• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یہ بتلا دیں کہ یہ دو ابواب صحیح بخاری کے کس نسخہ میں ہیں؟
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ بتلا دیں کہ یہ دو ابواب صحیح بخاری کے کس نسخہ میں ہیں؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب من!
یہ صحیح بخاری کے دو ابواب نہیں ہیں بلکہ میں نے سحیح بخاری کے اس باب کی توضیح و تشریح کی ہے اور اس کا مفہوم بیان کیا ہے جس سے یتیم پوتے کا حق وراثت ثابت ہوتا ہے۔ فافہم و تدبر!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ہم جواب لکھتے ہیں، اور آپ اب جواب کے دوران نہ لکھیئے گا!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم ابن داودصاحب!
لگتا ہے آپ میری تحریر کو غور سے پڑھتے ہی نہیں اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ ان آیات قرآنی اور احادیث رسول پر بھی کوئی توجہ دیتے ہیں۔
یہ آپ کا وہم ہے کہ ہم آیات قرآنی اور احادیث رسول صلی اللہ علعیہ وسلم پر توجہ نہیں دیتے! بات یہ ہے کہ ہم آپ کے فہم اور کشید کردہ مفہموم کو قرآن وحدیث نہیں مانتے!
جس کے سبب آپ کو میری ساری تحریر میں صرف گمراہی ہی نظر آرہی ہے اور آپ کیڑے ہی نکالے جا رہے ہیں۔
جب آپ کی تحریر میں ''کیڑے'' ہیں تو اس کی نشاندہی کرنا تو ضروری ہے!
اب دیکھیں! آپ کا کلام، قرآن و حدیث تو نہیں کہ آپ کےکلام میں ''کیڑے'' ہونے کی نشاندہی کرنا کوئی گناہ و کفر قرار پائے!
جبکہ ہم نے یتیم پوتے کے حق وراثت کے سلسلہ میں صرف اور صرف قرآن کی آیت اور حدیث ہی پیش کی ہے کسی فقیہ یا عالم کا قول پیش نہیں کیا ہے اس پر آپ کی زبان و قلم سے یہ نکل رہا ہے: (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی:(
جناب! آپ نے اگر کسی فقیہ یا کس عالم کا قول پیش کیا ہوتا، تو ہم اس فقیہ یا عالم کے قول پر تبصرہ کرتے، کہ اس قول میں وہ فقیہ یا عالم مصیب ہے یا مخطی! مگر آپ نے اپنا ہی اقوال پیش کیئے ہیں، لہٰذا ہم نے آپ کے متعلق ہی کہا، کہ یہ آپ کااپنا ''کشید کردہ'' مفہوم ہے، جو کہ باطل ہے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
یہ عربی عبارت تو اللہ کا فرمان ہے، جو کہ قرآن مجید کی سورۃ النساء موجود ہے!
اور یہ جو اردو عبارت ہے، یہ آپ کا ''کشید کردہ'' مفہوم ہے، اور اس آیت کے ترجمہ میں آپ کے ''کشید کردہ مفہوم'' کا ترکہ شامل ہے!
لہٰذا آپ کے ''کشید کردہ مفہوم'' پر نقد کو قرآن پر منطق کرنا بلکل درست نہیں!
تو میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں صرف تین ہی آیتیں ہیں جن سے وارثوں کی حقداری و حصہ داری ثابت ہوتی ہے اوور ان کے معینہ حصے معلوم ہوتے ہیں ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد اور والدین کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اور دوسری آیت میں ازواج (شوہر و بیوی) اور ایک ماں کی اولاد(ماں جائے بھائی بہن) کے احکام بیان فرمائے ہیں اور تیسری آیت میں ایک باپ کی اولاد(سگے و علاتی بھائی بہن ) کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔
یہ موقف منکرین حدیث کا تو ہے، لیکن مسلمانوں کا یہ موقف نہیں، مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام دینی امور وحی ہیں، خواہ وہ قرآن کی وحی ہوں یا قرآن کے علاوہ!
اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جو قرآن کے علاوہ ہے، اسی طرح قرآن کی آیت میں تبین، تخصیص اور تنسیخ کے کا حق رکھتی ہے، جیسے قرآن کی وحی!
لہٰذا یہ کہنا کہ خود اللہ کے رسول، انہیں تین قرآنی آیات سے وراثت کے احکام بین کیئے ہیں، درست نہیں!
اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ محدثین وفقہا نے بھی انہیں تین قرآنی آیات سے وراثت کے احکام بین کیئے ہیں، اور دلائل اخذ کیئے ہیں، یہ بھی درست نہیں! بلکہ محدثین وفقہاء نے قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ نازل ہونے والی وحی، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے وراثت کے دلائل و احکام بین کیئے ہیں!
اب آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ یہ نہ کہنا چاہتے ہوں، لیکن آپ کو اپنے ما فی الضمیر کو بیان کرنا نہ آیا، اور اپنے کلام کے مقتضی کو خود ہی نہ سمجھ سکے!
اور جب آپ کے کلام کا نقص بیان کیا جاتا ہے، کہ آپ کے کلام کا مقتضی قرآن وحدیث کے منافی ہونے کے سبب باطل ہے، تو آپ اسے ''کیڑے نکالنا'' کہتے ہو!
اب کیا کیا جائے! یہ اگر ''کیڑے'' ہیں، تو یہ آپ کے کلام میں ہیں!
ور نہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے
یہ آپ کی کم علمی ہے، اگر آپ کو نہیں معلوم تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن وحدیث میں نہیں!
اب دیکھیں! آپ نے یہ لکھ تو دیا کہ ''قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے'' بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں کہ قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کاحصہ نہیں، تو پھر آپ بیٹے بیٹی کو حصہ کیوں دیتے ہو؟
اور اگر قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کا حصہ نہیں لکھا ہوا، تو آپ بیٹے اور بیٹی کا حصہ قرار دے کر شریعت سازی کا کفر کیوں کرتے ہو؟
یہ آپ کے کلام کا مقتضی ہے، لیکن آپ کو اپنے کلام کی ہی سمجھ نہیں!
ور نہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے نیز قرآن میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ دادا یا دادی نانی کا حصہ ہے چنانچہ جب ابو بکر اور عمر فاروق کے پاس ایک دادی اور نانی آئیں تو بر جستہ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب قرآن میں دادی نانی کا حصہ نہیں پاتا لیکن جب صحابہ کرام نے انہیں بتایا کہ اللہ کے رسول نے انہیں چھٹا حصہ جو کہ ماں کا حصہ ہوتا ہے دیا ہے تو ان دونوں کو دیا گیا ۔
یہی بات ہم نے آپ کو اوپر بتلائی ہے، کہ مسلمانوں کے لئے تمام شرعی احکام بشمول رواثت کے قرآن و حدیث سے ثابت ہوتے ہیں، نہ کہ محض قرآن سے! اور آپ نے خود یہاں یہ تسلیم کیا کہ قرآن میں تو دادی اور نانی کا کوئی حصہ نہیں، لیکن حدیث ہے!
جبکہ اس سے قبل آپ نے کہا تھا کہ:
یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔
تو میرے بھائی! لکھنے سے پہلے ذرا سوچ بچار کر لی جائے کہ کیا لکھا جا رہا ہے!
سی طرح ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں باپ کے نہ رہنے پر جب دادا کے حق و حصہ کی بات آئی تو جملہ صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہو کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔
اول تو آپ کی یہ بات درست نہیں، اور نہ ہی ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے، جو آپ باور کروانا چاہتے ہیں، مگر اس پر تو بعد میں آتے ہیں، کہ ابن حجر عسقلانی نے کیا کہا ہے!
پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں، جو آپ کہہ رہے ہیں!
آپ یہاں کہتے ہیں کہ ''جملہ صحابہ کرام'' کا ''اتفاق'' ہوا اور آگے آپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ''جملہ صحابہ کرام'' سے خارج قرار دیتے ہو!
دیکھیں آپ نے خود آگے کیا فرمایا ہے:
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا
تو آپ کی بقول بھی اس امر پر اجماع صحابہ نہ ہوا تھا! کیونکہ آپ کے ہی بقول عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر نے اختلاف کیا، آپ کے رقم کردہ ''خاصکر'' میں دیگر بھی شامل ہوتے ہیں،
اس کے باوجود اپنی غلط فہمی میں ہمیں طعن کرتے ہیں کہ:
آب آپ کی خوش فہمی کے مطابق نعوذ باللہ عمر فاروق اور زید بن ثابت بھی اجماع امت کو توڑنے والے، غلط فہمی کا شکار، گمراہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرے؟۔
تو میرے بھائی! آپ کو چاہیئے کہ آپ کم از کم اپنے ہی کلام کو سمجھنے کی لیاقت پیدا کریں!
آپ نے خود یہ بتلایا ہے کہ کوئی اجماع نہیں ہوا، کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر نے اس معاملہ میں مخالفت کی تھی!
چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔
یہ بات آپ کے ذہن کی خانہ ساز ہے کہ آپ دادا کو باپ کی جگہ ''والد'' قرار دے رہے ہیں!
''جد'' کسی شخص کے ''والد'' کے ''والد'' کو کہتے ہیں! کسی شخص کے ''والد'' کو ''جد'' نہیں کہتے!
آپ کو ''ولد''، ''والد''، ''اب''، ''ابن'' اور ''ذریت'' کے الفاظ کو سمجھنے میں کافی مشکل پیش آرہی ہے اور اسے مستقل خلط کئے جا رہے ہو!
کیونکہ دادا باپ کی جگہ حقیقی باپ اور والد ہے اور یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری : کتاب الفرائض میں ہے: (قَوْلُهُ بَابٌ مِيرَاثُ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ): الْمُرَادُ بِالْجَدِّ هُنَا مَنْ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْمُرَادُ بِالْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَمِنَ الْأَبِ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ فِي الْحُرْمَةِ وَوُجُوهِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفُ عَنِ الْمَذْكُورِينَ الْأَوَّلُ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ.
یہاں تو ''اب'' کے متعلق کہا گیا ہے، آپ نے اس میں ''والد'' کے لفظ کو بھی شامل کردیا!
یہاں کہیں بھی جد کو اس کا
''حقیقی والد'' نہیں کہا گیا!
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا لیکن پھر انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور جب ان کا خود کا ان کا اپنا دور آیا تو انہوں نے بمشورہ زید بن ثابت سگے و علاتی بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا اور اس کی دلیل قرآن کی صرف ایک آیت ایک ہی (ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی کتاب قرآن مجید میں صاحب فرض وارث اور حقدار و حصہ دار بنایا ہے لہذا انہیں بھی حصہ دیا جانا چاہئے چنانچہ اس کے بعد سے دیا جانے لگا۔
ابن حجر عسقلانی نے کیا بیان کیا ہے، یہ تو آگے بیان ہوگا، پہلے آپ کے بیان کا تضاد بیان کرتے ہیں!
آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے ہی موقف کی سمجھ نہیں! اور نہ ہی کچھ یاد رہتا ہے کہ آپ کیا کچھ لکھ آئے ہو!
دیکھیں یہاں آپ نے فرمایا کہ:
(ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے
اس میں قرآن کی آیت میں بیان کردہ شرط کہ میت کی بہن بھائیوں کے وراثت میں حصہ کے لئے ''ان لم يكن له ولد'' کی شرط کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن آگے آپ نے اپنے فہم کا تڑکہ لگایا ہے، وہ نہیں ماتے کہ ''جب میت کی أولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو''
کیونکہ یہاں
''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
اس کی دلیل وہی حدیث ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ:
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔ اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے
یاد دہانی کے لئے وہ حدیث بھی پھر سے نقل کر دیتے ہیں:
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کو قبول کرتے ہیں، کہ پوتی کی موجودگی میں بھی بہن کا حصہ ہے، یعنی پوتی کی موجودگی قرآن میں بیان کردہ شرط ''ان لم يكن له ولد'' کو مفقود نہیں کرتی، یعنی پوتی کی موجودگی سے میت کے ''ولد'' کی موجودگی قرار نہیں پاتی، یعنی پوتی دادا کی ''ولد'' نہیں!
بنابریں پوتا بھی میت کی کا
''ولد'' نہیں!
ہمیں تو یہ تسلیم ہے، مگر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ قبول نہیں! کیونکہ آپ کے نزدیک تو پوتا پوتی، اور ان کی ذریت بھی
''ولد'' میں داخل ہے!
بات در اصل یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے خلاف نہیں، آپ نے
''ولد'' کو یہ جو عالمی مفہوم پہنایاہے، یہ باطل ہے!
الحمد للہ! قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں
''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
آب آپ کی خوش فہمی کے مطابق نعوذ باللہ عمر فاروق اور زید بن ثابت بھی اجماع امت کو توڑنے والے، غلط فہمی کا شکار، گمراہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرے؟۔
یہ آپ کا باطل گمان ہے، نہ تو آپ کی نقل کردہ تحریر میں اجماع کاثبوت ہے، اور نہ ہی حقیقت میں ایسا کوئی اجماع ثابت ہوتا ہے، یہ خواہ مخواہ میں بے بنیاد بہتان طرازی ہے!
اس پر آگے مزید تفصیل بیان ہوگی، ان شاء اللہ!
جو لوگ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کے ہونے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ او یتیم پوتا عصبہ بعید ہے اس لئے وہ وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا بلکہ محجوب و محروم الارث ہوتا ہے اور چونکہ لوگوں نے یہ ٹھان رکھا ہے کہ بہر صورت، لا محالہ یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کرنا ہی دین و شریعت اور صحیح فکر اور صحیح عقیدہ و مذہب ہے اور اس بات پر سب نے اتفاق کر رکھا ہے اور لازمی طور پر انہیں محروم کرنا یا محروم رکھنا دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت ہے اور اسی کو اجماع امت کا نام دے رکھا ہے جس کو قرآن و حدیث کی کسی بھی دلیل سے توڑا نہیں جا سکتا۔ تو ایسے تمام لوگوں کی صرف ایک ہی رٹ ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید لہذا چچا تائے کے ہوتے قطعی طور پر حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے اس خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت نیز نام نہاد اجماع امت کو صحیح ٹھہرانے کی خاطر قرآن و حدیث میں تحریف و تعطیل اور تاویل بیجا ہے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو انکار سے بھی نہیں چوکتے یہ کام آپ سے پہلے کے لوگوں نے بھی کی ہے اور آپ بھی کر رہے ہیں
یہ تمام تو آپ کی ہفوات اور بہتان طرازی ہے، اس پر آپ کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے، کیونکہ نصیحت قبول کرنے کو تو آپ آمادہ نظر نہیں آتے! بلکہ نصیحت قبول کرنے کے بجائے الٹی دشنام طرازی شروع کر دیتے ہیں!
اللہ آپ کو جھوٹ اور بہتان طرازی سے پرہیز کی توفیق دے! آمیں!
ورنہ آپ کی زبان و قلم سے کبھی یہ نہ نکلتا کہ (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔
یہ تو کھلے طور پر اللہ کے اس فرمان اور دیگر فرامین الٰہی نیز اللہ کے احکام و فرامین اور فیصلے کو اور صحابہ تابعین اور محدثین کے اجماعی فتووں کو نظر انداز کر نا ہے۔ اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (
آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔ کھلے طور پر کلام الٰہی کی توہین اور اس کا مذاق اڑانا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة الأنعام: 115)) یعنی تمہارے رب کا سچا کلام پورا اور مکمل ہو چکا ہے ۔ جو انتہائی جامع و کا مل اور شامل اور عادلانہ و منصفانہ ہے۔
ذرا ان آیات کا ترجمہ پڑھ لیجئے گا اور اس پر غور فرمائیے گا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام]
نیز فرمایا: (وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا) [سورة النساء: 87] اور اللہ سے بھی بڑھ کر کون ایسا ہے جو سچا ، عادل اور انصافور ہو اور اس کی حدیث، کلام اور بات سے بھی کسی کی بات سچی اور اچھی ہو سکتی ہے۔ اللہ کی آیات کا اس طرح مذاق اڑانا اور اس کا استہزاء و توہین کرنا
آپ کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیئے!کہ آپ نے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد، جہالت پر مبنی، عقل و خرد سے عاری کلام کو قرآن و حدیث سمجھ لیا ہے، کہ جب آپ کے اس جاہلانہ و بیوقوفانہ کلام پر نقد کیا جاتا ہے، تو آپ اس نقد کو قرآن و حدیث پر نقد کہتے ہو!
اور لوگوں پر تہمت باندھتے ہو کہ انہوں نے قرآن وحدیث کا انکار کیا، مذاق اڑایا اور استہزا و توہین کی!
یہ تو اسی مثل ہے کہ جیسے مرزا قادیانی کی ہفوات کا انکار اور رد کرنے والوں کو مرزا قادیانی قرآن کا منکر قرار دیتا تھا!
اور پھر یہ نعرہ لگانا: (ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔) کھلا ہوا تضاد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کی خواہ وہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو اس طرح استہزاء کو برداشت نہیں کرتا ہے اس کا فرمان ہے: (قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ) (سورة التوبة: 65) اے نبی آپ ان لوگوں سے جو اللہ کی کسی ایک بھی آیت کا استہزاء کرتے ہوں کہہ بتا دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ اور اس کی آیتوں کا استہزاء کرتے ہو اس کا مذاق بناتے ہو یہی تمہارا دین اور ایسا ہی ایمان لانا ہے۔ ذرا ان درج ذیل آیت کو بھی ملاحظہ کر لیجئے گا:
(أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ) (سورة التوبة: 63)
یہ وہی مرزا قادیانی والے حربے، کہ مرزا قادیانی، اس کی ہفوات کو رد کرنے پر قرآن کا منکر قرار دے کر جہنمی کہہ دیا کرتا تھا، بعین یہی انداز آپ نے اپنایا ہوا ہے!
میرے محترم صرف یہی ایک آیت ہے جس میں اولاد اور والدین کے احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ جس سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ ورنہ دوسری کسی بھی آیت سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت نہیں کی جاسکتا ہے۔ اور یہی وہ آیت ہے جس سے دادا کا حق و حصہ ثابت کیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن میں بیٹا ،بیٹی اور دادا ، دادی کا تو کوئی حصہ بیان ہی نہیں کیا گیا ہے۔
جناب من! بیٹے اور بیٹیوں کا حق بالکل اس آیت سے ثابت ہوتا ہے، مسئلہ بیٹے اور بیٹیوں کا نہیں، پوتا اور پوتیوں کا ہے، اور قرآن کی اس آیت میں ''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہوا!
اور دوسری بات یہ کہ، شریعت کے تمام احکامات بشمول رواثت کے محض قرآن مجید نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی ہیں!
میرے محترم ابن داود صاحب نے کہا: قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
یہ غالباً کتابت کی غلطی ہے!
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ:
''ابن داود صاحب سے کہا:''
تو آپ اس کا جواب نہ دے پائے اور ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور نے کہا: (یہ ہے دراصل آپ کے باطل موقف کی باطل بنیاد!)۔
نہیں یہ ہم نے آپ کے مطالبہ پر نہیں کہا!
بلکہ آپ نے اس کے بعد جو ''نیز'' کہہ کر ہمارا کلام رقم کیا ہے، اس سے متصل کہا ہے، اور ہمارا یہ کلام آپ کے اس مطالبہ کے جواب میں نہیں تھا، بلکہ ہم نے آپ کے کلام کا اقتباس پیش کر کرے یہ کہا تھا؛
تو میرے بھائی! کلام کو اس کے مواضع سے پھیر کر یہودیوں کا وصف اختیا نہ کریں!
دوم کہ اب آپ ''ہانکنے'' پر آگئے ہیں، اور جب ہم آ پ کے مستعمل الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں خواہ مخواہ کوسنے دینا شروع ہو جاتے ہو!
میں نے صرف ایک لفظ ایسا استعمال کیا ہے، جو آپ نے نہیں کیا تھا، وہ تھا ''بیوقوفی'' اور اسے استعمال کرنے کا ہمیں بالکل حق حاصل تھا، کہ جب آپ اپنی بیوقوفی میں ہم پر قرآن وحدیث کی ''لفظی تحریف'' کی بھی تہمت داغیں گے، تو اسے بیوقوفی کہنا تو ہمارا حق ہے!
نیز آپ نے کہا: دیکھیں! آپ نے یہاں فرمایا ہے کہ: ''أولاد'' حقیقی ہی ہوتی ہے؛ پوتا بھی دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے اور پوتا خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، وہ اپنے دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے، جیسے اس کے والد، چچا اور تایا وغیرہ حقیقی اولاد ہیں! حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں! مزید آپ نے تمام ذریت کو ''اولاد '' میں شامل کیا، کہ بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسے نواسی اور پھر ان سے جننے ہوئے آگے، تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے!
آپ نے اس طول طویل عبارت میں کہا: (حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں!)نیز (تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے(!
تو میرے محترم یہ میرا اپنا قول نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی بیان کردہ بات ہے جس کو ہم صرف نقل کرنے والے ہیں۔
یہ تو آپ نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جھوٹ باندھ دیا!
دیکھتے ہیں آپ اس کا کیا ثبوت دیتے ہیں! یاد رہے یہ بات ''ولد'' اور ''والد'' کی ہو رہی ہے!
چنانچہ صحابہ تابعین اتباع تابعین اور جملہ محدثین و مفسرین اور شارحین حدیث نے وہی باتیں کہی ہیں جو ہم نے نقل کی ہیں چنانچہ شارح بخاری امام ابن جحر لکھتے ہیں: (وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ)
فتح الباری سے آپ نے یہ جو عبارت نقل کی ہے، اس میں آپ کو کہیں لفظ ''ولد'' یا ''والد'' نظر آرہا ہے؟
یہاں تو نہ
''ولد'' ہے اور نہ ہی ''والد'' بلکہ یہاں ''اب'' کا لفظ موجود ہے!
جبکہ
''ولد'' اور ''ابن'' میں اور ''والد'' اور ''اب'' میں تفاوت آپ نے خود بیان کیا ہے!
ہم آپ کا اپنا کلام یہاں نقل کرکے آپ کو یاد دلاتے ہیں:
اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔ البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے بھی باپ ہیں اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔
تو میرے بھائی! یہاں ''اب'' کو والد اور وہ بھی حقیقی والد باور کروانا درست نہیں، اور آپ کے پچھلے کلام کے بھی منافی ہے!
یعنی اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ دادا ہے تو حقیقی باپ و والد ہے لیکن باپ کے ہوتے ہوئے وہ وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا کیونکہ اس کا درجہ و مرتبہ باپ کے بعد ہے لہذا باوجود حقیقی باپ و والد ہونے کے وہ باپ کے ہوتے میں وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا۔
دیکھیں! انہیں وجوہات کی بنا پر ہم آپ کے کلام کو رد کرتے ہیں، آپ نے یہاں ''والد'' کے الفاظ اپنی فہم کے تڑکہ کے تحت داخل کیئے ہیں، اور اس بات پر اجماع باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دادا پوتے کا ''حقیقی والد'' ہے،
جبکہ بات یہ نہیں، جو آپ باور کروانا چاہتے ہیں!
اول تو آپ کی پیش کردہ عبارت میں
''والد'' کے الفاظ نہیں، بلکہ ''اب'' کے الفاظ ہیں!
دوم کہ یہاں اجماع اس بات پر نہیں کہا گیا کہ دادا حقیقی ''اب'' ہے، بلکہ اجماع تو اس بات پر نقل کیا گیا ہے کہ:
وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ.
اور آپ نے اسے کم از کم غلط فہمی میں دادا کے حقیقی ''اب'' ہونے پر منطبق کردیا!
اور پھر ''ایک تو کریلا اپر سے نیم چڑھا'' کے مصداق
''اب'' کو ''والد'' سے خلط کر دیا!
تو میرے بھائی! اس طرح آپ غلط فہمیوں کو ''اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں کہا کریں!

