• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
پوتا کا جائیداد میں حصہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ اہل حدیث شمارہ نمبر:24 کے احکام وسائل میں آپ نے لکھا ہے کہ پوتا اپنے دادا کی جائیداد سے محروم رہتا ہے ۔ا ٓپ کا جواب شکوک شبہات کا باعث ہے۔ یعنی آدمی کا بیٹا فوت ہوجائے۔ فوت ہونے والے کی چھوٹی اولاد بھی ہو۔ ایسے حالات میں بیوہ اور یتیم اولاد کو وراثت سے محروم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اسلام کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہاں اسلام نے یتیموں اور بیواؤں کے حق کوکیوں ساقط کردیا ہے جبکہ دوسرے مذاہب یتیم پوتوں کو حق دیتے ہیں اور انہیں کسی صورت میں محروم نہیں کرتے۔ مہربانی فرما کر مفصل جواب دیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بندہ مسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام بجا لاتا ہے اور سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اسلام کے حوالے کردیتا ہے۔ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلہ میں ، اس لئے بلند و برتر ہے کہ اس میں اعتدال کا حسن ہے۔ درج ذیل سوال میں سطحی جذبات کے پیش نظر اسلام کی حقانیت کو چیلنج کیاگیا ہے، حالانکہ جس قدر یتیموں کے حقوق کا خیال دین اسلام کی تعلیمات میں ہے دیگرادیان میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اس تمہیدی گزارش کے بعد واضح ہو کہ اسلام نے میراث کے سلسلے میں اقربا کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیادنہیں بنایا؟جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق سوال میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ذمہ داری کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اگر اس سلسلہ میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتاتو ارشاد باری تعالیٰ بایں الفاظ نہ ہوتا کہ ‘‘مذکر کے لئے دو مونث کے برابر حصہ ہے۔’’بلکہ اس طرح ہوتا کہ مونث کے لئے دو مذکر کے برابر حصہ ہے کیونکہ لڑ کے کےمقابلہ میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس بے چارگی کےسبب میت کےمال سے اسے زیادہ حقدار قرار دیاجانا چاہئےتھا۔ اسی طرح شوہر کو زوجہ کی اولاد نہ ہونے پر نصف جائیداد کا مستحق قرار دیا گیا ہے جبکہ زوجہ کو شوہر کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے، حالانکہ حاجت مندی ،بے چارگی ،عدم کسب معاش اور نسوانی وصف کا تقاضا تھا کہ شوہر کےلئے ایک چوتھائی اور بیوی کے لئے نصف مقررہوتا ۔ ان حقائق کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مند ہونا یا عدم اکتساب یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں وراثت کےمتعلق جس مسئلہ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد موجود ہونے کےباوجود یتیم پوتے ،پوتی ،نواسے اور نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے،یعنی دادا یا نانا کےانتقال پر اس کےاپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مرحوم بیٹےیا بیٹی کی اولاد دادا یا نانا کےترکہ سےمیراث پانے کی مستحق ہےیا نہیں، اس مسئلہ کےمتعلق رسول اللہﷺ کے زمانہ سےلےکربیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا کوئی بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا،اس مسئلہ میں نہ صرف اہل سنت کے مشہور فقہی مذاہب ،حنفیہ، مالکیہ،شافعیہ اور حنبلیہ ، نیز شیعہ ، امامیہ و زیدیہ اور ظاہر یہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ فقہا کا بھی کوئی قول اس کےخلاف منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستا ن نے ۱۹۶۱ءمیں مارشل لا کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کےتحت یہ قانون نافذ کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اپنےپیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد کو چھوڑ جائے جو اس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہوتو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی مستحق ہوگی جو ان کےباپ یا ماں کو ملتا اگر وہ اس شخص کی وفات کےوقت موجود ہوتے ۔ پاکستا ن میں اس قانون کےخلاف شریعت ہونےکےمتعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کردیا تھاکہ یہ قانون امت مسلمہ کےاجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
‘‘اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مذکر کےلئے اس کا حصہ دو مونث کےحصہ کےبرابر ہے۔’’ (۴/النساء:۱۱)
اس آیت کریمہ میں اولاد ،ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کےہیں۔ جو جنے ہوئے معنی میں استعمال ہوا ہےلیکن ولد کے معنی دو طرح مشتمل ہیں
(۱)ایک حقیقی جو بلاواسطہ جنا ہواہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔
(۲)دوسرے مجازی جو کسی واسطہ سےجناہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد نواسی اور نواسے ا س کےمفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سےچلتا ہے،ا س بنا پر نواسہ اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے،یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹا یا بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے، لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹے کے ہوتےہوئے پوتے پوتی کا کائی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے ،امام جصاص ؒ کہتےہیں:‘‘امت کے اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں حقیقی اولاد مراد ہے اور نہ اس میں اختلاف ہےکہ پوتاحقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں داخل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہےکہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو مراد بیٹوں کی اولاد سے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کےلئے ہے اور جب صلبی نہ ہوتو بیٹے کی اولاد کو شامل ہے۔’’ (احکام القرآن ،ص:۶۹،ج۲)
پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)
اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا۔
شریعت نے وراثت کےسلسلہ میں اقرب فالاقرب کےقانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ‘‘ ہر ایک کےلئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔’’ (۴/النساء:۳۳)
اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔
البتہ اسلا م نے اس مسئلہ کا حل بایں طور پر فرمایا ہے کہ مرنے والے کو چاہیئے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے ، نواسیوں و دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنےسے پہلے اپنے ترکہ سے 3/1 کی وصیت کرجائے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘ تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑے جارہا ہے تو موت کے وقت اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر فرض ہے۔’’ (۲/البقرہ:۱۸۰)
چونکہ حدیث کےمطابق وارث رشتہ دار کےلئے وصیت جائز نہیں ہے، اس لئے والدین کے لئے وصیت جائز نہیں ہے، البتہ دیگر رشتہ دار جو محتاج اور لاچار ہیں ان کےلئے وصیت کرنا ضروری ہے اگر کوئی یتیم پوتے، پوتیوں کےموجود ہوتےہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارہ کےلئے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ حاجت مند یتیم پوتے ، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے، پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکہ کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہوتو اس کی وصیت کالعدم قرار دینے کےبجائے اس کو نافذ کردیا جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


ج2ص293

محدث فتویٰ
یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ اور فتاویٰ اصحاب الحدیث ایک جائزہ
یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتووں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں رد و ابطال :

یتیم پوتے کی محجوبیت کے سلسلہ میں دیا گیا یہ فتوی اور اس طرح کے دیگر فتوے صریحی طور پر کتاب و سنت کے خلاف اور عدل و انصاف کے منافی ہیں اور حکومت پاکستان کے ذریعہ بنایا گیا قانون خلاف شریعت نہیں بلکہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ اہل حدیث حضرات کو اس کی تائید کرنی چاہئے کیونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد ہے اسی طرح جیسے اس کا چچا تایا حقیقی اولاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک بالواسطہ ہے اور دوسرا بلا واسطہ ہے یہی معاملہ باپ دادا کا بھی ہے کہ باپ حقیقی والد ہے اور دادا بھی حقیقی والد ہے باپ بلا واسطہ والد ہے اور دادا بالواسطہ والد ہے۔ یہی سبب ہے کہ یتیم پوتے کی وفات پر باپ کی جگہ دادا ہی بحیثیت حقیقی والد وارث قرار پاتا ہے چچا تائے نہیں بنا بریں یتیم پوتا بھی دادا کی وفات پر بمنزلہ اپنے باپ کے دادا کی حقیقی اولاد ہونے کے ناطے وارث ہے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔ البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے بھی باپ ہیں اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔ فافہم و تدبر۔
اولاد ،ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کےہیں۔ جو جنے ہوئے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ولد صرف اسی کو کہیں گے جو جنا گیا ہو یعنی جس میں توالد و تناسل کی نسبت پائی جائے وہ ولد ہے خواہ وہ بیٹے کے ذریعہ جنا گیا ہو یا بیٹی کے ذریعہ یا پوتے پوتی کے ذریعہ جنا گیا ہو یا نواسے نواسی کے سب کے سب حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہی ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے (ووہبنا لہ اسحاق و یعقوب) نیز فرمایا (و یعقوب نافلۃ) اسی طرح فرمان نبوی ہے (ابنی ہذا(حسن بن علی) سید)، (ہذان(حسن و حسین بن علی) ابنای)۔ یہ تو جاہلی عقیدہ و تصور ہے( بنونا بنو ابنائنا و بناتنا بنوہن ابناء الرجال الاباعد) لہذا یہ کہنا : (لیکن ولد کے معنی دو طرح مشتمل ہیں: (۱)ایک حقیقی جو بلاواسطہ جنا ہواہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔ (۲)دوسرے مجازی جو کسی واسطہ سےجناہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد نواسی اور نواسے ا س کےمفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سےچلتا ہے،ا س بنا پر نواسہ اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں)۔
ایسا کہنا قطعا غلط بے بنیاد جھوٹ اور فریب ہے نیز اللہ و رسول کے فرمان کے منافی ہے اور اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔ نیز یہ کہنا بھی غلط ہے کہ(یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے،یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹا یا بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے) کیونکہ اللہ و رسول نے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو حقیقی اولاد کہا ہےلہذا اولاد میں بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسے نواسی سب شامل ہیں اور اولاد کا لفظ سب کا جامع ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ نکالنا کہ بیٹے کے ہوتےہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ قطعا غلط بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے اللہ و رسول نے ایسا بالکل نہیں کہا ہے یہ اللہ و رسول پر کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:(جعل من ازواجکم بنین و حفدۃ) یعنی تمہارے جوڑوں (بہو بیٹے) اور (بیٹی داماد) کے ذریعہ تمہارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں پیدا کئے۔
لہذا آیات و احادیث کا غلط معنی و مفہوم نکال کر اس طرح کا فتویٰ دیا جانا سنگین جرم ہے۔ اور جو کوئی بھی یہ فتویٰ دیتا ہے وہ راست طور پر اللہ کا مجرم ہے۔
اس فتوے میں یہ کہا گیا ہے کہ (پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)۔ اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا۔ شریعت نے وراثت کےسلسلہ میں اقرب فالاقرب کےقانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ‘‘ ہر ایک کےلئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔’’ (۴/النساء:۳۳) اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔
حدیث رسول سے یہ استدلال بھی غلط ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا[سورة النساء: ٧]
یعنی جو کچھ والدین اور اقرباء چھوڑ گئے ہوں علاحدہ علاحدہ ہر ایک کے ترکہ میں سے بطور وارث مرد و عورت جو بھی موجود ہوں ہر ایک شخص کے لئے علاحدہ علاحدہ ایک ایک حصہ ہے خواہ ترکہ کا مال کم ہو یا زیادہ نیز حصہ کی مقدار کم بنے یا زیادہ۔ کم و بیش جس مقدار میں جس کا جو بھی حصہ نکلتا ہے وہ سب کا سب اللہ کی جانب سے فرض کیا ہوا ہے جو کہ فریضہ الٰہی ہے۔(سورہ النساء:٧)
پس بنیادی طورپروہ سبھی لوگ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے وہ صاحب فرض وارث اور اہل فرائض ہیں جن کا حق و حصہ دیا جانا واجب و فرض ہے اور جس کا انکار کفر ہے کیونکہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر کئے ہوئے وارث کا حق و حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بذات خود اس کے حق میں فرض کیا ہوا ہے۔

اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
آگے آیت میں فرمایا: آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا[سورة النساء: 11]
یعنی تمہارے آباء(باپ،دادا، پردادا وغیرہ) ہوں یا تمہارے ابناء(بیٹے، پوتے، پڑپوتے اور نواسے وغیرہ) تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو ترکہ کا ذکر کیا ہے ایک والدین کا ترکہ اور دوسرے اقرباء کا ترکہ ایک کے حقدار اولاد مرد و عورت۔ اور دوسرے کے حقدار اقرباء۔ والدین کے ترکہ کی تقسیم اس کی اولادوں کے درمیان ہوگی اور اقرباء کے ترکہ کی تقسیم اس کے قریب سے قریب تر رشتہ داروں میں کی جائے گی اس کی بھی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن ،مجید میں ہی بیان فرمائی ہے۔ کیونکہ وہی وارث پیدا کرنے اور انہیں حقدار و حصہ دار مقرر کرنے اور ان کے حصوں کی مقدار متعین کرنے والا ہے۔ اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے :
وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔ اس سے معلوم ہوا اور ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
کلام الٰہی:
مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ [سورة النساء: 7، 33]
میں والدان کے لفظ کو چھوڑ کر لفظ الاقربون سے یتیم پوتے کے مسئلہ میں استدلا ل و استنباط کرنا اور فتوے دینا حکم لگانا کھلے طور پر کلام الٰہی کی لفظی و معنوی تحریف ہے اور اس تحریف کے بعد من چاہا حکم نکال کر فتویٰ دینا یہودیوں کا طریقہ رہا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب وقرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [سورة المائدة: 41]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ کلمات کو اس کے موقع و محل سے ہٹا کر پھیر بدل کر کےمعنی و مفہوم نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح و درست معنی و مفہوم ہے لہذا تم اسی کو لازم پکڑو اور اگر یہ معنی و مفہوم نہ ہو تو اس سے بچو۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ اس جیسے فتنے سے دوچار کردے تو تم اس کے لئے کیا کرسکتے ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ یتیم پوتے کی وراثت کے سلسلہ میں لوگ اسی طرح کے فتنے کا شکار ہیں کہ جہاں کہیں یتیم پوتے کے حق وراثت کی بات آتی ہے قرآن و حدیث میں غور فکر نہیں کرتے اور ایک تحریف شدہ معنی و مفہوم کو اللہ کا دین و شریعت سمجھتے ہیں اور جو کوئی بھی یتیم پوتے کے استحقاق وراثت کی بات کرتا ہے تو اس فکر کو گمراہ کن اور اس کے پیش کرنے والے کو گمراہ (جیسا کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے بلا سوچے سمجھے مجھ ناچیز کے تعلق سے فتویٰ داغ دیا۔)، یہی نہیں بلکہ کافر تک قرار دینےسے بھی نہیں چوکتے۔ یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو لوگوں نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے چنانچہ یہ خدمت بہت سارے لوگوں نے ماضی میں بھی انجام دیا تھا اور آج بھی بڑے شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔
اس میں اتنی بات تو صحیح ہے کہ: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا)، یہ کلام الٰہی لفظ الاقربون سے ثابت ہوتا ہے جو اقرباء کے سلسلہ میں ہے اس کا تعلق اولاد و والدین سے نہیں ہے کیونکہ اولاد و والدین خاصکر آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں اللہ کا یہ صریحی حکم اور فرمان ہے:
آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا[سورة النساء: 11]
یعنی تمہارے آباء(باپ،دادا، پردادا وغیرہ) ہوں یا تمہارے ابناء(بیٹے، پوتے، پڑپوتے اور نواسے وغیرہ) تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں صاف طور پر فرمادیا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ اس میں کون تمہارے لئے قریب تر ہے باپ داد یا بیٹے پوتے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا قریب تر ہے اور یتیم پوتا دور والا عصبہ ہے تو یتیم پوتا نہ دور والا ہے اور نہ ہی عصبہ ہی ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آباء و اجداد اور ابناء و احفاد کے سلسلہ میں صاف طور پر فرمادیا ہے کہ ان کے حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں۔ بنا بریں یہ سب کے سب فرائض الٰہی کے مستحق اہل فرائض میں سے ہیں۔
لہذا فتوے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ :
( لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔ تو یہ حکم اس پوتے کا ہے جس کا باپ موجود ہے ۔ اس پوتے کے لئے یہ حکم نہیں ہے جس کا باپ موجود نہیں ہے وفات پا چکا ہے کیونکہ ایسا پوتا بمنزلہ اولاد کے اپنے باپ کی جگہ ہے۔
فتوے میں ایک حدیث کا مفہوم یوں پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: (پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)
اور اس سے استدلال یوں کیا گیا ہے: اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا)۔

جب کہ حدیث یوں ہے: *-*عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». *[بخاري: حديث رقم: 6732، 6735، 6746، مسلم: حديث رقم: (1615/2)، ترمذي: حديث رقم: 2098، أحمد: حديث رقم: 2657، ]
ابن عباس d کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصوں) کو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) کے حوالے کردو، پھر جو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) سے بچ رہے تو وہ میت کے سب سے نزدیکی مرد رشتے دار کا ہے۔
ایک دوسری حدیث جو کہ صحیح مسلم کی ہے وہ یوں ہے:
*-* عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». *[مسلم: حديث رقم: (1615/4)، أبو داؤد: حديث رقم: 2898، إبن ماجه: حديث رقم: 2740]
ابن عباس d کہتے ہیں: رسول اللہ a نے فرمایا: مال اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو، جو اہل فرائض (اللہ کے مقرر کردہ حصے داروں) سے بچ رہے تو وہ میت کے سب سے نزدیکی مرد رشتے دار کا ہے۔
ان احادیث کے اندر اللہ کے رسول a نے ایک حکم تو یہ دیا ہے کہ میت کا ترکہ اللہ کی کتاب قرآن کریم کے مطابق تقسیم کرو اور دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ اللہ کی کتاب میں جن وارثوں کا ذکراللہ نے فرمایا ان کے درمیان ہی تقسیم کرو کیونکہ وہ سب اللہ کے مقرر کردہ حصے (فریضہ الٰہی) کے مستحق اہل فرائض ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جن وارثوں کا نام لیا ہے ان میں سب سے اولین صاحب فرض میت کی مذکر و مونث اولادیں اور ان کا فریضہ جو کہ اولین فریضہ ہے وہ (للذکر مثل حظ الانثیین)ہے اس کے بعد دوسرا فریضہ ثلثان(دو تہائی) ہے۔ اور تیسرا فریضہ نصف(آدھا) ہے چنانچہ ان تینوں فریضوں کے مستحق لوگ اہل فرائض میں سے ہیں۔ اور یہ تینوں فریضے مرنے والے کے بھائی بہن کے لئے ہیں جب مرنے والا صاحب اولاد نہ مرا ہو یعنی اس کی میراث کلالہ بن گئی ہو۔ چنانچہ بھائی بہن بھی اہل فرائض میں سے ہیں خواہ وہ عینی ہوں یا علاتی ہوں یا اخیافی ہوں سبھی اہل فرائض میں سے ہیں۔ اب اس کے بعد باقی بچے والدین اور ازواج تو ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے فریضے مقرر فرمائے ہیں ایک فریضہ سدس(چھٹا حصہ) جو والدین کا ہے اس صورت میں جب میت صاحب اولاد مرا ہو۔اور اگر میت صاحب اولاد نہ ہو اور اس کے ایک سے زیادہ بھائی بہن نہ ہوں تو ماں کو ثلث( ایک تہائی) اور بقیہ باپ کو ملے گا۔ اب عقد یمین کے تحت ازواج(شوہر بیوی) کا فریضہ مقرر فرمایا : (۱) نصف(آدھا)، ربع(چوتھائی) اولاد نہ ہونے کی صورت میں اور اولاد ہونے کی صورت میں ربع(چوتھائی)، ثمن(آٹھواں)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل فرائض اور اصحاب فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حقدار و حصہ دار مقرر فرمایا جن کے درمیان ترکہ کی تقسیم کا حکم دیا۔ اور اس کی تاکید اللہ کے رسول a نے فرمائی ہے۔ اور ایک تیسری چیز جو فرمائی ہے جو خاص خاص صورتوں کے لئے ہے۔ وہ یہ ہے کہ بسا اوقات ان اہل فرائض کو ان کے حصے دیدئے جانے کے بعد ہوتا یہ ہے کہ ترکہ کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے مثلا کسی شخص کی بیوی ہو اور ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں جیسا کہ ٍصحابی رسول a سعد بن ربیع جو غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کی بیوی و بیٹیوں کے سلسلہ میں آیات میراث و احکام میراث نازل ہوئے تھے تو اللہ کے رسول a نے ٍصحابی رسول a سعد بن ربیع کے بھائیوں سے کہا کہ بقیہ تم لے لو۔ اس جیسی صورت حال میں باقی بچے ہوئے ترکہ کے مال کے تعلق سے اللہ کے رسول a نے یہ بات فرمائی کہ باقی بچا ہوا مال اولیٰ رجل ذکر کے لئے ہے۔ یعنی یہ خاص حکم ہے اور خاص صورت کے لئے ہے یعنی صرف اس باقی بچے ہوئے مال کے تعلق سے ہے جو اہل فرائض کو دینے کے بعد بچ رہے اور یہ عام حکم نہیں ہے کہ اس کو ہر جگہ ہر صورت پر فٹ کیا جائے بلکہ خاص خاص صورتوں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس صورت میں جو بھی اولیٰ رجل ذکر ہوگا اسے دیدیا جائے اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اولیٰ رجل ذکر کا مصداق ان اہل فرائض میں سے کوئی نہیں اور خاص کر مذکر اولاد (بیٹا پوتا، پڑپوتا وغیرہ) تو اس میں قطعی طور پر داخل نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ اس کا مصداق ہے کیونکہ وہ ایک خصوصی فریضہ کا مالک ہے اور وہ ہے (للذکر مثل حظ الانثیین) اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک مخصوص لفظ بھی استعمال کیا ہے اور وہ ہے(حظ) جب کہ عمومی لفظ (نصیب) ہے جو سارے وارثوں کے حق میں استعمال کیا ہے۔ اور جب میت کی مذکر و مونث اولاد ہوں تو ان کا حصہ مخصوصہ (حظ) ہوتا ہے۔ چنانچہ میت کی مذکر اولادیں خواہ وہ بیٹے ہوں یا پوتے پڑپوتے وغیرہ قطعی طور پر (اولیٰ رجل ذکر) کا مصداق نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اہل فرائض میں سے ہیں اور اہل فرائض میں مخصوص اولیٰ درجہ کے ہیں۔ لہذا انہیں (اولیٰ رجل ذکر) کا مصداق ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس حدیث کو یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کے حق میں پیش کرنا اور اس کو دلیل بنانا کھلے طور پر کلام الٰہی و فرمان رسول کی لفظی و معنوی تحریف ہے اور اس سے استنباط و استدلال اور حکم لگانا و فتویٰ دینا باطل و مردود ہے۔

