• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
چنانچہ میں نے ان دونوں مسئلوں میں بحث و تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہے چچا تایا کا ہونا کوئی مانع نہیں
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کا اخذ کردہ نتیجہ، آپ کی نفسانی خواہشات کے اثر کا نتیجہ ہے!قرآن وحدیث سے یہ حکم ثابت نہیں! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے، کہ چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!
الجواب:
أقول:
یہ آپ کی جہالت و نادانی ہے کہ آپ لکھ رہے ہیں کہ (چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!) اگر مانع ہے تو اس کی دلیل کیا ہےبغیر دلیل کوئی دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوتا ہے۔ صرف دعویٰ کردینے سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوجاتی اس کی دلیل قرآن وحدیث سے ہونا لازم ہے۔ اگر اس پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل ہے تو پیش کیجئے۔ میں آپ سے اور علمائے اہل حدیث سے جو کہ کتاب و سنت کی پیروی کے دعویدار ہیں یہی سوال تو کر رہا ہوں:
برائے مہربانی وہ آیت اور حدیث تو پیش کیجئے؟ اور یہی میرا اصل مطالبہ ہے ان تمام لوگوں سے جو یہ کہتے ہیں: (چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!)؛ کہ وہ کون سی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا (جو کہ اس کا والد و باپ ہے) کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے؟ اور تا قیامت کوئی بھی شخص ہرگز ہرگز نہ کوئی آیت پیش کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حدیث؟ اور یہ میرا دعویٰ اور کھلا ہوا چیلنج ہے!
واضح رہے! اہل حدیث کا مذہب کسی امام، فقیہ، محدث، عالم مفتی کی بات کو بلا دلیل مان لینے کا نہیں ہے۔ اسلام میں تقلید کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ تقلید سراپا شرک ہے اور اہل حدیث شرک سے پاک رہنے والوں کی جماعت ہے۔ اہل حدیث ایک منہج ، ایک عقیدہ کا نام ہے اور وہ عقیدہ قرآن و سنت سے مستنبط اور ماخوذ ہے جو منزل من اللہ ہے۔ کسی امرتسری، مبارکپوری کی بے بنیاد باتوں اور فتووں کا نام دین اور شریعت نہیں ہے۔ دین خالص اللہ کا ہے اور بس اللہ کے رسول ہمیں دو چیزیں پکڑا کر گئے ہیں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اپنی سنت جو کہ احادیث صحیحہ سے ثابت شدہ ہیں۔ اللہ کے نبی کی ہی یہ سنت اور فیصلہ ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے بحیثیت اولاد و بیٹی کے حصہ دیا ہے۔ اور ہمارے لیئے بس اتنا ہی کافی ہے۔
دادا کے ترکہ سے اس کے یتیم پوتے کو یہ کہہ کر محجوب و محروم الارث کرنا کہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید۔ سراسر اللہ و رسول کے احکام و فرامین کے منافی و مخالف ہے۔ نہ بیٹا عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے ۔ کیونکہ وہ اولین فریضہ الٰہی
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) کے مستحق صاحب فرض وارث ہیں۔
اللہ نے انہیں اولاد کے طور پر پیدا کیا ہے ۔ اقرباء میں سے نہیں بنایا ہے۔ اور خود اس کے حق میں وصیت کی ہے۔ اور اسی کے مطابق ان کے حصے مقرر فرمائے ہیں۔ جسے ان تک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ اور میت کے ترکہ کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ لہذا خیر و عافیت اسی میں ہے کہ میت کے ترکہ کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم کرکے ہر وارث کو ان کا حصہ دیدیا جائے۔ اوربس زیادہ قیل و قال اور حجت و بکواس کی ضرورت نہیں ہے۔
مولانا امرتسری ہوں یا مبارک پوری یا اور کوئی بھی شخص جو یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومیت کا فتوی دیتا ہے تو ان میں سے کسی کے پاس بھی اللہ کی جانب سے کوئی وحی نہیں آئی ہوئی تھی۔ وہ کوئی نبی و رسول تو تھے نہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہہ دیا اس پر آنکھ بند کر کے عمل کرتے چلے جائیں۔ اللہ نے ہمیں عقل دیا ہے دماغ دیا ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اور اسے استعمال کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور تقلید کو حرام کیا ہے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟
اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے؟،
اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟
یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

Click to expand...
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کے یہ سوالات بیوقوفی کی معراج قرار دیئے جا سکتے ہیں! یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو بیٹیوں کے فریضہ میں سے حصہ دیا! جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہی نہیں، تو یہ تمام اعتراض باطل قرار پاتے ہیں! اور یہ ہفوات آپ کی کج فہمی، کم علمی، گمراہی اور قرآن کی معنوی تحریف کی بنا پر ہے!
الجواب:
أقول:
آپ یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو بطور مونث اولاد حصہ نہیں دیا ہے آپ تو اللہ کے رسول اور ان کے صحابی کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں کیونکہ صحابی نے ہی ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ ایک سے زیادہ مونث اولاد کے مشترکہ حصے میں سے حصہ دیا۔
آپ اپنی جہالت و حماقت لا علمی کج فہمی اور گمراہی کا شکار ہوکر اور قرآن و حدیث میں لفظی و معنوی کھلی ہوئی تحریف کا ارتکاب کر کے اس بات کا انکار کر رہے ہیں کہ یتیم پوتی کو مونث اولاد کے مشترکہ حصہ سے حصہ نہیں دیا ہے۔ اس طرح آپ اللہ کے رسول اور ان کے صحابی کو جھوٹا بتلا رہے ہیں۔
میں نے علمائے اہل حدیث سے جو کہ کتاب و سنت کی پیروی کے دعویدار ہیں یہ سوال کیا ہے :

اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے یعنی ثلثان (دوتہائی) جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے اور باقاعدہ طور پر اس پر امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک مستقل باب بندھا ہے جبکہ اس سے قبل یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا ایک مستق باب باندھ رکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بیٹے کے بیٹے کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو یا دوسرے الفاظ میں بیٹا نہ ہو۔
تو جب بیٹے کےنہ ہونے پر اللہ کے رسول نے اس بیٹے کی بیٹی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دیا اور اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت اولاد اور ایک بیٹی کے یتیم پوتی کو حصہ دیا ۔ قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا ملا۔ اصل یہ ہے کہ بیٹیوں کے فریضے میں سے یتیم پوتیوں کو بطور ایک بیٹی اور اولاد کے حصہ دیا گیا۔
تو اس پر میں نے یہ سوال قائم کیا :
کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھا؟
اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے؟
اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟
یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

نیز مزید یہ کہ وہ کون سی دلیل ہے کہ جس کی بناء پر یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ساتھ اپنے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں پاسکتا ہے اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں ہے تو پیش کیا جائے یا اگر کوئی حدیث ہے تو اسے پیش کیا جائے اگر صحیح حدیث نہیں مل رہی ہے تو کم از کم کوئی ایک ضعیف حدیث ہی پیش کردیں میں اسے قبول کرلوں گا۔ ورنہ یا تو آپ لوگ اپنے اتباع قرآن و سنت کا دعویٰ چھوڑ دیں یا پھر یتیم پوتے کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث کے فتوے اور فیصلے سے رجوع کریں اور براءت کا اظہار کریں۔
کیونکہ میرا یہ دعویٰ اور چیلنج ہے کہ چچاتائے کے ہوتے یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث کا فتویٰ قرآن و حدیث کے سراسر منافی و مخالف ہے ۔ اور شرعی طور پر باطل و مردود ہے اور اس پر عمل کرنا اور کرانا دونوں حرام ہے۔ اور تاقیامت یتیم پوتے کی اس کے چچاتائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونے کی دلیل قرآن و سنت سے پیش نہیں کی جاسکتی ہے یہ میرا دعویٰ اور چیلنج ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کلی طور پر اس سے بری ہیں اور اسلامی شریعت کا اس حکم سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے
(أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ) اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نازل ہی نہیں فرمایا ہے یہ تو باپ دادا سے چلی آرہی ریت روایت ہے جس کی دلیل قرآن و سنت میں نہیں ہے۔
میں تو صرف وہی کہوں گا جو نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا جسے اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ (68) أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (69) قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (70) قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (71) [سورة الاعراف]
ہمارے اعلیٰ فہم کے مالک اور قرآن و حدیث کے ماہر، ہدایت و علم اور قرآن و حدیث دانی کے ٹھیکیدار مخاطب ہمارے ان سوالات سے بوکھلا اٹھے شاید ان کے منھ سے جھاگ بھی نکل رہا ہوگا۔ اور جب کوئی جواب بن نہیں پڑا تو جواب دینے کےبجائے میرے سوالات کو میری بیوقوفی کی معراج قرار دیا۔ اور اللہ کے رسول کے اس فیصلے کو جو کہ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ میں مذکور و موجود ہے اور کوئی بھی ادنی سی عقل و فہم اور علم رکھنے والا صحیح بخاری کو کھول کر دیکھ سکتا ہے۔ اس کو ہی جھوٹا قرار دیا اور جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ کے رسول نے ایسا کوئی فیصلہ دیا ہی نہیں ہے۔ اور کہا کہ (
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو بیٹیوں کے فریضہ میں سے حصہ دیا! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہی نہیں!)
تو میں اپنے مخاطب کے اس کلام کی حقیقت اور جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لیئے صحیح بخاری سے اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ مع باب یہاں پھر نقل کیئے دیتا ہوں:

صحيح بخاري: كتاب الفرائض: (8 - باب مِيرَاثِ ابْنَةِ ابْنٍ مَعَ ابْنَةٍ)، حديث رقم: 6736 - حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ: سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي. فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ». فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ. [6742 بخاري مع الفتح 12/ 17}
بیٹی کی موجودگی میں یتیم پوتی کی میراث کا بیان
آدم، شعبہ، ابوقیس، ہزیل بن شرحبیل سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ابوموسی (رض) سے بیٹی، یتیم پوتی اور بہن کی میراث کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے نصف ہے اور تم ابن مسعود (رض) کے پاس جا کر پوچھو، یقین ہے وہ بھی میری طرح ہی بیان کریں گے۔
چنانچہ ابن مسعود (رض) سے پوچھا گیا۔ اور ابوموسی کا قول بیان کیا گیا تو انہوں نے کہا میں اس صورت میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت نہ پاؤں گا میں تو تمہیں وہ حکم دوں گا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے بیٹی کو آدھا حصہ اور یتیم پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، (یہ کل ملاکر ) دوتہائی حصے (ہو گئے) جو تکملہ ہے
(الثُّلُثَيْنِ) دو تہائی کا۔ باقی بچا ایک تہائی حصہ تو وہ بہن کو ملے گا۔
ہم لوگ موسیٰ (رض) کے پاس آئے اور ان کو ابن مسعود (رض) کے قول کی خبر دی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے نہ پوچھو جب تک کہ وہ عالم تم میں موجود ہیں۔ [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 6736]

اس حدیث میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ بیٹی کو آدھا اور یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دیا گیا جو مل کر دو تہائی حصہ ہوا جو تکملہ ہے (الثُّلُثَيْنِ) دو تہائی کا۔ جوایک سے زیادہ بیٹیوں کا مشترکہ حصہ ہے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے۔
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
اس آیت میں لفظ
(ثُلُثَا) صاف نظر آرہا ہے اور اس سے قبل (أَوْلَادِكُمْ) اور (نِسَاءً) کے الفاظ موجود ہیں۔
یہ اللہ کا حکم اور اس کا مقرر کردہ فریضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ بیٹیوں کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ جس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو انتہائی بد بختی کا شکار ہو اور عقل کا اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھ کا بھی اندھا ہو۔
پھر وہ یہ کہے: (
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو بیٹیوں کے فریضہ میں سے حصہ دیا! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہی نہیں!)
تو یہ مجھ کو جھٹلانا ہوا یا پھر اللہ و رسول کو جھٹلانا ہے؟ اس کا فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں۔ ایسا کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل ایمان سے بالکل خالی ہوچکا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر مہر لگادی ہو۔ منکرین حدیث نے تو صرف حدیث کا انکار کیا تھا اور یہاں تو ہمارے اعلیٰ دماغ و اعلیٰ فہم کے مالک اور قرآن و حدیث کے ماہر، ہدایت و علم اور قرآن دانی و حدیث دانی کے ٹھیکیدار مخاطب سے ہمارے ان سوالات سے اس قدر بوکھلا اٹھے ہیں کہ اپنا دماغی توازن تو کھو ہی دیا ہے اپنا دین ایمان بھی کھو بیٹھے ہیں اور صاف طور پر اللہ کے حکم اور فرمان تک کا ہی انکار کردیا ہےاور جب کوئی جواب بن نہیں پڑا تو جواب دینے کےبجائے میرے سوالات سے بوکھلا اور گھبراکر اللہ و رسول کے کلام قرآن کی آیت اور حدیث رسول کا صریحی طور پر انکار کر بیٹھے اور جس سوال کو لیکر میری بیوقوفی کی معراج قرار دیا تھا ۔ اسی سوال کے چلتے ضلالت و گمراہی کی بد ترین کھائی میں جا گرے۔ نہ جانے یتیم پوتے کی دشمنی و عداوت انہیں کہاں لے جائے گی ۔ اللہ ہدایت دے۔ (آمین) انہیں اپنے اس کفر سے توبہ کرنا چاہیئے۔
جناب من!
جب کوئی اللہ و رسول کی باتوں اس کے احکام و فرامیں کو ٹھکرا چکا ہو اور باطل پرستی کا شکار ہو اس کے پاس سوائے ہوائی باتوں کے قرآن و حدیث کی کوئی دلیل نہ ہو تو وہ حق اور حقائق کو جھٹلانے کے سوا اور کرہی کیا سکتا ہے۔ میرے سوالات کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ہے اگر ہے تو وہ قرآن و حدیث کو بطور دلیل و ثبوت پیش کرے۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے بطلان کردیا ہے کام چلنے والا نہیں ہے۔ آپ میرے سوالات کا جواب تو دے نہیں پا رہے ہیں اور سوائے جھٹلانے کے اور لا یعنی باتوں کے دوسرا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آنجناب نے یتیم پوتی کو بحیثیت ایک بیٹی کے ایک سے زیادہ بیٹیوں کے حصے سے حصہ دیئے جانے کا ہی انکار کر بیٹھے۔
اب کون بیوقوفی کی معراج پر ہے اور کون گمراہ ، کج فہم اور کم عقل ہے اسی سے ظاہر ہو جانا چاہیئے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کے ان سوالات کا ہی باطل ہونا ثابت کیا جا چکا ہے، اور سوالات کا بطلان خود سوالات کا جواب ہوتا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
جب کوئی اللہ و رسول کی باتوں اس کے احکام و فرامیں کو ٹھکرا چکا ہو اور باطل پرستی کا شکار ہو اس کے پاس سوائے ہوائی باتوں کے قرآن و حدیث کی کوئی دلیل نہ ہو تو وہ حق اور حقائق کو جھٹلانے کے سوا اور کرہی کیا سکتا ہے۔ میرے سوالات کا جواب کسی کے بھی پاس نہیں ہے اگر ہے تو وہ قرآن و حدیث کو بطور دلیل و ثبوت پیش کرے۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے بطلان کردیا ہے کام چلنے والا نہیں ہے۔ آپ میرے سوالات کا جواب تو دے نہیں پا رہے ہیں اور سوائے جھٹلانے کے اور لا یعنی باتوں کے دوسرا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت آپ کے آئندہ کے جملے ہیں چنانچہ آپ لکھ رہے ہیں:

اب آپ سےکوئی پوچھے، کہ آپ کے سر پر کتنے سینگ ہیں، اور دعوی کرے، کہ اگر آپ انسان ہو، تواپنے سر پر سینگ کی تعداد بتاو! اگر آپ نے تعداد نہیں بتائی، تو آپ انسان نہیں! بلکہ شیطان ہو! تو کیا آپ اس کے سوال کے جواب میں اپنے سر پر موجود سینگ کی تعداد بتلائیں گے؟ نہیں آپ یہ کہیں گے، کہ انسان کے سر پر سینگ نہیں ہوتے، لہذا انسان کے سر پر سینگ کی تعدا پوچھنا ہی باطل ہے!

الجواب:
أقول:
اب اس طرح کے احمقانہ سوالات تو آپ جیسے جاہل و احمق لوگ ہی کر سکتے ہیں میں نے سوال یہ پوچھا ہے :
جو لوگ اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے درج ذیل سوالات کے جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجرو ثواب کے مستحق ہونگے۔
سوال صرف یہ ہے :

اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ کس حیثیت سے اور کیا سمجھ کر دیا تھا؟ آیا اولاد و بیٹی سمجھ کر دیا تھا یا قریبی سمجھ کر اور اگر وہ اپنے دادا کی قریبی رشتہ دار تھی تو وہ رشتہ داری کس نوعیت کی تھی؟۔
تو کیا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دیاجانا یہ ثابت نہیں کرتا کہ چچا تائے کے ساتھ یتیم پوتا بھی حقدار و حصہ دار اور وارث ہوتا ہے۔ جو کہ بمقابلہ یتیم پوتی کے اولیٰ و اکمل وارث، حقدار اور حصہ دار ہے؟
اور کیا اللہ کے رسول بھی ہم آپ کی طرح (نعوذ باللہ) کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے؟
اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟
یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

اس کا جواب تو آپ سے بن نہیں پڑا تو آپ اپنے سر پر شیطان کی سینگ ڈھونڈھنے میں لگ گئے آپ اگر واقعی حق پر ہیں تو میرے سر پر اپنے سر کی شیطانی سینگ تلاش کرنے کے بجائے میرے سوالات کا معقول جواب دیجئے۔ کیونکہ آپ نے تمام علمائے اہلحدیث کی نمائندگی کا ٹھیکرا اٹھا رکھا ہے۔ لہذا جب آپ نے جواب دینے کا ٹھیکہ لے ہی لیا ہے تو میرے سولات کے جوابات قرآن و حدیث کے نصوص سے دیجئے نہ کہ لایعنی باتوں سے ۔ ایسی لایعنی و بے ہودہ بکواسوں سے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیجئے اور وقت ضائع نہ کیجیئے۔
آپ کے سر پر شیطانی سینگ ہوگی کیونکہ شیطان نے بکرے کی شکل اختیار کر رکھی ہے جو آپ کو سینگ مار رہا ہے جیسا کہ آپ نے کہہ رکھا ہے کہ بکرے کو بکری نے سینگ مارا ہے تو جو آپ بکرا بنے گھوم رہے ہیں گھومتے رہیئے۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ہمیں تو اپنے سوالات کے جوابات چاہیئے اور بس۔ ہمیں بکرا بکری کی لڑائی نہیں کرانی ہے اور نہ ہی اس لڑائی کا تماشہ دیکھنا ہے ہمیں بس اپنے سوالات کے جوابات چاہیئے۔ میرے سر پر کوئی سینگ نہیں ہے اور نہ ہی میں بکری ہوں جیسا کہ آپ نے سمجھ رکھا ہے اور آپ نے جو یہ کہہ رکھا ہے کہ بھگا بھگا کر یا بھگا بھگا کر ماریں گے تو یہ آپ کی بس تمنا ہی رہ جائے گی۔
میں آپ کو اس سوال کے جواب دینے سے بھاگنے نہیں دونگا۔ آپ کے سر پر جو یہ بھوت سوار ہے کہ یتیم پوتا اسی وقت اپنے دادا کی اولاد اور وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا جب میت کا کوئی بھی بیٹا زندہ موجود نہ ہو ۔ تو آپ پہلے اس بھوت کو اور شیطانی وحی کو اپنے سر سے اتار دیجئے۔
اور شیطانی سینگ مارنے کی کوشش نہ کیجئے بلکہ اللہ سے ڈریئے اور آخرت کا خوف کیجئے۔ آپ جس شخص کے خلاف بحث کر رہے ہیں اور شیطانی وحی کو لیکر نہیں لڑ رہا ہے بلکہ وہ دادا کی وصیت کا مقابلہ اللہ کی کی ہوئی وصیت سے کر رہا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ کا حکم اور فرمان ہے کہ یتیموں کے حق میں عدل و انصاف سے کام لو اور دوسروں کی اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اور فیصلہ کرنے و حکم لگانے سے پہلے اپنی اولاد و ذریت کو سامنے رکھ لو تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور جو بھی کہو حق و انصاف کی بات کہو۔
پس آپ نا انصافی کی باتیں نہ کریں بلکہ اللہ و رسول کی باتوں پر بار بار غور و فکر کریں۔ یتیم پوتے کی محجوبیت کا فتویٰ دینے والے اب یہ دنیا سدھار چکے ہیں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے وہ تو اللہ جانتا ہے۔ البتہ اس کی ایک جھلک اللہ نے بطور عبرت یہ دکھا دی ہے کہ ان یتیم پوتوں کے حق و حصہ کی اولین مخالفت کرنے اور فتویٰ دینے والے نے اپنے دونوں بیٹے کھو دیئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے وارث بنے۔لہذا آپ جلد بازی سے کام نہ لیجئے بلکہ سنجیدگی سے میری کہی ہوئی باتوں اور پیش کردہ دلائل پر غور و فکر کیجئے۔ اور اس غلط فہمی میں نہ رہیئے کہ میں اپنی کوئی بات منوا رہا ہوں۔ میں نے اس مسئلہ کے تعلق سے قرآن و حدیث کی روشنی میں جو تحقیق کی ہے بس اس کو ہی پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں یہ آپ کا کام ہے کہ مانیں یا نہ مانیں۔ آپ پر یا کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
نیز آپ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہیں کہ میں اہل قرآن، منکر حدیث، مرزائی قادیانی ہوں۔ الحمد للہ میں مسلک اہل سنت و الجماعت اہل الحدیث کا ایک ادنیٰ سا سپاہی و خادم ہوں۔ اور مجھے اس پر فخر ہے میں تحقیقی اہل حدیث ہوں آپ کی طرح تقلیدی اہلحدیث نہیں ہوں۔ میں نے قرآن و سنت میں بحث و تحقیق کے بعد ہی یہ موقف اختیار کیا ہے۔ کسی کی تحریر پڑھ کر یہ موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ میں کسی امام، فقیہ، مجتہد، شیخ الاسلام، شیخ الحدیث یا مفتی کا آپ کی طرح مقلد اعمیٰ نہیں ہوں۔ کہ کسی کی کہی ہوئی بات پر وحی الٰہی سمجھ کر آپ کی طرح آنکھ بند کر کے ایمان لے آؤں اور یقین کرلوں۔
میں حوالے سے بات کر رہا ہوں اور آپ ہیں کہ لوگوں کی باتوں کو پیش کر رہے ہیں تو کیا قرآن وحدیث سے کوئی گمراہ ہوتا ہےاور کیا قرآن و حدیث نعوذ باللہ شیطان کی وحی ہے۔ یا جو آپ پیش کر رہے ہیں وہ گمراہی ہے اور شیطانی وحی ہے۔ کہ آپ زبردستی کیئے جا رہے ہیں کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ بات صرف یہ ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ہو تو آیا وہ وارث ہے یا نہیں تو امام بخاری نے باب باندھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہے اور بس۔

امام بخاری نے صاف طور پر یہ باب بندھا ہے:
((
صحيح بخاري: 85 - كِتَابُ الفَرَائِضِ: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)
یعنی پوتے کے وارث ہونے کا باب جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔

صحیح بخاری کا مذکورہ باب اگر یتیم پوتے کے اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ کے ہونے پر واضح دلیل نہیں ہے تو آخر کس چیز کی دلیل ہے؟۔

میرا بنیادی سوال یہ تھا:
کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
تو میرے اس سوال کا جواب تو بن نہیں پڑرہا ہے اسی لئے آپ ہفوات بکے جا رہے ہیں کبھی بیوقوف، جاہل ، نادان، گمراہ،کج فہم کہتے ہیں تو کبھی بکری کبھی شیطان قرار دیکر میرے سر پر سینگ تلاش کرتے ہیں۔ تو اس قسم کی جاہلانہ و احمقانہ باتیں نہ کریں بلکہ میرے سوال کا جواب دیں۔ مثال ایسی دی جاتی ہے جو عقل امیں آنے والی ہو احمقانہ و جاہلانہ نہ ہو۔ اور میں جانتا ہوں کہ آپ جواب تو دے نہیں پائیں گے اور صرف کٹھ حجتی ہی کریں گے۔ اور چونکہ میری باتوں کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے اسی لئے ان لایعنی باتوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو برائے مہربانی الٹی پلٹی اور لایعنی باتوں میں الجھانے کی کوشش نہ کریں۔ میرے پاس آپ کی لایعنی باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اللہ کا حکم اور فرمان ہے : (وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا) (سورة الفرقان: 63)
ایک مومن کی شان یہ ہے کہ جب جاہل لوگ انہیں مخاطب کرتے ہیں تو وہ سلام کر کے گذر جاتے ہیں۔
تو آپ اصل مبحث پر رہیں اور میرے بنیادی سوال کا جواب دیں اگر آپ سے اس کا جواب نہیں بن پارہا ہے تو خواہ مخواہ ادھر ادھر کی فضول باتیں نہ کریں۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کے سوالات بھی اسی قبیل سے ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
الجواب:
محترم کفایت اللہ صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا: (تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔)
اور اصل سوال یہ تھا کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔
جب کہ
اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
Click to expand...
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے، اور ایک بار پھر بالتفصیل بیان ہو گا!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ میرے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے۔ یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔ تو میرے محترم آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
ممکن ہے، کہ آپ کو شیطان نے ''بالواسطہ'' نہیں، ''بلا واسطہ'' گمراہ کیا ہو!

الجواب:
أقول:

جناب من!
ممکن ہی نہیں بلکہ یقینا شیطان نے آپ کو گمراہ کر رکھا ہے اسی لیئے آپ قرآن و حدیث کی باتوں کو جھوٹی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں تو قرآن و حدیث کے حوالے سے بات کر رہا ہوں اور آپ ہیں کہ لوگوں کی باتوں کو پیش کر رہے ہیں تو کیا قرآن وحدیث سے کوئی گمراہ ہوتا ہےاور کیا قرآن و حدیث نعوذ باللہ شیطان کی وحی ہے۔ یا جو آپ پیش کر رہے ہیں وہ گمراہی ہے اور شیطانی وحی ہے۔ کہ آپ زبردستی کیئے جا رہے ہیں کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ بات صرف یہ ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ہو تو آیا وہ وارث ہے یا نہیں تو امام بخاری نے باب باندھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہے اور بس۔
اب یہ کہنا کہ نہیں جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ صریحی طور پر یہ شیطانی وسوسہ ہے اور شیطان نے ہی آپ جیسے لوگوں کےذہن و دماغ میں یہ بات ڈالی ہوئی ہے۔ آپ اس بات کو نہ تو صحیح طور پر سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کر رہیں ہیں۔ امام بخاری نے صرف یہ لکھا ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو۔ تو بیٹے کے نہ ہونے کی دو صورتیں بنتی ہیں ایک پوتے کے محض باپ کا نہ ہونا اور دوسرے پوتے کے باپ اور چچا تائے کا نہ ہونا۔ دونوں صورتوں میں پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار بن جاتا ہے۔ جیسا کہ شارح بخاری امام ابن حجر نے کہا ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں میت کی صلبی اولاد اور بیٹا مفقود ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (118) [سورة الأنعام]
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔
اور تاکہ اس طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔
تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حالانکہ وہ ایسا ہے اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔
آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں محض بےاصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔
اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کردیں محض بےاصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔
بالیقین آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے اور جو اس کی راہ سے بےراہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ پر چلتے ہیں۔
جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو۔

چنانچہ شیطان نے ہی یہ بات ڈالی ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب پوتا اپنے دادا کا وارث ہوگا ورنہ نہیں۔ صرف اپنے باپ کے نہ رہنے سے وارث نہیں بن جائے گا ۔ یہ شیطانی وحی ہے جسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کردیا ہے اسی لئے سب کو یہی بات جچتی ہے۔ اور اللہ و رسول کی بات اچھی نہیں لگتی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا اور اسی نے اس کو اس کے دادا کی اولاد بنایا۔ اس نے ہی اس کو یتیم کیا اور اسی نے اس کے والدین باپ دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار اور وارث بنایا۔ تو اس کے اور اس کے دادا کے بیچ میں چچا تایا کہاں سے آڑ بن گئے۔ چچا تائے کی اجازت سے تو وہ پیدا نہیں ہوا تھا کہ جب چچا نے اجازت دی تو یتیم پوتا پیدا ہوا اور یتیم بنا اب جب چچا تائے اجازت دینگے تب یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد اور اس کا وارث اور اس کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار بنے گا۔
یہ یقینا شیطانی وحی، شیطانی باتیں اور شیطانی شرطیں ہیں۔ یہ اللہ کا حکم اور اس کی شریعت قطعی طور پر نہیں ہے اس کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی ہے۔

*==============================================*
قوله:
(ابن داود نے کہا):

آپ نے امام بخاری کے أبواب کے حوالہ سے بحث کا سیاق خود نقل فرمایا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے
قوله: (ابن داود نے کہا):
اس کے جواب میں ہمارا کلام بھی آپ نے خود ہی پیش کیا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
قوله: ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بات درست نہیں سمجھے!
امام بخاری نے پوتے کے حق وحصہ کے اثبات کے مشروط ہونے کا باندھا ہے:

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ
إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یہاں شرط إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ ہے، اگر یہ شرط پوری، نہیں تو پوتے کی وراثت نہیں!
آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے کے یتیم ہوتے ہی یہ شرط پوری ہو جاتی ہے، خواہ دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو!
لیکن یہ بات درست نہیں! درست یہ ہے کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اگر کوئی بھی بیٹا ہو گا تو پوتے کے حق وحصہ کی مذکورہ شرط مفقود ہوگی!

الجواب:
أقول:

جناب من!
ہم نے کب یہ کہا ہے کہ پوتے کی وراثت غیر مشروط ہے۔
لیکن جس شرط کی آپ رٹ لگائے ہوئے ہیں وہ قرآن و حدیث میں مفقود ہے۔ اس کا کوئی وجود اس میں نہیں ہے۔ صرف آپ کے کہہ دینے سے کوئی بات صحیح و درست یا نا درست ہوجائے گی یا اس پر کوئی دلیل بھی ہے؟
در اصل آپ ہیں کہ بات کو صحیح طور پر نہ تو سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امام بخاری نے تو یہ لکھا ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو۔ انہوں نے ہرگز یہ نہیں لکھا ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو۔ جیسا کہ باب یوں ہے:

[باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ]
یعنی پوتے کی میراث کا باب جب پوتے کا باپ نہ ہو۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔
لیکن دوسرے نسخہ کے الفاظ:
(باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یعنی پوتے کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو۔
تو اس کے مطابق بھی بات وہی ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ یعنی یتیم پوتے کا باب نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ اور جب چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی وارث ہے یہی بات شارح بخاری امام ابن حجر نے بھی کہی ہے ۔
آپ اور آپ جیسے لوگوں نے اس میں اپنے طور پر گھڑ بنا کر یہ بات اس میں گھسیڑ دی اور خود ساختہ شرط لگا دی کہ جب کوئی بھی بیٹا نہ ہو نہ تو اس کا باپ اور نہ ہی اس کا چچا تایا ہی ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ امام بخاری نے تو ہر گز ایسا نہیں لکھا ہے کہ میت کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ یہ تو آپ جیسے لوگوں کی خانہ ساز اور زور زبردستی سے لگائی گئی شرط اور آپ لوگوں کی کج فہمی کا تڑکہ ہے جو آپ اور آپ جیسے لوگ اور آپ کے بزرگ لگا رہے ہیں۔
جب پوتے کا باپ نہیں رہا تو میت کے بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ جیساکہ صحیح بخاری کی اصل عبارت میں باپ کے نہ ہونے کی شرط ہے تو جب پوتے کا باپ نہیں رہا تو پوتا اپنے باپ کے نہ ہونے کے سبب میت کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگیا۔ اب یہ کہنا کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا یہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ یہ تو سراسر من گھڑت شرط ہے اور خواہش نفسانی کی بناء پر کیا گیا زور زبردستی کا اضافہ ہے اور سوائے ضد اور ہٹ دھرمی کے دوسرا کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ تو کھلے طور پر لفظی و معنوی تحریف ہے اور شریعت سازی ہے۔جس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں قطعا نہیں ہے۔ یہ تو صریحی طور پر ضلالت و گمراہی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود نے اس صحابی کے فیصلے پر کہا تھا کہ اگر میں بھی یتیم پوتی کو ساقط کروں تو میں بھی گمراہوں میں ہو جاؤں گا۔ تو جو بھی کسی پوتے پوتی کی اولاد ماننے سے انکاری ہو اور تقسیم ترکہ میں انہیں ساقط کرے تو وہ کھلا ہوا گمراہ، اور ضال و مضل ہے ہدایت یافتہ قطعی طور پر نہیں ہو سکتا ہے۔

قوله: ابن داود نے کہا:
اور پھر اس کا جواب دینے کے لیئے ''الجواب'' کا عنوان باندھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
الجواب:
*...............................

قوله: ابن داود نے کہا:
''الجواب'' کا عنوان باندھنے کے بعد آپ کا جواب نہ جانے کہاں غائب ہو گیا، اور آپ نے وہی تکرار سوال کی رٹ لگانا شروع کر دی، اور اس پر ''ہانکنے'' کی ہفوات شروع کردی،
الجواب:
أقول:
در اصل ہفوات تو آپ بکے جا رہے ہیں آپ اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور اس چیز کو میرے اوپر فٹ کر رہے ہیں جو آپ پر صادق آتی ہے۔ آپ نے جواب کا مطالبہ کیا ہے تو لیجئے جواب حاضر ہے۔
امام بخاری نے جس شرط کے ساتھ پوتے کے وارث ہونے کا باب باندھا ہے وہ پوتے کے باپ کے نہ ہونے کی شرط ہے اور بس۔چنانچہ باب یوں مذکور ہے جو صحیح بخاری کی ایک شرح التوضیح کے اندر ہے جس کے مصنف کی وفات سن (۸۰۴ ھ) میں ہوئی:
[باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ]
یعنی پوتے کی میراث کا باب جب پوتے کا باپ نہ ہو۔
البتہ صحیح بخاری کی ایک دوسری مشہور و معروف شرح فتح الباری جس کے مصنف حافظ ابن حجر ہیں جن کی وفات سن (۸۵۲ ھ) میں ہوئی کے الفاظ یوں ہیں:
(باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)
یعنی پوتے کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو۔
در حقیقت دو نوں ہی الفاظ میں ایک ہی بات کہی گئی بس فرق یہ ہے کہ پہلی والی عبارت میں بات بالکل واضح ہے جب کہ دوسرے الفاظ میں بات تھوڑی سی غیر واضح ہے جس کے چلتے امام ابن حجر کو یہ وضاحت کرنی پڑی (
(أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)) یعنی جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ پوتے کا باپ ہے تو پوتا بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے دادا کا وارث ہوگا۔ اور جب وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ پوتے کا چچا تایا ہے نہ ہو تب بھی پوتا بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے دادا کا وارث ہوگا۔
اسی طرح صحابی رسول زید بن ثابت کے اس قول: (
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
اسی طرح صحابی رسول زید بن ثابت کے اس قول: (وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ) کی شرح (أَيْ لِلصُّلْبِ) یعنی میت کے ہر صلبی بیٹے کے قائم مقام اس کے بیٹے یٹیاں ہونگے اور (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) کی شرح حافظ ابن حجر نے (أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ) سے کی ہے یعنی میت (دادا) اور اس کے پوتے کے مابین کے بیٹے نہ ہوں یعنی ہر ایک پوتے کے باپ نہ ہوں کیونکہ پوتے کسی ایک بیٹے کے بیٹے بھی ہو سکتے ہیں اور متعدد بیٹوں کے بیٹے بھی ہو سکتے تو ہر پوتا اپنے باپ کے نہ ہونے پر بمنزلہ اولاد و بیٹے اپنے باپ کی جگہ آکر اپنے دادا کا وارث ہوگا۔ تو دادا پوتے کے مابین کا صلبی بیٹا صرف اور صرف وہی شخص ہے جو کہ اس کا باپ ہے نہ یہ کہ چچا تایا۔
اس طرح حافظ ابن حجر والے نسخہ میں جو نسخہ یونینیہ سے ماخوذ ہے جو اشکال ہو سکتا تھا امام ابن حجر نے اپنی توضیح و تشریح کے ذریعہ اس کو دور کر دیا اور بات بالکل صاف ہو گئی کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا بمنزلہ اولاد کے ہے اور اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ جیسا کہ پہلے نسخہ میں پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر پوتے کے وارث، حقدار و حصہ دار ہونے کی صراحت موجود ہے۔ تو صحیح بخاری کے دونوں نسخوں میں ایک ہی بات کہی گئی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا اپنے دادا کا بمنزلہ اولاد وارث حقدار و حصہ دار ترکہ ہے۔
تو مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہیں ہے تو پوتا وارث ہے یا نہیں؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لئے امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے۔ کہ پوتا اس شرط کے ساتھ وارث ہے کہ میت کا بیٹا نہ ہو تو جب پوتے کا باپ جو کہ میت کا بیٹا ہے موجود نہیں تو وہ شرط پوری ہوگئی۔ اب یہ کہنا کہ کوئی بیٹا نہ ہو تو ابن کا معنی کوئی بیٹا نہیں ہوتا ہے نہ تو لغت میں اور نہ ہی عرف میں۔
اب جب کہ یتیم پوتے کا باپ موجود نہیں رہا تو بیٹا نہ ہونے کی شرط پوری ہوگئی۔ اور جب شرط پوری ہوگئی تو یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث بن گیا۔
اب آپ جیسے لوگ اس پر کوئی بیٹا نہ ہو نہ تو اس کا باپ اور نہ ہی چچا تایا کا تڑکہ لگا تے ہیں اور اس کو شریعت الٰہی سمجھتے ہیں تو یہ شریعت الٰہی نہیں بلکہ شیطانی شریعت ہے جو آپ کی خواہش نفس کے مطابق شیطان کی پیروی کرتی کراتی ہے اللہ و رسول اس سے بالکل بری الذمہ ہیں۔
آپ اور آپ جیسے لوگوں کا لگایا ہوا یہ تڑکہ ہے۔ امام بخاری نے نہ تو ایسا کہا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی شرط بیان کی ہے۔ جس کی سب سے بڑی دلیل اس کے بعد والا باب ہے جس میں بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہونے پر یتیم پوتی کو حصہ ملتا ہے اور اس فریضے میں سے حصہ ملتا ہے جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حصہ بنتا ہے یعنی (ثلثان) دو تہائی حصہ۔ جب میت کی مذکر اولاد نہ ہو بلکہ صرف اور صرف مونث اولادیں (نساء) ہوں جس میں بیٹی بھی آتی ہے اور پوتی بھی آتی ہے۔
آپ جیسے لوگ جو یہ ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں کہ میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو یا کوئی مذکر اولاد نہ ہو تو یہ محض اس جہالت کی بنا پر ہے۔ جس کا شکار آپ جیسے لوگ ہیں جو نہ تو اولاد کا معنی مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ ہی ولد کا ہی معنی مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ ہی ولد اور ابن کے مابین کا فرق ہی سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ اولاد کا اطلاق کن کن لوگوں پر ہوتا ہے اور کون کون لوگ اولاد کا مصداق ہیں۔ اور ابن کس کس کو کہتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ پتہ ہے کہ دون کسے کہتے ہیں اور دون و من دون میں کیا فرق ہے۔ اسی لئے من مانے طور پر اپنی خواہش و مرضی کے مطابق جو چاہتے ہیں بکے جاتے ہیں اور کٹھ حجتیاں کیئے جارہے ہیں اور ایک سیدھی سادی بات کو گھما پھرا کر، تاویل بیجا کر کے ٹیڑھی کھیر بنا دیا ہے۔ اور اس پر بگھاڑ بگھاڑے جا رہے ہیں۔ اور تڑکے پرتڑکہ لگائے جارہے ہیں۔
ذرا وہ عربی کا لفظ تو دکھائیے جو کوئی کا معنی دیتا ہو کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو نہ تو یتیم پوتے کا باپ اور نہ ہی اس کا چچا تایا ہو۔ تب یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث، اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا۔ امام بخاری نے تو قطعی طور پر ایسا نہیں کہا ہے یہ سراسر ان کے اوپر افتراءپر دازی اور بہتان طرازی ہے۔
امام بخاری نے تو یہ کہا ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے اور یہی بات صحابی رسول زید بن ثابت نےبھی کہی ہے کیونکہ پوتے کے باپ کے نہ رہنے پر پوتا بمنزلہ اولاد کے میت کا بیٹا ہے اور بس۔ یہی بات امام ابن حجر نے بھی کہی ہے کہ جب میت کی مذکر صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا نہ ہو تو پوتا وارث ہے خواہ وہ مذکر صلبی اولاد پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے خواہ وہ مذکر صلبی اولاد پوتے کا چچا تایا ہو وہ نہ ہو تو بھی پوتا وارث ہے۔ یعنی امام ابن حجر نے ان دو صورتوں کی وضاحت کی ہے جو پوتے کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں بنتی ہیں۔ ایک وہ صورت جس میں یتیم پوتے کے محض باپ کا نہ ہونا اور چچا تائے کا ہونا۔ اس میں بھی میت کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو رہی ہے جو میت اور اس کے یتیم پوتے کے مابین واسطہ ہے۔ اور دوسری صورت جس میں یتیم پوتے کے باپ اور چچا تائے دونوں کا نہ ہونا۔ اس میں بھی میت کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو رہی ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
مگر اس بات کا ذکر تک نہ کیا کہ امام بخاری نے ''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' کی شرط پر پوتے کی وراثت کا اثبات کیاہے!
الجواب:
أقول:
یہ تو محض آپ کی لا علمی و نادانی اور آپ کی بکواس ہے۔ امام بخاری نے بیٹے کے نہ ہونے کی شرط کے ساتھ پوتے کی وراثت کا اثبات کیا ہے۔ تو بیٹے کے نہ ہونے کی شرط اسی وقت پوری ہوگئی جب اس پوتے کا باپ مرگیا تو جب تک پوتے کا باپ موجود تھا پوتا محجوب تھا اور جب باپ مرگیا تو پوتا محجوب نہ رہا بلکہ وارث و حقدار اور حصہ دار بن گیا۔
ان ہی دونوں صورتوں کو امام ابن حجر نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔

(باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ، سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
یعنی بیٹے کے بیٹے کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی صلبی بیٹا نہ ہو۔
تو یہاں صلبی کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے کیونکہ بیٹے میں صلبی بیٹا بھی آتا ہے یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا وغیرہ اور غیر صلبی بیٹا بھی آتا ہے یعنی رضاعی(جسے اس کی بیوی نے دودھ پلایا ہو)، متبنی(منھ بولا) بیٹا۔

(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی یہ صلبی بیٹا خواہ یتیم پوتے کا باپ ہو وہ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا وارث اور حقدار و حصہ دار ہے خواہ یتیم پوتے کے چچا تائے بھی نہ ہوں تب بھی یتیم پوتا وارث اور حقدار و حصہ دار ہے۔

صحيح بخاري: (باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ)
وَقَوْلُهُ: (وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) (بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ) أَيْ لِلصُّلْبِ، وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ (وَلَدٌ).

دونوں صورتوں میں صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو رہی ہے۔ تبھی تو پہلی صورت میں شرط کے پورے ہونے پر اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو حصہ دیا ہے۔ پس جب پہلی صور ت ہو کہ جس میں بیٹا نہ ہو اور بیٹے کا بیٹا یعنی یتیم پوتا ہو تو صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہونے پر یتیم پوتا حقدار و حصہ دار بنتا ہے۔
اب باقی بچی دوسری صورت تو اس صورت میں بھی یتیم پوتے پوتیاں وارث، حقدار و حصہ دار ہیں۔
چنانچہ آٹھویں صدی کے امام و محدث حافظ ابن الملقن کے پاس صحیح بخاری کا جو نسخہ تھا جس کی شرح امام ابن الملقن نے کی ہے اس میں
(باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ) ہی ہے جیسا کہ اس شرح کے محقق نے حاشیہ میں لکھا ہے: (كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن)) (كذا بالأصل) یعنی بخاری کے جس نسخہ سے حافظ ابن الملقن نے شرح کی اس میں تو (له أبٌ) (یعنی اس کا باپ نہ ہو) ہی ہے۔ البتہ ایک دوسرے نسخہ میں یعنی نسخہ یونینیہ میں (وفي اليونينية: (ابن)) کا لفظ ہے۔ ممکن ہے کتابت کی غلطی سے ایسا ہوا ہو کہ (أبٌ) سے (ابن) ہوگیا ہو۔ اور یہ کوئی بعید از قیاس بات بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا بہت ہوتا ہے۔ اور بہت ساری جگہوں پر اسی نسخہ یونینیہ میں ہوا بھی ہے اور بہت ساری حدیث کی کتابوں میں لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے اس قسم کی حرکتیں کی بھی ہیں جس کی سب سے واضح مثال صلاۃ تراویح کے سلسلہ میں یاروں نے (عِشْرِينَ لَيْلَةً) کو (عِشْرِينَ رَكْعَةً) بنا ڈالا۔ تو (أبٌ) کا (ابن) بن جانا کوئی بعید از قیاس بات بھی نہیں ہے۔ صرف ایک حرف کی تو بات ہے۔ ویسے اگر لفظ (ابن) ہے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مسئلہ یہی ہے کہ جب کسی پوتے کا باپ دادا کی زندگی میں فوت ہوجاتا ہے تو اس یتیم پوتے کا شرعا کیا حکم ہے؟
تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کا وارث ہے جس طرح اس کا دادا اس کے باپ کی جگہ وراث ہے۔ کیونکہ دادا اس پوتے کا والد و باپ ہے۔ جیسے اس کا باپ اس کا والد و باپ تھا جو اب زندہ موجود نہیں رہا۔
دادا کا باپ و والد ہونا اور یتیم پوتے کا اولاد و بیٹا ہونا ایک مسلمہ حقیقت و امر ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت خود ہمارے نبی کی ذات ہے کہ آپ کے دادا نے بحیثیت والد و باپ کے آپ کی پرورش، پرداخت کی اور آپ اپنے دادا کی ہی میراث میں تریپن سال تک رہے جب کہ آپ کے دادا آپ کے بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے اور آپ کے چچا تائے سب موجود تھے۔ اور کسی نے انکو عبد المطلب (ان کے دادا ) کی اولاد و بیٹا ماننے سے انکار نہیں کیا۔ اور آپ فخر سے کہا کرتے تھے کہ
«أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ» میں جھوٹا نہیں ہوں، میں تو نبی ہوں جھوٹ نہیں بولتا ہوں میں تو عبد المطلب کا بیٹا اور اولاد ہوں۔ اور کوئی مسلمان تو کیا کسی کافر نے بھی آپ کو عبد المطلب کا بیٹا اور اولاد ماننے سے انکار نہیں کیا۔
اور آپ کا معاملہ تو ان جاہلی لوگوں اور ان کافروں سے بھی بد تر ہے کہ آپ اللہ کے نبی کو بھی عبد المطلب کا بیٹا اور اولاد نہیں مان رہے ہیں بلکہ ا نکاری ہیں۔ اور برابر جھٹلائے چلے جارہے ہیں کہ نہیں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے نہیں ہے ان کا بیٹا نہیں ہے۔ آپ مسلسل یتیم پوتے کو اس کے دادا کی اولاد و بیٹا ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور آپ مجھے نہیں بلکہ آپ تو خود اللہ کے نبی و رسول کو ہی جھٹلا رہے ہیں کہ نہیں آپ عبد المطلب کے بیٹے اور اولاد نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ کے رسول نے یہ بات بحیثیت نبی و رسول کہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا : (
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (سورة الواقعة: 82) یعنی تم نے تو جھٹلانا ہی اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ بروز قیامت ضرور بالضرور پوچھے گا۔

(أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ) (105) (قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ (106) رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ) (107) [سورة المومنون]
کیا تمہارے اوپر میری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھی جنہیں تم جھٹلا دیا کرتے تھے۔ تو کہیں گے کہ ہمارے اوپر ہماری بد بختی غالب تھی اور ہم گمراہ تھے۔ تو اے ہمارے رب ہمیں اس عذاب سے نکال پھر اگر دوبارہ ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم ظالم ہونگے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
تو یہ تو کل کا کل آخرت کا ہی معاملہ ہے۔ اگر واقعی کسی کے دل میں اللہ کا خوف اور ڈر ہو تو اس کے لئے ایک ہی آیت کافی ہے۔ ورنہ پورا قرآن اس کے اوپر پڑھ دیا جائے اور وہ اس پر یقین نہ کرے تو یہ اس کی بد بختی اور گمراہی کے سبب ہی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کسی کی اولاد و ذریت کے بارے میں یہ کہہ کر ڈرایا ہے کہ اس کی جگہ اپنی ذریت کو رکھ کر فیصلہ کرلو کہ یہی معاملہ تمہاری اپنی اولاد کے ساتھ پیش آجائے تو آکر تمہارا موقف کیا رہے گا؟ ذرا اس پر غور کرو اور اس کے بعد کوئی فیصلہ لو۔ اور اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی کہو اس سے ڈر کر ہی کہو اور حق و سچ اور صحیح بات کہو۔
یتیم پوتا یقینا اپنے دادا کی حقیقی اولاد اور اس کی ذریت میں سے ہے جو قرآن و حدیث کے دلائل اور لغت و عرف کے شواہد سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جس کا انکار کوئی عقل سلیم رکھنے والا قطعی طور پر نہیں کر سکتا ہے۔
بات بس اتنی سی ہے کہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان بیٹوں کی اولادیں وارث نہیں ہونگیں۔ جیسا کہ زید بن ثابت نے کہا ہے:
(وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.)۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ میت کے ترکہ میں اس کے بیٹوں کے ساتھ ان بیٹوں کی اولادوں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ بالواسطہ اولادیں ہیں جنہیں ان کے واسطوں کے ذریعہ ان کا حق پہنچایا جائے گا اسی لئے مفسرین نے حقیقت و مجاز کی فقہی بحث کی ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بالواسطہ اولادوں کو ان کے واسطوں کے ذریعہ ان کا حق و حصہ ملے۔ اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان بالواسطہ اولادوں کو کچھ بھی نہ ملے۔ جیسا کہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے اور فتویٰ داغے جارہے ہیں اور رٹ لگائی جارہی ہے کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حصہ نہیں پا سکتا ہے۔جبکہ زید بن ثابت کا قول اس بات کی صراحت کر رہا ہے کہ ابن کے ساتھ اس ابن کی اولاد خواہ وہ مذکر ہو یا مونث وارث نہیں ہوگی یعنی باپ کے ہوتے ہوئے اس باپ کے بیٹے بیٹیوں کا حصہ نہیں لگے گا۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کا کوئی حق و حصہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ بلکہ ان کا حصہ ہے اور وہ ان کے واسطوں یعنی ان کے باپ کے ذریعہ سے ان کو ملےگا تو جس کا باپ موجود ہے اس کے واسطے کے ذریعہ ان کا حصہ ان تک پہنچ جائے گا جو انکے باپ کی میراث میں شامل ہوکر اس کے ترکہ سے انہیں ملے گا۔ تو ان کے باپ کے جو بیٹے بیٹیاں موجود ہیں انہیں بھی ملے گا اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں بعد میں پیدا ہونے والے ہونگے ان کو بھی ملے گا۔
یتیم پوتے کا معاملہ قطعی طور پر اس سے مختلف ہے کیونکہ دادا اور ان کے درمیان کا جو واسطہ تھا وہ اب نہیں رہا تو اب ایسے پوتے کو ان کا حق و حصہ جو میت کے ترکہ میں بنتا ہے اس کا کیا کیا جائے؟ یہ ایک بڑا اہم سوال اور مسئلہ ہے۔
تو اسی مسئلہ کی وضاحت کے لئے (
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) زید بن ثابت نے کہا کہ وہ بمنزلہ اولاد و بیٹے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی میت کی دوسری اولادیں ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کہ ان کی اولادوں کو ان کے حصے پہنچادیئے جاتے اور بات ختم ہو جاتی۔
لیکن اسلامی شریعت قیامت تک کے لئے ہے اور اس کا ایک ماخذ و مصدر ہے جسے قرآن وسنت اور حدیث کہا جاتا ہے۔ اور وہ کچھ اصول و ضوابط پیش کرتا ہے۔ تو اصول بتایا گیا کہ جو بیٹا نہ ہو اس بیٹے کی اولاد کو بیٹا بیٹی کا درجہ دیا جائے اور بیٹے بیٹی کے درجہ میں رکھ کر ان کو ان کا حق و حصہ دیا جائے ۔ اسی بات کو صحابی رسول زید بن ثابت نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:

وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا (وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
یعنی بیٹوں کی اولادیں بمنزلہ اولاد کے ہیں لہذا وہ بھی بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح میت کے ترکہ میں حصہ پائی گےتو اگر بیٹا ہے تو بیٹے کی طرح پائے گا اور اگر بیٹی ہے تو بیٹی کی طرح حصہ پائے گی۔
اسی بات کو صحابی رسول زید بن ثابت نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:

(ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ).
اللہ کے فرمان اور حدیث رسول اور صحابی رسول زید بن ثابت کی بات کو سامنے رکھ کر ہی امام بخاری نے اولاد کے تعلق سے چار ابواب باندھے ہیں دو بلا واسطہ اولاد کے لئے اور دو بالواسطہ اولاد کے لئے۔ جو انکار حق کے لئے نہیں بلکہ ان کے حق کے اثبات کے لئے ہے۔
یتیم پوتے کا جہاں تک معاملہ ہے کہ ان کے دادا کی وفات کے وقت ان کے باپ موجود نہیں ہیں تو ان کا کیا کیا جائے تو اسی کو واضح کرنے کے لئے زید بن ثابت نے کہا کہ وہ بمنزلہ اولاد یعنی بیٹے بیٹی کے درجہ میں ہیں۔ تو جب ان کا باپ نہیں رہا تو وہ اپنے باپ کی جگہ بمنزلہ اولاد یعنی بیٹا بیٹی ہونے کے وارث ہیں۔ اسی کو ثابت کرنے کے لئے ہی امام بخاری نے یہ باب(
(باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ)) باندھا ہے کہ بیٹے کی عدم موجودگی میں اس بیٹے کا بیٹا بیٹے کی جگہ وارث ہے اور اس بیٹے کی بیٹی بیٹی کی جگہ وارث ہے۔ چنانچہ یتیم پوتے کا الگ باب باندھا ہے اور یتیم پوتی کا الگ باب باندھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد وارثوں کا الگ ذکر کیا ہے اور وراث عورتوں کا الگ ذکر کیا ہے۔ نیز مونث اولاد کا الگ حکم بیان کیا ہے اور مذکر اولاد کا الگ حکم بیان فرمایا ہے۔
چنانچہ امام بخاری آیات مواریث پیش کرنے کے بعد پہلے بلا واسطہ مذکر و مونث اولاد کے احکام بیان کرتے ہیں پھر صرف بلا واسطہ مونث اولاد کے احکام بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد بالواسطہ مذکر اولاد کے احکام بیان کرتے ہیں پھر بالواسطہ مونث اولاد کے احکام بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد والدین پھر ازواج پھر اخوۃ و اخوات کے احکام بیان کرتے ہیں اس کے بعد دیگر احکام بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے (یوصیکم) کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تفسیر مفسرین نے (یوصلکم) سے کی ہے یعنی اپنی ساری اولادوں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ انہیں ان کا حق و حصہ پہنچاؤ۔ ان کا حق و حصہ جو تمہاری زندگی میں بنتا ہے اور جو تمہارے مرنے پر تمہارے ترکہ میں بنتا ہے۔
اب لوگ اللہ کے کلام و رسول کے فرمان نیز زید بن ثابت کے قول اور امام بخاری کے صحیح بخاری میں بیان کردہ ترجمۃ الباب کو سیدھے سیدھے سمجھنے کے بجائے اپنی عقل (آپ کے الفاظ میں) لفظ (کوئی ) کا تڑکہ لگا کر ایک ایسا مسئلہ گڑھ بنالیا جو اسلام اور اسلامی شریعت کی صاف شفاف عادلانہ و منصفانہ تعلیمات پر ایک بد نما داغ بن گیا اور اعدائے اسلام کے لئے تضحیک کا باعث بن رہا ہے اور منکرین حدیث کے لئے حجیت حدیث کو رد کرنے کا ایک بہانہ مل گیا۔
جبکہ ان یتیم پوتوں کو کسی کی ہمدردی کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا سب سے بڑا ہمدرد خود انہیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے بطور اپنے آخری نبی و رسول کے ایک یتیم پوتے کو ہی چنا اور اس کا سہارا بنا اور اس کو وہ درجہ و مقام عطا کردیا کہ جس کا درجہ و مقام اللہ کے بعد ہے۔ اور جس کی ہر ادا کو اس نے ایک نمونہ و ماڈل بنا دیا۔اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری قرار دیا۔ اور اس کے منھ سے نکلنے والی بات کو اسی طرح وحی الٰہی اور حدیث قرار دیا جیسے اس کی اپنی بات وحی و حدیث ہے۔ اور اس کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلنے کو دونوں جہان کی سعادت قرار دیا۔ اور چلنے والوں کو جنت کی خوشخبری دے دیا اور اس کے خلاف کام کرنے والے کے لئے جہنم ٹھکانا بنادیا۔
منکرین حدیث نے تو صرف حدیث کا انکار کیا تھا اور آپ ہیں کہ قرآن و حدیث اور سیرت نبوی کے ہی سرے سے انکاری ہیں۔ جبکہ اللہ کو فرمان ہے:

(لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا) (سورة الاحزاب: 21)
(لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ
أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (سورة الممتحنة: 6)

یعنی تمہارے لئے اللہ کے نبی کی پوری زندگی میں ہدایت و نصیحت اور عبرت پکڑنے کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اس شخص کے لئے جو اللہ و رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور اسے اللہ کا ڈر و خوف ہے اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت ہم سے باز پرس کریگا۔ تو جو اس سے انحراف کرے تو اللہ کو اس کی کیا پرواہ ہے اللہ تعالیٰ تو ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
امام بخاری نے تو یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حقداری و حصہ داری کو ثابت کرنے کے لئے یہ باب باندھا کہ پوتے کی میراث کا باب جب اس کا باپ نہ ہو جس کو لوگوں نے اس میں ایک لفظ (کوئی) کا اضافہ کر کے اسے انکار کا باب بنا دیا کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا حصہ پائے گا۔ اور اس کو منزل من اللہ شریعت جان سمجھ کر اس کو حق ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں اور حق باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کے لئے وہ قرآن و حدیث تک کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
محترم ابن داود صاحب!
میں نے یہ سوال کیا تھا:

میرا بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی آیت یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں اس فریضے میں سے حصہ دیا ہےجو صرف بیٹیاں ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
میرے اس سوال کا جواب کسی سے بن نہیں پڑ رہا ہے تو میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے لوگ ادھر ادھر کی ہانکے جاتے ہیں اور الٹا مجھے علم میراث سیکھنے کا مشورہ دینے لگ گئے جیسا کہ کفایت اللہ صاحب نے مشورہ دیا ہے اور آپ اور کفایت اللہ صاحب تو میرے جاہل، بےوقوف، کج فہم،کم فہم، گمراہ، گمراہ فکر وغیرہ وغیرہ ہونے کا فتویٰ لگا ہی چکے ہیں یہ سمجھ کر کہ میں نے غلام پرویز جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر یہ بحث چھیڑی ہے۔
تو میرے محترم آپ سے میرے بنیادی سوال کاجواب تو نہیں بن پڑ رہا ہے اس لئے آپ میرے بنیادی سوال کا جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ تو گپ بازی چھوڑیئے اور میرے بنیادی سوال کا جواب عنایت فرمائیے عین نوازش ہوگی۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کے اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے، ایک بار پھر تفصیل سے بیان کیا جائے گا!
مگر یہ بتلائیے کہ جس بات کے جواب کے لیئے آپ نے ''الجواب'' کا عنوان باندھا ہے، اس کا جواب کجا است؟
جناب من! امام بخاری کے ابواب آپ کے مطابق اس مسئلہ میں آپ کی سب سے بڑی دلیل ہے، اور ہم نے آپ کی زعم کردہ دلیل کا بطلان ثابت کیا ہے! اور جب آپ سے آپ کی پیش کردہ سب سے بڑی دلیل وثبوت کے بطلان کا جواب نہیں بن پا رہا تو لگے ہیں ادھر ادھر کی۔۔۔۔۔
الجواب:
أقول:
در اصل آپ اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور جس چیز کو میرے اوپر فٹ کر رہے ہیں۔ وہ آپ پر صادق آتی ہے۔ پوتے کا حقیقی اولاد اور بمنزلہ اولاد ہونا ایک دوسرے کے منافی نہیں ہے۔ جس طرح صدر اور نائب صدر، وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ تو نائب صدر اور نائب وزیر اعظم اسی وقت بمنزلہ صدر اور وزیر اعظم بنتا ہے جب صدر یا وزیر اعظم یا تو کہیں دورہ پر گیا ہوا ہو یا وفات پا گیا ہو تو جب تک صدر اور وزیر اعظم واپس نہ آجائیں یا نئے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب نہ ہوجائے۔ نائب صدر اور نائب وزیر اعظم کو بمنزلہ صدر، وزیر اعظم ہونے کے قائم مقام صدر اور وزیر اعظم مقرر کردیا جاتا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے ابن حجر عسقلانی کے کلام پر بحث کا سیاق نقل کیا:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں نے کہا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
اس پر ہمارا جواب آپ نے نقل کیا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جس پر آپ نےلکھا : پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّت) (فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن))
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا (والعیاذ باللہ)

قوله: ابن داود نے کہا ہے:
ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں (دُونَهُمْ) کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ(أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)!
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

(إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے!
بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی جو شرط ہے،
(إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ)
جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو۔ پھر اس صلب کو بیان کیا ہے:
(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه)

برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!

الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ ہے آپ کا تڑکہ چونکہ آپ کو ایسا ہی پڑھایا اور رٹایا گیا ہے اس لئے آپ کو وہی سمجھ میں آ رہا ہے اور صحیح لگ رہا ہے جس کو آپ کی کھوپڑی میں بیٹھایا گیا ہے ورنہ بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے تو یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب میت کا وہ بیٹا بھی نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے تب بھی یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔ کیونکہ ایک شخص کی صلب سے صرف ایک ہی بیٹا نہیں ہوتا ہے بلکہ بہت سارے بیٹے ہوتے ہیں جو اس کی نسل اور ذریت کہلاتے ہیں اور ان سب کو اولاد کہتے ہیں۔ توایک شخص کی صلب سے پیدا ہونے والا یتیم پوتے کا باپ ہے اور چچا ہے اور تایا ہے اور ان سے نکلنے والی بہت سی شاخیں ہیں ان سب کو صلبی اولاد کہا جاتا ہے جن میں بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، پڑپوتے پڑ پوتیاں،پڑ نواسے پڑنواسیاں درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہیں جنہیں صلبی اولاد کہا جاتا ہے اس کی دلیل اور ثبوت اور اس پر شاہد خود اللہ کا کلام و فرمان ہے:
(وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ) (سورة النساء: 23)
یعنی تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں۔
چنانچہ اس فرمان کے تحت جس طرح بیٹوں کی بیویاں حرام ہیں ٹھیک اسی طرح سے پوتوں، نواسوں، پڑپوتوں اور پڑنواسوں کی بھی بیویاں (درجہ بدرجہ نیچے تک) سبھی حرام ہیں۔ کیونکہ سبھی اولاد و بیٹے ہیں پس سبھی وارث ہیں۔
اسی کو امام ابن حجر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

7 - (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ)
قَوْله: (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ)

قال ابن حجر: أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ. [فتح الباري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]

امام ابن حجر نے باب کی جو شرح کی ہے تو متن اور شرح کو ملا کر عبارت یوں بنتی ہے:
ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی صلبی بیٹا نہ ہوخواہ وہ صلبی بیٹا اس پوتے کا باپ نہ ہو یا اس کا چچا نہ ہو۔
چونکہ پوتے کے تین احوال ہوتے ہیں:
پہلی حالت یہ ہے: پوتے کا باپ بھی ہو اور اس کے چچا تائے بھی ہوں۔
دوسری حالت یہ ہے : صرف پوتے کا باپ نہ ہو البتہ اس کے چچا تائے ہوں۔
تیسری حالت یہ ہے: جس میں نہ تو پوتے کا باپ ہی ہو اور نہ ہی پوتے کے چچا تائے ہی ہوں۔
ان تینوں حالتوں میں پہلی اور تیسری حالت کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
رہی دوسری حالت جسے لوگوں نے متنازع بنا رکھا ہے ، وہ اس لئے متنازع ہے کیونکہ لوگوں نے اس کو غلط طریقے سے سمجھ رکھا ہے۔ کیونکہ بیٹے کے نہ ہونے کی دو صورت ہے ایک صورت جس میں پوتے کا صرف باپ نہیں ہے اور دوسری صورت جس میں نہ تو پوتے کا باپ ہی ہے اور نہ ہی پوتے کے چچا تائے ہی ہیں۔
ان ہی دو صورتوں کو امام بخاری نے اس باب کے تحت بیان کیا ہے۔ جس کی وضاحت امام ابن حجر نے کی ہے۔
در اصل باب یوں ہے:
[ 7 باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ]
جو حافظ ابن الملقن کے صحیح بخاری کے نسخہ میں ہے جس کی انہوں نے شرح کی چنانچہ اس کتاب کے محقق نے لکھاہے کہ اصل میں یہ عبارت یوں ہی ہے البتہ ایک دوسرے نسخہ میں جسے نسخہ یونینیہ کہا جاتا ہے (اب) کی جگہ (ابن) کا لفظ آیا ہوا ہے۔
تو حافظ ابن الملقن کے جو حافظ ابن حجر سے پہلے کے ہیں ان کے صحیح بخاری کے نسخہ کے مطابق باب کا ترجمہ یہ ہوا کہ بیٹے کے بیٹے کی میراث کا باب جب اس کا باپ نہ ہو ۔ چنانچہ اس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ابن سے مراد پوتے کا باپ ہے نہ کہ چچا تائے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوتو پوتا وارث ہوتا ہے۔ اب چچا تائے کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ معاملہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔
بالکل یہی بات حافظ ابن حجر نے بھی ان الفاظ میں کہی ہے :

(بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی صلبی بیٹا نہ ہوخواہ وہ صلبی بیٹا اس پوتے کا باپ نہ ہو یا اس کا چچا تایا نہ ہو۔
تو یہ بالکل صاف اور واضح بات ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ خواہ اس کے چچا تائے ہوں یا وہ بھی نہ ہوں۔ تو پوتے کے وارث، حقدار و حصہ دار ہونے کے لئے بنیادی شرط پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی ہے۔ اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی بیٹا نہ ہو نہ تو اس کا باپ اور نہ ہی چچا تائے۔ تو یہ بالکل غلط اور قطعی طور پر فضول اور لا یعنی بات ہے۔ کیونکہ اجماع اس بات پر ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا بطور قائم مقام بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہے یہی بات امام بخاری نے کہی ہے جیسا کہ باب کے الفاظ اس پر شاہد ہیں:
[ 7 باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ]
پوتے کے وارث، حقدار و حصہ دار ہونے کا باب جب پوتے کا باپ نہ ہو۔
تو جب پوتے کا باپ نہیں تو پوتا وارث ہے۔ خواہ اس کے چچا تائے ہوں یا وہ بھی نہ ہوں۔ جیسا کہ امام بخاری اور امام ابن حجر نے کہا ہے۔ اب اگر کسی کو سیدھی بات سمجھ میں نہ آئے تو یہ اس کی عقل و فہم کا قصور ہے۔ اس کا علاج کرنا چاہئے۔
چنانچہ اجماع بھی اسی بات پر ہوا ہے کہ جب پوتے کا باپ موجود ہے تو پوتا محجوب ہے اور پوتے کا باپ نہیں ہے تو پوتا وارث ہے۔

277- قال الله جلّ ذكره، وتقدست أسماؤه: {يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ}،
وأجمعوا على أن مال الميت بين جميع ولده للذكر مثل خط الأُنثيين، إذا لم يكن معهم أحد من أهل الفرائض، إذا كان معهم من له فرض المعلوم، بدئ بفرضه فأعطيه، وجعل الفاضل من المال بين الولد: للذكر مثل حظ الأُنثيين.

279- وأجمعوا على أن بني الابن، وبنات الابن يقومون مقام البنين والبنات ذكورهم كذكورهم، وإناثهم كإناثهم، إذا لم يكن للميت ولد لصلبه. [الإجماع، لمؤلفه: أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى : 319هـ)]

یعنی لوگوں کا اجماع اس بات پر ہوا ہے کہ جب مرنے والے شخص کی صلبی اولاد( ان کا باپ)موجود نہ ہو تو بیٹے کے بیٹے اور بیٹیاں(پوتے پوتیاں) بطور قائم مقام بیٹے اور بیٹیوں کے ہونگے۔ چنانچہ پوتا بیٹے کی طرح اور پوتی بیٹی کی طرح ہے۔
دراصل اس اجماع کی بنیاد یہ آیت ہے :
{يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ}
اور اجماع اس آیت میں مذکور لفظ اولاد کی بنیاد پر ہوا کہ چونکہ پوتا پوتی بھی اولاد میں سے ہیں لہذا وہ بھی اس حکم الٰہی میں داخل ہیں۔ تو جو بھی اولاد میں سے ہو اور جن لوگوں پر لفظ اولاد صادق آتا ہو تو وہ سب اس آیت کا مصداق ہیں۔
لفظ اولاد ایک جامع و شامل لفظ ہے جس میں کسی بھی شخص کی پوری نسل خواہ وہ نسبی ہو یا صہری داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے دو سلسلے بنائے ہیں اور انسان کی نسل اور ذریت کا دو ذریعہ ہے ایک بیٹے اور بہوسے چلتا ہے جسے نسبی رشتے کہتے ہیں۔ اور دوسرے بیٹی اور داماد سے چلتا ہے جسے صہری رشتہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا) (سورة الفرقان: 54)
وہی وہ ذات باری تعالیٰ ہے جس نے پانی(نطفہ) سے انسان بنایا اور اس سے دو سلسلے جاری کیئے ایک نسبی اور دوسرے صہری اور تمہارا رب انتہائی قدرت والا ہے۔
(وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ) (سورة النحل: 72)
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے۔ اور تمہاری بیویوں کے ذریعہ بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں بہترین بہترین چیزیں کھانے کو دیں تو کیا لوگ باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔
تو وصیت والی آیت میں جو اشکال پایا جاتا تھا کہ جب بیٹے پوتے سبھی اولاد ہیں تو کیا بیٹوں پوتوں سب کو بیک وقت دیا جائے گا۔ تو لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نہیں جب پوتے کا باپ ہوگا تو پوتے کو براہ راست نہیں ملے گا بلکہ اسے اس کے واسطہ یعنی اس کے باپ کے ذریعہ ملے گا۔ اور جس کا باپ نہیں ہے تو وہ اپنے باپ کا قائم مقام ہو کر پائے گا۔
لہذا جو اشکال تھا وہ دور ہوگیا کہ جس کا باپ ہے وہ محجوب ہے۔ اور جس کا باپ نہیں ہے وہ وارث ہے۔ چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی چیز کو بیان کیا ہے اور ان کے ہی قول کے مطابق امام بخاری نے وہ باب باندھا ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے اسی طرح جب پوتی کا باپ نہ ہو تو پوتی وارث ہے۔ اور یہی بات امام ابن حجر نے بخاری کی شرح کرتے ہوئے اپنی شرح میں بتائی ہے۔
اب یہ لوگ ہیں کہ اس میں شیطانی وحی کو داخل کردیا کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا یعنی نہ تو پوتے کا باپ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔ اور دلیل یہ دی کہ کیونکہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید ہے اس لئے بیٹا ہی وارث ہوگا اور پوتا محجوب و محروم الارث قرار پائے گا۔ اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اللہ کے کلام آیت قرآنی میں سے لفظی و معنوی تحریف کرتے ہوئے لفظ (الاقربون) کو اور حدیث رسول میں سے (اولی رجل ذکر) کو پیش کرکے یہ استدلال کیا اور کہا کہ دیکھو یہ اللہ و رسول کا حکم اور شریعت ہے اور اللہ کا یہی قانون اور اجماع امت ہے۔ کہ وراثت کی بنائ صرف اور صرف قرابت داری ہے لہذا بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث نہیں ہوگا کینکہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید ہے۔ یہ ہے شریعت سازی جس کا قرآن وحدیث میں دور دور تک کہیں وجود نہیں ہے۔
جبکہ نہ تو قرآن سے ایسا ثابت ہے اور نہ ہی حدیث رسول سے ایسا کچھ ثابت ہے اور نہ ہی اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ (کوئی بیٹا نہ ہو) تو کہیں سے ثابت ہی نہیں ہوتا ہے۔ (کوئی ) کا لفظ تو کہیں بھی نہیں ہے بلکہ یہ لفظ تو اردو زبان کے ترجمہ میں زبردستی کشید کر کے ڈالا جا رہا ہے۔ اور ایک عام فہم اور سمجھ میں آنے والی سادہ سی بات کو ایک مخصوص رنگ اور خاص معنی دیدیا گیا ہے۔ یہ تو بر صغیر ہند و پاک اور قرب و جوار کا دیا ہو معنی و مفہوم ہے کہ کوئی بیٹا نہ ہو نہ تو پوتے کا باپ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔
اگر (کوئی بیٹا نہ ہو) کہنا مقصود ہوتا تو اس کے لئے عربی زبان میں الفاظ کی کمی نہ تھی بجائے یہ کہنے کے کہ
(بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ) سیدھے سیدھے یہ کہہ دیتے : (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ له أي ابن)
تو بات بالکل صاف اور واضح ہوجاتی لیکن لوگوں نے لفظ (کوئی)کا آپ کے لفظوں میں تڑکہ لگا کر ایک عام، مطلق اور سیدھی سادی بات کو ایک خاص رنگ دے دیا اور اس کو وحی الٰہی بنا کر پیش کردیا جب کہ حقیقتا یہ وحی شیطانی کا تڑکہ ہے۔ اور خود کشید کردہ و خود ساختہ معنی و مفہوم اور خانہ ساز حکم اور گھر بنائی ہوئی شریعت ہے۔ یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا یہ حکم قطعی طور پر بے بنیاد، من گھڑت اور اللہ کے دین و شریعت میں دخل اندازی اور شریعت سازی ہے۔ اللہ نے ایسا کوئی حکم نازل نہیں فرمایا ہے۔ یہ اللہ و رسول کے اوپر صریحی طور پر افتراء پردازی، بہتان طرازی اور جھوٹ گھڑنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول اس سے قطعی طور پر بری ہیں۔

وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -:
وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ،
ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،
وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.

یعنی زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بمنزلہ ولد کے ہیں جب ان کے اوپر یعنی ان کے اور ان کے دادا کے درمیان کا ولد نہ ہو۔
تو ان میں کے مذکر یعنی پوتے مذکر یعنی بیٹے کی طرح ہیں۔ اور مونث یعنی پوتی مونث یعنی بیٹی کی طرح ہیں۔ تو جس طریقے سے بیٹے بیٹیاں وارث ہوتے ہیں بیٹوں کے نہ رہنے پر پوتے پوتیاں وارث ہونگی اور جن جن لوگوں کو محجوب کرتے ہیں انہیں یہ بھی محجوب کردینگے۔
اور یہ کہ بیٹے کے ساتھ اس بیٹے کے بیٹے وارث نہیں ہونگے۔
اس میں زید بن ثابت نے پوتوں کے تینوں احوال کا ذکر کیا ہے۔
پہلی حالت جس میں کہ پوتے کا باپ نہیں البتہ اس کے چچا تائے ہیں۔
دوسری حالت جس میں کہ نہ تو پوتے کا باپ ہی ہے اور نہ ہی چچا تائے ہی ہیں۔
تیسری حالت جس میں پوتے کا باپ بھی ہے اور چچا تائے بھی ہیں۔
اور ان تینوں احوال کے احکام بھی بیان کر دیئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
پہلی حالت جس میں کہ پوتے کا باپ نہیں البتہ اس کے چچا تائے ہیں۔ تو زید بن ثابت کا کہنا ہے کہ

(وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)،
بیٹوں کی اولاد بمنزلہ ولد یعنی بیٹا بیٹی کے ہے جب ان کے اوپر کا ولد نہ ہو یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ بعض روایتوں میں لفظ (ذکر) یعنی مذکر کا اضافہ ہے جس کا معنی ہوا کہ ان کے اوپر کا بیٹا نہ ہو۔ یعنی کہ ان کا باپ نہ ہو تو ان کی جگہ پوتا بطور بیٹے کے اور پوتی بطور بیٹی کے حصہ دار و وارث ہوگی۔
اس عبارت میں جو (دون) کا لفظ ہے اس کا معنی اوپر ، نیچے، آگے، پیچھے، مابین، درمیان ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے یوں شرح کی ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ).
اور عینی حنفی نے یوں کی ہے:
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) أَيْ: إِذا لم يكن بَيْنَهُمْ وَبَين الْمَيِّت ولد للصلب.
اور حافظ ابن الملقن کی شرح میں صحیح بخاری کا جو باب ہے اس سے بات بالکل واضح ہے:
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ).
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح و عیاں ہوجاتی ہے کہ (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) کا معنی کوئی بیٹا نہ ہو۔ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اس پوتے پوتی کا باپ ہی ہے چچا تائے نہیں ہیں۔ جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس سے مراد ان یتیم بچوں کے باپ ہی ہیں۔ کہ جب ان پوتوں کے باپ نہ ہوں تو وہ بطور قائم مقام اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار اور وارث ہونگے۔
یہی بات زید بن ثابت کے قول میں بیان ہوئی ہے جسے لوگ توڑمروڑ کر الٹا معنی و مفہوم نکال کر یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دے رہے ہیں اور فتویٰ داغ رہے ہیں کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا وارث حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔
رہی دوسری حالت جس میں کہ نہ تو پوتے کا باپ ہی ہے اور نہ ہی چچا تائے ہی ہیں۔

ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،
تو ایسی حالت میں یتیم پوتے پوتیاں مثل بیٹے بیٹیوں کے ہیں کہ جو حکم بیٹے بیٹیوں کا ہے وہی حکم پوتے پوتیوں کا بھی ہے۔یعنی ایک پوتے کا حصہ ایک بیٹے کی طرح لگے گا اور ایک پوتی کو وہی حصہ ملے گا جو ایک بیٹی کا ہوتا ہے۔اور بقیہ جو احکام بیٹے بیٹیوں کے ہیں وہی احکام یتیم پوتے پوتیوں کے بھی ہونگے۔
اب باقی بچی تیسری حالت جس میں پوتے کا باپ بھی ہے اور چچا تائے بھی ہیں۔ تو اس کے تعلق سے صحابی رسول زید بن ثابت نے کہا ہے کہ :
(وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ).
یعنی بیٹے کے ہوتے ہوئے اس بیٹے کی اولادیں اس کے ساتھ میت کے ترکہ سے حصہ نہیں پائیں گیں۔
تویہ تیسری صورت ایسی ہے جس میں پوتے کا باپ بھی ہو اور چچا تائے بھی ہوں تو ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ بیٹوں کے ساتھ اس بیٹے کی اولادیں وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہونگی۔
الحاصل صحابی رسول زید بن ثابت کے اس قول میں کہیں بھی یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ کسی چچا تائے کے ہوتے کوئی پوتا وارث نہیں ہو گا بلکہ ایک اصولی بات کہی گئی ہے کہ جب بیٹا خود موجود ہو تو اس بیٹے بیٹیوں کی اولاد اس کے ساتھ میت کے ترکہ سے حصہ نہیں پائیں گی۔ اس میں لفظ کوئی کا اضافہ کر کے پورے طور پر بات کو ہی گھما دیا ہے اور مسئلہ بالکل الٹا بنا دیا گیا ہے۔

قوله: ابن داود نے کہا ہے:
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:
قَوْله: (مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن): أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
وَقَوْلُهُ: (بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ): أَيْ لِلصُّلْبِ
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.

الجواب:
أقول:
امام ابن حجر نے جو بات کہی ہے وہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہے اور اس میں صاف کہا گیا ہے کہ پوتے اور دادا کے درمیان کا بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے کیونکہ وہ بمنزلہ اولاد ہے۔ در اصل یہ بات آپ اور آپ جیسے لوگوں کو اس لئے عجیب لگ رہی ہے کیونکہ آپ کے ذہن و دماغ پر یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کے فتوے کا بھوت سوار ہےاسی لئے آپ تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔ورنہ اس میں کوئی تعجب کی بات ہے ہی نہیں۔ چونکہ آپ کو ایسا ہی پڑھایا اور رٹایا گیا ہے اس لئے آپ کو وہی سمجھ میں آ رہا ہے اور صحیح لگ رہا ہے ورنہ بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے تو یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے تب بھی یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن الملقن کی شرح میں صحیح بخاری کا جو باب ہے اس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے:

(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح و عیاں ہوجاتی ہے کہ (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) کا معنی کوئی بیٹا نہ ہو نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اس پوتے پوتی کا باپ ہی ہے چچا تائے نہیں ہیں۔ جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس سے مراد ان یتیم بچوں کے باپ ہی ہیں۔ کہ جب ان پوتوں کے باپ نہ ہوں تو وہ بطور قائم مقام اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار اور وارث ہونگے۔
7 - (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ)
قَوْله: (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ)

قال ابن حجر: أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ. [فتح الباري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]

امام ابن حجر نے باب کی جو شرح کی ہے تو متن اور شرح کو ملا کر عبارت یوں بنتی ہے۔ جس کو انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ). یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی صلبی بیٹا نہ ہوخواہ وہ صلبی بیٹا اس پوتے کا باپ نہ ہو یا اس کا چچا نہ ہو۔
اس کی توضیحی عبارت یوں بنتی ہے:

[1] (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ أَبَاهُ).
یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا باب جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو اس پوتے کا باپ ہے۔
(أَوْ) یعنی یا۔
[2] (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ عَمَّهُ).
یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا باب جب میت کا وہ بیٹا بھی نہ ہو جو اس پوتے کا چچا تایا ہے۔
تو صلبی اولاد کے نہ ہونے کی دو صورتیں بنتی ہیں ایک صورت صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا البتہ چچا تائے کا ہونا۔ اور دوسری صورت پوتے کے باپ اور چچا تائے دونوں کا نہ ہونا ہے۔ تو چونکہ دونوں ہی صورتوں میں میت کا صلبی بیٹا نہ ہونا پایا جاتا ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی پوتے کا وارث ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں پوتے کا بمنزلہ اولاد ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اور امام ابن حجر نے ان دونوں صورتوں کو لفظ (
(أَوْ)) سے واضح کر دیا ہے کہ جب میت کا صرف وہ بیٹا نہ ہو جوکہ پوتے کاباپ ہے یا پھر وہ بیٹا بھی نہ ہو جو پوتے کا چچا تایا ہے۔ اسی لئے کہا کہ ((بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).) کیونکہ عربی زبان میں (أَوْ) کا حرف دو چیزوں کو الگ الگ کرنے کے لیئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ) (17) (صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ) (18)
(أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ) (19) [سورة البقرة]
(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ
أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ)
[سورة البقرة: 74]
(مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ
أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
[سورة البقرة: 106]
(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا
أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ) [سورة البقرة: 111]

یہ آیات اور اس طرح کی بے شمار آیتیں ہیں جو ہماری اس بات پر بین ثبوت ہیں۔ اب کوئی ایسا شخص ہو جو عقل کا اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھ کا بھی اندھا ہو تو اسے کیسے نظر آئے گا؟۔ وہ یقینا ہماری اس بات پر تعجب کا اظہار کرے گا اور کہے گا کہ (اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے
تو اب کوئی عقل و خرد رکھنے والا شخص جس نے انصاف کا دامن نہ چھوڑا ہو بتائے تو سہی کہ میں (
ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش) کر رہا ہوں یا پھر ہمارے قرآن و حدیث دانی کے ٹھیکیدار صاحب جو اپنے کو اعلیٰ دماغ، قرآن و حدیث کو صحیح سمجھنے والے اور قرآن و حدیث کا ٹھیکہ لے کر بیٹھے ہوئے ہمارے مخاطب (ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش) کر رہے ہیں۔
در اصل یہ بات آپ کو اور آپ جیسے اشخاص کو اس لئے عجیب لگ رہی ہے کہ آپ کے ذہن و دماغ پر یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کے فتوے کا بھوت سوار ہےاسی لئے آپ تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔ورنہ اس میں کوئی تعجب کی بات ہے ہی نہیں۔ چونکہ آپ کو ایسا ہی پڑھایا اور رٹایا گیا ہے اس لئے آپ کو وہی سمجھ میں آ رہا ہے اور صحیح لگ رہا ہے ورنہ بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ تو یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے تب بھی یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔اسی کو امام ابن حجر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

قال ابن حجر: وَقَوْلُهُ: (بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ) أَيْ لِلصُّلْبِ.
قال ابن حجر: وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.
قال ابن حجر: وَقَوْلُهُ: (وَلَدٌ ذَكَرٌ) احْتَرَزَ بِهِ عَنِ الْأُنْثَى.
قال ابن حجر: وَتَمَسَّكَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْجُمْهُورُ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ).
قال ابن حجر: وَقَدْ أَجْمَعُوا أَنَّ بَنِي الْبَنِينَ ذُكُورًا وَإِنَاثًا كَالْبَنِينَ عِنْدَ فَقْدِ الْبَنِينَ إِذَا اسْتَوَوْا فِي التَّعَدُّدِ. [فتح الباري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]
قال العيني: أَي: هَذَا بَاب فِي بَيَان إِرْث ابْن ابْن الرجل إِذا لم يكن لَهُ ابْن لصلبه.
قال العيني: قَوْله: بِمَنْزِلَة الْوَلَد، أَي: بِمَنْزِلَة الْوَلَد للصلب،
قال العيني: قَوْله: (دونهم) أَي: إِذا لم يكن بَينهم وَبَين الْمَيِّت ولد للصلب.

[عمدة القاري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)]
*-------------------------------------
قَوْلُهُ (وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَخْ)
وَقَوْلُهُ: (بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ) أَيْ لِلصُّلْبِ.
وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ) أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.
وَقَوْلُهُ: يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ أَيْ يَرِثُونَ جَمِيعَ الْمَالِ إِذَا انْفَرَدُوا وَيَحْجُبُونَ مَنْ دُونَهُمْ فِي الطَّبَقَةِ مِمَّنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ مَثَلًا اثْنَانِ فَصَاعِدًا وَلَمْ يُرِدْ تَشْبِيهَهُمْ بِهِمْ مِنْ كُلِّ جِهَةٍ.
وَقَوْلُهُ فِي آخِرِهِ: (وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ)
تَأْكِيدٌ لِمَا تَقَدَّمَ فَإِنَّ حَجْبَ أَوْلَادِ الِابْنِ بِالِابْنِ إِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ إِلَى آخِره بطرِيق الْمَفْهُوم.
وَتَمَسَّكَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْجُمْهُورُ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ). وَقَدْ أَجْمَعُوا أَنَّ بَنِي الْبَنِينَ ذُكُورًا وَإِنَاثًا كَالْبَنِينَ عِنْدَ فَقْدِ الْبَنِينَ إِذَا اسْتَوَوْا فِي التَّعَدُّدِ.
[فتح الباري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]

7 - (بابُ مِيرَاثِ ابنِ الابِنِ إذَا لَمْ يَكُنِ ابنٌ)
أَي: هَذَا بَاب فِي بَيَان إِرْث ابْن ابْن الرجل إِذا لم يكن لَهُ ابْن لصلبه.
وَقَالَ زَيْدٌ: ولَدُ الأبْناءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدَ إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وأُنْثاهُمْ كأُنْثاهُمْ يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ ويَحْجُبُونَ كَما يَحْجُبُونَ، وَلَا يَرِثُ ولَدُ الابِنِ مَعَ الابِنِ.
أَي: قَالَ زيد بن ثَابت الْأنْصَارِيّ
... إِلَى آخِره، وَهَذَا الَّذِي قَالَه زيد إِجْمَاع.
قَوْله: بِمَنْزِلَة الْوَلَد، أَي: بِمَنْزِلَة الْوَلَد للصلب،
قَوْله: (دونهم) أَي: إِذا لم يكن بَينهم وَبَين الْمَيِّت ولد للصلب.
قَوْله: (ذكرهم كذكرهم) أَي: ذكر ولد الْأَبْنَاء كذكر الْأَبْنَاء، وأنثاهم أَي أُنْثَى ولد الْأَبْنَاء كأنثى الْأَبْنَاء، يَرِثُونَ أَي ولد الْأَبْنَاء كَمَا يَرث الْأَبْنَاء، وَهُوَ ظَاهر.
قَوْله: (ويحجبون) أَي: يَرِثُونَ جَمِيع المَال إِذا انفردوا ويحجبون دونهم فِي الطَّبَقَة مِمَّن بَينهم وَبَين الْمَيِّت.
قَوْله: (وَلَا يَرث ولد الابْن مَعَ الابْن)
ذكر هَذَا تَأْكِيدًا لما تقدم فَإِن حجب أَوْلَاد الابْن بالابن إِنَّمَا يُؤْخَذ من قَوْله: إِذا لم يكن دونهم
... إِلَى آخِره، بطرِيق الْمَفْهُوم. [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)]
7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)
(1)
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، المؤلف: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)]
وقول زيد هذا إجماع (3).

*____________________
(1) كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).
(2) رواه البيهقي في السنن: ( 6/ 229) من طريق عبد الرحمن بن أبي الزناد عن أبيه عن خارجة بن زيد عنه.
(3) انظر: "الإجماع" لابن المنذر ص90 (313).

6732 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضي الله عنهما -،- عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [6735، 6746، 6746 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 11)
وحديث ابن عباس سلف معناه،
وأما قوله: (فلأولى رجل ذكر) يريد: إذا كان في الذكور من هو أولى بصاحبه بقرب أو ببطن، وأما إذا استويا بالتعدد وأدلوا بالآباء والأمهات معًا كالإخوة وشبههم،

فلم يقصدوا بهذا الحديث؛ لأنه ليس في البنين أولى من غيره؛ لأنهم قد استووا في المنزلة، ولا يجوز أن يقول: أولى وهم سواء، فلم يرد البنين بهذا الحديث، وإنما أراد غيرهم على ما يأتي.
وهذا فيما عدا الإخوة والأخوات والابن والبنات وبني البنين وأخواتهم،
ويراد به العمة مع العم، وبنت الأخ مع أخيها، وبنت العم مع أخيها،

وذكر عن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي أنه قال: في بنت وأخ وأخت أشقاء أو لأب، يريد: للأخ وحده ما بقي، ولعله تأول عموم هذا الحديث وهو عجيب؛ لأن الله تعالى قال: {وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 176].
وأما حجة زيد ومن ذهب مذهبه، ممن يقول: لأولى رجل ذكر مع أخواته، فظاهر قوله تعالى: {يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11]

وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، وكذا إذا اختلفوا في التعدد لا يضرهم؛ لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم {لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} (2)
إلا ما أجمعوا عليه من أن الأعلى من بني البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى.

[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، المؤلف: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)]
__________
(1) انظر: "الاستذكار" 15/ 400 - 401.
(2) انظر: "الإجماع" لابن المنذر ص91 (313).

*-----------------------------------------
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
قوله: ابن داود نے کہا ہے:
اب ہمارے اس جواب پر آپ یوں فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ تو وہی بات ہوئی جو ہم نے پہلے بیان کی تھی کہ:
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ

الجواب:
أقول:
جناب من! یہ بکرا بکری کی لڑائی نہیں ہے یہ ایک علمی مباحثہ جسے آپ نے بکرا بکری کی لڑائی سمجھ رکھا ہے۔ اور آپ خود کو بکرا سمجھے ہوئے ہیں اور اپنے مقابل کو بکری سمجھ رکھا ہے۔
یہ سب آپ کی جہالت و حماقت کی دلیل ہے جس کا جیتا جاگتا ثبوت آپ کی یہ تحریریں اور بکرا بکری کی مثال ہے۔ غالبا آپ کو اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کے انجام کی خطرناکی کا اندازہ نہیں ہے یہ فرائض و مواریث کا معاملہ ہے اگر اس پر صحیح ڈھنگ سے عمل نہ ہوا تو آدمی دائمی جہنم کا مستحق بن جائے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہےجس کا تعلق فریضہ الٰہی اور حدود الٰہی سے ہے جس کی مخالفت، اور انکار نیز اللہ و رسول کے احکام و فرامین پر صحیح طور پر عمل نہ ہونے سے آدمی دائمی جہنم کا مستحق بن جائے گا۔
آپ کو یہ بات تو سمجھ میں نہیں آرہی ہے اور آپ بکرا بکری کی مثال دے کر اس کی تضحیک اور استہزاء کر رہے ہیں اور آپ کو اللہ سے ذرا بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔ بکرا بکری بھاڑ میں جائے۔ آپ بکرا بکری کی لڑائی لڑتے رہیئے گا اور خود بکرا بن کر کسی بکری کو پکڑ لیجئے گا اور اس کو سینگھ مارتے رہیئے گا۔ آپ جس شخص سے مخاطب ہیں وہ کوئی بکری نہیں ہے جس نے آپ کو سینگ ماری ہو کہ آپ اس کے بدلے کے طور پر سینگ مارنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لہذا اس طرح کی احمقانہ و سفیہانہ باتیں نہ کریں ورنہ ہمیں بھی ایسی باتیں کرنا آتا ہے۔ یہ ایک علمی بحث ہے اسے علمی ہی رہنے دیجئے۔ اس کو ذاتی مسئلہ نہ بنائیے شاید آپ کو قرآن و حدیث اور لفظ یتیم سے ہی نفرت ہے اور محض نام کی حد تک ہی اہل حدیث ہیں آپ کو قرآن و حدیث سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ورنہ آپ ایسی باتیں ہرگز نہ کرتے اور آپ مجھ ناچیز کو اہل قرآن و منکر حدیث اور مرزائی و قادیانی وغیرہ نہ بناتے اور ان سے جوڑنے کی ناپاک کوشش، جسارت اور گستاخی ہرگز نہ کرتے۔ اور جو طوفان بد تمیزی آپ اپنی تحریروں میں پیش کر رہے ہیں۔ جاہل، احمق، گمراہ، کج فہم وغیرہ وغیرہ کہہ کر تو یہ آپ کی کم ظرفی، سطحیت اور سفاہت کا بین ثبوت ہے۔ میں ان الفاظ سے پرہیز کرنا چاہ رہا تھا لیکن آپ نے مجھے ان الفاظ اور ان جیسے دیگر الفاظ کو استعمال کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔
اہل حدیث کا مطلب انکار قرآن نہیں ہوتا ہے جیسے اہل قرآن والے انکار حدیث کرتے ہیں۔ بلکہ اہل حدیث کا مطلب ہے حدیث الٰہی احسن الحدیث قرآن اور حدیث رسول کو ماننے والے لوگ۔ اور یہ اہل حدیث کی شان امتیاز ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے نصوص میں نہ تو تاویل بیجا کرتے ہیں اور نہ ہی تحریف و تعطیل سے کام لیتے ہیں۔بلکہ ان کا یہ اصول ہے کہ
(تُمَرُّ كَما جَاءَتْ بِلَا تَأْوِيلٍ) [شرح العقيدة الواسطية للهراس] جیسے قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اس کو ویسے ہی دیکھا، لیا اور مانا جائے اس میں کسی بھی طرح کی تاویل بیجا سے کام نہ لیا جائے۔ قرآن و حدیث میں اولاد، والدین کا جو معنی مفہوم ہے اور جو اس کے اطلاقات ہیں وہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہیں جس میں کسی تاویل کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اولاد والدین کا کہیں کوئی معنی ہو اور کہیں کوئی دوسرا معنی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:
(أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا) [سورة النساء: 82]
یعنی لوگ قرآن کو لیکر اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ قرآن اگراللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں بہت سارے اختلافات اور تضادات پائے جاتے۔
چنانچہ بحث اس بات سے نہیں ہے کہ یتیم پوتے کو ملے یا نہ ملے؟ کیونکہ کوئی بھی ان یتیم پوتوں کو ان کے دادا کے ترکہ سے کچھ مال دے دینے کا منکر نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف اس بات سے ہے کہ چچا تائے کے ساتھ اللہ کی وصیت کےتحت باقاعدہ ایک حصہ دار کے طور پر حصہ دیا جائے یا پھر دادا کی وصیت کے تحت بطور ترحم خیرات و بھیک کی شکل میں کچھ مال دیا جائے۔
ہمیں لوگوں کی باتوں اور قول و قیاس کی قطعی کوئی پرواہ نہیں ہے ہمارے لئے بس اللہ و رسول کا فرمان اور فیصلہ ہی عمل کرنے کے لئے کافی ہے۔
ہمارا موقف ہے کہ اللہ کی کی ہوئی وصیت:
(یوصیکم الله فی اولادکم) (فریضة من الله) کے تحت انہیں ان کے چچا تایوں کے ساتھ بطور ایک صاحب فرض وارث کے بمنزلہ اولاد ہونے کے اس کے باپ کا جو حق و حصہ ان کے چچا تایوں کے ساتھ بنتا ہے وہ اسے دیا جائے۔ اختلاف بس اسی بات کا ہے۔
جو لوگ یتیم پوتے کو اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کے دادا کی اولاد و بیٹا ماننے سے انکاری ہیں۔ وہ اللہ و رسول کے حکم اور فرمان کے منکر ہیں۔ اور فرمان الٰہی کا انکار کر کے وہ دادا کے اوپر وصیت کرجانا واجب اور فرض قرار دیتے ہیں یہ صریحی طور پر شریعت سازی ہے۔ اور اللہ کی وصیت کا کھلے طور پر مقابلہ ہے جو کہ شرک اکبر اور کفر بواح ہے اور اللہ کی وصیت کو نیچا دکھانا ہے۔ اللہ نے جب میت کی تمام اولادوں کے حق میں بذات خود وصیت کر دی ہے تو پھر کسی کی وصیت کی قطعی کوئی ضروت نہیں ہے۔ اور جو لوگ ددا کے اوپر وصیت کو واجب و فرض قرار دیتے ہیں وہ کھلے طور پر اللہ کا مقابلہ و برابری کر رہے ہیں اور شریعت سازی کے جرم عظیم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دادا کا اپنے یتیم پوتے کے حق میں کسی بھی قسم کی مالی وصیت کا کرنا صریحی طور پر ناجائز اور حرام بلکہ کفر و شرک ہے اور جو دادا بھی اپنے یتیم پوتے کے حق میں کسی قسم کی مالی وصیت کر کے مرے گا اس کی موت یقینا شرک و کفر پر ہوگی۔ کیونکہ اس کا ایسا کرنا شرعا ناجائز، حرام اور اللہ و رسول کی مخالفت حدود الٰہی سے تجاوز ہے جس کا انجام ہمیشہ کی جہنم کی آگ ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ یتیم پوتا چونکہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور باپ کے نہ رہنے پر اس کا دادا اس کا باپ اور والد حقیقی ہے۔ اور اس نے جو ترکہ چھوڑا ہے وہ اس کے یتیم پوتے کے حقیقی والد و باپ (داد) کا اسی طرح ترکہ ہے جیسے اس کے چچا تایوں کے والد و باپ کا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جس طرح کسی بیٹے کے مرنے پر اس کا دادا اس بیٹے کے ترکہ کا وارث بنتا ہے ٹھیک اسی طریقہ سے اس کا دادا اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا بھی وارث بنتا ہے۔
میرا مطالبہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کی وصیت کے مطابق یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دیا جائے نہ کہ دادا کی وصیت کے ذریعہ کیونکہ اللہ کی وصیت سے بڑھ کر دادا کی وصیت نہیں ہے کہ دادا وصیت کرے تو یتیم پوتے کو کچھ ملے اور اللہ کی وصیت سے اسے کچھ بھی نہ ملے؟۔ (فافہم و تدبر اذا عنک عقل و فہم!)
اس سلسلہ میں ایک اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر اللہ کی کی ہوئی وصیت کا انکار کیا جاتا ہے تو اس سے کفر لازم آتا ہے۔ اور اگر اس کے مقابلہ میں کوئی وصیت کی جاتی ہے تو اس سے اللہ کی وصیت کا مقابلہ ہوتا ہے جس سے شرک لازم آتا ہے۔ لہذا اگر دادا کے ذریعہ وصیت کراکر یتیم پوتے کو کچھ دلایا جاتا ہے تو اس سے نہ تو اس کا حق ادا ہوگا اور نہ ہی فریضہ کی ادائیگی ہو پائے گی۔لہذا یتیم پوتے کو بجائے اس کے کہ دادا کی وصیت کے ذریعہ کچھ دینے دلانے کے اللہ کی کی ہوئی وصیت پر عمل کیا جانا چاہیئے اور فریضہ الٰہی کے مطابق انہیں دیا جانا چاہیئے نہ کہ دادا کے اوپر وصیت واجب کر کے اس وصیت پر عمل کیا جائے۔
پس مولانا امرتسری، مولانا عبید اللہ مبارک پوری اور مولانا صلاح الدین یوسف وغیرہ کا یتیم پوتے کے حق میں دادا کےاوپر وصیت کرجانے کو واجب و فرض کرنا کھلے طور پر شریعت سازی اور خلاف شریعت ہونے کے سبب باطل و مردود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی مواقع کے تعلق سے فرمایا ہے:
(أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) ( سورة الشورى: 21)
یعنی کیا ان لوگوں کے لئےان کے اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ کے شریک و ساجھی ہیں جنہیں انہوں نے خود بنا و مقرر کر رکھا ہے کہ ان کے لئے اللہ کے دین میں ایسی چیزیں اور احکام بطور دین و شریعت مقرر کردیئے ہیں جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی ہے۔ اور اگر فیصلے کا ایک دن مقرر نہیں ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ یقیناً (ان) ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یتیم پوتے کو بطور اولاد پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اسے یتیم بنانے والا بھی اللہ ہی ہے اور اولاد کے حق میں وصیت کرنے والا بھی وہی ہے۔ اور لوگ ہیں کہ اپنی خود ساختہ شریعت اور اپنے بنائے ہوئے خود ساختہ اصولوں کو اس بیچارے یتیم پوتے پر ظالمانہ طور پر تھوپتے ہیں اور انہیں ان کے حق سے محروم کرنے کے لئے محجوب ہونے کا فتویٰ لگا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں حصہ دینا ہی بھول گیا ہے اور ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے گویا اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) ظالم ہے اور دادا کے اوپر یہ وصیت واجب کرنے والے لوگ اللہ سے بھی بڑھ کر اس یتیم پوتے کے ہمدرد و خیرخواہ اور انصافور ہیں۔ جبکہ اللہ کا فرمان ہے کہ یتیموں کے حق میں عدل و انصاف سے کام لو۔ اور دوسروں کی اولاد و ذریت کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے یا حکم لگانے سے ڈرو۔ اور عدل و انصاف پر مبنی حق بات کرو۔ اور عدل و انصاف پر مبنی حق بات یہی ہے کہ جب یتیم پوتے کے باپ کی عدم موجودگی میں دادا باپ اور والد ہے تو لازمی طور پر اس کا یتیم پوتا اس کا بیٹا اور اولاد ٹھہرا۔ اب اس کے چچا ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔تو جس طرح بیٹا بیٹی اس کی اولاد ہیں اسی طریقے سے اس کے یتیم پوتے پوتیاں بھی اس کی اولاد و ذریت میں سے ہیں۔ جس کے دلائل قرآن و حدیث میں بالکل روز روشن کی طرح عیاں اور واضح طور پر موجود ہیں جس کا انکار وہی شخص کریگا جس کو قرآن و حدیث سے کوئی واسطہ نہ ہو۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ کا یہ حال ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے، نہ (یوصیکم اللہ فی اولادکم) کا معنی مفہوم معلوم ہے۔نہ ہی (فریضۃ من اللہ) ہی سمجھتے ہیں۔ نہ (دُونَ)اور (من دُونَ) کا ہی معنی مفہوم اور فرق آپ کو معلوم ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ہم آپ کشید کردہ معنی و مفہوم و مطالب سے متفق نہیں، بلکہ یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جاچکی ہے، کہ آپ کا کشید کردہ ''أولاد'' کا معنی ومفہوم باطل ہے! لہٰذا یوں کہیئے کہ آپ کے کشید کردہ باطل معنی ومفہوم کے ہم انکاری ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ جب اللہ کے نازل کردہ احکام و فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین اور فیصلوں سے ہی متفق نہیں ہیں تو ہماری کیا اوقات ہے۔ لفظ والدین، اولاد، ولد اور یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق کن کن لوگوں پر ہوتا ہے وہ تو اللہ و رسول نے خود ہی بتا دیئے ہیں جسے آپ مانتے ہی نہیں ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں۔ اور اسے میرا تراشیدہ معنی و مفہوم کہہ رہے ہیں۔تو اس سے بڑی حماقت و جہالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ آئیے ہم آپ کو آپ کی اپنی حماقت اور جہالت کا ایک اور نمونہ دکھاتے ہیں جسے قارئین بھی درج ذیل عبارت کے آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

(وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.
ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]

