• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حی علی خیرالعمل کے الفاظ کا اضافہ اذان میں بدعت ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
جواب اس کا اضافہ عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ اور زین عابدین علی بن حسین نے کیا

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَمُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ، كَانَ يُؤَذِّنُ، فَإِذَا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: «حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ»، وَيَقُولُ: «هُوَ الْأَذَانُ الْأَوَّلُ»


امام جعفر اپنے والد اور مسلم بن ابی مریم سے وہ علی بن حسین کہ انہوں نے اذان دی پس جب حَيَّ علی الفلاح پر پھنچے تو کہا حی علی خیر العمل اور کہا کہ یہ اذان اول ہے


اسی کتاب میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي أَذَانِهِ: «الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ»، وَرُبَّمَا قَالَ: «حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ»


ابن عمر جب اذان دیتے تو کہتے الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ اور کبھی کہتے حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ


لیکن تواتر سے یہ الفاظ نقل نہیں ہوئے صرف ابن عمر اور علی بن حسین کے لئے ملتا ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو اذان میں ادا کیا لیکن وہ کہتے ہیں یہ اذان اول ہے– اس کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابہ سے بدعات کی شروعات نہیں ہوئیں

بیہقی سنن الکبری میں کہتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذِهِ اللفظةُ لَمْ تَثْبُتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا عَلَّمَ بِلَالًا وَأَبَا مَحْذُورَةَ وَنَحْنُ نَكْرَهُ الزِّيَادَةَ فِيهِ


یہ الفاظ نبی صلی الله علیہ وسلم سےثابت نہیں جیسا کہ بلال اور ابو مَحْذُورَةَ نے سکھائے اور ہم اس زیادت کا انکار کریں گے


علم حدیث کا اصول ہے کہ بعض اوقات زیادت ثقہ بھی قبول کی جاتی ہے لہذا بیہقی کا یہ کہنا مناسب نہیں صاف بات یہ ہے کہ یہ الفاظ تواتر سے نہیں ملے لہذا ان کو نہیں کہا جاتا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علم حدیث کا اصول ہے کہ بعض اوقات زیادت ثقہ بھی قبول کی جاتی ہے لہذا بیہقی کا یہ کہنا مناسب نہیں صاف بات یہ ہے کہ یہ الفاظ تواتر سے نہیں ملے لہذا ان کو نہیں کہا جاتا
امام بیہقی کی بات درست ہے ، آپ کو صحیح سمجھ نہیں آئی ’’ زیادت ثقہ ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ موقوف ، مقطوع آثار و روایات کو مرفوع احادیث کے ساتھ ملا دیا جائے ۔
’’زیادۃ الثقہ ‘‘ کا اصول اس وقت زیر بحث آتا ہے ، جب دونوں روایات ایک درجہ میں ہوں مثلا مرفوع یا موقوف وغیرہ ۔
گویا امام صاحب کا کہنے کا مطلب ہے کہ زائد الفاظ چونکہ اللہ کے رسول سے ثابت نہیں ہیں ، لہذا ہم ان کے اضافے کو درست نہیں سمجھتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے لولی صاحب ! آپ کی جراءت کوسلام ہے ، علوم و فنون کے ابتدائی مسائل کی بھی آپ کو شد بد نہیں ، لیکن تحقیق کا جذبہ اس قدر ہے کہ بڑے بڑے آئمہ و اساطین علم پر حکم لگانے میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرتے ۔ اللہ المستعان ۔
آپ کو یہ بہت گلہ رہتا ہےکہ آپ کی پوسٹیں ’’ زیر نگرانی ‘‘ رکھی جاتی ہیں ، کسی نے آپ کو بین کرنے بھی دھمکی بھی دی ہے ، لیکن ذرا خود بھی تو غور کریں ، آپ بھی تو کوئی کمی نہیں کر رہے ، مجہول نام ، مجہول مقام ، کئی اراکین آپ سے نالاں ، فورم کے قوانین کو گاہے گاہے چیلنج کرنا ،اور سب سے بڑی بات ، علماء کا یا ان کی آراء کا ایک فیصد بھی ادب و احترام نہیں ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ کی اہلیت و قدرت نہ ہونے کے باوجود اہل علم کے ساتھ بحث و تکرار کرنا ۔ بار بار ٹیگ کرنا ، تقریبا دو سال سے آپ کے یہ تمام معاملات میں دیکھ رہا ہوں ، جھیل بھی رہا ہوں ، اور مجھے خدشہ ہے کہ کئی سنجیدہ اراکین آپ کی بار بار کی ٹیگنگ کی وجہ سے فورم پر غیر فعال ہوچکے ہیں ۔
آپ نے ہمارے ساتھ جو وقت گزارا ، آپ نے محنت و کوشش کی ، آپ کے شکر گزار ہیں ،نیت کیا تھی یہ معاملہ آپ کا اللہ کےساتھ ہے ۔
حالیہ موضوع میں آپ جو کہنا چاہیں ، مکمل آزادی ہے ، البتہ دیگر کسی بھی جگہ آپ کو مراسلات کرنے کی اجازت نہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
جناب امام بیھقی نے یہ جملہ اس حدیث کے بارے کہا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کیا گیا تھا نہ کہ موقوف روایت کے بارے
شاید آپ ابھی مصادر تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے
یہاں دیکھ لیں روایت ضعیف ہی ہے
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=673&pid=331481&hid=1813
 
Top