بعینہ یہی معاملہ پوتے کا بھی ہے خواہ یتیم ہو یا نہ ہو کہ وہ بھی اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے جس کی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں ہے تو جب تک اس کا باپ موجود ہے وہ محجوب و محروم الارث ہوگا دادا کے ترکہ میں سے ھصہ نہیں پائے گا اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو یقینی طور پر اس میں سے حصہ پائے گا میت کا کوئی دوسرا بیٹا (چچا تایا) اسے محجوب و محروم الارث نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ جب دادا حقیقی باپ اور والد ہے اور باپ کے نہ رہنے پر بطور حقیقی باپ و والد اپنے یتیم پوتے کے اموال متروکہ کا حقدار و حصہ دار ہے تو اسی کے بالمقابل پوتا خواہ یتیم ہو یا غیر یتیم اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے تو جب تک اس کا باپ زندہ ہے وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث ہے اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث نہیں رہے گا بلکہ حقدار و حصہ دار ہوگا۔
آپ کا یہ بیان، آپ کی باطل بنیاد پر قائم ہے، جس کا بطلان اوپر بیان کیا گیا!
تو جس ایک آیت اور جن دلائل سے دادا کا وارث حقدار حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے اسی ایک آیت اور انہیں دلائل سے یتم پوتے کا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے۔
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ اگر بیٹا میت ہو،
باپ کی ماں یعنی میت کی دادی، باپ کے ہونے سے ساقط ہوتی ہے، جبکہ دادا ہونے سے ساقط نہیں ہوتی۔
باپ کی موجودگی میں تو چچا، تایا اور پھوپھی ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار نہیں پاتے، اور باپ کے نہ ہونے پر دادا کی موجودگی میں بھی چچا، تایا اور پھوپھی حقدار و حصہ دار قرار پاتے ہیں (جس کے آپ قائل ہو)، تو معلوم ہوا یہاں دادا کو باپ پر قیاس کرنا باطل ہے!
یہ تو ہوا آپ کے نقل کردہ اور بیان کردہ کا تناقض!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ ابن حجر عسقلانی نے کیا بات کی ہے، اور آپ نے ابن حجر عسقلانی کی بات نقل کرنے میں کم از کم کس درجہ غفلت سے کام لیا ہے!
ہم آپ کا کلام یاد دہانی کے لئے دوبارہ نقل کرتے ہیں:
اسی طرح ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں باپ کے نہ رہنے پر جب دادا کے حق و حصہ کی بات آئی تو جملہ صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہو کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ دادا باپ کی جگہ حقیقی باپ اور والد ہے اور یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری : کتاب الفرائض میں ہے: (قَوْلُهُ بَابٌ مِيرَاثُ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ): الْمُرَادُ بِالْجَدِّ هُنَا مَنْ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْمُرَادُ بِالْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَمِنَ الْأَبِ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ فِي الْحُرْمَةِ وَوُجُوهِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفُ عَنِ الْمَذْكُورِينَ الْأَوَّلُ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ.
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا لیکن پھر انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور جب ان کا خود کا ان کا اپنا دور آیا تو انہوں نے بمشورہ زید بن ثابت سگے و علاتی بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا
آپ نے فتح الباري کی مذکورہ عبارت نقل کرکے اس کی بنیاد پر یہ دعوی کیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جملہ صحابہ کا اتفاق ہوا کہ باپ کی غیر موجودگی میں پوتے کا ترکہ دادا کو ملے گا، اور چچا، تایوں کو نہیں ملے گا!
مگر آپ نے اسی سے متصل ابن حجر عسقلانی کے کلام کو نقل نہیں کیا، جو ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے متعلق کہا ہے!
دیکھیں، صحیح بخاری کی روایت اتنی ہے:

''وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ''
اور جس روایت کو بیان کرکے، آپ نے یہ دعوی کر دیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جملہ صحابہ کا اتفاق ہوا کہ باپ کی غیر موجودگی میں پوتے کا ترکہ دادا کو ملے گا، اور چچا تایوں کو نہیں ملے گا! وہ روایت تو آپ نے نقل کی،

قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ
کہ یزید بن ہارون نے کتاب الفرائض میں کہا کہ انہیں محمد بن سالم نے شعبی کے حوالے سے خبر دی کہ ابوبکر، ابن عباس اور زبیر دادا کو ''اب'' ٹھہراتے تھے، کہ دادا وراثت پائے گا جو ''اب'' پاتا ہے، اور محجوب کرے گا، جسے ''اب'' محجوب کرتا ہے!
اول تو اس روایت کا فتح الباری میں بیان کردہ اجماع سے کوئی تعلق نہیں، فتح الباری میں جس کے متعلق اجماع کا ذکر ہے، وہ یہ ہے:
کہ
وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. کہ اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے، کہ باپ کی موجودگی میں دادا وراثت نہیں پائے گا!
آپ نے تو اس روایت پر ہی اتفاق واجماع کا بھی دعوی کردیا!
مگر آپ نے اسی سے متصل ابن حجر کا کلام پیش نہیں کیا، جس میں ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے ثبوت کا انکار کیا ہے!
اسی عبارت سے متصل ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ ضَعِيفٌ وَالشَّعْبِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُنْقَطِعُ
اور محمد بن سالم ضعیف ہے، اور شعبی اور ابو بکر کے درمیان سند منقطع ہے!

ایک نہیں! دو دو علتیں بیان کر کے ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے ثبوت کا انکار کیا ہے!

اور مزید علتیں بھی بیان کی:

وَقَدْ جَاءَ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى وَإِذَا حُمِلَ مَا نَقَلَهُ الشَّعْبِيُّ عَلَى الْعُمُومِ لَزِمَ مِنْهُ خِلَافُ مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ فِي صُورَةٍ وَهِيَ أُمُّ الْأَبِ إِذَا عَلَتْ تَسْقُطُ بِالْأَبِ وَلَا تَسْقُطُ بِالْجَدِّ وَاخْتُلِفَ فِي صُورَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا أَنَّ بَنِي الْعَلَّاتِ وَالْأَعْيَانِ يَسْقُطُونَ بِالْأَبِ وَلَا يَسْقُطُونَ بِالْجَدِّ إِلَّا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَنْ تَابَعَهُ وَالْأُمُّ مَعَ الْأَبِ وَأَحَدُ الزَّوْجَيْنِ تَأْخُذُ ثُلُثَ مَا بَقِيَ وَمَعَ الْجَدِّ تَأْخُذُ ثُلُثَ الْجَمِيعِ إِلَّا عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ فَقَالَ هُوَ كَالْأَبِ وَفِي الْإِرْثِ بِالْوَلَاءِ صُورَةٌ ثَالِثَةٌ فِيهَا اخْتِلَافٌ أَيْضًا
امام ابن حجر عسقلانی نے تو بتلایا ہے کہ ، ثابت ہونے کی صورت میں بھی، یہ عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کہ اس کا عموم تو خود ثابت اجماع کے خلاف ہے!

پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول کی مختلف روایات ذکر کر کے ان کا اثبات کیا ہے!

فَأَمَّا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ الصِّدِّيقُ فَوَصَلَهُ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى أَبِي مُوسَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ مِثْلُهُ وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَيْضًا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا وَفِي لَفْظٍ لَهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا إِذَا لَمْ يَكُنْ دونه أَب وَبِسَنَد صَحِيح عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا وَقَدْ أَسْنَدَ الْمُصَنِّفُ فِي آخِرِ الْبَابِ عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَكَذَا مضى فِي المناقب مَوْصُولا عَن بن الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَأَمَّا قَول بن عَبَّاسٍ فَأَخْرَجَهُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ مِنْ طَرِيقِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَن عَطاء عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ الْجَدُّ أَبٌ وَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ مِنْ طَرِيقِ لَيْث عَن طَاوس أَن عُثْمَان وبن عَبَّاسٍ كَانَا يَجْعَلَانِ الْجَدَّ أَبًا وَأَمَّا قَوْلُ بن الزُّبَيْرِ فَتَقَدَّمَ فِي الْمَنَاقِبِ مَوْصُولًا مِنْ طَرِيقِ بن أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ كَتَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى بن الزُّبَيْرِ فِي الْجَدِّ فَقَالَ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَفْتَاهُمْ بِمِثْلِ قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ مِنْ طَرِيقِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ كَاتِبًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ فَأَتَاهُ كتب بن الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا

تو یہ علتیں جو بیان ہوئی ہیں، یہ تو اضافی بحث ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ابن حجر عسقلانی نے ابو بکر صدیق رضی اللہ کے زمانے میں آپ کا جملہ صحابہ سے منسوب کردہ اتفاق کو جسے آپ نے اجماع بھی باور کروانے کی کوشش کی، اس کے ثبوت کا انکار کیا ہے!
تو میرے بھائی! علمی مباحثہ کے لیئے انسان میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے! ایک علمی لیاقت اور دوسری علمی دیانت! دونوں میں سے ایک بھی مفقود ہو تو علمی مباحثہ ممکن نہیں رہتا، اور دونوں ہی مفقود ہوں تو انسان علمی مباحثہ نہیں کرتا، بلکہ وہ فریب کاری کے فن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے!
ابن حجر عسقلانی کی عبارت سے آپ جس معاملہ میں اجماع کشید کرنا چاہتے ہیں، ابن حجر عسقلانی نے تو اس روایت کے ہی ثبوت کا انکار کیا ہے، چہ جائیکہ وہ اس پر اجماع پر اجماع بتلاتے ہوں!
معلوم ہوا کہ سیدنا أبو بکر، ابن عباس اور ابن زبیر دادا کو باپ کے مقام پر رکھتے تھے، مگر اس طرح نہیں، جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا، کہ دادا بھی بعین باپ کی طرح محجوب کرنے والا ہو!
اس پوری عبارت میں یہ کہیں نہیں، کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے، یا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، یا ابن زبیر رضی اللہ عنہما دادا کو باپ کی جگہ ''والد'' کہا ہو! بلکہ ''اب'' کہا ہے!
پھر ابن عباس کا استدلال بیان کیا ہے:

وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {يَا بَنِي آدَمَ}،{وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ}
اس کی شرح میں ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
قَوْله وَقَرَأَ بن عَبَّاسٍ يَا بَنِي آدَمَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيم وَإِسْحَاق وَيَعْقُوب أما احتجاج بن عَبَّاس بقوله تَعَالَى يَا بني آدم فَوَصَلَهُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى بن عَبَّاسٍ فَقَالَ لَهُ كَيْفَ تَقُولُ فِي الْجَدِّ قَالَ أَيُّ أَبٍ لَكَ أَكْبَرُ فَسَكَتَ وَكَأَنَّهُ عي عَنْ جَوَابِهِ فَقُلْتُ أَنَا آدَمُ فَقَالَ أَفَلَا تسمع إِلَى قَوْله تَعَالَى يَا بني آدم أَخْرَجَهُ الدَّارِمِيُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَمَّا احْتِجَاجُهُ بقوله تَعَالَى وَاتَّبَعت مِلَّة آبَائِي فَوَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ طَرِيقِ عَطَاءٍ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ الْجَدُّ أَبٌ وَقَرَأَ وَاتَّبَعَتْ مِلَّةَ آبَائِي الْآيَةَ وَاحْتَجَّ بَعْضُ مَنْ قَالَ بِذَلِكَ بِقَوْلِهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنا بن عبد الْمطلب وانما هُوَ بن ابْنِهِ
اس پوری عبارت میں، یہ کہیں نہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دادا کو، پوتے کا ''ولد'' قرار دیا ہو، بلکہ ''اب'' کے الفاظ ہیں!
اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

«وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ فِي زَمَانِهِ، وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ»
اس کی شرح میں ابن حجر عسقلانی نے یوں کی ہے:
قَوْلُهُ وَلَمْ يُذْكَرْ هُوَ بِضَمِّ أَوَّلِهِ عَلَى الْبِنَاءِ لِلْمَجْهُولِ
قَوْلُهُ إِنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ فِي زَمَانِهِ وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ
كَأَنَّهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ تَقْوِيَةَ حُجَّةِ الْقَوْلِ الْمَذْكُورِ فَإِنَّ الْإِجْمَاعَ السُّكُوتِيَّ حُجَّةٌ وَهُوَ حَاصِلٌ فِي هَذَا وَمِمَّنْ جَاءَ عَنْهُ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الْجَدَّ يَرِثُ مَا كَانَ يَرِثُ الْأَبُ عِنْدَ عَدَمِ الْأَبِ غَيْرَ مَنْ سَمَّاهُ الْمُصَنِّفُ مُعَاذٌ وَأَبُو الدَّرْدَاءِ وَأَبُو مُوسَى وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَعَائِشَةُ وَأَبُو هُرَيْرَةُ وَنُقِلَ ذَلِكَ أَيْضًا عَنْ عمر وَعُثْمَان وَعلي وبن مَسْعُودٍ عَلَى اخْتِلَافٍ عَنْهُمْ كَمَا سَيَأْتِي وَمِنَ التَّابِعِينَ عَطَاءٌ وَطَاوُسٌ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ وَشُرَيْحٌ وَالشَّعْبِيُّ وَمن فُقَهَاء الْأَمْصَار عُثْمَان التَّيْمِيّ وأبوحنيفة وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهْوَيْهِ وَدَاوُدُ وَأَبُو ثَوْرٍ وَالْمُزَنِيُّ وبن سُرَيْجٍ وَذَهَبَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وبن مَسْعُودٍ إِلَى تَوْرِيثِ الْإِخْوَةِ مَعَ الْجَدِّ لَكِنِ اخْتَلَفُوا فِي كَيْفِيَّةِ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ
یہاں یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے، کہ عمر، علی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کا یہ مذہب بتلایا ہے کہ وہ دادا کے ساتھ بھائی کو بھی وراثت شامل قرار دیتے تھے، یعنی کہ ان کا اوپر مذکورہ بالا سے اختلاف ہے، اور وہ اختلاف اس میں ہے، نہ کہ جیسا اس ضعیف روایت میں مذکور، کہ دادا بعین اسی طرح محجوب کرنے والا ہے، جیسا کہ باپ!
معلوم ہوا کہ باپ کے نہ ہونے پر دادا وراث ہوگا، اس پر اجماع ہے!
دادا بھی بعین باپ کی طرح محجوب کرنے والا ہے، یہ کسی سے بھی ثابت نہیں!
باپ کے نہ ہونے پر دادا کے ساتھ بھائی بھی وارث ہوں گے، یہ اختلافی ہے!