اب اگر آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا یہ جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے تو پھر آخر کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ جس کسی کو گمراہ کرتاہے تو اس کی عقل کو چھیننے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھ کی داخلی بینائی بھی چھین لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ در اصل انسان کا دل اندھا ہوتا ہے جس کے چلتے اس کی آنکھیں بھی اندھی ہو جایا کرتی ہیں۔
*-----------------------------------------
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
اور آپ کا حال یہ ہے کہ ایک طرف پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' گردانتے ہیں، اور پھر ''اسے ہی ''بمنزلہ أولاد'' بھی قرار دینا چاہتے ہیں! آپ کا حال تو یہ ہے کہ اپنے ہی کلام کا یہ مقتضی سمجھ نہیں آتا، کہ اگر پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' کہا جائے، تو پھر اسے ''بمنزلہ أولاد'' کہنا عبث ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور جس چیز کو میرے اوپر فٹ کر رہے ہیں۔ وہ آپ پر صادق آتی ہے۔ پوتے کا حقیقی اولاد اور بمنزلہ اولاد ہونا ایک دوسرے کے منافی نہیں ہے۔ جس طرح صدر اور نائب صدر، وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ تو نائب صدر اور نائب وزیر اعظم اسی وقت بمنزلہ صدر اور وزیر اعظم بنتا ہے جب صدر یا وزیر اعظم یا تو کہیں دورہ پر گیا ہوا ہو یا وفات پا گیا ہو تو جب تک صدر اور وزیر اعظم واپس نہ آجائیں یا نئے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب نہ ہوجائے۔ نائب صدر اور نائب وزیر اعظم کو بمنزلہ صدر، وزیر اعظم ہونے کے قائم مقام صدر اور وزیر اعظم مقرر کردیا جاتا ہے۔ اور قائم مقام و بمنزلہ وہی شخص ہوتا ہے جو اس کے گروپ کا ہو۔
در اصل اولاد تو حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی ہے البتہ بیٹے بیٹیاں حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مجازی بھی ہوتے ہیں۔ یتیم پوتا حقیقی اولاد ہے البتہ وہ بالواسطہ اولاد ہےاور اپنے باپ کا نائب ہےاور نائب وہی ہوتا ہے جو اس کے گروپ اور کٹیگری کا ہوتا ہو ۔ تو جب میت کے دوسرے بیٹے ہوں اور یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تو یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اس کا قائم مقام ہوتا ہے اور اپنے چچا تائے کے درجہ میں ہوجاتا ہے۔ یہ ہے بمنزلہ اولاد ہونے کا معنی و مفہوم۔ اور جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تو یتیم پوتے بمنزلہ اولاد ہونے کے مثل بیٹے کے ہوجاتے ہیں۔
پہلی صورت میں یتیم پوتے اپنے باپ کا حصہ پائیں گے اور دوسری صورت میں وہ میت کے ایک بیٹے ہونے کی حیثیت سے حصہ پائیں گے۔اپنے اپنے باپ کے حصے نہیں پائیں گے۔ مثلا کسی شخص کے تین بیٹے ہوں جن میں سے ایک بیٹے کے ایک بیٹا ہو اور دوسرے کے دو بیٹے ہوں اور تیسرے کے تین بیٹے ہوں۔ ان میں سے ایک بیٹے والا بیٹا اور تین بیٹوں والا بیٹا اپنے باپ کے جیتے جیتے مرگئے۔ تو جب میت کا ترکہ تقسیم ہوگا تو ایک بیٹے والے بیٹے کا ایک حصہ لگے گا جو اس کے اکلوتے بیٹے کو دیا جائے گا، اور دو بیٹے والے بیٹے کا ایک حصہ لگے گا جو اس کے دو نوں بیٹوں کو نہیں ملے گا کیونکہ وہ خود موجود ہے پس وہ اپنے باپ کے ہوتے محجوب ہیں جو اس وقت اس کے مستحق بنیں گے جب وہ وفات پاجائے گا، اور تین بیٹوں والے بیٹے کا ایک حصہ لگے گا۔ جو اس کے تین بیٹوں کو ملے گا۔
دوسری صورت میں جب کہ میت کے تینوں بیٹے وفات پاچکے ہوں اور اس کے یہ چھ پوتے ہیں تو اس کے ترکہ کے چھ حصے کر کے ہرایک کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے گا کیونکہ اب وہ بمنزلہ بیٹے نہیں بلکہ مثل بیٹے کے ہو چکے ہیں۔ اور سب کا ایک درجہ ہوگیا ہے۔لہذا ہرایک کو برابر برابر ایک ایک حصہ دے دیا جائے گا۔

*-----------------------------------------
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
دیکھیں؛ اگر آپ نے ہمارے کلام پر اور ہم پر نقد کرنا ہے، تو اس طرح دلیل کے ساتھ کیجئے! یہ ہوائی باتیں نہ کیجیئے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
جناب من! دلائل وثبوت سے اپ کے موقف کاببلان کرنا، کٹھ حجتی نہیں! جبکہ آپ خود بلا دلیل الفاظ کے خود تراشیدہ معنی ومفہوم دوسروں کو منوانے کے لیئے کٹھ حجتی اختیار کیئے ہوئے ہیں!
الجواب:
أقول:

آں جناب ہم نے آپ کے مطالبے کے چلتے دلیل پیش کر دی ہے لیکن آپ یقینا ماننے والے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل پر مہر لگادی ہے۔ جس کے چلتے آپ اسے بھی نہیں مانیں گے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں:
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
دیکھتے ہیں؛ اب ہمیں آپ سمجھناے کا نام پر کیا باور کروانا چاہتے ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
صحیح بخاری کے باب اور حافظ ابن حجر عسقلانی نےجو شرح کی ہے:
)إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
تو متن مع الشرح عبارت یوں ہوئی:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ بات یاد رکھیئے گا! کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں:
''باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن''
اب ہم آپ کے اس ترجمہ کا جائزہ لیتے ہیں، کہ کہاں تک یہ اس عربی عبارت کا ترجمہ ہے، اور اس میں آپ نے اپنی فقہ تڑکہ لگاتے ہوئے اس کے معنی میں کتنی تحریف کی ہے!
''(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔''
الجواب:
أقول:
جناب من!
آپ میری پیش کردہ صحیح بخاری کے یتیم پوتے سے متعلق باب کی عبارت (
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا اپنے دادا کے ترکہ کا وارث ہے جس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا صرف اور صرف اپنے باپ کے ہوتے ہی محجوب ہوگا اپنے چچا تائے کے ہوتے ہرگز ہرگز محجوب و محروم الارث نہیں ہو سکتا ہے۔ اس قدر ڈرے سہمے ہیں کہ مارے خوف و دہشت کے پہلے ہی سے مجھے دھمکا رہے ہیں کہ خبردار اس عبارت کو پیش نہ کیجئے گا جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ صرف یتیم پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر ہی پوتا دادا کے ترکہ سے محروم ہوگا۔ اور چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہ ہوگا۔ اسی لیئے پہلے ہی یہ کہےدے رہے ہیں کہ (یہ بات یاد رکھیئے گا! کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں: (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن)) تو چونکہ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) سے یتیم پوتے کا مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے اور اس میں کسی طرح کی دھاندھلی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے تو ڈر کے مارے اسے پیش کرنے سے خوف زدہ ہیں اور وہ عبارت پیش کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں دھاندھلی کی گنجائش نظر آرہی ہے۔ جبکہ دونوں ہی عبارتیں ایک دوسرے کی وضاحت کر رہی ہیں۔دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ جب کہ ((ابن)) سے مراد وہی بیٹا ہے جو پوتے کا باب ہے۔ کوئی دوسرا بیٹا یعنی پوتے کا چچا تایا نہیں ہے۔اس پر مفصل گفتگو ہم پیچھے کر آئے ہیں۔
آپ ہیں کہ اپنی خود ساختہ شریعت اور نام نہاد فقہ کا تڑکہ لگا رہے ہیں اور زور زبردستی اور نصوص کتاب و سنت کی عبارتوں میں تحریف کر کے اپنے خود ساختہ الفاظ داخل کر رہے ہیں اور ثابت شدہ حکم کو بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور شریعت سازی کی جسارت کر رہے ہیں۔ جس کی کوئی دلیل کم از کم قرآن و حدیث کے اندر نہیں ہے۔
یہ آپ کی کج فہمی اور جہالت ہے کیونکہ آپ نہ تو اولاد و والد کا معنی و مفہوم اور مصداق ہی جان سمجھ رہے ہیں اور نہ ولد اور ابن، والد اور کا فرق ہی آپ کو معلوم ہے اور نہ ہی لفظ یتیم کا ہی معنی و مفہوم اور اس کا مصداق جانتے ہیں کہ یتیم کہتے کس کو ہیں اور اس لفظ کا اطلاق کب اور کس کس پر ہوتا ہے۔ میں اپنی سمجھ کو بر حق باور نہیں کرا رہا ہوں بلکہ جو کچھ قرآن و حدیث میں حق ہے اس کا حق ہونا باور کرا رہا ہوں۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے اس اردو ترجمہ کے آغاز میں ''یتیم'' کے جو الفاظ لکھے ہیں، وہ عربی عبارت پر اضافہ ہیں؛
اور یہ اضافہ اس لیئے ہے، امام بخاری کے الفاظ
''ميراث ابن الابن'' کے ہیں، یعنی بیٹے کے بیٹے، یعنی پوتے کی میراث، اورجب پوتے یعنی بیٹے کے بیٹے کی میراث کا ذکر ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ''پوتے کے لیئے دادا کے ترکہ میں میراث'' اس میں ہر ایک شامل ہے، جو بھی میت کا ''ابن الابن'' یعنی پوتا ہے! اور معلوم ہونا چاہیئے کہ دادا اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ وفات پا چکا، اور اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ حیات ہے! لہٰذا یہاں ''یتیم کے الفاظ کی زیادتی سوائے جذباتی تڑکہ کے اور کچھ نہیں! دوم کہ جس پوتے کا باپ فوت ہو چکا ہو، اس پر بھی لازماً ''یتیم کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہوتا! اور یہ بات آپ کو معلوم بھی ہے، آگے آپ نے یہ مانا بھی ہے، پھر بھی آپ بار بار ''یتیم'' کے الفاظ استعمال کیئے جارہے ہیں، اور جذبات کے جوش میں یہ خیال نہیں رہتا کہ اگر اس باب کو ''یتیم'' کے لئے مانا جائے، تو اس باب سے ''غیر یتیم'' یعنی وہ پوتے بھی خارج قرار پائیں گی، جن کا باپ فوت ہو چکا مگر وہ یتیم نہیں، یعنی کہ بالغ ہوں!
آپ کے ترجمہ میں ''یتیم'' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد یہ ہے، کہ پھر صرف وہی پوتے دادا کی وراثت کے حقدار قرار پاسکتے ہیں، جن کا پاب فوت ہو چکا ہو، اور دادا کی وفات کے وقت وہ نابالغ ہوں، اور کوئی بھی بالغ پوتا دادا کی وراثت کا حقدار نہیں ٹھہرتا، خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، کیونکہ وہ ''یتیم'' نہیں ہوتا! آپ کو یتیم کے لفظ کا مقتضی ہی سمجھ نہیں آرہا، آور آپ ہمیں اپنی سمجھ کا برحق ہونا باور کروانا چاہتے ہیں!

الجواب:
أقول:
یہ آپ کی کج فہمی اور جہالت و ضلالت اور اندھا پن ہے کہ آپ کو ترجمۃ الباب میں یتیم کا لفظ نظر نہیں آرہا ہے۔ ترجمہ الباب یوں ہے: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتے کی میراث یعنی وارث ہونے کا باب۔ تو عبارت میں صاف لفظ موجود ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو جس پوتے کا باپ نہ ہو وہی تو یتیم پوتا کہلاتاہے یہ یتیم کا لفظ تو خود ترجمۃ الباب میں موجود ہے جسے آپ (ترجمہ میں ''یتیم'' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد) کہہ رہے ہیں جو آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا جیتا جاگتا نمونہ اور منھ بولتا ثبوت ہے۔
در اصل آپ یتیم کے لفظ کے استعمال سے حد درجہ خوف زدہ ہیں کیونکہ آپ یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق و اطلاق نہیں جانتے کہ یتیم کہتے کس کو ہیں۔ میں اپنی سمجھ کو بر حق باور نہیں کرا رہا ہوں بلکہ جو کچھ قرآن و حدیث میں حق ہے اس حق کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کیونکہ حق وہی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے یعنی قرآن و حدیث نہ کہ لوگوں کے دیئے ہوئے الٹے پلٹے فتوے۔
ہم نے اس کے تعلق سے تفصیل پیچھے بیان کردی ہے۔
آں جناب نے کہا: (معلوم ہونا چاہیئے کہ دادا اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ وفات پا چکا، اور اس پوتے کا بھی دادا ہے، جس کا باپ حیات ہے!)۔
تو جناب عالی ان دو نوں پوتوں کے مابین واضح اور بین فرق ہے۔ وہ پوتا جس کا باپ موجود ہے اس کا وارث اس کا باپ ہے دادا وارث نہیں۔ جب کہ وہ پوتا جس کا باپ موجود نہیں ہے اس کا وارث اس کا باپ نہیں ہے کیونکہ وہ مرچکا ہے اب اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کی جگہ اس کا دادا ہی اس کا دادا وارث ہے۔ لیکن آپ کو تو یہ سب سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے سوائے بکواس کرنے کے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے ''یتیم'' کے حوالہ سے اک وضاحت تحریر فرمائی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
تو جناب! ''الفاظ'' کو آپ نے اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے، کہ اسے جیسے چاہیں گے استعمال کریں گے؟ یہ اختیار آپ کو حاصل نہیں ہے، کہ آپ اپنے تئیں، الفاظ کو خود تراشیدہ مفہوم و مطالب کا جامہ پہنا کر استعمال کریں! آپ کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ آپ ''یتیم'' کے معنی ومفہوم سے قطع نظر کرتے ہوئے، اسے استعمال کریں! آپ ہیں کون؟ کہ چاہیں تو ''یتیم'' کے معنی و مفہوم کو اپنی خواہش کے موافق مختصر کردیں، اور ''اولاد''، ''ولد'' اور ''والد'' کے معنی کو اپنی خواہش کے موافق وسعت دے دیں! اسے کہتے ہیں، معنوی تحریف! اور دوسروں پر بے بنیاد تحریف لفظی ومعنوی کی تہمتیں دھرنے سے باز نہیں آتے!
الجواب:
أقول:
آپ در حقیقت حد درجہ جاہل اور احمق ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انتہا درجہ کے فریبی بھی ہیں۔ اور فریب دینے کے لیئے سارے پیش کردہ حقائق کو جھٹلاتے ہوئے اس کو میرا ترشیدہ خود ساختہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کے پاس سوائے کٹھ حجتی اور جہالت و بکواس کے کچھ بھی نہیں ہے۔
اب یہاں بھی آپ کا وہی حال ہے کہ آپ لفظ یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق نہیں جانتے کہ اللہ و رسول، اہل علم اور اہل لغت کیا کہتے ہیں آئیے یہاں بھی میں آپ کی فریب دہی جہالت و حماقت اور ضلالت کا پردہ چاک کیئے دیتا ہوں چنانچہ آپ کی لا علمی اور جہالت کا ایک اور نمونہ یہاں پیش خدمت ہے:

إذَا كَانَ الْيَتِيمُ مُرَاهِقًا عَارِفًا بِمَوَاقِعِ حَظِّهِ، وَتَكُونُ الصَّدَقَةُ مِنْ بَابِ مَا يُؤَكَلُ وَيُلْبَسُ وَلَا يَخْفَى عَلَى الْيَتِيمِ وَجْهُ الِانْتِفَاعِ بِهِ جَازَ دَفْعُهَا إِلَيْهِ، هَذَا كُلُّهُ عَلَى قَوْلِ مَنْ قَالَ: الْيَتِيمُ هُوَ الَّذِي لَا أَبَ لَهُ مَعَ الصِّغَرِ،
یعنی کچھ لوگوں کا قول ہے کہ یتیم وہ ہے جس کا باپ بلوغت سے قبل فوت ہوا ہو تو جب وہ سن مراہقہ (بلوغت) کی عمر کو پہنچ جائے اور اپنے فائدے نقصان کو جاننے سمجھنے لگ جائےتو اس کے اموال کو اس کے حوالے کردینا چاہیئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بلوغت کی عمر تک جو بچہ پہنچ گیا ہے وہ بھی یتیم ہے اور جو نہیں پہنچا ہے وہ بھی یتیم ہے۔یعنی کم از کم بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک تو وہ یتیم ہے ہی۔ اب اس کے بعد اس پر لفظ یتیم کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ تو دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے بعد بھی وہ یتیم ہے چنانچہ امام رازی مفسر قرآن آگے لکھتے ہیں:

وَعِنْدَ أَصْحَابِنَا هَذَا الِاسْمُ قد يقع على الصغر وَعَلَى الْبَالِغِ، وَالْحُجَّةُ فِيهِ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَآتُوا الْيَتامى أَمْوالَهُمْ [النِّسَاءِ: 20]، وَمَعْلُومٌ أَنَّهُمْ لَا يُؤْتَوْنَ الْمَالَ إِلَّا إِذَا بَلَغُوا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمَّى: يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ بَعْدَ بُلُوغِهِ، فَعَلَى هَذَا إِنْ كَانَ الْيَتِيمُ بَالِغًا دُفِعَ الْمَالُ إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَيُدْفَعُ إِلَى وَلِيِّهِ. [تفسير الرازي: مفاتيح الغيب = التفسير الكبير، لمؤلفه: أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ)]
یعنی ہمارے یہاں اس لفظ یتیم کا اطلاق نابالغ بچے پر بھی ہوتا ہے اور بالغ پر بھی ہوتا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے کہ یتیموں کو اس کا مال ان کے حوالے کردو۔ اور یہ بھی ثابت شدہ معلوم بات ہے کہ انہیں مال اسی وقت دیا جائے گا جب وہ بالغ ہو جائیں گے۔ اور اللہ کے رسول کو ابو طالب کا یتیم ان کی بلوغت کے بعد بھی کہا جاتا تھا۔اس بنیاد پر یتیم جب بالغ ہو جائے تو اس کے بالغ ہونے پر اس کو اس کے بالغ ہونے کے بعد اس کا مال حوالے کیا جائے ورنہ اس کے ولی کو دیدیا جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بلوغت کی عمر تک جو بچہ پہنچ گیا ہے وہ بھی یتیم ہے اور جو نہیں پہنچا ہے وہ بھی یتیم ہے۔ پس یتیم وہ مرد اور عورت ہے جس کا باپ نہ ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہو یا نہ پہنچا ہو۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:
(وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ) (2) (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ) (3) (وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ) (6) [سورة النساء]
یعنی وہ مرد و عورت جس کا باپ نہ ہو وہ یتیم ہےاس کا اطلاق بچپن میں بھی ہوتا ہے اور جوانی میں بھی۔
الْيَتِيمَ اسْمٌ لِلْمُنْفَرِدِ تَسْمِيَتُهُمْ لِلْمَرْأَةِ الْمُنْفَرِدَةِ عَنْ الزَّوْجِ يَتِيمَةً سَوَاءً كَانَتْ كَبِيرَةً، أَوْ صَغِيرَةً، قَالَ الشَّاعِرُ:
إنَّ الْقُبُورَ تَنْكِحُ الْأَيَامَى
... النِّسْوَةَ الْأَرَامِلَ الْيَتَامَى
وَإِذَا كَانَ الْيَتِيمُ اسْمًا لِلِانْفِرَادِ كَانَ شَامِلًا لِمَنْ فَقَدَ أَحَدَ أَبَوَيْهِ صَغِيرًا، أَوْ كَبِيرًا، إلَّا أَنَّ الْإِطْلَاقَ إنَّمَا يَتَنَاوَلُ مَا ذَكَرْنَا مِنْ فَقْدِ الْأَبِ فِي حَالِ الصِّغَرِ.
[حكام القرآن، المؤلف: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
یہی معاملہ آپ نے ''أولاد''، ''ولد''، ''والد'' اور دیگر الفاظ کے ساتھ کیا ہے!
اور پھر اس پر طرہ یہ کہ مصر ہیں کہ ہم آپ کے تراشیدہ معنی ومفہوم کو تسلیم کریں!

بالفرض آپ نے اسے اپنے کلام میں اپنے مفہوم میں استعمال کر ہی لیا، تو یہ نقص آپ کے کلام کے ساتھ تھا، لیکن ایک تو کریلہ اوپر سے نیم چڑھا کے مصداق آپ اپنے اس خود تراشیدہ مفہوم کا اطلاق دوسروں کے کلام پر کرتے ہوئے، دوسروں کے کلام میں معنوی تحریف کرتے ہیں، اور پھر ہمیں سمجھانے لگے ہیں کہ امام بخاری اور امام ابن حجر عسقلانی کے کلام کا مطلب و مفہوم کیا ہے!
الجواب:
اقول:
جناب من!
در اصل یہ آپ کی کم علمی و کج فہمی اور جہالت و ضلالت ہی ہے جو آپ سے یہ سب کہلوا رہی ہے کیوں کہ آپ اولاد و ذریت، والدین، یتیم جیسے الفاظ کے معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق تک نہیں جانتے اور کن کن لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور کون کون اس میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یکسر الٹی پلٹی باتیں اور گپ بازیاں کر رہے ہیں۔ آپ نہ تو قرآن و حدیث ہی سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی عرف و لغت کا ہی آپ کو پتا ہے۔ میں نے کہیں تحریف نہیں کی ہے۔ یہ تو مجھ پر سراسر آپ کا افتراء اور جھوٹا الزام ہے۔ جب آپ اللہ و رسول پر جھوٹ بول سکتے ہیں ان سے جھوٹی باتوں کو منسوب کر سکتے ہیں تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔مجھ کو جھوٹا بتانا کج فہم، کم علم، گمراہ وغیرہ وغیرہ بتانا تو آپ کے لیئے ایک معمولی سی بات یے۔
مجھے تحریف کرنے اور غلط بیانی کرنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ تحریف تو وہی شخص کرتا ہے جس کو غلط بیانیاں کرنی ہوتی ہیں۔ میں تو ایک سیدھی سادی بات لوگوں کےسامنے رکھ رہا ہوں جو قرآن حدیث کے نصوص اور تفسیر و شروح احادیث سے ماخوذ ہےاور جس کو میں باحوالہ پیش کررہا ہوں۔ میں نے کہیں کوئی تحریف نہیں کی ہے نہ تو لفظا اور نہ ہی معنا یہ آپ کا فریب اور مجھ پر یکسر جھوٹا الزام ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن و دماغ پر یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کو لیکر جو پردہ پڑا ہوا ہے اور جسے لوگوں نے منزل من اللہ قرار دے رکھا ہے اور الٹی پلٹی دلیلوں اور باطل تاویلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو ظالم ٹھہرانے کی جسارت کی جارہی ہے اور یتیم پوتوں پر اللہ کا نام لیکر جو ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے۔ کیونکہ نہ تو اللہ تعالیٰ ظالم ہے اور نہ ہی ان یتیم پوتوں کو پیدا کر کے اور ان کے باپ کو اس دنیا سے اٹھا کر بھول گیا ہے۔ کیونکہ خود اس کا فرمان ہے:

(وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ) (سورة البقرة: 57)
(مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا
بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ) (سورة ق: 29)
(وَمَا كَانَ رَبُّكَ
نَسِيًّا) (سورة مريم: 64)

تمہارا رب نہ تو ظالم ہے اور نہ بھولنے والا ہی ہے۔ یہ تو لوگ ہیں جو ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں۔
جس چیز کو دنیا سراسر ظلم و ناانصافی قرار دیتی ہے۔ اور جس سے اسلام کے آفاقی نظام تقسیم میراث پر حرف آتا ہے اور جو چیز ایام جاہلیت میں بھی جائز نہ تھی وہ اسلام میں کیسے جائز ہوسکتی ہے؟۔
آپ جسے میرا تراشیدہ معنی و مفہوم کہہ رہے ہیں وہ میرا اپنا نہیں ہے بلکہ در اصل وہ قرآن و سنت کے نصوص سے ماخوذ ہے اور کتب تفاسیر و احادیث میں موجود ہے۔ جس کے آپ یا آپ جیسے لوگ انکاری ہیں میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سب کا سب ان کتابوں میں لکھا ہوا موجود ہے جس کا میں نے حوالہ دے رکھا ہے تو کوئی بھی دانا و بینا شخص اسے کھول کر دیکھ سکتا ہے۔ البتہ اس شخص کو وہ نظر نہیں آئیگا جس کی آنکھ پر تقلید جیسی ظلمت و ضلالت کی سیاہی کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہو۔
اب یہاں بھی آپ کا وہی حال ہے کہ آپ لفظ یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق نہیں جانتے کہ قرآن و حدیث میں کیا لکھا ہوا ہے، اہل تفسیر، شارحین حدیث اور اہل علم و اہل لغت کیا کہتے ہیں چنانچہ آپ کی لا علمی کا ایک اور نمونہ یہاں پیش کیئے دیتا ہوں:

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آخر میں آپ نے مجھے اردو ادب سیکھنے کا مشورہ دیا تھا!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
کیا یہ ہے آپ کا درست اردو ادب؟ کہ اپنے تئیں، الفاظ کو اس کے معنی ومطالب ومفہوم کے خلاف استعمال کیئے جاؤ! آپ نے تو ہر فن میں کھلواڑ کرنے کو فن بنا لیا ہے!
الجواب:
اقول: آپ میرے بارے میں کھلواڑ کرنے کو کہتے ہیں کہ میں نے (ہر فن میں کھلواڑ کرنے کو فن بنا لیا ہے!) تو یہ مبارک کام آپ کر رہے اور ایسا محض اپنی جہالت و حماقت کے چلتے کر رہے ہیں۔
آئیے ہم آپ کو آپ کے ایک اور بہترین اور درست اردو ادب کا نمونہ یہاں پیش کیئے دیتے ہیں لکھتے ہیں: (الفاظ کو اس کے
معنی ومطالب ومفہوم کے خلاف استعمال کیئے جاؤ!) یعنی معنی، مطلب اور مفہوم کا ایک دوسرے پر عطف کر رہے ہیں تو لفظ (معنی) مفرد پھر لفظ (مطالب) جمع لارہے ہیں اس کے بعد پھر لفظ (مفہوم) مفرد استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ جملہ یوں ہونا چاہیئے: (الفاظ کو اس کے معانی ومطالب ومفاہيم کے خلاف استعمال کیئے جاؤ!) یا پھر یوں کہتے: (الفاظ کو اس کے معنی ومطلب ومفہوم کے خلاف استعمال کیئے جاؤ!)
*----------------------------------------------
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
آپ کی زیر بحث عبارت درج ذیل ہے:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے ترجمہ یہ کیا کہ: ''یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو!'' جب آپ نے یتیم پوتا کہہ ہی دیا ہے، تو لازم آتا ہے کہ اس کا باپ نہیں ہے، اسی لئے تو وہ یتیم ہے، اس لئے آگئے جو شرط ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' بیان ہوئی ہے، وہ اس اس کے باپ کے وجود کی نفی کے لیئے نہیں ہو سکتی، کیونکہ ''یتیم'' تو ہوتا ہی اس وقت ہے، لہٰذا اس شرط ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' میں یتیم کے باپ کی شرط لغو اور محال ہے، لہٰذا لازم آتا ہے، کہ اسے ''یتیم'' کے باپ کے نہ ہونا قرار نہ دیا جائے، بلکہ اسے میت یعنی دادا کے کوئی صلبی بیٹے نہ ہونے کی شرط قرار دیا جائے! یعنی نہ اس کا کوئی چچا ہو، نہ اس کا کوئی تایا ہو! اب آپ نے اگر زبردستی ''یتیم'' کی نعرے بازی نہ کی ہوتی، تو ایک امکان موجود تھا، کہ یہاں دادا کے بیٹے کے لئے، جس شرط کا بیان ہے، اس میں پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہے۔ مگر وہ بھی کہ یوں کہ ''پوتے کے باپ کا نہ ہونا'' بھی اس شرط میں شامل ہے! محض پوتے کے باپ کے نہ ہونے سے شرط مکمل نہیں ہوتی! کیونکہ صرف پوتے کا باپ دادا کا صلبی بیٹا ہے، بلکہ پوتے کا تایا بھی صلبی بیٹا ہے، اور پوتے کا چچا بھی صلبی بیٹا ہے! اور پاب، تایا ہو، یا چچا ہو، ان میں سے کوئی ایک بھی ہو، تو دادا کے صلبی بیٹے کا وجود ہوتا ہے، اور دادا کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط مفقود ہو چاتی ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
میری زیر بحث مسئلہ میں مستدل عبارت در اصل یہ ہے:
(
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتے کی میراث یعنی وارث ہونے کا باب۔ تو عبارت میں صاف لفظ موجود ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو جس پوتے کا باپ نہ ہو وہی تو یتیم پوتا کہلاتاہے یہ یتیم کا لفظ تو خود ترجمۃ الباب میں موجود ہے جسے آپ (ترجمہ میں ''یتیم'' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد) کہہ رہے ہیں جو آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا جیتا جاگتا نمونہ اور منھ بولتا ثبوت ہے۔
نیز اس ترجمۃ الباب میں (
(إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔کا جملہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یتیم پوتا صرف اپنے باپ کے ہوتے ہی محجوب ہوگا چچا تائے کے ہوتے ہرگز ہرگز محجوب نہیں ہوگا۔ کیونکہ ترجمۃ الباب کے ان الفاظ سے یہی بات صاف طور پر ظاہر ہو رہی ہے جو آپ کے بنائے ہوئے پورے قلعے اور خود ساختہ دین و مذہب اور خانہ ساز شریعت کو نیست و نابود اور ملیامیٹ کیئے دے رہی ہے اسی لیئے آپ کوباربار یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ فتح الباری والی عبارت ہی پیش کیجیئے گا دوسری اور کوئی عبارت نہ پیش کیجیئے گا۔ کیونکہ آپ کو (میت کا کوئی بیٹا نہ ہو نہ تو اس کا باپ اور نہ ہی چچا تایا) کا تڑکہ لگانے کی گنجائش نہیں نکل پارہی ہے بلکہ یہ عبارت: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتے کی میراث یعنی وارث ہونے کا باب۔ آپ اور آپ جیسے لوگوں کے منھ پر کرارا طمانچہ ہے۔
(
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ).)
یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتے کی میراث یعنی وارث ہونے کا باب۔
اس عبارت میں صاف لفظ موجود ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو جس پوتے کا باپ نہ ہو وہی یتیم پوتا ہے اور وہ وارث ہے۔ یہ یتیم کا لفظ تو خود ترجمۃ الباب میں موجود ہے جسے آپ (ترجمہ میں ''یتیم'' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد) کہہ رہے ہیں جو آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا جیتا جاگتا نمونہ اور منھ بولتا ثبوت ہے۔

اور جو بات کہ (میت کا
کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا) عبارت میں موجود نہیں ہے اور جس کا تڑکہ آپ اپنی طرف سے لگا رہے ہیں جس کا کوئی وجود عبارت میں نہیں ہے۔ اور آپ کے ترجمہ میں ('' کوئی بھی '' کے لفظ کے تڑکہ کا فساد) اظہر من الشمس ہے۔ اور صریحی طور پر تحریف لفظی و معنوی ہے۔
یہ ساری فریب بازیاں اور کٹھ حجتیاں آپ صرف اور صرف اسی لیئے کر رہے ہیں کہ کسی بھی طور پر یہ ثابت کیا جاسکے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو نہ باپ نہ چچا تایا تب پوتا دادا کی میراث پائے گا۔ ورنہ باپ کا نہ ہونا اس بات کو لازم کردیتا ہے کہ پوتا اپنے دادا کا وارث بن گیا اور اس کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار بن گیا ہے۔ اب اس کا چچا تایا ہو یا نہ ہو اس سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محض اس کے باپ کی عدم موجودگی اس کو وارث بنا دیتی ہے۔ اور صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ (
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔ جو آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتوں کو سراب بنا دیتی ہیں۔ اور آپ کی فریب بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
آپ نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہوتب پوتا وارث ہوگا۔ جبکہ صحیح بخاری کا جو نسخہ ہے جیسا کہ محقق نے وضاحت کی ہے اور جس کی شرح آٹھویں صدی ہجری کے محدث امام ابن الملقن نے کی ہے اس میں صاف ہے کہ پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔ لہذا آپ کی ساری رٹ محض بکواس ہی ٹھہرتی ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
لہذا یہاں تک یہ بات ہے کہ آپ کے درج ذیل ترجمہ:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
سے ''یتیم'' کو نکال دیا جائے، تو ''پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' درست ہے!
اس کے بعد آپ نے یعنی کرکے اگلی ترجمہ کے نام پر عبارت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، اس کے کیا ہی کہنے: آپ کی عبارت پھر پیش کرتا ہوں:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ صرف فریب بازیاں اور کٹھ حجتیاں ہی کریں گے کہ کچھ کام کی باتیں بھی کریں گے۔ در حقیقت آپ ہیں جو عبارت کے ساتھ کھلواڑ کیئے جا رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ (جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہوتب پوتا وارث ہوگا)۔ یہ محض دھاندھلی اور کھلی ہوئی فریب بازی ہے۔نیز اللہ کے مقدس دین اور پاک شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
چلیئے ہم آپ کی کہی ہوئی اس بات کہ (
''پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'') کو مان بھی لیں تو بھی چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔کیونکہ پوتے کے باپ کا نہ ہونا صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری کرتا ہے۔ اور اس کےچچا تائے کے نہ ہونے پر بھی صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری کرتا ہے۔ یہی بات امام ابن حجر نے بھی کہی ہے جو آپ کو ابتک سمجھ نہ آسکی۔ اب یہ آپ کا بگھاڑ اور تڑکہ ہے اور کھلی ہوئی دھاندھلی و فریب ہے اور آپ کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ نہیں میت کا کوئی بھی بیٹا زندہ نہیں ہونا چاہیئے سب کا مرجانا لازمی ہے۔جس کے چلتے کوئی بیٹا نہ ہونے کی خود ساختہ شرط زبردستی تھوپ رہے ہیں۔ اور لفظی و معنوی تحریف اور عبارت کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں اور الزام میرے سر منڈھ رہے ہیں۔ جب کہ پیش کردہ عبارت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا کہ اس سے پہلے بارہا میں نے وضاحت کی ہے۔ اور ایک بار پھر اس کو دہرائے دے رہا ہوں ۔

(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
اس عبارت میں جس صلبی بیٹے کی بات کی گئی ہے اس میں مرنے والے کے دو صلبی بیٹے آتے ہیں ایک خود پوتے کا باپ اور دوسرے پوتے کا چچا تایا۔ تو ایک صورت پوتے کے صرف باپ کے نہ ہونے اور چچا تائے کے نہ ہونے کی ہے اور دوسری صورت باپ اور چچا تائے دونوں کے نہ ہونے کی ہے تو دونوں صورتوں میں صلبی بیٹے کا نہ ہونا پایا جاتا ہے۔ اور دونوں ہی صورتیں ایسی ہیں کہ جس میں پوتا صلبی بیٹے کے نہ ہونے کے سبب اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا مستحق اور حقدار و حصہ دار و وارث ہے۔ اسی کو امام ابن حجر نے اپنی شرح میں بیان کیا ہے۔جس کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو پوتے کا باپ ہے تو پوتا وارث ہے اور جب میت کا وہ صلبی بیٹا بھی نہ ہو جو پوتے کا چچا تایا ہے تو بھی پوتا وارث ہے۔ اور ان دونوں ہی صورتوں کو امام ابن حجر نے بایں الفاظ بیان کیا ہے : (سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) یعنی جب صرف باپ نہ ہو یا پھر چچا تایا بھی نہ ہو۔
اور اس بات کی سب سے بڑی دلیل صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے جو آج بھی موجود ہے اور اس میں یہ الفاظ مذکور ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ جس سے آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتیاں ہوا ہوائی ہو جاتی ہیں اور سب کی سب سراب ثابت ہوتی ہیں۔ اور آپ کی ساری فریب بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
واضح رہے کہ فتح الباری شرح بخاری جسے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے وہ حافظ ابن الملقن کے تقریبا پچاس سال بعد لکھی گئی ہے۔ اور جو آپ نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہوتب پوتا وارث ہوگا۔ تو صرف اور صرف اس میں مذکور ایک لفظ کے چلتے ہے جس کا آپ ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے اور ایسا محض اپنی خواہش نفس کو پورا کرنے کے لیئے ہی کر رہے ہیں۔جبکہ صحیح بخاری کے جس نسخہ سے حافظ ابن الملقن نے شرح کی ہے اس میں یہی الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جیسا کہ محقق نے وضاحت کی ہے اور جس کی شرح آٹھویں صدی ہجری کے محدث امام ابن الملقن نے کی ہے اور اس سے صدیوں قبل کے امام حافظ ابن بطال جنہوں نے ان دونوں سے قبل صحیح بخاری کی شرح لکھی ہے جس کے حوالے ان دونوں نے جگہ جگہ اپنی شرح میں دیئے ہیں وہ پانچویں صدی کے محدث ہیں۔جن کا پورا نام اور سن وفات کچھ یوں ہے۔ (ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (المتوفى: 449هـ)) اس میں بھی یہی الفاظ ہیں۔ (( (7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پوتا صرف اپنے باپ کی موجودگی میں ہی اپنے دادا کی میراث میں محجوب ہوگا۔ اپنے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم ہرگز نہیں ہوگا۔ لہذا آپ کی ساری رٹ محض بکواس ہی ٹھہرتی ہے۔ اور آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتوں کو سراب بنا دیتی ہیں۔ اور آپ کی ہر طرح کی فریب بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کے اس ترجمہ کے اگلے حصہ کا جسے ملون کیا گیا ہے، اس کا بھی لغو ہونا بتلاتے ہیں! آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو، اور تایا چچا ہوں تب بھی دادا کا وارث، اور یا تایا چچا نہ ہوں تب بھی دادا کا وارث! اب آپ کو کون یہ سمجھائے کہ اب اگر چچا تایا کے ہوتے ہوئے بھی پوتا دادا کا وارث بنتا ہے، تو تایا اور چچا کے نہ ہونے پر دادا کا وارث بننے کا ذکر کرنا ہی لغو ولایعنی ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کو سمجھانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صرف باپ کے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کچھ اور بنتا ہے اور چچا تائے کے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کچھ دوسرا ہوجاتا ہے دونوں الگ الگ مسائل ہیں اور دونوں کا حکم بھی الگ ہے۔ تو بجائے اس کے کہ آپ ہمیں اپنی لغویات سمجھائیں اپنی لغو باتوں کو اپنے پاس ہی سجا سنوار کر رکھیں وہ صرف آپ ہی کے کام کی ہیں ہمارے کام کی نہیں ہیں۔آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں: جب پوتے کا صرف باپ نہ ہو تو پوتا بطور قائم مقام اپنے باپ کے اپنے باپ کا حصہ پائے گا۔ لیکن جب پوتے کا چچا تایا بھی نہ ہو تو ہر ہر پوتا بطور ایک بیٹے کے مثل ایک بیٹے کے حصہ پائے گا۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک بیٹے کے تین بیٹے ہیں اور دوسرے بیٹے کے صرف ایک بیٹا ہے۔تو جس بیٹے کے تین بیٹے ہیں وہ وفات پاگیا ہے اور اس کے بعد دادا وفات پاتا ہے۔ تو اس کے ورثاء میں ایک تو اس کے تین یتیم پوتے ہیں اور ایک بیٹا جو کہ ان تینوں یتیم پوتوں کا چچا یا تایا ہے۔ تو میت کے ترکہ کے دو حصے کر کے ایک حصہ ان تینوں یتیم پوتوں کو دیا جائے گا۔ اور ایک حصہ بیٹے کو ملے گا۔جس کے بعد اس کے اکلوتے بیٹے کو اس کے دادا کا آدھا مال پہنچے گا۔ لیکن اگر میت کے دونوں ہی بیٹے فوت ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں میت کے ترکہ کے چار حصے کیئے جائیں گے۔ جن میں سے اس کے ہر پوتے ایک ایک حصے پائیں گے۔ توچچا تائے کے ہونے یا نہ ہونے کا یہ فرق مسئلہ پر پڑتا ہے ۔
یہ ساری فریب بازیاں اور کٹھ حجتیاں آپ صرف اور صرف اسی لیئے کر رہے ہیں کہ کسی بھی طور پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار نہیں ہے۔ جب کہ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے جس کی کوئی اصلیت و حقیقت اور شرعی حیثیت نہیں ہے۔

*----------------------------------------------*
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
میرے بھائی!یہ لغو اور لایعنی بات آ کے ذہن کے اخترا ہے، امام ابن حجر عسقلانی نے یہ لا یعنی بات نہیں کہی! پہلے تو یہ بتلائیے کہ آپ نے اس ملون فقرے میں پاپ کے اور چچا کے ہونے کی نفی پر کیوں تعبیر کیا ہے؟ عربی عبارت تو یوں ہے: ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' اس میں تو ''ہونے'' کا بیان ہے، ''نہ ہونے'' کا بیان تو نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
مجھے قطعی یہ توقع نہ تھی کہ آپ اس درجہ احمق، جاہل ، کٹھ حجت اور بکواسی ہونگے کہ محض بکواس ہی کرتے رہیں گے اور کبھی بھی کو ئی عقل کی بات نہیں کریں گے۔ آپ آدھے ادھورے جملے پیش کر کے لایعنی و لغو باتیں کر رہے ہیں۔ پورا باب مع شرح اس طرح ہے :

(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
اور بالفاظ دگر صحیح بخاری کے باب کے الفاظ یہ ہیں:
((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
تو میں نے جو ترجمہ کیا ہے اور مفہوم بیان کیا ہے وہ مذکورہ باب مع شرح بیان کیا ہے۔ جسے آپ ادھورا پیش کرکے اس پر مجھ سے لا یعنی سوال کر رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی (لاتقربوا الصلاۃ و انتم سکاریٰ) میں (و انتم سکاریٰ) کو حذف کر کے صرف (لاتقربوا الصلاۃ ) کو پیش کر کے کہے کہ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے تو یہاں صلاۃ کے قریب جانے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح کی حرکت آپ نے بیٹی پوتی کے مشترکہ حصوں کو چھپا کر کی تھی۔ تو جناب من ایسی حرکتیں نہ کریں اور اس طرح کی فریب بازیوں سے باز آجائیں بروز قیامت اللہ کے سامنے کھڑا ہونا بھی ہے اور جواب دینا بھی ہے اس بات کو یاد رکھیں۔
میری جس بات کو آپ لا یعنی قرار دے رہے ہیں وہ امام ابن حجر کی کہی ہوئی بات ہے جسے آپ نے آدھی آدھوری پیش کی ہے اور مجھ سے سوال پوچھا ہے۔
آپ نے کہا کہ: (
عربی عبارت تو یوں ہے:
''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' اس میں تو ''ہونے'' کا بیان ہے، ''نہ ہونے'' کا بیان تو نہیں!) تو یہ آپ کی جہالت و حماقت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ بات یہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو تو پوتا وارث ہے تو امام ابن حجر نے یہ بتانے کے لیئے کہ بیٹے سے مراد صرف صلبی بیٹے کا نہ ہونا ہے کیونکہ ممکن ہے میت کا کوئی منھ بولا بیٹا ہو تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مرنے والے کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو نہ تو صلبی اور نہ ہی متبنی ہو تب پوتا پائے جیسا کہ آپ جیسے احمق جاہل لوگ کہہ رہے ہیں کہ میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو نہ تو باپ اور نہ ہی چچا تایا۔ یا یہ بھی کوئی نہ کہہ بیٹھے کہ ابن سے مراد بیٹے کے بیٹے کا بیٹا ہے۔ تو کسی بھی بیٹے کے نہ ہونے کے اشکال کو ختم کرنے کے لیئے ہی امام ابن حجر نے اس بات کی صراحت کردی کہ صرف صلبی بیٹے کا ہونا نہ ہونا ہی پوتے کے لیئے مانع اور غیر مانع ہے کسی اور بیٹے کا ہونا نہ ہونا کوئی مانع نہیں ہے۔ اب صلبی بیٹے کے تعلق سے بھی ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے بیٹوں کا نہ ہونا پوتے کے وارث ہونے کے لئے لازمی ہے تو اسی اشکال کی وضاحت امام ابن حجر نے (أَوْ یعنی یا) کے لفظ سے کی ہے یعنی کسی بھی صلبی بیٹے کا نہ ہونا لازم نہیں ہے بلکہ صرف اس بیٹے کا نہ ہونا انہیں وارث بنا دیتا ہے جو ان کا باپ ہے ۔ اب اس میں بھی اشکال ہوتا ہے کہ کیا چچا تائے کے نہ ہونے پر بھی پوتا وارث ہے تو اسی کا جواب امام ابن حجر نے یوں دیا ہے کہ دونوں صورتوں میں وہ وارث ہے خواہ صرف اس کا باپ نہ ہو یا پھر اس کا چچا تایا بھی نہ ہو۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل اور ثبوت صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں (( (7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے جو آج بھی موجود ہے اور اس میں یہ الفاظ مذکور ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ جس سے آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتیاں ہوا ہوائی ہو جاتی ہیں اور سب کی سب سراب ثابت ہوتی ہیں۔ اور آپ کی ساری فریب بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ عبارت کا ترجمہ نہیں فرمارہے، آپ عبارت پر زبردستی اپنی خواہش کو ٹھوسنا چاہتے ہیں! اور آپ نے یہاں ''یعنی'' کہاں سے اخذ کیا؟ جہاں یعنی تھا، ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب میت کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کے لئے اس کا صلبی (نہ ہو)'' آپ نے اس کا ترجمہ کیا: جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔
یہاں تو آپ نے ترجمہ کرتے ہوئے یعنی کو حذف کر دیا، لیکن خیر آپ نے ''صلبی بیٹا'' لکھا تو مفہوم ادا ہو گیا! مگر ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' میں آپ نے ''یعنی'' کو داخل کرکے اس کا ''بلا واسطہ'' ''إِذا لم يكن ابن'' سے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' کا تعلق ''لِصُلْبِهِ'' سے ہے۔ عبارت یوں ہے کہ: ''أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' ابن حجر عسقلانی کی یہ عبارت ''إِذا لم يكن ابن'' میں ''ابن'' کو بیان کر رہی ہے! مطلب کہ ابن یعنی میت کے لیئے صلبی، (صلب ہونے میں ) برابر ہے، کہ وہ اس کا (پوتے کا) باپ ہو، یا اس کا (پوتے کا) چچا تایا ہو!
مطلب کہ جب پوتے کا پاب ہو گا، تو میت کا ''ابن'' یعنی صلبی بیٹا موجود ہے، یا جب میت کا چچا تایا ہو، میت کا صلبی بیٹا موجود ہے۔ اور جب صلبی بیٹا ہے، تو
''إِذا لم يكن ابن'' مفقود ہے۔
اس عبارت کا ترجمہ یوں درست ہے: پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا بیٹا نہ ہو یعنی میت کا صلبی بیٹا، خواہ وہ پوتے کا باپ ہو، یا پوتے کا چچا تایا
!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی جہالت و حماقت بول رہی ہے۔ اور یہ آپ اور آپ جیسے لوگوں کی زور زبردستی ہے کہ جب تک میت کا ایک بھی بیٹا موجود ہے کوئی بھی پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے قطعی کوئی حصہ نہیں پاسکتا ہے جب کہ اس کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ صحیح بخاری کے الفاظ میں ہی ہے اور نہ ہی صحیح بخاری کی شرح میں ہی ہے۔
اس بات کی سب سے بڑی دلیل اور ثبوت صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
چلئے آپ ہی کے خط کشیدہ مزعومہ درست ترجمہ (
پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا بیٹا نہ ہو یعنی میت کا صلبی بیٹا، خواہ وہ پوتے کا باپ ہو، یا پوتے کا چچا تایا!) کو ہی لے لیتے ہیں۔ تو باب ہے پوتے کے وارث ہونے کا کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو یعنی صلبی بیٹا نہ خواہ وہ پوتے کا باپ ہو یا پوتے کا چچا تایا ہو موجود نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ تو آپ کے اس مزعومہ درست ترجمہ سے بھی پوتا دو نوں صورتوں میں وارث ٹھہرا پہلی صورت جب کہ صرف پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے یا جب چچا تایا نہ ہو تو بھی پوتا وارث ہے۔ اور ہم یہی تو کہہ رہے ہیں کہ پوتے کے وارث ہونے کے لیئے اس کے باپ کا نہ ہونا ہی شرط ہے پس پوتے کے باپ کے نہ رہنے سے وہ شرط پوری ہو جاتی ہے۔ اب اگر پوتے کا چچا تایا بھی نہ ہو تو بھی پوتے کے باپ کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو رہی ہے کیونکہ بیٹے کے رہتے اس کے بیٹے بیٹیاں محجوب ہیں پس دونوں ہی صورتوں میں پوتا وارث ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے اور جب پوتے کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے۔ پس ثابت ہوا کہ چچا تائے کا ہونا پوتے کے وارث ہونے میں مانع و حارج نہیں ہے۔ یہ بات تو آپ کے پیش کردہ مزعومہ درست ترجمہ سے صاف طور پر ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن چونکہ یہ بات آپ کے گلے سے نہیں اترتی اسی لیئے اب آگے آپ نے بکواس شروع کردی لکھتے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے): پھر اس میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ ''یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں'' کا تقاضا ہے، کہ چچا تایا کی موجودگی سے کوئی فرق نہ پڑے، لیکن اس سے قبل جو شرط ہے، وہ پوری نہیں ہوتی، کہ ''میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' بلکہ اس شرط کا کی نفی اور انکار لازم آتا ہے ! یہ نفی اور انکار ابن حجر عسقالانی نے نہیں کیا، بلکہ آپ فرما رہے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من! یہاں بھی آپ نے اپنی جہالت و حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر بکواس شروع کردی ۔ یقینا چچا تائے کی موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ جب صرف پوتے کا باپ نہ ہو تو بھی صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو جاتی ہے اور جب چچا تائے نہ ہوں تب بھی صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو جا رہی ہے۔ اور یہی بات امام ابن حجر بتانا چاہ رہے ہیں اسی لیئے انہوں نے (سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) کہا ہے جس میں (أَوْ) کا استعمال کیا ہے جو دونوں صورتوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک صورت صرف باپ کا نہ ہونا اور دوسری صورت چچا تائے کا نہ ہونا دونوں ہی صورتوں میں پوتا وارث ہے کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو رہی ہے پس آپ کے پیش کردہ مزعومہ درست ترجمہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے رہتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہے۔ پس ہمارا پیش کردہ ترجمہ ((باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔) یقینا سو فیصدی نہیں بلکہ ہزار لاکھ فیصدی درست ہے۔
اس بات کی سب سے بڑی دلیل اور ثبوت صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب آپ ''أولاد'' میں ''تمام ذریت'' کو تو شامل قرار دیتے ہیں، اور نہ جانے پوتے کے چچا تایا کو دادا کے صلبی بیٹا ماننے سے انکار کیوں ہے! چچا تائے کا وجود صلبی بیٹے کے وجود کو متحقق ہے، اور صلبی بیٹے کے ہوتے پوتا دادا کی وراثت کا حقدار نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہاں بھی آپ اپنی جہالت و حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر بکواس کررہے ہیں ۔ ہم نے کب چچا تائے کو دادا کا صلبی بیٹا ماننے سے انکار کیا ہے انکار تو آپ کر رہے ہیں اس بات سے کہ صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا صلبی بیٹے کے نہ ہونے کو ثابت نہیں کرتا جب تک کہ سارے بیٹے نہ مرجائیں تب تک صلبی بیٹا نہ ہونے کی شرط پوری نہیں ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا صلبی بیٹا نہ ہونے کی شرط کو پوری کردیتا ہے لہذا یتیم پوتااپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دادر ہے۔

*----------------------------------------------*
*----------------------------------------------*

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اب یہاں باپ نے نہ ہونے کی صورت میں مسئلہ کی دو صورت بنتی ہے:
ایک یہ کہ صرف باپ نہ ہو البتہ چچا تائے ہوں۔
اور دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ باپ بھی نہ ہو اور نہ ہی چچا تائے ہی ہوں۔
دونوں ہی صورتوں میں یتیم پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر بمنزلہ اولاد وبیٹے کے اپنے دادا کے ترکہ میں وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کا وہم ہے؛ نہ قرآن وحدیث میں یہ بیان ہے، نہ امام بخاری اور امام ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے، کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے پوتا دادا کی وراثت کا حقدار اور حصہ دار ہے، بلکہ ابھی ہم تفصیل سے یہ بتلا آئیں ہیں، کہ امام ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری کی بیان کردہ شرط ''إِذا لم يكن ابن'' میں ''ابن'' کا ''صلبی بیٹا'' ہونا بتلایا ہے، اور صلبی بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت کا حقدار نہیں! آپ بھی ویسے کمال کرتے ہیں: ایک طرف تو ''تمام ذریت'' کو ''حقیقی أولاد'' قرار دیتے ہیں، اور یہاں نجانے کیوں آپ تایا چچا کو ''صلبی بیٹا'' ماننے سے گریزاں ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی جہالت و حماقت اور نادانی ہے۔ امام بخاری نے تو صاف لفظوں میں تو یہ واضح کردیا ہے کہ پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ باب کے یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے جس میں یہ الفاظ مذکور ہیں جو آج بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ جس سے آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتیاں ہوا ہوائی ہو جاتی ہیں اور سب کی سب سراب ثابت ہوتی ہیں۔ اور آپ کی ساری فریب بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
رہا صحیح بخاری کے باب کے دوسرے نسخہ کے الفاظ کا معاملہ تو چونکہ اس میں اشکال پایا جاسکتا تھا اس لیئے امام ابن حجر نے اپنی شرح کے ذریعہ اس اشکال کو دور کردیا ہے کہ جب پوتے کا صرف باپ نہ ہو تو بھی پوتا وارث ہے اور جب اس کے چچا تائے نہ ہوں تو بھی پوتا وارث ہے۔ پس چچا تائے کا ہونا پوتے کے وارث ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ صرف باپ کا ہونا ہی مانع ہے۔