جو لوگ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کا انکار کرتے ہیں وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ دادا کے اوپر یہ واجب اور فرض ہے کہ وہ یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرکے ہی مرے۔ تو یہ جرم در جرم ہے کیونکہ جس شخص کو بقول ان کے اللہ نے کچھ دیا ہی نہیں اور یوں ہی انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے تو آپ کون ہیں انہیں دینے والے اور دادا کو مجبور کرنے والے کہ دادا ان کے حق میں لازما وصیت کر کے ہی مرے۔ تو جو ایسا نہیں کر پاتا کہ زندگی نے اس کو اتنا موقع ہی نہ دیا کہ وہ ایسا کرسکے تو وہ فرض کی عدم ادائیگی کا مجرم ٹھہرا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39) [سورة القلم]
ایسی وصیت کو وصیت واجبہ کا نام دیا گیا ہے اس کے مطابق قانون بھی بنایا گیا ہے جیسا کہ مصر وغیرہ میں وصیت واجبہ کا قانون پایا جاتا ہے۔ تو اس وصیت واجبہ کی دلیل یتیم پوتے کے حق میں ایسی آیت ہے جو منسوخ آیت ہے اور اس کا حکم آیات میراث کے نزول کے بعد منسوخ ہوچکا ہے۔ اور وہ ہے سورہ بقرہ کی آیت نمبر (۱۸۰)۔ اس میں وصیت کا حکم والدہیں اور اقرباء کے لئے تھا۔ اولاد کے لئے نہیں۔ جبکہ یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ کا مسئلہ اولاد کے تعلق سے ہے جو اس پر فٹ نہیں ہوتا ہے۔ لہذا اس منسوخ شدہ آیت سے یتیم پوتے کے حق میں وصیت دادا کے اوپر واجب کرنا بھی تحریف کلم میں سے ہے اور استدلال و استنباط اور حکم و فتویٰ باطل و مردود ہے۔
جب کہ اس کے بالمقابل اللہ کا یہ حکم اور فرمان اور فرض وصیت ہے جو اس نے پوتے کے پیدا ہوتے ہی اور اس کے یتیم ہوتے ہی کردی تھی اور وہ یہ ہے: فرمان باری تعالیٰ ہے :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ[سورة النساء: 11]
یعنی جو بھی تمہاری اولادیں ہیں مذکر مونث، واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے اللہ تعالی کا یہ حکم، فرمان اور وصیت ہے کہ تم ان کے درمیان عدل و انصاف کرو اور مساوات و برابری کا معاملہ کرو۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو دو اور کسی کو محروم کرو۔ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ اللہ کی وصیت، اس کا تاکیدی حکم اور فریضہ ہے نیز اللہ تعالیٰ تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے جس کی خلاف ورزی کا انجام انتہائی خطرناک یعنی جہنم کی دائمی آگ کا ذلت آمیز عذاب ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص اللہ کی اس وصیت کی خلاف ورزی یا انکار کرتا ہے تو وہ اللہ کے فرمان کا منکر ہے اور اس سے کفر لازم آتا ہے اور اگر کوئی شخص اس وصیت الٰہی کے بالمقابل کوئی وصیت کرتا ہے تو وہ اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرتا ہے جس سے شرک لازم آتا ہے۔

الحاصل دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کی محجوبیت اور دادا کے اوپر وصیت کو واجب قرار دینے کے جملہ فتاوے صریحی طور خلاف کتاب و سنت ہیں لہذا سب کے سب باطل و مردود ہیں ما انزل اللہ بہا من سلطان۔

