• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا خوشبو لگانے سے فرشتے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں؟

شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام عليكم ‫.
محترم علمائے کرام ایک سوال ہے...
کہ خوشبو کے بارے میں کیا ایسی کوئی روایت ہے کہ جس نے خوشبو لگائی ہو فرشتے اس آدمی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں؟
نیز خوشبو لگانے کی فضیلت بیان کر دیجئے...


یا یہ کہ خوشبو لگانے سے شیطان بھاگتا ہے یا بچوں سے شیطان کو دور کرنے کے لئے خوشبو لگائی جائے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا خوشبو کے بارے میں کیا ایسی کوئی روایت ہے کہ جس نے خوشبو لگائی ہو فرشتے اس آدمی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں؟
و عليكم ‫السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ان الفاظ سے کوئی روایت مجھے نہ مل سکی ، کہ فرشتے اس شخص کے گرد جمع ہوجاتے ہیں جس نے خوشبو لگا رکھی ہو ،
البتہ کئی علماء نے لکھا ہے کہ : فرشتے خوشبو کو پسند کرتے ہیں :
علامہ ابن قیم ؒ زاد المعاد میں لکھتے ہیں :

وفي الطيب من الخاصية، أن الملائكة تحبه، والشياطين تنفر عنه، وأحب شيء إلى الشياطين الرائحة المنتنة الكريهة،
یعنی خوشبو میں یہ خاصیت ہے کہ فرشتے اسے پسند کرتے ہیں ، اور شیاطین اسے ناپسند کرتے ہیں ،اور شیاطین کی محبوب ترین چیز بدبو ہے ،
( زاد المعاد جلد۴ ص 257 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور درج ذیل احادیث خوشبو کی فضیلت و اہمیت کا واضح ثبوت ہیں :
خوشبو سے نبی کریم ﷺ کو محبت و الفت تھی :

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»
(سنن النسائي )
سیدنا انس رضي الله عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”دنيا کي چيزوں ميں سے عورتيں اور خوشبو ميرے ليے محبوب بنا دي گئي ہيں اور ميري آنکھوں کي ٹھنڈک نماز ميں رکھي گئي ہے“
(تو جو چیز نبی مکرم ﷺ کو پسند ہو وہ ملائکہ کو بھی پیاری ہوگی )
عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " صَنَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْدَةً سَوْدَاءَ، فَلَبِسَهَا، فَلَمَّا عَرَقَ فِيهَا وَجَدَ رِيحَ الصُّوفِ، فَقَذَفَهَا - قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: - وَكَانَ تُعْجِبُهُ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ "
سنن ابوداود کتاب اللباس )
ام المؤمنين سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتي ہيں کہ ميں نے رسول اللہ ﷺ کے ليے ايک سياہ چادر رنگي تو آپ نے اس کو پہنا پھر جب اس ميں پسينہ لگا اور اون کي بو محسوس کي تو اس کو اتار ديا ، آپ کو خوشبو پسند تھي ‘‘

اسي لئے نبي کريم ﷺ صحابہ کرام کے ترغيب ديتے تھے کہ

جمعہ کے دن خوشبو لگا کر مسجد آؤ ؛
امام بخاري کتاب الجمعہ ميں باب منعقد کرتے ہيں کہ :
بَابُ الطِّيبِ لِلْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن نماز کے ليے خوشبو لگانا،

قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الغُسْلُ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، وَأَنْ يَسْتَنَّ، وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ» قَالَ عَمْرٌو: «أَمَّا الغُسْلُ، فَأَشْهَدُ أَنَّهُ وَاجِبٌ، وَأَمَّا الِاسْتِنَانُ وَالطِّيبُ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَوَاجِبٌ هُوَ أَمْ لاَ، وَلَكِنْ هَكَذَا فِي الحَدِيثِ»
ترجمہ :
عمرو بن سليم انصاري نے بيان کيا، انہوں نے کہا کہ ميں گواہ ہوں کہ ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ نے فرمايا تھا کہ ميں گواہ ہوں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر ميسر ہو، ضروري ہے۔ عمرو بن سليم نے کہا کہ غسل کے متعلق تو ميں گواہي ديتا ہوں کہ وہ واجب ہے ليکن مسواک اور خوشبو کا علم اللہ تعالي کو زيادہ ہے کہ وہ بھي واجب ہيں يا نہيں ليکن حديث ميں اسي طرح ہے،
( نماز جمعہ اور خطبہ میں چونکہ فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں تو انسانوں کے ساتھ ساتھ ان کیلئے خوشبو لگانے کا حکم ہوسکتا ہے )
آگے دوسري حديث نقل کرتے ہيں :

عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الجُمُعَةِ، وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَلاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الإِمَامُ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى»

سیدنا سلمان فارسي رضي اللہ عنہ نے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھي طرح سے پاکي حاصل کرے اور تيل استعمال کرے يا گھر ميں جو خوشبو ميسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے ليے نکلے اور مسجد ميں پہنچ کر دو آدميوں کے درميان نہ گھسے، پھر جتني ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر ديئے جاتے ہيں۔

اور فرمايا:

‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ:‏‏‏‏ الثُّومِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ".
سیدنا جابر رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جو کوئي اس درخت ميں سے کھائے، پہلے دن آپ نے فرمايا لہسن ميں سے، پھر فرمايا: لہسن، پياز اور گندنا ميں سے، تو وہ ہماري مسجدوں کے قريب نہ آئے، کيونکہ فرشتے بھي ان چيزوں سے اذيت محسوس کرتے ہيں جن سے انسان اذيت و تکليف محسوس کرتا ہے“ ۔۔نسائي و صحيح مسلم

اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ارشاد ہے نبوی ہے :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ» ، وَإِنَّهُ أُتِيَ بِبَدْرٍ، قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: يَعْنِي طَبَقًا، فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ، فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا، فَسَأَلَ عَنْهَا فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ البُقُولِ، فَقَالَ: «قَرِّبُوهَا» ، فَقَرَّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ، فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا قَالَ: «كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لاَ تُنَاجِي»
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا (یہ فرمایا کہ) ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (یہاں تک کہ وہ بو رفع ہو جائے) اور آپ کے پاس ایک طباق لایا گیا جس میں سبزیاں تھیں ۔ نبی کریم ﷺ نے اس میں بو محسوس کی ، پھر آپ کو اس میں رکھی ہوئی سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے اپنے بعض صحابی کی طرف جو آپ کے ساتھ تھے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان کے پاس لے جاؤ لیکن جب ان صحابی نے اسے دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانا پسند نہیں کیا ۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر ان سے فرمایا کہ تم کھا لو کیونکہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں تم اس سے نہیں کرتے ۔ (آپ کی مراد فرشتوں سے تھی)

خوشبو بہترین ناقابل واپسی تحفہعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ طِيبٌ فَلَا يَرُدَّهُ، فَإِنَّهُ طَيِّبُ الرِّيحِ، خَفِيفُ الْمَحْمَلِ»
صحیح مسلم ، سنن ابی داود
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا : ” جسے خوشبو کا (تحفہ) پيش کيا جائے تو وہ اسے لوٹائے نہيں کيونکہ وہ خوشبودار ہے اور اٹھانے ميں ہلکا ہے “

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرُدُّ الطِّيبَ، وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ لاَ يَرُدُّ الطِّيبَ»صحيح بخاري ( ۔۔۔)

سیدنا انس ؓ نے کہ (جب ان کو) خوشبو (ہديہ کي جاتي تو) آپ وہ واپس نہيں کيا کرتے تھے اور کہتے کہ نبي کريم ﷺ بھي خوشبو کو واپس نہيں فرمايا کرتے تھے
 
Top