*----------------------------------------------*
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو کیا یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔ تو اسی سوال کا جواب امام بخاری نے باب باندھ کر دیا کہ وہ وارث حقدار اور حصہ دار ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ یہ ہے کہ پوتا دادا کی وراثت سے اس وقت وراثت کا حقدار ہو گا، جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو! اور آپ امام بخاری پر جھوٹ باندھنے سے گریز کریں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
جھوٹ تو آپ اور آپ جیسے دیگر لوگ بول رہے ہیں کہ (
پوتا دادا کی وراثت سے اس وقت وراثت کا حقدار ہو گا، جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) یہ بات امام بخاری نے کہی ہے۔
جب کہ امام بخاری نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے یہ صریحی طور پر امام بخاری سے منسوب کردہ سو نہیں بلکہ ہزار لاکھ کروڑ فیصد جھوٹی بات ہے کہ انہوں نے ایسا کہا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو اس کے برعکس بات کہی جو صاف لفظوں میں یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہوتو پوتا اپنے دادا کا وارث ہے اس کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔جیسا کہ صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے جس میں یہ الفاظ مذکور ہیں جو آج بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ جس سے آپ کی ساری بکواس اور کٹھ حجتیاں ہوا ہوائی ہو جاتی ہیں اور سب کی سب سراب ثابت ہوتی ہیں۔ اور آپ کے سارے جھوٹ، فریب اور گھپلے بازیوں کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔ آپ امام بخاری سے جھوٹی بات منسوب کرنے سے باز رہیں۔اور مسلک اہلحدیث اور اللہ کے مقدس و پاک دین اسلام کو اپنے جھوٹ فریب سے داغدار و بدنام نہ کریں۔ مسلک اہل حدیث ایک انتہائی پاکیزہ مقدس اور صاف ستھرا مبنی بر کتاب و سنت مسلک و منہج ہے۔ جسے آپ جیسے جھوٹے، فریب باز لوگوں نے داغدار و بدنام کر رکھا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اب اس کے بعد ایک مسئلہ یہ ہے کہ باپ تو نہیں ہے البتہ اس کے چچا تائے ہیں تو کیا وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے یا نہیں تو اس اغماض کو حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں دور کردیا ہے:
(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی ایک صورت یہ کہ صرف باپ نہیں ہے البتہ چچا تائے تو بھی وہ حقدار و حصہ دار ہے دوسرے یہ کہ باپ بھی نہیں ہے اور چچا تائے بھی نہیں ہیں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
Click to expand...
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کے اس بیان کا بطلان اوپر تفصیل سے بیان ہوا! کا تعلق صلبی أولاد کے ہونے سے ہے، کہ باپ ہو یا تایا چچا، دونوں بہر صورت صلبی أولاد کا وجود ہوتا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
ہم نے بھی آپ کے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ یتیم پوتا چچا تائے کے ہوتے ہوئی بھی اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
اس بات کا کھلا ثبوت صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
کیونکہ پوتے کے وارث ہونے نہ ہونے کا تعلق صرف اور صرف اس کے باپ کے ہونے نہ ہونے سے ہے چچا تائے کے ہونے نہ ہونے سے نہیں ہے۔ کیونکہ جس طرح چچا تائے میت کے صلبی بیٹے و اولاد ہیں ٹھیک اسی طریقے سے یتیم پوتے بھی اپنے دادا کے صلبی بیٹے اور اس کی اولاد و ذریت میں سے ہیں تو وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے اپنے دادا کے وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں جیسے اس کا دادا اس کے چچا تائے کے ہوتے اپنے اس پوتے کے نہ رہنے پر اس کے ترکہ میں وارث اور حق دار و حصہ دار بنتا۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
حافظ ابن حجر نے (أَوْ) کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ (وَ) لفظ استعمال کیا۔ ہے جس کا معنی ہوتا ہے یا یہ یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ یا پھر یہ یعنی اس کا چچا تایا بھی نہ ہو چنانچہ کہا کہ(سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
یعنی خواہ اس کا باپ نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔
خواہ اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی وہ بمنزلہ اولاد میت ہونے کے اپنے دادا کا وارث حقدار وحصہ دار ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
میرے بھائی جان! یہاں نہ ہونے کاذکر نہیں، بلکہ ہونے کا ہے، کہ ان کے ہونے سے دادا کا صلبی بیٹا کا وجود پایا جاتا ہے، لہٰذا ہر دو صورت کہ پاب ہو یا چچا یاتا ہوں، پوتا دادا کی وراثت کو حقدار وحصہ دار نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی جہالت و حماقت اور فریب دہی ہے۔ تو کیا آپ یہ کہنا چاتے ہیں جیسا کہ آپ کی اس بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ پوتا اس وقت بھی وارث ہے جب پوتے کا باپ ہو یا جب اس کا چچا تایا بھی ہو۔
امام بخاری نے یہ باب باندھا ہی اس لیئے ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ تو پوتے کے باپ کے نہ ہونے سے دادا کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہو جاتی ہےپس پوتا وارث ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ چچا تایا بھی نہ ہو تو اس صورت میں بھی صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط پوری ہوجاتی ہے۔ پس بہر دو صورت پوتا اپنے دادا کا وارث ہے۔ جب صرف باپ نہ ہو تب بھی اورر جب چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
چونکہ مسئلہ یتیم پوتے کے باپ کے نہ ہونے پر اس کے دادا کے ترکہ میں ہونے حقدار و حصہ دار ہونے یا نہ ہونے کا ہے اور امام بخاری نے اس کی توریث کے اثبات کا باب باندھا ہے انکار کا نہیں۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
متعدد بار آپ کو بتلایا ہے، کہ امام بخاری نے یہ پوتے کی وراثت کے مشروط ہونے کا باب باندھا ہے، اور وہ شرط ہے، ''إِذا لم يكن ابن'' جس میں ابن حجر عسقلانی کی نے وضاحت کی ہے، کہ ''ابن'' یعنی صلبی بیٹا'' اور امام بخاری نے یہ باب ''يتیم پوتے'' کی وراثت کا نہیں باندھا بلکہ ''پوتے'' کی وراثت کا باندھا ہے، خواہ وہ یتیم ہو یا نہ ہو!
الجواب:
أقول:

جناب من!
ہم نے بھی متعدد بار آپ کو بتلایا ہے اور ہم ابھی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ امام بخاری نے پوتے کی وراثت کا باب اسی صورت کے لیئے باندھا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو۔ اور شرط صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے میں یہ الفاظ مذکور ہیں جو آج بھی موجود ہیں اور اس زیر بحث مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ اور آپ کی ساری کٹھ حجتیوں اور بکواسوں کا قلع قمع کر دیتی ہیں۔ امام بخاری نے یقینا یتیم پوتے کے ہی وارث ہونے کا باب باندھا ہے۔ جیسا کہ (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) کے الفاظ اس کی واضح دلیل اور حجت قاطع ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جیسا کہ اس کے بعد والا باب یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حق وحصہ ہونے کے اثبات کا ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس باب میں بھی دادا کے صلبی بیٹا نہ ہونے شرط پوری ہوتی ہے! ویسے ایک بات بتلائیں! اس حدیث میں، یا اس باب میں کہیں ذکر ہے کہ پوتی ''یتیم'' تھی! یعنی کے بالغ نہ تھی!، اس کا والد حیات نہیں تھا، یہ تو اس حدیث سے ثابت ہے، اور اس کا کوئی تایا چچا بھی موجود نہیں تھا، یہ بھی اس حدیث سے ثابت ہے! لیکن اس حدیث میں مجھے تو یہ بات نظر نہیں آئی کہ وہ ''یتیم'' بھی تھی! آپ کے پاس سوائے ''یتیم'' کی نعرے بازی کے کچھ بھی نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہاں بھی آپ کی جہالت و حماقت ہی کر فرما ہے جس کے چلتے آپ یہ بے تکے سوالات کیئے جا رہے ہیں۔
پوتے کا نابالغ ہونا یتیم ہونے کے لیئے شرط نہیں ہے۔ یتیم ہر وہ شخص ہے جس کے باپ ماں فوت ہو چکے ہوں خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (
اس باب میں کہیں ذکر ہے کہ پوتی ''یتیم'' تھی! یعنی کے بالغ نہ تھی!، اس کا والد حیات نہیں تھا) محض آپ کی جہالت و حماقت کی دلیل ہے اور صرف بکواس ہی ہے۔
صلبی بیٹا نہ ہونے کی شرط کی جو رٹ آپ نے لگا رکھی ہے۔ وہ آپ کی اپنی خود ساختہ شرط ہے کیونکہ شرط صرف یہ ہے کہ جو بھی پوتا یا پوتی ایسا ہو کہ اس کا باپ موجود ہو تو وہ محجوب ہیں اور جب موجود نہیں تو وارث ہے۔ جیسا کہ اس باب میں بھی وہ شرط پوری ہو رہی ہے کہ پوتی یتیم ہے یعنی اس کا باپ نہیں ہے اس لیئے وہ اپنے دادا کی وارث ہے اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔جس کے چلتے اسے اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ ملا۔باوجودیکہ میت کی بیٹی یعنی اس کی پھوپھی موجود تھی۔ رہی بات یتیم کی تو ہم اس سے پہلے با دلائل اس بات کو واضح کر آئے ہیں کہ یتیم کا لفظ صرف نابالغ پر نہیں بولا جاتا بلکہ بالغ و نابالغ سب پر بولا جاتا اس وقت جب ان کے باپ ماں نہ ہوں۔
چلئے اس بات کو ہم یہاں بھی قارئین کی معلومات کے لیئے مکرر بیان کیئے دے رہے ہیں :

لگتا ہے آپ در حقیقت حد درجہ جاہل اور احمق ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انتہا درجہ کے فریبی بھی ہیں۔ اور فریب دینے کے لیئے سارے پیش کردہ حقائق کو جھٹلاتے ہوئے ہر اس بات کو میری تراشیدہ خود ساختہ ظاہر کر رہے ہیں جو آپ کے پلے نہیں پڑتی ہے۔ اور آپ کے پاس سوائے کٹھ حجتی اور جہالت و بکواس کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لیئے ایسی باتیں کررہے ہیں۔
اب یہاں بھی آپ کا وہی حال ہے کہ آپ لفظ یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق نہیں جانتے کہ اہل علم اور اہل لغت کیا کہتے ہیں آئیے یہاں بھی میں آپ کی فریب دہی جہالت و حماقت اور ضلالت کا پردہ چاک کیئے دیتا ہوں چنانچہ آپ کی لا علمی اور جہالت کا ایک اور نمونہ یہاں پیش خدمت ہے:

إذَا كَانَ الْيَتِيمُ مُرَاهِقًا عَارِفًا بِمَوَاقِعِ حَظِّهِ، وَتَكُونُ الصَّدَقَةُ مِنْ بَابِ مَا يُؤَكَلُ وَيُلْبَسُ وَلَا يَخْفَى عَلَى الْيَتِيمِ وَجْهُ الِانْتِفَاعِ بِهِ جَازَ دَفْعُهَا إِلَيْهِ، هَذَا كُلُّهُ عَلَى قَوْلِ مَنْ قَالَ: الْيَتِيمُ هُوَ الَّذِي لَا أَبَ لَهُ مَعَ الصِّغَرِ،
یعنی کچھ لوگوں کا قول ہے کہ یتیم وہ ہے جس کا باپ بلوغت سے قبل فوت ہوا ہو تو جب وہ سن مراہقہ (بلوغت) کی عمر کو پہنچ جائے اور اپنے فائدے نقصان کو جاننے مجھنے لگ جائےتو اس کے اموال کو اس کے حوالے کردینا چاہیئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بلوغت کی عمر تک جو بچہ پہنچ گیا ہے وہ بھی یتیم ہے اور جو نہیں پہنچا ہے وہ بھی یتیم ہے۔یعنی کم از کم بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک تو وہ یتیم ہے ہی۔ اب اس کے بعد اس پر لفظ یتیم کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ تو دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے بعد بھی وہ یتیم ہے چنانچہ امام رازی مفسر قرآن آگے لکھتے ہیں:

وَعِنْدَ أَصْحَابِنَا هَذَا الِاسْمُ قد يقع على الصغر وَعَلَى الْبَالِغِ، وَالْحُجَّةُ فِيهِ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَآتُوا الْيَتامى أَمْوالَهُمْ [النِّسَاءِ: 20]، وَمَعْلُومٌ أَنَّهُمْ لَا يُؤْتَوْنَ الْمَالَ إِلَّا إِذَا بَلَغُوا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمَّى: يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ بَعْدَ بُلُوغِهِ، فَعَلَى هَذَا إِنْ كَانَ الْيَتِيمُ بَالِغًا دُفِعَ الْمَالُ إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَيُدْفَعُ إِلَى وَلِيِّهِ. [تفسير الرازي: مفاتيح الغيب = التفسير الكبير، لمؤلفه: أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ)]
یعنی ہمارے یہاں اس لفظ یتیم کا اطلاق نابالغ بچے پر بھی ہوتا ہے اور بالغ پر بھی ہوتا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے کہ یتیموں کو اس کا مال ان کے حوالے کردو۔ اور یہ بھی ثابت شدہ معلوم بات ہے کہ انہیں مال اسی وقت دیا جائے گا جب وہ بالغ ہو جائیں گے۔ اور اللہ کے رسول کو ابو طالب کا یتیم ان کی بلوغت کے بعد بھی کہا جاتا تھا۔اس بنیاد پر یتیم جب بالغ ہو جائے تو اس کے بالغ ہونے پر اس کو اس کے بالغ ہونے کے بعد اس مال حوالے کیا جائے ورنہ اس کے ولی کو دیدیا جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بلوغت و نکاح کی عمر تک جو بچہ بچی پہنچ گیا ہے وہ بھی یتیم ہے اور جو نہیں پہنچا ہے وہ بھی یتیم ہے۔ پس یتیم وہ مرد اور عورت ہے جس کا باپ نہ ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بلوغت و نکاح کی عمر کو پہنچ گیا ہو یا نہ پہنچا ہو۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:
(وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ) (2) (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ) (3) (وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ) (6) [سورة النساء]
یعنی وہ مرد و عورت جس کا باپ نہ ہو وہ یتیم ہےاس کا اطلاق بچپن میں بھی ہوتا ہے اور جوانی میں بھی۔
الْيَتِيمَ اسْمٌ لِلْمُنْفَرِدِ تَسْمِيَتُهُمْ لِلْمَرْأَةِ الْمُنْفَرِدَةِ عَنْ الزَّوْجِ يَتِيمَةً سَوَاءً كَانَتْ كَبِيرَةً، أَوْ صَغِيرَةً، قَالَ الشَّاعِرُ: إنَّ الْقُبُورَ تَنْكِحُ الْأَيَامَى ... النِّسْوَةَ الْأَرَامِلَ الْيَتَامَى
وَإِذَا كَانَ الْيَتِيمُ اسْمًا لِلِانْفِرَادِ كَانَ شَامِلًا لِمَنْ فَقَدَ أَحَدَ أَبَوَيْهِ صَغِيرًا، أَوْ كَبِيرًا، إلَّا أَنَّ الْإِطْلَاقَ إنَّمَا يَتَنَاوَلُ مَا ذَكَرْنَا مِنْ فَقْدِ الْأَبِ فِي حَالِ الصِّغَرِ.
[حكام القرآن، المؤلف: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]
*----------------------------------------------*
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
یہاں تو آپ نے کمال ہی کردیا، کہ اپنی خواہش کے مطابق ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں بنانے کی مذموم کوشش کی ہے؛ اول تو یہ بتلایا جا چکا ہے کہ کا ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' تعلق سے ''ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ہے، نہ کہ ''لم يكن'' سے، اسی کج فہمی کی بنیاد پر آپ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو دو لا یعنی جملوں میں تقسیم کر دیا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در حقیت کمال تو آپ اور آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں کہ امام بخاری نے جو باب یتیم پوتے کے حق وراثت کو ثابت کرنے کے لیئے باندھا تھا آپ جیسے شاطر اور فریب باز لوگوں نے اپنی شاطرانہ اور فریب سے پر چالوں سے اس کو یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث ثابت کرنے کے لیئے بنا ڈالا۔ اس باب کی عبارت کو تو آپ اور آپ جیسے لوگ توڑ مروڑ رہے ہیں اور توڑ مروڑ کر یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ یتیم پوتا بہر صورت محجوب و محروم الارث ہے چاہے اس کا باپ موجود ہو یا موجود نہ ہو۔ اور اسی کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے یہ ہٹ دھرمی دکھائی جا رہی ہے کہ جب کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور اس کا چچا تایا بھی نہ ہو ۔ جب کہ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ محض زور زبردستی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ جب کہ صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ صحیح بخاری کی ایک شرح میں با ضابطہ طور پر موجود ہیں ((
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) جو کہ حافظ ابن الملقن کی شرح بخاری (التوضیح) جو کہ آٹھویں صدی میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں باب کے یہ الفاظ آج بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ میں نص صریح اور حجت قاطع ہیں۔ اور آپ کی ساری کٹھ حجتیوں اور بکواسوں کا قلع قمع کر دیتی ہیں۔ امام بخاری نے یقینا یتیم پوتے کے ہی وارث ہونے کا باب باندھا ہے۔ جیسا کہ (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) کے الفاظ اس کی واضح دلیل اور حجت قاطع ہیں۔
در اصل کج فہمی کا شکار آپ اور آپ جیسے لوگ ہیں۔ اور آپ کو ضرورت ہے عبارتوں کو توڑنے مروڑنے کی ہمیں اس کی ضرورت قطعی نہیں ہے کیونکہ ہمارے سامنے مسئلہ بھی بالکل واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے اور عبارت بھی بالکل واضح اور روز روشن کی طرح صاف ہے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ بالکل ہی لغو، اور عبس بات ہے! کہ جب یتیم ہوتا کہہ رہے ہو، تو اس پر یہ شرط''یعنی پوتے کا پاب نہ ہو'' یہ شرط بالکل لغو اور عبس ہے، اور اس کا شرط ہونا ہی محال ہے! کیونکہ یہ تو یتیم، تو ہوتا ہی وہ ہے، جس کا باپ نہ ہو! دوسرابطلان اس میں یہ ہے، کہ شرط ہے ''جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو'' اور صرف پوتے کا باپ ہی صلبی بیٹا نہیں ہوتا! بلکہ پوتے کے چاچا اور تایا بھی صلبی بیٹے ہوتے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کی جہالت وو حماقت کا یہ حال ہے کہ آپ الفاظ کو درست طور پر لکھنا و استعمال کرنا نہیں جانتے ہیں پھر بھی بحث کیئے جا رہے ہیں۔ میرے بھائی (
لغو اور عبس) نہیں ہوتا ہے بلکہ (لغو اور عبث ) ہوتا ہے پہلے اپنی اردو و عربی املاء درست کیجئے پھر بحث کیجیئے۔ آپ کو نہ اولاد و والد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی پتا ہے اور نہ ہی یتیم کا معنی و مفہوم اور حقیقت ہی سمجھتے ہیں۔ اور نہ ہی (عبث اور عبس) کا معنی و مفہوم، مصداق اور فرق ہی معلوم ہے۔ بہت ساری کتابت کی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن چونکہ آپ نے اس لفظ کو ہائی لائٹ کیا ہے اور اسے سرخ رنگ سے رنگا ہے اس لیئے یہ کتابت کی غلطی نہیں لگتی ہے۔ ویسے آپ کی اس تحریر میں متعدد غلطیاں ہے جسے نظر انداز کرتے ہوئے میں نے صرف ایک لفظ کی نشاندہی کی ہے ۔جب آپ کو (عبث اور عبس) کا معنی و مفہوم اور مصداق اور ان کا فرق ہی معلوم نہیں ہے۔ تو خواہ مخواہ کی بحث نہ کیجئے۔
آپ نے کہا:
(
یہ شرط''یعنی پوتے کا پاب نہ ہو'' یہ شرط بالکل لغو اور عبس ہے، اور اس کا شرط ہونا ہی محال ہے!)
تو جناب من یہ آپ کی جہالت و حماقت کا ایک اور بڑا ثبوت ہے۔ کیوں کہ یہ شرط میری نہیں رکھی ہوئی ہے بلکہ یہ شرط صحابی رسول زید بن ثابت نے بتائی ہے اور امام بخاری نے اس کے اپنے ترجمۃ الباب میں بایں الفاظ نقل کی ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔

تو چونکہ آپ کو خیانت، بد دیانتی اور فریب کرنا ہے اس لیئے یہ آپ کے گلے سے نہیں اتر رہی ہے بلکہ لغو اور بقول آپ کے (عبس) اور محال لگ رہی ہے۔ اسی لیئے آپ اس سے (عبس) یعنی منہ بگاڑ رہے ہیں۔ اور اس کو (عبث) یعنی بے کار قرار دے رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس کا سیدھا سا جواب ہے، نہیں پائے گا، کیونکہ میت کا صلبی بیٹا موجود ہے! اور پوتے کے وارث ہونے کے لئے شرط ہے، کہ میت کا صلبی بیٹا نہ ہو!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کے نزدیک اس کا صحیح جواب ہے جو کہ آپ کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ یقینا پائے گا۔ کیونکہ میت کا وہ صلبی بیٹا موجود نہیں ہے جس کا وہ بیٹا ہے تو جب وہ صلبی بیٹا موجود نہیں ہے تو اس کا بیٹا یعنی پوتا وارث ہے جیسے اس کا باپ یعنی پوتے کا دادا اس کا وارث ہے۔ کیونکہ دادا پوتے کے وارث ہونے کے لیئے شرط صرف ایک ہے اور وہ ہے پوتے کے باپ کا نہ ہونا جو کہ اس کے اور اس کے دادا کے درمیان واسطہ ہے اور دونوں کے آپس میں وارث ہونے کے لیئے رابطہ و شرط ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کی اس عربی عبارت میں کہیں بھی ''یتیم'' کا ذکر تک نہیں! اور آپ نے یہاں بھی ترجمہ میں ''یتیم'' کا نعرہ لگا دیا! یہ بھی درست نہیں، اس صورت میں تو پوتے کے باپ کا نہ ہونا لازم ہی نہیں آتا، بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے، کہ جب پوتے کے چچا تایا نہ ہو، اس میں باپ کے نہ ہونے کی بات ہی نہیں! اگر یہ بات مان لی جائے تو پوتے کو چچا تایا کہ عدم موجودگی میں دادا کی وراثت کا حقدار قرار دینا چاہیئے، خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو! کیونکہ یہاں بھی یتیم ہونے کا ذکر عبارت میں نہیں، یہ آپ کی محض نعرے بازی ہے! آپ کی اس عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا:
''(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).''
''پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو، یعنی پوتے کے چچا تائے نہ ہوں۔''
اور یہاں آپ نے پوتے کے تایا کو صلبی بیٹا ہونے کا انکار کردیا ہے، کہ چچا تائے کہ نہ ہونے سے دادا کا صلبی بیٹے کا وجود نہ ہو گا! آپ نے یہاں ''أؤ'' یعنی ''يا'' سے دو جملے بنائے ہیں! یعنی یا باپ نہ ہو یا چچا تایا نہ ہوں! یوں نہیں کہ'' یا باپ نہ ہو''، ''یا پھر باپ بھی نہ ہو، اور چچا تایا بھی نہ ہوں''! اور یہ آپ کے کلام کا نقص ہے، نہ کہ ہمارا مدعا!

الجواب:
أقول:

جناب من!
لگتا ہے آپ نرے جاہل انتہائی احمق اور چالباز آدمی ہیں آپ کا علم و فہم اور قرآن و حدیث سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ عبارت یوں ہے: (
7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث (وارث) ہونے کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی میت کا صلبی بیٹا خواہ بیٹا اس پوتے کا باپ ہے نہ ہو یا بیٹا اس پوتے کا چچا تایا ہے نہ ہو۔
اس کی تقدیری عبارت میں نے یوں پیش کی تھی (
7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ أَبَاهُ أَوْ إِذَا لَمْ يَكُنِ عَمَّهُ) جس میں پوتے کی وراثت دو طرح ثابت ہوتی ہے ایک صرف اس کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے بھی ہوں۔ جب کہ دوسری صورت یوں ہے کہ جب پوتے کا چچا تایا بھی نہ ہو۔
اس پر شاہد یہ جملہ ہے جو صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں یوں مذکور ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
تو چونکہ آپ کو خیانت، بد دیانتی اور فریب کرنا ہے اس لیئے آپ کے گلے سےمیری باتیں نہیں اتر رہی ہےہیں اسی لیئے آپ ہر اس چیز کو جھٹلا رہے ہیں جس سے آپ کے خود ساختہ موقف پر کاری ضرب لگاتی ہے۔
نقص میرے کلام میں نہیں ہے بلکہ آپ کی عقل اور آپ کے دماغ میں ہے کہ ایک سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو وہ یتیم ہوتا ہے خواہ و ہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ اور جب پوتے کا باپ نہ ہو تو میت کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی جو شرط پوتے کے وارث ، حقدار و حصہ دار بننے کی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے پس پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر اپنے دادا کا وارث بن گیا جیسے اس کا دادا اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کا وارث بن گیا خواہ اس کا چچا تایا ہو یا نہ ہو اس کے رہنے نہ رہنے سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اس کے باپ کی عدم موجودگی اس کے دادا کے صلبی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط کو پوری کر رہی ہے پس پوتے کے وارث ہونے کو لازم کر رہی ہے۔
یہ ایک بالکل سیدھی سادھی، معقول ، عادلانہ اور منصفانہ بات ہے ۔ اس سیدھی سادھی بات کو آپ جیسے لوگوں کی خر دماغی نے ٹیڑھی بنا دیا ہے کیونکہ آپ اور آپ جیسے احمق لوگوں نے اپنے طور پر یہ شرط لگا رکھی ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہوگا تب پوتا اپنے دادا کا وارث بنے گا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب دادا کا کوئی بھی بیٹا نہ ہوگا نہ تو پوتے کا باپ اور نہ ہی اس کا چچا تایا ہی ہوگا تب دادا اپنے پوتے کا وارث ہوگا۔
کیا پوتے کا باپ اس کے دادا کا صلبی بیٹا نہیں ہے کہ اس کی عدم موجودگی سے صلبی بیٹا نہ ہونے کی شرط پوری نہ ہو۔کیا صرف اس کے چچا تائے ہی اس کے دادا کے صلبی بیٹا ہیں کہ جب تک وہ بھی راہی عدم نہ ہوجائیں صلبی بیٹا نہ ہونے کی شرط پوری نہ ہو۔ آپ اور آپ جیسے لوگ کس قدر احمق اور بے وقوف ہیں کہ پوتے کے وارث ہونے کے لیئے چچا تائے کا نہ ہونا لازم قرار دے رہے ہیں۔ یہ تو انتہا درجہ کی حماقت و جہالت ہی نہیں بلکہ انتہائی دور کی کھلی ہوئی گمراہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

لہذا اس باب میں دو ٍصورتوں کو بیان کیا گیا ہےپہلی صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اول تو یہاں پھر آپ کے ''یتیم'' کے الفاظ اضافی اور لغو ہیں! آپ نے تو اپنی ہی بنائی ہوئی عربی عبارت کا ترجمہ غلط کر دیا تھا، جس پر ہم نے آپ ابھی اوپر متنبہ کیا ہے، اور یہی بات ہم نے آپ کو بتلائی ہے، کہ آپ نے دو صورتیں بیان کی ہیں! نتایک کہ پوتے کا باپ نہ ہو، اور دوسری کہ پوتے کا چچا تایا نہ ہو!
اور آپ کی بنائی ہوئی عربی عبارت کے مطابق دو صورتیں یہ ہیں:
اول: پوتے کا باپ نہ ہو اور
چچا تایا ہوں، تب بھی پوتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے،
دوم:
پوتے کا باپ ہو ، اور چچا تایا نہ ہوں، تب بھی وتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے۔
الجواب:
أقول:

جناب من!
چونکہ آپ نرے جاہل انتہائی احمق اور چالباز آدمی ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ (
یہاں پھر آپ کے ''یتیم'' کے الفاظ اضافی اور لغو ہیں!) ۔ یہ آپ کی جہالت و حماقت کی سب سے بڑی دلیل و ثبوت ترجمۃ الباب میں صاف طور پر لکھا ہے: (ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ) جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب میت کا بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہوتا ہے۔ تو جس بیٹے کا باپ نہ ہو وہ یتیم ہے۔ اور اس کی دلیل و ثبوت صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ ہیں۔ جو صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں یوں مذکور ہے: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔) تو آپ کا یہ کہنا کہ (آپ کے ''یتیم'' کے الفاظ اضافی اور لغو ہیں!) آپ کی جہالت و حماقت کا ایک اعلیٰ نمونہ و مثال اور دلیل و ثبوت ہے۔
در حقیقت آپ کا علم و فہم اور قرآن و حدیث سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ کا کام محض جھوٹ بولنا اور فریب بازی کرنا ہے۔ عبارت یوں ہے: (
7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کے (وارث) ہونے کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی میت کا صلبی بیٹا خواہ بیٹا اس پوتے کا باپ نہ ہو یا بیٹا اس پوتے کا چچا نہ ہو۔
اس کی تقدیری عبارت یوں بنتی ہے: (
7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ أَبَاهُ أَوْ إِذَا لَمْ يَكُنِ عَمَّهُ) جس میں پوتے کی وراثت دو طرح ثابت ہوتی ہے ایک صرف اس کے باپ کے نہ ہونے کی صورت میں قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے بھی ہوں۔ جب کہ دوسری صورت یوں ہے کہ جب پوتے کا چچا تایا بھی نہ ہو۔
اسی کو میں نے یوں بیان کیا ہے:
(۱) -(
7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث (پوتے کے وارث ہونے ) کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو اس پوتے کا باپ ہے۔)۔
-(أَوْ)-
(۲)-( 7 - بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ عَمَّهُ) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث (پوتے کے وارث ہونے ) کا باب جب بیٹا نہ ہو یعنی میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو اس پوتے کا چچا تایا ہے ۔
اب آپ اپنی جہالت و حماقت اور ضلالت کے چلتے اس پر بھی تبصرہ کرنے بیٹھ گئے اور چونکہ آپ کا کام صرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا ہے اس لیئے آپ بات کو سمجھے بغیر لگے اس میں عیب تلاش کرنے کیڑے نکالنے اورچونکہ میری ہر بات کو بہر صورت بقول آپ کے (
لغو اور عبس) ثابت کرنا آپ پر فرض ہے۔ اس لیئے اس فریضے کو انجام دینا ضروری تھا جسے آپ انجام دے رہے ہیں۔
اور یہ کہنے کی آپ کو ضرورت پڑی کہ (
اور آپ کی بنائی ہوئی عربی عبارت) جبکہ میں نے اس عبارت کی توضیح و تشریح کی ہے اور تقدیری عبارت کو پیش کیا ہے۔ چونکہ اس عبارت سے آپ کا پورا دین دھرم ملیامیٹ ہوتا نظر آرہا تھا اس لیئے آپ کو اس کو عیب دار ثابت کرنا تھا جو کیااور آپ نے اس کے خلاف بکواس شروع کردی۔
میں نے جو تقدیری عبارت بیان کی ہے اس کے مطابق دو صورتیں بنتی ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں پوتا وارث قرار پاتا ہے ایک تو پوتے کے صرف باپ کے نہ ہونے کی صورت اور دوسرے پوتے کے چچا تائے کے بھی نہ ہونے کی صورت جس کو امام ابن حجر نے لفظ (-(
أَوْ)-) کے ذریعہ الگ الگ کردیا ہے جیسا کہ کلام الٰہی میں لفظ (-(أَوْ)-) کا استعمال بے شمار مقامات پر آیا ہوا ہے۔ جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) [سورة البقرة: 106]
(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ) [سورة البقرة: 111]
تو کیا قرآن میں آیا ہوا (-(
أَوْ)-) کا لفظ ایک ہی چیز کو بیان کر رہا ہے یا دو الگ الگ چیزوں کو بیان کر رہا ہے۔
یہ آپ کی جہالت، حماقت اور ضلالت کا جیتا جاگتا واضح ثبوت ہے۔ میں نے جو تقدیری عبارت پیش کی ہے اس کے مطابق یہ دونوں ہی صورتیں بنتی ہیں جو یوں ہیں:

اول: پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تایا ہوں، تب بھی پوتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے،
دوم:
پوتے کا باپ نہ ہو ، اور چچا تایا بھی نہ ہوں، تب بھی پوتا دادا کی وراثت میں حقدار قرار پاتا ہے۔
اس پر شاہد یہ جملہ ہے جو صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں یوں مذکور ہے: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
جو دونوں صورتوں کو ثابت اور لازم کرتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
امام بخاری اور ابن حجر عسقلانی کی عبارت کا مطلب تو یہی ہے، اور یہ مطلب آپ کو قبول نہیں، تو یہ باور کروانا کا اس کا یہ مطلب نہیں، سوائے دھاندلی کے کچھ نہیں!
الجواب:
أقول:

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔
کوئی کے لفظ پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ عبارت مذکورہ میں ہرگز ہرگز دور دور تک نہیں ہے۔ جو مطلب ہم بتا رہے ہیں جو کہ سو فیصد صحیح ہے اور اس سے آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں اس لیئے آپ کو وہ مطلب قبول نہیں ہے اور آپ اسے غلط ثابت کرنے کے لیئے دھاندھلی کر رہے ہیں کہ اس میں (کوئی صلبی بیٹا نہ ہونے )کا خود ساختہ جملہ داخل کر کے اپنے خود ساختہ دین و مذہب کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ جس کا عبارت مذکورہ میں دور دور تک کوئی وجود نہیں پایا جاتا ہے اور (کوئی صلبی بیٹا نہ ہونے )کا خود ساختہ جملہ سراسر دھاندھلی ، فریب، چالبازی اور کلام میں کی گئی تحریف ہے۔
پس مذکورہ عبارت کا اس کے سوا دوسرا کوئی مفہوم ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت اور دلیل بین اور شاہد صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں مذکور باب کے یہ الفاظ ہیں:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
تو چونکہ آپ کو خیانت، بد دیانتی اور فریب کرنا ہے اس لیئے یہ عبارت آپ کے گلے کی ہڈی ہے جس سےمیری باتیں آپ کے گلے نہیں اتر رہی ہیں اسی لیئے آپ ہر اس چیز کو جھٹلا رہے ہیں جس سے آپ کے خود ساختہ موقف پر کاری ضرب لگاتی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ (أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَوْ) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی (یا) ہوتا ہے (اور) نہیں ہوتا ہے۔ جو دو صورت حال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر (أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) ہوتا تب اس کا معنی ہوتا کہ اس کا باپ اور چچا دونوں نہ ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہاں ''أؤ'' یعنی ''یا'' نہ ہونے کے لئے نہیں، بلکہ ہونے کے لئے وارد ہوا ہے؛ ''أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' یعنی میت کا صلبی، خواہ باپ ہو، یا چچا تایا
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی نری جہالت و حماقت ہے۔ اس طرح آپ کے اپنے اس قول کے مطابق مطلب یہ نکلتا ہے کہ جب میت کا صلبی بیٹا یعنی پوتے کا باپ ہو تب بھی پوتا وارث ہے اور جب چچا تایا ہو تب بھی وارث ہے۔ کیونکہ مذکورہ باب پوتے کی توریث کے اثبات کا باب ہے نہ کہ عدم توریث کے اثبات کا باب ہے۔
اگر آپ کی اس بات کو صحیح مان لیا جائےکہ (
''أؤ'' یعنی ''یا'' نہ ہونے کے لئے نہیں، بلکہ ہونے کے لئے وارد ہوا ہے ''أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' یعنی میت کا صلبی بیٹا، خواہ باپ ہو، یا چچا تایا) ہی صحیح ہے تو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب پوتے کا باپ موجود ہو تو بھی پوتا وارث ہے اور جب اس کا چچا تایا موجود ہو تو بھی پوتا وارث ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس کا جواب ہے؛ نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب عالی اگر آپ کا جواب بقول آپ کے (اس کا جواب ہے؛ نہیں!) تو پھر اس کا کیا جواب ہے جو صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں مذکور ہے: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
اگر یہاں بھی وہی جواب ہے تو پھر آپ کی جہالت، حماقت، ضلالت خیانت، بد دیانتی اور فریب دہی بالکل واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اور بریں عقل و خرد بباید گریست۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار و حصہ دار ہونے کے اثبات کا باب ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس کے چچا تائے موجود ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، بخاری میں ''پوتے کی وراثت'' کا باب ہے، محض ''يتیم پوتے کی وراثت'' کا باب نہیں! اور پوتے کی وراثت کا باب مشروط ہے کہ جب
''إِذا لم يكن ابن'' دادا کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو!
الجواب:
أقول:

یہ آپ کی جہالت اور حماقت اور ضلالت کی معراج ہے ۔ پوتے کی وراثت یقینا مشروط ہے لیکن وہ شرط ہے صرف اور صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی چچا تائے کا نہ ہونا کوئی شرط ہے ہی نہیں۔ یہ تو محض دھاندھلی اور الفاظ کی ہیراپھیری اور کلمات کی تحریف ہے۔ کہ (جب ''إِذا لم يكن ابن'' دادا کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو!)
جب کہ صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں باب یوں مذکور ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
جس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ پوتے کا اپنے دادا کا وارث ہونا مشروط ہے صرف اور صرف اس کے باپ کے نہ ہونے سے ۔ چچا تائے کا نہ ہونا قطعی کوئی شرط نہیں ہے۔ یہ محض فریب جعل سازی اور تحریف لفظی و معنوی ہے کہ (جب دادا کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو !نہ تو اس کا باپ ہو اور نہ ہی چچا تایا ہو تب پوتا وارث ہوگا )۔
(صحیح
بخاری میں محض ''يتیم پوتے کی وراثت'' کا باب ہے) نہ کے عام پوتے کی وراثت کا باب ہے۔ کیونکہ محض یتیم پوتوں کا ہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کیونکہ عام پوتوں کو تو ان کے باپ کے توسط سے دادا کا ترکہ پہنچتا ہی ہے۔ پوتے کا مسئلہ اسی وقت در پیش ہوتا ہے جب پوتے کا باپ مرجاتا ہے اور وہ پوتا یتیم ہوجاتا ہے تو لوگ اس یتیم پوتے کے تعلق سے شرعی حکم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا اسلامی شریعت میں کیا حکم ہے اور اللہ و رسول کیا کہتے ہیں؟ تو آپ جیسے جاہل لوگ بلا تحقیق و تدقیق کیئے ہوئے فتویٰ داغ دیتے ہیں کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کا کوئی حق و حصہ اس کے دادا کے ترکہ میں نہیں ہوتا ہے کیونکہ پوتے عصبہ بعید اور اس کے چچا تائے عصبہ قریب ہیں۔ اور اپنی اس خود ساختہ اور من گھڑت بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے کہتے ہیں کہ (جب دادا کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو !نہ تو اس کا باپ ہو اور نہ ہی چچا تایا ہو تب پوتا وارث ہوگا )۔ جو دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ اور گھڑی ہوئی بات اور خانہ ساز، گھڑی بنائی ہوئی شریعت ہے۔ اللہ و رسول اور ان کا مقدس دین اور آفاقی شریعت کلی طور پر اس سے بری و بیزار ہیں۔ کیونکہ قرآن اور احادیث کے پورے ذخیرہ میں اس کی کوئی ادنیٰ سے بھی دلیل نہیں ملتی ہے اگر ہے تو کوئی دکھائے؟۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ایک بار پھر اس کا جواب ہے؛ نہیں!
الجواب:
أقول:

آپ ہزار بار نہیں کہیں گے تو ہم اس کے جواب میں کروڑ بار علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ کے ساتھ یہ کہیں گے کہ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں اس کے چچا تائے کے ہوتے یقینا حق و حصہ ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ ان کا حصہ نہیں ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا بے ایمان و بد دیانت شخص ہے اور دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا آدمی ہے۔ اور اللہ و رسول کے اوپر جھوٹ گھڑنے والا افتراء پرداز شخص ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں: وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ.
اس کا معنی یہ ہوا کہ اولاد کی اولاد بمنزلہ صلبی اولاد کے ہے۔ یعنی صلبی اولاد (بیٹوں) کی اولادیں ان کے درجہ میں ہیں یعنی ان کے قائم مقام ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی بیٹے کے قائم مقام اس کی اولادیں اور بیٹی کے قائم مقام اس کی اولادیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
زبردست! یعنی کہ اب آپ کو یہ بات تسلیم ہے، کہ پوتا پوتی دادا کی حقیقی أولاد نہیں! اور پوتا اور پوتی داداکی صلبی أولاد نہیں! بلکہ ''بمنزلہ'' ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من۱
اس درجہ خوش نہ ہوئیے۔ ابھی ہم آپ کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ (
پوتا پوتی دادا کی حقیقی أولاد بھی ہیں! اور پوتا اور پوتی داداکی صلبی أولاد بھی ہیں! اور ''بمنزلہ'' بھی ہیں!) اس کی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے جیسا کہ اس نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ( (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ ... وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ ...)[سورة النساء: 23]))
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، وغیرہ کو صلبی بیٹے بیٹیاں اور اور حقیقی و صلبی اولاد کہا ہے۔ اور جو اس کو جھٹلائے اس پر کروڑہا کروڑ لعنت برسے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کوئی شخص کسی کا قائم مقام اسی وقت بنتا ہے جب اس کے اوپر کا وہ شخص نہ ہو جس کا وہ نائب ہے اور وہ اس کے نیچے کاہے تو جب اصل نہیں رہتا ہے تو اس کی جگہ اس کا نائب آتا ہے تو کہا جاتا ہے (قام مقامہ) یعنی وہ اس کی جگہ کھڑا ہو یعنی وہ اس کا قائم مقام بنا۔ مثال کے طور پر صدر کا ایک نائب صدر ہوتا ہے جو صدر کے نہ رہنے پر اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا نائب ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صدر کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کا نائب، صدر کا قائم مقام بن جائے یا وزیر اعظم کے نہ رہنے پر صدر کا نائب وزیر اعظم کا قائم مقام بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کی حد بندی کی گئی ہے۔ باوجود یکہ ان میں کا ہر ایک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی نائب صدر وزیر اعظم کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کی جگہ نہیں لیتا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے نہ رہنے پر نائب صدر وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ بلکہ نائب صدر صدر کا قائم مقام بنتا ہے اور نائب وزیر اعظم وزیر اعظم کا قائم مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدیں جس میں اس کو رہنا ہے۔
بعینہ یتیم پوتے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یتیم پوتا چونکہ اپنے باپ کا نائب ہے اپنے چچا تائے کا نہیں ہے لہذا جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اس کا قائم مقام ہوگا اور اپنے باپ کی جگہ پر آئے گا اس کے چچا تائے اس کے باپ کی جگہ نہیں آسکتے ہیں۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
تو جناب من! سب سے پہلے ایک اعلان رقم فرمائیے کہ آپ پوتا پوتی کو دادا کی حقیقی أولاد کہنے سے رجوع فرماتے ہیں! بلکہ انہیں باپ کے نہ ہونے پر ''بمزلہ'' سمجھتے ہیں! یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں، کہ ''حقیقی أولاد'' بھی ہو، اور اسے ''بمنزلہ أولاد'' بھی کہا جائے! پوتے کے چچا تائے، باپ کے نہ ہونے پر باپ کی جگہ نہیں آتے! لیکن پوتے کے پاب کے نہ ہونے سے، پوتے کے چچا تائے، دادا کی صلبی أولاد سے خارج بھی نہیں ہوتے! اور یہ بات آ نے خود رقم کی ہے کہ دادا کی وارثت میں پوتے کے حقدار ہونے کے لئے شرط ہے کہ دادا کی صلبی بیٹا نہ ہو!
الجواب:
أقول:

تو جناب من!
لیجیئے ہم یہ بات علی الاعلان اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ (
پوتا پوتی دادا کی حقیقی أولاد بھی ہیں اور ''بمنزلہ أولاد'' بھی ہیں کیونکہ جو حقیقی نہیں ہوگا وہ بمنزلہ بھی نہیں ہو سکتا ) ۔ چونکہ پوتا پوتی حقیقی اولاد ہیں اسی لیئے وہ بمنزلہ اولاد بھی ہیں اگر وہ حقیقی اولاد نہ ہوتے تو بمنزلہ اولاد بھی نہ ہوتے ۔ پوتے کے چچا تائے اس کے باپ کی جگہ اس لیئے نہیں لیتے کیونکہ وہ حقیقی باپ نہیں ہوتے اور چونکہ دادا حقیقی والد و باپ ہوتا ہے اس لیئے وہی پوتے کے باپ کی جگہ لیتا ہے۔ پوتے کے ورث ہونے کے لیئے محض اس کے باپ کا نہ ہونا ہی شرط ہے کیونکہ وہ اس کا دادا کا صلبی بیٹا اور حقیقی اولاد ہے تو جب اس کا باپ نہیں رہا تو صلبی بیٹا کے نہ رہنے کی شرط پوری ہوگئی اس لیئے اس کے بعد کا صلبی بیٹا اور حقیقی اولاد جو کہ اس کے نیچے طبقہ کا ہے یعنی اسکا بیٹا اس نے اپنے باپ کی جگہ لے لی پس وہ بمنزلہ اپنے باپ کے حقیقی اولاد و صلبی بیٹا قرار پایا۔ اس کا یا اس کے باپ کا صلبی بیٹا اور حقیقی اولاد ہونا اس کے چچا تائے سے مشروط نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ویسے آپ کی صدر وزیر اعظم والی مثال بھی کافی ناقص ہے، ہر ملک میں نائب صدر نہیں ہوتا، کہ صدر کا قائم مقام بنے، کہیں، پالیمنٹ کا اسپیکر ، اور چیف جسٹس بھی قائم مقام بنتے ہیں! خیر اس مثال پر تو بحث کو رہنے ہیں دیں! دوم کہ پوتا ''بمزلہ أولاد'' اس وقت قرار پاتا ہے، جب دادا کی مذکر أولاد نہ ہو، اور جب تایا چچا ہوں، تو وہ دادا کی ''بمزلہ أولاد'' قرار نہیں پاتا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ کی عقل ہی ناقص ہے اور آپ کے دماغ میں ہی فتور ہے۔ جس کے چلتے آپ یہ کہہ رہے ہیں: (
ویسے آپ کی صدر وزیر اعظم والی مثال بھی کافی ناقص ہے، ہر ملک میں نائب صدر نہیں ہوتا، کہ صدر کا قائم مقام بنے، کہیں، پالیمنٹ کا اسپیکر ، اور چیف جسٹس بھی قائم مقام بنتے ہیں!) یہ تو محض آپ کو ایک مثال دیکر سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جو جس گروپ و کٹیگری میں آتا ہے وہی اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ یہ تو میں نے ہرگز نہیں کہا کہ ہر ہر ملک میں نائب صدر یا نائب وزیر اعظم ہوتا ہے بلکہ اس مثال کو دیکر یہ بتانا مقصود تھا کہ جو بھی اس کے نیچے درجہ کا ہوتا ہے وہ اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ لیکن آپ کی سمجھ انتہائی ناقص اور حد درجہ ٹیڑھی ہے اسی لیئے آپ کو صحیح و درست بات قطعی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔
آپ نے کہا: (
پوتا ''بمزلہ أولاد'' اس وقت قرار پاتا ہے، جب دادا کی مذکر أولاد نہ ہو، اور جب تایا چچا ہوں، تو وہ دادا کی ''بمزلہ أولاد'' قرار نہیں پاتا!)
یہاں بھی آپ کی ناقص عقل اور آپ کے دماغ کا فتور ہی کار فرما ہے۔ پوتا بمنزلہ اولاد اسی وقت قرار پاتا ہے جب اس کا باپ نہیں ہوتا ہےاور اس کے چچا تائے ہوتے ہیں۔ یعنی باپ کے نہ رہنے پر یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ آجاتا ہے اور اپنے چچا تائے کے برابر درجہ کا ہو جاتا ہے تبھی تو اس کا دادا اس کا وارث اور وہ اپنے دادا کا وارث بن جاتا ہے۔
تو کیا پوتے کا باپ اپنے باپ کی مذکر اولاد نہیں ہے؟ کیا صرف پوتے کے چچا تائے ہی مذکر اولاد ہیں؟
آپ اس قسم کی بے وقوفی کی باتیں اپنے پاس ہی رکھیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہی بات زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے: (وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)، اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں: وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا نہ ہو جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کو بتلایا جا چکا ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ'' جیسا کہ فتح الباری میں ہے: (وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّت).
الجواب:
أقول:

جناب من!
حافظ ابن حجر نے زید بن ثابت کے اس قول: (
(وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّت).) میں مذکور لفظ (دُونَهُمْ)کی شرح ((أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّت).) کی ہے۔ جس کا ترجمہ ہے میت اور ان پوتوں کے مابین کا بیٹا نہ ہو یعنی اس کا باپ نہ ہو۔ اور یہی بات امام بخاری نے اپنے اس باب ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) میں بھی کہی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی شرح (التوضیح) میں باب یوں مذکور ہے: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب پوتےکا باپ نہ ہو۔)
تو اس سے یہ بات بالکل واضح اور صاف ہو جاتی ہے کہ ولد سے کوئی بھی بیٹا مراد نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف وہ بیٹا ہی مراد ہے جو کہ پوتے کا باپ ہے اس سے اس کے چچا تایا ہرگز ہرگز قطعی طور پر مراد نہیں ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہاں واسطے کی بات نہیں، بلکہ دادا کی مذکر أولاد کی بات ہے!
الجواب:
أقول:

تو اگر واسطے کی بات نہیں تو آخر کون سی بات ہے؟ کیا پوتے کا باپ اس کے دادا کی مذکر اولاد نہیں ہے؟۔ یا اس کے مذکر اولاد ہونے کے لیئے پوتے کے چچا تائے سے سرٹیفیکیٹ اور سند لینی ہوگی؟ بریں عقل و خرد بباید گریست!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا۔ (والعیاذ باللہ)۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
متعدد بار بتلایا ہے، کہ اس حدیث میں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی! ہم تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فیصلہ بعین اسی طرح مانتے ہیں، لیکن آپ اس فیصلہ کے منکر ہو!
پھر آپ نے ہمارا کلام نقل کیا ہے:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میری اس بات پر آپ نے لکھا :
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛

اس پر آپ فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں یتیم پوتے پوتی کے وارث ہونے کے لئے بنیادی شرط صرف یہ ہے کہ ان کا باپ موجود نہ ہو۔ چچا تایا کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے کیونکہ یتیم پوتے اور اس کے دادا کا توارث ایک دوسرے کے ترکہ میں اس وقت ثابت ہو جاتا ہے جب ان کا باپ وفات پاچکا ہوتا ہے اور جب تک وہ موجود رہتا ہے ان دونوں کے درمیان حجب قائم رہتا ہے۔ اس میں چچا تائے کا کوئی دخل نہیں ۔ نہ توارث کے سلسلہ میں اور نہ ہی حجب کے سلسلہ میں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ تو آپ نے جہالت کی انتہا کردی! جس مدعا پر بحث کی جا رہی ہے، اسی مدعا کو دلیل بنا کر کوسنے دینا شروع ہو گئے ہیں! معلوم ہوتاہے کہ آپ کی پٹاری میں نعرے بازی اور کوسنوں کے سوا کچھ نہیں! ہمیں معلوم ہے، کہ یہ آپ کا مدعا ہے، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے اس مدعا پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ آپ کے مدعا کے بطلان پر قرآن وحدیث کے دلائل موجود ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
جہالت کی تو آپ انتہا کیئے ہوئے ہیں۔ کہ جو شرط قرآن و حدیث میں ہے ہی نہیں بلکہ خانہ ساز ہے اسے آپ شرط قرار دیئے ہوئے ہیں جس کی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب قرآن میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی احادیث صحیحہ میں ہی کہیں ملتی ہے ۔ پھر بھی آپ اس کو قرآن وحدیث کی دلیل قرا دینے کی جرات کر رہے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول کا یہ فرمان ہے کہ کوئی بھی ایسی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو سراسر باطل و مردود ہے اگر چہ وہ سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں سب کی سب باطل و مردود ہیں۔ اور صرف وہی شرط قابل قبول ہے جو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہو۔ اللہ کا فیصلہ اور رسول کا فیصلہ ہی سب سے زیادہ حق اور سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ جیساکہ فرمان رسول ہے:

*-* عَنِ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ العَشِيِّ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ». [بخاري: 2155].
*-* عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، مَا بَالُ رِجَالٍ
يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ». [بخاري: 2168، 2729].
وفي رواية لمسلم: *-* عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، كِتَابُ اللهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللهِ أَوْثَقُ». [مسلم: 8 - (1504)]
*-* عَنْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا بَالُ رِجَالٍ
يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ». [بخاري: 2560].
*-* عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ رِجَالٍ مِنْكُمْ
يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَيُّمَا شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، فَقَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ». [بخاري: 2563].