اللہ کے رسول کا فرمان ہے: ترکہ کا مال حصے داروں کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو۔ لہذا اللہ کے رسول کے اس فرمان کی پاسداری اوع اس کی تابعداری کی جانی چاہئے اور اللہ کی فرض وصیت جو اس نے اولاد کے حق میں کی ہے اسے نافذ کیا جانا چاہئے یہی اللہ و رسول کا حکم و فرمان ہے اور یہی اللہ کا دین و شریعت ہے یعنی اتباع کتاب و سنت علی منہج الصحابہ۔ ہذا ماعندی و اللہ تعالیِ اعلم بالصواب و با للہ تعالیِ التوفیق و النجاح۔ کتبہ العبد الفقیر الراجی لعفو ربہ القدیر ۔ مسرور احمد الفرائضی۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@مسرور احمد الفرائضی
مراسلہ نمبر 27 پر پھی کچھ فرما دیں!
آپ نے جب محروم کیا اور محروم رکھا کی تعبیر کے سلسلہ میں نکتہ چینی کی تو اسی پر میں نے آپ کی تعبیر اور انداز تخاطب کی غلطی کہ جانب اشارہ کیا کہ یہ کوئی قابل گرفت بات نہ تھی اور اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لہذا میرے بھائی اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں کرنی چاہئے۔ آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) تو یہ اردو ادب انداز تخاطب درست نہیں ہے اس سے مخاطب غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے جملہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کئے جارہے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے جب محروم کیا اور محروم رکھا کی تعبیر کے سلسلہ میں نکتہ چینی کی تو اسی پر میں نے آپ کی تعبیر اور انداز تخاطب کی غلطی کہ جانب اشارہ کیا کہ یہ کوئی قابل گرفت بات نہ تھی اور اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لہذا میرے بھائی اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں کرنی چاہئے۔ آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) تو یہ اردو ادب انداز تخاطب درست نہیں ہے اس سے مخاطب غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے جملہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کئے جارہے ہیں۔
اب اگر کوئی غلط فہمی کا شکار ہو گیا ہے، تو اس میں ہماری تو غلطی نہیں ہے! یہ تو اس کے فہم کی غلطی ہے، اور معلوم ہونا چاہیئے، کہ آپ کے ساتھ ''ہیں'' اور ''ہو'' دونوں مستعمل ہیں!
رہی بات ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے نازک فرق کی، تو آپ نے اسے بھی غلط فہمی میں نکتہ چینی سمجھا، حالانکہ یہ نکتہ چینی نہیں تھی، بلکہ ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے نازک فرق کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لئے عرض کی گئی تھی!
دیکھیں! جب آپ یتیم پوتےکو وراثت میں ''محروم کرنے'' کی دلیل کا مطالبہ کریں گے، تو لازم آتا ہے، کہ یہ مانا جائے کہ یتیم ہونے سے قبل تو دادا کی وراثت میں اس کا حق تھا، اور یتیم ہونے پر اسے اس حق سے محروم کردیا گیا! جبکہ آپ بھی اس کے قائل نہیں!
میں نے (دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ) کے عنوان کے تحت یہ کتاب لکھی ہے جو اپنے موضوع پر دنیا کی ایک منفرد کتاب ہے جس میں میں نے قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ جس طریقہ سے باپ کے مرنے پر یتیم پوتے کا دادا اپنے یتیم پوتے کا وارث ہوتا ہے ٹھیک اسی طریقہ سے یتیم پوتا بھی اپنے دادا کا وارث ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ دادا پوتے کے درمیان کا واسطہ ختم ہوگیا لہذا اس کا حجب بھی باقی نہیں رہا اس لئے اب دادا اور یتیم پوتا براہ راست ایک دوسرے کے وارث بن گئے ہیں لہذا اگر یتیم پوتا پہلے مر جائے تو اس کا دا دا ہی وارث ہوگا نہ کہ اس کے چچا تائے اور اگر دادا مرجائے تو اس کا یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے داد کا وارث ہے نہ کہ محجوب خواہ اس کے چچا تائے موجود ہوں یا نہ ہوں اس سے یتیم پوتے کے حق و حصہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
صحیح ترجمہ یوں ہے: بیٹوں کے بیٹے (پوتے) بیٹے کے قائم مقام ہیں جب ان کے اوپر کا بیٹا نہ ہو۔
آپ بھی پوتے کو وراثت میں اس وقت حقدار قرار دیتے ہو، جب وہ یتیم ہو، اور اگر پوتا یتیم نہ ہو یعنی اس کے والد حیات ہوں، تو اس پوتے کو تو آپ بھی وراثت کا حقدار نہیں ٹھہراتے!
اس لئے میں نے عرض کیا تھا، کہ پوتا وراثت کا حق دار ہوتا ہی نہیں، کہ اسے اس کے حق سے ''محروم کرنے'' کی بات کی جائے! بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا پوتا جو دادا کی وراثت کا حق نہیں رکھتا، وہ یتیم ہونے پر بھی وراثت کے حق سے محروم ہی رہے گا!
ویسے آپ کافی غلط فہمیوں کا شکار ہیں! ان شاء اللہ آگے اور بھی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا! ان شاء اللہ!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے بنا بریں یتیم پوتا بھی اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے جیسے اس کے چچا کے والد کا ترکہ ہے۔ لہذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔
اور زیادہ حکمت نہ بگھاڑو کیونکہ تم سے زیادہ اللہ کو حکمتیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان یتیم پوتوں کو ان کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اور یہ اللہ کی حکمت و تدبیر کا ہی حصہ ہے کہ اس نے اس یتیم پوتے کے باپ کو اٹھا لیا اور اس کی جگہ اس کے بیٹے کو لاکھڑا کیا ۔ پہلے بھی وہ اپنے دادا کی اولاد تھا جب اس کا باپ موجود تھا اور اب جب کہ اس کے باپ کو اللہ تعالیٰ نے اسے وفات دیدی ہے تو اپنے باپ کے نہ رہنے پر بھی اپنے دادا کی اسی طرح اولاد ہے جیسے اس کے چچا تائے اولاد ہیں۔ کیونکہ جس طرح اس کے چچا تائے کے مرنے پر اس کا دادا وارث ہوگا اسی طرح اس یتیم پوتے کے مرنے پر بھی دادا ہی اس کا وارث ہوگا نہ یہ کہ اس کے چچا تائے کیونکہ دادا والد ہے اور پوتا اس کی اولاد ہے۔ اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد ہے اسی طرح جیسے اس کا چچا تایا حقیقی اولاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک بالواسطہ ہے اور دوسرا بلا واسطہ ہے یہی معاملہ باپ دادا کا بھی ہے کہ باپ حقیقی والد ہے اور دادا بھی حقیقی والد ہے باپ بلا واسطہ والد ہے اور دادا بالواسطہ والد ہے۔ یہی سبب ہے کہ یتیم پوتے کی وفات پر باپ کی جگہ دادا ہی بحیثیت حقیقی والد وارث قرار پاتا ہے چچا تائے نہیں بنا بریں یتیم پوتا بھی دادا کی وفات پر بمنزلہ اپنے باپ کے دادا کی حقیقی اولاد ہونے کے ناطے وارث ہے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔ البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے بھی باپ ہیں اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔ فافہم و تدبر۔
اولاد ،ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کےہیں۔ جو جنے ہوئے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ولد صرف اسی کو کہیں گے جو جنا گیا ہو یعنی جس میں توالد و تناسل کی نسبت پائی جائے وہ ولد ہے خواہ وہ بیٹے کے ذریعہ جنا گیا ہو یا بیٹی کے ذریعہ یا پوتے پوتی کے ذریعہ جنا گیا ہو یا نواسے نواسی کے سب کے سب حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہی ہیں
یہ ہے دراصل آپ کے باطل موقف کی باطل بنیاد!
اس کا لغوی بطلان تو ہم بعد میں بیان کرتے ہیں، پہلے تو یہ بتلائے دیتے ہیں کہ آپ یہ جو کچھ ہمیں باور کروانا چاہتے ہیں، آپ خود اس پر قائم نہیں!
دیکھیں! آپ نے یہاں فرمایا ہے کہ:
''أولاد'' حقیقی ہی ہوتی ہے؛
پوتا بھی دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے
اور پوتا خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، وہ اپنے دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے، جیسے اس کے والد، چچا اور تایا وغیرہ حقیقی اولاد ہیں!
حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں!
مزید آپ نے تمام ذریت کو ''اولاد '' میں شامل کیا، کہ بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسے نواسی اور پھر ان سے جننے ہوئے آگے، تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں،
اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے!
اور اس ''اولاد'' کے لئے آپ نے فرمایا کہ:
اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی:
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
تو پھر جناب! آپ تمام ''اولاد'' کو جس میں آپ کے بقول بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں اور پھر ان کی ذریت، تمام کو وراثت کا حقدار کیوں نہیں ٹھہراتے، اور ان تمام میں مردوں کو ایک ایک اور عورتوں کو اس کا نصف حصہ کیوں قرار نہیں دیتے؟
جبکہ آپ کے بقول تو یہ تمام ''حقیقی اولاد'' ہیں! پھر آپ صرف یتیم پوتے کو دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہراتے ہوئے، باقی تمام پوتے، پوتیوں کو محروم کیوں کرتے ہو؟ جبکہ آپ کے بقول تمام أولاد وذریت کے بارے میں اللہ تعالی نے وصیت کی، تاکیدی حکم دیا، فریضہ عائد کیا، عہد وپیماں لیا! تو پھر آپ صرف یتیم پوتے کو وراثت کا حقدار قرار دیتے ہوئے، باقی تمام پوتے، پوتی نواسے نواسی، اور ان کی ذریت کو وراثت سے محروم کرتے ہوئے، اللہ کے حکم کی حکم عدولی، اللہ کے عائد کئے ہوئے فرض کا انکار، اور عہد شکنی کیوں کرتے ہو!
معلوم ہوا کہ آپ بھی اپنے ''اولاد'' کے اس معنی و مفہوم پر قائم نہیں!
آپ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بیٹا اقرب ہے لہذا بیٹے کے ہوتے اس کا بیٹا، بیٹی، یعنی دادا کے پوتا، پوتی وراثت نہیں پائیں گے، کہ آپ نے اس کی بھی نفی کردی ہے یہ کہہ کر کر دی ہے کہ اس کا تعلق ''اولاد اور والدین'' سے نہیں!
فتوے میں کہا گیا ہے: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا)۔
اس میں اتنی بات تو صحیح ہے کہ: (اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا)، یہ کلام الٰہی لفظ الاقربون سے ثابت ہوتا ہے جو اقرباء کے سلسلہ میں ہے اس کا تعلق اولاد و والدین سے نہیں ہے
ویسے بھی آپ اپنے ''أولاد'' اور ''والد'' کے بیان کردہ معنی و مفہوم کے تحت، اور قرآن کی آیت کا اپنا فہم پیش کرنے بعد ایسی تعبیر نہیں کر سکتے!
آپ نے تو قرآن کی آیت سے یہ کشید کیا ہے کہ:
اللہ کا یہ حکم اور فرمان اور فرض وصیت ہے جو اس نے پوتے کے پیدا ہوتے ہی اور اس کے یتیم ہوتے ہی کردی تھی اور وہ یہ ہے: فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ[سورة النساء: 11]
یعنی جو بھی تمہاری اولادیں ہیں مذکر مونث، واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے اللہ تعالی کا یہ حکم، فرمان اور وصیت ہے کہ تم ان کے درمیان عدل و انصاف کرو اور مساوات و برابری کا معاملہ کرو۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو دو اور کسی کو محروم کرو۔ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ اللہ کی وصیت، اس کا تاکیدی حکم اور فریضہ ہے نیز اللہ تعالیٰ تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے جس کی خلاف ورزی کا انجام انتہائی خطرناک یعنی جہنم کی دائمی آگ کا ذلت آمیز عذاب ہے۔
جب آپ کے بقول اللہ تعالی کا یہ حکم واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے ہے، تو آپ يتیم ''بالواسطہ أولاد'' کے دیگر ''بالواسطہ اولاد'' کو محروم کر کے، عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر، مساوت اور برابری کی دھجیاں بکھیر کر، نا انصافی کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت، اس کے تاکیدی حکم اور فریضہ، نیز اللہ نے جو آپ سے یہ عہد وپیمان لیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جہنم کی دائمی آگ کے ذلت آمیر عذاب کی طرف کیوں جاتے ہو!
اور اللہ کی اس وصیت کی خلاف ورزی یا انکار کرتے ہوئے اللہ کے فرمان کا منکر ہوتے ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرتے ہوئے مشرک کیوں بنتے ہو؟
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔
جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟
پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟


رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا
جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا!
مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!

چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔
ویسے آپ دوسروں تو خواہ مخواہ قرآن لفظی اور معنوی تحریف سے متہم کرتے ہو، جبکہ آپ خود قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہو رہے ہو!
اور آپ اپنے کلام کے خود ہی مصداق ٹھہرتے ہو، کہ یہودیوں کا شیوہ اختیار کرنے کے مصداق!
جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب وقرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [سورة المائدة: 41]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ کلمات کو اس کے موقع و محل سے ہٹا کر پھیر بدل کر کےمعنی و مفہوم نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح و درست معنی و مفہوم ہے لہذا تم اسی کو لازم پکڑو اور اگر یہ معنی و مفہوم نہ ہو تو اس سے بچو۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ اس جیسے فتنے سے دوچار کردے تو تم اس کے لئے کیا کرسکتے ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
آپ نے یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے، اللہ کے کلام کو اس کو مواضع سے پھیر کر اپنا من مانا مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی ہے! آپ نے آیت کا ایک حصہ نقل کیا، اور اس بات کا کوئی خیال نہ کیا کہ یہ کن سے متعلق ہے، اور اللہ کا حکم کیاہے؟
آپ نے یہ بھی نہ دیکھا کہ آپ کے پیش کردہ قران کی آیت کے اس حصہ میں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع کیا ہے؟
دیکھیں:
اللہ تعالی نے قرآن میں یہ کس کے متعلق اور کیا فرمایا ہے:

مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾ ﴿سورة الأحزاب﴾
الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے﴿﴾ انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو اور الله بخشنے والا مہربان ہے﴿﴾ ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
یعنی یہاں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع أَدْعِيَاءَكُمْ ہے۔
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
یوں تو احادیث کی کتب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کو اس کے والد کی طرف نسبت دیئے پکارا ہو! بطور مثال صحیح مسلم سے حدیث جبرئیل سے پیش کرتا ہوں:

۔۔۔۔ حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ:
يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ بَیَانِ الْإِيمَانِ، وَالْإِسْلَامِ، والإِحسَانِ....)

یہاں دیکھ لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا!
جبکہ آپ نے یہاں فرمایا:

یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔
یہ ''واسطہ بالواسطہ'' کا آپ کے اعصاب پر سوار ہونا معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کو نسب و نسبت اور 'واسطوں'' کا فرق ہی نہیں معلوم! یہاں ''واسطوں'' کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ یہاں نسب ونسبت کی بات ہے!
دوم کہ کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟
جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے!
کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا!
یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!
نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔ اس سے معلوم ہوا اور ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
یہ تو ویسے حد ہی ہو گئی!
دیکھیں! قرآن میں یوں ہے:

وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾

اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی
﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری

اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟
جبکہ انبیاء علیہ السلام کی تو مالی وراثت نہیں ہوتی! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متعدد کتب میں موجود ہیں، صحیح بخاری سے ایک روایت درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»

صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»)
اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کو ان کے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کی بشارت کا شریعت کے وراثت کے اصول و ضوابط سے کوئی تعلق ہی نہیں اور آپ یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے کلام کو اس کے مواضع بدل رہے ہو! اسی کے مصداق ٹھہرتے ہو، جو آپ نے خود رقم فرمایا!
جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب وقرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [سورة المائدة: 41]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ کلمات کو اس کے موقع و محل سے ہٹا کر پھیر بدل کر کےمعنی و مفہوم نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح و درست معنی و مفہوم ہے لہذا تم اسی کو لازم پکڑو اور اگر یہ معنی و مفہوم نہ ہو تو اس سے بچو۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ اس جیسے فتنے سے دوچار کردے تو تم اس کے لئے کیا کرسکتے ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
یہ تو ہوا، آپ کا قرآن کی آیت سے خود کشید کردہ باطل موقف کا بیان!
اور میرے بھائی! ذرا غور سے پڑھیئے گا! تا کہ پھر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں! اور خواہ مخواہ ہمیں کوسنے دینے کی بھی ضرورت نہیں، کہ جو باتیں ہم نے آپ کے لئے لکھیں ہیں، وہ آ پ نے خود دوسروں کے لئے لکھی ہیں! لہذا زیادہ پارسائی دکھانےاور بھولا بننے کی تو کوشش ہی نہ کیجئے گا!
ہم دیکھ رہے ہیں کہ یتیم پوتے کی وراثت کے سلسلہ میں لوگ اسی طرح کے فتنے کا شکار ہیں کہ جہاں کہیں یتیم پوتے کے حق وراثت کی بات آتی ہے قرآن و حدیث میں غور فکر نہیں کرتے اور ایک تحریف شدہ معنی و مفہوم کو اللہ کا دین و شریعت سمجھتے ہیں اور جو کوئی بھی یتیم پوتے کے استحقاق وراثت کی بات کرتا ہے تو اس فکر کو گمراہ کن اور اس کے پیش کرنے والے کو گمراہ (جیسا کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے بلا سوچے سمجھے مجھ ناچیز کے تعلق سے فتویٰ داغ دیا۔)، یہی نہیں بلکہ کافر تک قرار دینےسے بھی نہیں چوکتے۔ یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو لوگوں نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے چنانچہ یہ خدمت بہت سارے لوگوں نے ماضی میں بھی انجام دیا تھا اور آج بھی بڑے شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو!
بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!
تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں!
اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!