لہٰذا فتح الباری کی یہ جو بحث ہے، اس متعلق ہے کہ باپ کے نہ ہونے پر دادا کے ساتھ بھائی وارث ہوں گے یا نہیں! اس پر مختلف اقوال ہیں!
جس کی جانب امام بخاری نے بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدٍ، أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ.
اب یہاں کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صیغہ تمریض سے بیان کیا ہے، تو لازم آیا کہ امام بخاری کے نزدیک یہ اقوال بالکل ثابت نہیں!
صیغہ تمریض سے بیان کرنے سے ان کا ضعیف ومردود ہونا قرار دینا لازم نہیں آتا! بلکہ مؤلف کے نزدیک صحیح ہونے اور ضعیف ہونے، دونوں کا احتمال برقرار رہتا ہے! اور باقی سیاق و سباق مؤلف کے موقف کو سمجھنے کا قرینہ ہوتا ہے!
وگرنہ لازم آئے گا کہ امام بخاری کی صیغہ تمریض سے بیان کردہ تمام روایات کو امام بخاری کے نزدیک ضعیف مانا جائے، جبکہ ایسا نہیں ہے!
اور جس بات پراجماع کا اشارہ کیا ہے، وہ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے،ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

''الْجَدَّ يَرِثُ مَا كَانَ يَرِثُ الْأَبُ عِنْدَ عَدَمِ الْأَبِ''
'' دادا باپ کے نہ ہونے پر باپ کی طرح وراثت پاتا ہے۔''

یہاں ''الْجَدَّ يَرِثُ مَا كَانَ يَرِثُ الْأَبُ'' کی طرح وارثت پانے کا معنی یہ نہیں، کہ بعین اسی طرح دوسروں کو محجوب کرتا ہے، جیسے باپ محجوب کرتا ہے، کیونکہ یہ الفاظ ابن حجر عسقلانی کے ہیں، اور ابن حجر عسقلانی نے خود ہی اس سے قبل یہ بیان کیا ہے، کہ اسے یوں عموم پر محمول نہیں کیا جاسکتا، کہ عموم پر محمول کرنے سے اجماع کا خلاف لازم آتا ہے!
اور اگر یہ کہا جائے کہ، امام بخاری نے یہ ذکر نہیں کیا، تو امام بخاری نے نہ اس کی تصریح کی ہے اور نہ ہی اجماع کی تصریح کی ہے، جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے
''كَأَنَّهُ'' سے تعبیر کیا ہے، بلکہ امام بخاری کے رقم کردہ یہ الفاظ ''وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدٍ، أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ.'' اس طرف اشارہ ہیں، کہ اس پر صحابہ کا اجماع نہیں، کہ باپ کے نہ ہونے پر دادا بھی بعین اسی طرح دیگر کو محجوب کرتا ہے، جیسے باپ کرتا ہے!
معلوم ہوا کہ باپ کے نہ ہونے پر دادا کا بھائی کے محجوب کرنے پر اجماع نہ امام بخاری سے منسوب کرنا درست ہے، اور نہ ابن حجر عسقلانی سے، اور نہ ہی ایسا کوئی اجماع ہے! بلکہ یہ صحابہ میں مختلف فیہ رہا ہے!
امام بخاری رحمہ اللہ پھر آگے بیان کرتے ہیں:

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «يَرِثُنِي ابْنُ ابْنِي دُونَ إِخْوَتِي، وَلاَ أَرِثُ أَنَا ابْنَ ابْنِي؟»
اس کی شرح ابن حجر عسقلانی یوں کرتے ہیں:
قَوْله وَقَالَ بن عَبَّاس يَرِثنِي بن ابْني دون إخوتي وَلَا أرث أَنا بن ابْنِي وَصَلَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ طَرِيقِ عَطَاءٍ عَنهُ قَالَ فَذكره قَالَ بن عبد الْبر وَجه قِيَاس بن عَبَّاس أَن بن الِابْنِ لَمَّا كَانَ كَالِابْنِ عِنْدَ عَدَمِ الِابْنِ كَانَ أَبُو الْأَبِ عِنْدَ عَدَمِ الْأَبِ كَالْأَبِ وَقد ذكر من وَافق بن عَبَّاسٍ فِي هَذَا تَوْجِيهَ قِيَاسِهِ الْمَذْكُورِ مِنْ جِهَةِ أَنَّهُمْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ كَالْأَبِ فِي الشَّهَادَةِ لَهُ وَفِي الْعِتْقِ عَلَيْهِ وَأَنَّهُ لَا يفتص مِنْهُ وَأَنَّهُ ذُو فَرْضٍ أَوْ عَاصِبٍ وَعَلَى أَنَّ مَنْ تَرَكَ ابْنًا وَأَبًا أَنَّ لِلْأَبِ السُّدُسَ وَالْبَاقِيَ لِلِابْنِ وَكَذَا لَوْ تَرَكَ جَدَّةً لِأَبِيهِ وَابْنًا وَعَلَى أَنَّ الْجَدَّ يَضْرِبُ مَعَ أَصْحَابِ الْفُرُوضِ بِالسُّدُسِ كَمَا يَضْرِبُ الْأَبُ سَوَاءً قِيلَ بِالْعَوْلِ أَمْ لَا وَاتَّفَقُوا عَلَى أَنَّ بن الِابْنِ بِمَنْزِلَةِ الِابْنِ فِي حَجْبِ الزَّوْجِ عَنِ النِّصْفِ وَالْمَرْأَةِ عَنِ الرُّبُعِ وَالْأُمِّ عَنِ الثُّلُثِ كَالِابْنِ سَوَاءً فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَرَكَ أَبَوَيْهِ وبن ابْنِهِ كَانَ لِكُلٍّ مِنْ أَبَوَيْهِ السُّدُسُ وَأَنَّ مَنْ تَرَكَ أَبَا جَدِّهِ وَعَمَّهُ أَنَّ الْمَالَ لِأَبِي جَدِّهِ دُونَ عَمِّهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِوَالِدِ أَبِيهِ دُونَ إِخْوَتِهِ فَيَكُونُ الْجَدُّ أَوْلَى مِنْ أَوْلَادِ أَبِيهِ كَمَا أَنَّ أَبَاهُ أَوْلَى مِنْ أَوْلَادِ أَبِيهِ وَعَلَى أَنَّ الْإِخْوَةَ مِنَ الْأُم لَا يَرِثُونَ مَعَ الْجد كَمَا لايرثون مَعَ الْأَبِ فَحَجَبَهُمُ الْجَدُّ كَمَا حَجَبَهُمُ الْأَبُ فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْجَدُّ كَالْأَبِ فِي حَجْبِ الْإِخْوَةِ وَكَذَا الْقَوْلُ فِي بَنِي الْإِخْوَةِ وَلَوْ كَانُوا أَشِقَّاءَ
ابن حجر عسقلانی نے یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان سے موافقت کرنے والوں کی وجہ قیاس ابن عبد البر کے حوالہ سے بیان کی!
اس کے بعد ابن حجر عسقلانی اس قیاس پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اختلاف اور سھيلی کا رد نقل کرتے ہیں!

وَقَالَ السُّهَيْلِيُّ لَمْ يَرَ زَيْدُ بن ثَابت لاحتجاج بن عَبَّاس بقوله تَعَالَى يَا بني آدم وَنَحْوِهَا مِمَّا ذُكِرَ عَنْهُ حُجَّةً لِأَنَّ ذَلِكَ ذُكِرَ فِي مَقَامِ النِّسْبَةِ وَالتَّعْرِيفِ فَعَبَّرَ بِالْبُنُوَّةِ وَلَوْ عَبَّرَ بِالْوِلَادَةِ لَكَانَ فِيهِ مُتَعَلَّقٌ وَلَكِنْ بَيْنَ التَّعْبِيرِ بِالْوَلَدِ وَالِابْنِ فَرْقٌ وَلِذَلِكَ قَالَ تَعَالَى يُوصِيكُم الله فِي أَوْلَادكُم وَلَمْ يَقُلْ فِي أَبْنَائِكُمْ وَلَفْظُ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ بِخِلَافِ الِابْنِ وَأَيْضًا فَلَفْظُ الْوَلَدِ يَلِيقُ بِالْمِيرَاثِ بِخِلَافِ الِابْنِ تَقول بن فُلَانٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَلَا تَقُولِ وَلَدُهُ وَكَذَا كَانَ مَنْ يَتَبَنَّى وَلَدَ غَيْرِهِ قَالَ لَهُ ابْنِي وَتَبَنَّاهُ وَلَا يَقُولُ وَلَدِي وَلَا وَلَدَهُ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ فِي آيَةِ التَّحْرِيمِ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُم إِذْ لَوْ قَالَ وَحَلَائِلُ أَوْلَادِكُمْ لَمْ يَحْتَجْ إِلَى أَنْ يَقُولَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ لِأَنَّ الْوَلَدَ لَا يَكُونُ إِلَّا مِنْ صُلْبٍ أَوْ بَطْنٍ
یہ تو الگ بحث ہے کہ ابن عباس کا قیاس درست ہے، یا نہیں، لیکن ''ولد'' اور ''بن''، ''والد'' اور ''اب'' کا فرق کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔
اور آپ چونکہ ابن عباس کے قیاس سے موافقت نہیں، رکھتے، تو آپ کو تو یہ واضح ہونا چاہیئے! مگر آپ اس مسئلہ بہت مشکل کا شکار ہیں!
پھر امام بخاری اس سے اختلاف کئے جانے کا ذکر ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں:

وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدٍ، أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ.
اس کے بعد ابن حجر عسقلانی نے ان أصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر بحث کی ہے، جو باپ کے نہ ہونے پر، دادا کے ساتھ بھائیوں کو بھی وراثت میں حقدار قرار دیتے ہیں!
قَوْله وَيذكر عَن عمر وَعلي وبن مَسْعُودٍ وَزَيْدٍ أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ سَقَطَ ذِكْرُ زَيْدٍ من شرح بن بَطَّالٍ فَلَعَلَّهُ مِنَ النُّسْخَةِ وَقَدْ أَخَذَ بِقَوْلِهِ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَتَمَسَّكُوا بِحَدِيثِ أَفْرَضُكُمْ زَيْدٌ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَأَصْحَابُ السُّنَنِ وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيّ وبن حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ وَأَعَلَّهُ بِالْإِرْسَالِ وَرَجَّحَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالْخَطِيبُ وَغَيْرُهُمَا وَلَهُ مُتَابَعَاتٌ وَشَوَاهِدُ ذَكَرْتُهَا فِي تَخْرِيجِ أَحَادِيثِ الرَّافِعِيِّ فَأَمَّا عُمَرُ فَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ أَوَّلُ جَدٍّ وَرِثَ فِي الْإِسْلَامِ عُمَرُ فَأَخَذَ مَالَهُ فَأَتَاهُ عَلِيٌّ وَزَيْدٌ يَعْنِي بن ثَابِتٍ فَقَالَا لَيْسَ لَكَ ذَلِكَ إِنَّمَا أَنْتَ كَأحد الْأَخَوَيْنِ وَأخرج بن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ مِثْلَهُ دُونَ قَوْلِهِ فَأَتَاهُ إِلَخْ لَكِنْ قَالَ فَأَرَادَ عُمَرُ أَنْ يَحْتَازَ الْمَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُمْ شَجَرَةٌ دُونَكَ يَعْنِي بَنِي أَبِيهِ وَأَخْرَجَ الدَّارَقُطْنِيُّ بِسَنَدٍ قَوِيٍّ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ عُمَرَ أَتَاهُ فَذَكَرَ قِصَّةً فِيهَا أَنَّ مِثْلَ الْجَدِّ كَمِثْلِ شَجَرَةٍ نَبَتَتْ عَلَى سَاقٍ وَاحِدٍ فَخَرَجَ مِنْهَا غُصْنٌ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْغُصْنِ غُصْنٌ فَإِنْ قَطَعْتَ الْغُصْنَ رَجَعَ الْمَاءُ إِلَى السَّاقِ وَإِنْ قَطَعْتَ الثَّانِيَ رَجَعَ الْمَاءُ إِلَى الْأَوَّلِ فَخَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ زَيْدًا قَالَ فِي الْجَدِّ قَوْلًا وَقَدْ أَمْضَيْتُهُ وَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ مِنْ طَرِيقِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ خُذْ مِنَ الْجَدِّ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ وَهَذَا مُنْقَطِعٌ وَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ مِنْ طَرِيقِ عِيسَى الْخَيَّاطِ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ كَانَ عُمَرُ يُقَاسِمُ الْجَدَّ مَعَ الْأَخِ وَالْأَخَوَيْنِ فَإِذَا زَادُوا أَعْطَاهُ الثُّلُثَ وَكَانَ يُعْطِيهِ مَعَ الْوَلَدِ السُّدُسَ وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَقَبِيصَةُ بْنُ ذُؤَيْبٍ أَنَّ عُمَرَ قَضَى أَنَّ الْجَدَّ يُقَاسِمُ الْإِخْوَةَ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ وَالْإِخْوَةَ لِلْأَبِ مَا كَانَتِ الْمُقَاسَمَةُ خَيْرًا لَهُ مِنَ الثُّلُثِ فَإِنْ كَثُرَ الْإِخْوَةُ أُعْطِيَ الْجَدُّ الثُّلُثَ وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ إِنِّي لَأَحْفَظُ عَنْ عُمَرَ فِي الْجَدِّ مِائَةَ قَضِيَّةٍ كُلُّهَا يَنْقُضُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَرُوِّينَا فِي الْجُزْءِ الْحَادِي عَشَرَ مِنْ فَوَائِدِ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيّ بِسَنَد صَحِيح إِلَى بن عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ سَأَلْتُ عُبَيْدَةَ عَنِ الْجَدِّ فَقَالَ قَدْ حَفِظْتُ عَنْ عُمَرَ فِي الْجَدِّ مِائَةَ قَضِيَّةٍ مُخْتَلِفَةٍ وَقَدِ اسْتَبْعَدَ بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ عُمَرَ وَتَأَوَّلَ الْبَزَّارُ صَاحِبُ الْمُسْنَدِ قَوْلَهُ قَضَايَا مُخْتَلِفَةٍ عَلَى اخْتِلَافِ حَالِ مَنْ يَرِثُ مَعَ الْجَدِّ كَأَنْ يَكُونُ أَخٌ وَاحِدٌ أَوْ أَكْثَرُ أَوْ أُخْتٌ وَاحِدَةٌ أَوْ أَكْثَرُ وَيَدْفَعُ هَذَا التَّأْوِيلُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ قَوْلِ عُبَيْدَةَ بْنِ عَمْرٍو يَنْقُضُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَسَيَأْتِي عَنْ عُمَرَ أَقْوَالٌ أُخْرَى وَأَمَّا عَلِيٌّ فَأخْرج بن أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَن الشّعبِيّ كتب بن عَبَّاسٍ إِلَى عَلِيٍّ يَسْأَلُهُ عَنْ سِتَّةِ إِخْوَةٍ وَجَدٍّ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنِ اجْعَلْهُ كَأَحَدِهِمْ وَامْحُ كِتَابِي وَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ قَوِيٍّ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ كتب بن عَبَّاس إِلَى عَليّ وبن عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَةِ إِنِّي أُتِيتُ بِجَدٍّ وَسِتَّةِ إِخْوَةٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَلِيٌّ أَنْ أَعْطِ الْجَدَّ سُبُعًا وَلَا تُعْطِهِ أَحَدًا بَعْدَهُ وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَخًا حَتَّى يَكُونَ سَادِسًا وَمِنْ طَرِيقِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يُشْرِكُ الْجَدَّ مَعَ الْإِخْوَةِ إِلَى السُّدُسِ وَمِنْ طَرِيقِ إِبْرَاهِيم النَّخعِيّ عَن عَليّ نَحوه وَأخرج بن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ أَتَى فِي جَدٍّ وَسِتَّةِ إِخْوَةٍ فَأَعْطَى الْجَدَّ السُّدُسَ وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي الْفَرَائِضِ لَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ هَذَا فِيهِ ضَعْفٌ وَسَيَأْتِي عَنْ عَلِيٍّ أَقْوَالٌ أُخْرَى وَأَخْرَجَ الطَّحَاوِيُّ مِنْ طَرِيقِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ حُدِّثْتُ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يُنْزِلُ بَنِي الْإِخْوَةِ مَعَ الْجَدِّ مَنْزِلَةَ آبَائِهِمْ وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ يَفْعَلُهُ غَيْرُهُ وَمِنْ طَرِيقِ السُّرِّيِّ بْنِ يَحْيَى عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلِيٍّ كَقَوْلِ الْجَمَاعَةِ وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى شُرَيْحٍ وَعِنْدَهُ عَامِرٌ يَعْنِي الشَّعْبِيَّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَيِ بن مَسْعُودٍ فِي فَرِيضَةِ امْرَأَةٍ مِنَّا تُسَمَّى الْعَالِيَةَ تَرَكَتْ زَوْجَهَا وَأُمَّهَا وَأَخَاهَا لِأَبِيهَا وَجَدَّهَا فَذَكَرَ قِصَّةً فِيهَا فَأَتَيْتُ عُبَيْدَةَ بْنَ عَمْرٍو وَكَانَ يُقَالُ لَيْسَ بِالْكُوفَةِ أَعْلَمُ بِفَرِيضَةٍ مِنْ عُبَيْدَةَ وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنْ شِئْتُمْ نَبَّأْتُكُمْ بِفَرِيضَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي هَذَا فَجَعَلَ لِلزَّوْجِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ النِّصْفَ وَلِلْأُمِّ ثُلُثَ مَا بَقِيَ وَهُوَ السُّدُسُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ وَلِلْأَخِ سَهْمٌ وَلِلْجَدِّ سَهْمٌ وَرُوِّينَا فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ مِنْ طَرِيقِ النَّخَعِيِّ قَالَ كَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللَّهِ يَكْرَهَانِ أَنْ يُفَضِّلَا أُمًّا عَلَى جَدٍّ وَأَخْرَجَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِسَنَدٍ وَاحِدٍ صَحِيحٍ إِلَى عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ قَالَ كَانَ عمر وبن مَسْعُودٍ يُقَاسِمَانِ الْجَدَّ مَعَ الْإِخْوَةِ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَنْ يَكُونَ السُّدُسُ خَيْرًا لَهُ مِنْ مُقَاسَمَةِ الْإِخْوَةِ وَأَخْرَجَهُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِثْلَهُ سَوَاءً وَزَادَ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ مَا أَرَانَا إِلَّا قَدْ أَجْحَفْنَا بِالْجَدِّ فَإِذَا جَاءَكَ كِتَابِي هَذَا فَقَاسِمْ بِهِ مَعَ الْإِخْوَةِ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَنْ يَكُونَ الثُّلُثُ خَيْرًا لَهُ مِنْ مُقَاسَمَتِهِمْ فَأَخَذَ بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى عُبَيْدَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ كَانَ يُعْطَى الْجَدُّ مَعَ الْإِخْوَةِ الثُّلُثَ وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِ السُّدُسَ ثُمَّ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ إِنَّا نَخَافُ أَنْ نَكُونَ قَدْ أَجْحَفْنَا بِالْجَدِّ فَأَعْطِهِ الثُّلُثَ ثُمَّ قَدِمَ عَلِيٌّ هَا هُنَا يَعْنِي الْكُوفَةَ فَأَعْطَاهُ السُّدُسَ قَالَ عُبَيْدَةُ فَرَأْيُهُمَا فِي الْجَمَاعَةِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ رَأَيِ أَحَدِهِمَا فِي الْفُرْقَةِ وَمِنْ طَرِيق عبيد بن نضيلة أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يُعْطِي الْجَدَّ الثُّلُثَ ثُمَّ تَحَوَّلَ إِلَى السُّدُسِ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ كَانَ يُعْطِيهِ السُّدُسَ ثُمَّ تَحَوَّلَ إِلَى الثُّلُثِ وَأَمَّا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَأَخْرُجَ الدَّارِمِيُّ مِنْ طَرِيقِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ كَانَ زَيْدٌ يُشْرِكُ الْجَدَّ مَعَ الْإِخْوَةِ إِلَى الثُّلُثِ وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ طَرِيق بن وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ قَالَ أَخَذَ أَبُو الزِّنَادِ هَذِهِ الرِّسَالَةَ مِنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَمِنْ كُبَرَاءِ آلِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَذَكَرَ قِصَّةً فِيهَا قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَكَانَ رَأْيِي أَنَّ الْإِخْوَةَ أَوْلَى بِمِيرَاثِ أَخِيهِمْ مِنَ الْجَدِّ وَكَانَ عمر يرى أَن الْجد أولى بميراث بن ابْنه من إخْوَته وَأخرجه بن حَزْمٍ مِنْ طَرِيقِ إِسْمَاعِيلَ الْقَاضِي عَنْ إِسْمَاعِيلَ بن أبي أويس عَن بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَأْيِي أَنَّ الْإِخْوَةَ أَحَقُّ بِمِيرَاثِ أَخِيهِمْ مِنَ الْجَدِّ وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي عُمَرَ يُعْطِيهِمْ بِالْوَجْهِ الَّذِي يَرَاهُ عَلَى قَدْرِ كَثْرَةِ الْإِخْوَةِ وَقِلَّتِهِمْ قُلْتُ فَاخْتَلَفَ النَّقْلُ عَنْ زَيْدٍ وَأَخْرَجَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ طَرِيقِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يُشْرِكُ الْجَدَّ مَعَ الْإِخْوَةِ إِلَى الثُّلُثِ فَإِذَا بَلَغَ الثُّلُثَ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَالْإِخْوَةَ مَا بَقِيَ وَيُقَاسِمُ الْأَخَ لِلْأَبِ ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى أَخِيهِ وَيُقَاسِمُ بِالْإِخْوَةِ مِنَ الْأَبِ مَعَ الْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَلَا يُورِثُ الْإِخْوَةَ لِلْأَبِ شَيْئًا وَلَا يُعْطِي أَخًا لِأُمٍّ مَعَ الْجَدِّ شَيْئًا قَالَ بن عَبْدِ الْبَرِّ تَفَرَّدَ زَيْدٌ مِنْ بَيْنِ الصَّحَابَةِ فِي مُعَادَلَتِهِ الْجَدَّ بِالْإِخْوَةِ بِالْأَبِ مَعَ الْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَخَالَفَهُ كَثِيرٌ مِنَ الْفُقَهَاءِ الْقَائِلِينَ بِقَوْلِهِ فِي الْفَرَائِضِ فِي ذَلِكَ لِأَنَّ الْإِخْوَةَ مِنَ الْأَب لايرثون مَعَ الْأَشِقَّاءِ فَلَا مَعْنَى لِإِدْخَالِهِمْ مَعَهُمْ لِأَنَّهُ حَيْفٌ عَلَى الْجَدِّ فِي الْمُقَاسَمَةِ وَقَدْ سَأَلَ بن عَبَّاسٍ زَيْدًا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّمَا أَقُولُ فِي ذَلِكَ بِرَأْيِي كَمَا تَقُولُ أَنْتَ بِرَأْيِكَ وَقَالَ الطَّحَاوِيُّ ذَهَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو يُوسُفَ إِلَى قَوْلِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي الْجَدِّ إِنْ كَانَ مَعَهُ إِخْوَةٌ أَشِقَّاءُ قَاسَمَهُمْ مَا دَامَتِ الْمُقَاسَمَةُ خَيْرًا لَهُ مِنَ الثُّلُثِ وَإِنْ كَانَ الثُّلُثُ خَيْرًا لَهُ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَلَا تَرِثُ الْإِخْوَةُ مِنَ الْأَبِ مَعَ الْجَدِّ شَيْئًا وَلَا بَنُو الْإِخْوَةِ وَلَوْ كَانُوا أَشِقَّاءَ وَإِذَا كَانَ مَعَ الْجَدِّ وَالْإِخْوَةِ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ الْفُرُوضِ بَدَأَ بِهِمْ ثُمَّ أَعْطَى الْجَدَّ خَيْرَ الثَّلَاثَةِ مِنَ الْمُقَاسَمَةِ وَمِنْ ثُلُثِ مَا بَقِيَ وَمِنَ السُّدُسِ وَلَا يَنْقُصُهُ مِنَ السُّدُسِ إِلَّا فِي الْأَكْدَرِيَّةِ قَالَ وَرَوَى هِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ وَقَفَ فِي الْجَدِّ قَالَ أَبُو يُوسُف وَكَانَ بن أَبِي لَيْلَى يَأْخُذُ فِي الْجَدِّ بِقَوْلِ عَلِيٍّ وَمَذْهَبُ أَحْمَدَ أَنَّهُ كَوَاحِدِ الْإِخْوَةِ فَإِنْ كَانَ الثُّلُثُ أَحَظَّ لَهُ أَخَذَهُ وَلَهُ مَعَ ذِي فَرْضٍ بَعْدَهُ الْأَحَظُّ مِنْ مُقَاسَمَةٍ كَأَخٍ أَوْ ثُلُثُ الْبَاقِي أَوْ سُدُسُ الْجَمِيعِ وَالْأَكْدَرِيَّةُ الْمُشَارِ إِلَيْهَا تُسَمَّى مُرَبَّعَةَ الْجَمَاعَةِ لِأَنَّهُمْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهَا أَرْبَعَةٌ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فِي قَسْمِهَا وَهِيَ زَوْجٌ وَأُمٌّ وَأُخْتٌ وَجَدٌّ فَلِلزَّوْجِ النِّصْفُ وَلِلْأُمِّ الثُّلُثُ وَلِلْجَدِّ السُّدُسُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَتَصِحُّ مِنْ سَبْعَةٍ وَعِشْرِينَ لِلزَّوْجِ تِسْعَةٌ وَلِلْأُمِّ سِتَّةٌ وَلِلْأُخْتِ أَرْبَعَةٌ وَلِلْجَدِّ ثَمَانِيَةٌ وَقَدْ نَظَمَهَا بَعْضُهُمْ مَا فَرْضُ أَرْبَعَةٍ يُوَزَّعُ بَيْنَهُمْ مِيرَاثُ مَيِّتِهِمْ بِفَرْضٍ وَاقِعِ فَلِوَاحِدٍ ثُلُثُ الْجَمِيعِ وَثُلُثُ مَا يَبْقَى لِثَانِيهِمْ بِحُكْمٍ جَامِعِ وَلِثَالِثٍ مِنْ بَعْدِ ذَا ثُلُثُ الَّذِي يَبْقَى وَمَا يَبْقَى نَصِيبُ الرَّابِعِ ثُمَّ ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ وَقَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُهُ وَوَجْهُ تَعَلُّقِهِ بِالْمَسْأَلَةِ أَنَّهُ دَلَّ عَلَى أَنَّ الَّذِي يَبْقَى بَعْدَ الْفَرْضِ يُصْرَفُ لِأَقْرَبِ النَّاسِ لِلْمَيِّتِ فَكَانَ الْجد أقرب فَيقدم قَالَ بن بَطَّالٍ وَقَدِ احْتَجَّ بِهِ مَنْ شَرِكَ بَيْنَ الْجَدِّ وَالْأَخِ فَإِنَّهُ أَقْرَبُ إِلَى الْمَيِّتِ بِدَلِيلِ أَنَّهُ يَنْفَرِدُ بِالْوَلَاءِ وَلِأَنَّهُ يَقُومُ مَقَامَ الْوَلَدِ فِي حَجْبِ الْأُمِّ مِنَ الثُّلُثِ إِلَى السُّدُسِ وَلِأَنَّ الْجَدَّ إِنَّمَا يُدْلِي بِالْمَيِّتِ وَهُوَ وَلَدُ ابْنِهِ وَالْأَخُ يُدْلِي بِالْمَيِّتِ وَهُوَ وَلَدُ أَبِيهِ وَالِابْنُ أَقْوَى مِنَ الْأَبِ لِأَنَّ الِابْنَ يَنْفَرِدُ بِالْمَالِ وَيَرُدُّ الْأَبَ إِلَى السُّدُسِ وَلَا كَذَلِكَ الْأَبُ فَتَعْصِيبُ الْأَخِ تَعْصِيبُ بُنُوَّةٍ وَتَعْصِيبُ الْجَدِّ تَعْصِيبُ أُبُوَّةٍ وَالْبُنُوَّةُ أَقْوَى مِنَ الْأُبُوَّةِ فِي الْإِرْثِ وَلِأَنَّ الْأُخْتَ فَرْضُهَا النِّصْفُ إِذَا انْفَرَدَتْ فَلَمْ يُسْقِطْهَا الْجَدُّ كَالْبِنْتِ وَلِأَنَّ الْأَخَ يُعَصِّبُ أُخْتَهُ بِخِلَافِ الْجَدِّ فَامْتَنَعَ مِنْ قُوَّةِ تَعْصِيبِهِ عَلَيْهِ أَنْ يَسْقُطَ بِهِ وَقَالَ السُّهَيْلِيُّ الْجَدُّ أَصْلٌ وَلَكِنَّ الْأَخَ فِي الْمِيرَاثِ أَقْوَى سَبَبًا مِنْهُ لِأَنَّهُ يُدْلِي بِوِلَايَةِ الْأَبِ فَالْوِلَادَةُ أَقْوَى الْأَسْبَابِ فِي الْمِيرَاثِ فَإِنْ قَالَ الْجَدُّ وَأَنَا أَيْضًا وَلَدْتُ الْمَيِّتَ قِيلَ لَهُ إِنَّمَا وَلَدْتَ وَالِدَهُ وَأَبُوهُ وَلَدَ الْإِخْوَةَ فَصَارَ سَبَبُهُمْ قَوِيًّا وَوَلَدُ الْوَلَدِ لَيْسَ وَلَدًا إِلَّا بِوَاسِطَةٍ وَإِنْ شَارَكَهُ فِي مُطْلَقِ الْوَلَدِيَّةِ ثُمَّ ذَكَرَ حَدِيثَ بن عَبَّاسٍ أَيْضًا فِي فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ وَقَدْ تَقَدَّمَ شَرْحُهُ مُسْتَوْفًى فِي الْمَنَاقِبِ وَقَوْلُهُ أَفْضَلُ أَوْ قَالَ خَيْرٌ شَكٌّ مِنَ الرَّاوِي وَكَذَا قَوْلُهُ أَنْزَلَهُ أَبًا أَوْ قَالَ قَضَاهُ أَبًا
اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ:
باپ کے نہ ہونے پر دادا وراث ہوگا، اس پر اجماع ہے!
دادا بھی بعین باپ کی طرح محجوب کرنے والا ہے، یہ کسی سے بھی ثابت نہیں!
باپ کے نہ ہونے پر دادا کے ساتھ بھائی بھی وارث ہوں گے، یہ اختلافی ہے!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 24 – 25 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار السلام، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 322 – 332 جلد 21 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الرسالة العالمية، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2975 – 2976 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – بيت الأفكار الدولية للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 19 – 24 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 18 – 23 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 18 – 23 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – المكتبة السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 15 – 19 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – طبع جديد المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق – مكتبة ابن تيمية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 442 – 450 جلد 15 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 19 – 24 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 14 – 18 جلد 12 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت
آپ ادھر ادھر کی نہ ہانکیں
اب انہیں ہم کہیں, کہ ہمیں معلوم ہے کہ کسے اور کیسے ''ہانکا'' کرتے ہیں! تو انہیں برا لگ جائے گا!
دیکھیں: ''ہم نہ ادھر ادھر کی ہانکنے کے قائل ہیں، نہ ہر کسی کو ہانکتے ہیں، ہم انہیں ہیں ہانکتے ہیں جنہیں ہانکا جاتا ہے!''
بلکہ آپ میری اس بات کا جواب قرآن و حدیث سے دیں جو میں نے آپ سے کہی ہے اور میں بار بار ان تمام لوگوں سے جو یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کو محکم شرعی حکم اور اللہ و رسول کا دین اور اس کی مقدس اور پاکیزہ کہتے ہیں کہتا رہوں گا : (قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے)۔ اور ایسا تا قیامت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا، اس لطیفہ کا اصل مزا پنجابی میں ہی ہے، لہٰذا میں اسے پنجابی میں لکھتا ہوں:
پتر ماں نو اکھدا اے: امی! امی! میں اج سکول اچ شرط لائی اے؟
ماں: پتر! کی شرط لائی اے؟
پتر: امی! میں اکھیا اے کاں چٹا ہوندا اے، جے کاں چٹا نہ ہوئے، تے پنجی روپے دیواں گا!
ماں: پتر اے شرط تے تسی ہار جانی اے!
پتر: نا امی نا! میں نئیں ہارنا!
ماں: پتر! کاں تے چٹا نئیں ہوندا، کاں تے کالا ہوندا اے!
پتر: امی! کان پاویں کالا ہوئے، پاویں پیلا! میں مناں گا، تے ہاراں گا! نہ میں مننا اے، نہ ہارنا اے!

(@محمد نعیم یونس ! جیڑا کوئی پنجابی انتظامیہ کولوں ہوئے، او ساڈی پنجابی دا املا سیدھا کر دیوے)
آپ کو اس کا جواب دیا چا چکا ہے، آپ کو صبر نہیں تھا، اور آپ ہمارے جواب کے مکمل ہونے تک صبر کرنے کے بجائے پہلے ہی ہم پر یہ اعتراض لے کر وارد ہو گئے! اگلے مراسلہ میں ہم نے بالتفصیل دلیل بیان کی ہے!
آپ نے کہا: (جب آپ کے بقول اللہ تعالی کا یہ حکم واسطہ بالواسطہ سبھی کے تعلق سے ہے، تو آپ يتیم ''بالواسطہ أولاد'' کے دیگر ''بالواسطہ اولاد'' کو محروم کر کے، عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر، مساوت اور برابری کی دھجیاں بکھیر کر، نا انصافی کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت، اس کے تاکیدی حکم اور فریضہ، نیز اللہ نے جو آپ سے یہ عہد وپیمان لیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جہنم کی دائمی آگ کے ذلت آمیر عذاب کی طرف کیوں جاتے ہو! اور اللہ کی اس وصیت کی خلاف ورزی یا انکار کرتے ہوئے اللہ کے فرمان کا منکر ہوتے ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟ اور اللہ کی وصیت کا مقابلہ کرتے ہوئے مشرک کیوں بنتے ہو؟)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پوتے اپنے دادا کے ترکہ کے اموال سے محروم نہیں ہوتے ہیں جن کا باپ زندہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے باپ کے واسطے سے انہیں حصہ پہنچ جاتا ہے
آپ کا یہ جواب بالکل مردود ہے، کیونکہ باپ کو جو مال ترکہ میں ملا وہ پوتوں کی ملکیت نہیں، وہ مال باپ کی ملکیت ہے، باپ کے ہی نصاب زکوٰة میں شمار ہو گا، اور باپ پر ہی اس کی زکوٰة لازم آئے گی، نہ وہ پوتوں کی ملکیت ہے، نہ پوتوں کے نصاب زکوٰة میں شمار ہوگا، نہ پوتوں پر اس کی زکوٰة لازم آئے گی، جبکہ ترکہ میں حصہ پانے کی صورت میں مال پوتوں کی ملکت ہوتا، پوتوں کے نصاب زکوٰة میں شمار ہوتا، اور ان پر اس کی زکوٰة لازم آتی!
لہٰذا آپ کا یہ جواب بالکل مردود ہے!
محروم تو صرف یتیم پوتے پوتیاں ہی ہوتے ہیں جن کے استحقاق(حقداری و حصہ داری) کا مسئلہ درپیش ہے
آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھیئے!
آپ نے پھر غلفت سے کام لیتے ہوئے''محروم ہوتے'' لکھ دیا، بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ''محروم رہتے'' ہیں!
اور یہ اسی طرح ''محروم رہتے'' ہیں جیسے وہ پوتے پوتیاں ''محروم رہتے'' ہیں، جن کے والد حیات ہوں!
جس کے اثبات کے لئے امام بخاری نے دو الگ الگ باب باندھے ہیں اور اس سلسلہ میں اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ نبوی پیش کیا ہے جو عین عدل و انصاف اور عین شریعت ہے۔ یہ ہے اللہ کا نازل کردہ دین اور اس کی شریعت اور عادلانہ نظام تقسیم میراث۔
امام بخاری نے جو باب باندھے ہیں، اس میں پوتے پوتیوں کے حق میراث کے اثبات کے مشروط ہونے کے ابواب باندھے ہیں! اس کی تفصیل پچھلے مراسلہ میں بیان کی گئی ہے!
وہ اللہ کا دین اور اس کی شریعت نہیں ہے جس میں یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ ظلم و ناانصافی ہو یہ تو لوگوں کی من گھڑت شریعت اور خود ساختہ دین و مذہب ہے جس کی خدمت آپ اور آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں۔
یہ تو رافضیوں والی بات ہوئی کہ:
لم نجتمع معهم علی إلٰه ولا علی نبيّ ولا علی إمام، وذلك أنهم يقولون أن ربّهم هو الذي كان محمّد صلی الله عليه وآله وسلم نبيّه وخليفته بعده أبو بكر، ونحن لا تقول بهذا الربّ ولا بذلك النبيّ، بل نقول أنّ الرب الذي خليفة نبيه أبو بكر ليس ربّنا ولا ذلك النبيّ نبيّنا
ہم( اہل سنّت کے ساتھ) ایک اللہ، ایک نبی، ایک امام پر اکھٹا نہیں ہوسکتے ،اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ: ان کا رب وہ ہے جس کےنبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور ان کے بعد ہونے والا خلیفہ ابوبکر ہے، جبکہ ہم(شیعہ اثنا عشریہ) اس رب اور اس نبی کے قائل نہیں ہیں، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ: وہ رب جس کے نبی کا خلیفہ ابوبکر ہے وہ ہمارا رب نہیں ہے اور نہ ہی وہ نبی ہمارا نبی ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 243 جلد 02 الأنوار النعمانية، في بيان النشأة الإنسانية – السيد نعمة الله الجزائري (المتوفى: 1112هـ) – مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 191 جلد 02 الأنوار النعمانية، في بيان النشأة الإنسانية – السيد نعمة الله الجزائري (المتوفى: 1112هـ) – دار القاري، بيروت – دار الكوفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 278 جلد 02 الأنوار النعمانية، في بيان النشأة الإنسانية – السيد نعمة الله الجزائري (المتوفى: 1112هـ) – مكتبه شركت چاپ، ايران