ان احادیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ آخر لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی ایسی شرطیں عائد کرتے و لگاتے ہیں جو اللہ کتاب میں قطعی طور پر نہیں ہیں۔ تو ایسی کوئی بھی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے اگر کوئی لگاتا ہے اور وہ اللی کی کتاب میں نہیں ہے تو ایسی سیکڑوں شرطیں بھی لگائی جائیں وہ سب کی سب باطل و مردود ہیں۔کیونکہ اللہ کا فیصلہ سب سے زیادہ پختہ، ٹھوس اور مبنی بر انصاف و برحق ہے۔ اللہ کے رسول نے یہ دو ٹوک بات علی الاعلان مجمع عام میں ارشاد فرمائی۔
بنا بریں زیر بحث مسئلہ میں یتیم پوتے کے وارث ہونے کی صرف ایک شرط ہے کہ اس کا باپ نہ ہو ۔ اس کے علاوہ دوسری کوئی بھی شرط ہو سب کی سب باطل و مردود ہے ۔ چنانچہ پوتا صرف اپنے باپ کے رہتے ہی محجوب ہوگا اور اپنے چچا تائے کے رہتے ہرگز ہرگز محجوب نہیں ہوسکتا ۔ چچا تائے کا نہ ہونا یتیم پوتے کے وارث ہونے کے لیئے کوئی شرط نہیں ہے لہذا یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار ہے۔
اور چچا کے نہ ہونے کی شرط نصوص کتاب و سنت کے خلاف ہونے کے سبب باطل و مردود ہے۔ جس کی کوئی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی سنت و احادیث میں ہی ہے لہذا باطل و مردود ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

زور زبردستی سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
زور زبردستی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ابھی آپ نے اس سے متصل ہی کیا ہے! ہماری بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پوتے کو دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے ''بنزلہ أولاد'' کہا ہے، نہ کہ دادا کی مذکر أولاد کے ہونے پر! پاب، تایا، چچا، یہ سب دادا کی مذکر أولاد ہیں! اور مذکر أولاد کے ہونے پر پوتا ''بمزلہ أولاد'' نہیں ہوتا! اس کا جواب آپ کے پاس ہے نہیں، اور نہ ہو سکتا، تو آپ نے کوسنے شروع کردیئے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
زور زبردستی اور ہٹ دھرمی کا مظاہررہ تو آپ کر رہے ہیں کہ زبردستی چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کر نے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اور اس کے وارث ہونے کے لیئے چچا تائے کے نہ ہونے کی اپنی خانہ ساز ، من گھڑت شرط زبردستی تھوپ رہے ہیں۔ جو کہ نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی صحیح احادیث میں ہی اس کا دور دور تک کہیں پتہ ہے۔
در اصل آپ پلے درجہ کے بے وقوف اور حد درجہ جاہل آدمی ہیں کہ یہ کہہ رہے ہیں (
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پوتے کو دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے ''بنزلہ أولاد'' کہا ہے، نہ کہ دادا کی مذکر أولاد کے ہونے پر! پاب، تایا، چچا، یہ سب دادا کی مذکر أولاد ہیں! اور مذکر أولاد کے ہونے پر پوتا ''بمزلہ أولاد'' نہیں ہوتا!)
آپ اپنی جہالت و حماقت ہی کے سبب ایسا کہہ رہے ہیں ورنہ صحابی رسول زید بن ثابت نے یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ کوئی بھی مذکر اولاد نہ ہو تب پوتے پوتیاں اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے جاہل و احمق لوگ سمجھ رہے ہیں۔ زید بن ثابت نے جو کچھ کہا ہے اس کو ہم یہاں مکرر بیان کیئے دیتے ہیں:

((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح للبخاري، لمؤلفه: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)]
امام بخاری یتیم پوتے کے وارث ہونے کا باب باندھتے ہوئے لکھتے ہیں:
پوتے کی میراث کا بیان جب پوتے کا باپ نہ ہو۔
اور اس باب کے تحت زید بن ثابت کا یہ قول نقل کرتے ہیں جو کہ اس باب کی بنیاد ہے:
زید بن ثابت نے کہا : اور اسی طرح بیٹوں کی اولادیں (پوتے پوتیاں) بمنزلہ اولاد (بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں) ہیں۔ جب ان کے اوپر (دادا اور پوتے پوتی کے درمیان کا ) بیٹا نہ ہو۔ ان میں (پوتے پوتیوں) میں جو مذکر ہو (پوتا) وہ ان میں کے مذکر (بیٹے) کی طرح ہوگا۔ اور ان میں (پوتے پوتیوں) میں جو مونث ہو (پوتی) وہ ان میں کی مونث (بیٹی) کی طرح ہوگی۔ تو جس طرح بیٹے بیٹی میت (اپنے باپ) کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح یہ (پوتے پوتی ) بھی میت (اپنے دادا) کے وارث ہونگے۔ اور جس طرح وہ (بیٹے بیٹیاں ) محجوب کرتے ہیں ویسے ہی پوتے پوتیاں بھی محجوب کرینگے۔ اور بیٹے کے ساتھ اس بیٹے کی اولاد ( بیٹا بیٹی) وارث نہیں ہوگا۔
آں جناب کا ارشاد گرامی ہے:
(
مذکر أولاد کے ہونے پر پوتا ''بمزلہ أولاد'' نہیں ہوتا! اس کا جواب آپ کے پاس ہے نہیں، اور نہ ہو سکتا)
تو آن جناب سے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یتیم پوتے کا باپ اس کے دادا کی مذکر اولاد نہ تھی کہ اس کے نہ رہنے پر یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ بمنزلہ اولاد ہو۔ کیا یتیم پوتے کے باپ کا مذکر ہونا اس کے چچا تائے کے ساتھ مشروط ہے کیا یتیم پوتا اور اس کا باپ یتیم پوتے کے چچا تائے سے پوچھ کر پیدا ہوئے تھے کہ ان کا اولاد و مذکر ہونا چچا تائے سے مشروط ہو۔ اور کیا یتیم پوتا چچا تائے سے پوچھ کر، اجازت لیکر پیدا ہو تھا کہ جب اس کے چچا تائے اس دنیا سے رخصت ہو کر اسے اجازت دینگے تب وہ اپنے دادا کی اولاد، بمنزلہ اولا اور وارث بنے گا؟
ایسے احمق اور جاہل لوگوں کے احمقانہ وجاہلانہ سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ چنانچہ اس کا حکم ہے کہ اس کے مومن بندے سے جب احمق و جاہل لوگ مخاطب ہوتے ہیں تو انہیں سلام کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں اور یہ فارسی کا مقولہ ہے کہ جواب جاہلاں باشد خموشی۔
آپ جیسے جاہلوں اور پاگلوں کے سوال کا کوئی جواب ہوتا ہی نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے ۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جس طرح صدر و نائب صدر اور وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم حکومت کے دو علاحدہ علاحدہ عہدے ہیں اور ان کی اپنی اپنی حدیں و اختیارات ہیں اور کوئی ان سے تجاوز نہیں کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ہم نے تو کہیں یہ نہیں کہا کہ چچا تایا، باپ کی جگہ لے لیتے ہیں! یہ فرضی باتیں کرکے آپ کیوں خلط مبحث فرما رہے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
فرضی و احمقانہ اور جاہلانہ باتیں اور خلط مبحث تو آپ کر رہے ہیں۔ جب آپ خود مانتے ہیں کہ (
چچا تایا، باپ کی جگہ نہیں لیتے ہیں!) تو پھر اس بات کو کیوں نہیں مانتے کہ جب پوتے کا باپ وفات پاگیا ہے تو اس نے اپنے باپ کی جگہ لے لی اور وہ اس کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و بیٹا ہے اسی طرح اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کا دادا اس کے باپ کی جگہ آگیا پس وہ اس کا والد و باپ ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے ۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جس طرح صدر و نائب صدر اور وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم حکومت کے دو علاحدہ علاحدہ عہدے ہیں اور ان کی اپنی اپنی حدیں و اختیارات ہیں اور کوئی ان سے تجاوز نہیں کرتا ہے ٹھیک اسی طرح سے ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ تو عجب کہی! اب آ جس طرح پوتے کو باپ کا قائم مقام قرار دے رہے، ہو تو کیا وہ اپنے باپ کی زوج کے ساتھ بھی اہی اختیار رکھتا ہے، جو اس کا باپ رکھتا تھا؟ ایسی بیوقوفی کی باتیں کرنے سے گریز کریں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ محض بے وقوفی نہیں بلکہ انتہاء درجہ کی بے وقوفی کی باتیں مسلسل کیئے جارہے ہیں اور آپ تو عجیب ہی پاگل آدمی معلوم ہوتے ہیں کہ بات کو سمجھتے نہیں ہیں۔ اور بلا سوچے سمجھے سوال کھڑا کردیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے انتہا درجہ کی بے وقوفی کی بات کہی کہ (
جس طرح پوتے کو باپ کا قائم مقام قرار دے رہے، ہو تو کیا وہ اپنے باپ کی زوج کے ساتھ بھی اہی اختیار رکھتا ہے، جو اس کا باپ رکھتا تھا؟
یہ آپ کے دماغ کے ماؤف ہونے کا ایک بڑا ثبوت و دلیل ہے۔ یہاں بھی آپ نے جہالت و حماقت کی حد کردی ہے کہ پوتے کو آپ اس کے باپ کے درجہ میں نہیں بلکہ اس کے باپ جیسا قرار دے رہے ہیں ۔ تو کیا پوتے کے دادا کو پوتے کے باپ کا قائم مقام کہنے سے یہ لازم آیا کہ وہ پوتے کی ماں کے لیئے حلال ہوگیا جیسے اس کا باپ اس کی ماں کے لیئے حلال تھا۔ اور بقول آپ کے کہ (
کیا وہ اپنے باپ کی زوج کے ساتھ بھی اہی اختیار رکھتا ہے، جو اس کا باپ رکھتا تھا؟)۔ تو کیا دادا اس پوتے کی ماں کے ساتھ وہی اختیار رکھتا ہے جو اس کا باپ رکھتا تھا؟
آپ کو اپنے دماغ کا کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کراکر اچھا سا علاج جلد کرالینا چاہیئے۔ ویسے آپ کی جگہ تو کوئی پاگل خانہ ہی ہے۔ یہ محدث فورم قطعی نہیں ہے۔
میں نے تو یہ کہا ہے : (یتیم پوتے کا باپ، چچا اور تایا یتیم پوتے کے دادا کی علاحدہ علاحدہ شاخیں ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ حدیں ہیں لہذا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ کی جگہ چچا یا تایا آجائے۔ باپ کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں۔ بیٹے بیٹی کے ہوتے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔ اگر اتنی بھی سمجھ کسی کے اندر نہ ہو تو اس کو سمجھانا بیکار ہے۔)
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے احکام میراث بیان کرنے کے بعد فرمایا: (
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)[النساء]) یعنی جملہ احکام فرائض و مواریث اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ۔ تو جو ان کی پاسداری کرے گا اور اللہ و رسول کے احکام و فرامین کو مانے گا ہم اسے ہمیشگی کی جنت میں بھیجیں گے اور جو ان کی نافرمانی اور خلاف ورزی کریگا۔ اور اللہ کی حدوں کو پار کریگا تو اللہ اسے ہمیشہ کے لیئے جہنم میں ڈال دیگا۔
بنا بریں ہر بیٹے بیٹی کی اپنی اپنی حد ہے جو اللہ نے بنائی و قائم کی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی بیٹے کے مرجانے پر باپ اس کی بیوہ سے شادی کر لے۔ یا دادا یا نانا کے مرنے پر یتیم پوتا یا نواسا اپنی دادی یا نانی سے نکاح کرلے۔ پس اگر کوئی پوتا یتیم ہو تو اپنے باپ کی جگہ صرف وہی آئے گا۔ اس کا چچا تایا نہیں آئے گا۔
یہی ہے بمنزلہ اولاد ہونے کا مفہوم کہ جب کوئی بیٹا وفات پاجائے تو اس کا بیٹا اس کی جگہ لیگا۔ تو ہر بیٹا الگ الگ اپنے باپ کی الگ الگ شاخ اور علاحدہ علاحدہ نسل ہے۔پس ہر بیٹے کے بیٹے بیٹیاں اس بیٹے کے نہ رہنے پر بمنزلہ اس بیٹے کے ہونگے ۔ اس میں چچا تائے کا قطعی کوئی دخل نہیں ہے۔ اور اگر چچا تائے کو دخیل مانا جائے تو پھر یہ اللہ کی حدوں کو توڑنا لازم آئے گا جس کا انجام انتہائی خطرناک ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ حد بندی کردی ہے کہ کوئی اپنی ماں، بہن بیٹی بہو، خالہ پھوپھی سے نکاح نہیں کر سکتا ہے تو خواہ ان میں لاکھ خوبیاں ہوں ان سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی ان حدوں کو پار کرتا ہے تو وہ شرعا واجب القتل قرار پاتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اگر اتنی بھی سمجھ کسی کے اندر نہ ہو تو اس کو سمجھانا بیکار ہے۔
تو اس کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اللہ نے بیان فرمایا ہے:
(
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170) وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171) [البقرة]
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
اب آپ نے اپنے کلام کو ''مَا أَنْزَلَ اللَّهُ'' گمان کیا ہوا ہو، تو الگ بات ہے!
الجواب:
أقول:

یہاں بھی آپ نے اپنی جہالت و حماقت کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے اللہ کے حکم و فرمان (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) کو پیش کرکے اس کی پیروی کرنے کو کہا ہے اور آپ ہیں کہ باپ دادا اور بزرگوں کی باتوں کو پیش کرکےہمیں اس کو ماننے کو کہہ رہے ہیں اسی تناظر میں میں نے آپ کے سامنے اللہ کا کلام پیش کیا تو آپ ا س کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے کلام کو منزل من اللہ سمجھے ہوئے ہو۔
*----------------------------------------------*
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔
اس پر ہمارا جواب نقل کرنا چاہا؛
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس کے جواب میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:
مگر ہمارا جواب ادھورا ہی نقل کیا!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے اس پر ہمارے جواب کو بھی آدھا ہی نقل فرمایا! اور جو بات آپ سے کہی گئی، اس کا جواب نہ دینے میں ہی عافیت جانی! ہم نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو یہاں اس حدیث میں میت کی کوئی نرینہ اولاد، مذکر اولاد نظر آرہی ہے۔ اور یہ بات بالتفصیل بیان کی جا چکی ہے، کہ اس حدیث میں پوتی کو وراثت کا حصہ اس صورت ملا کہ دادا یعنی میت کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی! اس کا جواب دینے کہ بجائے آپ ادھر ادھر کی ۔۔۔
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ یہ جو بار بار مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ (
کیا آپ کو یہاں اس حدیث میں میت کی کوئی نرینہ اولاد، مذکر اولاد نظر آرہی ہے۔)
تو میں آں جناب سے پوچھ رہا ہوں کہ میت کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی شرط قرآن کی آیت اور کونسی حدیث میں ہے۔ جسے آپ پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں اور (
نرینہ اولاد، مذکر اولاد) کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی احکام بیان فرمائے ہیں ان سب میں صرف ولد کا لفظ ہی استعمال فرمایا ہے چنانچہ والدین کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: (
إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ) اسی طرح شوہر کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: (إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ) ، اسی طرح بیوی کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: (إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ)، اسی طرح سگے و علاتی بھائی بہن کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: (فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ)، (وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ
تو جناب عالی!
ان آیات میں (
وَلَدٌ) کے جو الفاظ اللہ نے استعمال کیئے ہیں تو کیا وہ صرف (نرینہ اولاد، مذکر اولاد) کے لیئے ہیں جس کی آنجناب رٹ لگائے ہوئے ہیں یا اس میں مونث اولاد بھی داخل ہیں۔ حسب توقع آپ اس کا بھی الٹا ہی جواب دیں جیساکہ آپ کی فطرت ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا جو فتویٰ ہے وہ محض قیاسی ہی ہے۔ قرآن وحدیث کی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
آنجناب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ دادا کو یتیم پوتے پر قیاس کر کے ہی یتیم پوتے کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اور اس بات پر جملہ صحابہ کرام کا اجماع ہوا ہےکہ (الجد اب) یعنی دادا باپ اور والد ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی! اور معلوم ہونا چاہیئے، کہ دادا کے ''اب'' ہونے کا مسئلہ ''قیاسی'' نہیں! بلکہ ''مستدل بالقرآن'' ہے! اور یاد رہے، ''اب''' ہونے کا مسئلہ، نہ کہ ''والد'' ہونے کا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کے بقول (
دادا کے ''اب'' ہونے کا مسئلہ ''قیاسی'' نہیں! بلکہ ''مستدل بالقرآن'' ہے) تو وہ قرآن کی کس آیت سے مستدل ہے پیش کرنا چاہیئے تھا۔ اور جو دلیل دادا کے (اب) ہونے کی ہے وہی دلیل پوتے کے (ابن) ہونے کی بھی ہے۔ واضح رہے کہ دادا اب ہونے کے ساتھ ساتھ والد بھی ہے اور پوتا ابن ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد بھی ہے۔ دادا کو اب اسی لیئے مانا گیا ہے کیونکہ وہ والد بھی ہے اور پوتا بھی ابن اور ولد دونوں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو جب یتیم پوتے کا دادا بالاجماع اس کا باپ و والد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا تو اس کا یتیم پوتا بھی اپنے دادا کا بالاجماع بیٹا وا ولاد، اس کا وارث، اس کے ترکہ کا حقدار حصہ دار ٹھہرا ۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ بھی کمال کرتے ہیں! پہلے دادا کا باپ کے نہ ہونے پر پوتے کا وارث قرار پانے کو قیاس اور پوتے کو دادا باپ کے نہ ہونے پر مقیس علیہ قرار دیتے ہیں، اور پھر اس کے ساتھ ہی قیاس یعنی دادا کا باپ کے نہ ہونے پر پوتے کا وارث قرار پانے کو مقیس علیہ قرار دے دے کر پوتے کو باپ کے نہ ہونے پر قیاس کرتے ہیں! یعنی پہلے جسے مقیس علیہ بنا کر جو قیاس تھا، اسی قیاس کو پھر مقیس علیہ بنا رہے ہیں! اور قیاسی مسئلہ کا الزام ہم پر لگاتے ہیں، کہ پوتے کا دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد ہونے پر وراثت میں حقدار قرار نہ ہونا، قیاسی مسئلہ ہے!
الجواب:
أقول:

کمال تو آپ کر رہے ہیں کہ ایک طرف دادا کو والد و باپ مان کر پوتے کا وارث قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسی پوتے کو اس کے اسی دادا کی نہ تو اولاد و بیٹا مانتے ہیں اور نہ ہی وارث مانتے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اللہ کا فرمان ہے(مالکم کیف تحکمون) کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے کیسے فتوے دیتے اور حکم لگاتے ہو۔ (القرآن)
یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک طرف دادا تو اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ و والد اور وارث ہواور اس کے ترکہ کاحقدار و حصہ دار بنے۔ ان دونوں کے درمیان چچا تائے حاجب اور رکاوٹ نہ بنیں اور جب پوتے کا معاملہ ہو چچا تائے آڑے آجائیں اور حاجب بن جائیں۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کے اٹکل بچو ہیں، قرآن وحدیث سے اس پر کوئی دلیل نہیں! بلکہ اس کے برعکس کا اثبات قرآن و حدیچ سے کیا جا چکا ہے، اور ایک بار پھر تفصیل ذکر کیا جائے گا، ان شاء اللہ!
الجواب:
أقول:

تو جناب من!
گویا آپ کے نزدیک دادا اپنے پوتے کا وارث نہیں اور اس کا اپنے دادا کا والد و باپ ہونا اٹکل پچو ہے اس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں نہیں ہے؟ تو چونکہ آپ کا کوئی مخصوص قرآن و حدیث ہے جس میں یہ باتیں نہیں ہیں اس لیئے یہ اٹکل پچو ہے؟

*----------------------------------------------*
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
واہ یہ بڑی عادلانہ و منصفانہ بات ہے۔ دادا کا مال اس کے پوتے پر اس کے زندہ رہنے تک تو حلال تھا اور جیسے ہی دادا مرا اس کا مال اس کے پوتے پر حرام ہوگیا۔ جرم خود کا الزام اللہ کے اوپرکہ اللہ نے تو پوتے کا حق رکھا ہی نہیں ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے شاید اپنے اٹکل بچو کو شریعت گمان کر لیا ہے! میرے بھائی! پڑوسی بھی اگر اس کی زندگی میں اپنا مال اس ''دادا کے پوتے'' پر خرچ کرے، تو وہ بھی حلال ہے، اب پوتا پڑوسی کے مرنے کے بعد دعوی کر دے کہ اس کی زندگی میں اس کا مال مجھ پر حلال تھا، لہٰذا اس کی وراثت میں مجھے بھی حصہ دو، میں بھی حقدار و حصہ دار ہوں، تو فوت شدہ پڑوسی کے ورثا کا حق ہے، کہ اس ''پوتے'' کو جوتے رسید کریں!
الجواب:
أقول:

آپ کو الفاظ درست سے نہیں آتے ہی پھر بھی بحث کیئے جا رہے ہیں۔ میرے بھائی (اٹکل بچو) نہیں ہوتا ہے بلکہ (اٹکل پچو) ہوتا ہے پہلے اپنی اردو تو درست کر لیجئے پھر بحث کیجئے۔
تو کیا یتیم پوتا اپنے دادا کا پڑوسی تھا جو اس کی زندگی میں اس کا مال اس کے پوتے پر حلال تھا۔ آپ عجیب احمقانہ باتیں کرتے ہیں۔ کچھ تو عقل کی بات کرلیا کریں یہاں مسئلہ دادا پوتے یعنی والد اولاد، باپ بیٹے کے مابین حق و حصہ ہونے کا ہے اور آپ حوالہ پڑوسی کا دے رہے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں کہاں کا تیر کہاں کا تکا۔ پوتے پر اس کے دادا کے مال کے حلال ہونے کی بات بحیثیت والد و اولاد کے کی جا رہی ہے۔ اور آپ ہیں کہ پڑوسی سے اس کی مثال دے رہے ہیں۔ یتیم پوتے کے حق کے انکار میں آپ نے اپنی عقل و خرد اور ہوش و حواس سب کچھ کھودیا ہے۔ آم کا جواب املی نہیں ہوتا ہے بیگن کا جواب آلو سے نہیں دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ دادا پوتے کے مابین حق و حصہ ہونے کا ہے اور وہ ایک دوسرے کے والد و اولاد ہیں یہ بات آپ کو سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے اور آپ پڑوسی سے اس کی مثال دے رہے ہیں۔ تو کیا یتیم پوتی اپنے دادا کی پڑوسن تھی جو اس کو اس فریضے (فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے حصہ ملا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
جناب من!
پوتے یا پوتیاں یتیم یا غیر یتیم اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہوتے ہیں قریبی یا پڑوسی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ بات تو آپ کو سمجھ میں آ نہیں رہی ہے البتہ الٹی پلٹی باتیں خوب سمجھ میں آتی ہیں۔ پڑوسی کی مثال تو سمجھ میں آگئی لیکن اللہ کا مذکورہ بالا بیان سمجھ میں نہیں آیا ۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اللہ نے یتیم پوتے کو اس کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اس کے چچا تائے کے واسطے سے پیدا نہیں کیا کہ وہ اس کے آڑے آئے اور اسے اس کے باپ اور دادا کی اولاد بنایا چچا تائے کی اولاد نہیں بنایا
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
صرف ''یتیم پوتے'' کو؟ یہ واسطہ تو ہر پوتے کے ساتھ ہے، خواہ وہ یتیم ہو یا نہ ہو! اس کا باپ حیات ہو یا نہ ہو!
الجواب:
صرف یتیم پوتے کو نہیں ۔ بلکہ ہر پوتا خواہ وہ یتیم ہو یا آپ کی نظر میں وہ یتیم نہ ہو۔ اس کا باپ باحیات ہو یا وفات پا چکا ہو۔ وہ مالدار ہو یا غریب فقیر مسکین ہو بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ سبھی اپنے دادا کی اولاد ہیں اور سب کو حصہ ملتا ہے سوائے اس یتیم پوتے کے جس کا باپ اپنے باپ یعنی پوتے کے دادا کے جیتے جی وفات پاجاتا ہے۔ تو بطور مثال یتیم پوتے کے دادا کے تین بیٹے جن میں سے ایک بیٹے کے پانچ بیٹے ہوں اور وہ اپنے باپ کی زندگی میں ہی وفات پاگیا ہو۔ اور ایک دوسرا بیٹا ہے جس کے کوئی بیٹا نہیں اور وہ بھی اپنے باپ کی زندگی میں وفات پاجاتا ہے۔ اب باقی بچتا ہے ایک تیسرا بیٹا جس کے دو بیٹے ہیں اور وہ اپنے باپ کی وفات کے بعد وفات پاتا ہے ۔ ایسی صورت میں آپ کی خود ساختہ شریعت کہتی ہے کہ اس بیٹے کے دو بیٹے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد وفات پاتا ہے۔ اپنے دادا کی اولاد ہیں اور وہ پانچ پوتے جن کا باپ اپنے باپ یعنی ان کے دادا کی زندگی میں وفات پاگیا تھا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے نہیں ہیں اس جرم میں کہ ان کا باپ اپنے باپ کے مرنے سے پہلے کیوں مرگیا۔ چنانچہ آپ کی خود ساختہ شریعت کہتی ہے کہ ان دو پوتوں کو جن کا باپ اپنے باپ کی زندگی میں نہیں مرا بلکہ مرنے کے بعد مرا ہے۔ ان کے دادا کا پورا مال دیا جائے گا۔ اور ان پانچ پوتوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا کیونکہ وہ اس بات کے مجرم ہیں کہ ان کا باپ اپنے باپ کے جیتے جی کیوں مرگیا اس کے مرنے کے بعد کیوں نہیں مرا اگر مرنے کے بعد مرتا تو اس کی اولاد میں سے ہوتے اور ان کا بھی حق و حصہ نکلتا۔ اب جب کہ اس سے پہلے ہی مرگیا تو اب اولاد نہیں رہے۔ تو اگر میت نے دس لاکھ روپے چھوڑے ہوں تو یہ دونوں پوتے پانچ پانچ لاکھ لے لیں گے اور یہ پانچ پوتے منھ تکتے رہ جائیں گے۔ یہ آپ کی خانہ ساز شریعت کہتی ہے۔
جب کہ اللہ کی شریعت کے مطابق جیسا کہ زید بن ثابت نے کہا ہے
(وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ)کہ بیٹوں کی اولاد بھی اولاد ہیں یعنی بیٹے کا بیٹا بھی بیٹا ہے جب وہ بیٹا نہ ہو جو ان کا باپ ہے۔
جیسا کہ امام بخاری نے باب باندھا ہے:
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ) یعنی جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔
تو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ان پانچ پوتوں کو پانچ لاکھ ملے گا جو ان پانچوں پوتوں میں تقسیم ہوگا اور سب کو ایک ایک لاکھ مل جائے گا اور جن پوتوں کا باپ اپنے باپ کی یعنی ان کے دادا کی زندگی میں زندہ رہا اسے پانچ لاکھ ملے گا جو اس کی میراث و ترکہ میں شامل ہوکر انہیں مل جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جس وقت یہ بیٹا جو کہ اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ تھا اس وقت اس کے دو بیٹے تھے مرتے وقت تک پانچ بیٹے ہو جائیں ۔ تو جو پانچ لاکھ اسے ملے تھے اس کے پانچ بیٹوں میں تقسیم ہو جائے۔ اور جتنے بھی پوتے ہیں سب کا حصہ برابر ہو جائے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے میت کے تینوں بیٹے مر گئے ہوں اور اس کے یہ دس پوتے ہی زندہ ہوں تو سب کو ایک ایک لاکھ ملے گا۔
تو اب کوئی بتائے کہ اللہ کی شریعت میں انصاف ہے یا پھر خود ساختہ شریعت میں انصاف ہوتا ہے؟۔ (فافہم و تدبر)
ان یتیم پوتوں کا آخر جرم کیا ہے کہ انہیں ان کے دادا کی میراث اور ترکہ سے چچا تائے کے ہوتے محروم کیا جائے کیا ان کا یتیم ہونا جرم ہے یا اس کے باپ کا اس کے دادا سے پہلے مرجانا جرم ہے؟
اب ذرا کوئی بتائے کہ اللہ ظالم ہے یا لوگ ظلم کرتے ہیں؟۔ ہم عرض کریں گے تو شکایت و حماقت اور جہالت ہوگی؟ جو لوگ قرآن وحدیث اور اللہ کے دین و شریعت کو صحیح طور سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث فہمی اور ہدایت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے جواب دیں اگر یہاں نہیں دیا تو اللہ کے سامنے بروز قیامت تو ضرور بالضرور جواب دینا ہی ہوگا۔ اس سے بچ کر اور بھاگ کر کہاں جائیں گے جو اللہ کو ظالم ٹھہراتے ہیں اور اللہ و رسول کے کلام کو جھوٹا بتلاتے ہیں۔
اس تحریر کے تناظر میں جو یہ کہتا ہے کہ: (
اور آپ اللہ پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں! آپ کے بقول ''أولاد'' ہمیشہ ''حقیقی'' ہوتی ہے، لہذا آپ کا یہ کہنا کہ اللہ نے پوتے کو دادا کی ''أولاد'' یعنی ''حقیقی أولاد'' بنایا، یہ اللہ سبحان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ ہے!) وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور بے ایمان شخص ہے۔
تو اب وہ بتائے کہ اللہ پر کون جھوٹ باندھ رہا ہے۔ میں یا آپ؟
اگر آپ کے بقول دادا حقیقی والد نہیں اور اس کا پوتا اس کا حقیقی بیٹا اور اولاد میں سے نہیں ہے تو آپ اپنے دادا کی منکوحہ دادی یا مطلقہ دادی یا متوفی عنہا زوجہا دادی سے شادی رچا لیں اور سیدھا مر کر جنت میں چلا جائیں کیونکہ بقول آپ کے چونکہ دادا حقیقی والد و باپ نہیں ہے لہذا آپ کی دادی آپ پر حرام نہیں ہے آپ کو ایسی شادی مبارک ہو ۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
چنانچہ خود فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ) [سورة النحل: 72]
ہم نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے بیٹے پوتے نواسے پیدا کئے اور تمہیں بہترین روزی عطا کی تو کیا تم باطل پر ایمان و یقین رکھتے ہو اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔
اولاد اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بیٹے کے بعد پوتے کا ہونا اس سے بھی بڑی نعمت ہے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحاق کے بعد پوتے یعقوب کی خوش خبری دی تھی اور اسے نافلہ یعنی خصوصی اور اضافی انعام کہا تھا۔ تو جس طرح بیٹا اللہ کی نعمت ہے اسی طرح پوتا بھی اللہ کا انعام ہے تو جس شخص کے پوتے ہوں وہ بڑا خوش قسمت انسان ہے اسے اللہ کے اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اسے اس کا حق دیکر صلہ رحمی کرنی چاہئے اسے محجوب و محروم الارث قرار دیکر قطع رحمی نہیں کرنی چاہئے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
بات اگر صلہ رحمہ کی ہے، تو صرف ''یتیم پوتے پوتیا'' کیوں! کیا ان پوتے پوتیاں کو محجوب و محروم الإرث قرار دے کر قطع رحمی کرنے کا حکم ہے، جن کے والد حیات ہوں! یہ جذباتی نعرے بازی ہے! اب آپ خود ان پوتے پوتیوں کو محجوب و محروم الإرث قرار دیتے ہیں، تو کیا آپ ان سے قطع رحمی کرنے کو اللہ کا حکم ثابت کرتے ہیں؟
الجواب:
أقول:

اگر آپ کے پاس ذرا سی بھی عقل اور سمجھ ہوتی تو آپ ایسی باتیں کبھی نہ کرتے ۔ بات صلہ رحمی کی نہیں ہو رہی ہے ۔ میں نے صلہ رحمی کی بات ہی نہیں کی ہے۔ میں تو یتیم پوتے کے حق اور حصہ کی بات کر رہا ہوں اور میں تو یہ کہہ رہاہوں کہ یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں بطور ایک بیٹے کے بمنزلہ اولاد ہونے کے حق و حصہ ہے۔ محجوب و محروم الارث تو صرف یتیم پوتا ہی ہوتا ہے اور جن پوتوں کے باپ زندہ ہوتے ہیں انہیں تو ان کے باپ کے واسطوں سے حق و حصہ ملتا ہی ہے وہ کہاں محروم ہوتے ہیں انہیں تو دادا کے ترکہ سے حصہ ملتا ہےبراہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ملتا ہے البتہ وہ محجوب ضرور ہوتے ہیں لیکن محروم الارث نہیں ہوتے ہیں۔ جبکہ یتیم پوتا جو کہ نہ تو محجوب ہی ہے اور نہ ہی محروم الارث ہے انہیں زور زبردستی محجوب قرار دیکر محروم الارث کردیا جاتا ہے جو سراسر ظلم، کھلی ہوئی ناانصافی ہے اور اللہ و رسول کی شریعت سے بغاوت ہے۔ اللہ کی شریعت اس سے بری ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ (سورة النساء: 11)) اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے ایسی ہی بکواسوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ)
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ بحث تفصیل سے گزری کہ ''أَوْلَادِكُمْ'' میں پوتے پوتیاں شامل نہیں! اور یہ بتلائیے! اب آپ ''ہانکنے'' سے ''بکواس'' پر آگئے ہیں! اور پھر جب ہم آپ کی ''بکواسیات'' کو ''بکواسیات'' کہیں گے، تو آپ کو منافق کی علامت نظر آئے گی!
الجواب:
جو بات اللہ و رسول کے احکام و فرامین کے خلاف ہو اور خود ساختہ شریعت ہو اسے گپ بازی ، ہانکنے اور بکواس کے علاوہ کہا ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں تو ان جیسے الفاظ سے قطعی طور پر گریزاں تھا لیکن آپ نے جب مجھے جاہل، احمق، گمراہ، کج فہم وغیرہ قرار دے دیا اور مجھے منکرین حدیث، مرزائیوں سے جوڑ دیا ہے تو اب میں بھی ان الفاظ کے استعمال پر مجبور ہوگیا ہوں۔ اور مقولہ ہے کہ (البادی ہو الظالم) ابتداء کرنے والا ہی ظالم ہوتا ہے۔
میں تو اللہ کے فرمان:
(وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا) (سورة النساء: 127) یعنی یتیموں کے حق میں عدل و انصاف کرو کے مطابق ہی یتیم پوتے کا نعرہ لگا رہا ہوں جو آپ کو گوارا نہیں ہے اس لئے آپ مجھے ان خطابات سے نوازے جا رہے ہیں۔ اور ایک علمی بحث کو جو محض سمجھنے سمجھانے کی غرض سے تھی اسے ذاتی مسئلہ بناکر فرمان رسول: (وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ) (خ: 34) کا مصداق بن بیٹھے ہیں۔اگر آپ اسے علمی بحث ہی رہنے دیتے تو بہتر رہا ہوتا۔ لیکن آپ نے ایسا نہ کر کے ابتداء ہی سے مجھے جاہل، احمق، گمراہ،کج فہم اور نہ جانے کیا کیا قرار دے ڈالا۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سب سے بڑی گستاخی یہ کی کہ مجھے منکرین حدیث، مرزائی و قادیانی جیسے کفار سے جوڑ دیا اور یہی کام کفایت اللہ سنابلی نے بھی کیا اور انتہائی سفیہانہ انداز میں گفتگو شروع کردی جو اہل علم کی شان کے منافی ہے ۔
میں اللہ و رسول کی بات کر رہا ہوں اور قرآن و حدیث پیش کر رہاہوں اور آپ لوگ مجھے جاہل گمراہ کج فہم احمق جیسے خطابات سے نوازے جا رہے ہیں۔ اور مجھے منکرین حدیث، مرزائیوں اور قادیانیوں سے جوڑ کر گفتگو کر رہے ہیں اور مسلسل یہی انداز اختیار کیئے ہوئے ہیں ۔
میں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہاہوں کہ قرآں و حدیث کے دلائل اور اصول فرائض کی روشنی میں ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں قطعی طور پر محجوب و محروم الارث ہے اور میں یہ بات قرآن و حدیث اور اصول فرائض کے دلائل کی روشنی میں پورے وثوق اور دعوے کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اور آپ سے اور علمائے اہل حدیث سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہوں کہ وہ کون سی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ نہیں ہو سکتا ہے؟
اگر کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کیجیئے اور ادھر ادھر کی باتیں کریں گے تو اسے بکواس اور گپ بازی کے دوسرا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

*----------------------------------------------*
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
(وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ) (16) (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ) (17) (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ) (18) (اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ) (19) (مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ) (20) (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (21) (تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور کسی حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے تو حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:
(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
ہم بھی آپ کو نصیحت کرتے ہیں، کہ قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز آجائیں، اور اللہ کے حضور توبہ کریں! الفاظ کے کو اپنے خود ساختی معنی ومفہوم پہنا کر قرآن وحدیث پر منطبق کرنے سے باز آجائیں، اور قرآن وھدیث کو اپنی خواہشات کے موافق ڈھالنے سے گریز فرمائیں! اور اپنی خواہش کے موافق کسی ایسے شخص کو وارثت کا حقدار قرار دے کر قرآن وحدیث میں وارد احکامات و شریعت میں تبدیلی کرنے کوشش نہ کریں! اور کوئی ایک بھی آپ کی وجہ سے گمراہ ہوا، تو اس کاوبال بھی آپ کے سر ہی آئے گا!
الجواب:
أقول:

یہ نصیحت تو میں آپ اور آپ جیسے لوگوں کو کر رہا ہوں کہ جو چیز نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی حدیث میں ہی ہے بلکہ بنیادی طور پر یکسر من گھڑت اور بے بنیاد ہے تو اس کو شریعت ثابت کرنے اور صحیح و درست ٹھہرانے کی خاطر قرآن وحدیث میں تحریف کرنے اور کھلواڑ کرنے سے باز رہیں اور ناحق بلا دلیل یتیم پوتے کو زور زبردستی سے آیات و احادیث میں تحریف کر کے من گھڑت شرط عائد کر کے خود ساختہ مفہوم نکال کر نا حق محجوب و محروم الارث قرار دینے کی جرات نہ کریں ورنہ آخرت میں کوئی بچانیوالا نہ ہوگا۔ اور جتنے بھی یتیم پوتے اس خود ساختہ، من گھڑت حکم کے چلتے اپنے دادا کے ترکہ سے محروم ہوئے یا آئندہ ہونگے اور ان کو نقصان پہنچے گا سب کا وبال آپ اور آپ جیسے لوگوں پر ہوگا جس کی سزا ہمیشہ کے لیئے جہنم کی دائمی آگ ہے۔
لہذا میں ایک بار پھر ان آیات کو پیش کر کے کہوں گا کہ آپ ان آیات پر غور کریں اور اللہ سے ان یتیم پوتوں کے بارے میں ڈریں۔
ذرا درج ذیل آیات کو تنہائی میں بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ پڑھئے گا اور جو اللہ و رسول نے کہا ہے اس پر غور کیجئے گا۔ بقول شاعر: شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

(وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ) (16) (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ) (17) (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ) (18) (اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ) (19) (مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ) (20) (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (21) (تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ) (22) [الشورى]
میرے بھائی سب سے پہلے اللہ کا ڈر اور خوف پیدا کیجئےاور اللہ اور یوم آخرت سے ڈریئے۔ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے کہ الفاظ و معانی کے ہیر پھیر سے کوئی غلط چیز صحیح بنا لی جائے تو وہ صحیح ہوجائے گی۔ یہ فرائض و مواریث، حدود اللہ اور حلال و حرام کا معاملہ ہے اور کسی حلال کو حرام کردیا جائے اور حرام کو حلال ٹھہرا لیا جائے تو حلال حرام اور حرام حلال نہیں ہو جائے گا۔ لہذا یتیم پوتے کے حق و حصہ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور انتہائی خطرناک ہے اگر آپ کی ذات سے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو ا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے متنبہ کر کھا ہے:
(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (النساء: 9)
جو لوگ صاحب اولاد ہوں وہ اپنی اولاد کو سامنے رکھ کر ان یتیم پوتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں کہ اگر ان بچوں کی جگہ ان کے اپنے بچے ہوتے تو ان کا موقف آخر کیا ہوتا۔ پس اللہ سے ڈریں اور حق و انصاف پر مبنی صحیح و درست بات کریں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے یتیم پوتے کے حق وراثت کی شدید مخالفت کی تھی اور انہوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ دیا تھا
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کی دوہری غلط فہمی ہے، کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ''ہی'' '' یتیم'' پوتے کے دادا کی وراثت میں حقدار نہ ہونے کا فتوی دیا! اول تو مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی دادا کی وراثت میں پوتے کی وراثت کے حقدار نہ ہونے کا فتوی دیا، خواہ پوتے باپ حیات ہو، یا نہ ہو، اور خواہ پوتے یتیم ہو یا نہ ہو! دوم کہ یہ فتوی ثناء اللہ امرتسری نے ''ہی'' نہیں دیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثناء اللہ امرتسری تک، اور اس کے بعد سے آج تک یہی فتوی دیا جا رہا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من آپ سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ آپ نے اس فتویٰ کو جو اللہ کے رسول کی طرف منسوب کیا ہے اس کا سلسلہ سند پیش کیجئے۔ نیز (دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی دادا کی وراثت میں پوتے کی وراثت کے حقدار نہ ہونے) کی جو شرط آپ نے لگائی ہوئی ہے اور اس کی رٹ بلگائے جا رہے ہیں اس کی دلیل اور ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیجئے۔ مولانا امرتسری یہ فتویٰ دیکر اپنا انجام اس دنیا ہی میں دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ آپ اپنی باری کا انتظار کیجئے۔ اور اپنے اس جھوٹ کا انجام ان شاء اللہ ضرور بالضرور اس دنیا سے دیکھ کر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول پر جھوٹ بولنے والوں کو چھوڑتا نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور منکر حدیث حافظ اسلم جیراجپوری (جو کہ اہل حدیث تھے لیکن بعد میں شاید اسی یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر انکار حدیث کیا)، نے یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا انکار کیا (اس وقت جب کہ انہوں نے ابھی انکار حدیث نہیں کیا تھا) تو امرتسری صاحب نے اس کا رد کیا ۔ اور آپ ہوں یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی سب لوگ انہیں امرتسری صاحب کی ہی تقلید کر رہے ہیں اور انہیں کی سر میں سر ملا رہے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
عجیب بیوقوف آدمی ہیں آپ! آپ تو ایسے فرما رہے ہیں، کہ جیسے ثناء اللہ امرتسری پہلے شخص ہیں جس نے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی، میں پوتے کو ورثت کا حقدار نہ سمجھا ہو، اور اس سے قبل تو ہر ایک عالم و فقیہ امت نے اس کے برخلاف کہا ہو! ہم میں سے یہاں کسی نے بھی مولانا ثناء اللہ امرتسری کا نہ نام لیا، نہ ان کے حوالہ سے کوئی بات کی! اور آپ کے دماغ میں نجانے کیا آئی کہ ہمیں ثناء اللہ امرتسری کی تقلید کا الزام دے دیا! ویسے ہم پر تقلید کا ایسا بیوقوفانہ الزام مقلدین ضرور لگاتے رہتے ہیں! ممکن ہے آپ نے انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ بیوقوفانہ حرکت کی ہو!
الجواب:
أقول:

جناب من!
بیوقوف تو آپ ہیں جو اس بات سے ناواقف ہیں کہ مولانا امرتسری پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے جریدہ اہلحدیث میں باقاعدہ یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کا فتویٰ شائع کیا تھا ۔ اور ان ہی کے اس فتوے کو لیکر اس کے بعد کے لوگوں نے دلیل و ثبوت کے طور پر پیش کر کے یہ کہا کہ یتیم پوتا کسی بھی بیٹے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دکھادیا کہ لو دیکھو ہم تمہارے سارے بیٹوں کو ہی ختم کردیتے ہیں تاکہ تم نے جو یہ کہا ہے کہ کوئی بھی بیٹا زندہ نہ رہے تب پوتے وارث ہونگے تو ہم یہ قصہ ہی تمام کیئے دیتے ہیں۔ اور تمہارے پوتوں ہی کو تمہارا وارث بنا دیتے ہیں۔ اب آپ اور آپ جیسے لوگ بغیر سوچے سمجھےاس فتوے پر آنکھ بند کرکے آمنا و صدقنا کہے ہوئے ہیں۔ اور اسی کی وکالت کر رہے ہیں۔ اگر ان کا نام نہیں لیا تو کیا ہوا ان کی کہی ہوئی باتوں کو ہی تو آپ آنکھ بند کرکے مان رہے ہیں اور وہی ساری باتیں آپ نقل بھی کر رہے ہیں جو وہ کہہ گئے ہیں تو اگر یہ تقلید نہیں تو پھر تقلید کس چیز کا نام ہے۔ اور آپ نے اس پوری بحث میں جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ مقلدین ہی کا تو طریقہ ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جبکہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تقسیم ہندو پاک میں ان کے تمام بیٹے مار دیئے گئے اور ان کے یتیم پوتے ہی ان کے اموال املاک متروکہ کے وارث بنے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ایسی صورت میں کہ جب میت کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو، پوتا وارث قرار پاتا ہے! اس میں تو کوئی غیرشرعی بات نہیں!
الجواب:
أقول:

(میت کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہونا) قطعی کوئی شرط نہیں ہے۔ نہ تو اس کی کوئی دلیل قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں ہی ہے۔ اور بفرمان رسول جو شرط اللہ کی کتاب میں نہیں وہ یکسر باطل و مردود ہے۔ اور جو حکم بلا دلیل شرعی ہو وہ غیر شرعی ہوا کرتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بطور عبرت کے میں یہ باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ یا کفایت اللہ صاحب ہوں یا اور کوئی بھی اللہ سے ڈریں ان یتیم پوتوں کے بارے میں اور اس حادثہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ (فاعتبروا یا اولی الابصار)
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس میں ''عبرت'' والی کون سی بات ہے! یہ تو اللہ کی منشاء ہے، کسے کب موت دے! اور جس بات سے عبرت حاصل کرنا چاہیئے، اور جو واقعتاً مقام عبرت ہے، کہ آپ کو ڈرنا چاہیئے، کہ آپ بھی اسلم جیراجپوری کی طرح انکار حدیث کے فتنہ میں بھی نہ پڑ جائیں! جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے، کہ اسلم جیراجپوری نے شاید اسی مسئلہ کی وجہ سے انکار حدیث کیا! یہاں ایک نکتہ اور سمجھنے والا ہے! کہ اسلم جیراجپوری بھی قرآن حدیث سے اس مسئلہ کو ثابت نہ کرسکا، کیوںکہ حدیث قرآن کو وہ معنی پہنانے میں حائل ہوتی ہے، جو اسلم جیراجپوری قرآن کو پہنانا چاہتا تھا، اس لئے اسے قرآن کو اپنی خواہشات کے موافق ڈھالنے کے لئے، احادیث کا انکار کرنا پڑا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
اسلم جیراجپوری نے تو صرف حدیث کا انکار کیا تھا اور وہ بھی بہت بعد میں۔ آپ ہیں کہ قرآن وحدیث سب کا انکار کیئے بیٹھے ہیں۔ جس وقت انہوں نے اس مسئلہ پر قلم اٹھایا تھا وہ اس وقت اہل حدیث ہی تھے اور انہوں نے قرآن و حدیث سے ہی بحث کی تھی ۔ ان کی ساری تحریریں آج بھی موجود ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اس مسئلہ کو غلط قرار دیا تھا جب ان سے سوال کیا گیا تھا، اور یہ بات کہی تھی کہ جو لوگ یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دیتے ہیں ان کی نظر صرف ایک علت کی طرف گئی ہے اور تمام علل و اصول جو اس باب میں ثابت و معلوم ہیں نظر انداز کردیئے گئے ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ محجوب کی اولاد کو بھی حصہ ملنا چاہیئے۔ (دیکھئے: مکتوب مورخہ ۲۷/ فروری/ ۱۹۳۶ ء) (افکار: ص: ۱۷۲)
اب آپ انہیں بھی (
کم علم، کج فہم، جاہل اور بیوقوف، انتہائی بد تمیز انسان اور بکواسی) کہئے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