(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
میرے محترم ابن داودصاحب!
لگتا ہے آپ میری تحریر کو غور سے پڑھتے ہی نہیں اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ ان آیات قرآنی اور احادیث رسول پر بھی کوئی توجہ دیتے ہیں۔ جس کے سبب آپ کو میری ساری تحریر میں صرف گمراہی ہی نظر آرہی ہے اور آپ کیڑے ہی نکالے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہم نے یتیم پوتے کے حق وراثت کے سلسلہ میں صرف اور صرف قرآن کی آیت اور حدیث ہی پیش کی ہے کسی فقیہ یا عالم کا قول پیش نہیں کیا ہے اس پر آپ کی زبان و قلم سے یہ نکل رہا ہے: (
آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی:(
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
تو میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں صرف تین ہی آیتیں ہیں جن سے وارثوں کی حقداری و حصہ داری ثابت ہوتی ہے اوور ان کے معینہ حصے معلوم ہوتے ہیں ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد اور والدین کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اور دوسری آیت میں ازواج (شوہر و بیوی) اور ایک ماں کی اولاد(ماں جائے بھائی بہن) کے احکام بیان فرمائے ہیں اور تیسری آیت میں ایک باپ کی اولاد(سگے و علاتی بھائی بہن ) کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔ ور نہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے نیز قرآن میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ دادا یا دادی نانی کا حصہ ہے چنانچہ جب ابو بکر اور عمر فاروق کے پاس ایک دادی اور نانی آئیں تو بر جستہ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب قرآن میں دادی نانی کا حصہ نہیں پاتا لیکن جب صحابہ کرام نے انہیں بتایا کہ اللہ کے رسول نے انہیں چھٹا حصہ جو کہ ماں کا حصہ ہوتا ہے دیا ہے تو ان دونوں کو دیا گیا ۔ اسی طرح ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں باپ کے نہ رہنے پر جب دادا کے حق و حصہ کی بات آئی تو جملہ صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہو کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ دادا باپ کی جگہ حقیقی باپ اور والد ہے اور یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری : کتاب الفرائض میں ہے:
(قَوْلُهُ بَابٌ مِيرَاثُ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ): الْمُرَادُ بِالْجَدِّ هُنَا مَنْ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْمُرَادُ بِالْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَمِنَ الْأَبِ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ فِي الْحُرْمَةِ وَوُجُوهِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفُ عَنِ الْمَذْكُورِينَ الْأَوَّلُ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ.
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا لیکن پھر انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور جب ان کا خود کا ان کا اپنا دور آیا تو انہوں نے بمشورہ زید بن ثابت سگے و علاتی بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا اور اس کی دلیل قرآن کی صرف ایک آیت ایک ہی (ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی کتاب قرآن مجید میں صاحب فرض وارث اور حقدار و حصہ دار بنایا ہے لہذا انہیں بھی حصہ دیا جانا چاہئے چنانچہ اس کے بعد سے دیا جانے لگا۔
آب آپ کی خوش فہمی کے مطابق نعوذ باللہ عمر فاروق اور زید بن ثابت بھی اجماع امت کو توڑنے والے، غلط فہمی کا شکار، گمراہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرے؟۔
جو لوگ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کے ہونے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ او یتیم پوتا عصبہ بعید ہے اس لئے وہ وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا بلکہ محجوب و محروم الارث ہوتا ہے اور چونکہ لوگوں نے یہ ٹھان رکھا ہے کہ بہر صورت، لا محالہ یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کرنا ہی دین و شریعت اور صحیح فکر اور صحیح عقیدہ و مذہب ہے اور اس بات پر سب نے اتفاق کر رکھا ہے اور لازمی طور پر انہیں محروم کرنا یا محروم رکھنا دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت ہے اور اسی کو اجماع امت کا نام دے رکھا ہے جس کو قرآن و حدیث کی کسی بھی دلیل سے توڑا نہیں جا سکتا۔ تو ایسے تمام لوگوں کی صرف ایک ہی رٹ ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید لہذا چچا تائے کے ہوتے قطعی طور پر حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے اس خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت نیز نام نہاد اجماع امت کو صحیح ٹھہرانے کی خاطر قرآن و حدیث میں تحریف و تعطیل اور تاویل بیجا ہے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو انکار سے بھی نہیں چوکتے یہ کام آپ سے پہلے کے لوگوں نے بھی کی ہے اور آپ بھی کر رہے ہیں ورنہ آپ کی زبان و قلم سے کبھی یہ نہ نکلتا کہ (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔
یہ تو کھلے طور پر اللہ کے اس فرمان اور دیگر فرامین الٰہی نیز اللہ کے احکام و فرامین اور فیصلے کو اور صحابہ تابعین اور محدثین کے اجماعی فتووں کو نظر انداز کر نا ہے۔ اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (
آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔ کھلے طور پر کلام الٰہی کی توہین اور اس کا مذاق اڑانا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة الأنعام: 115)) یعنی تمہارے رب کا سچا کلام پورا اور مکمل ہو چکا ہے ۔ جو انتہائی جامع و کا مل اور شامل اور عادلانہ و منصفانہ ہے۔
ذرا ان آیات کا ترجمہ پڑھ لیجئے گا اور اس پر غور فرمائیے گا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام]
نیز فرمایا: (وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا) [سورة النساء: 87] اور اللہ سے بھی بڑھ کر کون ایسا ہے جو سچا ، عادل اور انصافور ہو اور اس کی حدیث، کلام اور بات سے بھی کسی کی بات سچی اور اچھی ہو سکتی ہے۔ اللہ کی آیات کا اس طرح مذاق اڑانا اور اس کا استہزاء و توہین کرنا اور پھر یہ نعرہ لگانا: (ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔) کھلا ہوا تضاد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کی خواہ وہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو اس طرح استہزاء کو برداشت نہیں کرتا ہے اس کا فرمان ہے: (قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ) (سورة التوبة: 65) اے نبی آپ ان لوگوں سے جو اللہ کی کسی ایک بھی آیت کا استہزاء کرتے ہوں کہہ بتا دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ اور اس کی آیتوں کا استہزاء کرتے ہو اس کا مذاق بناتے ہو یہی تمہارا دین اور ایسا ہی ایمان لانا ہے۔ ذرا ان درج ذیل آیت کو بھی ملاحظہ کر لیجئے گا:
(أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ) (سورة التوبة: 63)
میرے محترم صرف یہی ایک آیت ہے جس میں اولاد اور والدین کے احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ جس سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ ورنہ دوسری کسی بھی آیت سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت نہیں کی جاسکتا ہے۔ اور یہی وہ آیت ہے جس سے دادا کا حق و حصہ ثابت کیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن میں بیٹا ،بیٹی اور دادا ، دادی کا تو کوئی حصہ بیان ہی نہیں کیا گیا ہے۔
میرے محترم
ابن داود صاحب نے کہا:
قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
تو آپ اس کا جواب نہ دے پائے اور ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور نے کہا: (یہ ہے دراصل آپ کے باطل موقف کی باطل بنیاد!)۔
نیز آپ نے کہا: دیکھیں! آپ نے یہاں فرمایا ہے کہ: ''أولاد'' حقیقی ہی ہوتی ہے؛ پوتا بھی دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے اور پوتا خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، وہ اپنے دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے، جیسے اس کے والد، چچا اور تایا وغیرہ حقیقی اولاد ہیں! حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں! مزید آپ نے تمام ذریت کو ''اولاد '' میں شامل کیا، کہ بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسے نواسی اور پھر ان سے جننے ہوئے آگے، تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے!
آپ نے اس طول طویل عبارت میں کہا: (حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں!)نیز (تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے(!
تو میرے محترم یہ میرا اپنا قول نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی بیان کردہ بات ہے جس کو ہم صرف نقل کرنے والے ہیں۔
چنانچہ صحابہ تابعین اتباع تابعین اور جملہ محدثین و مفسرین اور شارحین حدیث نے وہی باتیں کہی ہیں جو ہم نے نقل کی ہیں چنانچہ شارح بخاری امام ابن جحر لکھتے ہیں: (
وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ)
یعنی اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ دادا ہے تو حقیقی باپ و والد ہے لیکن باپ کے ہوتے ہوئے وہ وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا کیونکہ اس کا درجہ و مرتبہ باپ کے بعد ہے لہذا باوجود حقیقی باپ و والد ہونے کے وہ باپ کے ہوتے میں وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا۔ بعینہ یہی معاملہ پوتے کا بھی ہے خواہ یتیم ہو یا نہ ہو کہ وہ بھی اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے جس کی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں ہے تو جب تک اس کا باپ موجود ہے وہ محجوب و محروم الارث ہوگا دادا کے ترکہ میں سے ھصہ نہیں پائے گا اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو یقینی طور پر اس میں سے حصہ پائے گا میت کا کوئی دوسرا بیٹا (چچا تایا) اسے محجوب و محروم الارث نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ جب دادا حقیقی باپ اور والد ہے اور باپ کے نہ رہنے پر بطور حقیقی باپ و والد اپنے یتیم پوتے کے اموال متروکہ کا حقدار و حصہ دار ہے تو اسی کے بالمقابل پوتا خواہ یتیم ہو یا غیر یتیم اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے تو جب تک اس کا باپ زندہ ہے وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث ہے اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث نہیں رہے گا بلکہ حقدار و حصہ دار ہوگا۔ تو جس ایک آیت اور جن دلائل سے دادا کا وارث حقدار حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے اسی ایک آیت اور انہیں دلائل سے یتم پوتے کا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے۔
آپ ادھر ادھر کی نہ ہانکیں بلکہ آپ میری اس بات کا جواب قرآن و حدیث سے دیں جو میں نے آپ سے کہی ہے اور میں بار بار ان تمام لوگوں سے جو یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کو محکم شرعی حکم اور اللہ و رسول کا دین اور اس کی مقدس اور پاکیزہ کہتے ہیں کہتا رہوں گا :
(قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے)۔ اور ایسا تا قیامت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آپ نے کہا:
(جب آپ کے بقول اللہ تعالی کا یہ حکم واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے ہے، تو آپ يتیم ''بالواسطہ أولاد'' کے دیگر ''بالواسطہ اولاد'' کو محروم کر کے، عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر، مساوت اور برابری کی دھجیاں بکھیر کر، نا انصافی کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت، اس کے تاکیدی حکم اور فریضہ، نیز اللہ نے جو آپ سے یہ عہد وپیمان لیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جہنم کی دائمی آگ کے ذلت آمیر عذاب کی طرف کیوں جاتے ہو! اور اللہ کی اس وصیت کی خلاف ورزی یا انکار کرتے ہوئے اللہ کے فرمان کا منکر ہوتے ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرتے ہوئے مشرک کیوں بنتے ہو؟)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پوتے اپنے دادا کے ترکہ کے اموال سے محروم نہیں ہوتے ہیں جن کا باپ زندہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے باپ کے واسطے سے انہیں حصہ پہنچ جاتا ہے محروم تو صرف یتیم پوتے پوتیاں ہی ہوتے ہیں جن کے استحقاق(حقداری و حصہ داری) کا مسئلہ درپیش ہے جس کے اثبات کے لئے امام بخاری نے دو الگ الگ باب باندھے ہیں اور اس سلسلہ میں اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ نبوی پیش کیا ہے جو عین عدل و انصاف اور عین شریعت ہے۔ یہ ہے اللہ کا نازل کردہ دین اور اس کی شریعت اور عادلانہ نظام تقسیم میراث۔ وہ اللہ کا دین اور اس کی شریعت نہیں ہے جس میں یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ ظلم و ناانصافی ہو یہ تو لوگوں کی من گھڑت شریعت اور خود ساختہ دین و مذہب ہے جس کی خدمت آپ اور آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ اس کو میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنا چاہوں گا جیس کہ کسی شاعر نے کہا ہے: (شاید کہ اتر جائے تیری دل میں میری بات)۔
مثال کے طور پر کسی شخص کے چار بیٹے ہیں اور ان سب کے بالترتیب ایک، دو، تین ، چار بیٹے ہیں۔ان میں سے ایک بیٹے کے باپ کو چھوڑ کر دو، تین ، چار بیٹوں کے باپ ایک ایک کر کے دادا کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے اور وہ بیٹا جس کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو اس کا باپ اس کے دادا کی وفات کے معا بعد جب کہ دادا کی تدفین بھی نہیں ہو پائی تھی وفات پا گیا۔ تو خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کے مطابق ان تینوں متوفیٰ بیٹوں کے بیٹے تو محجوب و محروم الارث قرار پائے کیونکہ ان کا جرم صرف بس اتنا سا تھا کہ وہ اپنے باپوں کو اپنے دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ پائے اس لئے دادا کے یہ نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہو گئے باقی بچا وہ پوتا جس کا باپ اس کے دادا کی وفات تک زندہ رہا اور اس کی وفات کے فورا بعد مر گیا تو وہ پوتا تنہا اپنے دادا کا وارث اور اس کے سارے مال کا حقدار و حصہ بن گیا اور بقیہ نو پوتے کف افسوس ملتے رہ گئے۔ کیونکہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کہتی ہے کہ یہ سب کے سب نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہیں اور صرف ایک پوتا وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔اللہ تعالیٰ نے صحیح فرمایا:
(فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) [القرآن الكريم]
نیز فرمایا: (وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ) [القرآن الكريم]
ذرا ان آیات کو بھی بغور پڑھ لیجئے گا:
(قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (34) قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (35) وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (36) وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (37) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (38) بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (39) وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (40) وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (41) وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ (42)) [سورة يونس]
(مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (154) أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (155) أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (156) فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (157)) [سورة الصافات ]
(أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (35) مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ (40) أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (41)
[سورة القلم]
اب بتائیے کہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت ظالم ہے یا اللہ تعالیٰ؟۔
میں(مسرور احمد الفرائضی )نے جو یہ کہا ہے: اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ یہ معنی و مفہوم اللہ تعالیٰ کے فرمان (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے نکلتا ہے کیونکہ اس آیت میں لفظ (یوصیکم) فعل مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہوتا ہے ۔ اسی طر ح لفظ اولاد بیٹے بیٹی اور ان سب کی اولادوں (درجہ بدرجہ نیچے تک) سب کا جامع اور سب کو شامل ہے یہ میرا خود ساختہ معنی و مفہوم نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کے دلائل و براہین سے ثابت شدہ اور مسلمہ امر ہے۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
میرے محترم ابن داود صاحب میں نے جو یہ کہا: قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
تو آپ اس کا جواب دیجئے اور ادھر ادھر کی نہ ہانکیئے۔ اور صرف اسی ایک نکتہ پر بحث کیجئے ادھر ادھر نہ بھاگئے۔رہا حق اور باطل کا معاملہ تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرنے والا ہے آپ اور دوسرا کوئی نہیں۔ حق صرف وہی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے(قرآن و حدیث)۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے: (الحق من ربکم) حق صرف وہی ہے جو تمہارے رب کی جانب سے نازل شدہ ہے یعنی قرآن اور حدیث۔ فقہ و فتاویٰ اور علماء و فقہاء کے اقوال و آراء نہیں۔ نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: (اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ) (سورة الأعراف: 3)
یعنی اس حق کی اتباع کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے(قرآن و حدیث)۔اس سے ہٹ کر کسی کو اولیاء جان کر اس کی اتباع نہ کرو۔ تم لوگ بہت کم نصیحت پاتے ہو۔
ورنہ پھر یہ نعرہ لگانا بند کردیجئے: (
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔)
کیونکہ اہل حدیث کا دین و مذہب اور نعرہ تو اللہ کے اس فرمان کے موافق ہوتا ہے: (اتبعوا ماانزل الیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ اولیاء)
اللہ کی طرف سے صرف قرآن وحدیث ہی نازل شدہ ہیں فقہ و فتاویٰ، علماء کے اقوال و آراء نہیں۔ اہلحدیث کا مذہب صرف قرآن و حدیث کی اتباع ہے فقہ و فتاویٰ، اور علماء کے اقوال و آراء کی تقلید نہیں ہے۔


