• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حیات النبی کا انکار کرنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہیں ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایک محلے میں مسجد کا امام حیات النبی کا قائل نہیں اور مختلف اوقات میں اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے، ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

Nov 20,2014
Answer: 56137
Fatwa ID: 52-71/L=1/1436-U


قبروں میں انبیا کا حیات ہونا تواتر ادلہ سے ثابت ہے، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بلا تاویل انکار کرنے والا بدعتی ہے، ایسے شخص کی اقتدا میں نماز مکروہ ہوگی،

قال السیوطی: حیاة النبي صلی اللہ علیہ وسلم في قبرہ ھو وسائر الأنبیاء معلومة عندنا علما قطعیا لما قام عندنا من الأدلة في ذلک وتواترت بہ الأخبار

(الحاوي للفتاوی: ۲/۱۴۷)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=56137&limit=18&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>SAL</s><l>ur</l>
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قرآن کریم قبر میں "حیات نبی" کے عقیدے کا انکار کرتا ہے -

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١

اور جنہیں یہ الله کے سوا پکارتے ہیں (یعنی انبیاء و اولیاء وغیرہ) وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں - وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے؟؟

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سوره الزمر ٣٠
بے شک (اے نبی مکرم) آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قبر کی حیات، یعنی برزخی حیات ایک الگ چیز ہے، اور دنیاوی حیات ایک الگ چیز!
مگر یہ ''حیاتی'' واہیاتی قسم کے لوگ اس مسئلہ میں دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے، قبر کی حیات یا برزخی حیات کی دلیل پیش کرتے ہیں، اور باور یہ کروانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقیدہ حیات الانبیاء علیہ السلام پر دلیل پیش کی ہے، جبکہ ان کا یہ عقیدہ حیات الانبیاء علیہ السلام قبر کی حیات یعنی برزخی حیات سے یکسر مختلف ہے، جس کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں، بلکہ اس کی بالصراحت نفی وارد ہوئی ہے!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو تمام عقائد سے متعلق مسائل کا مدلل حل پیش کرتی ہے -


حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ۝ۙ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ’’ یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک موت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘ ( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )

یعنی یہ کہ زندگی کے اس دور کے بعد موت کا دور شروع ہوتا ہے، مٹی سے بنے اس جسم سے روح نکال لی جا تی اور اللہ تعالی کے پاس لے جائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی اس روح کو قیامت تک کے لئے روک لیتا ہے ۔ یہی بات سورہ المومنون میں فرمائی گئی : ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15؀ۙثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ 16؀ ’’ پھر اس کے بعد تم مر جاؤ گے،پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے ۔‘‘ واضح ہوا کہ موت کے معنی روح اور جسم کی علیحدگی ہے اور اب یہ دور قیامت تک چلنا ہے یعنی قیامت سے قبل یہ جسم و روح نہیں ملیں گے-

پھر الله کی راہ میں جان دینے والوں کے متعلق فرمایا کہ

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
’ اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں اسکا شعور نہیں ۔ ( البقرۃ : ۱۵۴ )

پھر اس کی وضاحت فرمائی کہ :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَۙ
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں رزق پاتے ہیں۔ ‘‘ ( آل عمران : ۱۶۹ )

معلوم ہوا کہ وہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے گئے ہیں یعنی انہیں موت آگئی ہے جسم و روح میں علیحدگی ہو گئی ، جنکے جسم ہر قسم کے شعور و حواس سے بیگانہ ہوچکے ہیں، ان کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے انسانو ! تم انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے۔ لیکن کہاں زندہ ہیں؟ فرمایا : وہ الله کے پاس رزق دیے جاتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جسموں میں ہیں ،ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ جنت میں جہاں چاہیں پھرتی رہتی ہیں پھر انہی قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ ان کا رب ان کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے ، انہوں نےعرض کیا ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا، تو انہوں نے عرض کیا : اے رب ،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ نے دیکھا کہ انہیں اب کسی چیز کی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا ۔‘‘( مسلم ، کتاب امارت و خلافت ، باب : شہدا کی روحیں )
 
Top