تو میرے بھائی! اس طرح انکار کرکے اگر کوئی کافر ہونے پر بضد ہو، تو ہم کیا کر سکتے ہیں! سوائے اس کے کہ ہدایت کی دعا کریں!
اس کو میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنا چاہوں گا جیس کہ کسی شاعر نے کہا ہے: (شاید کہ اتر جائے تیری دل میں میری بات)۔
آپ کی مثال بھی دیکھ لیتے ہیں!
مثال کے طور پر کسی شخص کے چار بیٹے ہیں اور ان سب کے بالترتیب ایک، دو، تین ، چار بیٹے ہیں۔ان میں سے ایک بیٹے کے باپ کو چھوڑ کر دو، تین ، چار بیٹوں کے باپ ایک ایک کر کے دادا کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے اور وہ بیٹا جس کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو اس کا باپ اس کے دادا کی وفات کے معا بعد جب کہ دادا کی تدفین بھی نہیں ہو پائی تھی وفات پا گیا۔ تو خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کے مطابق ان تینوں متوفیٰ بیٹوں کے بیٹے تو محجوب و محروم الارث قرار پائے کیونکہ ان کا جرم صرف بس اتنا سا تھا کہ وہ اپنے باپوں کو اپنے دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ پائے
آپ کی مثال کو یہی روکتے ہیں، کہ آپ کا یہ خود ساختہ عقیدہ ہے کہ زندگی وموت آپ نے بیٹوں کو دے دیا، کہ وہ یہ اختیار رکھتے ہوں، کہ اپنے باپ کو زندہ رکھ سکیں یا نہیں!
ہمارے دین اسلام میں تو موت و حیات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے!
آپ کی مثال میں باپ کی موت کا مجرم بیٹوں کو ٹھہرانا ہی عجب ہے!
اس لئے دادا کے یہ نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہو گئے باقی بچا وہ پوتا جس کا باپ اس کے دادا کی وفات تک زندہ رہا اور اس کی وفات کے فورا بعد مر گیا تو وہ پوتا تنہا اپنے دادا کا وارث اور اس کے سارے مال کا حقدار و حصہ بن گیا اور بقیہ نو پوتے کف افسوس ملتے رہ گئے۔
یہ تو اللہ کی طرف سے ہے، کہ کون مرتا ہے، اور کس کی میراث تقسیم ہوتی ہے، باپ کے مرنے پر بیٹا اس کے مال کا وارث بنتا ہے، یا بیٹے کے مرنے پر اس کے مال کا وارث باپ بنتا ہے!
ویسے یہ بتلائیے کہ یہ نو پوتوں کو ان کے باپوں کے مال کا ترکہ ملا تھا، اس وقت تو ان پوتوں نے خوب خوشیاں منائی ہونگی، کہ جو اب کف افسوس مل رہے ہیں!
پرائے مال کے ہاتھ نہ آنے پر کف افسوس ملنا، کسی لالچی، حرام خور کا ہی فعل ہو سکتا ہے!
آپ کی مذکورہ مثال میں ان نو پوتوں کا دادا کے ترکہ میں کوئی حق نہیں، انہیں اس مال پر نظر نہیں رکھنی چاہیئے!
کیونکہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کہتی ہے کہ یہ سب کے سب نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہیں اور صرف ایک پوتا وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔
یہی انداز مرزا قادیانی کا تھا، کہ دین اسلام جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اور اس کی شریعت کو ''خود ساختہ'' کہتا تھا اور اپنی ہفوات کو منزل من اللہ قرار دیتا تھا!
آپ کی مثال میں تو غلام احمد پرویز اور دیگر منکرین حدیث کے نقش قدم پر یتیم کے لئے جذباتی رونے دھونے کے سوا کچھ نہ تھا!
اللہ تعالیٰ نے صحیح فرمایا: (فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) [القرآن الكريم]
نیز فرمایا: (وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ) [القرآن الكريم]
ذرا ان آیات کو بھی بغور پڑھ لیجئے گا:
(قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (34) قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (35) وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (36) وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (37) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (38) بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (39) وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (40) وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (41) وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ (42)) [سورة يونس]
(مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (154) أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (155) أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (156) فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (157)) [سورة الصافات ]
(أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (35) مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ (40) أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (41)
[سورة القلم]
اب بتائیے کہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت ظالم ہے یا اللہ تعالیٰ؟۔
بے شک اللہ تعالیٰ ظالم نہیں! بلکہ ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نازل کردہ شریعت کو ظالم سمجھتا ہے!
یتیم پوتے کا، دادا کے کسی بھی بیٹے کی موجودگی میں وراثت میں کوئی حصہ نہیں، یہ اللہ تعالی کے کردہ دین و مذہب وشریعت کے موافق ہے، جو اسے ظلم سمجھتا ہے، وہی ظالم ہے! اور جو اس کے برخلاف حکم کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو رد کرتے ہوئے ''خانہ ساز'' دین ومذہب وشریعت ایجاد کرتا ہے!
دراصل آپ نے یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حصہ کا نہ ملنے کو اپنے تئیں خود ہی ظلم گمان کر لیا ہے، حالانکہ یہ کوئی ظلم نہیں، ظلم تب ہوتا، جب پوتے کا دادا کے کسی بیٹے کی موجودگی میں حق وراثت از قرآن وحدیث ثابت ہوتا، اور پھر اسے نہ ملتا!
آپ کا گمان، ظلم ہونے یا عدل ہونے کا معیار نہیں!
میں(مسرور احمد الفرائضی )نے جو یہ کہا ہے: اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ یہ معنی و مفہوم اللہ تعالیٰ کے فرمان (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے نکلتا ہے کیونکہ اس آیت میں لفظ (یوصیکم) فعل مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہوتا ہے ۔ اسی طر ح لفظ اولاد بیٹے بیٹی اور ان سب کی اولادوں (درجہ بدرجہ نیچے تک) سب کا جامع اور سب کو شامل ہے یہ میرا خود ساختہ معنی و مفہوم نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کے دلائل و براہین سے ثابت شدہ اور مسلمہ امر ہے۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
یہ مفہوم بھی آپ کا خود ساختہ ہے، اگر یہ مان لیا جائے، تو لازم آتا ہے کہ زندگی میں بھی باپ اپنی بیٹیوں پر بیٹوں پر خرچ کیئے جانے کا نصف خرچ کرے!
''أولاد'' کے حوالہ سے بات اوپر بیان ہو چکی، اور قرآن وحدیث سے آپ کے مفہوم کا بطلان بھی بیان کیا جا چکاہے!
آپ کے مفہوم کو منکرین حدیث اور ملحدین ہی تسلیم کرتے ہیں، اور آپ بڑے دھڑلے سے فرماتے ہی کہ'' مسلمہ امر ''ہے! یہ منکرین حدیث و ملحدین کا ''مسلمہ امر'' ہو گا! مسلمانوں کا ''مسلمہ امر'' نہیں!
میرے محترم ابن داود صاحب میں نے جو یہ کہا: قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
پچھلے مراسلے میں اس کا مفصل بیان گزرا ہے، وہاں دیکھیئے،
تو آپ اس کا جواب دیجئے اور ادھر ادھر کی نہ ہانکیئے۔ اور صرف اسی ایک نکتہ پر بحث کیجئے ادھر ادھر نہ بھاگئے۔
آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس ''ہانکنے'' سے باز رہیں، یہی آپ کے حق میں بہتر ہے!
فکر نہ کریں، ہم کہیں نہیں بھاگ رہے، بلکہ وہ کہتے ہیں، کہ ہم آپ کو بھگا بھگا کر ماریں گے!
یہاں ''بھگا'' میں ''ب'' زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے، دونوں طرح سے محاورے مستعمل ہیں!
رہا حق اور باطل کا معاملہ تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرنے والا ہے آپ اور دوسرا کوئی نہیں۔
بالفرض آپ کی یہ بات مان لی جائے، تو آپ اپنی بات کو حق اور دوسروں کی بات کو باطل ، قرآن وحدیث کے خلاف، قرآن وحدیث میں تھریف، قرآن وحدیث کا انکار کہتے ہو تو آپ خود کو ''دوسرا کوئی'' نہیں سمجھتے تو کیا سمجھتے ہو؟
حق صرف وہی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے(قرآن و حدیث)۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے: (الحق من ربکم) حق صرف وہی ہے جو تمہارے رب کی جانب سے نازل شدہ ہے یعنی قرآن اور حدیث۔ فقہ و فتاویٰ اور علماء و فقہاء کے اقوال و آراء نہیں۔
فقہ وفتاوی اور علماء وفقہاء کے اقوال و آراء قرآن و حدیث کے موافق بھی ہوتے ہیں، جن کو قبول کیا جاتا ہے، اور اگر قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو انہیں رد کر دیا جاتا ہے!
فقہ وفتاوی اور فقہاء کے اقوال و آراء کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے!
اور آپ بھی ایسا نہیں کرتے، آپ نے بھی اپنے موقف کے اثبات پر فقہ و فتاوی اور فقہاء کے اقوال و آراء نقل کیئے ہیں، یہ الگ بات ہے، کہ آپ کو ان کا مطلب سمجھ نہیں آیا، اور بزعم خویش اپنے موقف پر انہیں دلیل سمجھا، جبکہ وہ آپ کے موقف کو باطل ثابت کرتے ہیں!
نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: (اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ) (سورة الأعراف: 3)
یعنی اس حق کی اتباع کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے(قرآن و حدیث)۔اس سے ہٹ کر کسی کو اولیاء جان کر اس کی اتباع نہ کرو۔ تم لوگ بہت کم نصیحت پاتے ہو۔
ورنہ پھر یہ نعرہ لگانا بند کردیجئے: (
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔)
کیونکہ اہل حدیث کا دین و مذہب اور نعرہ تو اللہ کے اس فرمان کے موافق ہوتا ہے: (اتبعوا ماانزل الیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ اولیاء)
اللہ کی طرف سے صرف قرآن وحدیث ہی نازل شدہ ہیں فقہ و فتاویٰ، علماء کے اقوال و آراء نہیں۔ اہلحدیث کا مذہب صرف قرآن و حدیث کی اتباع ہے فقہ و فتاویٰ، اور علماء کے اقوال و آراء کی تقلید نہیں ہے۔
ہم نے کب کہا کہ فقہ و فتاویٰ، علماء کے اقوال وآراء اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، فقہ وفتاوی اور علماء کے اقوال و آراء کے متعلق ہم نے اپنا موقف اوپر بیان کردیا ہے، اور وہ فقہ وفتاویٰ، اور علماء کے اقوال وآراء کی تقلید نہیں!
لہٰذا آپ کا دررج ذیل نعرہ لگانا بند کرنے کا آپ کا مطالبہ باطل ہے؛
ما اہل حدیثیم، دغا را نشاناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما، حیلہ وفن نیست
یعنی
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے
صد شکر کہ ہمارے مذہب میں، حیلہ و فنکاری نہیں
فقہ وفتاوی کے حوالہ سے مزید بیان بعد میں آئے گا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو چونکہ آپ نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے اسی لئے آپ یہ خدمت بہت سارے لوگوں کی طرح انجام بڑے شد و مد سے دےرہے ہیں۔
اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب آپ سطحیت کا شکار ہو رہے ہیں اور ادب و تمیز کا دامن آپ سے چھوٹ رہا ہے اور میرے خیال میں آپ مجھے نام نہاد اہل قرآن منکر حدیث سمجھ کر مجھ سے مخاطب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے کہا : (
اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!)
اس طرح آنجناب مجھ ناچیز کو جہالت، بیوقوفی کم علمی اور کج فہمی جیسے القاب و آداب سے نواز رہے ہیں ۔ یہ الفاظ ہمیں بھی لکھنا آتا ہے لیکن ہم ان جیسے الفاظ کا استعمال کسی علمی مباحثے میں جائز نہیں سمجھتے۔ یہ ایک علمی مباحثہ ہے جو ادب و تہذیب کے دائرے میں ہی ہو تو بہتر ہے ۔
یہ تو آپ کا تجاہل عارفانہ ہے، کہ آپ ہمیں اس بات پر مطعون کرنا چاہتے ہیں، کہ ہم نے آپ کے لئے، جہالت، کم علمی اور کج فہمی کے الفاظ استعمال کئے، اور خود کو یاد نہیں رہتا، کہ خود کیا کچھ رقم کر آئے ہیں!
بطور نمونہ آپ کے الفاظ پیش کرتا ہوں:
ایسا کہنا قطعا غلط بے بنیاد جھوٹ اور فریب ہے نیز اللہ و رسول کے فرمان کے منافی ہے اور اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔
اب جب آپ اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت میں دوسروں پر جھوٹ، فریب، اور اللہ اور رسول اللہ پر افترا پردازی کی تہمت دھرتے ہیں، تو اسے آپ کی کم علمی، کج فہمی اور جہالت ہی کہا جائے گا!
یہ تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر کہہ دیا! لیکن آپ یہ جو مستقل، اللہ اور رسول اللہ کے کلام میں لفظی اور معنوی تحریف کہ تہمت دھرتے جا رہے ہیں، اس میں معنوی تحریف کی تہمت تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر لگا دی! لیکن یہ ''لفظی'' تحریف کی تہمت دھرنا، تو بالکل بیوقوفی ہے!
اب آپ سے اگر کہا جائے، کہ اس پورے تھریڈ سے اس عبارت کا اقتباس پیش کریں، کہ جہاں کوئی اللہ اور اس کے کلام میں ''لفظی'' تحریف کا مرتکب ہوا ہو! تو آپ قطعاً وہ عبارت پیش نہیں کر سکتے!
تو میرے بھائی!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
﴿﴾ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

آنجناب کی جو بہترین عربی یا اردو دانی اور قرآن و حدیث سے جو اعلیٰ علمی واقفیت اور اعلیٰ فہم ہے وہ آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے آپ کبھی آپ سے مخاطب کرتے کرتے تم پر آجاتے ہیں
آپ پھر جھوٹ بول رہے ہیں! ویسے میں نے یہاں، ''آپ پھر جھوٹ بول رہے ہو!'' ہی لکھا تھا، اور ''جھوٹ بول رہے ہو'' میں ہی زیادہ وزن ہے، لیکن یوپی کی نزاکت بھری اردو والے شاید اس وزن کواٹھا نہ سکیں، تو ''ہو'' کے بجائے ''ہیں'' کردیا!
ہم نے ایک مراسلہ میں آپ سے سوال کیا تھا! کہ ہم نے کب آپ کو ''تم'' کہہ کر مخاطب کیا ہے!
تو آپ نے جواب دیا کہ:
آپ نے جب محروم کیا اور محروم رکھا کی تعبیر کے سلسلہ میں نکتہ چینی کی تو اسی پر میں نے آپ کی تعبیر اور انداز تخاطب کی غلطی کہ جانب اشارہ کیا کہ یہ کوئی قابل گرفت بات نہ تھی اور اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لہذا میرے بھائی اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں کرنی چاہئے۔ آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) تو یہ اردو ادب انداز تخاطب درست نہیں ہے اس سے مخاطب غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے جملہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کئے جارہے ہیں۔
آپ نے یہاں قبول کیا ہے، کہ یہ آپ کی غلط فہمی تھی! لیکن پھر بھی آپ اس جھوٹے الزام کو دہرا رہے ہیں!
ویسے یہ بھی زبردست بات ہے، کہ خود کہتے ہیں کہ اس طرح کی نکتہ چینیاں نہیں ہونی چاہیئے، اور خود نے اپنی غلط فہمی میں ہمارے بیان کردہ ایک اہم نکتہ کو نکتہ چینی سمجھ کر جواباً واقعتاً نکتہ چینی کی، اور اب پھر اسے دہرا بھی رہے ہیں!

اور کبھی ہیں سے ہو پر آجاتے ہیں
دیکھیں! یہ بات درست ہے کہ ''آپ'' کے ساتھ أصلا اردو میں ''ہیں'' کا لفظ ہے، لیکن ''ہو'' بھی مستعمل ہے، اور اردو ادب میں بھی مستعمل ہے، گو کہ کم ہے!
اب میں برصغیر کے مختلف اردو لہجوں کا کیا تعارف کرواں! اردو لغت اور ادب محض اتر پردیش پر منحصر نہیں!
ایک شعر پیش خدمت ہے!
مجھ سے کہتے ہو کیا کہیں گے آپ
﴿﴾ جو کہوں گا تو کیا سنیں گے آپ
اور پھر اب آپ تو اس سطح پر آگئے ہیں کہ آپ نے ناچیز کو جاہل، بے وقوف، کم علم، کج فہم سب کچھ کہہ ڈالا خیر ہمیں اس سے کوئی گلہ شکوہ اور بحث نہیں ہے ۔ ہم آپ کی اعلیٰ فہم و فراست کے چند اعلیٰ نمونے پیش کریں گے یہاں ہم آپ سے بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمان یاد رکھیں: (وجادلہم بالتی ہی احسن) الایۃ۔ نیز آپ مخاصمت کا طریقہ اختیار کر کے اللہ کے رسول کے اس فرمان کے مصداق نہ بنیں: (اذا خاصم فجر)۔
آپ اس پر گلہ شکوہ کرنے کا حق رکھتے بھی نہیں! کیوںکہ آپ نے ہی گفتگو کو اس طرز لے گئے ہیں!
رب العالمین کا یہ فرمان اور رسول اللہ کی یہ حدیث آپ کو اس وقت یاد نہیں آئی؟ جب آپ ''ہانکنے'' پر آگئے تھے! اب جب ہم نے آپ کے ''ہانکنے'' پر جواب دیا ہے، تو آپ کو
وجادلهم بالتي احسن یاد آئے گا!
آپ آئندہ سے اس طرز میں گفتگو نہیں کریں گے، اور تہمتیں دھرنےے سے باز رہیں گے، تو آپ کو اس طرح جواب بھی نہیں ملے گا!
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
یہ ہے گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

زیر بحث مسئلہ میں بات بس اتنی سی ہے کہ آیا دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بنتا ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث ہے؟ ۔ اور یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا نہیں؟ ۔ کیا یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا اس کے اقرباء میں سےہے؟۔ اور قرآن و حدیث کی کون سے دلیل سے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا؟۔
جی! یہ زیر بحث مسئلہ ہے!
مگر یہاں ایک سوال اور بھی ہے، کہ کیا تمام ذریت حقیقی أولاد ہے؟

ساری بحث کا محور بس یہ چند نکات ہیں جس کے تعلق سے میں نے چند آیات اور احادیث کو بطور دلائل پیش کیا اور اس سلسلہ میں صحیح بخاری کا یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس پر اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ بھی پیش کیا جس میں اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا ہے۔
اور ہم نے اس بتلایا ہے کہ نہ امام بخاری سے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کے موقف پر ثبوت و دلیل ہے، بلکہ وہ آپ کے موقف کے بطلان پر ثبوت ودلیل ہیں!
آپ کا کہنا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا، بالکل باطل ہے!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، جو کہ ایک بیٹی ہونے کی صورت میں اس کا حصہ اللہ نے مقرر کیا ہے، اگر پوتی کا شمار بیٹیوں میں کیا جاتا، تو دونوں کو یعنی پوتی اور پھوپی کو برابر کا حصہ ملنا چاہیئے تھا! مگر ایسا ہے نہیں!

علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے ۔ اور اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر دیں جو اس نے آیات مواریث کے ضمن میں فرمایا ہے: (وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)[سورة النساء])
دیکھیں: جواب تو آپ کو دیا گیا ہے، مگر آپ یا تو اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، یا تسلیم کرنے سے گریزاں! خیر ایک بار پھر کوشش کریں گے!
میں نے صرف اتنی سی بات کہی تھی کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہے
آپ کی یہ ''اتنی سی بات'' باطل ہے، اور اسی باطل کی بنیاد پر آپ نے باطل موقف قائم کررکھا ہے!
اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔ اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔
اب اگر باپ، تایا ، چچا میں سے چچا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، تایا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور باپ بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور ''اسی طرح'' اگر پوتے کو بھی ''بیٹوں میں سے بیٹا'' مانا جائے! تو لازم آتا ہے کہ باپ کے حیات ہوتے ہوئے دادا کی وراثٹ تایا، اور اسے کے بیٹوں، چچا اور اس کے بیٹوں، باپ اور اس کے بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے۔ کیونکہ پوتا بھی باپ کی طرح بیٹا ہے!
اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
دادا پوتے کا حقیقی والد نہیں! یہ بات بالتفصیل گزشتہ مراسلہ میں بیان ہوئی!
جس طرح اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کا دادا بمنزلہ والد و باپ کے اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے اس کا یتیم پوتا بھی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
اول تو یہ سمجھنا چاہیئے، کہ جب ''بمنزلہ والد و باپ'' کہا ہے، تو لازم آتا ہے کہ دادا حقیقی والد اور باپ نہیں! کیونکہ ''حقیقی'' کو ''بمنزلہ'' ہونے کی حاجت نہیں ہوتی، اور جو ''بمنزلہ'' ہو وہ ''حقیقی'' نہیں ہوتا!
مسئلہ ہمارا ''باپ'' کے لفظ پر نہیں! مسئلہ ''والد'' کے لفظ کا ہے،
دوم کہ باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا وارث ہونا، صحیح حدیث سے ثابت ہے، جبکہ محض باپ کی عدم موجودگی میں پوتے کا وارث ہونا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ حدیث سے ثابت ہے، بلکہ دادا کی وراثت میں پوتے کے وارث ہونا ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے، وہ یہ کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
ویسے تو یہ تفصیل سے بیان ہوا ہے! پھر بھی آگے مزید تفصیل آئے گی!

قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اس کا واسطہ اس کا باپ تھا جو اب موجود نہیں رہا تو بمنزلہ اولاد میت کے اپنے باپ کی جگہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
پہلے تو آپ اس بات کا فیصلہ کر لیں، کہ آپ پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' مانتے ہیں، یا ''بمنزلہ أولاد''
دوم یہ آپ کامدعا ہے، جس پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں!

اس پر بین دلیل اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا ہے۔ اس کے بر خلاف ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں پائی جاتی ہے۔ لہذا اس مسئلہ پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے؟
اس حدیث میں میت کی یعنی دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے کی شرط پوری ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کو دادا کی مذکر أولا کے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت پر دلیل بنانا باطل ہے!
چونکہ نام نہاد اہل قرآن، منکرین حدیث حضرات نے اس مسئلہ کو اچھال کر احادیث و سنت رسول کی حجیت کا انکار کیا اور احادیث کے مصدر تشریع ہونے کا انکار کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ احادیث حجت اور مصدر تشریع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ حجت ہوتیں تو اس مسئلہ کا بھی اس حل موجود ہوتا؟ تو ہم نے اس کے جواب میں ہم نے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی کہ احادیث رسول بھی حجت دین اور مصدر تشریع ہے جس طرح قرآن ہے۔ اور ان کا انکار کرے وہ حقیقی کافر ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (151) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (152) [سورة النساء]
الحمدللہ! کہ آ پ حدیث کو حجت مانتے ہیں!
معاملہ یہ ہے کہ، منکرین حدیث نے اس مسئلہ میں وارد احادیث کے حکم کا انکار کیا!
لیکن یہ بات نہیں کہ احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجود نہیں! احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجودہے، لیکن منکرین حدیث کو وہ قبول نہیں!
اور اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! یہی اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے، اور یہی اس کا حل ہے!
آپ نے بھی زبردست کوشش کی، کہ ''حل'' منکرین حدیث کی فکر کے مطابق لے کر اسے قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ٹھان لی!
مگر، ایں خیال است و محال است و جنوں!
ابن داودنے کہا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے! تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں! اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!
الجواب:
ابن داود صاحب آپ کی ان بے تکی باتوں کا تو جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے:
آپ جواب دے بھی نہیں سکتے، کہ آپ نے ''معنوی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، وہ آپ کی کم علمی، کج فہمی، اور جہالت ہی ہے! اس کا آپ کیا جواب دے سکتے ہیں! کچھ بھی نہیں!
اور جو آپ نے ''لفظی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، یہ تو بیوقوفی ہے!
اگر یہ آپ کی بیوقوفی نہیں! تو اس تھریڈسے کسی کا بھی ایک اقتباس پیش کریں، جہاں کوئی ''لفظی تحریف'' کا مرتکب ہوا ہو!
میں علی الإعلان اپنے الفاظ واپز لیتے ہوئے، آپ سے معذرت کروں گا! اور معافی طلب کروں گا!
آپ نے کہا: آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے!
الجواب:
اس کا جوب ہے:
جی ہاں ہمارے پاس اللہ و رسول کی جانب سے آسمانی سند اور دلیل ہے یعنی قرآنی آیات اور احادیث نبویہ
آپ سے پوچھا کیا گیا ہے، آپ جواب کیا دے رہے ہیں!
اس کو کہتے ہیں، سوال گندم، جواب چنا!
سوال آپ سے یہ تھا:

آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے،
ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ''آپ کے پاس کیا کوئی آسمانی سند ہے''
بلکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ''آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے!
اور وہ سند یہ بتلاتی ہو کہ قرآن وحدیث سے متعلق آپ کا ہی فرمان قرآن وحدیث کا اصل مفہوم ہے!
تو میرے بھائی! ایسی کوئی سند آپ کے حق میں نازل نہیں ہوئی، نہ ہمارے حق میں!
لہٰذا آپ کا اپنی فہم پر نقد ورد کو قرآن وحدیث کا انکار وتحریف باور کروانا بالکل باطل ہے!
جو اس بات پر دلیل واضح اور حجت قاطع ہے کہ بیٹا، پوتا بیٹی پوتی نواسے نواسیاں سبھی انسان کی اولاد اور اس کی شاخیں ہوتی ہیں جنہیں اولاد، ذریت اور فرع کہا جاتا ہے اور بالاجماع سب کے سب لفظ اولاد کے مفہوم میں شامل ہیں اور لفظ اولاد سب کا جامع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے باپ، دادا، پردادا، دادی پردادی، نانا نانی وغیرہ سب والدین کے لفظ کے عموم میں داخل اور سب کو شامل اور یہ لفظ سب کا جامع ہے۔
یہ آپ کا وہم ہے، گزشتہ مراسلہ میں یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جا چکی ہے!
اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہیں اور آپ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پارہے ہیںاور آپ کٹھ حجتی کئے جا رہے ہیں اور ایک بے بنیاد بات کو توڑ مڑور کر صحیح ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اصل موضوع بحث سے ہٹ کر ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
آپ کی ''اتنی معمولی سی بات'' کو ہم سمجھ کر ہی باطل قرار دے رہے ہیں! یہ آپ کا وہم ہے کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی! ہم آپ کی بات سمجھ بھی رہے ہیں،اور اس کے مقتضی کو بھی سمجھتے ہیں! مگر آپ خود اپنی ہی بات کے مقتضی سے غافل ہیں!
آپ میری اس بات کا جواب دیں جس کا میں آپ سے بار بار مطالبہ کر رہا ہوں وہ یہ کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں باقاعدہ دو باب ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا اور دوسرا یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا۔
آپ میری اس بات کا جواب تو دے نہیں رہے ہیں اور الٹا مجھ ناچیز کو بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم قرار دے رہے ہیں۔
اس کا جواب دیا جا چکا ہے، اور آپ کو متعدد بار یہ بات بتلائی ہے، کہ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو پھوپھی کے ساتھ ترکہ میں حصہ میت کی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں دیا تھا!
صحیح بخاری میں پہلا بات پوتے کی وراثت کے مشروط اثبات کا ہے، کہ جب میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
اور دوسرے باب میں میں بھی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں پوتی کو وراثت کا حق ثابت کیا ہے
اگر آپ اپنے الفاظ (جہالت وبیوقوفی) کا شکار نہیں ہیں اور بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم نہیں ہیں اور آپ کے حق میں کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہوگا۔تو برائے مہربانی پیش کریں۔
نہیں! ہمارے حق میں ایسی کوئی آسمانی سند نازل نہیں ہوئی کہ ہمارا بیان کردہ مفہوم ہی قرآن وحدیث کا اصل اور درست مفہوم ہو گا!
ورنہ آپ کی ساری باتیں بے تکی بے بنیاد خلاف کتاب و سنت قرار پائیں گی۔
اگر ایسا ہے!
تو آپ صرف قرآن وحدیث کا متن تحریر فرمائیں! اور آپ کو بھی اس سے کوئی استدلال استنباط کرتے ہوئے، کچھ بھی بیان کرنے کی اجازت نہیں! اورآپ کی منطق کے مطابق آپ کا تمام کلام بے تکا اور بے بنیاد اور خلاف کتاب وسنت قرار پاتا ہے!
لہٰذا آپ پھر ایسا کیجیئے کہ آپ صرف قرآن وسنت کا متن پیش تحریر کیا کیجیئے!
دیکھیں: ایسی بے تکی باتوں سے گریز کریں! یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ پر کوئی نقد کیا جاتا ہے، تو آپ نے بھی ٹھانی ہوئی ہے، کہ اسی طرح کا نقد آپ نے مخالف پر کرنا ہے، جیسے آپ نے ''نکتہ چینی'' کے ضمن میں کیا تھا! لیکن یہ خیال نہیں رہتا، کہ خود اس نقد کے اول مصداق ٹھہرتے ہیں!
تو برائے مہربانی الزام تراشی چھوڑیئے
بالکل! یہی ہم آپ سے کہہ رہے ہیں! کہ الزام تراشی چھوڑیئے! اور خواہ مخواہ، بے بنیاد لفظی اور معنوی تحریف کے الزام تراشی نہ کیجیئے!
ور اصل مدعا پر آکر میرے اس سوال کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ اور اس سے متعلق دیگر سوالات کا جواب دیجئے۔ادھر ادھر کی نہ ہانکئے۔
ویسے تو یہ بیان ہو چکا ہے، مگر جیسے کہا ہے کہ ایک بار پھر بیان کریں گے!
اور آپ ''ہانکنے'' سے باز نہیں آرہے!
اور دوسروں کے لئے، فوراً منافق کی علامت کا اطلاق کر دیتے ہیں!
میں نے قرآن کی یہ آیت (وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾)
کو یہ دکھانے کے لئے پیش کیا تھا کہ اولاد میں بیٹا بھی آتا ہے اور پوتا بھی جیسا کہ ابراہیم کی بیوی کو اسحاق بیٹے اور اس کے توسط سے پیدا ہونے والی اولاد پوتے یعقوب کی خوشخبری دی گئی۔
ظاہر سی بات ہے کہ اسحاق کے بیٹے یعقوب جو کہ ابراہیم کے پوتے ہیں ان کی بیوی کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اسحاق کی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔
اس آیت میں کہاں یعقوب علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام کی ''ولاد'' اور وہ بھی '' حقیقی أولاد'' کہا گیا ہے؟
اور آپ نے اس آیت کو اپنے اس موقف پر پیش کیا تھا:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔
اس پر ہم نے آپ پر اعتراض وارد کیا ہے، کہ انبیاء کی تو مالی وراثت ہی نہیں ہوتی، آپ نے اسے وراثت کی تقسیم بالترتیب پر کیسے دلیل بنا لیا؟
آپ کی اعلیٰ فہم اور قرآن و حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ آپ اتنی معمولی بات کو سمجھ نہ سکے اور لگے انبیاء کی وراثت جاری ہوتی ہے یا نہیں پر بحث کرنے۔
جناب من! آپ کی ''اتنی معمولی بات'' قرآن کی اس آیت میں نہیں ہے!
اور اس وہم کا علاج کروا لیں کہ ہم آپ کی بات نہیں سمجھ رہے! ہم آپ کی بات کو سمجھ کر ہی باطل کہہ رہے ہیں!
چنانچہ یوں رقم طراز ہیں: دیکھیں! قرآن میں یوں ہے: وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟

یہ ہے آپ کا مبلغ علم اور اعلیٰ فہم و فراست؟ ...... آگے اور کیا کہا جائے!
جناب من! تو بتلائیے بھی!
یہ ہماری فہم نہیں، بلکہ آپ کی فہم کا مقتضی ہے! کیونکہ آپ پوتوں پوتیوں اور ان کی ذریت کو، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، آپ انہیں ان کے حق سے محروم کیوں کرتے ہیں؟
اسی طرح میں نے یہ واضح کرنے کے لئے کہ اولاد کی نسبت اور پہچان اس کے والدین کے توسط سے ہوتی ہے۔ نہ کہ چچا تائے کے توسط سے یا کسی منہ بولے بیٹے کی نسبت اور پہچان اس کے منہ بولے باپ سے نہیں کی جاتی جیسا کہ عہد جاہلیت میں ہوتا تھا۔ لہذا کسی کی نسبت اس کے باپ، دادا، پردادا سے کی جانی چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ انہیں ان کے باپ کے واسطوں سے نسبت کر کے پکارو۔
شکر ہے آپ کواس بات کا ادراک تو ہوا، کہ یہ نسبت کے لئے ہے!
جس کے جواب میں آپ طول طویل بحث کرنے میں لگ گئے۔ اور اس سلسلہ میں حدیث جبرئیل پیش کی جس میں یا محمد اور یا عمر کا لفظ آیا ہوا ہے۔ اس میں اس لفظ سے پکارنے سے مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کا نام لیکر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ نہ یہ کہ کس کی طرف اس کی نسبت ہے کون اس کا باپ دادا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ''بات بنتی نہیں تو بناتے کیوں ہو!''
ہم نے یہ کہا تھا :
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
مختصراً مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کے والد کے نسب کے علاوہ کسی اور نسب سے منسوب کر کے نہ پکارا جائے!
اور صرف پکارنا ہی نہیں، اس طرح منسوب کرنا اور سمجھنا بھی ممنوع ہے!
اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہے اور نہ سمجھ پارہے ہیں اور الٹی پلٹی ہانکے جارہے ہیں۔ اور ہم نے جس نکتے پر توجہ چاہی تھی وہ پس پشت ڈال کر یہ طول طویل بات لکھ ماری:
میرے بھائی! ہم نے آپ سے جو سوال کیا تھا اس کا جواب دینے کے بجائے کوسنے دینا شروع!
میں وہ سوال دوبارہ پیش کرتا ہوں:

کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟
جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے!
کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا!
یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!

اس کا جواب دیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
ہمارا اس آیت سے استدلال یہ تھا کہ: اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ نے لکھا:

جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟ پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا
ابن داود نے کہا:
جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
الجواب: میں کسی پوتے کو ان کے حق سے محروم کئے جانے کی بات تو کرہی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف یتیم پوتوں کے محروم نہ کئے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے کہ دیگر پوتوں کو دیتے ہیں! اس طرح کا جھوٹ بولنے سے تو گریز کیجیئے!
کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کو نہیں دیا جائے گا۔ اور چچا تایوں کو دیا جائے گا تو ان کے توسط سے ان کے بیٹے بیٹیوں یعنی غیر یتیم پوتے پوتیوں میں سے ہر ایک کو مل جائے گا اور ان سب پوتے پوتیوں کو ان کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچ جائے گا۔
یہ آپ کی اٹکل ہے، جو حقیقت کے خلاف ہے، اس کا بیان پہلے ہو چکا ہے، کہ وہ چچا اور تایوں کی ہی ملکیت ہوتا ہے، نہ کہ ان کے بیٹوں کی!
اور صرف یتیم پوتے پوتیاں محروم رہ جائیں گے۔ جب کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ہوتے یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم نہیں کیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! اور ہم اسی کے قائل ہے!
یہ تو آپ جیسے لوگ ہیں جو یتیم پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں!
جب قرآن و حدیث سے دادا یعنی میت کی مذکر أولاد موجود ہو، تو پوتے پوتی کو اللہ اور اس کے رسول وراثت کا حقدار قرار نہیں دیتے، ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے تابع ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
الجواب:
میری اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی جو ترتیب رکھی ہے پہلے بیٹا پھر اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا۔ یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا درجہ بدرجہ نیچے تک۔ جیسے اللہ نے انہیں بنایا ہے اسی ترتیب سے درجہ بدرجہ انہیں حق و حصہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چچا کی عمر زیادہ ہے یا پوتے کی عمر۔ لیکن آپ کی اعلیٰ فہم و فراست نے اس کو یوں سمجھ لیا جو آپ نے یوں تحریرکیا:

آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا! مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!

الجواب:
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم و فراست جس کی اگر داد نہ دی جائے تو ایسی اعلیٰ فہم و فراست اور قرآن و حدیث دانی کی توہین ہوگی۔
بات درجہ بدرجہ پیدا ہونے کی ترتیب کے لحاظ کی ہے لیکن سمجھا گیا عمر کے زیادہ و کم ہونے کے اعتبار سے ترتیب کا لحاظ رکھنا۔ کہاں کا تیر کہاں کا تکہ۔
یہ ''کہیں کا تیر کہیں کا تکہ'' ہمارا نہیں آپ کا تھا! اور یہ آپ کی ''اعلی فہم وفراست'' آپ نے بایں الفاظ رقم فرمائی تھی:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
اور آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے پوتیاں اور ان کی ذریت بھی دادا کی ''حقیقی أولاد'' ہے، جیسے باپ، چچا اور تایا، بقول آپ کی ترتیب کے تو لازم آتا ہے کہ جس ترتیب سے ان کی پیدائش ہوئی ہے، انہیں اس ترتیب سے دیا جائے!
مگر آپ یہ نہیں کرتے، بلکہ آپ، آپ کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو دیتے ہیں، اور بعض ''حقیقی أولاد'' کو نہیں دیتے!
ہم نے آپ پر یہ اعتراض کیا تھا، کہ یہاں ترتیب کا معاملہ نہیں، معاملہ یہ ہے کہ آپ، آپ ہی کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو محروم کرتے ہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نوٹ: یہاں @مسرور احمد الفرائضی صاحب مخاطب تو شیخ @کفایت اللہ حفظہ اللہ سے ہیں، لیکن یہ مراسلہ میری طرح دیگر قارئین کی نظر میں بھی ہے، اس پر میں ایک قاری کی حیثیت سے تبصرہ ونقد کا حق رکھتا ہوں! مجھے شیخ کفایت اللہ حفظ اللہ کی نیابت وترجمانی کا کوئی اجازت نامہ حاصل نہیں۔ میرے تبصرہ وتقد کو شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہٰ سے منسوب نہ کیا جائے، تاکہ میری تحریر کے عیب کا ذمہ مجھ پر رہے، شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ اس عیب کے ذمہ دار نہیں!
محترم کفایت اللہ صاحب!
میرے محترم آپ کے مشورہ کا شکریہ۔ آپ ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں اور آپ کی فرائض کے سلسلہ معلومات بس سراجی جیسی فقہی کتابیں ہی ہیں۔
ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ شیخ کفایت اللہ صاحب ''ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں'' اور اس سے متصل جملہ میں ہی بلا ثبوت وبنیاد کے کہتے ہیں کہ شیخ کفایت اللہ کی فرائض کے سلسلہ میں معلومات ''بس سراجی جیسی فقہی کتابیں ہی ہیں''۔
یہ آپ کا وہم ہے!
شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس تھریڈ میں دو مراسلے لکھے ہیں، اور ان میں کہیں بھی علم المیراث پر لکھی کسی کتاب کا نام تک ذکر نہیں کیا!
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی تحریر وتقریر اس پر شاہد ہیں، کہ انہوں نے کتب فقہ سے استفادہ کیا ہے، لیکن محض کتب فقہ سے نہیں، بلکہ قرآن اور اس کی تفاسیر، اور احادیث اور ان کی شروحات سے بھی! اور وہ بھی بے استاد نہیں، بلکہ با استاد!
آپ نے یہ مراسلہ شیخ کفایت اللہ کے جس مراسلہ کے جواب میں لکھا ہے، اس میں بھی شیخ نے آپ کی مستدل حدیث سے آپ کے موقف کا بطلان واضح کیا ہے، اس کا جواب تو آپ سے بن نہ پڑا! بے بنیاد افترا پردازی شروع کردی!
آپ اس وہم کا علاج کروائیں، کہ آپ کے علاوہ کوئی قرآن وحدیث کا پیروکار نہیں!

آپ اس مسئلہ میں قرآن و حدیث میں بحث و تحقیق کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی کسی عالم سے میراث کا علم حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہ۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے سے ثابت أمور کو رد کرنے کا نام بحث وتحقق رکھا ہوا ہے!
قرآن وحدیث میں بحث کا مطلب یہ نہیں ہوتا، کہ پہلے سے ثابت امر کو قرآن وحدیث ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے رد کردیا جائے! یہ در حقیقت زندیقیت ہے!