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟
پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟



جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا!
مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!


ویسے آپ دوسروں تو خواہ مخواہ قرآن لفظی اور معنوی تحریف سے متہم کرتے ہو، جبکہ آپ خود قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہو رہے ہو!
اور آپ اپنے کلام کے خود ہی مصداق ٹھہرتے ہو، کہ یہودیوں کا شیوہ اختیار کرنے کے مصداق!

آپ نے یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے، اللہ کے کلام کو اس کو مواضع سے پھیر کر اپنا من مانا مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی ہے! آپ نے آیت کا ایک حصہ نقل کیا، اور اس بات کا کوئی خیال نہ کیا کہ یہ کن سے متعلق ہے، اور اللہ کا حکم کیاہے؟
آپ نے یہ بھی نہ دیکھا کہ آپ کے پیش کردہ قران کی آیت کے اس حصہ میں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع کیا ہے؟
دیکھیں:
اللہ تعالی نے قرآن میں یہ کس کے متعلق اور کیا فرمایا ہے:

مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾ ﴿سورة الأحزاب﴾
الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے﴿﴾ انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو اور الله بخشنے والا مہربان ہے﴿﴾ ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
یعنی یہاں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع أَدْعِيَاءَكُمْ ہے۔
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
یوں تو احادیث کی کتب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کو اس کے والد کی طرف نسبت دیئے پکارا ہو! بطور مثال صحیح مسلم سے حدیث جبراعیل سے پیش کرتا ہوں:

۔۔۔۔ حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ:
يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ بَیَانِ الْإِيمَانِ، وَالْإِسْلَامِ، والإِحسَانِ....)

یہاں دیکھ لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا!
جبکہ آپ نے یہاں فرمایا:


یہ ''واسطہ بالواسطہ'' کا آپ کے اعصاب پر سوار ہونا معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کو نسب و نسبت اور 'واسطوں'' کا فرق ہی نہیں معلوم! یہاں ''واسطوں'' کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ یہاں نسب ونسبت کی بات ہے!
دوم کہ کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟
جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے!
کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا!
یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!

یہ تو ویسے حد ہی ہو گئی!
دیکھیں! قرآن میں یوں ہے:

وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾

اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی
﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری

اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟
جبکہ انبیاء علیہ السلام کی تو مالی وراثت نہیں ہوتی! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متعدد کتب میں موجود ہیں، صحیح بخاری سے ایک روایت درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»

صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»)
اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کو ان کے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کی بشارت کا شریعت کے وراثت کے اصول و ضوابط سے کوئی تعلق ہی نہیں اور آپ یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے کلام کو اس کے مواضع بدل رہے ہو! اسی کے مصداق ٹھہرتے ہو، جو آپ نے خود رقم فرمایا!

یہ تو ہوا، آپ کا قرآن کی آیت سے خود کشید کردہ باطل موقف کا بیان!
اور میرے بھائی! ذرا غور سے پڑھیئے گا! تا کہ پھر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں! اور خواہ مخواہ ہمیں کوسنے دینے کی بھی ضرورت نہیں، کہ جو باتیں ہم نے آپ کے لئے لکھیں ہیں، وہ آ پ نے خود دوسروں کے لئے لکھی ہیں! لہذا زیادہ پارسائی دکھانےاور بھولا بننے کی تو کوشش ہی نہ کیجئے گا!

آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو!
بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!
تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں!
اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!

(جاری ہے)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟
پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟



جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا!
مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!


ویسے آپ دوسروں تو خواہ مخواہ قرآن لفظی اور معنوی تحریف سے متہم کرتے ہو، جبکہ آپ خود قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہو رہے ہو!
اور آپ اپنے کلام کے خود ہی مصداق ٹھہرتے ہو، کہ یہودیوں کا شیوہ اختیار کرنے کے مصداق!

آپ نے یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے، اللہ کے کلام کو اس کو مواضع سے پھیر کر اپنا من مانا مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی ہے! آپ نے آیت کا ایک حصہ نقل کیا، اور اس بات کا کوئی خیال نہ کیا کہ یہ کن سے متعلق ہے، اور اللہ کا حکم کیاہے؟
آپ نے یہ بھی نہ دیکھا کہ آپ کے پیش کردہ قران کی آیت کے اس حصہ میں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع کیا ہے؟
دیکھیں:
اللہ تعالی نے قرآن میں یہ کس کے متعلق اور کیا فرمایا ہے:

مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾ ﴿سورة الأحزاب﴾
الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے﴿﴾ انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو اور الله بخشنے والا مہربان ہے﴿﴾ ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
یعنی یہاں
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ''هم'' کی ضمیر کا مرجع أَدْعِيَاءَكُمْ ہے۔
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
یوں تو احادیث کی کتب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کو اس کے والد کی طرف نسبت دیئے پکارا ہو! بطور مثال صحیح مسلم سے حدیث جبراعیل سے پیش کرتا ہوں:

۔۔۔۔ حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ:
يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ بَیَانِ الْإِيمَانِ، وَالْإِسْلَامِ، والإِحسَانِ....)

یہاں دیکھ لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے والد کی طرف نسبت دیئے بغیر پکارا!
جبکہ آپ نے یہاں فرمایا:


یہ ''واسطہ بالواسطہ'' کا آپ کے اعصاب پر سوار ہونا معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کو نسب و نسبت اور 'واسطوں'' کا فرق ہی نہیں معلوم! یہاں ''واسطوں'' کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ یہاں نسب ونسبت کی بات ہے!
دوم کہ کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟
جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے!
کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا!
یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!

یہ تو ویسے حد ہی ہو گئی!
دیکھیں! قرآن میں یوں ہے:

وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾

اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی
﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری

اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟
جبکہ انبیاء علیہ السلام کی تو مالی وراثت نہیں ہوتی! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متعدد کتب میں موجود ہیں، صحیح بخاری سے ایک روایت درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»

صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»)
اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کو ان کے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کی بشارت کا شریعت کے وراثت کے اصول و ضوابط سے کوئی تعلق ہی نہیں اور آپ یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے کلام کو اس کے مواضع بدل رہے ہو! اسی کے مصداق ٹھہرتے ہو، جو آپ نے خود رقم فرمایا!

یہ تو ہوا، آپ کا قرآن کی آیت سے خود کشید کردہ باطل موقف کا بیان!
اور میرے بھائی! ذرا غور سے پڑھیئے گا! تا کہ پھر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں! اور خواہ مخواہ ہمیں کوسنے دینے کی بھی ضرورت نہیں، کہ جو باتیں ہم نے آپ کے لئے لکھیں ہیں، وہ آ پ نے خود دوسروں کے لئے لکھی ہیں! لہذا زیادہ پارسائی دکھانےاور بھولا بننے کی تو کوشش ہی نہ کیجئے گا!

آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو!
بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!
تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں!
اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!

