمار کے قتل کرنے کادعویٰ کرتے ہیں


لیکن مسند احمد میں کلثوب بن جبر سے انکے بیٹے ربیعہ کی بجائے ابن عون نے متن جو بیان کیا اس میں یہ متن ابو غادیہ کے سر مل دیا ہے
جیسا کہ مسند احمد میں جو روایات امام احمد کے علاوہ انکے بیٹے عبداللہ نے نقل کی ہیں ان میں یہ روایت ہے


دَّثَنَا عَبْد اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْعَنَزِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ كُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ كُنَّا بِوَاسِطِ الْقَصَبِ عِنْدَ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ فَإِذَا عِنْدَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو الْغَادِيَةِ اسْتَسْقَى مَاءً فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ مُفَضَّضٍ فَأَبَى أَنْ يَشْرَبَ وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا شَكَّ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ فَإِذَا رَجُلٌ يَسُبُّ فُلَانًا فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْكَ فِي كَتِيبَةٍ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ إِذَا أَنَا بِهِ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ قَالَ فَفَطِنْتُ إِلَى الْفُرْجَةِ فِي جُرُبَّانِ الدِّرْعِ فَطَعَنْتُهُ فَقَتَلْتُهُ فَإِذَا هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ قَالَ قُلْتُ وَأَيَّ يَدٍ كَفَتَاهُ يَكْرَهُ أَنْ يَشْرَبَ فِي إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ وَقَدْ قَتَلَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ

کلثوم بن حبر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ شہر واسط میں عبدالاعلی بن عامر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران وہاں موجود ایک شخص جس کا نام ابوغادیہ تھا نے پانی منگوایا، چناچہ چاندی کے ایک برتن میں پانی لایا گیا لیکن انہوں نے وہ پانی پینے سے انکار کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرتے ہوئے یہ حدیث ذکر کی کہ میرے پیچھے کافر یا گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ اچانک ایک آدمی دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے لشکر میں مجھے تیرے اوپر قدرت عطاء فرمائی (تو تجھ سے حساب لوں گا) جنگ صفین کے موقع پر اتفاقا میرا اس سے آمنا سامنا ہوگیا،
** اس نے زرہ پہن رکھی تھی، لیکن میں نے زرہ کی خالی جگہوں سے اسے شناخت کرلیا، چناچہ میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو حضرت عمار بن یاسر تھے، تو میں نے افسوس سے کہا کہ یہ کون سے ہاتھ ہیں جو چاندی کے برتن میں پانی پینے پر ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہی ہاتھوں نے حضرت عمار کو شہید کردیا تھا۔**


روایت مسند احمدکی اور صحیح سند سے یہ بھی ثابت ہے کہ قاتل عمار دو مبہم لوگ ہیں اور دونوں کا دعویٰ قتل ہے جبکہ اس میں ابو غادیہ کا ذکر نہیں :
6538- حدثنا يزيد، أخبرنا العوام، حدثني أسود بن مسعود، عن حنظلة بن خويلد العنبري (1) قال: بينما أنا عند معاوية، إذ جاءه رجلان يختصمان في رأس عمار، يقول: كل واحد منهما أنا قتلته، فقال عبد الله بن عمرو: ليطب به أحدكما نفسا لصاحبه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " تقتله الفئة الباغية "، قال معاوية: فما بالك معنا؟ قال: إن أبي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " أطع أباك ما دام حيا، ولا تعصه " فأنا معكم ولست أقاتل
: حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں (مبہم ) نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا، ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،ان کی باتیں سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے ہر ایک اپنے اس کارنامے پر اپنا دل خوش کر لے، میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے کہ باغی گروہ اسے قتل کرے گا۔ ان سے یہ حدیث سن کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر یہ بات ہے توپھر آپ ہمارا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری شکایت کی تھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا: تمہارا والد جب تک زندہ ہے، تم اس کی اطاعت کرتے رہو۔ اس حدیث کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، لیکن پھر بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیتا۔
(مسند احمد ، سند صحیح )


تو ایسی صورت میں عمار بن یاسر کو حتمی بنانا بہت بڑی خطاء اور وہم ہے
وہ بھی ایک راوی کی رائے کی بنیاد پر جبکہ
کثر بن جبر سے یہ واقعہ مضظرب متن کے ساتھ مختلف اسناد سے آیا ہے


خلاصہ کلام :
کہ کلثوبن جبر سے جو اوثق اور ثقہ سند صحیح سے روایت ہے اس میں ابو غادیہ کہتے ہیں اور ایک شخص نے نیزہ مارا عمار کو


اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے قتل عمار کا دعویٰ کرنے والے دو مبہم شخص ہیں اور اس میں ابو غادیہ کا ذکر نہیں


اور ابن سعد کی روایت کردہ کلثوم بن جبر سے اختلاط زدہ راوی سے متن بر عکس ہے سند صحیح ہو جانے سے حدیث صحیح ہو جانا لازم نہیں
ہم نے ثابت کیا کہ ابن سعد کی روایت شاز و منکر ہے
اور مستدرک کی روایت جسکی سند پختہ ہے اس میں نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا شخص کوئی اور ہے


الحمداللہ ! ابو غادیہ عمار کو قتل کرنے سے بالکل بری ہیں
باقی جنہوں نے کلثوم بن جبر کی کچھ روایتوں سے خطاء کھائی اللہ انکو جنت میں مقام دے اور بخشے


تحقیق : دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 
Top