دادا کے مرتے ہی اس کے یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو کس نے حرام کیا جب کہ اس کی زندگی میں وہ اس کے لئے حلال تھا۔ اللہ نے یا جن کی تقلید میں آپ یہ لمبی چوڑی ہانکے جا رہے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ویسے ایک بات تو واضح ہو گئے ہے، کہ اپ کم علم، کج فہم، جاہل اور بیوقوف ہی، نہیں انتہائی بد تمیز انسان بھی ہیں! آپ کے حواس پر اپنی بکواسیات کا اتنا اثر ہو چکا ہے، کہ آپ کو اپنی بکواسیات کے علاوہ سب ''ہانکی'' ہوئی لگتی ہے! دادا کے مرتے ہی ''یتیم'' پوتے پر اس کے دادا کے مال کو اسی نے ''حرام'' کیا، جس نے دادا کے مرتے ہی، دادا کے ''غیر یتیم'' پوتوں، اور ان پوتوں پر کہ جن کے والد حیات ہیں، ''حرام'' کیا! یعنی اللہ تعالیٰ نے! جیسے دادا کے ''یتیم'' پوتے پر پڑوسی کے مرتے ہی، پڑوسی کا مال اللہ نے اس پر حرام کیا ہے! یہ بات اوپر بیان کی جا چکی ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کی اب تک کی تحریر سے تو آپ ان صفات (
کم علم، کج فہم، جاہل اور بیوقوف ہی، نہیں انتہائی بد تمیز انسان بھی ہیں! آپ کے حواس پر اپنی بکواسیات) کے حامل نظر آرہے ہیں۔ جیسا کہ ابھی آپ نے ان الفاظ کا استعمال کیا جو ابتک کرتے چلے آئے ہیں جس کے چلتے مجھے بھی بادل ناخواستہ مجبورا ان الفاظ کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔
دادا کا مال نہ تو اس کے بیٹے بیٹیوں پر حرام ہے اور نہ ہی اسکے پوتے پوتیوں پر حرام ہے خواہ وہ یتیم ہوں یا غیر یتیم ۔ یہ تو آپ جیسے احمق، جاہل اور بے ایمان لوگ ہیں جو یتیم پوتے پر اس کے دادا کے مال کو حرام قرار دے رہے ہیں اور آپ کی جہالت و حماقت کی انتہا کا عالم یہ ہے کہ دادا پوتے کے مابین معاملے کو آ پ پڑوسی سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اور موازنہ کر رہے ہیں جیسے دادا پوتے کے مابین معاملے کو پوتے کے باپ کے بجائے اس کے چچا تائے سے جوڑ کر دیکھا پھر یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث فتویٰ جڑ دیا۔ جو کہ محض آپ کی
کم علمى، کج فہمى، جہالت اور بیوقوفى ہی، نہیں بلکہ انتہاء درجہ بد تمیزی اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں سے کھلا ہوا تجاوز ہے! اور آپ کے حواس پر اس کے حق اور سچ ہونے کا خبط اس درجہ سوار ہے کہ جس کے چلتے آپ محض اپنی بکواسیات ہی کیئے جارہے ہیں ۔
اور آپ نے اپنی بد تمیزی کا ایک نمونہ ابھی پیش کیا ہے جو آپ کی اس تحریر میں موجود ہے جیسا کہ آنجناب حافظ اسلم جیراجپوری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں : (
اسلم جیراجپوری بھی قرآن حدیث سے اس مسئلہ کو ثابت نہ کرسکا، کیوںکہ حدیث قرآن کو وہ معنی پہنانے میں حائل ہوتی ہے، جو اسلم جیراجپوری قرآن کو پہنانا چاہتا تھا)
اور آپ نے میرے بارے میں بھی اسی جیسے الفاظ استعمال کیئے اور برابر استعمال کیئے جا رہے ہیں۔ اور یہ سارے الفاظ مولانا امرتسری کے چلتے کیا ہے کیونکہ میں نے ان کے حوالے سے چند باتیں کی تھیں جب کہ مولانا امرتسری وہ شخص ہیں کہ ان کے عقائد کے چلتے باقاعدہ سعودیہ کی اعلیٰ شرعی عدالت سے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا جا چکا ہے۔
اسلم جیراجپوری جیسے بھی رہے ہوں ان کا جو بھی عقیدہ و مذہب رہا ہو ہمیں ان سے کچھ لینا دینانہیں ہےلیکن بہر حال وہ ایک صاحب قلم عالم تھے اور حافظ قرآن تھے اور آج بھی ان کی کتاب تاریخ ملت اہل حدیث مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اور ان کے والد ایک اہل حدیث عالم تھے۔ تو کم از کم ان کا نام ادب و احترام سے نہ سہی لیکن اس درجہ بدتمیزی سے لینا اہلحدیث کا طریقہ ہر گز نہیں۔ انہوں نے جو کیا ان کا عمل ان کے ساتھ چلا گیا اب وہ جانیں اور اللہ جانے۔ لیکن آپ نے جو کیا تو ایک بات اس سے بالکل صاف ہو گئی کہ آپ یقینا اپنے قول کے مطابق انتہا درجہ کے بدتمیز ضرور ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جو لوگ یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اندر ذرا بھی اللہ کا ڈر اور خوف نہیں ہے وہ محض لفاظیاں کرکے اور اپنی کٹھ حجتی کے ذریعہ الفاظ کی ہیرا پھیری سے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
معاملہ اس کے برعکس ہے، کہ جو اپنی خواہشات کی بنا پر قرآن وحدیث کے اس حکم کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کہ پوتے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی میں حق وراثت نہیں رکھتے، وہ الفاظ کو خود ساختہ معنی پہنا کر کٹھ حجتی کرتے ہیں، اور اللہ کے خوف سے عاری معلوم ہوتے ہیں! کہ ان میں اللہ کا ڈر ہوتا، تو وہ قرآن وحدیث کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کرنے سے باز رہتے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
قرآن و حدیث کے ساتھ کھلواڑ اور من مانی تو وہ لوگ کر رہے ہیں جو زور زبردستی سے بلا دلیل قرآن و حدیث ایک خود ساختہ شرط کے چلتے یتیم پوتے کو بالجبر محجوب و محروم الارث ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں ہی ہے۔ اور ایسا محض اس لیئے کہ انہیں آخرت میں جوابدہی کا خوف نہیں ہے۔
اور ان کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ (
پوتے دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی میں حق وراثت نہیں رکھتے) جب کہ نرینہ اولاد ہونے کی شرط نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی کسی حدیث میں ہے۔ جبکہ صحیح بخاری کے اندر صاف لکھا ہوا ہے کہ یتیم پوتا وارث ہے جب اس کا باپ نہ ہو جیسا کہ صحیح بخاری کا باب ہے۔
((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))
وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح للبخاري، لمؤلفه: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)]
امام بخاری یتیم پوتے کے وارث ہونے کا باب باندھتے ہوئے لکھتے ہیں:
پوتے کی میراث کا بیان جب پوتے کا باپ نہ ہو۔
اور اس باب کے تحت زید بن ثابت کا یہ قول نقل کرتے ہیں جو کہ اس باب کی بنیاد ہے:
زید بن ثابت نے کہا : اور اسی طرح بیٹوں کی اولادیں (پوتے پوتیاں) بمنزلہ اولاد (بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں) ہیں۔ جب ان کے اوپر (دادا اور پوتے پوتی کے درمیان کا ) بیٹا نہ ہو۔ ان میں (پوتے پوتیوں) میں جو مذکر ہو (پوتا) وہ ان میں کے مذکر (بیٹے) کی طرح ہوگا۔ اور ان میں (پوتے پوتیوں) میں جو مونث ہو (پوتی) وہ ان میں کی مونث (بیٹی) کی طرح ہوگی۔ تو جس طرح بیٹے بیٹی میت (اپنے باپ) کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح یہ (پوتے پوتی ) بھی میت (اپنے دادا) کے وارث ہونگے۔ اور جس طرح وہ (بیٹے بیٹیاں ) محجوب کرتے ہیں ویسے ہی پوتے پوتیاں بھی محجوب کرینگے۔ اور بیٹے کے ساتھ اس بیٹے کی اولاد ( بیٹا بیٹی) وارث نہیں ہوگا۔
تو کیا یتیم پوتے کا باپ اس کے دادا کی نرینہ اولاد نہیں تھا کہ اس کے نہ رہنے پر اس کے بیٹے بیٹیاں اس کے باپ کے وارث بنیں؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ان کے پاس سوائے اس لولی لنگڑی بات کے کہ بیٹا قریب تر عصبہ اور پوتا عصبہ بعید ہے جب کہ نہ بیٹا عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے کہ اس پر قریب سے قریب تر کا فقہی اصول فٹ ہو۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اول یہ کہ قرآن وحدیث سے أصول تو آپ بھی اخذ کرنے کی سعی فرماتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آپ جو اخذ کرنا چاہتے ہیں، وہ ہوتا نہیں! لہٰذا قرآن وحدیث سے اخذ شدہ أصول کو منطق کرنا عیب نہیں، بلکہ درست اور قرآن و حدیث یعنی شریعت کا تقاضا ہے!
دوم یہ کہ أصحاب الفرائض تو انہیں کہتے ہیں کہ جن کے حصہ کا تعین قرآن میں ہے! بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے؟ میرے بھائی! بیٹے کا حصہ متعین نہیں، بلکہ وہ دیگر اہل الفرائض کے حصہ سے بچے مال سے پاتا ہے! جتنا بھی بچ جائے، اور وہ بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوتا ہے کہ بیٹے کو بیٹیوں کی نسبت دوگناہ ملتا ہے! ایسی صورتمیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں عصبہ ہوتے ہیں! اگر بیٹا نہ ہو، تو بیٹیاں أصحاب الفرائض قرار پاتی ہیں، اور بیٹے کی موجودگی،بیٹی کو بھی عصبہ بنا دیتی ہے، اور وہ أصحاب الفرائض میں نہیں رہتی! دیکھیں! بیٹی کے لئے متعین حصہ اس وقت ہے، جب یا تو وہ اکیلی ہو، اس کا کوئی بھائی یا بہن نہ ہو، تو نصف حصہ متعین ہے! یاپھر اس کی بہنیں تو ہوں، لیکن کوئی بھائی نہ ہو، تو ان کا مجموعی حصہ دو تہائی متعین ہے! لیکن اگر بھائی ہو، تو نہ ایک بیٹی کا نصف متعین ہے، اور نہ ایک سے زائد بیٹیوں کا دو تہائی متعین ہے! بلکہ بیٹے کی موجودگی، انہیں بھی عصبہ بنا دے گی، اور بیٹے بیٹیاں، أصحاب الفرائض سے بچا ہوا مال پائیں گے! معلوم ہوا کہ بیٹا تو ہوتا ہی عصبہ ہے، اور وہ نہ صرف خود عصبہ ہوتا ہے، بلکہ بیٹیوں کو بھی عصبہ بنا دیتا ہے! بیٹے کے حصہ کا تعین قرآن میں نہیں ہے، بلکہ بیٹیوں کی نسبت دو گناہ ہونا بتلایا گیا ہے! لہٰذا بیٹے اور پوتے کے معاملہ میں عصبہ کا یہ أصول منطبق کرنا بالکل درست ہے! ہاں! آپ نے جس طرح ''یتیم'' کے لفظ کو خود ساختہ معنی میں استعمال کرتے ہو، اسی طرح آپ نے ''عصبہ'' اور ''أصحاب الفرائض'' کی خود ساختہ تعریف بنائی ہو، تو اور بات ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
چونکہ آپ یکسر جاہل شخص ہیں اور تقلیدی و روایت پرست ہیں قرآن وحدیث کا نام تو صرف تبرک کے طور پر ہی لے رہے ہیں آپ کو قرآن وحدیث سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ورنہ آپ یہ جہالت بھری باتیں نہ کرتے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن جن وارثوں کا حکم بیان کیا ہے اور ان کے حصے بیان کیئے وہ سبھی لوگ اہل فرائض ہیں جن میں سب سے اولین صاحب فرض وارث مرنے والے کے بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ ہیں ۔ یعنی بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ اہل فرائض میں سب سے اولین صاحب فرض وارث ہیں ۔ وہ مابقی پانے والے نام نہاد عصبہ نہیں ہیں کہ اگر ترکہ کا کچھ حصہ بچ رہا تو پائیں گے اور نہیں بچا تو نہیں پائیں گے۔ اور جیسا کہ میں نے پیچھے ذکر کیا کہ ذدی الفروض عصبہ کی اصطلاحیں نہ تو عہد نبوی میں پائی جاتی تھیں اور نہ ہی عہد صحابہ میں ہی اس کا وجود تھا۔ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ کہا ہو وہ ذوی الفروض اور عصبہ کی بعد کی ایجاد کردہ اصطلاحات کے چلتے نہیں کہا ہے اس لیئے ذوی الفروض اور عصبہ کی اصطلاحات کو شرعی اصطلاح سمجھنا اور اس کے چلتے بحث مباحثہ کرنا محض جہالت ہی ہے۔ اور بعد کی ایجاد کردہ اصطلاحات کو قرآن وحدیث پر فٹ کرنا قرآن وحدیث میں لفظی و معنوی تحریف ہے۔
اللہ کے رسول نے اہل فرائض کا لفظ استعمال کیا ہے ذوی الفروض کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی عصبہ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ لہذا ان مصطلحہ الفاظ کے ذریعہ قرآن و حدیث کی توضیح و تشریح کرنا سراسر غلط بلکہ قرآن و حدیث کی لفظی و معنوی تحریف ہے۔
آں جناب نے کہا (
أصحاب الفرائض تو انہیں کہتے ہیں کہ جن کے حصہ کا تعین قرآن میں ہے! بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے؟ میرے بھائی! بیٹے کا حصہ متعین نہیں، بلکہ وہ دیگر اہل الفرائض کے حصہ سے بچے مال سے پاتا ہے! جتنا بھی بچ جائے) یہ بھی آپ کی جہالت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت اور نمونہ ہے۔
جن وارثوں کے حصوں کا تعین اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے ان میں سر فہرست مذکر اولاد(بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ ) کو رکھا ہے جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) اور ان میں جو مذکر اولاد یعنی بیٹے پوتےپڑ پوتے وغیرہ ہیں ان کے حصوں کو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فریضہ الٰہی کہا ہے جیسا کہ فرمایا: (وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ) یعنی باپ دادا پردادا، بیٹا پوتا پڑپوتا سب کے حصے فریضہ الٰہی ہیں۔
تو جس شخص کے بیٹے ہوں تو سارا مال انہیں مذکر اولاد(بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ ) کا ہی ہوتا ہے۔ البتہ ان کے ساتھ مرنے والے کے ماں باپ ہوں تو ماں باپ کا معینہ حصہ انہیں دیدینا ہوتا ہے۔ اور اگر مرنے والے کی بیوی یا مرنے والی کا شوہر ہو تو اس میں سے ان کا معینہ حصہ نکال کے دیدیا جاتا ہے۔ جو واپس پلٹ کر انہیں کے پاس آجانے کا امکان ہوتا ہے۔ کیونکہ مثلا مرنے والے کے ماں باپ اور شوہر یا بیوی کا ان کے علاوہ دوسرا کوئی وارث نہ ہو تو یہ سارا مال پلٹ کر انہیں کے پاس واپس آجاتا ہے۔ تو مذکر اولاد(بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ ) اصطلاحی عصبہ نہیں ہیں جیسا کہ آپ نے ابھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے: (
بیٹے اور بیٹیاں دونوں عصبہ ہوتے ہیں!) تو جناب من! نہ تو بیٹیاں پوتیاں عصبہ ہوتی ہیں اور نہ ہی بیٹے پوتے وغیرہ عصبہ ہوتے ہیں کہ اگر بچا تو پائے اور نہ بچا تو نہ پائے۔ یہ آپ کے خودساختہ دین و مذہب کی اصطلاحیں ہیں جو حسابی اصول کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ نہ کہ شرعی اصطلاحیں ہیں۔ کیونکہ ذوی الفروض اور عصبہ کی اصطلاحیں بہت بعد کی ایجاد ہیں جو تقسیم ترکہ کی ترتیب کے پیش نظر ایجاد کی گئی ہیں۔ قرآن و حدیث میں تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اور بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں جو کچھ بھی پاتے ہیں وہ فریضہ ہوتا ہے اور وہ اہل فرائض میں سے ہوتے ہیں نہ کہ اصطلاحی عصبہ ہوتے ہیں۔ یہی آپ کی سب سے بڑی جہالت اور لا علمی ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ (وہ دیگر اہل الفرائض کے حصہ سے بچے مال سے پاتا ہے! جتنا بھی بچ جائے) ۔ یہاں ایک بات اور ذکر کردوں کہ مصطلحہ فقہی ذوی الفروض اور شرعی اہل الفرائض میں بنیادی فرق ہے۔ شرعی اہل الفرائض میں بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، پڑپوتے پڑپوتیاں درجہ بدرجہ نیچے تک اسی طرح ماں باپ اور ان کے ماں باپ درجہ بدرجہ اوپر تک نیز شوہر بیوی، جملہ ہر قسم کے بھائی بہن سبھی اہل فرائض میں سے ہیں جنہیں ایک ترتیب سے حصہ دیئے جانے کا حکم اللہ و رسول نے دیا ہے۔ جب کہ مصطلحہ ذوی الفروض میں صرف وہ لوگ آتے ہیں جو ان چھ حصوں کے پانے والے ہوں تو ان کو فقہی اصطلاح میں ذوی الفروض کہا جاتا ہے جنہیں فقہاء نے فروض کا نام دیا ہےوہ یہ چھ حصے ہیں: (نصف، ربع، ثمن، ثلثان، ثلث اور سدس)۔ اور ان کے مستحقین کو ذوی الفروض کہا ہے۔
آپ نے ایک سوال یہ کیا ہے آپ کہتے ہیں کہ (
بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے؟ میرے بھائی! بیٹے کا حصہ متعین نہیں) تو آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ حصہ متعین کیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) یعنی تمہاری اولادوں میں جو مذکر اولاد یعنی بیٹے پوتےپڑ پوتے وغیرہ ہوں ان کے لیئے ان میں کی دو مونث اولاد یعنی بیٹی پوتی پڑپوتی وغیرہ کے مثل حصہ ہے۔تو اگر مرنے والے کی ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے تین حصے کیئے جائیں گے اور بیٹی کو ایک (ثلث) اور بیٹے کو ثلثان (دو ثلث) ملے گا ۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی دو بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے چار حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو ربع ربع اور بیٹے کو نصف ملے گا۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی دو بیٹی ہے اور دو بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے چھ حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو سدس سدس اور ہر بیٹے کو ثلث ثلث ملے گا۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی چار بیٹیاں ہو اور دو بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے آٹھ حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو ثمن ثمن اور ہر بیٹے کو ربع ربع ملے گا۔
پس معلوم ہوا کہ بیٹوں کا بھی حصہ متعین ہے۔ پس وہ بھی اہل الفرائض میں سے ہیں فقہی اصطلاحی عصبہ نہیں ہیں۔ اور ان مذکر اولاد یعنی بیٹے پوتےپڑ پوتے وغیرہ کے حصوں کو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فریضہ الٰہی کہا ہے جیسا کہ فرمایا: (
وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ) یعنی باپ دادا پردادا، بیٹا پوتا پڑپوتا سب کے حصے فریضہ الٰہی ہیں۔
لہذا آپ کی یہ ساری باتیں باطل و مردود قرار پاتی ہیں اور محض بکواس ہی ثابت ہوتی ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

لہذا یہ کہنا کہ چونکہ وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے بیٹے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتاہے۔ یہی اصول شریعت ہے۔ لہذا مجبوری ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
أصول تو یہی ہے، اور حکم شریعت بھی یہی ہے! ہمیں تو شریعت کے احکام کے آگے سرنگوں ہونا ہے!
الجواب:
أقول:

یہ اصول ضرور ہے کہ (وراثت قریب سے قریب تر کو منتقل ہوتی ہے) لیکن اصول شریعت نہیں ہے بلکہ فقہی اصطلاحی اصول ہے جو لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے حسابی اصول ہیں۔ اللہ کی جانب سے نازل شدہ اصول نہیں ہیں۔ یہ اصول لوگوں نے ترکہ کی تقسیم آسانی سے کرنے کے لیئے اپنی سہولت کی خاطر بنا رکھَ ہیں جنہیں آپ جیسے جاہل و احمق لوگ شرعی اصول سمجھے بیٹھے ہیں۔اس اصول کا اطلاق بنیادی طور پر صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہیں فریضہ نہیں بلکہ باقی بچا ہوا مال ملتا ہے اور وہ بنیادی طور پر مستحق ترکہ نہیں ہوتے ہیں۔ بیٹے پوتے تو اولین صاحب فرض ہیں۔ عصبہ صرف چچا اور چچازاد ہوتے ہیں جن کا کوئی حق و حصہ شریعت اسلامی میں نہیں رکھا گیا ہے۔
تو آپ کو اپنی خود ساختہ و خانہ ساز شریعت مبارک ہو اور آپ اس کے آگے سرنگوں ہی نہ رہیں بلکہ منھ کے بل گرے پڑے رہیں۔ فقہ شریعت نہیں اور نہ ہی فقہی اصول شریعت ہوتے ہیں۔ بلکہ شریعت صرف اور صرف قرآن وحدیث کا نام ہے۔ فقہ لوگوں کی آراء و قیاسات کا نتیجہ ہوتی ہے جن میں کچھ باتیں صحیح بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ اللہ نے ہمیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا مکلف بنایا ہے۔ رہی فقہ کی باتیں اور اصول تو جو قرآن وحدیث کے مطابق ہونگیں اسے مانا جائے گا اور جو اس کے خلاف ہونگیں اسے رد کردیا جائے گا اور وہ باطل و مردود قرار پائیں گیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اب اس مجبوری کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی بڑے خیر خواہ اور ہمدرد بن کر اب لوگ چلے دادا کے اوپر وصیت واجب کرنے کا فتویٰ دینے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
غیر وارث کے لئے وصیت کا حکم قرآن وحدیث میں موجود ہے، اس کا استہزاء قرآن وحدیث کا استہزاء ہے! مسئلہ وصیت کے ''واجب'' ہونے کا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب میں!
ایسا آپ کی خانہ ساز شریعت کہتی ہے اللہ کی شریعت ایسا ہرگز نہیں کہتی ہےبلکہ اللہ کی شریعت میں تو یتیم پوتا ہو یا پوتی سب کے سب وارث اور صاحب فرض وارث ہیں اور ان سبھی کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کردی ہے جس پر عمل کرنا واجب اور فرض عین ہے اللہ کی کی ہوئی وصیت کے بعد کسی بھی قسم کی وصیت اولاد کے حق میں کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ایسا کرنا کھلے طور پر اللہ کا مقابلہ کرنا اور اس کی کی ہوئی وصیت کو نیچا دکھانا ہے جو صریحی طور پر کفر اور شرک اکبر ہے۔ اور جو اللہ کی کی ہوئی وصیت کا مقابلہ کرتا ہے اور اسے نیچا دکھاتا ہے اور اللہ کو ہرانے کی جرات کرتا ہے تو وہ سیدھا جہنمی ہے۔
دادا کا اپنے یتیم یا غیر یتیم کسی بھی بیٹے پوتے کے حق میں وصیت کرنا شرعا ناجائز و حرام ہے اور حکم الٰہی و فرمان رسول کے بھی سراسر خلاف ہے کیونکہ اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ کسی بھی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی ہے۔ چہ جائے کہ یتیم پوتے کے حق میں کی جائے جو کہ اولاد میت سے ہے۔ لہذا یتیم پوتے کے حق میں کی گئی وصیت خلاف حکم الٰہی و حکم رسول کے سبب باطل و مردود ہے کیونکہ اللہ کے نبی نے فرمایا ہے کہ جو کام بھی ہمارے حکم کے خلاف ہو وہ باطل و مردود ہے۔ پس دادا کا اپنے کسی بھی پوتے کے حق میں وصیت کرنا ناجائز و حرام اور باطل و مردود ہے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ لوگ کون ہوتے ہیں دادا کے اوپر یتیم پوتے کے حق میں وصیت واجب کرنے والے؟۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کو غالباً علم نہیں، کہ غیر وارث کے حق میں ایک تہائی تک کی وصیت کی اجازت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے! اور یہ لازم نہیں ہے، بلکہ اجازت ہے! اب یہ جو بعض ملکوں میں اسے ''وصیت واجبہ'' کے نام سے قانون ہے، اس کا تعلق وراثت کے حقدار ہونے سے نہیں، بلکہ اس قانون کے تحت حکومتوں نے اپنے شہریوں کو پابند کیا ہے، کہ ان کے مال سے ان پوتے پوتیوں کے لئے وصیت لازم ہے، جن کے والد دادا کی حیات میں فوت ہو چکے ہوں! اور یہ بعض علماء وفقہاء کا مستدل مسئلہ ہے، کہ ان کے نزدیک ترکہ کی وصیت کا حکم اللہ تعالی نے ورثا کے حق میں منسوخ کیا ہے، اور اس کے علاوہ أقربا کے حق میں منسوخ نہیں! گو کہ ہمارے نزدیک ان کا یہ موقف مرجوح ہے، لیکن وہ بھی اس بات پر متفق ہیں، کہ پوتا پوتی دادا کی وراثت کے ہمیشہ حقدار نہیں، بلکہ اسی صورت ہیں، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!
لہذا دادا کا اپنے پوتوں کے حق میں، ایک تہائی تک وصیت کرنا، درست اور جائز ہے، اختلاف اس پر ہے کہ اسے واجب کر دیا جائے!

الجواب:
أقول:

جناب من آپ کی خانہ ساز شریعت میں ہوگا پر اللہ کی شریعت میں ہرگز نہیں ہے۔وصیت واجبہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ لوگوں کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کی جملہ اولاد (بشمول یتیم پوتا )کے حق میں خود وصیت کی ہے جس پر عمل کرنا ہر اس شخص پر واجب اور فرض عین ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ جس کے چلتے کسی بھی وصیت واجبہ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے وصیت واجبہ کا قانون بھی خلاف شرع ہے۔ یتیم پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں مرنے والے کی حقیقی اولاد و ذریت ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے بذات خود وصیت کی ہے جو قیامت تک پیدا ہونے والی سبھی اولادوں کے حق میں ہے کیونکہ فرمان الٰہی (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں یتیم پوتے پوتیاں ور نواسے نواسیاں مرنے والے کی حقیقی اولاد و ذریت ہونے کے سبب سبھی شامل ہیں جن کے اولاد ہونے کی صریحی دلیلیں پورے قرآن وحدیث میں بھری پڑی ہیں۔ (لہذا دادا کا اپنے پوتوں کے حق میں، ایک تہائی تک یا اس سے کم یا زیادہ وصیت کرنا، نا جائز و حرام ہے اور اس پر عمل کرنا باطل و مردود ہے)
یہ آپ کی بد بختی اور جہالت ہے کہ آپ اولاد کے حق میں اللہ کی کی ہوئی وصیت کا انکار کر رہے ہیں اور اسے غیر اولاد اور غیر وارث قرار دیکر ایک تہائی کی وصیت کو واجب قرار دے رہے ہیں جس کی کوئی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی کسی بھی حدیث میں ہے ۔
ہمیں صرف اللہ کے نازل کردہ قانون کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ تو حکومتوں کے بنائے ہوئے قانون وصیت واجبہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی بقول آپ کے (
علماء وفقہاء کا مستدل مسئلہ ہے) کی کوئی ضرورت ہے ہمارے لیئے تو اللہ کی وصیت جو کہ فریضہ الٰہی اور فرض عین ہے اور اللہ کا نازل کردہ آفاقی قانون ہی کافی ہے آپ کو آپ کے علماء و فقہاء کا بنایا ہوا قانون مبارک ہو۔ ہمیں تو صرف اور صرف اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت (قرآن و حدیث) کافی ہے۔
آپ کے لیئے آپ کے علماء کا بنایا ہوا دین ہے اور ہمارے لیئے ہمارے رب کا نازل کردہ مبنی بر وحی الٰہی دین ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بقول ان کے جب اللہ نے انہیں محروم ہی رکھا ہے انہیں کچھ دیا ہی نہیں ہے تو آپ اللہ سے بڑے ہمدرد بن کر بذریعہ خود ساختہ وصیت واجبہ انہیں دلانے والےکون ہیں؟
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اللہ تعالیٰ نے غیر وارث کے حق میں ایک تہائی تک کی وصیت کی اجازت رکھی ہے! یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے کہ ''حاکم حالات کے پیش نظر'' کسی جائز امر کو، جو واجب وفرض نہ ہو، اسے لازم کر سکتا ہے، یا اس پر پابندی لگا سکتا ہے یا نہیں!'' ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ شریعت میں خیر خواہی واجب ہے! اوراگر دادا کو اندیشہ ہو، کہ اس کے بعد اس کے ''یتیم پوتے'' کی کفالت کی ذمہ داری میں اس کے بیٹے غفلت برتیں گے، تو اس اندیشہ کے پیش نظر اس پر واجب یہ واجب قرار دیا جاسکتا ہے، کہ وہ اپنے یتیم پوتے کے حق میں وصیت کر جائے، کیونکہ وہ اس کا وارث نہیں!
الجواب:
أقول:

ہم نے قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یتیم پوتا اولاد میت میں سے اور وہ وصیت الٰہی کے بموجب شرعا و عرفا اولاد میت میں سے ہونے کی بنیاد پر شرعی وارث ہے۔ لہذا اس کو غیر وارث کہنا اللہ و رسول پر جھوٹ گھڑنا ہے اور ان کے حق میں وصیت کرنا اللہ کا مقابلہ کرنا ہے جس سے کفر و شرک لازم آتا ہے۔
یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد ہے اور اس کا شرعی وارث ہے لہذا اس کے حق میں وصیت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ کیونکہ اس سے ایک وارث کو وصیت کرنا لازم آتا ہے۔ جو باطل و مردود ہے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) ناکافی ہے جو دادا کے اوپر الگ سے وصیت کو واجب کیا جارہا ہے؟ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے: (أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: 36)) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت ناکافی ہے کہ دادا وصیت کرے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب کہیں آپ یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ناکافی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی تک کی وصیت کو جائز قرار دیا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی انتہا درجہ کی جہالت و ضلالت و اٹکل بازی ، غلط بیانی اور اللہ و رسول کے اوپر جھوٹ بولنا ہے کہ اللہ کے رسول نے کسی اولاد و وارث کے حق میں ایک تہائی وصیت کو جائز قرار دیا ہو۔ اللہ کی کی ہوئی وصیت میت کی ہر اولاد کو شامل ہے خواہ وہ بیٹا بیٹی ہوں یا پوتا پوتی، نواسے نواسی ہوں یا پڑپوتا پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی وغیرہ درجہ بدرجہ کتنے ہی نچلے درجہ کے کیوں نہ ہوں کوئی بھی مالی وصیت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ اور وصیت الٰہی سے کسی کو خارج کرنا اور پھر وصیت کرنا صریحی طور پر کفر اور شرک اکبر ہے۔ یقینا (
اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ) سب کی جامع سب کو شامل اور کامل و مکمل وصیت ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام])
بنا بریں یقینا (
اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ) سب کی جامع سب کو شامل اور کامل و مکمل عادلانہ و منصفانہ حکم و فرمان اور وصیت ہے لہذا کسی بھی اولاد کے حق میں کسی بھی طرح کی مالی وصیت کرنا ناجائز و حرام ہے۔
اللہ تعالی نے جب ہم سے سوال کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ) [الزمر: 36] (کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے)۔ تو ہمارا جوا ب تو یہی ہے کہ ہمیں تنہا اللہ اور اس کا حکم اور وصیت جو اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حق میں کی ہوئی ہے کافی ہے لہذا کسی دادا کو وصیت کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب آپ جیسے لوگ جو اللہ کی وصیت کو ناکافی جانتے ہیں تو وصیت کرتے رہیں ہمیں آپ کی خود ساختہ شریعت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ذرا ان آیات کو بھی غور سے پڑھ لیجئے گا شاید کہ اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (33) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (34) لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (35) أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (36) وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ (37) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (38) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (39) مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ (40) [سورة الزمر]
کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے: (
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ)
اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو چکا ہے جو انتہائی سچا، عادلانہ و منصفانہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تاقیامت بدل نہیں سکتی ہے۔
میرے محترم! ذرا ان فرامین باری تعالیٰ کو بغور سنجیدگی سے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھ لیجیئے گا۔ شاید ہماری بات کچھ سمجھ میں آ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ) (112) (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ) (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الانعام]
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت ایک جامع کامل و شامل فرض وصیت ہے۔ جس کے ہوتے کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اولاد کے حق میں وصیت کرنا حرام کفر اور شرک ہے۔
Click to expand...
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ہم جس سے ڈر رہے تھے، وہی بات ہو گئی! اول تو دادا کا اپنے پوتے حق میں وصیت کرنا، اس کی ''أولاد'' کے حق میں وصیت کرنا نہیں! کیونکہ پوتا دادا کی ''أولاد'' نہیں! اور پوتے کا دادا کی أولاد نہ ہونا اوپر قرآن وحدیث سے ثابت کیا جا چکا ہے! دوم کہ اسی طرح اپنے اٹکل بچو کو بے لگام کرنے کا نتیجہ انکار حدیث کرتے ہوئے کافر ہونے پر منطبق ہوتا ہے! آپ نے تو اپنے جوش کلام میں کہہ دیا کہ ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' جامع وکامل وشامل فرض ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے نہ کسی وصیت کی ضرورت ہے، نہ وہ جائز ہے، بلکہ حرام و کفر ہے! اب آپ کو یہ ادراک ہی نہیں کہ آپ کے اس کلام کے تحت کفر اور شرک کا الزام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا ہے، اسی طرح کی ہفوات کے باعث اسلم جیراجپوری انکار حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہوا! قرآن کی میں وارد قانون وراثت کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی تک کی وصیت کو جائز قرار دیا ہے۔
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ آپ کی حد درجہ کی جہالت و ضلالت کی کھلی دلیل اور ثبوت ہے اور غلط بیانی و رسول کے اوپر جھوٹ بولنا ہے کہ اللہ کے رسول نے کسی اولاد و وارث کے حق میں ایک تہائی وصیت کو جائز قرار دیا ہو۔ یہ اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔ اللہ کے رسول نے جن لوگوں کے حق میں وصیت کو جائز قرار دیا ہے وہ نہ تو اولاد میت میں سے ہیں اور نہ ہی اس کے کسی طرح کے وارث ہیں۔
اللہ کی کی ہوئی وصیت میت کی ہر اولاد کو شامل ہے خواہ وہ بیٹا بیٹی ہوں یا پوتا پوتی، نواسے نواسی ہوں یا پڑپوتا پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی وغیرہ درجہ بدرجہ کتنے ہی نچلے درجہ کے کیوں نہ ہوں۔ اور ان سے کسی کو خارج کرنا اور پھر وصیت کرنا صریحی طور پر کفر اور شرک اکبر ہے۔ یقینا (
اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ) سب کی جامع سب کو شامل اور کامل و مکمل وصیت ہے۔ جیسا کہ محدثین و مفسرین اور شارحین حدیث نے بایں الفاظ وضاحت و صراحت کر رکھی ہے لیکن آپ جیسے جاہل و احمق، ضال و مضل شخص کو نہ تو باتیں سمجھ آئیں گی اور نہ ہی آپ کے گلے سے ہی اتریں گی۔
(وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.
ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]
(
وَقَوْلُ اللَّهِ (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادكُم) أَفَادَ السُّهَيْلِيُّ أَنَّ الْحِكْمَةَ فِي التَّعْبِيرِ بِلَفْظِ الْفِعْلِ الْمُضَارِعِ لَا بِلَفْظِ الْفِعْلِ الْمَاضِي كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى ذَلِكُم وَصَّاكُم بِهِ وَسورَة أنزلناها وفرضناها الْإِشَارَةُ إِلَى أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَاسِخَةٌ لِلْوَصِيَّةِ الْمَكْتُوبَةِ عَلَيْهِمْ كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ قَرِيبًا فِي بَابِ مِيرَاثِ الزَّوْجِ قَالَ وَأَضَافَ الْفِعْلَ إِلَى اسْمِ الْمُظْهَرِ تَنْوِيهًا بِالْحُكْمِ وَتَعْظِيمًا لَهُ وَقَالَ فِي أَوْلَادِكُمْ وَلَمْ يَقُلْ بِأَوْلَادِكُمْ إِشَارَةً إِلَى الْأَمْرِ بِالْعَدْلِ فِيهِمْ وَلِذَلِكَ لَمْ يَخُصَّ الْوَصِيَّةَ بِالْمِيرَاثِ بَلْ أَتَى بِاللَّفْظِ عَامًّا)
(
لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل)
[فتح الباري شرح صحيح البخاري، لمؤلفه: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]

اب اگر آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا یہ جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے تو پھر آخر کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ جس کسی کو گمراہ کرتاہے تو اس کی عقل کو چھیننے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھ کی داخلی بینائی بھی چھین لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ در اصل انسان کا دل اندھا ہوتا ہے جس کے چلتے اس کی آنکھیں بھی اندھی ہو جایا کرتی ہیں۔
اللہ کی شریعت قرآن وحدیث میں وصیت غیر اولاد و غیر وارث کے حق میں جائز ہے اولاد و وارث کے حق میں حرام ہے۔

*-----------------------------------------
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جس طرح یہ وصیت بیٹے کے لئے ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ایک بات بتلائیے! یتیم ہونے پر پوتے کو سرخاب کے پر نکل آتے ہیں، کہ وہ تو دادا کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' قرار پاتا ہے، مگر وہ پوتے کہ جو یتیم نہیں، اور ان کے والد حیات ہیں، وہ کیا دادا کی آپ کے بقول ''حقیق اور شرعی أولاد'' نہیں ہیں؟ کہ ان کے لئے ''ٹھیک اسی طرح'' یہ وصیت نہیں، جیسے بیٹے کے لئے ہے! اگر آپ کے بقول پوتوں کو دادا کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' مان لیا جائے، جیسے بیٹا حقیقی اور شرعی الاد ہے، تو لازم آتا ہے کہ ہر پوتا، خواہ وہ یتیم ہو، یا یتیم نہ ہو، خواہ اس کا باپ حیات ہو، اس کے حق میں بھی یہ وصیت ''ٹھیک اسی طرح'' قرار پائے، اور لازماً ان سب پوتوں کا، کہ جن کا باپ فوت ہو چکا ہو، یا حیات ہو، ان سب کو ''ٹھیک اسی طرح'' وراثت میں سے اتنا ہی حصہ ملنا چاہیئے، جتنا دادا کے بیٹوں کو ملتا ہے! لیکن آپ خود بھی اس کے قائل نہیں، لہٰذا آپ کا یہ فلسفہ باطل ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
اس کا جواب ہے ہاں اس کو سرخاب کا پر ہی لگ گیا ہےکیونکہ اس کا باپ اس دنیا سے اٹھ چکا ہے اور اسے یہ شرف حاصل ہو چکا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی طرح یتیم پوتا بن گیا ہے اس سے بڑا شرف اور سرخاب کا پر کیا ہوگا۔ اللہ کے رسول بھی اپنے دادا کے یتیم پوتا تھے اور یہ بھی اپنے دادا کا یتیم پوتا بن گیا ہے۔ اور اس کی اہمیت یوں ہوگئی ہے کہ اس کے باپ کے نہ رہنے پر اسکا دادا اس کا وارث اور وہ اپنے دادا کا وارث بن گیا ہے۔
یہاں پھر آپ نے اپنی جہالت و حماقت اور ضلالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور نمونہ پیش کیا ہے۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ پوتے یتیم ہوں یا غیر یتیم سبھی اپنے دادا کی حقیقی اولاد اور سبھی وارث ہیں اور اللہ کی وصیت سبھی کی جامع سب کو شامل اور سب کے لیئے کامل و مکمل ہے۔ اب اس کے باوجود بھی اس طرح کے سوالات آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ جن پوتوں کا باپ موجود ہے انہیں ان کے باپوں کے واسطے سے انکا حصہ اس وصیت الٰہی کے بموجب پہنچتا ہے جب کہ صرف یتیم پوتے کو ان کے حق و حصہ سے محجوب قرار دیکر محروم الارث کیا جاتا ہے جب کہ اولاد میت ہونے کی بنا پر وصیت الٰہی میں وہ بھی شامل ہیں اور وارث ہیں۔ اس لیئے وہ اس فرمان الٰہی کے بموجب اپنے دادا کے وارث اور اس کے ترکہ کے مستحق اور حقدار و حصہ دار ہیں۔ جس کا انکار کر کے دادا پر وصیت کو واجب کرنا ناجائز و حرام ہے جس سے کفر و شرک لازم آتا ہے۔ اور یہ کھلی ہوئی شریعت سازی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب بھی ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ابھی اس سے متصل تو آپ نے ایک علیحدہ ہی فلسفہ بیان فرمایا تھا! ابھی، اس سے متصل جملوں میں، آپ نے فرمایا تھا کہ یہ وصیت میت کی ''حقیقی اور شرعی أولاد'' کے لئے ہے، اور آپ کے بقول أولاد ہمیشہ ''ھقیقی'' ہی ہوتی ہے! آپ تو پوتا، پوتی، نواسی نواسی ، اور تمام ذریت کو ''حقیقی أولاد'' کہتے ہیں! اور جب ''حقیقی أولاد'' ہے۔ تو ایک ''حقیقی أولاد'' یعنی بیٹے کو تو ہر صورت ترکہ میں حصہ دار قرار دینا، اور دوسری ''حقیقی أولاد'' کو صرف اس صورت ترکہ میں حصہ دار قرار دینا، جب اس کا باپ فوت ہو چکا ہو، حقیقی أولاد کے درمیان یہ فرق کہاں سے آگیا؟ آپ کے موقف کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ وراثت کا حقدار و حصہ دار اس لئے قرار پاتا ہے، کہ ''حقیقی أولاد'' ہے! اور یہ وصیت ''ٹھیک اسی طرح'' منطبق کیجیئے! جیسے بیٹے کے لئے کرتے ہیں! اب تو یہ سمجھ آجانا چاہئیے، کہ پوتا، دادا کہ ''ٹھیک اسی طرح'' ولد نہیں ہے، لہٰذا پوتے کا دادا ترکہ میں حصہ دار اور حقدار ہونا ''ٹھیک اسی طرح'' نہیں جیسے بیٹے کا اپنے پاب کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونا ہے۔ پوتے کا دادا کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!
جب دادا کی حقیقی أولاد نہ ہوگی، تب پوتے اس کی بمزلہ أولاد قرار پائیں گے! اگر اب بھی نہ تم سمجھے
تو پھر تم سے خدا سمجھے

الجواب:
أقول:

جناب من!
اللہ تعالیٰ تو آپ اور آپ جیسے لوگوں سے بروز قیامت سمجھے گا۔ یہاں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ لفظ (
خدا) کا استعمال بھی غیر شرعی ہے بلکہ یہ اللہ کے اسماء میں الحاد ہے۔ اللہ و رسول نے نہ تو اس لفظ کا استعمال کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وجود قرآن و حدیث میں کہیں ہے۔ یہ تو اہل فارس اور مجوسیوں کا اپنے معبودوں کے لیئے استعمال کیا جانے والا لفظ ہے جو وہ اپنے دو معبودوں کے لیئے بولتے تھے ایک بدی کا خدا، اہرمن اور دوسرے نیکی کا خدا یزداں ۔ اب آپ اور آپ جیسے جاہل و احمق لوگ اس کو اللہ پر فٹ کیئے دے رہے ہیں۔
یہاں بھی آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کار فرما ہے جس کے چلتے آپ کی برابر یہ رٹ جاری ہے کہ (
پوتے کا دادا کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) تو (دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) کی شرط قرآن کی کس آیت اور کس حدیث میں لکھی ہوئی ہے؟ آخر دکھائی کیوں نہیں جاتی ہے صرف رٹ ہی لگائی جاتی رہے گی یا دکھائی بھی جائے گی؟۔
آپ صرف بکواس ہی کرتے رہیں گے یا پھر وہ آیت یا حدیث بھی دکھائیں گے جس میں یہ لکھا ہو ا ہے کہ (
پوتے کا دادا کے ترکہ میں حصہ دار و حقدار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!)
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور بفرمان الٰہی : (آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
مجھے نہیں معلوم کہ قرآن کے ترجمہ نما کلام میں یہ ''تحریف'' آپ نے جان بوجھ کر کی ہے، یا کم علمی و غلط فہمی میں ہو گئی ہے! آپ نے یہاں ''آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ '' کے بجائے بیٹا یا پوتا کہہ دیا، اس میں مسئلہ نہیں، کیو نکہ آپ نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ یہ آپ کا ترجمہ نما کلام ہے! آپ نے باپ اور بیٹوں کے بجائے بیٹا اور پوتا کا کہا، یہ تو کہا جا سکتا ہے، کہ یہ مستدل ہوتا ہے! لیکن آپ نے آگے جو کام کیا ہے، وہ تو قرآن کی معنوی تحریف ہے، کہ آیت مین الفاظ ہیں ''أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا '' یعنی ''کون تمہارے لئے نافع ہونے میں قریب تر ہے'' اور آپ نے کہا ''کون قریب تر اور کون نافع ہے'' آپ نے یہاں دو الگ امر قرار دے دیئے، ایک کون قریب تر ہے، دوسرا کون نافع ہے! آپ کے کلام کے مطابق قریب تر، اور نافع میں مغایرت ممکن ہے! مگر قرآن نے جو بیان کیاہے، اس میں ایک ہی امر ہے، کہ کون نافع ہونے میں قریب تر ہے! اس میں مغایرت نہیں، ایک ہی ہے! آپ نے قرآن کے کے معنی کو اپنی خواہشات کے تحت دانستہ پھیرا ہے، تو یہ یہودیوں والا کام ہے، جس کا الزام آپ دوسروں کو دیتے تھے، مگر حقیقت یہ نکلی کہ خود اس کے مرتب ثابت پائے! بقول شاعر؛
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
اوراگر دانستہ نہیں، تو آپ کی خواہشات آپ کے حواس پر اس قدر طاری ہو چکی ہیں، کہ قرآن کے ترجمہ نما کلام میں آپ کی خواہشات قران کے معنی و مفہوم میں داخل ہو جاتی ہیں! اور یہ آپ کی مجبوری ہے، کہ آپ نے یہاں سے یہ استدلال کشید کرنے کی ٹھانی کہ انسان کو تو معلوم ہی نہیں کہ اس کا ''اقرب'' کون ہے، اور اس سے، ''اقرب فالاقرب'' کے أصول کو رد کرنا ہے مقصود ہے! خواہ اس کے لئے قرآن کے معنی کو پھیرنا پڑ جاے! کچھ اللہ کاخوف کریں میاں! یہاں ''اقرب فالاقرب'' ولا ''اقرب'' یعنی رشتہ داری'' والا اقرب نہیں، بلکہ یہاں
''أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا'' نافع ہونے میں اقرب ہے! رہی بات فلسفہ اور حکمتوں کی، تو میاں جی! یہ ''فلسفہ والی حکمتیں'' تو آپ کے کلا م میں ظاہر ہے! کہ اپنے تئیں، اپنے فلسفہ کے موافق جسے چاہا ظلم قرار دے دیا، اور جسے چاہا عدل باور کروانے لگے! ہم تو جن ''حکمتوں'' کو ماخذ دین سمجھتے ہیں، وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں!
ایک بار پھر عرض ہے کہ قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کرنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں! وگرنہ اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ پلے درجہ کے جاہل، احمق اور ضال و مضل شخص ہیں اور ہیرا پھیری کرنا اور کلام میں پھیر بدل کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے اور دھوکہ و فریب دینا تو صرف آپ اور آپ جیسے لوگوں کا ہی خاصہ ہے ۔ مذکورہ آیت کو پیش کرکے میں نے صرف یہ بتانا چاہا ہے کہ باپ دادا پر دادا وغیرہ ہوں یا بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ ہوں سب کے سب فریضہ الٰہی کے مستحق صاحب فرض وارث ہیں ان میں کوئی بھی مصطلحہ ذوی الفروض اور عصبہ نہیں ہیں۔ چونکہ بیٹوں (چچا تایوں) اور یتیم پوتوں کو عصبہ قرار دیا جاتا ہے اور پھر انہیں عصبہ قریب اور عصبہ بعید میں تقسیم کیا جاتا ہے اور بیٹوں (چچا تایوں) کو عصبہ قریب اور یتیم پوتوں کو عصبہ بعید قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے چلتے یتیم پوتوں کو (
''اقرب فالاقرب'') کے خانہ ساز اصول کو ان پر فٹ کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ بیٹے (چچا تائے) قریب تر عصبہ ہیں اس لیئے چچا تائے ہی میت کے وارث ہونگے اور اس کا ترکہ پائیں گے اور یتیم پوتے عصبہ بعید ہونے کے سبب محجوب و محروم الارث ہونگے۔
تو اسی کا رد کرنے کے لیئے ہم نے یہ استدلال پیش کیا اور کہا کہ (بفرمان الٰہی : (
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
کے بموجب یہ دیکھنا اور فیصلہ کرنا کہ بیٹا (چچا تائے) یا پوتا (یتیم پوتے ) کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
تو ہم نے قرآن وحدیث کی کون سی آیت اور حدیث میں تحریف کردی ؟ کہ آپ اس کو لیکر مجھے جہنم میں پہنچانے لگ گئے۔ لوگ یتیم پوتے اور اس کے چچا تائے میں تفریق محض دنیاوی منفعت کو سامنے کر ہی تو کہتے ہیں کہ یتیم پوتا اپنے دادا کا دور کا رشتہ دار ہے اور عصبہ بعید ہے اور اس کا چچا تایا ہی بیٹا و اولاد اور عصبہ قریب ہے۔
ورنہ اللہ و رسول کے یہاں تو دونوں ہی میت کی اولادیں ہیں تو پھر تفریق کس بنیاد پر۔ اللہ تعالٰی نے تو دونوں کو ہی بطور اولاد و وارث پیدا کیا ہے اور دونوں کے حق میں وصیت کی ہے۔ جب تک پوتے کا باپ زندہ تھا تو پوتا محجوب تھا۔ اب جب کہ اس کا باپ زندہ نہیں تو وہ بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے راست بیٹے کی جگہ آکر اس سے قریب تر ہوگیا ۔
اور آپ جیسے جاہل اور احمق لوگ اس بات کو تو سمجھ نہیں پارہے ہیں البتہ الٹی پلٹی باتیں ضرور کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ کی احمقانہ، جاہلانہ باتیں برابر جاری ہیں۔ اور ایسا اس خود ساختہ، خانہ ساز اصول (
''اقرب فالاقرب'') کے چلتے ہورہا ہے جس کا اطلاق ناحق بلا سوچے سمجھے یتیم پوتوں کے اوپر کیا جاتا ہے۔
*----------------------------------------------*
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں(مسرور احمد الفرائضی) نے کہا:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے
(إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس پر ہمارے جواب سے ایک جملہ نقل کیا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ لکھنے سے پہلے کچھ سوچتے بھی ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں؟
اس پر آپ فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جناب من اگر میں نے سوچا سمجھا نہ ہوتا تو یہ سب لکھتا۔ یہ آپ ہیں کہ نہ تو سوچتے ہی ہیں اور نہ ہی سمجھ رہے ہیں یہ جملہ آپ پر فٹ ہوتا ہے۔ یہ آپ ہیں کہ آپ کے اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ فہم و فراست میں جو آتا ہے بلا سوچے سمجھے بکتے چلے جارہے ہیں ۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کی پٹاری میں کچھ رہا نہیں، کہ آپ اب ''بکنے'' کی گردان ''بکے'' چلے جا رہے ہیں! ہم اگر یہ کہتے ہیں، کہ آپ بغیر سوچے سمجھے لکھ رہے ہیں، تو آپ کے کلام کا تضاد دم تحریر میں لاتے ہیں! آپ ایسی بے تکی کی ''ہانکنے'' اور خواہ مخواہ کی ''بکنے'' کی ''بکواس'' سے باز ہی رہیں تو بہتر ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ اپنی خود کی کیفیت کو میرا حوالہ دیکر کیوں بیان کیئے جا رہے ہیں۔ آپ نے ہی ان الفاظ کے استعمال کا آغاز کیا ہے تو میں آپ ہی کے الفاظ کو آپ کی امانت سمجھ کر آپ ہی کی طرف لوٹا رہا ہوں۔ تو اس میں جز بز ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ یہ الفاظ میرے بارے میں استعمال کرتے رہے تو بہت اچھا لگ رہا تھا اور جب میں نے آپ کے الفاظ کو آپ کے اوپر دے مارا تو آپ بلبلا اٹھے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ لکھ دیا اور کوئی لکیر کھینچ دی تو اسے پیٹے جارہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ کسی نے کچھ بلا سوچے سمجھے قریب سے قریب تر کا ایک پہاڑہ پڑھا دیا ہے اور رٹا دیا ہے تو آپ جیسے لوگ ان کی تقلید میں ان کے رٹائے ہوئے ایک جملہ کی رٹ لگا رکھی ہے کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب معاملہ تو ایسا ہی ہے، کہ بیٹا عصبہ ہے، اور پوتا عصبہ بعید، اب کسی نے یا یوں کہیئے کہ امت کے علماء وفقہاء نے قرآن وحدیث کے موافق بات کہی ہے، تو مجھے کیا کسی باؤلے نے کاٹا ہے کہ میں ان کی مخالفت کروں! یہ تو وہ کریں کہ جنہوں نے نئے اپی خواہشات کو اپنا دین بنا لیاہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
معاملہ اس کے برعکس ہے نہ تو بیٹا ہی عصبہ ہے اور نہ ہی پوتا ہی عصبہ ہے سب کے سب بفرمان الٰہی و بفرمان رسول صاحب فرض وارث ہیں۔ ضروری نہیں کہ علماء و فقہاء کی ہر کہی ہوئی بات قرآن وحدیث ہو یا قرآن وحدیث کی طرح ہو یا قرآن وحدیث کے موافق ہو ۔ تو کیا یتیم پوتے نے آپ کا کچھ بگاڑا ہے کہ آپ باولے ہوئے جا رہے ہیں اور اسے کاٹ کھانے کے لیئے دوڑے چلے جا رہے ہیں اور اس کا نام لینے پر جیسے آپ کو ہزاروں واٹ کا کرنٹ لگا جارہا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اب آپ جیسے لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی دلیلیں دی جارہی ہیں ثبوت پیش کیا جارہا ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سنوائی ہو رہی ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اول تو آپ اپنے موقف پر قرآن وحدیث کی دلائل پیش کر رہے ہیں، وہ آپ کے موقف پر دلیل وثبوت نہیں، بلکہ آپ کے موقف کے بطلان پر دلیل وثبوت ہیں! دوم کہ آپ کے موقف سنوائی تو خوب کر رہے ہیں، حتی کہ آپ کو اتنی طویل سنوائی پر اعتراض بھی ہوا کہ کب تک یہ سنوائی ''جاری ہے''! اور اس ''سنوائی'' میں آپ کا موقف باطل ثابت ہوتا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من !
ہمارے نہیں بلکہ آپ کے اپنے موقف پر کوئی ادنی سی دلیل اور ادنیٰ سا ثبوت ہر گز نہیں ہے۔ یہ محض آپ کی خوش فہمی اور خام خیالی ہے ۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اور بقول غالب: دل کو خوش کرنے کو خیال اچھا ہے۔
میں نے جتنے بھی دلائل پیش کیئے ہیں چاہے وہ یتیم پوتے کے اولاد میت ہونے کے تعلق سے رہے ہوں یا اس کے یتیم ہونے کے تعلق سے یا اس کے وارث، حقدار و حصہ دار ترکہ ہونے کے تعلق سے رہے ہوں وہ سب کے سب یا تو قرآن سے ہیں یا پھر احادیث صحیحہ سے وہ سارے دلائل اس مسئلہ میں نص صریح ہیں جو آپ کے باطل عقیدہ و فکر اور خود ساختہ دین و مذہب اور خانہ ساز شریعت کے ابطال کے لیئے کافی دلیل و ثبوت ہیں۔
آپ نے کہا: (
آپ کو اتنی طویل سنوائی پر اعتراض بھی ہوا) ۔ قطعا ہمیں آپ کی اس طول طویل لن ترانی پر نہ تو کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی آپ کی ان بکوسوں سے ہم خوف زدہ ہیں ۔ ہم نے تو محض اس لیئے کہا تھا کہ صرف اپنی ہی آپ سنائیں گے یا کچھ ہماری بھی سنیں گے۔ لیکن آپ نے ہماری سننے کے بجائے اپنا سنانا ہی جاری رکھا اور ہمیں کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اسی لیئے ہم نے آپ کو بکنے کے لیئے چھوڑ دیا کہ بکے جائیے پھر ہم آپ کی ان ساری بکواسوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
آپ کیا اگر آپ کی پوری پارٹی بھی زیر بحث مسئلہ میں اپنی لن ترانیاں کرے تو ہم اس سے قطعی ڈرنے و گھبرانے والے نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنے موقف کے اثبات کے اتنے ٹھوس دلائل ہیں جو آپ اور آپ جیسوں کے موقف کو کنڈم اور باطل کرنے کے لیئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ رہی آپ کی یہ خوش فہمی کہ (
اس ''سنوائی'' میں آپ کا موقف باطل ثابت ہوتا ہے!) یہ محض آپ کی خوش فہمی و خام خیالی ہے کیونکہ حق وہی ہے جو اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ اور لایعنی ، اٹکل پچو باتیں، تو محض بکواس ہوتی ہیں اس سے قرآن و حدیث کے دلائل پر مبنی موقف کا ابطال نہیں ہوتا ہے۔
ہمارا موقف قرآن و حدیث کے دلائل پر مبنی موقف ہے جن کا ابطال دنیا کی کوئی ہستی نہیں کر سکتی ہے۔ لہذا آپ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ آپ یا آپ جیسے لوگ اپنی کج بحثیوں اور کٹھ حجتیوں سے اس موقف کو باطل ثابت کر سکیں گے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بس ایک ہی رٹ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا چچا تایا اس سے قریب تر عصبہ ہے اور شریعت کا اصول ہے قریب سے قریب تر۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
دیکھیں میاں! جب ایک بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے، تو پھر اس بتلایا جائے گا، اور بار بار بتلایا جائے گا! خواہ اس سے کسی کوتکلیف ہو، یا اس کا کلیجہ چھلنی ہو جائے! مگر کسی کی خواہشات پر قرآن وحدیث کے احکام تبدیل نہیں ہو سکتے! آپ کے پاس آپ کے موقف پر کوئی دلیل وثبوت قرآن وحدیث سے نہیں!
اگر آپ کے پاس ہے، تو بتلائیے، کہ قرآن کی کس آیت میں بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے!
یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی، کہ بیٹا کا حصہ متعین نہیں، بلکہ بیٹا اپنے وجود سے بیٹیوں کو بھی عصبہ بنا دیتا ہے، کہ پھر بیٹے بیٹیا، أصحاب الفرائض، یعنی جن کے حصہ کا تعین قرآن میں ہے، اسکے بعد بچے ہوئے مال کے وارث بنتے ہیں! اب آپ بتلائیے کہ قرآن میں بیٹے کا کتنا حصہ بیان ہوا ہے! نصف، ثلث، ربع، سدس، کتنا حصہ ہے، بحوالہ بتلائیے! اور یہ آپ کبھی نہیں بتلا سکتے، کیوں کہ قرآن میں یہ ہے ہی نہیں! لہٰذا قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!

