• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا
اس کے جواب میں آپ لکھ رہے ہیں:

آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے!

الجواب:
میرے بھائی پہلی بار تو یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ (آپ تو یوں فرما رہے ہیں) بالکل ہی غلط اور اللہ رسول کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کیونکہ فرمانا تو صرف اللہ و رسول کا کام ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: (((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ)) (57)، ((أَلَا لَهُ الْحُكْمُ)) (62) [الأنعام]، ((مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))، ((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67)) [يوسف]، ((يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44))) [المائدة]
یعنی حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ استعمال نہ کیجئے گا۔
میں نے لکھا :
جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔
آنجناب لکھتے ہیں:

''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست۔ میں نے تو لکھا تھا کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔
آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست کا یہ عالم ہے کہ اس کا معنی و مفہوم یہ نکال رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ (
گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) اب اس احمقانہ بات کا کیا جواب دی جائے۔ سچ کہا کسی نے کہ (جواب جاہلاں باشد خموشی) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا) (الفرقان: 63)
اب آنجناب کے پاس اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب پوتے کا باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی حقدار وحصہ دار ہی ہوگا ایسے پوتے کا توکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ تو اس پوتے کا ہے جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے چچا تائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے رہا یہ مسئلہ کہ یتیم پوتے کا نہ تو باپ ہی ہے اور نہ چچا تائے ہی ہیں تو ایسی صورت میں یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے کے بارے کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ جس شخص کو نہ تو بات ڈھنگ سے کہنے کا ہی شعور ہو اور نہ ہی بات کو ڈھنگ سے سمجھنے کا ہی شعور ہو تو ایسے شخص کو اس جیسے نازک اور خطرناک شرعی مسئلہ میں بولنےاور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرنی چاہئے۔
یہ کوئی شوقیہ چیز اور تفریحی مسئلہ نہیں ہے کہ چلو تھوڑا تفریح کرلیتے ہیں اور یہ آپ کا کام نہیں ہے اور آپ کو زیبا نہیں دیتا کہ آپ اس نازک اور خطرناک مسئلہ میں کچھ بھی لکھیں۔ لہذا یہ تفریح بند کردیں۔ اور کسی دوسرے موضوع میں اپنا زور قلم صرف کریں۔ آپ کی اردو دانی کا یہ حال ہے کہ جملہ آپ کے (لفظ ) سے شروع کرتے ہیں اور جملہ ختم کرتے کرتے تم پر آ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تمیز نہیں ہے جب جملہ آپ سے شروع کیا جاتا ہے تو ہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔ اور جب تم سے شروع کیا جاتا ہے تو ہو پر ختم کیا جاتا ہے۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ لکھتے ہیں : (
گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) یہ انتہائی احمقانہ بات ہے پوتا جب یتیم ہوگا تو اس کا باپ نہیں ہوگا اور جب باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت کا مسئلہ ہی درپیش ہوگا۔
یہ ہے آپ کی اردو دانی اور معاملہ فہمی جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں آپ کی اس خوش فہمی کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے کہا:

میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا! میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے! جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے!
الجواب:
یہ بھی آنجناب کی خوش فہمی اور اعلیٰ فہم و فراست کا ایک اور نمونہ۔ یہاں بحث ابا جان اور اما جان کے ترکہ کی نہیں ہورہی ہے بلکہ دادا کے ترکہ کا اور دادا کا ترکہ کسی ایرے غیرے کا مال اور ترکہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد دادا جان کا ترکہ ہے جس کی وہ اولاد و ذریت میں سے ہے اور جو اس کے باپ کی وفات کے بعد اسکا والد و باپ ہے جو اسے چھوڑ کر مرگیا ہے جیسے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے والد عبد اللہ جب انہیں چھوڑ کر مرگئے تو ان کے دادا عبد المطلب نے بطور والد و باپ کے ان کی پرورش و پرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں ادا کی۔
آپ نے لکھا:
(
یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا!
(
میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا
آپ کے بقول جب یتیم پوتے کے ابا جان اور دادا جان کا مال مرتے ہی ان کا نہیں رہا تو پھر نہ تو یتیم پوتے کے ابا جان کا ترکہ بنا اور نہ ہی دادا جان کا ترکہ بنا لہذا اس میں نہ تو اس کا کوئی حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس کے چچا تایوں کا ہی کوئی حصہ بنتا ہے ۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کے باپ کا اور اس کے چچا تائے کے باپ کا مال ہی نہیں رہا تو پھر ترکہ بننے اور وراثت منتقل ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا ہے۔
آپ کی اعلیٰ فہم و فراست ایسا ہی کہتی ہے۔ آئے آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتے ہیں۔
جناب من! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔ جس کے حقدار و حصہ دار اس نے بنا و متعین کر رکھے ہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کردئے ہیں جنہیں ان کو دیدیئے جانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33)
جناب من! پہلے آپ ڈھنگ سے قرآن و حدیث پڑھیئے ۔ اور فرائض و مواریث کا علم اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول اللہ سے سیکھئے اس کے بعد پھر بحث مباحثہ کا شوق پورا کیجئے۔ اور اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔
میں نے کہا :
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
جس پر آپ نےلکھا :

پہلے تو یہ ذہن نشین رہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت آپ نے اپنے حق میں پیش کی تھی، کہ جب آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کوئی عربی شارح و فقیہ نے بھی وہی سمجھا ہے، جو آپ نے، تب آپ نے ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت اپنی تعلیق کے ساتھ پیش کی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا والعیاذ باللہ
میری اس بات پرآپ نے لکھا :
ابن داود نے کہا ہے:

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
اور اب ہم اس پر گفتگو کر رہے ہیں؛
آ پ نے ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کی ہے، ابن حجر عسقلانی نے یہ نہیں کہا کہ کسی پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا، تایا موجود ہوں تو وہ دادا کی وراثت کا حقدار ٹھہرتا ہے! بلکہ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے کہ پوتے کے وراثت کے حقدار ہونے کی
جو شرط ہے، ''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ'' ''جب اس کا بیٹا نہ ہو، یعنی میت کا صلب نہ ہو'' پھر اس صلب کو بیان کیا ہے ''سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّه'' ''برابر ہے کہ پوتے کا باپ ہو، یا چچا، تایا!
مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛
دیکھیئے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی جگہ کیا فرماتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
وَقَوْلُهُ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ
وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ.