(جاری ہے)
میرے محترم ابن داود صاحب!
یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو چونکہ آپ نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے اسی لئے آپ یہ خدمت بہت سارے لوگوں کی طرح انجام بڑے شد و مد سے دےرہے ہیں۔
اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب آپ سطحیت کا شکار ہو رہے ہیں اور ادب و تمیز کا دامن آپ سے چھوٹ رہا ہے اور میرے خیال میں آپ مجھے نام نہاد اہل قرآن منکر حدیث سمجھ کر مجھ سے مخاطب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے کہا : (
اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!)
اس طرح آنجناب مجھ ناچیز کو جہالت، بیوقوفی کم علمی اور کج فہمی جیسے القاب و آداب سے نواز رہے ہیں ۔ یہ الفاظ ہمیں بھی لکھنا آتا ہے لیکن ہم ان جیسے الفاظ کا استعمال کسی علمی مباحثے میں جائز نہیں سمجھتے۔ یہ ایک علمی مباحثہ ہے جو ادب و تہذیب کے دائرے میں ہی ہو تو بہتر ہے ۔ آنجناب کی جو بہترین عربی یا اردو دانی اور قرآن و حدیث سے جو اعلیٰ علمی واقفیت اور اعلیٰ فہم ہے وہ آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے آپ کبھی آپ سے مخاطب کرتے کرتے تم پر آجاتے ہیں اور کبھی ہیں سے ہو پر آجاتے ہیں اور پھر اب آپ تو اس سطح پر آگئے ہیں کہ آپ نے ناچیز کو جاہل، بے وقوف، کم علم، کج فہم سب کچھ کہہ ڈالا خیر ہمیں اس سے کوئی گلہ شکوہ اور بحث نہیں ہے ۔ ہم آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کے چند اعلیٰ نمونے پیش کریں گے یہاں ہم آپ سے بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمان یاد رکھیں: (وجادلہم بالتی ہی احسن) الایۃ۔ نیز آپ مخاصمت کا طریقہ اختیار کر کے اللہ کے رسول کے اس فرمان کے مصداق نہ بنیں: (اذا خاصم فجر)۔

زیر بحث مسئلہ میں بات بس اتنی سی ہے کہ آیا دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بنتا ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث ہے؟ ۔ اور یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا نہیں؟ ۔ کیا یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا اس کے اقرباء میں سےہے؟۔ اور قرآن و حدیث کی کون سے دلیل سے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا؟۔
ساری بحث کا محور بس یہ چند نکات ہیں جس کے تعلق سے میں نے چند آیات اور احادیث کو بطور دلائل پیش کیا اور اس سلسلہ میں صحیح بخاری کا یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس پر اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ بھی پیش کیا جس میں اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا ہے۔

علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے ۔ اور اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر دیں جو اس نے آیات مواریث کے ضمن میں فرمایا ہے: (وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)[سورة النساء])
میں نے صرف اتنی سی بات کہی تھی کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہے اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔ اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔ جس طرح اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کا دادا بمنزلہ والد و باپ کے اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے اس کا یتیم پوتا بھی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اس کا واسطہ اس کا باپ تھا جو اب موجود نہیں رہا تو بمنزلہ اولاد میت کے اپنے باپ کی جگہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ اس پر بین دلیل اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا ہے۔ اس کے بر خلاف ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں پائی جاتی ہے۔ لہذا اس مسئلہ پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے؟
چونکہ نام نہاد اہل قرآن، منکرین حدیث حضرات نے اس مسئلہ کو اچھال کر احادیث و سنت رسول کی حجیت کا انکار کیا اور احادیث کے مصدر تشریع ہونے کا انکار کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ احادیث حجت اور مصدر تشریع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ حجت ہوتیں تو اس مسئلہ کا بھی اس حل موجود ہوتا؟ تو ہم نے اس کے جواب میں ہم نے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی کہ احادیث رسول بھی حجت دین اور مصدر تشریع ہے جس طرح قرآن ہے۔ اور ان کا انکار کرے وہ حقیقی کافر ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (151) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (152) [سورة النساء]
ابن داودنے کہا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے! تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں! اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!
الجواب:
ابن داود صاحب آپ کی ان بے تکی باتوں کا تو جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے:
آپ نے کہا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے!
الجواب:
اس کا جوب ہے:
جی ہاں ہمارے پاس اللہ و رسول کی جانب سے آسمانی سند اور دلیل ہے یعنی قرآنی آیات اور احادیث نبویہ جو اس بات پر دلیل واضح اور حجت قاطع ہے کہ بیٹا، پوتا بیٹی پوتی نواسے نواسیاں سبھی انسان کی اولاد اور اس کی شاخیں ہوتی ہیں جنہیں اولاد، ذریت اور فرع کہا جاتا ہے اور بالاجماع سب کے سب لفظ اولاد کے مفہوم میں شامل ہیں اور لفظ اولاد سب کا جامع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے باپ، دادا، پردادا، دادی پردادی، نانا نانی وغیرہ سب والدین کے لفظ کے عموم میں داخل اور سب کو شامل اور یہ لفظ سب کا جامع ہے۔ اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہیں اور آپ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پارہے ہیںاور آپ کٹھ حجتی کئے جا رہے ہیں اور ایک بے بنیاد بات کو توڑ مڑور کر صحیح ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اصل موضوع بحث سے ہٹ کر ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
آپ میری اس بات کا جواب دیں جس کا میں آپ سے بار بار مطالبہ کر رہا ہوں وہ یہ کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں باقاعدہ دو باب ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا اور دوسرا یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا۔
آپ میری اس بات کا جواب تو دے نہیں رہے ہیں اور الٹا مجھ ناچیز کو بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم قرار دے رہے ہیں۔
اگر آپ اپنے الفاظ (جہالت وبیوقوفی) کا شکار نہیں ہیں اور بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم نہیں ہیں اور آپ کے حق میں کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہوگا۔تو برائے مہربانی پیش کریں۔ ورنہ آپ کی ساری باتیں بے تکی بے بنیاد خلاف کتاب و سنت قرار پائیں گی۔ تو برائے مہربانی الزام تراشی چھوڑیئے اور اصل مدعا پر آکر میرے اس سوال کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ اور اس سے متعلق دیگر سوالات کا جواب دیجئے۔ادھر ادھر کی نہ ہانکئے۔
میں نے قرآن کی یہ آیت (
وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾)
کو یہ دکھانے کے لئے پیش کیا تھا کہ اولاد میں بیٹا بھی آتا ہے اور پوتا بھی جیسا کہ ابراہیم کی بیوی کو اسحاق بیٹے اور اس کے توسط سے پیدا ہونے والی اولاد پوتے یعقوب کی خوشخبری دی گئی۔
ظاہر سی بات ہے کہ اسحاق کے بیٹے یعقوب جو کہ ابراہیم کے پوتے ہیں ان کی بیوی کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اسحاق کی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔

آپ کی اعلیٰ فہم اور قرآن و حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ آپ اتنی معمولی بات کو سمجھ نہ سکے اور لگے انبیاء کی وراثت جاری ہوتی ہے یا نہیں پر بحث کرنے۔ چنانچہ یوں رقم طراز ہیں: دیکھیں! قرآن میں یوں ہے: وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟

یہ ہے آپ کا مبلغ علم اور اعلیٰ فہم و فراست؟ ...... آگے اور کیا کہا جائے!
اسی طرح میں نے یہ واضح کرنے کے لئے کہ اولاد کی نسبت اور پہچان اس کے والدین کے توسط سے ہوتی ہے۔ نہ کہ چچا تائے کے توسط سے یا کسی منہ بولے بیٹے کی نسبت اور پہچان اس کے منہ بولے باپ سے نہیں کی جاتی جیسا کہ عہد جاہلیت میں ہوتا تھا۔ لہذا کسی کی نسبت اس کے باپ، دادا، پردادا سے کی جانی چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ انہیں ان کے باپ کے واسطوں سے نسبت کر کے پکارو۔ جس کے جواب میں آپ طول طویل بحث کرنے میں لگ گئے۔ اور اس سلسلہ میں حدیث جبرئیل پیش کی جس میں یا محمد اور یا عمر کا لفظ آیا ہوا ہے۔ اس میں اس لفظ سے پکارنے سے مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کا نام لیکر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ نہ یہ کہ کس کی طرف اس کی نسبت ہے کون اس کا باپ دادا ہے۔
اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہے اور نہ سمجھ پارہے ہیں اور الٹی پلٹی ہانکے جارہے ہیں۔ اور ہم نے جس نکتے پر توجہ چاہی تھی وہ پس پشت ڈال کر یہ طول طویل بات لکھ ماری:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
ہمارا اس آیت سے استدلال یہ تھا کہ: اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ نے لکھا:

جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟ پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا
ابن داود نے کہا:
جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

الجواب: میں کسی پوتے کو ان کے حق سے محروم کئے جانے کی بات تو کرہی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف یتیم پوتوں کے محروم نہ کئے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کو نہیں دیا جائے گا۔ اور چچا تایوں کو دیا جائے گا تو ان کے توسط سے ان کے بیٹے بیٹیوں یعنی غیر یتیم پوتے پوتیوں میں سے ہر ایک کو مل جائے گا اور ان سب پوتے پوتیوں کو ان کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچ جائے گا۔ اور صرف یتیم پوتے پوتیاں محروم رہ جائیں گے۔ جب کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ہوتے یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم نہیں کیا ہے۔ یہ تو آپ جیسے لوگ ہیں جو یتیم پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
الجواب:
میری اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی جو ترتیب رکھی ہے پہلے بیٹا پھر اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا۔ یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا درجہ بدرجہ نیچے تک۔ جیسے اللہ نے انہیں بنایا ہے اسی ترتیب سے درجہ بدرجہ انہیں حق و حصہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چچا کی عمر زیادہ ہے یا پوتے کی عمر۔ لیکن آپ کی اعلیٰ فہم و فراست نے اس کو یوں سمجھ لیا جو آپ نے یوں تحریرکیا:

آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا! مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!

الجواب:
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم و فراست جس کی اگر داد نہ دی جائے تو ایسی اعلیٰ فہم و فراست اور قرآن و حدیث دانی کی توہین ہوگی۔
بات درجہ بدرجہ پیدا ہونے کی ترتیب کے لحاظ کی ہے لیکن سمجھا گیا عمر کے زیادہ و کم ہونے کے اعتبار سے ترتیب کا لحاظ رکھنا۔ کہاں کا تیر کہاں کا تکہ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چلیں اب آپ ہی اپنی تحریر مکمل کر لیں!
لیکن اس کے بعد جب میں تحریر کروں، تو درمیاں میں نہ لکھیئے گا!
 
Top