الجواب:
أقول:

جناب عالی!
یہ آپ کی خوش فہمی و خام خیالی ہے کہ آپ کا پیش کردہ موقف بزعم خویش و بقول آپ کے (
جب ایک بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے) تو اسے دہرایا جائے گا تو آپ اس موقف کے (قرآن وحدیث سے ثابت ہے) کی رٹ لگاتے رہیئے۔ اس سے نہ تو ہمارا سینہ چھلنی ہو نے والا ہے اور نہ ہی ان شاء اللہ چھلنی ہوگا۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ ساری باتیں ہوا ہوائی ہی ہیں کیونکہ ہم جان رہے ہیں کہ اس کا قرآن وحدیث سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
رہی آپ کی یہ بات (
آپ کے پاس آپ کے موقف پر کوئی دلیل وثبوت قرآن وحدیث سے نہیں!) تو ہم نے صرف دلیل و ثبوت ہی نہیں بلکہ اتنے دلائل قرآن وحدیث سے پیش کردیئے ہیں کہ معاند ، کج فہم، جاہل و غبی اور ہٹ دھرم شخص کے علاوہ دنیا کی کوئی ہستی جو عقل سلیم، فہم سلیم رکھتی ہو جھٹلا ہی نہیں پائے گی۔
آں جناب نے کہا کہ (
بتلائیے، کہ قرآن کی کس آیت میں بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے!)
تو جناب عالی!
چونکہ آپ نے قرآن وحدیث کی باتوں کو اپنے سر کے اوپر سے گذار دیا ہے اس لیئے آپ کو بیٹے کے حصہ کا متعین ہونا معلوم نہ ہوسکا ورنہ قرآن و حدیث کو بغور پڑھنے والا شخص ایسی باتیں ہرگز نہیں کہہ سکتا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے۔ تو اس کا جواب پیچھے گذر چکا ہے جسے ہم یہاں دوبارہ مکرر بیان کیئے دیتے ہیں۔ آپ یہ سوال کر کے اپنے طور پر یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں تو آئیے میں آپ کی اس خوش فہمی اور خام خیالی کو بھی دور کیئے دیتا ہوں۔
تو آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بیٹے کا کتنا حصہ متعین ہے۔ تو آپ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے مذکر اولاد جن میں بیٹا، پوتا، پڑ پوتا وغیرہ درجہ بدرجہ شامل ہیں کے لیئے درج ذیل حصہ متعین فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) یعنی تمہاری اولادوں میں جو مذکر اولاد یعنی بیٹے پوتےپڑ پوتے وغیرہ ہوں ان کے لیئے ان میں کی دو مونث اولاد یعنی بیٹی پوتی پڑپوتی وغیرہ کے مثل حصہ ہے۔
آپ نے بیٹے کے حصہ ہونے کا سوال کیا ہے تو میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ بیٹے بیٹی کے نام سے قرآن و حدیث میں کہیں کوئی حصہ نہیں ہے جیسے دادا دادی کے نام سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ البتہ اولاد کے لفظ کے ساتھ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حصہ متعین کیا ہے جس میں بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں وغیرہ سبھی آتے ہیں اسی طرح ماں باپ کے نام کے ساتھ حصہ متعین و بیان کیا گیا ہے تو چونکہ دادا دادی بھی ماں باپ کی جگہ ماں باپ ہیں۔ اس لیئے ان کا بھی حق و حصہ ہونا لوگوں نے مانا ہے۔ تو آئیے ہم آپ کو بیٹے بیٹیوں پوتے پوتیوں وغیرہ کا متعینہ حصہ بتلاتے ہیں۔ جو درج ذیل ہے:
اگر مرنے والے کی ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے تو تو اس کے ترکہ کے تین حصے کیئے جائیں گے اور بیٹی کو ایک ثلث اور بیٹے کو ثلثان (دو ثلث) ملے گا ۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی دو بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے چار حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو ربع ربع اور بیٹے کو نصف ملے گا۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی دو بیٹی ہے اور دو بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے چھ حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو سدس سدس اور ہر بیٹے کو ثلث ثلث ملے گا۔ اسی طرح اگر مرنے والے کی چار بیٹیاں ہو اور دو بیٹا ہے تو اس کے ترکہ کے آٹھ حصے کیئے جائیں گے اور ہر بیٹی کو ثمن ثمن اور ہر بیٹے کو ربع ربع ملے گا۔
پس معلوم ہوا کہ بیٹوں کا بھی حصہ متعین ہے۔ پس وہ بھی اہل الفرائض میں سے ہیں فقہی اصطلاحی عصبہ نہیں ہیں۔ اور ان مذکر اولاد یعنی بیٹے پوتےپڑ پوتے وغیرہ کے حصوں کو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فریضہ الٰہی کہا ہے جیسا کہ فرمایا: (
وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ) یعنی باپ دادا پردادا، بیٹا پوتا پڑپوتا سب کے حصے فریضہ الٰہی ہیں۔
لہذا آپ کی یہ ساری باتیں باطل و مردود قرار پاتی ہیں اور محض بکواس ہی ثابت ہوتی ہیں۔ آپ نے کہا کہ (
اب آپ بتلائیے کہ قرآن میں بیٹے کا کتنا حصہ بیان ہوا ہے! نصف، ثلث، ربع، سدس، کتنا حصہ ہے، بحوالہ بتلائیے! اور یہ آپ کبھی نہیں بتلا سکتے، کیوں کہ قرآن میں یہ ہے ہی نہیں! لہٰذا قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!) ۔
تو جناب من!
اب تو آپ کو آپ کے سوال کا جواب معلوم ہوگیا ہوگا اور آپ کے سوال کی وقعت بھی معلوم ہوگئی ہوگی اور اپنی اوقات کا بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ (
قرآن میں بیٹے کا کتنا حصہ بیان ہوا ہے! نصف، ثلث، ربع، سدس، کتنا حصہ ہے،) ۔ اور آپ نے حوالے کا بھی مطالبہ کیا تھا تو جان لیں کہ یہ آیت قرآنی سورہ النساء کی آیت نمبر(۱۱) ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ اس کو مانیں گے نہیں۔ کیونکہ آپ یہ کہہ چکے ہیں : (یہ آپ کبھی نہیں بتلا سکتے، کیوں کہ قرآن میں یہ ہے ہی نہیں!) ۔ اور آپ نے یہ کہ رکھا ہے کہ (لہٰذا قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!) ۔ تو اب آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اللہ کے حضور توبہ کرنا ہے یا نہیں۔ البتہ میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ آپ اپنی کہی ہوئی بات پر عمل کریں کہ ((قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز آجائیں! اور اللہ کے حضور توبہ کریں!) ۔) کیونکہ آپ نے اللہ و رسول پر جھوٹ گھڑا ہے کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد نہیں اور اس کے چچا تائے کے ہوتے اس کا اس کے دادا کے ترکہ میں کوئی حق و حصہ نہیں ہے۔ اور آپ نے اللہ و رسول پر یہ افتراء پردازی کی ہے یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہ ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ ایں خیال است ، محال است و جنوں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
جواب تو اس کا دیا جا چکا ہے، لیکن آپ کو اس جواب کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب عالی!
یہ آپ کی خوش فہمی و خام خیالی ہے کہ آپ نے اپنے پیش کردہ موقف اور ہمارے اس مطالبہ (جب قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت اور دلیل مانگی جاتی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔) کا جواب دیدیا ہے یہ آپ کا جھوٹ اور غلط بیانی ہے نہ تو آپ نے اپنے پیش کردہ موقف پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ہی دی ہے اور نہ ہی اس کا ثبوت ہی پیش کیا ہے اور آپ اپنے موقف کی دلیل نہ تو قرآن سے دے سکتے ہیں اور نہ ہی حدیث رسول سے ہی دے سکتے ہیں۔کیونکہ آپ کے موقف کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث رسول میں ہی ہے۔
اور اب تک آپ نے سوائے گپ بازی اور ہانکنے کے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
آپ کا پیش کردہ موقف بزعم خویش و بقول آپ کے (
جب ایک بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے) تو اسے دہرایا جائے گا تو آپ اس موقف کے (قرآن وحدیث سے ثابت ہے) کی رٹ لگاتے رہیئے۔ اس سے نہ تو ہمارا سینہ چھلنی ہوا ہے اور نہ ہی ان شاء اللہ چھلنی ہوگا۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ ساری باتیں ہوا ہوائی ہی ہیں کیونکہ ہم جان رہے ہیں کہ اس کا قرآن وحدیث سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کی اتنی سمپل سے بات باطل ہے! آپ کو پہلے بھی بتلایا تھا کہ ہمارا آپ کے موقف کو باطل کہنا، اس امر کو لازم نہیں آتا کہ نہیں آتا کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آئی! بلکہ معاملہ یہ ہے، کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ آئی ہے، اور ہم آپ کی بات کو باطل قرار دیتے ہیں! اور یہ آ نے جو کہا ہے کہ ''جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی أولاد ہوا'' تو متعدد بار آپ کو یہ بتلایا گیا ہے کہ دادا ''والد'' نہیں! لہٰذا ''جب دادا والد نہیں، تو پوتا اس کی أولاد نہیں'' آپ نے اب تک دادا کے ''والد'' یعنی ''حقیقی والد'' ہونے پر کوئی دلیل و ثبوت پیش نہیں کیا، اور بات ایسے کرتے ہیں، جیسے کہ آپ کا کہا ''دلیل وثبوت ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ مجھے نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ آپ اللہ و رسول کو جھوٹا بتا رہے ہیں کیونکہ یہ تو اللہ کا فرمان ہے اور میں نے اللہ کیے اس فرمان کے تناظر میں ہی یہ بات کہی تھی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

(وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) (
سورة البلد : 3)
عن ابن عباس (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: هو الوالد وولده.
عن مجاهد (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: الوالد: آدم، وما ولد: ولده.
عن قتادة (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: آدم وما ولد.
عن أبي صالح في قول الله (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: آدم وما ولد.
عن الضحاك يقول، في قوله: (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: الوالد: آدم، وما ولد: ولده.
عن سفيان، قوله: (وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ) قال: آدم وما ولد. [جامع البيان في تأويل القرآن، لمؤلفه: محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ)]

پس اس فرمان الٰہی و آیت قرآنی کے تناظر میں ہمارا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جو جس کاوالد وہ اس کی اولاد ہے یہ بالکل سمپل اور سیدھی سی بات ہے جب دادا والد ہے تو پوتا اس کی اولاد ہوا ۔ لیکن اتنی معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے) باوجودیکہ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں دوسرا کوئی نہیں کیونکہ ہم ہی قرآن وحدیث کے ٹھیکیدار ہیں اور ہم ہی اہلحدیث ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ایک والد کی مختلف اولادیں ہوتیں البتہ مختلف اولادوں کا ایک والد ہوتا ہے۔ اولاد و والد کے مختلف درجات و طبقات ہیں ۔ باپ، دادا، پردادا اوپر آدم علیہ السلام تک درجہ بدرجہ سب والد ہیں اسی طرح بیٹا، پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ سبھی اولاد آدم ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ ''أولاد آدم'' معنی مجاز میں کہتے ہیں! وگرنہ ہر مرد، ہر عورت کا حقیقی بھائی قرار پائے، اور ان کے مابین نکاح ممنوع وحرام! ایسی بے تکی باتیں کرنے سے گریز ہی فرمائیں تو بہتر ہے!
الجواب:
أقول:

نہیں جناب عالی!
یہ (اولاد آدم) حقیقی معنی میں کہا جاتا ہے مجازی معنی میں ہرگز نہیں کہا جاتا جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کی اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں ہوتے ہیں۔ رہا ہر مرد وہر عورت کا حقیقی بھائی بہن ہونا اور ان کے مابین نکاح کا ممنوع و حرام ہونا تو یہ اللہ کے حکم اور فرمان کے تابع ہے۔ کیونکہ آدم کے حقیقی بیٹے بیٹیوں کے مابین پہلے نکاح جائز تھا جسے بعد میں اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت حرام قرار دیا۔ تو جن جن مردوں اور عورتوں کے مابین نکاح کو ممنوع وحرام قرار دیا ہے صرف انہیں سے نکاح ممنوع و حرام ہے سب سے نہیں ہے باوجودیکہ سبھی آدم کی حقیقی اولادیں ہیں۔
اللہ کے رسول نے خود فرمایا ہے مومن آپس میں بھائی بھائی، بھائی بہن۔ بہن بہن ہیں۔
تو جناب عالی !
آپ برائے مہربانی بے تکی باتیں نہ کریں اور ادھر ادھر کی نہ ہانکیں قرآن و حدیث کے دلائل سے باتیں کریں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ سب تو اللہ کی کتاب قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ میں تو آنہیں رہا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
کہاں لکھا ہے یہ اللہ کی کتاب قرآن میں؟ آپ کیوں اپنے تخیل کو قرآن سے منسوب کرتے ہوئے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں! آپ کو ہی پہلے ''ولد'' اور ''ابن'' کے فرق کا فر بتلاتے ہیں، پھر ''ابن'' سے ''ولد'' ہونے کو لازم قرار دیتے ہیں! آپ کو خود اپنے ہی کلام کا تضاد سمجھ ہیں آرہا، اور ناسمجھی کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ اپنے اس کلام کا مصداق ہیں۔ اور آپ جہالت و نادانی کا شکار ہیں اور آپ کی جہالت و حماقت ہی اس بات سے مانع ہے کہ اب تک آپ نہ تو اولاد ہونے کا معنی و مفہوم ہی سمجھ پائے اور نہ اس کا مصداق ہی جان پائے اور نہ ہی حقیقی و مجازی کا ہی مفہوم آپ کو معلوم ہو سکا ہے اور نہ ہی ولد اور ابن کا جو باریک فرق ہے اس کو سمجھ پائے ہیں۔ جس کے چلتے محض ناسمجھی کی باتیں کیئے جارہے ہیں۔ ابھی پیچھے ہم نے اولاد و والد کے بارے میں اللہ کا کلام پیش کیا ہے اور اس کی تفسیر صحابہ وتابعین کے کلام سے پیش کی ہے۔ وہاں ملاحظہ کرلیں۔

*----------------------------------------------*
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
البتہ شیطان نے جو وسوسہ آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے اور رٹا دیا ہے کہ صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے تو وہی بات آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس ایک جملہ میں آپ نے ہم پر دو جھوٹ بولے ہیں! اول تو ہم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ ''صرف بیٹا'' ہی أولاد ہو سکتا ہے، بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ بیٹیاں بھی أولاد ہیں! دوم کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ وہی یعنی بیٹا ہی قریب تر ہو ہو سکتا ہے، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ بیٹا نہ ہو تو پوتا قریب تر ہو سکتا ہے!
جہاں تک رہی بات کہ شیطان نے کس کو وحی کی، اور کس کے سر پر وہ وحی بن کر سوار ہے، تو اسکے مصداق آپ خود ہی قرار پاتے ہیں، کہ قرآن وحدیث پر جھوٹ بول کر اپنی خواہشات کو شریعت باور کروانے کے لئے شیطان نے آپ کو وسوسوں میں مبتلا کردیا ہے، کہ آپ ان وساوس کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی سعی کرنے میں مصروف و مشغول ہیں!

الجواب:
أقول:

جناب من !
ہم نے اپنے مذکورہ بالا جملہ میں کوئی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ اور جس چیز کو آپ جھوٹ سمجھ رہے ہیں وہ در حقیقت آپ کی جہالت و حماقت اور کج فہمی و کم عقلی ہے ورنہ میں نے یہ کہا ہے کہ جس بات کو آپ مسلسل کہے جارہے ہیں اور اس کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ (صرف بیٹا ہی اولاد ہو سکتا ہے اور وہی قریب تر ہو سکتا ہے نہ کہ یتیم پوتا ۔ اور یہی وہ بات ہے جو آپ اور آپ جیسے لوگوں کے ذہن و دماغ پر بھوت بن کر سوار ہے۔) ۔ میں نے تو ہرگز یہ نہیں کہا ہے کہ بیٹیاں یا پوتیاں اولاد نہیں ہوتی ہیں۔ یہ تو آپ مجھ پر گڑھ بنا کر مجھ سے جھوٹ کو منسوب کر رہے ہیں کہ میں نے ایسا کہا ہے۔ یہی وہ شیطانی وسوسہ ہے جو آپ لوگوں کے سر پر بھوت بن کر سوار ہے جس کے چلتے آپ برابر یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ جب میت کی کوئی مذکر اولاد نہ ہو نہ تو باپ اور نہ ہی چچا تایا ہی ہو تب پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے کچھ پائے گا۔
نیز آپ نے یہ بھی کہا جو شاید آپ نے اپنی لاعلمی و لاشعوری و نادانستگی میں وہی بات کہہ دی جو اب تک ہم کہتے چلے آئے ہیں۔ (
دوم کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ وہی یعنی بیٹا ہی قریب تر ہو ہو سکتا ہے، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ بیٹا نہ ہو تو پوتا قریب تر ہو سکتا ہے!)
تو ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں صرف بیٹا ہی قریب تر نہیں ہوتا ہے بلکہ پوتا بھی قریب تر ہوجاتا اور وہ اس وقت قریب تر ہوجاتا ہے جب بیٹا یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ تو جب مرنے والے کا بیٹا نہ ہوتو اس کا بیٹا (یتیم پوتا ) اپنے دادا کے قریب تر میں سے ہو جاتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: (الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24) إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) [سورة محمد]
ان رٹی رٹائی باتوں کا اللہ کے دین و شریعت (کتاب و سنت) میں کوئی حیثت اور مقام نہیں ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب ہر مسلمان نے ایک کلمہ رٹا ہوا ہے، ''لا إله إلا الله محمد رسول الله''، تو آپ کی اٹکل کے مواق تو یہ کلمہ پڑھنے والے بھی اس آیت کے مصداق ٹھہریں گے؟ آپ کچھ سوچ سمجھ کر لکھا کریں میاں!
آپ نے ٹھان رکھی ہے کہ آپ نے علماء وفقہاء کی بات کو ہر صورت رد کرنا ہے، خواہ وہ قرآن کو موافق ہو! اسی کے پیش نظر ہم نے کہا تھا، کہ علماء وفقہاء کی آراء و فقہ کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ نے یہاں بھی ڈندی ماری کی ہے اور غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ ہر مسلمان نے اس لیئے ایک کلمہ رٹا ہوا ہے کہ اللہ و رسول نے اس کو یہ کلمہ رٹایا ہوا ہے۔ اب آپ کے پاس اتنی عقل اور شعور تو ہے نہیں کہ آپ یہ بات سمجھ سکیں اس لیئے آپ نے ایسی بیوقوفی کی بات کردی۔ ہمارا تو ایک عقیدہ و منہج اور اصول ہے کہ جس کسی کی جو بات بھی ہو اسے قرآن و حدیث کے ترازو پر تول کر دیکھو اگر وہ قرآن و حدیث کے مطابق و موافق ہو تو اسے لو ورنہ اسے کوڑے دان میں ڈال دو خواہ وہ کسی کی بھی بات کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ہمارا معیار صرف اللہ و رسول کی اتباع و پیروی ہے اور قرآن و حدیث کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ (
علماء وفقہاء کی آراء و فقہ کو مطلقاً لے لینا زندیقیت ہے!) اور قرآن و حدیث کے ترازو پر تول کر لینا عین اسلام ہے۔ ہمیں اللہ و رسول نے اسی کا پابند بنایا ہے۔ خواہ وہ دین و شریعت کا کوئی بھی معاملہ کیوں نہ ہو۔ رہا فرائض و مواریث کا معاملہ تو وہ صرف اور صرف اللہ کی کتاب سے ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ فریضہ الٰہی ہے اور چند ایسی حدیثیں ہیں وہ محض چند گنے چنے چند جزوی مسائل میں ہی معاون و مدد گار ہیں اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ محض اٹکلیں و قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ جس پر ہم مطلقا عمل کے پابند ہرگز ہرگز نہیں ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ نے کہا(ابن داود نے کہا ہے): تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے جو ان کے واسطوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے اور اسے ان تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے جس کی دلیل اللہ کا یہی فرمان و کلام ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) ہے کیونکہ سبھی اولاد ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کے کیا ہی کہنے! آپ تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کے مصداق کہ، ''کہنے میں کیا حرج ہے''
اگر ہر ہر پوتے پوتی کا اور نواسے نواسی کا دادا دادی اور نانا نانی کے ترکہ سے حصہ ہوتا ہے، تو انہیں ان کی ملکیت میں دینا لازم آتا ہے! اور آپ یہ نہیں کرتے! لہٰذا آپ کا کہا فریب ہے، اور خود فریبی سے حقیقت نہیں بدل جاتی! ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں، کہ آپ خود فریبی سے بھی بچیئے، اور دوسروں کو فریب دینے سے بھی باز رہیں!

الجواب:
أقول:

جناب من !
نہ تو ہم خود فریبی کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی کو فریب دینا ہمارا کام ہے یہ مقدس کام تو آپ کر رہے ہیں۔
یقینا (
ہر ہر پوتے پوتی کا اور نواسے نواسی کا دادا دادی اور نانا نانی کے ترکہ سے حصہ ہوتا ہے) جو ان کے ماں باپ کے واسطہ سے ان تک پہنچتا ہے۔ جب کہ صرف یتیم پوتے کو نہیں پہنچ پاتا ہے۔ جب کہ فرمان الٰہی (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) کے بموجب میت کی سبھی اولادیں بشمول یتیم پوتا اس میں شامل ہیں کیونکہ سبھی اولاد میت ہیں اور اللہ کا فرمان سب کو شامل سب کا جامع اور کامل و مکمل ہے۔
فریب یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یتیم پوتے کے چچا تایا اس کے بالمقابل میت سے زیادہ قریب ہیں اس لیئے چچا تائے ہی کو میت کا ترکہ ملے گا نہ کہ یتیم پوتے کو ملے گا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ(7)) کہا وہیں دوسری طرف ((يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)) کہا ہے جہاں ایک طرف (آبَاؤُكُمْ) کہا ہے وہیں دوسری طرف ((أَبْنَاؤُكُمْ)) (سورة النساء: 11) کہا ہے اور والد و اولاد کے حکم کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے جو قیاس نہیں بلکہ نص صریح اور حجت قاطع ہے اور اس کے مقابل جو کچھ بکا جاتا ہے وہ سب محض بکواس ہے۔ اور بکواس کا کوئی جواب نہیں ہوا کرتا ہے جواب معقول بات کا دیا جاتا ہے نامعقول بات کا نہیں دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر کسی کی ہر ہر بکواس کا جواب دینا ممکن بھی نہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب تو آپ اپنی پوشاک پھاڑ کر باہر نکل رہے ہیں! آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ شیطان کے وساوس کے آپ اس قدر گرویدہ ہو چکے ہیں، کہ قرآن وحدیث کے موافق بات آپ کو ''بکواس'' معلوم ہوتی ہے، اور قرآن وحدیث کے نام پر شیطان کو وساوس کو آپ نے عین وحی الہٰی سمجھ لیا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ خود اپنے اس قول کہ (
آپ اپنی پوشاک پھاڑ کر باہر نکل رہے ہیں!) کا مصداق ہیں۔ شیطان نے آپ کو گمراہ کر رکھا ہے کہ ایک من گھڑت بے بنیاد بات کو وحی الٰہی کا درجہ دیئے ہوئے ہیں جس کی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی سنت میں ہی ہے۔ اور آپ اس کو اس درجہ دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں اور آپ پر شیطان کی وحی کا اس درجہ تسلط ہے کہ اس کے چلتے آپ کو نہ تو قرآن کی آیتیں سمجھ آ رہی ہیں اور نبی کی احادیث اور فیصلے ہی سمجھ آ رہے ہیں۔
آپ نے شیطان کے اس وسوسے کو کہ صرف بیٹا ہی میت کا قریبی ہو سکتا ہے اس کا یتیم پوتا قریبی نہیں ہو سکتا ہے حالانکہ اللہ کے نبی خود ایک یتیم پوتے تھے اور اپنے دادا کے اپنے چچاتائے کے مقابلے سب سے زیادہ قریب تر تھے۔ یہ اللہ کے نبی کی سیرت کا ایک اہم پہلو ہے۔ جو شاید آپ کو پتہ نہیں ہے حالانکہ اللہ کا فرمان ہے کہ اللہ کے نبی و رسول کی پوری ذات اور زندگی ایک مومن کے لیئے ایک کامل و مکمل نمونہ ہے۔
شاید آپ کو یہ بھی نہ سمجھ آئے ۔ تو آپ اپنی خوش فہمی میں پڑے رہیئے اور شیطان کی پیروی میں لگے رہیئے۔ آپ کو شیطان کی پیروی مبارک ہو۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

لوگ لاکھوں کروڑوں تاویلات بیجا کریں پھر بھی پوتا اپنے دادا کی اولاد ہی رہے گا کیونکہ دادا اس کا والد ہے۔
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں اللہ کی وصیت جس طرح بیٹے کے لئے ہے اسی طرح یتیم پوتے کے لئے بھی ہے کیونکہ دونوں ہی میت کی حقیقی اور شرعی اولاد ہیں دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یتیم پوتا بالواسطہ اولاد ہے اور اس کا باپ یا چچا تایا بلا واسطہ اولاد ہیں جب یتیم پوتے کا باپ نہیں رہا تو پھر دادا پوتا آمنے سامنے ہو گئے اور ایک دوسرے کے راست وارث بن گئے اور دونوں کے درمیان کے واسطہ کے ہٹ جانے سے ان دونوں ہی کے درمیان کا حجب ختم ہوگیا اورتوارث قائم ہوگیا
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کی ان ہفوات کا ازالہ اوپر بیان کیا گیا ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
چونکہ آپ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا ہے اسی لیئے آپ اسے ہفوات کہہ رہے ہیں ۔
تو جو معقول باتیں ہیں وہ آپ کے نزدیک ہفوات ہی ہونگی کیونکہ چھلنی سے وہی چھنتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور بفرمان الٰہی : (آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
بیٹا یا پوتا کون قریب تراور کون نافع ہے تم اسے نہیں جانتے۔ ہر ایک کے حصے علاحدہ علاحدہ فریضہ الٰہی ہیں لہذاانہیں ادا کرو اور زیادہ فلسفے اور حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اللہ کو سب پتا ہے کیونکہ علیم و حکیم ہے بس اللہ کی وصیت پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں (اولادکم ) کا لفظ استعمال کیا ہے (ابنائکم) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ البتہ جہاں (آباؤکم ) کہا ہے وہیں پر اس پر عطف کرتے ہوئے (ابناؤکم ) کہا ہے اور دونوں کے تعلق سے (اقرب) کی بھی نفی کردی ہے چنانچہ فرمایا:
(
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ)
یہ بات تو آپ اور آپ جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیونکہ شیطان نے کسی کے ذریعہ یہ سمجھا رکھا ہےکہ بیٹا قریبی عصبہ ہے اور یتیم پوتا عصبہ بعید اس لئے اللہ کے ان احکام و فرامین کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے اور تمہاری خود ساختہ شریعت مٹی میں مل جائے گی۔ آپ کی اپنی سمجھ تو ہے نہیں آپ تو دوسروں کی سمجھ سے سمجھے ہوئے ہیں اور انہیں کی تقلید میں اس طرح کی ساری باتیں کئے جارہے ہیں تو جو انہوں نے کہا بتایا اور سمجھایا ہے وہی آپ کہہ بتا رہے ہیں اور مجھے سمجھانا چاہتے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس کا ازالہ بھی اوپر کیا جا چکا ہے، اور بتلایا گیا ہے کہ یہاں تو آپ نے قرآن میں واضح معنوی تحریف کی ہے! جناب من معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حق کو اسی لئے حق نا ماننے کی ٹھان رکھی ہے، کہ یہ دوسرے نے بیان کی، ہے، اور آپ نے دوسرے کے بیان کیئے ہوئے حق کو حق قبول کرنے کو ''تقلید'' سمجھ لیا ہے! نجانے شیطان نے آپ کو اس خبط میں کیسے مبتلا کیا، کہ آپ نے حق اسی کو گمان کیا ہوا ہے، جو پہلے کسی نے نہ کہا ہو، اور آپ کا خود ساختہ ہی ہو! اور اگر خود ساختہ نہ ہو، تو بقول آپ کے تقلید لازم آجائے گی!
ویسے تقلید کے متعلق مقلدین ایسی ہفوات ضرور کیا کرتے ہیں! آپ یہ کہیں مقلدین کی تقلید میں تو نہیں فرما رہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
حق صرف وہی ہے جو اللہ کی کتاب کر اندر ہے اور جو اس کے نبی کی سنت و احادیث میں ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (سورة البقرة: 147)) یعنی حق صرف اور صرف وہی ہے جو اللہ رب العالمین کی طرف سے آیا ہوا ہے تو اس کے بارے میں شکوک و شبہات کرنے والے نہ بن جانا۔
اللہ تعالیٰ نے حق کواپنی کتاب قرآن مجید اور اپنے نبی کی سنت و احادیث صحیحہ میں قیام تک کے لیئے محفوظ کردیا ہے۔ لہذا کسی کی کہی، گھڑی بنائی ہوئی باتیں، اٹکل بازیاں، رائے زنیاں اقوال و آراء حق نہیں ہوتے ہیں۔
حق گمان نہیں کیا جاتا ہے بلکہ حق خود کو منوالیتا ہے کیونکہ مشک آں نست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔ یعنی مشک وہ ہے کہ اپنی خوشبو سے خود کو مشک ہونا ثابت کرے نہ کہ عطاری، پنساری کے کہنے سے وہ مشک ثابت ہو۔
اللہ تعالیٰ نے تو یہود کی یہ درج ذیل صفات بیان کی ہیں:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورة البقرة: 91)
وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ
الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (سورة البقرة: 144)
وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (
سورة البقرة: 145)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (سورة البقرة: 213)
یعنی اللہ کا یہ دستور رہا ہے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے اور اس کے کہے کا یقین کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ حق کی رہنمائی کرتا اور حق کے مطابق انہیں ہدایت دیتا ہے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی رہنمائی کرتا ہے۔
لہذا حق و ہدایت کسی کی جاگیر نہیں ہے کہ وہ اپنے کو زبانی طور پر اہل حدیث کہہ رہا ہو تو حق و ہدایت اس کے گھر کی لونڈی بن جائے بلکہ حق و ہدایت پانے کے لیئے بڑی جد و جہد کرنے پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ ان کے سامنے ساری آیات اور نشانیاں بھی لے آدو پھر بھی وہ ماننے والے نہیں ہے۔ اور آپ نے انہیں کی پیروی کرتے ہوئے یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جو اللہ کے نبی کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ ہماری امت میں بھی ایسے لوگ پیدا ہونگے جو ان کے نقش قدم کی پیروی کرینگے۔ چنانچہ آپ وہی کر رہے ہیں اور یہی طریقہ عام مقلدوں کا ہے اور نام نہاد اہل حدیث مقلدوں کا بھی ہے جن میں سے ایک آں جناب بھی ہیں۔ در اصل آپ تقلید کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھتے ہیں۔ بس آپ یہی سمجھے ، جانے بیٹھے ہیں کہ کچھ مخصو ص فرقے جو اپنے مخصوص اماموں کی باتوں کو بلا دلیل آنکھ بند کر کے مانیں تو وہ تقلید کرنا ہوتا ہے اور صرف وہی لوگ مقلد ہیں اور جو لوگ اپنی پیشانی پر اہل حدیث ہونے کا ٹائٹل لگالیں اور کسی امرتسری، مبارکپوری کی بے بنیاد باتوں کو آنکھ بند کر کے بلا دلیل مانتے رہیں تو وہ تقلید نہیں ہوگی۔
*----------------------------------------------*
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے ہمارے کلام سے اقتباس نقل کیا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ نے کہا: یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!
اس پر آپ نے فرمایا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں کہتا ہوں : آخر آپ کو لفظ یتیم سے اتنی چڑ کیوں ہے؟
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ہمیں کسی لفظ سے کوئی مسئلہ نہیں! لیکن الفاظ کا غلط اور بے محل استعمال ، نہ صرف یہ کہ معیوب ہوتا ہے، بلکہ بسا أوقات باطل بھی ہوتا ہے! ہمیں آپ کے ''یتیم'' کے لفظ کے غلط استعمال پر اعتراض ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من !
ہم نے لفظ یتیم کے اطلاقات کی قرآن و حدیث اور لغت سے وضاحت پیچھے کردی ہے۔ لہذا آپ کا یہ الزام درست نہیں ہے کہ ہم نے اس کا غلط استعمال کیا ہے ہم نے کوئی غلط استعمال نہیں کیا ہے۔ لہذا یہ آپ کی جہالت و حماقت پر مبنی لغو و مہمل باتیں ہیں اور بقول آپ کے (لغو اور عبس) ہیں۔ آپ کو میری بات کیا اللہ و رسول کی باتوں اور ان کے دیئے ہوئے احکام پر اعتراض ہے تو ہماری کیا اوقات ہے۔ آپ یتیم پوتے سے لاکھ چڑیں، روئیں چلائیں، سر پھوڑیں، گالیاں دیں، اپنا اعتراض جتائیں پھر بھی یتیم پوتا اپنے دادا کا بیٹا اور اس کی حقیقی اولاد ہی رہے گا اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد اور باپ ہی رہے گا کیونکہ والد و اولاد حقیقی ہی ہوتے ہیں۔ بنا بریں وہ اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا شرعا و قانونا وارث حقدار و حصہ دار ترکہ ہے۔ اور اسے یہ حق اس کے پیدا کرنے اور یتیم بنانے والے اللہ نے دیا ہے کسی انساان کا دیا ہوا حق نہیں ہے کہ جب جیسے چاہا چھین لیا اور جو ان کے حق کو چھینتا ہے اور اسے چھیننے کی بات کرتا ہے ان سے اللہ تعالیٰ ان کے جیتے جی ان کا بیٹا ہی چھین لیتا ہے اور ان کے پوتوں کو ان کا وارث حقدار و حصہ بنا کر دکھا دیتا ہے کہ لو دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتا ہوں
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ بھی خوب کہی! ''یتیم'' کے لفظ کو غلط آپ استعمال کر رہے ہیں، اور ہمیں کہتے ہیں کہ ''آپ کی اس خوش فہمی''! آگے خود اس بات کا اعتراف بھی فرما رہے ہیں، کہ ''یتیم'' کا لفظ آپ نے اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کیا ہے، اور اس کے باوجود ہمیں کہتے ہیں کہ ''آ پ کی اس فہمی کو بھی دور کر کئے دیتا ہوں''
الجواب:
أقول:

نہیں جناب عالی میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی ہے کہ یتیم کا لفظ میں نے ایجاد کیا ہے اور اس کا معنی و مفہوم میں نے بنایا ہے۔ یہ آپ صریحی جھوٹ بول رہے ہیں۔ یتیم کا لفظ تو اللہ و رسول نے بیان کیا ہے اور اس کے مصداق کا بھی تعین اسی نے کیا ہے جس پر تبصرہ و مکمل بحث ہم نے پیچھے کی ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے باپ یا ماں کی عدم موجود گی میں یتیم کہلاتا ہے اب وہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔
جب کہ آپ اس خوش فہمی میں مبتلا ء ہیں کہ یتیم صرف وہی ہوتا ہے جو چند سال کا معصوم بچہ ہو اور اپنے باپ کے مرنے پر بغیر باپ کے اپنی ماں کی گود میں پل رہا ہو۔ تو یہ آپ کی جہالت و نادانی، بے عقلی و حماقت اور محض خوش فہمی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اس بات کی وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے یتیم پوتا کا لفظ جو استعمال کیا ہے وہ منکرین حدیث کی طرح نہیں جن کے پاس محض جذباتیت تھی جس کے چلتے انہوں نے لفظ یتیم استعمال کیا کیونکہ ان کے پاس علم ہی نہیں تھا۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ویسے یہ اوصاف آپ میں بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں! اور آپ نے بھی ''یتیم'' کے لفظ کو اپنے خود ساختہ معنی میں استعمال کرکے جذباتی نعرے بازی ہی کی ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
چونکہ آنجناب کو لفظ یتیم سے ہی نفرت و عداوت ہے اس لیئے اگر آپ صاحب اولاد ہیں تو اللہ سے ڈریں کیونکہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بچوں کو ہی یتیم بنا دے۔ یا پھر امرتسری جیسا کوئی معاملہ کردے۔
جناب عالی ہمیشہ اللہ کے اس فرمان کو ذہن میں رکھیں اور اللہ سے ڈریں اور حق و انصاف پر مبنی سچی و درست بات کہیں کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:
(وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا) (سورة النساء: 9)
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں جو یتیم کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تو صرف اس معنی میں کہ جس پوتے کا باپ زندہ نہ ہو قطع نظر اس سے کہ وہ بالغ ہو یا نابالغ اور بطور اختصار استعمال کیا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ ہوتے کون ہیں، کسی لفظ کو اس کے معنی کے مخالف بطور ''اختصار'' استعمال کرنے والے؟ آپ الفاظ کے کے معنی سے قطع نظر کرتے ہوئے، خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں، اور دوسروں کو فریب میں مبتلا کرتے ہیں! یہ زبردست بھی کہی کہ الفاظ کے معنی ومطالب سے قطع نظر کرتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ آ پ کو اپنے ہی کلام کی سمجھ نہیں، کہ آپ کلام کے معنی سے قطع نظر کرتے ہیں! اور اس کے مقتضی سے واقف نہیں ہوتے! بقول شاعر:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
میاں جی! آپ نے اپنی زبان ایجاد کی ہو، جسے آپ کے سوا اللہ ہے جانتا ہے، کہ آپ جس لفظ کو چاہیں، اس کے معنی ومطالب کے خلاف اختصاراً استعمال کر لیں! یہی معاملہ آپ کا لفظ ''ولد'' اور ''أولاد'' کے ساتھ ہے۱ مگر چلیں! آپ نے اپنے کلام میں تو یہ بیوقوفی کر ہی لی! لیکن دوسروں کے کلام پر تو اپنی خود ساختہ لغت کا اطلاق نہ کریں!

الجواب:
أقول:

جناب من!
یتیم بالغ و نابالغ دونوں کو کہتے ہیں جیسے چچا تائے اور یتیم پوتے کو اللہ نے اولاد و صلبی بیٹا کہا ہے۔ در اصل آپ کے پاس نفس مسئلہ اور اس کے دلائل کا کوئی معقول جواب ہے ہی نہیں جس کے چلتے ایسی اوچھی حرکتیں اور بیجا لفاظی کرتے ہیں۔ ہم نے آپ کی ان ساری بکواس اور لفظ والد، اولاد، ولد، اب، ابن، یتیم وغیرہ کا مفصل بادلائل جواب دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث پیچھے گذر چکی ہے لہذا اس کے اعادہ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنی بکواس جاری رکھیئے ۔ آپ کی ان نامعقول باتوں سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جذباتیت کی غرض سے نہیں کیونکہ میرے نزدیک پوتے کا نابالغ یا بالغ ہونا مسئلہ نہیں ہے
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کے نزدیک یہ مسئلہ ہو یا نہ ہو، مگر ''یتیم'' کے لفظ میں یہ مسئلہ شامل ہے، جب اس لفظ میں یہ مسئلہ شامل ہے، تو آپ کا اس لفظ کو اس کے معنی مفہوم کے خلاف استعمال کرنا لغت کے ساتھ کھلواڑ ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آں جناب کو نہ تو لغت کا پتا ہے اور نہ ہی عرف کا پتا ہے اسی لیئے آپ یہ لایعنی باتیں کر رہے ہیں۔ میرے بھائی بحث لفظ یتیم سے نہیں ہے بلکہ بحث اس بات سے ہے کہ جس پوتے کا باپ نہ ہو اس پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جب اس کا باپ نہیں ہے تو وہ یتیم ہے ۔ اور یہ بات نصوص کتاب و سنت اور عربی لغت سے ثابت ہے۔
اصل بحث کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اسی لیئے ہی آپ یتیم کے لفظ کو لیکر یہ لایعنی باتیں کیئے جا رہے ہیں اور کٹھ حجتیاں کر رہے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
کہ جو پوتا نابالغ ہو اسے یتیم کے نام پر بذریعہ وصیت بھیک دلوائے جانے کی تجویز پیش کی جائے اور چچا تایوں سے ہاتھ پاؤں جوڑا جائے کہ اس بے چارے کو کچھ بھیک دیدو اور دادا سے یہ کہا جائے کہ بیچارے اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرجاؤ۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اب دیکھیں، یہاں آپ نے محض جذباتی نعرے بازی کی ہے، اور اسی سے متصل آپ نے کہا تھا، کہ ''جذباتیت کی غرض سے نہیں''۔ آپ کے اس کلام میں جذباتیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں! ''بھیک دلوانے''، ''ہاتھ پاؤں جوڑا جائے''، ''کچھ بھیک دیدو'' بیچارے یتیم'' اس کے باوجود بھی بندہ کہے کہ جذباتیت نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ جذباتی باتیں نہیں بلکہ صورت حال ایسی ہی ہے کہ یتیم پوتے کےاصل مسئلہ یعنی اس کے استحقاق سے ہٹ کر لوگ باتیں کرتے ہیں خواہ وہ ان کے موافق ہوں یا مخالف۔ موافقین نے یتیم کے لفظ کو لیکر مسئلہ کھڑا کیا اور مخالفین نے اس پرہمدردی جتاتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ دادا کو چاہیئے کہ وہ اپنے یتیم پوتوں کے حق میں وصیت کر جائے۔ اس کے تعلق سے میں نے کہا کہ لوگ انہیں بھیک دلوانے، ان پر احسان کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں جب کہ وہ بنیادی طور پر بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے دادا کا شرعا و قانونا وارث اور حقدار و حصہ دار ترکہ ہیں۔ خواہ ان کے چچا تائے ہوں یا نہ ہوں ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں تو دادا کا وصیت کرنا حرام سمجھتا ہوں بلکہ کفر اور شرک جانتا ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کا کیا ہے! آپ اپنی کج فہمی میں کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں! کفر اور شرک کیا، آپ نے تو اللہ اور رسول کی توہین وگستاخی بھی خود ساختہ بنائی ہوئی ہے۔ آگے اس کا بیان آئے گا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
میں نے بالکل درست کہا ہے کیونکہ دادا کا اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرنے کا مطلب اللہ کی اولاد کے حق میں کی ہوئی وصیت کا انکار کرنا ہے جو کہ کفر ہے اور اس کے بعد دادا کا وصیت کرنا اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرنا ہوا جو کہ شرک اکبر ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (
ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (سورة الأنعام: 1))
یعنی جن لوگوں نے اللہ اور اس کے احکام کا انکار کیا وہی لوگ اپنے رب کی برابری کرتے ہیں۔
بعینہ یہاں معاملہ بالکل ایسا ہے کہ اولاد کے حق میں جو وصیت الٰہی ہے اس کا انکار کر کے اللہ کی برابری کرتے ہوئے یتیم پوتے کو وصیت کرنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں جذباتیت کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات نہیں کرتا بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کے حق و حصہ کی بات کررہا ہوں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
استحقاق اسی صورت ثابت ہو گا، جب قرآن و حدیث سے ثابت ہو، وگرنہ محض جذباتی نعرے بازے ہی قرار پائے گی! اور قرآن و حدیث سے پوتے، پوتیوں کا دادا کی وراثت میں استحقاق اسی صورت ثابت ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یتیم پوتے کا قرآن و حدیث سے استحقاق تو صریحی نصوص سے ثابت ہے۔ جس کا انکار یا تو کوئی جاہل و احمق ہی کریگا۔ یا قرآن و حدیث کا کوئی منکر و معاند ہی کریگا۔ (
دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!) کی گردان تو صریحی طور پر خود ساختہ، من گھڑت بے بنیاد ، انتہائی نا معقول ہے جس کا کوئی ثبوت نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہی ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی کسی حدیث میں ہی ہے اور بفرمان رسول جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ یکسر من گھڑت، باطل و مردو اور لایعنی اور سوائے بکواس کے کچھ نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کا استحقاق قرآن وحدیث سے ثابت شدہ ہے لہذا یتیمی کے نام پر یتیم پوتے کو بھیک نہ دی جائے بلکہ استحقاق کی بنیاد پر یتیم پوتے کو حق و حصہ دیا جائے
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کا قرآن وحدیث پر جھوٹ ہے! دانستہ نہیں، تو غیر دانستہ !
الجواب:
أقول:

جناب عالی!
جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں اور دانستہ طور پر اللہ و رسول پر جھوٹ بول رہے ہیں کہ (
قرآن و حدیث سے پوتے، پوتیوں کا دادا کی وراثت میں استحقاق اسی صورت ثابت ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی نرینہ أولاد نہ ہو!) یہ اللہ و رسول پر کھلا ہوا بہتان اور صریح جھوٹ اور کھلی ہوئی افترا پردازی ہے اللہ و رسول نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے ۔ اگر ہے تو پیش کیجیئے صرف دعویٰ کافی نہیں دلیل و ثبوت چاہیئے۔ جو آپ کے پاس نہ تو ہے اور نہ ہی قیامت تک آپ دے پائیں گے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کیونکہ اس کا حصہ بموجب فرمان الٰہی: (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
(نَصِيبًا مَفْرُوضًا)
یعنی اللہ کا فرض کیا ہوا حصہ(فریضہ الٰہی) ہے۔
اور بموجب فرمان الٰہی:
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ............. آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
(فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ
) یعنی اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا فریضہ (فریضہ الٰہی) ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
متعدد بار بتلایا ہے، کہ اس میں پوتے پوتیاں شامل نہیں، اور بالفرض محال آپ کے بقول ''یتیم پوتے'' کو اس میں شامل مانا جائے، تو لازم آتا ہے کہ دیگر پوتے پوتیاں بھی اس میں شامل ہوں، کیونکہ دادا ، دادا ہونے میں دیگر پوتے پوتیوں کا بھی اسی طرح دادا ہے، جیسے ''یتیم پوتا'' اور ''یتیم پوتا'' دادا کی ''أولاد'' میں شامل ہے، تو دیگر پوتے پوتیوں کا بھی دادا کی ''أولاد'' ہونا لازم آتا ہے، اور دیگر پوتے پوتیاں کا بھی ''یتیم پوتے'' کی طرح دادا کے ترکہ میں استحقاق لازم آتا ہے! اور یہ آپ مانتے نہیں! لہٰذا آپ ''یتیم پوتے'' کے استحقاق کو بیجا ثابت کرنے کی ضد میں قرآن پر اپنی خواہش کو مسلط فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
میں نے بھی متعدد بار آپ سے کہا ہے کہ لفظ اولاد میں یقینا پوتے پوتیاں شامل ہیں اور انہیں میں سے یتیم پوتا بھی ہے جو اولاد کے حق میں وصیت الٰہی میں شامل ہے۔ اور اللہ کی کی ہوئی وصیت میت کی ہر اولاد کو شامل ہے خواہ وہ بیٹا بیٹی ہوں یا پوتا پوتی، نواسے نواسی ہوں یا پڑپوتا پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی وغیرہ درجہ بدرجہ کتنے ہی نچلے درجہ کے کیوں نہ ہوں۔ اور ان سے کسی کو خارج کرنا اور پھر وصیت کرنا صریحی طور پر کفر اور شرک اکبر ہے۔ یقینا (
اللہ تعالیٰ کی وصیت ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ'' ) سب کی جامع سب کو شامل اور کامل و مکمل وصیت ہے۔ جیسا کہ محدثین و مفسرین اور شارحین حدیث نے بایں الفاظ وضاحت و صراحت کر رکھی ہے لیکن آپ جیسے جاہل و احمق، ضال و مضل شخص کو نہ تو یہ باتیں سمجھ آئیں گی اور نہ ہی آپ کے گلے سے ہی اتریں گی۔ ذرا ذیل کی یہ عبارت دیکھیئے اور غور کیجیئے اس سے آپ کے صریحی جھوٹ کا پردہ فاش ہو جاتا ہے:
(وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.
ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]
(
وَقَوْلُ اللَّهِ (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادكُم) أَفَادَ السُّهَيْلِيُّ أَنَّ الْحِكْمَةَ فِي التَّعْبِيرِ بِلَفْظِ الْفِعْلِ الْمُضَارِعِ لَا بِلَفْظِ الْفِعْلِ الْمَاضِي كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى ذَلِكُم وَصَّاكُم بِهِ وَسورَة أنزلناها وفرضناها الْإِشَارَةُ إِلَى أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَاسِخَةٌ لِلْوَصِيَّةِ الْمَكْتُوبَةِ عَلَيْهِمْ كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ قَرِيبًا فِي بَابِ مِيرَاثِ الزَّوْجِ قَالَ وَأَضَافَ الْفِعْلَ إِلَى اسْمِ الْمُظْهَرِ تَنْوِيهًا بِالْحُكْمِ وَتَعْظِيمًا لَهُ وَقَالَ فِي أَوْلَادِكُمْ وَلَمْ يَقُلْ بِأَوْلَادِكُمْ إِشَارَةً إِلَى الْأَمْرِ بِالْعَدْلِ فِيهِمْ وَلِذَلِكَ لَمْ يَخُصَّ الْوَصِيَّةَ بِالْمِيرَاثِ بَلْ أَتَى بِاللَّفْظِ عَامًّا)
(
لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل)
[فتح الباري شرح صحيح البخاري، لمؤلفه: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي]

اب اگر آپ کی جہالت و حماقت اور ضلالت کا یہ جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے تو پھر آخر کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ جس کسی کو گمراہ کرتاہے تو اس کی عقل کو چھیننے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھ کی داخلی بینائی بھی چھین لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ در اصل انسان کا دل اندھا ہوتا ہے جس کے چلتے اس کی آنکھیں بھی اندھی ہو جایا کرتی ہیں۔
اللہ کی شریعت قرآن وحدیث میں وصیت غیر اولاد و غیر وارث کے حق میں جائز ہے اولاد و وارث کے حق میں حرام ہے۔

*-----------------------------------------
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو
اس کا مطلب میں نے بتایا تھا کہ یتیم پوتے کا مسئلہ دو صورتوں میں پیش آتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ یتیم پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کی دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہو۔
تو دونوں صورتوں میں یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے تو جب باپ نہ رہے اور چچا تائے رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ رہیں تو بھی یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت ہونے کے سبب اپنے باپ و والد دادا کا وارث، اس کے ترکہ و میراث میں حقدار ہے۔ یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کا بیان کردہ مطلب باطل ہے، اس کا بطلان تفصیل کے ساتھ اوپر بیان ہوا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
یہ مطلب تو صحیح بخاری کے باب کے ان الفاظ سے نکلتا ہے: (
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی جس پوتے کا باپ نہ ہو وہ پوتا اپنے دادا کا وارث ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کچھ تو پیچھے گذرچکی ہے اور کچھ آئندہ بھی آرہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر نے لفظ (ابن) کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن سے مراد میت کی صلبی اولاد یعنی اس کا بیٹا جو پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہے تو جب پوتے کا باپ نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ پہلی صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ ہوگا۔ اور دوسری صورت میں بمنزلہ اولاد ہونے کے بطور قائم مقام نہیں بلکہ مثل ایک بیٹے کے ہوگا۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
حافظ اب حجر کی شرح کی پر مفصل بحث ہو چکی، اور اس پر آپ کی فہم کا بطلان بھی تفصیلاً بیان کیا جا چکا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
حافظ ابن حجر کی شرح پر ہم نے بھی تفصیلی گفتگو کر کے اس مسئلہ کو بالکل واضح کردیا ہے اور یہ مسئلہ تو صحیح بخاری کے باب کے ان الفاظ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے: (
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی جس پوتے کا باپ نہ ہو وہ پوتا اپنے دادا کا وارث ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کچھ تو پیچھے گذرچکی ہے اور کچھ آئندہ بھی آرہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح میں نے کہا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔
اس پر آپ لکھتے ہیں:

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس پر ہمارے کلام سے اقتباس پیش کیا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس پر آپ لکھتے ہیں:
تو پھر صرف یتیم پوتا ہی کیوں، یوں تو دادا تمام پوتے پوتیوں کا اسی طرح والد ٹھہرتا ہے، جیسے بقول آپ کے وہ چچا اور تایا کا والد ہے، اور پھر دادا کی وراثت میں اللہ کا فرض کیئے ہوئے، فریضہ الہی میں جملہ اولادوں میں تمام پوتے پوتیاں کا حصہ اسی طرح لازم آتا ہے، جیسے دادا کے بیٹے بیٹیوں کا!
میرے بھائی! آپ ''اولاد '' کے اپنے خود ساختہ مفہوم کی وجہ سے ایسی بے سرو پا باتیں کیئے جا رہے ہیں!

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس پر آپ فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم ابن داود صاحب!
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا تو حال یہ ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم اور مصداق جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہے۔ آپ نہ تو حدود الٰہی کا معنی و مفہوم جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی فریضہ الٰہی کو ہی سمجھ پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ نے اپنی ان ہفوات کو پہلے بھی بیان کیا تھا، وہاں ہم نے اس پر کلام کیا ہے، دوبارہ اسے رقم کرنے کی حاجت نہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در اصل آپ ہیں کہ اللہ و رسول کی کہی ہوئی باتوں کو ہفوات کہہ کر رد کر رہے ہیں اور جو آپ کی ہفوات ہیں اسے وحی الٰہی کا درجہ دیئے ہوئے ہیں۔ آپ کے پاس سوائے کٹھ حجتی اور بکواس کے ہماری بات کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بے سروپا باتیں تو آپ کیئے جارہے ہیں اور ایک ایسے مسئلہ میں جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث رسول سے ۔ بلکہ یہ تو بالکل ہی ایک منگھڑت مسئلہ ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس پر مجھے ایک حکایت یاد آئی؛
یہ ایک خوبصورت و جوان مرد کا گزر ایک ایسے گاؤں سے ہوا، کہ جہاں سب نکٹے یعنی ناک کٹے رہتے تھے! گاؤں والوں نے جب سوچا کہ یہ خوبصورت و جوان مرد کہیں ان کا مذاق نہ اڑائے، کہ وہ سب نکٹے ہیں، تو گاؤں والوں نے خود اس خوبصورت وجوان مرد کو ''نکٹا ہے، نکٹا ہے'' پکارنا شروع کر دیا!
یہی حال آپ کا ہے، کہ آپ نے ایک مسئلہ اپنی خواہشات کی پیروی میں گڑھ لیا، اور قرآن وحدیث سے ثابت مسئلہ کو منگھڑت کہنے لگے ہیں!

الجواب:
أقول:

جناب من آپ اپنی کیفیت کی ترجمانی اس حکایت کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ یہ آپ ہیں کہ ایک من گھڑت اور خود ساختہ مسئلہ کو (قرآن وحدیث سے ثابت مسئلہ) سمجھ لیا ہے جس کی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اس کی احادیث صحیحہ میں ہی ہے۔ یہ من گھڑت اور خود ساختہ مسئلہ جسے آپ نے (قرآن وحدیث سے ثابت مسئلہ) سمجھ رکھا ہے وہ چونکہ آپ کی خواہش نفس کے مطابق ہے اس لیئے وہ آپ کے نزدیک صحیح ہے۔ جس کی دلیل نہ تو اللہ کی کتاب میں ہے اور نہ ہی اس کی احادیث صحیحہ میں ہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ سے اس مسئلہ پر دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ وہ دے نہیں پارہے ہیں البتہ ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
دلیل تو آپ کو دی گئی ہے، مگر آپ کے دماغ پر اپنی بکواسیات اس قدر سوار ہیں، کہ آپ کو ان کے علاوہ سب ''ہانکی ہوئی'' گمان ہوتی ہیں!