اس پر آپ نے لکھا:
ویسے آپ کو اپنے ہی کلام کا مقتضی سمجھنے میں دشواری ہے، ابن حجر کا کلام سمجھنا شاید آپ کے لئے اور مشکل ہو!
الجواب:
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ آپ جب اپنی ہی کہی ہوئی بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کیا خاک سمجھیں گے۔ آپ کا یہ حال ہے کہ نہ تو والد کا معنی و مفہوم جانتے ہیں اور نہ ہی اولاد کا ہی معنی و مفہوم اور مصداق آپ کو معلوم ہےاسی وجہ سے سوائے کٹھ حجتی کے آپ کے قلم سے دوسرا کچھ نہیں نکل پا رہا ہے۔
آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں:

(قَوْله مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ.
صحیح بخاری کے باب اور حافظ ابن حجر عسقلانی نےجو شرح کی ہے(إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
تو متن مع الشرح عبارت یوں ہوئی:
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو اور نہ چچا تائے ہوں۔
اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو کیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔

[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔
اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔

[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
لہذا اس باب میں دو ٍصورتوں کو بیان کیا گیا ہےپہلی صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا چچا تایا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا کوئی صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ بھی نہ ہو اور چچا تائے نہ ہوں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ (
أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَوْ) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی (یا) ہوتا ہے (اور ) نہیں ہوتا ہے۔ جو دو قسم کی صورت حال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر (أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) ہوتا تب اس کا معنی ہوتا کہ اس کا باپ نہ اور چچا بھی نہ ہو۔ یہاں دو قسم کے صلب نہ ہونے کی بات کی گئی ہے ایک صلب تو یتیم پوتے کے باپ کا نہ ہونا۔ یتیم پوتے کے حق وراثت کجے اثبات کے لیئے کافی ہے۔ جب کہ دوسری صورت یہ ہے کہ میت کا وہ صلبی بیٹا بھی نہ ہو جو کہ پوتے کا چچا تایا ہے۔
تو ان ہر دو صورتوں میں یتیم پوتا میت کے بیٹے کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے ہونے کے اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار اور وارث ہوگا۔
اسی بات کو امام ابن حجر نے یوں بیان کیا ہے:

(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)
پس امام بخاری کے ترجمہ الباب اور امام ابن حجر کی شرح کی توضیحی عبارت یوں ہوتی ہے:
[1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أي لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو۔
[2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ).
یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی یتیم پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔
اس طرح معاملہ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے کہ یتیم پوتا بہر دو صورت میت (اپنے دادا) کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے ایک یہ کہ جب صرف اس کا باپ نہ ہو البتہ اس کے چچا تائے موجود ہوں۔ اور دوسری صورت یہ کہ نہ تو اس کا باپ ہو اور نہ ہی اس کے چچا تائے ہی ہوں تو چونکہ میت کا صلبی بیٹا ان دونوں ہی صورتوں میں موجود نہیں ہے اس لیئے دونوں ہی صورتوں میں یتیم پوتا اپنے واسطہ یعنی اپنے باپ کی عدم موجود گی کے سبب اپنے دادا کے ترکہ کا وارث حقدار اور حصہ دار ہے۔ اور یہ دونوں ہی صورتیں یکساں و برابر ہیں یعنی صرف باپ کا نہ ہونا یا پھر باپ و چچا تائے دونوں کا نہ ہونا۔
پہلی صورت میں بھی وہ وارث، حقدار حصہ دار ترکہ ہے اور دوسری صورت میں بھی وہ وارث، حقدار حصہ دار ترکہ ہے۔
چونکہ زیر بحث مسئلہ دونوں صورتوں سے تعلق رکھتا ہے اس لیئے امام ابن حجر نے () یہ کہا کہ میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا جو پوتے کا باپ ہے نہ ہو یا پھر وہ صلبی بیٹا جو پوتے کا چچا ہے نہ ہو۔
اور بنیادی مسئلہ یہی تو ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔
امام بخاری نے یہ باب باندھ کر اور امام ابن حجر نے اس کہ یہ توضیح و تشریح کر کے اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیا ہے۔ پس اولو الفہم و الابصار اشخاص کے لیئے اس کو سمجھنا کوئی دشوار نہیں ہے۔ رہے وہ لوگ جو دوسروں کی عقل و خرد اور فہم کے غلام ہوتے ہیں اور جن کے ذہن و دماغ پر اندھی تقلید کا تاریک پردہ پڑا ہوتا ہے تو انہیں کوئی سیدھی بات بھی الٹی اور ٹیڑھی نظر آتی ہے۔
بنیادی مسئلہ جو ہے وہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔
تو امام بخاری نے یہ باب باندھ کر اس کا جواب دے دیا ہے کہ جب میت کا کوئی بیٹا جو پوتے کا باپ ہے موجود نہ رہے تو پوتا اپنے باپ کی عدم موجودگی میں میت(اپنے دادا) کا وارث اس کے ترکہ کا مستحق اور حقدار و حصہ دار ہے۔
تو جب پوتے کا باپ موجود نہ رہا تو پوتا اپنے باپ کی عدم موجود گی میں اپنے دادا کا بطور قائم مقام اپنے باپ کے وارث۔ حقدار و حصہ دار ترکہ ہے۔ اور چچا تائے کا ہونا کوئی مانع نہیں ہے جیسے یتیم پوتی کے لیئے اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کے دادا کے ترکہ سے اس کی پھوپھی کے ہوتے حصہ پانا کوئی مانع نہ تھا۔

دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار و حصہ دار ہونے کے اثبات کا باب ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس کے چچا تائے موجود ہوں۔جب یتیم پوتے کے چچا تائے بھی نہ ہوں تو اس وقت کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ سب مانتے ہیں کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تو پوتا وارث ہے اور یہ بات آپ بھی مانتے ہیں۔
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں؟۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیئے اور اس سوال کا جواب دینے کے لیئے ہی امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے کہ جب میت کے بیٹوں میں سے کوئی بیٹا فوت ہو گیا ہو اور اس کے بیٹے بیٹیاں یا ان میں سے کوئی ہو تو آخر ان کے بارے میں کیا حکم ہے تو امام بخاری نے یہ باب باندھا کہ جب میت کا کوئی بیٹا فوت ہوگیا ہو اور اس بیٹے کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہو تو وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث ہے۔
چنانچہ ایک باب یتیم پوتے کے تعلق سے ہے اور دوسرا باب یتیم پوتی کے بارے میں ہے۔
اس کے بعد امام ابن حجر آگے شرح کرتے ہیں:

وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ.
اس کا معنی یہ ہوا کہ اولاد کی اولاد بمنزلہ صلبی اولاد کے ہے۔ یعنی صلبی اولاد کے قائم مقام اس کے درجہ میں ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی بیٹے کے قائم مقام بیٹے کے درجہ میں اس کا بیٹا اور بیٹی کے قائم مقام اس کی اولاد میں اس کی بیٹی۔ کوئی شخص کسی کا قائم مقام اسی وقت بنتا ہے جب وہ درجہ میں اس سے نیچے ہو تو جب اس کے اوپر کا وہ شخص نہ ہو جس کا وہ نائب ہے اور وہ اس کے نیچے درجہ کاہے تو جب اصل نہیں رہتا ہے تو اس کی جگہ اس کا نائب آتا ہے تو کہا جاتا ہے (قام مقامہ) یعنی وہ اس کی جگہ کھڑا ہو یعنی وہ اس کا قائم مقام بنا۔ مثال کے طور پر صدر کا ایک نائب صدر ہوتا ہے جو صدر سے نیچے درجہ کا ہوتا ہے تو صدر کے نہ رہنے پر اس کا قائم مقام بنتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا نائب ہوتا ہے جو وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ صدر کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کا نائب، صدر کا قائم مقام بن جائے یا وزیر اعظم کے نہ رہنے پر صدر کا نائب وزیر اعظم کا قائم مقام بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کی حد بندی کی گئی ہے۔ باوجود یکہ ان میں کا ہر ایک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی نائب صدر وزیر اعظم کے نہ رہنے پر وزیر اعظم کی جگہ نہیں لیتا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے نہ رہنے پر نائب صدر وزیر اعظم کی جگہ لیتا ہے۔ بلکہ نائب صدر صدر کا قائم مقام بنتا ہے اور نائب وزیر اعظم وزیر اعظم کا قائم مقام بنتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدیں جس میں اس کو رہنا ہے۔
بعینہ یہی معاملہ بیٹوں کے تعلق سے ہے کہ ایک درجہ بیٹوں کا ہے اور اس سے نیچے کا درجہ ان کے بیٹے بیٹیوں کا ہے تو جب بیٹوں میں سے کوئی بیٹا مرجاتا ہے تو ان کے بیٹے بیٹیاں بطور قائم مقام اس بیٹے کے بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں آجاتے ہیں اور دوسرے بیٹے بیٹیوں کے برابر درجہ کے ہو جاتے ہیں اسی کو زید بن ثابت نے ان الفاظ میں کہا ہے کہ
(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) جس کی وضاحت وتشریح امام ابن حجر نے یوں کی ہے کہ اس میں لفظ (دُونَهُمْ) کی شرح (أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ) سے کی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے میت (یعنی دادا ) اور بیٹوں کی اولاد (یعنی پوتے پوتیاں )کے درمیان کی اولاد (یعنی ان کے باپ) نہ ہوں ۔ چنانچہ زید بن ثابت کے قول مع شرح ابن جحر عبارت یوں ہوئی:
(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ وَلَدٌ)
یعنی بیٹوں کی اولادیں یعنی ان کے بیٹے بیٹیاں بمنزلہ اولاد یعنی بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں ہیں جب ان میں کا کوئی بیٹا نہ ہو ۔ یعنی جو بیٹا فوت ہوا اور اس نے بطور اولاد اپنے بیٹے بیٹیوں میں سے کسی کو چھوڑا تو اس کا وہ بیٹا بیٹے کے درجہ میں ہوگا یعنی اپنے باپ کی جگہ اپنے چچا تائے کے درجہ میں ہوگا۔ اور اگر بیٹی چھوڑا تو اس کی بیٹی بیٹی کے درجہ میں ہوگی یعنی اپنی پھوپھی کے درجہ میں ہوگی۔
مثلا کسی شخص کے تین بیٹے ہوں اور ان میں سے ایک بیٹا فوت ہو گیا ہو اور اس نے ایک بیٹا چھوڑا ہو تو اس کے نہ رہنے پر اس کا بیٹا اس کے درجہ میں آجائے گا اور اپنے باپ کی جگہ لے لیگا اور بطور قائم مقام اپنے باپ کے بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے چچا تائے کے درجہ میں ہو جائے گا اور اپنے چچا تائے کے ساتھ اپنے دادا کے ترکہ سے اپنے باپ کے حصہ کے بقدر حصہ پائے گا۔
یہی بات زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے:

وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ،
یعنی بیٹوں کی اولاد بمنزلہ حقیقی اولاد کے ہیں جب ان کے اوپر کی اولاد نہ ہو۔ یعنی ان کے اور ان کے دادا کی درمیانی اولاد نہ ہویعنی ان کے باپ نہ ہوں۔
چنانچہ اس میں لفظ (
دُونَهُمْ) کی تشریح امام ابن حجر نے (أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ) سے کی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے میت (یعنی دادا ) اور بیٹوں کی اولاد (یعنی پوتے پوتیاں )کے درمیان کی اولاد (یعنی ان کے باپ) نہ ہوں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں: وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے یعنی پوتے پوتیوں کا باپ نہ ہو جو کہ ان کے اور ان کے دادا کے درمیان واسطہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے۔ اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یعنی بیٹا بیٹی نہ ہونا ہوتا تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔ فافہم و تدبر۔
آگے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی کہی ہے:

ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،
یعنی بیٹوں کی اولاد(پوتے پوتیوں ) میں سے مذکر (پوتا) ان میں کے مذکر (بیٹوں ) کی طرح ہونگے۔ اور ان میں کی مونث (پوتیاں) ان میں کی مونث(بیٹیوں) کی طرح ہونگی۔ جیسے بیٹے وارث ہوتے ہیں ویسے ہی پوتے وارث ہونگے اور جیسے بیٹیاں وارث ہوتی ہیں ویسے ہی پوتیاں وارث ہونگی۔ اور جیسے وہ اپنے بیٹے بیٹیوں اور دیگر وارثوں کو محجوب کر دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی اپنے بیٹے بیٹیوں اور دیگر وارثوں کو محجوب کر دینگے۔
اس کے بعد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک تیسری بات کہی ہے وہ یہ ہے:

(وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ).
یعنی بیٹوں کی اولادیں چاہے وہ مذکر ہوں یا مونث اس بیٹے کے ساتھ میت کے ترکہ سے کچھ نہیں پائیں گیں۔
یعنی جو بیٹا موجود ہوگا اس بیٹے کے ہوتے ہوئے اس کی کسی بھی اولاد بیٹے یا بیٹی (پوتی یا پوتی) کو ترکہ و میراث سے راست طور پر کچھ بھی نہیں ملے گااور اس بیٹے کے ساتھ ساتھ وہ ترکہ کے حصہ دار نہیں بن سکتے۔
اس طرح بالواسطہ اولاد میت کے سلسلہ میں معاملہ بالکل صاف ہو گیا ہے کہ جو بیٹا موجود ہو اس کے بیٹے بیٹیاں محجوب ہیں اور جو بیٹا موجود نہ ہو تو اس کے بیٹے بیٹیاں بمنزلہ اولاد ہونے کے دیگر بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں ہوکر میت کے ترکہ کے مستحق، حقدار و حصہ دار ترکہ ہونگے یہ بات زید بن ثابت کے قول، امام بخاری کے ترجمۃ الباب اور حافظ ابن حجر کی توضیح و تشریح بالکل روز روشن کی طرح عیاں و صاف ہو جاتی ہے۔ اب اگر کسی کو اتنی واضح بات بھی نہ سمجھ میں آسکے تو اس کا معاملہ یوں ہے کہ (گر نہ بیند بروز شب پرہ چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ)۔ یعنی اگر چمگادڑ کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے تو اس میں سورج کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کیونکہ چمگادڑ کو دن میں دیکھنے کی صلاحیت ہی اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے تو وہ کیا خاک دیکھے گا؟۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا :

(فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ). [سورة الحج : 46]
یعنی آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھا ہوتا ہے جو سینے میں چھپا رہتا ہے۔
یتیم پوتے کے مسئلہ کو ایک دوسرا رخ اس وقت دے دیا جاتا ہے جب
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) میں (إِذا لم يكن ابن) کا معنی و مفہوم (جو کہ من گھڑت اور خود ساختہ عجمی خانہ ساز معنی ہے ) یہ بتایا جا تا ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو نہ تو پوتے کا باپ ہی ہو اور نہ ہی پوتے کا چچا تایا ہی ہو۔ تو اس میں (کوئی بھی) کا لفظ جو کہ عربی عبارت میں قطعی طور پر نہیں ہے شامل کر کے اور تڑکہ لگا کر جو معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے اس سے سارا مسئلہ ہی الٹ جاتا ہے اور بالکل ہی الٹا معنی بیان کیا جاتا ہے جو نہ تو امام بخاری کا مقصود ہی ہے اور نہ ہی عبارت میں اس کا کوئی وجود ہی ہے کیونکہ عربی زبان تو ایک ایسی زبان ہے کہ جس کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے وہ ایک بحر بیکراں ہے جس کے کنارہ کا اندازہ لگانا بڑی جان جوکھم کا کام ہے۔ ایک ایک معنی و مفہوم کے لیئے بہت سارے الفاظ اس میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ (کوئی بھی) کا معنی لینے کے لیئے عربی زبان بانجھ نہیں تھی کہ اس کے لیئے کوئی لفظ نہ تھا۔ اگر (کوئی بھی) کا معنی لینا ہوتا تو اس کے لیئے عربی زبان میں (أيّ) کا لفظ آتا ہے لیا جا سکتا تھا تو عبارت یوں ہوتی: (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن أيّ ابن) اور امام بخاری یہ لفظ استعمال کر سکتے تھے انہیں کس چیز نے اس لفظ کو استعمال کرنے سے روکا تھا اور کس نے منع کیا تھا کہ وہ یہ عبارت استعمال کریں کیا انہوں نے آپ جیسے احمقوں کے لیئے اس کو چھوڑ دیا تھا ؟
اسی طرح امام ابن حجر کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اس عبارت
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) میں (ابن) کی شرح (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں سے کرتے وہ سیدھے سیدھے یہ کہہ دیتے (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ إِذا لم يكن أَبَاهُ وَ عَمَّهُ) تو اس کا معنی و مفہوم وہ ہوتا جو لوگ بیان کرتے ہیں کہ پوتے کی میراث کا بیان جب نہ تو پوتے کا باپ ہو اور نہ ہی اس کا چچا ہی ہو۔
لیکن ایسا نہ کر کے امام ابن حجر نے اس عبارت
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) میں (ابن) کی شرح (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) سے کی ہے جس کا یہی معنی و مفہوم ہے کہ جب میت کی صلبی اولاد میں سے کوئی بیٹا فوت ہوگیا ہو اور اس کے بیٹے ہوں تو ایسی صورت میں پوتے وارث ہونگے اس صورت میں بھی جب کہ مرنے والے کی صلبی اولاد میں صرف ان پوتوں کے باپ نہ ہوں (البتہ ان کے چچا موجود ہوں ) اور اس صورت میں بھی جبکہ نہ تو ان کے باپ ہوں اور نہ ہی ان کے چچا تائے ہی ہوں۔
اسی طرح حافظ ابن حجر نے زید بن ثابت کے اس قول:

(وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ).
یعنی بیٹوں کی اولاد بمنزلہ حقیقی اولاد کے ہیں جب ان کے اوپر کی اولاد نہ ہو۔ یعنی ان کے اور ان کے دادا کی درمیانی اولاد نہ ہویعنی ان کے باپ نہ ہوں۔
میں مذکور لفظ (
دُونَهُمْ) کی تشریح (أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ) سے کی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے میت (یعنی دادا ) اور بیٹوں کی اولاد (یعنی پوتے پوتیاں )کے درمیان کی اولاد (یعنی ان کے باپ) نہ ہوں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں: وَقَوْلُهُ: (إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ). [فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: باب مِيرَاث ابن الابْن]
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے یعنی پوتے پوتیوں کا باپ نہ ہو جو کہ ان کے اور ان کے دادا کے درمیان واسطہ ہے۔
لہذا صحیح بخاری کا یہ باب، زید بن ثابت کے قول اور امام ابن حجر کی توضیح و تشریح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پوتے صرف اور صرف اپنے باپ کے ہوتے ہی اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں راست طور پر حصہ پانے سے محروم اور محجوب ہونگے اور جب ان کے باپ موجود نہیں ہونگے تو وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے ہونے کے اپنے دادا کے وارث، اور اس کے ترکہ کے حقدار و حصہ دار ہونگے اور یہ اس مسئلہ میں دلیل بین اور حجت قاطع ہے۔
ابن داود نے کہا ہے:

مطلب یہ ہوا کہ پوتے کے ابا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور پوتے کے چچا یا تایا کی موجودگی میں بھی دادا کا صلب موجود ہے، اور میت کا یعنی دادا کا صلب موجود ہے، تو پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط مفقود ہے، لہٰذا پوتے پوتی وارث نہ ہوں گے، خواہ ان میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو!
اور عجیب بات ہے! اس بات کی تصریح ابن حجر عسقلانی نے اسی جگہ کر دی ہے، پھر بھی ابن حجر عسقلانی کے موقف کو زبردستی مخالف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛

الجواب:
در اصل جب کوئی شخص حماقت و جہالت کی آخری حد کو بھی پار کر چکا ہو تو وہی ایسی باتیں کر سکتا ہے ورنہ کوئی معقول شخص اس طرح کی احمقانہ باتیں ہرگز نہیں کر سکتا ہے:
امام ابن حجر نے اس عبارت
(باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) میں (ابن) کی شرح (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) سے کی ہے جس کا یہی معنی و مفہوم ہے کہ جب میت کی صلبی اولاد میں سے کوئی بیٹا فوت ہوگیا ہو اور اس کے بیٹے ہوں تو ایسی صورت میں پوتے وارث ہونگے اس صورت میں بھی جب کہ مرنے والے کی صلبی اولاد میں صرف ان پوتوں کے باپ نہ ہوں (البتہ ان کے چچا موجود ہوں ) اور اس صورت میں بھی جبکہ نہ تو ان کے باپ ہوں اور نہ ہی ان کے چچا تائے ہی ہوں۔
تو امام ابن حجر نے
(ابن) کی شرح (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) سے کی ہے۔ جس میں صلب کے نہ ہونے کی بات کہی ہے ۔ تو امام ابن حجر نے صلب کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے تاکہ کوئی ابن سے یہ نہ سمجھ لے کہ مرنے والے نے کوئی ایسا بیٹا چھوڑا ہو جو اس کا رضاعی بیٹا ہو یا متبنی بیٹا ہو جس کا احتمال لفظ (ابن)میں پایا جاتا ہے اسی لیئے صلب کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے کلام (وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ) [سورة النساء: 23] میں (أَبْنَائِكُمُ) کے بعد (الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ)کالفظ استعمال کیا ہے۔ تو صلبی ابناء میں بیٹے، پوتے، پرپوتے، نواسے، پر نواسے درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہیں۔
تو امام ابن حجر کا
(ابن) کی شرح (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) سے کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ ابن سے مراد کوئی بھی بیٹا نہیں ہے بلکہ وہ بیٹا ہے جو کہ مرنے والے کا صلبی بیٹا ہو اب یہ صلبی بیٹا پوتے کا باپ بھی ہو سکتا ہے اور اس کا چچا تایا بھی ہو سکتا ہےظاہر سی بات ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں پوتوں کے وارث ہونے کی جو شرط ہے وہ پوری ہو رہی ہے پہلی صورت میں بھی جب کہ صرف پوتے کا باپ جو کہ میت کا صلبی بیٹا ہے موجود نہیں اس لیئے ان کے وارث ہونے میں کوئی مانع نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں بھی ان کے وارث ہونے کے لیئے جو شرط ہے پوری ہو رہی ہے کہ (إِذا لم يكن ابن) یعنی جب بیٹا نہ ہو تو بیٹے کا بیٹا وارث ہے تو اسی کی وضاحت کے طور پر امام ابن حجر نے کہا : (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ) کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی اس کا باپ نہ ہو جیسا کہ کہا : (سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ) یعنی خواہ صرف اس کا باپ نہ ہو۔ تو پوتا وارث ہے یا پھر چچا تائے بھی نہ ہوں تو ایسی صورت میں بھی میت کا صلبی بیٹا نہ ہونا پایا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی یتیم پوتا وارث ہے۔اسی کو امام ابن حجر نے بایں الفاظ بیان کیا ہے: (أَوْ عَمَّهُ) یعنی یا تو اس کا چچا تایا بھی نہ ہو۔ تو امام ابن حجر نے اپنی شرح (سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) میں (أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ) کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے خواہ یتیم پوتے کا باپ نہ ہو یا اس کا چچا تایا بھی نہ ہو۔ کیونکہ اس میں حرف (أَوْ) استعمال کیا ہے ۔ جو دو حالتوں کو بیان کرتا ہے ایک وہ حالت جس میں کہ صرف مرنے والے کا وہ صلبی بیٹا نہ ہو جو کہ یتیم پوتے کا باپ ہے تو اس صورت میں بھی یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ کا مستحق اور اس میں حصہ دار ہے۔ اور دوسری حالت یہ ہے کہ نہ تو میت کا وہ صلبی بیٹا ہو جو پوتے کا باپ ہے اور نہ ہی وہ صلبی بیٹا ہو جو پوتے کا چچا تایا ہے تو اس صورت میں بھی یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ کا مستحق اور اس میں حصہ دار ہے۔ کیونکہ دونوں ہی صورتیں ایسی ہیں کہ جس میں یتیم پوتا اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے وارث ہو چکا ہے۔اور دونوں ہی صورتیں ایسی ہیں کہ جس میں یتیم پوتے کا وارث ہونا ثابت ہوتا ہے۔
کوئی بھی بیٹا نہ ہونے کا تڑکا تو آپ جیسے لوگوں نے لگایا ہے ورنہ عبارت میں تو ایسا کوئی بھی لفظ نہیں ہے جس سے کوئی بھی بیٹا نہ ہونے کا مفہوم نکلتا ہے۔ امام بخاری نے تو سیدھا سادھا جملہ استعمال کیا ہے کہ جب میت کے بیٹوں میں سے کوئی بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہے۔اسی کی تشریح حافظ ابن حجر نے کی ہے کہ جب میت کا وہ بیٹا نہ ہو جو یتیم پوتے کا باپ ہے تو بھی یتیم پوتا وارث ہے اور جب میت کا وہ بیٹا بھی نہ ہو جو یتیم پوتے کا چچا تایا ہے تب بھی یتیم پوتا وارث ہے۔

ؐ-------------------------------------------------------------------
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم ابن داودصاحب!
لگتا ہے آپ میری تحریر کو غور سے پڑھتے ہی نہیں اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ ان آیات قرآنی اور احادیث رسول پر بھی کوئی توجہ دیتے ہیں۔
ابن داود نے کہا ہے:

یہ آپ کا وہم ہے کہ ہم آیات قرآنی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر توجہ نہیں دیتے! بات یہ ہے کہ ہم آپ کے فہم اور کشید کردہ مفہموم کو قرآن وحدیث نہیں مانتے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جس کے سبب آپ کو میری ساری تحریر میں صرف گمراہی ہی نظر آرہی ہے اور آپ کیڑے ہی نکالے جا رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا ہے:

جب آپ کی تحریر میں ''کیڑے'' ہیں تو اس کی نشاندہی کرنا تو ضروری ہے!
اب دیکھیں! آپ کا کلام، قرآن و حدیث تو نہیں کہ آپ کےکلام میں ''کیڑے'' ہونے کی نشاندہی کرنا کوئی گناہ و کفر قرار پائے!

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جبکہ ہم نے یتیم پوتے کے حق وراثت کے سلسلہ میں صرف اور صرف قرآن کی آیت اور حدیث ہی پیش کی ہے کسی فقیہ یا عالم کا قول پیش نہیں کیا ہے اس پر آپ کی زبان و قلم سے یہ نکل رہا ہے: (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی:(
ابن داود نے کہا ہے:

جناب! آپ نے اگر کسی فقیہ یا کس عالم کا قول پیش کیا ہوتا، تو ہم اس فقیہ یا عالم کے قول پر تبصرہ کرتے، کہ اس قول میں وہ فقیہ یا عالم مصیب ہے یا مخطی! مگر آپ نے اپنا ہی اقوال پیش کیئے ہیں، لہٰذا ہم نے آپ کے متعلق ہی کہا، کہ یہ آپ کااپنا ''کشید کردہ'' مفہوم ہے، جو کہ باطل ہے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
ابن داود نے کہا ہے:

یہ عربی عبارت تو اللہ کا فرمان ہے، جو کہ قرآن مجید کی سورۃ النساء موجود ہے!
اور یہ جو اردو عبارت ہے، یہ آپ کا ''کشید کردہ'' مفہوم ہے، اور اس آیت کے ترجمہ میں آپ کے ''کشید کردہ مفہوم'' کا ترکہ شامل ہے!
لہٰذا آپ کے ''کشید کردہ مفہوم'' پر نقد کو قرآن پر منطق کرنا بلکل درست نہیں!