تو میں آپ کو اور اہل حدیث علماء کو یہ مشورہ دیتاہوں کہ فقہی کتابوں سے جو علم میراث حاصل کیا ہے اس سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے اندر جو علم فرائض و مواریث ہے اس کو حاصل کریں۔ اور فقہی کتابوں کو لیکر اس کے حوالے دیکر فتوے نہ دیں اور حکم نہ لگائیں۔
فقہی کتب قرآن وحدیث سے مستدل، مستنبط، اور مقیس مسائل پر مشتمل ہوتی ہیں، اس میں اختلاف ممکن ہے، کہ کسی مسئلہ میں ، استدلال، استنباط، اور قیاس میں غلطی واقع ہوئی ہے، لیکن کتب فقہ کو چھوڑ ، کہ امت کے تمام علماء وفقہاء کی قرآن وحدیث کی تفسیر وشرح اور ان کے استدلال واستنباط اور قیاس باطل گمان کرتے ہوئے، از خود مسائل کا استنباط کرنے کی ٹھان لینا زندیقیت ہے!
اس کی دلیل:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، سَمِعْتُ المُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا۔ اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ "
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ»

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت کوقائم رکھے گا۔ انھیں ذلیل یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی حالت پر گامزن ہوں گے۔ "
صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)


معلوم ہوا کہ حق قیامت تک معدوم نہیں ہوگا! یعنی جو مسائل درپیش آئیں ہیں، ان کے متعلق یہ نہیں ہوسکتا کہ سب کے سب علماء وفقہاء ہی باطل ہوں، اور صدیوں بعد ایک صاحب کو حق سمجھ آئے، اور منکرین حدیث کے علاوہ اس کے موقف کا حامی بھی کوئی نہ ہو! بلکہ اس کا موقف منکرین حدیث سے ہی اچکا ہوا ہو!
مختصراً کہ پہلے سے درپیش فقہی مسائل میں بھی کسی نئے اور منفرد موقف کا نیا اور منفرد ہونا از خود اس کے بطلان کی دلیل ہے!
لہٰذا کتب فقہ میں حق پایا جاتا ہے، اور کتب فقہ سے اعراض، حق سے اعراض کرنے کے مترادف ہے! فتدبر!

اور اگر قرآن و حدیث کی باتیں جو کہ بالکل سیدھی سادی، آسان اور سمپل ہیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں تو قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس میں تحریفات و تاویلات بے جا کر کے یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتوے نہ دیں۔
اس پر مجھے ایک سیدھا سادا، آسان اور سمپل شعر یاد آیا:
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ
آپ نے بس ٹھانی ہوئی ہے کہ جو نقد آپ پر کیا جائے گا، اسے کسی بھی طرح معترض پر بھی کرنا ہے، خواہ بلاجواز ہی سہی!
آپ کی بزعم خود قرآنی دلیل تو آپ کی قرآن کی سمجھ کو ناقص وباطل ثابت کرتی ہے، اس کا بیان ہو چکا، اورایک بار پھر مزید تفصیل سے آئے گا!

اللہ کے رسول نے ترکہ و میراث کے مال کو اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اہل فرائض کو ان کے فریضے سونپنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث ہے۔ ترکہ و میراث کو ذوی الفروض اور عصبات کے مابین تقسیم کا حکم نہیں دیا ہے یہ اصطلاحات اور اصول فرائض سب بعد کی ایجادات ہیں جو لوگوں بنایا اور مرتب کیا ہے اور جس کا وجود اللہ کے رسول کے زمانے میں نہ تھا چنانچہ مقاسمت الجد۔ عول اور رد کے مسائل سب بعد میں پیش آئے جس پر کچھ نے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔ اور ذوی الفروض، عصبات کی اصطلاحات تو اللہ کے رسول اور صحابہ کے وقت میں پائی ہی نہیں جاتی تھیں۔
یہ وہم آپ کو کیسے لاحق ہوا کہ اصطلاحات کا وجود بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہونا ضروری ہے، یا اصطلاحات کا وجود قرآن وسنت میں ہونا ضروری ہے!
''اصطلاح'' کسی امر کو دیئے جانے والا نام ہے، اور اس امر کا وجود قرآن وحدیث میں ہونا لازم ہے، نہ کے نام کا!

اسی طرح حجب کے اصول بھی بعد کی ہی ایجاد ہیں یہ کوئی اللہ و رسول کا حکم اور فیصلہ نہیں ہے اور نہ ہی اللہ و رسول کے نازل کردہ اصول اور اصطلاحیں ہیں جن پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آیا جائے۔
یہاں غالباً روانی میں آپ نے ''اللہ ورسول کے نازل کردہ'' لکھ دیا ہے، جبکہ ''صرف اللہ کا نازل کردہ'' ہونا چاہیئے، اور ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ'' ہونا چاہیئے!
خیر عبارت کی یہ تعبیر غالباً روانی میں غلط ہوگئی ہو گی!
مجھے تو آپ نسیان کے مریض بھی معلوم ہوتے ہیں، خود حجب کے أصول رقم کرنے کے باوجود بھی، فرماتے ہیں، کہ حجب کے أصول بعد کی ایجاد ہیں؛
بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،
اور جس طرح بیٹے اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگے۔
اور جس طرح بیٹیاں اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتی ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتیاں بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگیں۔
اب آپ سے کہا جائے کہ آپ تو فرما رہے تھے کہ حجب کے أصول بعد کی ایجاد ہیں، ہیں! تو آپ کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوگا!
تو میرے بھائی! أصول فقہ بھی قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں! محض یہ کہہ کہ یہ بعد میں اخذ کیئے گئے ہیں، تمام سے جان خلاصی کرنا، زندیقیت ہے!
اور یہ بتلائیے کہ آپ کے علاوہ اور آپ سے قبل علماء وفقہاء کے قرآن وحدیث مستنبط أصول تو بعد کی ایجاد ٹھہرے! اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور فیصلہ نہیں، اور اللہ کا نازل کردہ أصول نہیں! مگر آپ جو أصول اخذ کریں وہ کیا بعد کی ایجاد نہیں؟ اور وہ کیا اللہ کا حکم اور فیصلہ ہے؟ اور وہ کیا اللہ کانازل کردہ ہے؟
دیکھیں؛ یہاں آپ نے از خود ایک أصول بنایا ہے:

ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
حالانکہ جن آیات سے آپ نے یہ أصول اخذ کرنا چاہتے ہیں، ان آیات سے اس أصول کا اخذ کیا جانا درست نہیں، یہ بات بالتفصیل بیان کی جا کی ہے!
یہی وجہ ہے کہ جب عول کا مسلہ درپیش ہوا تو کچھ صحابہ نے اس سے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔
صحابہ میں کسی فقہی مسئلہ میں اختلاف اس بات کو مستلزم نہیں، کہ مختلف فیہ مسئلہ میں تمام مخطی ہوں! بلکہ اس لازم آتا ہے کہ مصیب انہیں میں ہے!
اسی طرح دادا ور بھائی کے مسئلہ میں کچھ صحابہ کا موقف یہ تھا کہ بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے اور کچھ کا موقف یہ تھا کہ نہیں کیونکہ دادا باپ ہوتا ہے اور باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے کو کچھ نہیں مل سکتا۔ اس پر عہد ابو بکر تک تو اتفاق رہا لیکن عہد فاروقی میں بمشورہ زید بن ثابت اس بات پر اتفاق ہوا کہ نہیں بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے۔
اس مسئلہ پر مفصل بحث گزری، جہاں آپ کے بیان کردہ '' اتفاق'' اور پھر اس کے برعکس پر ''اتفاق'' کا بطلان بالتفصیل بیان کیا گیا ہے!
اسی طرح رد علی الزوجین کا بھی مسئلہ ہے کہ کچھ صحابہ کا کہنا تھا زوجین کو نہیں ملنا چاہئے جبکہ عثمان بن عفان کا کہنا تھا کہ نہیں انہیں بھی ملنا چاہئے جس طرح عول میں انہیں شامل کیا جاتا ہے ور ان کے حصے میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس اختلاف سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ قرآن وحدیث سے استدلال و استنباط کرنے میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، اور ہوا ہے، اور ہوتا ہے!
مطلب یہ کہ فرائض و مواریث کا اصل ماخذ و مرجع اور مصدر صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی ہے اور اسی کے مطابق ترکہ کی تقسیم ہونی چاہئے جیسا کہ اللہ و رسول کا حکم اور فرمان ہے۔ اور اسی کے تعلق سے بحث و تحقیق ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ چند فقہی اصول و اصطلاحات کو لیکر جوتم پیزار کی جائے۔
صرف فرائض ومواریث کا ہی اصل ماخذ ومرجع اور مصدر صرف اور صرف قرآن وحدیث ہی نہیں، بلکہ تمام شریعت کا اصل ماخذ ومرجع اور مصدر قرآن وحدیث ہی ہے، اور اجماع اور قیاس شرعی ان اصل ماخذ سے ماخوذ و تابع ہیں!
اور قرآن وحدیث سے مستنبط وراثت کی تقسیم کا نام فقہ الميراث ہے!
اپ بھی ''یتیم'' پوتے کے حق وراثت کو قرآن کی آیات سے مستنبط کرنے کے لئے کوشاں ہیں، حالانکہ قرآن میں وراثت کے تعلق سے ''یتیم'' پوتے کی وراثت کے لئے، کوئی عبارت النص نہیں، یعنی کہ ''یتیم'' پوتے کے الفاظ کے ساتھ اس کے حق وراثت کے الفاظ ہوں، اور اس کا معین حصہ بتلایا گیا ہو! ایسا تو قرآن میں نہیں!
تو جب آپ اپنی فہم کے موافق اپنے مستنبط مسئلہ پر جوتم پیزار کیوں کرتے ہیں؟
آپ تو جوتم پیزار سے بھی آگے بڑھ کر دوسروں پر قرآن و حدیث میں لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت بھی دھر دیتے ہیں!
میں نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی لکھی ہیں
آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھی ہیں!
اور آپ کے علاوہ اور اور آپ سے قبل علماء وفقہاء نے کیا تورات وانجیل کی روشنی میں لکھی ہیں؟
میرے بھائی! درحقیقت آپ نے اپنے موقف کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔
اور میں آپ کو بھی اور دگر لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض و مواریث کے سلسلہ میں بحث و تحقیق صرف قرآن و سنت ساے ہی ہونی چاہئے ۔
ایک تو آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے، کہ جو نصیحت اور مشورہ آپ دوسروں کو دیتے ہیں، آپ خود اس پر قائم نہیں رہتے، آپ ہمیں مشورہ دے رہیں ہیں کہ ''مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض ومواریث کے سلسلہ میں بحث وتحقیق صرف قرآن وسنت سے ہی ہونی چاہیئے!''
جبکہ خود متعدد بار فقہ اور فقہاء کی آراء سے استدلال کر چکے ہیں؛
بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
آپ نے اسے صحیح بخاری سے منسوب کیا ہے، اس میں بریکٹ میں موجود (له أبّ) میں یہ بریکٹ کیوں ہے، اور یہاں ''له أبّ'' کی کیا حقیقت ہے، یہ تو آگے اسی مقام پر بیان ہوگی، ان شاء اللہ!
ابھی جو بات زیر بحث ہے، وہ یہ ہے، جو آپ نے اس باب کے تحت اپنا مستدل بیان فرمایا ہے:
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کے اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔
یہاں آپ اپنی دانست میں امام بخاری سے ایک باب کا عنوان منسوب کر کے، اس عنوان کو اپنے موقف پر سب سے بڑا ثبوت قرار دے رہے ہیں!
اب آپ سے کہا جائے کہ کیا آپ کے نزدیک باب کا یہ عنوان ''صرف قرآن وحدیث ہے؟
تو اس کا کوئی معقول جواب آپ کے پاس نہیں ہوگا!
میرا یہ أسلوب نہیں، کہ میں دوران مکالمہ فریق مخالف پر قرآن کی ان آیات کا اطلاق کروں، جو کسی امر کی وعید و تنبیہ میں نازل ہوئی ہیں! لیکن آپ دوسروں پر بے بنیاد اور بے محل کبھی نفاق کی علامات کا اطلاق کرتے ہیں، کبھی یہودیوں کے وصف کو منطبق فرماتے ہیں، تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو قرآن کی آیت یاد دلائیں،

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾
﴿سورة الصف﴾

یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر غور و خوض کیا جانا چاہئے اور بحث و تحقیق ہونی چاہئے
بحث و تحقیق کے حوالہ سے اور بیان گزرا!
صرف یہ کہہ دینے سے فرصت ملنے والی نہیں ہے کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ اور پوری امت کا اتفاق ہے۔
اجماعی مسئلہ صرف کہہ دینے سے تو فرصت ملنے والی نہیں، مگر اجماعی مسئلہ ہونے سے فرصت مل جاتی ہے،
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، سَمِعْتُ المُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا۔ اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ "
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت کوقائم رکھے گا۔ انھیں ذلیل یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی حالت پر گامزن ہوں گے۔ " (راوی حدیث) عمیر نے کہا کہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں وہ لوگ شام میں ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ شام کے علاقے میں ہیں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)


اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، کہ جب کسی مسئلہ پر اجماع ہو، تو لا محالہ وہ حق پرقائم گروہ بھی اسی میں شامل ہے! لہٰذا بحث و تحقیق کی حاجت نہیں رہتی، اور اس مسئلہ میں بحث وتحقیق سے فرصت مل جاتی ہے!
اس سے کے علاوہ قرآن سے بھی ایک دلیل سمجھ لیں:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
﴿سورة النساء 59﴾
دیکھیں؛ یہاں قرآن وحدیث کی طرف لوٹانے کا حکم تنازع کی صورت میں ہے، اور تنازع اسی صورت ممکن ہے، جب اختلاف ہو، اللہ اور رسول اللہ کا یعنی قرآن وحدیث کو نہ آپس میں کوئی اختلاف ہو سکتا ہے، اور نہ کوئی ان سے اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے، ہاں ان کے علاوہ کا آپس میں اختلاف وتنازع ممکن ہے!
ایسا نہیں، کہ کوئی تنازع واختلاف نہ ہو، اور قرآن وحدیث میں ''بحث وتحقیق'' کرکے ایک نیا موقف کشید کرکے تنازع واختلاف پیدا کیا جائے!
معلوم ہوا کہ جب کوئی اختلاف نہ ہو، وہ درست ہے، قرآن وحدیث کے موافق ہے! اجماع کا انعقاد ہمیشہ حق پر ہی ہوگا، اور باطل پر اجماع محال ہے!
تو اگر یتیم پوتے کی محجوبیت کا مسئلہ اجماعی اور متفق علیہ ہوتا تو پھر یتیم پوتے اور یتیم پوتی کی توریث کے اثبات کا یہ دو باب صحیح بخاری میں کہاں سے آیا؟۔
یا تو آپ انتہائی جاہل آدمی ہیں، یا آپ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہیں ہیں!
اجماعی مسئلہ یہ نہیں کہ پوتا پوتی کسی صورت بھی دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوتے!
اجماعی مسئلہ یہ ہے کہ دادا کی مذکر أولاد کے ہوتے ہوئے، پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوتے!
صحیح بخاری کے ان دونوں أبواب میں اسی کا بیان ہے، کہ پوتا پوتی اس صورت میں دادا کی وراثت کے حقدار ہوں گے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم آپ کا ارشاد گرامی ہے:
یہاں آپ حدیث پیش کرکے سوال کررہے ہیں حالانکہ یہ حدیث خود آپ کے خلاف دلیل ہے ۔بلکہ آپ کی ساری باتیں اس حدیث کے سامنے ہوا ہوجاتی ہے۔
الجواب:
میں کہتا ہوں یہ حدیث آپ جیسے لوگوں کی ساری باتوں کو ہوا بنادیتی ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ فرائض کو اہل فرائض کے حوالے کرو۔ (بخاری و مسلم) اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث ہے کہ ترکہ کے مال کو اللہ کی کتاب قرآں مجید کے مطابق اس کی بنیاد پر اہل فرائض کے درمیان تقسیم کرو ۔ اور جو باقی بچ رہے وہ سب سے اولیٰ مرد مذکر کے لئے ہے۔
آپ کا موقف نہ ان احادیث کے موافق ہے، اور نہ قرآن کے موافق، کہ آپ نے اپنے تئیں، ہی بعض کو اہل فرائض میں شامل کر لیا ہے، جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں!
اس میں اللہ کے رسول نے یہ نہیں کہا ہے کہ پہلے سراجی اور اس جیسی کتابیں اور اس کے پڑھنے پڑھانے والے عالموں سے سیکھو پھر جو کچھ وہ رٹیں رٹائیں اس کے مطابق ذوی الفروض اور عصبات میں تقسیم کرو۔ جس کے سیکھنے اور حاصل کرنے کا آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں۔
آپ قرآن کی اس آیت کو بھول رہے ہیں؛
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴿سورة التوبة 122﴾
لہٰذا آپ کو ان سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے، جنہوں نے دین میں تفقہ حاصل کیا ہے!
میرے محترم! میں نے سراجی پڑھی بھی ہے اور پڑھائی بھی ہے اور اور اصول فرائض پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔
۔

ماشاء اللہ! اندازہ ہو رہا ہے، کہ یہ کتب فہم و فقہ کا کیا شاہکار ہوں گی!
لیکن پہلے یہ تو بتائیے، کہ آپ نے یہ کتب لکھی کیوں؟ آپ نے تو ابھی اسی مراسلہ میں کہا تھا کہ:

میں آپ کو بھی اور دگر لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض و مواریث کے سلسلہ میں بحث و تحقیق صرف قرآن و سنت ساے ہی ہونی چاہئے ۔
جب آپ دوسرے تمام لوگوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں، کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض ومواریث کے سلسلہ میں بحث وتحقیق صرف قرآن وسنت سے ہی ہونی چاہیئے، تو پھر آپ یہ کتابیں لکھ کر لوگوں کو قرآن وحدیث کے بجائے آپ کی کتب پڑھنے اور ان سے مسائل شرعیہ اور خاص کر فرائض ومواریث سیکھنے پر کیوں لگانا چاہتے ہیں!
آپ کی کتب قرآن وحدیث تو نہیں!
میرے بھائی! آپ نے خود کو کچھ گمان کر لیا ہے، کہ آپ کے لئے وہ سب کچھ جائز و حلال ہو جاتا ہے، جس پر آپ دوسروں کو کوسنے دینے سے باز نہیں رہتے!
اور تقریبا بیس سال سے اس علم اور یتیم پوتے کے مسئلہ کے تعلق سے بحث و تحقیق میں لگا ہوا ہوں اور الحمد للہ ثم الحمد اللہ ۔ میں نے علم فرائض و مواریث کو اس کے اصل ماخذ و مصدر اور مرجع قرآن و حدیث سے حاصل کیا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اس پر میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
شکر تو اللہ کا ہر حال میں ادا کرنا چاہئے! یہ تو اچھی بات ہے!
مگر معاملہ ہوا کچھ یوں ہے کہ جیسے اوپر بیان کیا گیا تھا؛ کہ آپ نے ایسے مسئلہ میں، جس میں تنازع واختلاف نہیں ہے، اس مسئلہ میں ''بحث وتحقیق'' کے نام سے نیا اور منفرد موقف کشید کیا ہے، اور آ کے موقف کا نیا اور منفرد ہونا ہی آپ کے موقف کے بطلان کو کافی ہے!
میں یتیم پوتے کی محجوبیت کے تعلق سے جتنے لوگوں کی بھی تحریریں پڑھی ہیں جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ ان سب کا خلاصہ اور ان سب کی ساری باتوں کا محور صرف اور صرف یہی ہے کہ چونکہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے۔ اور قرآن میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے اور علم فرائض کا اصول ہے (الاقرب فالاقرب) جس کا مطلب ہوا کہ قریب کے ہوتے ہوئے دور والا وارث نہیں ہو سکتا ہے۔
صرف پڑھنے کے علاوہ کچھ سمجھا بھی ہوتا، تو بہتر تھا!
اب اسی کو ثابت کرنے اور صحیح ٹھہرانے کی خاطر لوگ قرآن وحدیث کے الفاظ کو توڑتے مروڑتے اورتاویلات بیجا کرکے معنی و مفہوم اخذ کرتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں اور سلسلہ میں کچھ بھی سننا گوارا نہیں کرتے ہیں۔
فضول باتوں کو سننا گوارا کرنا بھی نہیں چاہیئے!
قرآن وحدیث کے الفاظ کو کوئی اور توڑتا مروڑتا ہے یا نہیں، اور تاویلات بیجا کرکے معنی ومفہوم اخذ کرتا ہے یا نہیں، یہ تو ان کی تحریر یا تقریر سامنے آنے پر کہا جا سکتا ہے، لیکن سر دست آپ کی تحریر ہے، اس میں آپ نے بلاشبہ یہ تمام کام کیئے ہیں!