الجواب:
أقول:

جناب من!
دلیل صرف اللہ کا کلام اور رسول کا فرمان ہوتا ہے جو کہ آپ کے پاس نہیں ہے سوائے بہکی بہکی باتوں کے تو ادھر ادھر کی بہکی بہکی باتیں دلیل نہیں ہوا کرتیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ اولاد کے جس معنی و مفہوم کو خود ساختہ قرار دے رہے ہیں اور اسے بے سر و پا باتیں کہہ رہے ہیں وہ محض اس لئے ہے کہ آپ نہ قرآن کی آیتوں پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اور آپ تقلید جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو قرآن و حدیث کی سیدھی سادی باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں۔آپ تو صحیح ڈھنگ سے اردو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ آپ تو (آپ و تم، ہیں اورہو ) میں بھی فرق وتمیز نہیں کر پارہے ہیں۔ تو قرآن و حدیث کیا خاک سمجھیں گے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس پر ہم کلام کر چکے ہیں! تقلید کی بیماری پر بھی، اردو پر بھی، اور قرآن وحدیث پر توجہ دینے پر بھی!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ اپنی نامعقول باتوں کو جواب قرار دے رہے ہیں ۔ اور ہمارے سوال کا جواب آپ کے پاس ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ آپ کا قرآن وحدیث پر توجہ دینا تو محض ایک ڈھونگ اور دکھاوا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اولاد کا جو مفہوم و معنی ہم نے بیان کیا ہے وہ میرا اپنا گھڑا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث اور تفاسیر و شروح احادیث میں لکھا ہو اہے اور وہ مفہوم عربی لغات میں بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ اولاد و والد میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا تعلق توالد و تناسل کی بنیاد پر ہو اب وہ خواہ مذکر ہو (یعنی بیٹا، پوتا نواسا، پڑ پوتا، پڑنواسا درجہ بدرجہ نیچے تک)۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
قرآن وحدیث میں تو یہ معنی ومفہوم نہیں، اس پر تفصیلی بحث گزری!
تفاسیر وشرح سے آپ کیسے حجت قائم کر رہے ہیں؟ آپ کے نزدیک تو ان کی بات سے اتفاق بھی مفسرین و شارحین کی تقلید قرار پاتا ہے! اور لغت اور وہ بھی عربی لغت کا تو آپ نام ہی نہ لیں! آپ تولغت میں بھی ''قطع نظر'' کرتے ہوئے ''اختصار'' فرماتے ہیں! میاں جی! معاملہ یہ ہے کہ آپ تفاسیر، شرح و لغت میں ''معنی مجاز'' سے ''قطع نظر'' کرتے ہوئے ''اختصار'' فرماتے ہوئے، تمام ''ذریت'' کو ''حقیقی أولاد'' سمجھا ہوا ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
چونکہ آپ کا قرآن وحدیث سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے اسی لیئے آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے جس کے چلتے آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ (
قرآن وحدیث میں تو یہ معنی ومفہوم نہیں) چونکہ آپ کا قرآن وحدیث کا نام لینا تو محض ایک ڈھونگ اور دکھاوا ہے۔ اسی لیئے آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے ورنہ آپ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ (قرآن وحدیث میں تو یہ معنی ومفہوم نہیں)۔ اس پر تو یہ مقولہ صادق آتا ہے : (گر نہ بیند بروز شب پرہ چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ)۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم سب کو (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرمایا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کو لاحق نسیان کا مرض بھی بہت سنگین ہے! آپ خود ''ابن'' اور ''ولد'' میں فرق بیان کر آئے ہیں، اور یہاں ''ابن'' سے ''ولد'' کا لازم آنا کشید فرما رہے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
در حقیقت آپ اس مرض کا خود شکار ہیں ۔ اور یہی نہیں آپ کی جہالت و حماقت کے ساتھ یہ بدبختی بھی لاحق ہے کہ آپ اللہ کے کلام کو بھی میری کہی ہوئی بات قرار دے رہے ہیں۔ (یا بنی آدم ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو مراد لیا ہے اور مخاطب فرمایا ہے۔ اور آپ اسے میرا کشیدہ کہہ رہے ہیں۔ ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے آپ کتنا اور کس کس پر جھوٹ بولیں گے؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح مونث (یعنی بیٹی، پوتی نواسی، پڑپوتی پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک اور ان کی اولادیں) بھی اولاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو (ابنای) یعنی میرے دونوں بیٹے اور حسن کو (ابنی ہذا) یعنی میرا یہ بیٹا جبکہ وہ ان کے نواسے تھے
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ایک بار پھر عرض ہے، یہاں ''ابن'' کہا ہے ''ولد'' نہیں!
الجواب:
أقول:

در اصل آپ کو نہ تو ابن کا معنی و مفہوم اور مصداق معلوم ہے اور نہ ہی ولد کا معنی و مفہوم اور مصداق ہی معلوم ہے۔ اسی لیئے آپ برابر اس لفظ کو لیکر بکواس کیئے جارہے ہیں۔ اور آپ کے پاس سوائے کٹھ حجتی اور بکواس کرنے کے دوسرا کام ہے ہی نہیں۔
آپ جیسے جاہل اور احمق شخص کا جواب یہ ہے کہ یہاں ابن سے مراد اولاد و بیٹا دونوں ہی ہے۔ اللہ کے رسول نے اپنے نواسوں کو (ابن) یعنی بیٹا کہہ کر اپنی اولاد و بیٹا دونوں معنی مراد لیا ہے ۔ کیونکہ بیٹا اپنی اولاد کو بھی کہتے ہیں اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی اولاد کو بھی کہتے ہیں ۔ اور اپنے بیٹے بیٹیاں بھی اولادیں و بیٹے بیٹیاں ہیں اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی اولادیں بھی اولادیں و بیٹے بیٹیاں ہیں۔ اور آپ جیسے جاہل، احمق لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئیں گی۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور خود اپنے بارے میں فرمایا: (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ جب کہ عبد المطلب ان کے دادا تھے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ایک بار اور عرض ہے، یہاں ''ابن'' ہے ''ولد'' نہیں!
الجواب:
أقول:

آپ جیسے جاہل اور احمق شخص کا جواب یہ ہے کہ یہاں ابن سے مراد اولاد و بیٹا دونوں ہی ہے۔ اللہ کے رسول نے اپنے آپ کو (انا ابن عبد المطلب) یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ کہہ کر اپنے دادا کی اولاد و بیٹا دونوں کہا ہے ۔
(ابن عبد المطلب) یعنی خود کو عبد المطلب کا بیٹا کہہ کر اپنے کو اپنے دادا کی اولاد و بیٹا دونوں ہونا مراد لیا ہے ۔ کیونکہ بیٹا اپنی اولاد کو بھی کہتے ہیں اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی اولاد کو بھی کہتے ہیں ۔ اور اپنے بیٹے بیٹیاں بھی اولادیں و بیٹے بیٹیاں ہیں اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی اولادیں بھی اولادیں و بیٹے بیٹیاں ہیں۔ لیکن آپ جیسے جاہل، احمق لوگوں کو یہ بات سمجھ آنے والی نہیں ہے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ سب قرآن و حدیث کی باتیں ہیں میری خود ساختہ نہیں یہ آپ کی میرے اوپر افترا پردازی ہے۔ جس کا آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
آپ کو اللہ کے سامنے ہم پر افترا پردازی کی تہمت دھرنے کا جوابدہ ہونا ہوگا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ اللہ و رسول پر افترء پردازی کر رہے ہیں اور ایک جھوٹی، من گھڑت بات کو اللہ و رسول کی طرف منسوب کر رہے ہیں جو اللہ و رسول نے نہیں کہی ہے اور ایسی شرط جو کہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت و احادیث میں کہیں نہیں ہے اپنے طور پر گھڑ بناکر اللہ سے منسوب کر رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کسی کا کسی کا والد یا اولاد ہونا اور والدیت اور ولدیت کا رشتہ توالد و تناسل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زندگی و موت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جب تک ان میں کا کوئی زندہ ہو تا وہ والد و اولاد رہے اور کوئی وفات پا جائے، مر جائے تو پھر وہ ختم ہوجائے۔ آپ یہ بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کو کس نے کہا کہ مرنے کے بعد ولد و والد کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے؟
آپ اپنے تئیں ہی، ایک بات گما کرتے ہیں، اور دوسروں کو کوسنے دینے شروع کر دیتےٓ ہیں!
مجھے تو ڈر ہے کہ ہم نے اگر آپ سے ''توالد'' اور تناسل'' پر بحث کی تو آپ نے یہاں بھی ان کے معنی و مفہوم سے ''قطع نظر'' کرتے ہوئے، ''اختصار'' کے ساتھ اپنی خواہش کے موافق معنی و مفہوم کشید کرنے ہیں!
اب دیکھیں: قرآن میں اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے:

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿سورة الأنعام 101﴾
وه آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اوﻻد کہاں ہوسکتی ہے حاﻻنکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وه ہر چیز کو خوب جانتا ہے ﴿ترجمہ: محمد جونا گڑھی
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اللہ کا ''ولد'' کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ اس کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی ہی نہیں! معلوم ہوا کہ ''ولد'' کے وجود کے لئے ''صاحبہ'' یعنی بیوی کا وجود ضروری ہے!
اور ''ولد'' اس کا ہوگا، جس کی ''صاحبہ'' ہو گی! اور ''ولد'' اسی کا ہو گا، جس کی وہ ''صاحبہ'' ہوگی!
''پوتا'' دادا کے بیٹے کا ''ولد'' ہے، کہ دادا کے بیٹے کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی کے بطن سے پیدا ہوا!
لیکن ''دادا'' کا ''ولد'' نہیں، کہ وہ جس کے بطن سے پیدا ہوا، وہ ''دادا'' کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی نہیں!
''پوتے'' کو دادا کا ''ولد'' کہنے سے لازم آتا ہے کہ جس کے بطن سے وہ پیدا ہوا، اسے دادا کی ''صاحبہ'' یعنی بیوی قرار دیا جائے! اور یہ محال ہے!
لہٰذا ''پوتا'' دادا کا ''ولد'' نہیں! یعنی ''حقیق ولد'' نہیں، بلکہ بسا أوقات ''بمنزلہ ولد'' قرار پاتا ہے! یا معنی مجاز میں مستعمل ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من یہ بھی آپ کے پاگل پن اور جہالت و حماقت کا ایک بڑا ثبوت ہے جو آپ پیش کر رہے ہیں۔ در اصل آپ اپنے اس خبط کو یہاں پیش کر رہے ہیں جو آپ کے سر پر سوار ہے۔ اور وہ خبط یہی ہے کہ پوتا دادا کی اولاد نہیں جیسا کہ آپ نے کہا: (''پوتا'' دادا کا ''ولد'' نہیں! یعنی ''حقیق ولد'' نہیں) نیز یہ کہ (''ولد'' اس کا ہوگا، جس کی ''صاحبہ'' ہو گی! اور ''ولد'' اسی کا ہو گا، جس کی وہ ''صاحبہ'' ہوگی!)
تو آپ اس فرمان الٰہی کے بارے میں کیا کہیں گے (
وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ (سورة هود: 71))
یعنی ہم نے ابراہیم اور اس کی بیوی کو اولاد کی خوشخبری دی بیٹے اسحاق اور اس کے بیٹے یعنی پوتے یعقوب کی۔
تو جناب من یہ بتائیں تو سہی کہ جب آپ کے بقول اولاد اور حقیقی اولاد ہونے کے لیئے بیوی کا بطن لازم ہے تو کیا یعقوب کی ماں۔ ابراہیم کی بیوی تھی۔ کہ اللہ نے یعقوب کو ابراہیم کی اولاد کہا یا اسحاق کی بیوی تھی۔ یا پھر اسحاق و یعقوب دونوں ہی ابراہیم کی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یعقوب کو ابراہیم کی اولاد و بیٹا کہا۔
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے:
(
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ (سورة النحل: 72))
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تمہیں میں سے تمہاری بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے بیٹے پوتے نواسے وغیرہ بنائے ۔
تو کیا بیویاں اپنے شوہروں کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور کیا ایک ہی بیوی کے بطن سے بیٹے پوتے سب پیدا ہوتے ہیں؟۔
اگر کسی کاولد ہونے کے لیئے صاحب اور صاحبہ لازم ہے تو آدم کا جو وجود ہوا تو ان کے وجود میں کون صاحب اور صاحبہ تھے اور حواء کس صاحبہ سے پیداہوئیں اسی طرح عیسی علیہ السلام کی ماں کس کی صاحبہ تھیں۔
آں جناب کی پیش کردہ اور مستدل آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف یہ بتانا چاہا ہے کہ اللہ کا کوئی بیٹا بیٹی نہیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کہتے تھے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں، فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔
تو اس پر اللہ نے کہا کہ نہیں اللہ کا کوئی بیٹا بیٹی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے اور جب بیوی نہیں ہے تو اولاد کیسے ہو سکتی ہے۔
بس اس ذرا سی بات ہے کو لیکر آنجناب اڑنے لگےاور فلسفہ بگھاڑنا شروع کردیا اور اپنی بکواس میں لگ گئے۔ محض یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد اور حقیقی اولاد نہیں بلکہ مجازی اولاد ہے۔کیونکہ ولد ہونے کے لیئے صاحبہ یعنی بیوی ہونا لازم ہے۔ جیسا کہ کہا کہ (
معلوم ہوا کہ ''ولد'' کے وجود کے لئے ''صاحبہ'' یعنی بیوی کا وجود ضروری ہے! ''ولد'' اس کا ہوگا، جس کی ''صاحبہ'' ہو گی! اور ''ولد'' اسی کا ہو گا، جس کی وہ ''صاحبہ'' ہوگی!)
جب ولد کے لیےصاحبہ ضروری ہے تو آدم علیہ السلام کس صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اور حواء کس صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔
اللہ کا فرمان ہے: (
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورة القصص: 68))
ترجمہ: اور تمہارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کرلیتا ہے انکو اس کا اختیار نہیں ہے یہ جو شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک و بالاتر ہے
یعنی اللہ رب العالمین کا کسی کو پیدا کرنا کسی خاص شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے بلکہ اس کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ہے۔ ہمارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جیسے جس طرح چاہتا پیدا کرتاہے۔
البتہ اس نے تخلیق انسانی کا ایک خاص نظام بنادیا ہے جس کے تحت انسانی نسل کا تسلسل جاری ہے اور توالد و تناسل کے نظام کے تحت اولاد و والدیت کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور نسل در نسل چلتا ہے تو ایک طرف درجہ بدرجہ اوپر تک والدین ہوتے ہیں تو اسی کے بالمقابل دوسری طرف نسل در نسل، درجہ بدرجہ نیچے تک اس کی اولادیں ہوتی ہیں ۔ اور سب کے سب حقیقی اولادیں اور حقیقی والدین ہی ہوتے ہیں ان میں کوئی بھی مجازی نہیں ہوتا ہے۔
آپ نے کہا (
''پوتا'' دادا کا ''ولد'' نہیں! یعنی ''حقیق ولد'' نہیں) تو پھر کیا وہ دونوں آپس میں بھائی بھائی ہیں یا ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اب اگر کسی جاہل اور احمق شخص کو نہ تو اولاد و ولد کا صحیح معنی و مفہوم اور مصداق ہی معلوم ہو اور نہ ہی حقیقت و مجاز کی حقیقت معلوم ہو تو ایسا جاہل اور احمق شخص سوائے بکواس کے دوسرا کچھ کر بھی کیا سکتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کی باتیں سوائے پاگل کی بڑ کے اور کچھ نہیں ہوا کرتی ہیں۔
بار بار بتایا جا رہا ہے کہ باپ ماں ہوں یا دادا دادی ہوں یا پرداداپردادی ہوں یا نانا نانی ہوں سب کے سب درجہ بدرجہ اوپر تک حقیقی والدین ہیں اور اسی کے بالمقابل بیٹا بیٹی، پوتا پوتی نواسا نواسی، پڑپوتا پڑپوتی، پرنواسا پر نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی ان کی کی حقیقی اولادیں ہوتی ہیں ۔ اب کسی جاہل اور احمق شخص کو یہ بنیادی باتیں سمجھ میں نہ آرہی ہوں تو ایسے لوگوں کی عقل وخرد پر سوائے رونے اور افسوس کرنے کے کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
لا شك فيه!
آپ چونکہ مولانا امرتسری وغیرہ کی تقلید کر رہے ہیں اور ان کی تقلید میں اندھے ہوکر یہ ساری بکواس کئے جا رہے ہیں
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
مولانا امرتسری وغیرہ کے حوالہ سے تفصیل بیان ہو چکی!
آپ اپنی ان بکواسیات سے باز ہی رہیں، تو بہتر ہے!

الجواب:
أقول:

جب آپ بکواس کریں گے تو آپ کی بکواس کا جواب تو دیا ہی جائے گا۔ اورمولان امرتسری کے تعلق سے ہم نے بھی چند باتیں گوش گذار کردی ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور میرے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں کہ (جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا تھا جو بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟)
قوله:
(ابن داود نے کہا ہے):
آپ کے اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے، مگر آپ کو اس کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا، ایک بار پھر اس کا مفصل بیان آئے گا!
الجواب:
أقول:

جناب من!
میرے اس سوال کا آپ کیا کسی کے پاس بھی جواب نہیں ہے۔ آپ کیا جواب دینگے یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں نے صحیح بخاری کے یتیم پوتی کواس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے حصہ دیئے جانے سے متعلق ایک حدیث پیش کی اور لکھا:
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔

Click to expand...
یہ بات بھی آپ کے پلے نہیں پڑی اور آپ اس پر تبصرہ کرنے بیٹھ گئے چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
میرے بھائی! اتنی قیاس آرئیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے یہ تو بتائیے کہ اس حدیث میں جس کی وراثت تقسیم ہوئی، اس کا کوئی بیٹا موجود تھا؟ جب دادا کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا، تو مذکورہ شرط تو اسی طرح پوری ہوئی، جیسے ہم نے بیان کیا ہے! کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
پھر آنجناب لکھتے ہیں:
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس حدیث میں آپ کو میت کا کوئی بیٹا نظر آرہا ہے، کہ ہمارا مدعا اس حدیث سے غلط ثابت ہو، اور آپ کا درست ثابت ہو جائے! آپ میت کی، یعنی کہ دادا کی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کی وراثت کے ثبوت پر، بیٹے کی موجودگی میں بھی پوتے، پوتی کی وراثت کے کو قیاس فرما رہے ہیں! اور آپ کا یہ قیاس باطل ہے!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آنجناب کا مبلغ علم بس صرف اتنا ہی ہے اور آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کا یہ عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا کہ جب میت کی صرف مونث اولادیں ہوں(نساء) اور کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب ایسی صورت میں ان کا مجموعی حصہ دو تہائی(ثلثان) ہے اور آپ ہیں کہ اس میں بیٹا تلاش کر رہے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
سیدھا سیدھا کہیئے، کہ یہاں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی، اور صرف ایک بیٹی تھی، یعنی پوتے پوتیوں کے حق وراثت کے اثبات کی شرط، کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو، پوری ہوتی ہے، لہٰذا پوتی کا دادا کے ترکہ میں حصہ و حق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار دیا! یہ اگلی بحث ہے، کہ پوتے پوتیوں کا کتنا حصہ بنتا ہے! اور آپ اس معاملہ میں بھی ''قطع نظر'' فرما رہے ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
اللہ سے ڈریئے اور جھوٹ بولنے سے باز رہیئے۔ کم از کم اللہ و رسول پر تو جھوٹ نہ بولیئے۔ آں جناب کا یہ کہنا کہ (
یہاں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی، اور صرف ایک بیٹی تھی) اللہ کے رسول پر صریحی جھوٹ بولنا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: (قَضَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - «لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلاِبْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ ».)
اس حدیث میں صاف طور پر مذکور ہے کہ میت کی اولاد میں ایک بیٹی، اور ایک یتیم پوتی تھی جنہیں ایک سے زیادہ مونث اولاد کے مشترکہ حصے دو تہائی میں سے دیا گیا۔
اسی لئے راوی کہتے ہیں کہ یتیم پوتی کو جو حصہ دیا گیا وہ ایک سے زیادہ مونث اولاد کے دو تہائی حصہ کی مقدار کو پوری کرنے کے لیئے تھا۔
یہ تو اللہ کے رسول کی حدیث تھی اب آئیے میں آپ کے سامنے اللہ کا فرمان پیش کر رہاہوں جو اس نے اولاد کے بارےمیں جاری کیا ہے اور کسی مذکر اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے صرف مونث اولاد کا حق و حصہ محدود طور پر بیان فرمایا ہے کہ اگر مونث اولاد ایک سے زیادہ ہوں تو ان سب کے لیئے مشترکہ طور پر (
ثُلُثَا) دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر صر ف ایک مونث اولاد ہو تو اس کے لیئے (النِّصْفُ ) یعنی آدھا حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ) (سورة النساء: 11))
یہاں پر آن جناب نے اللہ و رسول دونوں پر جھوٹ بولا اور دونوں کو جھوٹا ثابت کیا۔ جیسا کہ آں جناب نے کہا : (
یہاں دادا کی مذکر أولاد نہیں تھی، اور صرف ایک بیٹی تھی) اللہ کے رسول پر صریحی جھوٹ بولنا ہے۔ جبکہ آیت میں تو بیٹے بیٹی کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ صرف اور صرف اولاد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اولاد میں بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی سب آتے ہیں جب اولاد میں مذکر مونث دونوں ہوں تو ان کا حکم الگ ہے۔ اور جب صرف مذکر ہوں تو ان کا الگ حکم ہے اور جب صرف مونث ہوں تو ان کا حکم الگ ہے۔
اگر یہی مسئلہ اس طرح ہوتا کہ میت کا ایک بیٹا ہوتا اور ایک یتیم پوتا ہوتا اور ایک سگی بہن ہوتی تو اس کی تقسیم یوں ہوتی کہ ترکہ کے دو حصے کیئے جاتے اور ایک حصہ بیٹے کو ملتا اور ایک حصہ یتیم پوتے کو ملتا اور سگی بہن کو کچھ بھی نہ ملتا۔
اب یہاں جناب عالی کھلا ہوا جھوٹ بول رہے ہیں کہ (
صرف ایک بیٹی تھی) جب کہ دو مونث اولاد تھی ایک بیٹی اور ایک یتیم پوتی اور ان دونوں کے حصوں کا مجموعہ ((ثُلُثَا) یعنی دو تہائی حصہ) بنتا ہے جو ایک سے زیادہ مونث اولاد کا مشترکہ طور پر (ثُلُثَا) دو تہائی حصہ ہوتا ہے۔
اللہ و رسول کے دین اور اس کی شریعت میں اس طرح کی بد دیانتی فریب بازی تو شاید یہودی بھی نہ کیئے ہونگے ۔ جس کا مظاہرہ آنجناب نے یہاں کیا ہے بھر بھی دعویٰ اہل حدیث، اہل حق اور ہدایت یافتہ ہونے کا؟۔ ایں خیال است محال است و جنوں۔
اللہ تعالیٰ نے تو بیٹا بیٹی کا نام تک نہیں لیا ہے جو کچھ بھی کہا ہے وہ اولاد کا لفظ ہے جیسا کہ فرمایا: ((
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ) (سورة النساء: 11)))
اس آیت میں مذکور لفظ (
أَوْلَادِكُمْ) بیٹا بیٹی، پوتا پوتی وغیرہ سب کو شامل اور سب کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔
اسی بنا پر اللہ کے رسول نے مونث اولاد کے مشترکہ حصہ دو تہائی حصہ میں سے آدھا حصہ بیٹی کو دیا اور جو ایک چھٹا حصہ باقی بچ رہا تھا وہ یتیم پوتی کو دیا جیسا کہ حدیث کے اندر مذکور ہے۔
اور اس سے بھی بڑا جھوٹ، فریب بازی اور افتراء پردازی آں جناب نے یہ کی ہے کی ایک من گھڑت خود ساختہ شرط کو اللہ و رسول کی طرف منسوب کرنے کی جرات کرڈالی چنانچہ لکھتے ہیں: (
پوتے پوتیوں کے حق وراثت کے اثبات کی شرط، کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو) یہ شرط نہ تو اللہ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے اور نہ ہی اس کے رسول نے اپنی احادیث صحیحہ میں بیان فرمائی ہے۔ تو پھر یہ شرط آئی کہاں سے ؟ ظاہر بات ہے کہ شیطان کی طرف سے ہی آئی ہوئی ہے کیونکہ جو شرط نہ قرآن میں ہو اور نہ ہی احادیث صحیحہ میں مذکور ہو وہ شیطانی شرط ہی ہو سکتی ہے۔ اور اللہ کا فرمان ہے کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل و مردود ہے پس ایسی ہزار شرطیں لگائی جائیں۔وہ سب کی سب باطل و مردود ہی قرار پائیں گیں۔
آں جناب نے ایک اور جھوٹ بولا وہ یہ ہے کہتے ہیں: (
آپ اس معاملہ میں بھی ''قطع نظر'' فرما رہے ہیں!)
جب کہ یہ کارنامہ آنجناب نےخود ہی انجام دیا ہے کہ صرف بیٹی کا ذکر کیا اور یتیم پوتی کو حق و حصہ دینے کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ اس کے ذکر کو اس کے پورے حق و حصہ کے ساتھ پورے کا پورا ہڑپ کر گئے اور ڈکار تک نہ لی۔
در اصل یہی وہ گمراہیاں اور برائیاں ہیں جو تقلید جیسے مہلک مرض سے پیدا ہوتی ہیں جب کوئی کسی کی تقلید کرتا ہے تو سب سے پہلے آدمی عقل کا اندھا ہوتا ہے۔ پھر آنکھ کا بھی اندھا ہو جاتا ہے اس کے بعد آدمی جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے، نیز فریب بازی بھی کرتا ہے ، بد دیانتی کا بھی مرتکب ہوتا ہے، اس کے دل سے اللہ و رسول، اور یوم آخرت میں جوابدہی کا ڈر و خوف بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس کے دل سے دین و ایمان سب کچھ نکل جاتا ہے۔ اللہ بچائے تقلید سے اور تقلید کرنے والوں سے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ تو قیاس کا بھی معنی و مفہوم نہیں سمجھ رہے ہیں۔
میرے بھائی! جب دو چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں تو ایک کو دوسرے پرقیاس کیا جاتا ہے۔ یتیم پوتے پر ہی قیاس کرکے دادا کو اس کا والد و باپ مان کر اس کے یتیم پوتے کا وارث حقدار و حصہ دار قرار دیا گیا اور اجماع و اتفاق ہوا۔ یہ سب تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں جانتے سمجھتے کچھ نہیں۔ بس آپ کو جواب دینے کا شوق ہے اسی لئے میرا جواب دینے بیٹھ گئے اور لکھنا شروع کردیا۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اس معاملہ میں آپ کا قیاسی گڑبڑ گھٹالا اوپر بیان ہو چکا ہے! ویسے آپ کے کلام میں اس قدر تضاد پایا جاتا ہے کہ بندہ کس کس کو بیان کرے! ایک طرف آپ علماء وفقہاء کے اقوال و فتاوی کو ''قیاسی'' کہہ کر رد کرتے ہیں، اور دوسری طرف دادا کی پوتے کے ترکہ میں حصہ و حق کو ''قیاس'' سے ثابت کرتے ہیں، اور اب ہمیں قیاس سمجھانے لگے ہیں!جب میں نے آپ کا جواب لکھنا شروع کیا تھا، خیال تھا کہ صاحب کچھ ''علمی لیاقت'' اور علمی دیانت'' کے حامل ہوں گے، مگر ہمارا یہ خیال باطل ثابت ہوا! اگر ہمیں پہلے سے یہ اندیشہ ہوتا، تو آپ کی بکواسیات کے پر اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے: ﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾
اور اب بھی پیش نظر یہی نکتہ ہے، کہ آپ کے موقف کا بطلان قارئین کے لئے بیان کر دیا جائے! وگرنہ آپ کے کلام کے پیش نظر آپ سے تو کوئی امید نہیں، کہ آپ کا تو حال یوں معلوم ہوتا ہے کہ عقل و فہم سے دشمنی اختیار کی ہوئی ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ نے تو میرے منھ کی بات چھین لی ہے۔ در اصل میں تو کفایت اللہ سنابلی صاحب سے مخاطب تھا لیکن جب آپ نے دلال بن کر اس بحث میں مداخلت کرتے ہوئے بن بلائے مہمان کی طرح کود پڑے اور بیجا بحث شروع کی اور پھر جواب پر جواب دینے لگے۔ جب آں جناب نے میرا جواب دینا شروع کیا تو اول اول میرا خیال یہی تھا کہ آں جناب کے پاس کچھ تو علمی صلاحیت ہوگی یا معاملہ فہمی کا کچھ تو شعور ہوگا لیکن آپ کا تو یہ حال رہا کہ آپ نرے جاہل اور اندھے مقلد ثابت ہوئے اور میرا آپ کے تعلق سے یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ آپ کچھ عقل و فہم رکھتے ہونگے اور کچھ نہ کچھ علمی لیاقت رکھتے ہونگے اور کچھ نہ کچھ علمی دیانت کا ثبوت دینگے لیکن جب آپکی تحریریں سامنے آنے لگیں اور آپ کی جہالت، و حماقت کے نمونے دیکھنے کو ملنا شروع ہوئے تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ تو میرا یہ خیال خیال خام ثابت ہوا۔ اگر ہم کو آپ کی جہالت و حماقت اور تقلید پرستی کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو ہم آپ کو منھ تک نہ لگاتے اور آپ کو بکواس کرنے کا ذرا بھی موقع نہ دیتے اور اللہ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے آپ کو مع السلامہ کہہ دیتے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے: (
﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾) یعنی جب اللہ کے مومن بندوں کو جاہل(و احمق )لوگ مخاطب کرتے ہیں تو وہ انہیں سلام کہہ کر ان سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یتیم پوتے کے تعلق سے اس درجہ گمراہی پھیلائی گئی ہے کہ لوگ اسی کو اللہ کی شریعت اور قانون سمجھتے ہیں اور اپنوں اور بے گانوں سب کی اس مسئلے میں ایک ہی رٹ ہے کہ یتیم پوتا اسی صورت میں اپنے دادا کا وارث ، اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا جب دادا کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہے گا۔ کیونکہ وہ اپنے دادا کی حقیقی اولاد نہیں ہے بلکہ مجازی اولاد ہے۔
جب کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ ہی یتیم پوتی کو مونث اولاد کے اس مشترکہ حصے سے حصہ دیا جو کہ ایک سے زیادہ مونث اولاد (بیٹیوں ) کا ہوتا ہے۔ بنا بریں یتیم پوتا میت کے دوسرے بیٹوں (چچا تائے)کے ہوتے ہوئے اپنے دادا کا وارث ، اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا کیونکہ وہ بھی میت کی اولاد میں سے ہے۔ جب اللہ کے رسول کے نزدیک میت کی بیٹی (یتیم پوتی کی پھوپھی) یتیم پوتی کے لیئے مانع و حاجب نہیں تو پھر یتیم پوتے کے چچا تائے یتیم پوتے کے لیئے حاجب و مانع کیوں کر ہو سکتے ہیں اور کس کے کہنے سے ہو سکتے ہیں؟ اس کی قرآن و حدیث سے کیا دلیل ہے؟
تو میں نے اس مسئلہ سے متعلق یہ ساری بحث اور تحریریں اور اس میں پیش کردہ دلائل اور نکات جو اس مسئلہ کا دوسرا مخالف پہلو اجاگر کرتی ہیں قارئین کے استفادہ کی خاطر احاطۂ تحریر میں لادی ہے تاکہ اہل تحقیق اور انصاف پسند حضرات اس کو پڑھیں اور اس مسئلہ کے دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں حق اور ناحق کا فیصلہ کریں اور کسی قسم کی عجلت سے کام نہ لیں۔
یتیم پوتے کا مسئلہ ایک انتہائی اہم اور نازک مسئلہ ہے جو فریضۂ الٰہی و حدود الٰہی کا مسئلہ ہے جس کے چلتے آدمی دائمی جنت یا جہنم کا مستحق بن سکتا ہے لہذا معاندین نہیں بلکہ انصاف پسند، اللہ اور یوم آخرت کا ڈر رکھنے والے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اس مسئلہ سے میری پیش کردہ اس بحث و تحقیق پر سنجیدگی سے غور کریں اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔
ہمارے مخاطب محترم ابن داود صاحب نے کہا: (
اب بھی پیش نظر یہی نکتہ ہے، کہ آپ کے موقف کا بطلان قارئین کے لئے بیان کر دیا جائے! وگرنہ آپ کے کلام کے پیش نظر آپ سے تو کوئی امید نہیں، کہ آپ کا تو حال یوں معلوم ہوتا ہے کہ عقل و فہم سے دشمنی اختیار کی ہوئی ہے!) ۔
تو جناب من!
در حقیقت آں جناب اپنی کیفیت کا اظہار میرا حوالہ دیکر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کی بعینہ یہی کیفیت ہے جو آنجناب نے میرے تعلق سے بیان کی ہے۔ (
آپ کا تو حال یوں معلوم ہوتا ہے کہ عقل و فہم سے دشمنی اختیار کی ہوئی ہے!) یہی سبب ہے کہ آپ کو یتیم پوتے کا اولاد ہونا اور اس کے دادا کا والد ہونا ابتک سمجھ نہ آسکا باوجود قرآن حدیث کے دلائل دیئے گئے اور کتب تفاسیر اور شروح احادیث سے اولاد و والدین کے مصداق اور لفظ یتیم کے اطلاق پیش کر دیئے گئے۔ آپ کے پاس طوطے کی طرح اس رٹ کہ (یتیم پوتے پوتیاں اسی وقت وارث ہو سکتے ہیں جب مرنے والے کا کوئی بھی بیٹا زندہ نہ رہے) کے سوا دوسری کوئی بات ہی نہیں ہے۔ جب کہ ایسی کوئی شرط نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول کی کسی حدیث سے ایسا ثابت ہوتا ہے۔
ہمارے پیش نظر یہی نکتہ ہے کہ یتیم پوتے کی محجوبیت کے تعلق سے جس طرح بے بنیاد بلا دلیل باتیں پھیلائی گئی ہیں اور جس طرح اللہ و رسول کا بے بنیاد حوالہ دیکر ایک غلط بات کو اللہ و رسول کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کا رد و ابطال قرآن و حدیث کی روشنی کردیا جائے تاکہ اس مسئلہ میں حقیقت اور اس مسئلہ کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (28) وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (29)[سورة الكهف])
(
إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (29) وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (30) يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (31)[سورة الإنسان])
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میرے بھائی جس آیت سے بیٹے کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے اسی آیت سے بیٹی کا بھی ثابت ہوتا ہے اور اسی آیت سے یتیم پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اسی آیت سے ماں باپ، دادا دای کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔
لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
یہ آپ کے ''ولد'' اور ''أولاد'' کے معنی ومفہوم میں خود ساختہ ''وسعت'' کا نتیجہ ہے، جیسے کہ آپ نے ''یتیم'' کے معنی ومفہوم میں خود ساختہ ''اختصار'' کیا ہے! اور یہ ''وسعت'' اور یہ ''اختصار'' دونوں مردود ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
(
''ولد'' اور ''أولاد'' کے معنی ومفہوم میں ''وسعت''، ''یتیم'' کے معنی ومفہوم میں ''اختصار'') جسے آپ مردود قرار دے رہے ہیں۔اللہ و رسول ، شرع اور عرف کی دی ہوئی ہے میری خود ساختہ نہیں ہے۔ یہ آپ سوفیصد جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور آپ مجھے جھوٹا باور نہیں کرا رہے ہیں بلکہ اللہ و رسول کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔
جناب عالی ذرا ان آیتوں کو بھی غور سے پڑھ لیجیئے گا جو اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے اور سچ فرمایا ہے:
(
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (33) وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ (34) وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ (35)[سورة الأنعام])
(
الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (51)[سورة الأعراف])
(
ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (62) كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (63)[سورة غافر])
(
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (26) فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (27) ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (28) [سورة فصلت])
(
وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (26)[سورة الأحقاف])
جناب عالی!
اگر اللہ و رسول کی دی ہوئی وسعت نہ ہوتی تو قطعی اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اولاد کے طور پر شامل نہ فرماتے۔ اور اللہ تعالیٰ یعقوب پوتے کو بیٹے اسحاق کے ساتھ شامل نہ کرتے ۔ آپ کم از کم اللہ و رسول پر تو جھوٹ نہ بولیں اللہ کے سامنے بروز قیامت کھڑا ہونا اور جواب دینا ہےجہاں آپ تنہا ہوں گے۔ میرے بھائی کچھ تو اللہ کا خوف کریں اس کے عذاب سے ڈریں۔ آپ کی یہ تحریریں آپ کے خلاف اللہ کے یہاں دلیل و ثبوت اور آپ کے خلاف حجت ہونگی۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

لہذا میرے محترم ! پہلے آپ فرائض و مواریث کو صحیح ڈھنگ سے پڑھئے سمجھئےپھر بحث کیجئے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
چلیں! ہم تو اپنا سبق دہرانے کو تیار ہیں! اور ہم دہراتے رہتے ہیں! علم المیراث میں نے قریباً آٹھ سال قبل پڑھا تھا، اور اب اسے دہرایا ہے! لیکن جب آپ کو علم الفرائض پڑھنے کے لئے کہا گیا تھا، تو اس وقت سے آپ ایسا تلمائے ہوئے ہو، کہ سنبھلنے ہی نہیں پارہے! کہ ''ہانکنے'' سے ''بکنے'' اور ''بکواس'' تک آ چکے ہیں، آگے نجانے کہاں تک نکل جائیں!
الجواب:
أقول:

جناب عالی!
آپ نے جو سبق پڑھا ہے اور جو اب دہرا رہے ہیں ۔ وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں ہے بلکہ آراء و قیاسات پر مبنی فقہی علم ہے۔ فرائض و مواریث کا اصل علم تو اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی کی سنت و احادیث صحیحہ میں ہے جس کے آپ انکاری ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول نے قرآن میں مذکور علم فرائض سیکھنے سکھانے کا حکم دیا ہے اور اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق میت کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس قرآن و حدیث والا علم فرائض و مواریث سیکھنا اور سکھانا فرض عین ہے جب کہ آراء و قیاسات پر مبنی علم کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ آپ جس چیز کے سیکھنے کو علم فرائض یا علم میراث سیکھنا سمجھ رہے ہیں وہ درحقیقت کچھ حسابی اصول ہیں جسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے نہ کہ اس کو علم الٰہی سمجھ لیا جائے۔
آپ کا ارشاد گرامی ہے: (
آپ ایسا تلمائے ہوئے ہو، کہ سنبھلنے ہی نہیں پارہے! کہ ''ہانکنے'' سے ''بکنے'' اور ''بکواس'' تک آ چکے ہیں، آگے نجانے کہاں تک نکل جائیں!)
جناب من!
مجھے کوئی تلملاہٹ نہیں ہے رہی بقول آپ کے (
''ہانکنے'' سے ''بکنے'' اور ''بکواس'') کی بات تو یہ الفاظ اور اسی جیسے بہت سارے الفاظ آپ نے خود میرے تعلق سے استعمال کیئے ہیں جس کو ہم نے آپ ہی کی طرف آپ کی امانت سمجھ کر لوٹایا ہے۔ اور یہ سارے الفاظ آپ کی تلملاہٹ اور بوکھلاہٹ و جھلاہٹ کو ضرور ظاہر کر رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اللہ کا یہ فرمان یاد رکھیئے:
(وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا) (34) (وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (35) (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا) (36) [سورة الاسراء]
یعنی یتیم کے مال کے بھی قریب نہ جاؤ۔ اور انصاف کے ترازو سے تولو۔ اور جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔ کیونکہ انسان کے سارے اعضاء و جوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں! لہٰذا قرآن وحدیث کے برخلاف کسی کو حصہ دار قرار دینا چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔
الجواب:
أقول:

جناب من !
آپ کا یہ ارشاد گرامی کہ (
دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں! لہٰذا قرآن وحدیث کے برخلاف کسی کو حصہ دار قرار دینا چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔)
تو جناب من!
(
قرآن وحدیث کے برخلاف کسی کو حصہ دار قرار دینا چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔)
اس کے جواب میں میں آں جناب سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آں جناب آپ اپنے ہی قو ل کے مطابق
قرآن وحدیث کے برخلاف کسی حصہ دار وارث اور أولاد کو بلا قرآن و حدیث کی دلیل کے محجوب و محروم الإرث قرار دینا چھوڑ دیں) (اور اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔) اور یہ بات اپنے ذہن و دماغ میں بٹھالیں کہ اگر قرآن و حدیث کی دلیل و ثبوت کے بغیر کسی بھی وارث کو ادنیٰ سا بھی نقصان پہنچتا ہے تو یہ بھی جان لیں کہ بروز قیامت خیر نہیں اور اس کا نجام جہنم کی دائمی آگ ہے (اعاذنا اللہ من ذلک)
اللہ کے رسول نے چونکہ یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بطور اولاد حصہ دیا ہے اس لیئے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ساتھ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے کیونکہ اس کا دادا اس کا والد و باپ ہے اور وہ اس کی اولاد و بیٹا ہے جس کے آپ انکاری ہیں۔ تو آپ پر یہ واجب ہے کہ آپ (
اللہ کے حضور توبہ تائب ہوں، ''کیونکہ انسان کے سارے أعضاء وجوارح بروز قیامت جوابدہ ہونگے''۔)
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ویسے آپ ایک عجیب بیوقوف آدمی ہیں! آپ اس خبط میں مبتلا ہیں، کہ دیگر بھی الفاظ کے آپ کے خود ساختہ معنی ومفہوم کو قبول کریں، اور اگر نہ کریں، تو انہیں ان الفاظ کا معنی ومفہوم نہیں معلوم! میاں جی! آپ کا خود ساختہ معنی ومفہوم مردود ہے!
الجواب:
أقول:

جناب من یہاں آپ نے پھر اپنی جہالت و حماقت کا ڈنکا پیٹا۔ اور اپنی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ جس چیز کو آپ سمجھ نہیں رہے ہیں اور اس کی حقیقت کو نہیں جان پارہے ہیں اور آپ کی ناقص عقل میں جو باتیں نہیں آرہی ہے تو آپ بوکھلاہٹ اور جھلاہٹ کا شکار ہوکر دوسروں کو بیوقوف خبط الحواس ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
آپ جب اللہ و رسول اور مفسرین و محدثین اور شارحین حدیث کے بتائے ہوئے معانی و مفاہیم کو ہی نہیں مانتے اور اس کو میرا خود ساختہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہم نے تو آپ کو مجبور نہیں کیا ہے کہ آپ اللہ و رسول کے کہے کو مانیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہرشخص کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ لہذا ہر شخص اپنے طور پر آزاد ہے جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ حق بات ماننے سے روک رکھا ہے اس لیئے آپ نہیں مان رہے ہیں اگر توفیق دی ہوتی تو شاید اللہ و رسول کی پیش کردہ باتیں آپ کی سمجھ میں آجاتی اور آپ اسے مان لیتے لیکن آپ ساری باتوں کو مردود قرار دیکر رد کیئے جارہے ہیں تو ہم آپ کو مجبور نہیں کر رہے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:
(
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (29)[سورة الكهف])
یعنی حق صرف وہی ہے جو اللہ رب العالمین کی طرف سے آیا ہوا ہے جو اس کی کتاب میں ہے اور اس کے نبی کی سنت اور احادیث صحیحہ میں ہے تو جو چاہے قرآن و حدیث کی باتیں مانے اور جو چاہے انکار کرے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیئے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے جو بڑی ہی خطرناک ہے اور بہت بری جگہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس کا تعلق آخرت سے ہے جس کا دیدار اور یقین آخرت میں ہی ہوگا دنیا میں تو ہو نہیں سکتا!۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں نے جو بنیا دی سوال کیا اس کا جواب دیجئے اور کج بحثی چھوڑیئے۔ صرف لفاظی کرنے اور طول طویل بکواس کر دینے سے کوئی بات صحیح نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پاتا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
اول کہ آپ کے بنیادی سوال کا جواب دیا گیا ہے، مگر آپ کو اس کا ادراک نہیں ہو پا رہا!
دوم کہ اس پر آپ کو خود عمل پیرا ہونا چاہیئے کہ آپ کی بکواسیات سے ''يتیم پوتا'' دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی میں دادا کی وراثت میں حصہ دار وحقدار قرار نہیں پائے گا! لہٰذا آپ اپنی ''بکواسیات'' سے گریز کریں! یہی آپ کے حق میں بہتر ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کے (
نرینہ أولاد کی موجودگی) کی شرط قرآن کی کس آیت اور رسول کی کس حدیث میں ہے آپ اسے تو پیش کیجئے۔ چونکہ یہ شرط قرآن حدیث میں قطعی طور پر نہیں ہے اس لیئے سراسر باطل و مردود ہے۔ اور اگر قرآن و حدیث میں نہیں تو بکواس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آپ کی گیدڑ بھبکیاں ہمیں مرعوب نہیں کر سکتیں۔ اگر یہ شرط قرآن حدیث میں ہے تو بار بار مطالبہ کے باوجود آخر آپ پیش کیوں نہیں کر رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کوئی بھی بات اسی وقت صحیح مانی جاتی ہے جب وہ اصولی ہو اور قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو ۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
تو مان لیں کہ دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں! کیونکہ قرآن وصحیح حدیث سے تو یہ ہی ثابت ہے! مگر آپ یہ مانتے نہیں، اور اپنی خواہشات کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی سعی میں مشغول ہیں!
الجواب:
أقول:

جناب من!
محض آپ کے کہنے سے مان لیں یا اس کی کوئی دلیل و ثبوت قرآن و حدیث میں ہےاگر ہے تو پیش کیجیئے ہم ابھی مان لیں گے۔
آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ (
دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں! کیونکہ قرآن وصحیح حدیث سے تو یہ ہی ثابت ہے!)
تو اگر آپ کے بقول ایسی کوئی شرط قرآن و حدیث میں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (
دادا کے ترکہ میں، دادا کی نرینہ أولاد ہوتے ہوئے، دادا کے کسی پوتے پوتی کا کوئی حصہ نہیں، خواہ وہ پوتاپوتی، یتیم ہوں، یا نہ ہوں)
تو برائے مہربانی آپ اسے پیش کردیجیئے ہم ابھی اسی وقت مان لیں گے۔ اور اس ماننے کا اعلان اسی فورم سے کریں گے ہم اس بات کا وعدہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوپائے گا کیونکہ ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ جبکہ اس کے برخلاف ہم صحیح بخاری میں یہ باب پاتے ہیں: (
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی یتیم پوتے کی میراث کا بیان جب اس کا باپ نہ ہو۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہیں ہے تو یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ کا حقدار اور حصہ دار ہے۔ اب اس کے چچا تائے ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اگر اسی طرح کے واضح الفاظ ہوں جس میں صاف طور پر یہ لکھا ہو کہ جب یتیم پوتے کے چچا تائے نہیں ہونگے تبھی یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ کا حقدار اور حصہ دار ہوگا۔
جس وقت آپ مجھے کوئی ایسی کوئی واضح بات پیش کر دینگے ہم اسی وقت مان لیں گے۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔
لیکن توڑ مروڑ کر گھڑی بنائی ہوئی ان باتوں کو ہم ہرگز ماننے والے نہیں ہیں۔ جسے آپ شریعت مانے بیٹھیں ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

رہا علماء و فقہاء کے اقوال، آراء ، قیاسات اور فتوے تو یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظنون یعنی گمان اور خرص یعنی اٹکل بازیاں کہا ہے۔ اور جو کچھ آپ نے اب تک کہا یا پیش کیا ہے وہ محض گمان اور اٹکل بازیاں ہی ہیں کوئی قرآن و حدیث کی باتیں نہیں ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
''تمام علماء و فقہاء کے اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' کے متعلق تو آپ نے کہہ دیا کہ ''یہ سب ہوا ہوائی ہی ہیں'' تو آپ اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' کیا منزل من اللہ ہیں؟
دیکھیں! آپ کا ''تمام علماء و فقہاء کے اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' سے متعلق ''یہ سب ہوا ہوائی
ہی ہیں'' کہنا زندیقیت ہے! اس پر کافی کلام ہم پہلے کر آئیں ہیں!
ہم نے تو اپنے موقف کو قرآن وحدیث سے مستدل پیش کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ آپ کی اٹکل میں استدلال نہیں آرہا! اگر ہمارے استدلال میں نقص بیان کیا ہوتا، تو کوئی بات بھی تھی! محض نعرے بازے سے استدلال باطل قرار نہیں پاتا! اور آپ کے اٹکل پچو کا بطلان ہم نے بیان کیا ہے!

الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ نے کہا : (
'' تو آپ اقوال، آراء، قیاسیات اور فتوے'' کیا منزل من اللہ ہیں؟) تو جناب عالی میرا اپنا کوئی قول، کوئی رائے اور کوئی قیاس و فتویٰ نہیں ہے۔ میں نے تو وہی باتیں پیش کی ہیں جو منزل من اللہ قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور اس سے ثابت ہوتی ہیں۔ زندیقیت تو یہ ہے کہ اللہ و رسول کے صریحی احکام و فرامین کو ٹھکرادیا جائے اور علماء و فقہاء کے قیاسات، آراء و اقوال اور فتووں کو منزل من اللہ وحی الٰہی سمجھ کر مانا جائے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

چنانچہ میں نے لکھا : مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔
اسکے جواب میں آنجناب نے لکھا :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس کا بیان اوپر گزا! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے پوتی کو بحثیت اولاد وبیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا ہوتا، تو پوتی کی پھوپھی، اور پوتی دونوں کو برابر حصہ ملتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
اس پر آپ فرماتے ہیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ارےاللہ کے بندے!
آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ جب میت کی صرف مونث اولاد ہو تو ان سب کا مشترکہ حصہ ثلثان(دوتہائی حصہ) ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (ثلثان) میں سے ہی یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا کوئی بھیک، خیرات، یا دادا کی کی ہوئی وصیت نہیں تھی۔

قوله: (ابن داود نے کہا ہے):
ہماری بات کا رد تو آپ اب بھی نہ کر پائے! کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو''بحثیت أولاد وبیٹی'' کے حصہ دیا ہوتا تو، پوتی کی پھوپی، جو میت کی بیٹی ہے، اس کے برابر کا حصہ ملتا! جبکہ میت کی بیٹی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف دیا، اور پوتی کو سدس! یعنی پوتی کو ''أولاد وبیٹی'' کے برابر نہیں دیا! مییت کی ''أولاد وبیٹی'' ایک ہی تھی جس کا نصف حصہ ہے، جو اسے دیا گیا!
اگر پوتی بھی ''أولاد و بیٹی'' قرار پاتی، تو پوتی کی پھوپی یعنی میت کی ''أولاد وبیٹی'' کے ساتھ دو عدد ''أولاد وبیٹی'' ہوتیں! اور اس صورت میں دو تہائی دونوں میں برابر تقسیم ہوتا! مگر ایسا ہوا نہیں!
یعنی کہ پوتی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''پھوپی'' کی طرح ''أولاد وبیٹی'' قرار نہیں دیا!

الجواب:
أقول:

جناب من!
آپ کا یہ سوال بنیادی طور پر ہی باطل ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں (پھوپھی اور یتیم پوتی) کے حصوں کی مقدار برابر ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ) (سورة النساء: 11))
تو آیت میں (
فَوْقَ) کا لفظ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے جب نساء ایک ہی طبقہ کی ہوں تب ان سب کو برابر برابر ملے گا۔ ورنہ برابر برابر دینا ضروری نہیں۔ تو زیر بحث مسئلہ میں ایک طبقہ کی ایک بیٹی اور دوسرے طبقہ کی ایک بیٹی تھی تو جب ایک طبقہ کی ایک بیٹی کو آدھا حصہ دیدیا گیا تو دو تہائی حصے میں سے صرف چھٹا حصہ ہی بچا جو اللہ کے نبی نے دوسرے طبقہ کی بیٹی یتیم پوتی کو دیا۔ اس سے اس بات کا ایک اور ثبوت ملتا ہے کہ ترکہ میں استحقاق کی بنیاد محض قرابت داری یا اقربیت نہیں بلکہ اصل اولاد و والدیت ہےاور قرابت داری ثانوی چیز ہے۔ اگر ترکہ میں استحقاق کی بنیاد محض قرابت داری یا اقربیت ہوتی تو قطعی طور پر سگی بہن کو یتیم پوتی سے زیادہ حصہ یعنی دوگنا نہ ملتا۔
((
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ) (سورة النساء: 11)))
نیز اس آیت میں مذکور لفظ (
أَوْلَادِكُمْ) اور اس کے تحت (نِسَاءً) اور (وَاحِدَةً) اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جس طرح اولاد میں بیٹے بیٹیاں آتی ہیں اسی طرح پوتے پوتیاں وغیرہ آتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کے رسول کے فیصلے سے اس پر مہر لگ گئی کہ اولاد میں بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں وغیرہ سب آتے ہیں اور اولاد کا لفظ سب کو شامل اور سب کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔
*----------------------------------------------*
 
Top