الجواب:
یہاں بھی آپ اپنی حماقت و جہالت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے اردو کی جو عبارت پیش کی ہے وہ در اصل مختلف کتب تفاسیر اور مفسرین و محدثین کی توضیحات تشریحات کا خلاصہ ہے نہ کہ میرا بقول آپ کے کشید کردہ مفہوم اگر آپ نے کتب تفاسیر اور شروح حدیث کا مطالعہ کیا ہوتا اور بغور پڑھا ہوتا تو قطعی طور پر یہ بات نہ کہتے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں صرف تین ہی آیتیں ہیں جن سے وارثوں کی حقداری و حصہ داری ثابت ہوتی ہے اوور ان کے معینہ حصے معلوم ہوتے ہیں ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد اور والدین کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اور دوسری آیت میں ازواج (شوہر و بیوی) اور ایک ماں کی اولاد(ماں جائے بھائی بہن) کے احکام بیان فرمائے ہیں اور تیسری آیت میں ایک باپ کی اولاد(سگے و علاتی بھائی بہن ) کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔
ابن داود نے کہا ہے:

یہ موقف منکرین حدیث کا تو ہے، لیکن مسلمانوں کا یہ موقف نہیں، مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام دینی امور وحی ہیں، خواہ وہ قرآن کی وحی ہوں یا قرآن کے علاوہ!
اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جو قرآن کے علاوہ ہے، اسی طرح قرآن کی آیت میں تبین، تخصیص اور تنسیخ کے کا حق رکھتی ہے، جیسے قرآن کی وحی!
لہٰذا یہ کہنا کہ خود اللہ کے رسول، انہیں تین قرآنی آیات سے وراثت کے احکام بین کیئے ہیں، درست نہیں!
اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ محدثین وفقہا نے بھی انہیں تین قرآنی آیات سے وراثت کے احکام بین کیئے ہیں، اور دلائل اخذ کیئے ہیں، یہ بھی درست نہیں! بلکہ محدثین وفقہاء نے قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ نازل ہونے والی وحی، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے وراثت کے دلائل و احکام بین کیئے ہیں!
اب آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ یہ نہ کہنا چاہتے ہوں، لیکن آپ کو اپنے ما فی الضمیر کو بیان کرنا نہ آیا، اور اپنے کلام کے مقتضی کو خود ہی نہ سمجھ سکے!
اور جب آپ کے کلام کا نقص بیان کیا جاتا ہے، کہ آپ کے کلام کا مقتضی قرآن وحدیث کے منافی ہونے کے سبب باطل ہے، تو آپ اسے ''کیڑے نکالنا'' کہتے ہو!
اب کیا کیا جائے! یہ اگر ''کیڑے'' ہیں، تو یہ آپ کے کلام میں ہیں!

الجواب:
یہ بھی آپ کی حماقت و جہالت ایک اور نمونہ ہے جو پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے اردو کی جو عبارت پیش کی ہے وہ در اصل مختلف کتب تفاسیر اور مفسرین و محدثین کی توضیحات تشریحات کا خلاصہ ہے نہ کہ میرا بقول آپ کے کشید کردہ مفہوم اگر آپ نے کتب تفاسیر اور شروح حدیث کا مطالعہ کیا ہوتا اور بغور پڑھا ہوتا تو قطعی طور پر یہ بات نہ کہتے۔
میں نے لکھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو میں آپ پر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں صرف تین ہی آیتیں ہیں جن سے وارثوں کی حقداری و حصہ داری ثابت ہوتی ہے اوور ان کے معینہ حصے معلوم ہوتے ہیں ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد اور والدین کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اور دوسری آیت میں ازواج (شوہر و بیوی) اور ایک ماں کی اولاد(ماں جائے بھائی بہن) کے احکام بیان فرمائے ہیں اور تیسری آیت میں ایک باپ کی اولاد(سگے و علاتی بھائی بہن ) کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔
اس کے جواب میں آپ نے بہت ساری الٹی پلٹی باتیں کہیں اور اپنی جہالت اور حماقت کے بہت سارے نمونے پیش کیئے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہے:
ابن داود نے کہا ہے:

یہ موقف منکرین حدیث کا تو ہے، لیکن مسلمانوں کا یہ موقف نہیں، مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام دینی امور وحی ہیں، خواہ وہ قرآن کی وحی ہوں یا قرآن کے علاوہ!
اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جو قرآن کے علاوہ ہے، اسی طرح قرآن کی آیت میں تبین، تخصیص اور تنسیخ کے کا حق رکھتی ہے، جیسے قرآن کی وحی!
لہٰذا یہ کہنا کہ خود اللہ کے رسول، انہیں تین قرآنی آیات سے وراثت کے احکام بین کیئے ہیں، درست نہیں!