اور اگر کوئی کچھ کہتا بھی ہے تو اسے گمراہ، کج فہم، بے عقل بےوقوف، جاہل، بد عقیدہ، اجماع امت کو توڑنے والا۔ اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالتے ہیں ۔ اور ایسا کہنے والے کوئی اور نہیں بلکہ قرآن و حدیث کا ٹھیکہ لئے ہوئے اتباع کتاب و سنت کے دعویدار حضرات ہیں۔ جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔
کوئی قرآن وسنت کے خلاف بات کرتا کیوں ہے، جب وہ ایسے کام کرے گا، قرآن وحدیث میں ''بحث وتحقیق'' کے نام پر قرآن وحدیث کے احکام کو نفسی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا، تو اس کو گمراہ، کج فہم کہا جائے گا، اور جب اسے اپنی ہی باتوں میں تضاد کی ہی سمجھ نہیں آئے گی، تو اسے بیوقوف اور جاہل کہا جائے گا!
اور بالکل جناب! قرآن وحدیث کے دفاع کا ''ٹھیکہ'' ہم نے لیا ہے!
اور اس ''ٹھیکہ'' میں ہمارا اجر، اللہ کی رضا ہے، اللہ ہمیں ہمارا ''ٹھیکہ'' موت تک اٹھانے کی توفیق دے!
کیا آپ کو فرائض کا علم بذریعہ وحی آیا ہوا ہے؟ یا آپ کے پاس جبرئیل آئے تھے جو آپ کو سراجی پڑھا کے اور میراث کا علم دے کر گئے تھے؟۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ سے یا آُ پ جیسے دوسرے لوگوں سے غلطی ہو رہی ہو۔ کیا آپ کا علم منزل من اللہ ہے؟۔ کہ آپ مجھے گمراہ اجماع امت کو توڑنے والا، کج فہم ، گمراہ، جاہل قرار دیئے جا رہے ہیں اور کسی عالم سے بیٹھ کر علم میراث حاصل کرنے کا مشورہ دیئے جا رہے ہیں۔
اسی طرح کے سوالات ہم آپ سے کرتے ہیں!
کیا آپ کو فرائض کا علم بذریعہ وحی آیا ہوا ہے؟ یا آپ کے پاس جبرئیل آئے تھے، جو آپ کو یہ بتلا کے گئے ہیں کہ ''یتیم'' پوتے پوتی دادا کی وراثت میں ہر صورت حصہ کے حقدار ہیں؟
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ سے غلطی ہو رہی ہو؟
کیا آ کا علم منزل من اللہ ہے؟
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنی کج فہمی، گمراہی، جہالت میں قرآن وحدیث میں معنوی تحریف کر رہے ہوں، اور آپ کو اس کا إحساس بھی نہ ہو؟
میں یہ''ہو سکتا'' والے سوالات میں مزید اضافہ کرتا ہوں!
کیا آپ کو جبرئیل بتلا کے گئے ہیں کہ شیطان آ پ کو وسوسہ میں مبتلا نہیں کر سکتا؟
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو شیطان نے وسوسہ میں مبتلا کردیا؟
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شیطان نےآپ کو وحی کی، کہ ''یتیم'' پوتے پوتی ہر صورت دادا کی وراثت میں حصہ کے حقدار ہیں؟
کیا جبرئیل نے آپ کے پاس آئے تھے، اور کیا آپ کو یہ بتلا کے گئے ہیں کہ شیطان آپ پر وحی نہیں کر سکتا؟
میاں جی!انسان کو بیوقوفی والی باتیں بھی اتنی ہی کرنا چاہیئے، جتنا وہ بیوقف ہو، بیوقفی میں ہشیاری دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے!
اور یہ بتلائیے آپ کو کسی عالم سے علم میراث سیکھنے سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
کیا علم المیراث کو کسی عالم سے سیکھنا کوئی گناہ ہے؟ کہ علم المیراث کسی عالم سے نہ سیکھا جائے!
اور یہ بات ذہن نشین کر لیں، کہ آپ کو گمراہ، کج فہم، جاہل قرار دینے کے لئے، کسی پر وحی کے نزول کی ضرورت نہیں! بلکہ آپ کو گمراہ، کج فہم اور جاہل قرار دینے کے لئے آپ کے آپ کے اب تک کے مراسلے ہی کافی ہیں! انہیں میں آپ کے گمراہ، کج فہم اور جاہل ہونے کا کافی ثبوت موجود ہے!
آپ اور آپ جیسے لوگ جو قرآن و حدیث کی اتباع کے دعویدار ہیں ۔ اس مسئلہ میں اتباع کتاب و سنت کی دعویداری کہاں گم ہو گئی ہے؟۔
اس مسئلہ میں بھی قرآن وحدیث کی دلیل سے ہی، پوتا پوتی دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت کے حقدار قرار پاتے ہیں، بصورت دیگر نہیں!
آپ نے قرآن کی آیات ضرور لکھیں ہیں، لیکن وہ دادا کی مذکر أولاد ہونے کے باوجود پوتے پوتی کی وراثت پر دلیل نہیں!
ہم نے کہا کہ دادا والد ہے اور پوتا اولاد اور اس کی دلیل قرآن وحدیث سے دی ۔ پھر آپ نے کہا کہ دادا مجازی باپ ہے اور پوتا مجازی بیٹا ہے ہم نے قرآن وحدیث اس کا بھی ر د کیا اور ثابت کیا کہ دادا حقیقی والد اور باپ ہے اور پوتا حقیقی بیٹا اور اولاد ہے۔ اور ہم نے اللہ و رسول کر فرمان(قرآن و حدیث) سے ثابت کردیا۔
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے!
اب ذرا یہاں سے آپ کے جھوٹ کا شمار بھی کرتے ہیں:
اول تو یہ بات شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے ان أمور میں کوئی بحث نہیں کی ہے، انہوں نے آپ کو ایک نصحیت کی ہے، اور آپ کی ہی پیش کردہ ایک حدیث سے آپ کے موقف کا بطلان واضح کیا ہے! خیر اسے جھوٹ میں شمار نہیں کرتے، کہ''آپ'' سے آپ تاویلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''آپ'' سے مرادفریق مخالف ہے!

جھوٹ نمبر 01:
نہ قرآن سے اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوتے کے حقیقی أولاد ہونے پر کوئی ثبوت نہیں دیا!
بس نرے دعوے کیئے ہیں، اور وہ اب بھی کیئے جا رہے ہیں!
اب ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ آپ قرآن کی وہ آیت پیش کریں، جس میں پوتے کو دادا کی ''حقیقی اولاد'' اور دادا کو پوتے کا ''حقیقی والد'' کہا گیا ہو!
اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث پیش کریں، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے کو دادا کی ''حقیق أولاد'' اور دادا کو پوتے کا ''حقیقی والد'' کہا ہو!
اور آپ یقیناً یہ نہیں کر سکتے! کیوں کہ قرآن وحدیث میں ایسا ہے ہی نہیں! بلکہ قرآن سے اس کے برخلاف پردلیل قائم ہے، جو پہلے بیان ہوئی! ہم اسے پھر پیش کرتے ہیں:


دیکھیں یہاں آپ نے فرمایا تھا:
(ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے
اس میں قرآن کی آیت میں بیان کردہ شرط کہ میت کی بہن بھائیوں کے وراثت میں حصہ کے لئے ''ان لم يكن له ولد'' کی شرط کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن آگے آپ نے اپنے فہم کا تڑکہ لگایا ہے، وہ نہیں ماتے کہ ''جب میت کی أولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو''
کیونکہ یہاں
''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
اس کی دلیل وہی حدیث ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ:
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔ اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے
یاد دہانی کے لئے وہ حدیث بھی پھر سے نقل کر دیتے ہیں:
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ
صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کو قبول کرتے ہیں، کہ پوتی کی موجودگی میں بھی بہن کا حصہ ہے، یعنی پوتی کی موجودگی قرآن میں بیان کردہ شرط ''ان لم يكن له ولد'' کو مفقود نہیں کرتی، یعنی پوتی کی موجودگی سے میت کے ''ولد'' کی موجودگی قرار نہیں پاتی، یعنی پوتی دادا کی ''ولد'' نہیں!
بنابریں پوتا بھی میت کی کا
''ولد'' نہیں!
ہمیں تو یہ تسلیم ہے، مگر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ قبول نہیں! کیونکہ آپ کے نزدیک تو پوتا پوتی، اور ان کی ذریت بھی
''ولد'' میں داخل ہے!
بات در اصل یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے خلاف نہیں، آپ نے
''ولد'' کو یہ جو عالمی مفہوم پہنایاہے، یہ باطل ہے!
الحمد للہ! قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں
''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!

آپ کی کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اپنی ہی مستدل حدیث کی سمجھ نہیں!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کی موجودگی میں ، بہن کو حصہ دیا!
اور آپ فرماتے ہیں کہ میت کا بیٹا ، بیٹی، پوتا، پوتی کوئی بھی نہ ہو، تو بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے!
قرآن کی آیت میں
''ان لم يكن له ولد'' میں ''ولد'' میں آپ کے مطابق پوتا پوتی شامل ہیں، تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی یہ آیت سمجھ نہیں آئی تھی؟
مجھے تو آپ سے یہ سوال کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ آپ نے معاذ اللہ! بیس سال کی تحقیق میں درست مطلب سمجھ لیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو رد کر دیں!
جناب من! قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں! قرآن وحدیث پرجھوٹ بولنے کا انجام جہنم کی آگ ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پھر آپ نے کہا کہ قرآں میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے تو ہم نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن میں (والدان) کا لفظ پہلے آیا ہوا ہے۔ (الاقربون) کا لفظ بعد میں آیا ہوا ہے۔
شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ سے آپ کی یہ بحث اس فورم پر ''ذاتی گفتگو'' میں ہوئی ہو، تو اور بات ہے، اور اگر ''ذاتی گفتگو'' میں یہ بحث نہیں، ہوئی توممکن ہے آپ نے شیخ حفظہ اللہ سے خواب میں یہ بحث کی ہو!
خوابوں کی ہے بات الگ، ان کے ہیں دن رات الگ
جو کر نہ سکیں، جیون بھر، وہ پل میں کر دکھاتے ہیں
قول الگ ہیں، فعل الگ، ظاہر وباطن ایک نہیں
کیا کیا بننا چاہتے ہیں، اور کیا کیا بنتے جاتے ہیں
دادا پوتے کا ''والد'' نہیں! اور یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جاچکی ہے، لہٰذا ''والدان'' کا لفظ خواہ پہلے آئے یا بعد میں آئے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ پوتے کا تعلق ''والدان'' سے قرار دیا جائے!
پوتے کا تعلق دادا سے ''الاقربون'' کے تحت ہے!
''والدان'' کا لفظ پہلے آیا ہے، تو کیا بیوی کو بھی ''والدان'' کے تحت وارث شمار کیا جائے!
جناب من! ''والدان'' کے تحت وراثت میں انہیں کے حق کا استدلال کیا جائے گا، میت جس کے ''والدان'' میں ہوں! اور وہ ہیں ''بیٹا'' اور بیٹی''

آپ نے کہا بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید ہے۔ ہم نے کہا بیٹا بلا واسطہ صاحب فرض وارث ہے اور پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے۔
آپ کا یہ کہنا کہ پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے، باطل ہے! پوتا کسی صورت بھی صاحب فرض نہیں!
پوتے کا صاحب فرض ہونا ، نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں!
اور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ جس کی دلیل ہم نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری سے دی۔
پوتے کا باپ اگر زندہ ہے، تو دادا کے ترکہ میں باپ صاحب فرض میں ہے، وہ اپنے باپ کے ترکہ سے بحثیت أولاد حقدار اور حصہ دار ہے۔
پوتے کا باپ اگر فوت ہو چکا، تو فوت شدہ کی قبر میں ترکہ کا حصہ نہیں ڈالا جائے گا! فوت شدہ شخص کا اپنا مال بھی اس کا اپنا نہیں رہتا، بلکہ اس کا ترکہ اس کے وارثوں میں بٹ جاتا ہے! یعنی دادا کے فوت شدہ بیٹے کا کوئی حصہ نہیں، کہ اسے اس کی نیابت میں فوت شدہ بیٹے کے بیٹے کو دیا جائے!

آپ کا جھوٹ نمبر 02:
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ آپ نے صحیح بخاری سے اس کی دلیل دی کہ ''پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے۔ اور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔''
آپ نے صحیح بخاری سے اس پر کوئی دلیل نہیں دی!
اور نہ ہی صحیح بخاری میں ایسی کوئی بات ہے!


اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ ابواب ہیں۔
کئی بار آپ کو بتلا چکے ہیں، کہ صحیح بخاری میں دادا کی وراثت میں پوتے پوتیوں کی وراثت کے ااثبات کے مشروط ہونے کے باب ہیں! یا تو آپ اپنی کج فہمی کی بنا پر یہ بات سمجھ نہیں پا رہے، یا پھر ۔۔۔۔۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اور پوتی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد(بیٹا بیٹی) اپنے دادا کے ترکہ سے اپنے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہیں۔
صحیح بخاری کے ان أبواب سے یہ ثابت نہیں ہوتا، کہ چچا تائے کہ ہوتے ہوئے بھی پوتا پوتی، دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہے! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے، کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے پوتا پوتی دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار نہیں!

اس سلسلہ میں میں نے ایک فیصلہ نبوی بھی پیش کیا جس محل شاہد بس اتنا سا ہے کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا محدود حصہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔
آپ کا جھوٹ نمبر 03:
یہ آپ کا بہت خطرناک جھوٹ ہے، کیونکہ یہ آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہے ہیں، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو ایک سے زیادہ بیٹیوں کے محدود فریضے میں سے حصہ دیا!
کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ بیٹیوں کے محدود حصہ میں سے فریضہ دیا ہوتا، تو آپ کے بقول ''بیٹیوں'' کو جو ''ایک سے زیادہ'' ہیں، اور آپ کے مطابق ''پوتی'' کا بیٹی'' میں شمار ہے، تو دونوں کو یعنی ''بیٹی'' اور ''پوتی'' کو برابر دیا گیا ہوتا!
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''ایک بیٹی'' ہونے پر اسے نصف دیا، جیسا کہ قرآن میں أولاد میں صرف ''ایک بیٹی'' کے لئے نصف مقرر ہے!
''وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ''
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، کیوں کہ ایک ہی بیٹی تھی! اور پوتی کو بیٹیوں کے حصہ میں سے نہیں دیا!
یہاں یہ بھی سمجھ لیں کہ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''پوتی'' کو دادا کی ''بیٹی'' میں شمار نہیں کیا! یعنی پوتی کو ''دادا'' کو أولاد میں شمار نہیں کیا، کیوں کہ ''بیٹی'' تو أولاد ہے۔

جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی یتیم پوتے حقدار و حصہ دار ہیں اللہ و رسول کے یہاں چچا تائے کا ہونا یتیم پوتے کے حقدار و حصۃ دار ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

یہ بات متعدد بار بتلائی جا چکی ہے، کہ اس حدیث میں چچا اور تایا کا وجود نہیں تھا! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد نہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا ہے!
اس کے باوجود ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ''یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی یتیم پوتے حقدار و حصہ دار ہیں اللہ و رسول کے یہاں چچا تائے کا ہونا یتیم پوتے کے حقدار و حصۃ دار ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔'' اللہ اور اسے کے رسول پر افترا باندھنے کے مترادف ہے!
ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ ذخیرہ احادیث سے ایک صحیح حدیث پیش کر دیجیئے؛ کہ جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتی کو دادا کی کسی مذکر أولاد، یعنی پوتے پوتی کے چچا یا تایا کی موجودگی میں، وراثت میں سے حصہ دیا ہو!

بس اتنی سی بات ہے۔
آپ کی ''اتنی سے بات'' میں کم از کم تین بڑے بڑے جھوٹ شامل تھے!
غلط فہمیاں اور باطل استدلال علیحدہ!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسی تناظر میں میں نے علمائے اہل حدیث یہ چند سوالات کئے ہیں۔ جس پر آپ لاٹھی لے کر کھڑے ہوگئے اور لگے ہمیں جاہل، گمراہ، بد عقیدہ، کج فہم بے وقوف، جاہل ، اجماع امت کو توڑنے والا کہنے اور مشورہ دینے کہ کسی عالم سے علم میراث حاصل کرلو۔
اول تو شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے آ پ کو جاہل، بد عقیدہ، کج فہم، اور بیوقف نہیں کہا!
دوم کہ کہا بھی ہوتا تو بے جا نہ ہوتا!
حالانکہ ہم نے علم فرائض کو مواریث آپ ہی کی طرح ایک مستند ادارہ میں باقاعدہ طور پر پڑھا ہے اور اب الحمد اللہ چند سالوں سے پڑھا بھی رہاہوں اور ہمارے پڑھائے ہوئے بہت سے شاگرد مکہ مدینہ میں بھی پڑھ رہے ہیں۔
یہ بتلائیے کہ مکہ مدینہ میں پڑھنے والے، آپ کے کتنے طالب علم ہیں، جو آپ کے موقف سے متفق ہیں؟ ممکن ہو تو انہیں بھی یہاں لائیے! تاکہ ہمیں بھی تو معلوم ہو!
مجھے یہ مسئلہ زمانہ طالب علمی میں ہی نا معقول، بے بنیاد اور من گھڑت اسی طرح لگ رہا تھا جیسے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ۔
مطلب یہ کہ آپ کو زمانہ طالب علمی میں دلائل کی بنا پر نہیں، بلکہ نفسانی بنیاد پر نامعقول، بے بنیاد اور من گھڑت لگتا تھا، کہ اس وقت تو آپ کو اپنی ''بحث وتحقیق'' کے نتائج معلوم نہ تھے!
اور درحقیقت یہی آپ کے ساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے! کہ ایک بات آپ کی نفسانی خواہشات کے خلاف ہے، تو آپ اسے قرآن وحدیث میں ''بحث وتحقیق'' سے رد کرکے، اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق نتیجہ اخذ کرنے کے خواہاں ہیں!
چنانچہ میں نے ان دونوں مسئلوں میں بحث و تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہے چچا تایا کا ہونا کوئی مانع نہیں
آپ کا اخذ کردہ نتیجہ، آپ کی نفسانی خواہشات کے اثر کا نتیجہ ہے!
قرآن وحدیث سے یہ حکم ثابت نہیں! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے، کہ چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!
اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں صرف ایک ہی ہونگی کیونکہ تیسری اور آخری طلاق جس سے کہ بیوی حرام ہوجاتی تو اس سے پہلے دوبار رجوع کا پایا جانا لازمی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاقوں میں نہیں پایا جاتا لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں صرف اور صرف ایک طلاق رجعی ہی ہے۔
یہ بحث فی الوقت ہمارا موضوع نہیں!

(جاری ہے)
 
Top