الجواب:
تو درج ذیل عبارت شیخ صالح بن فوزان الفوزان کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب التحقیقات المرضیہ میں ان تین آیات کے تعلق سے لکھی ہے لکھتے ہیں: ( آيات المواريث التي ذكرها الله نصاً في المواريث ثلاث).
فإذا جمعت إلى هذه الآيات الكريمات قوله صلى الله عليه وسلم: (ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر). وجدتها قد استوعبت أحكام المواريث ومهماتها حيث إن هذا الحديث الشريف يؤخذ منه بيان مصرف ما تبقى بعد الفروض من التركة وأنه لأقرب العصبة بالنسب.
اسی طرح امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں یوں لکھا ہے: (وَهَذِهِ الْآيَةُ رُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ، وَعُمْدَةٌ مِنْ عُمَدِ الْأَحْكَامِ، وَأُمٌّ مِنْ أُمَّهَاتِ الْآيَاتِ، فَإِنَّ الْفَرَائِضَ عَظِيمَةُ الْقَدْرِ حَتَّى إِنَّهَا ثُلُثُ الْعِلْمِ، وَرُوِيَ نِصْفُ الْعِلْمِ.).
الجواب:

پس اگر آپ کے پاس ان تین آیات اور ایک حدیث کے علاوہ الگ سے کوئی وحی آئی ہوئی ہو جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے لازمی طور پر محجوب ہی ہوگا تو پیش کیجئے ؟
چونکہ آپ کے ذہن و دماغ میں انکار قرآن و حدیث کا جو کیڑا گھسا ہوا ہے وہ رہ رہ کر باہر آجایا کرتا ہے یہی سبب ہے کہ بار بار آپ کو
منکرین حدیث کی یاد آجاتی ہے اور ہر چیز کو اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر منکرین حدیث سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ آپ کو شاید فرائض و مواریث کے بارے میں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پورے کا پورا علم قرآن میں نازل کر رکھا ہے اور اسی کے مطابق تقسیم ترکہ کا حکم دیا ہے اور اللہ کے نبی نے بھی ترکہ کو قرآن کے مطابق ہی تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے البتہ ترکہ میں سے اگر کچھ بچ رہتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا کہ باقی بچا ہوا مال میت کے سب سے اولیٰ مرد کو دیدو۔ فرائض و مواریث کے احکام باقی احکام شرعیہ سے یکسر مختلف ہیں جس کی اساس،بنیادی مصدر و ماخذ محض قرآن ہی ہے۔ چند فروعی مسائل ہیں جن کے تعلق سے چند حدیثیں کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔ باقی علم فرائض کے نام پر جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب محض قیاس آرائیاں اور اٹکل بازیاں ہی ہیں۔
در اصل آپ کی مشکل یہ ہے کہ آپ نہ تو بات کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں اسی لیئے آپ ہر چیز کو جھٹلانا ہی اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (77) فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (78) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (79) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (80) أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ (81) وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (82) [سورة الواقعة]

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ور نہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے
ابن داود نے کہا ہے:

یہ آپ کی کم علمی ہے، اگر آپ کو نہیں معلوم تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن وحدیث میں نہیں!
اب دیکھیں! آپ نے یہ لکھ تو دیا کہ ''قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے'' بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں کہ قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کاحصہ نہیں، تو پھر آپ بیٹے بیٹی کو حصہ کیوں دیتے ہو؟
اور اگر قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کا حصہ نہیں لکھا ہوا، تو آپ بیٹے اور بیٹی کا حصہ قرار دے کر شریعت ساشی کا کفر کیوں کرتے ہو؟
یہ آپ کے کلام کا مقتضی ہے، لیکن آپ کو اپنے کلام کی ہی سمجھ نہیں!

الجواب:
یہاں بھی آپ نے اپنی جہالت و حماقت اور حد دررجہ سفاہت کا ثبوت دیا ہے جس کا ایک نمونہ یہ بھی ہے جو آپ نے پیش کیا ہے۔ ذرا درج ذیل کی عبارت جو کہ حافظ ابن حجر کی فتح الباری کی ہے پڑھ لیجئے:
(وَلَكِنْ بَيْنَ التَّعْبِيرِ بِالْوَلَدِ وَالِابْنِ فَرْقٌ وَلِذَلِكَ قَالَ تَعَالَى يُوصِيكُم الله فِي أَوْلَادكُم وَلَمْ يَقُلْ فِي أَبْنَائِكُمْ وَلَفْظُ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ بِخِلَافِ الِابْنِ وَأَيْضًا فَلَفْظُ الْوَلَدِ يَلِيقُ بِالْمِيرَاثِ بِخِلَافِ الِابْنِ تَقول بن فُلَانٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَلَا تَقُولِ وَلَدُهُ وَكَذَا كَانَ مَنْ يَتَبَنَّى وَلَدَ غَيْرِهِ قَالَ لَهُ ابْنِي وَتَبَنَّاهُ وَلَا يَقُولُ وَلَدِي وَلَا وَلَدَهُ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ فِي آيَةِ التَّحْرِيمِ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُم إِذْ لَوْ قَالَ وَحَلَائِلُ أَوْلَادِكُمْ لَمْ يَحْتَجْ إِلَى أَنْ يَقُولَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ لِأَنَّ الْوَلَدَ لَا يَكُونُ إِلَّا مِنْ صُلْبٍ أَوْ بَطْنٍ).
آپ کا حال یہ ہے کہ اپنی حماقت و جہالت کو چھپانے کے لیئے دوسروں پر الزام تھوپ دیتے ہیں در اصل آپ کی کم علمی ہے کہ آپ بات کو سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں بس جواب پر جواب دیئے جا تے ہیں جو معقول جواب نہیں بلکہ بے تکے سوالات کی شکل میں ہوتا ہے جیسا کہ یہاں بے تکا سوال کر بیٹھے ۔ تو میں آپ سے سوال کر رہاہوں کہ وہ آیت و حدیث دکھائیے جس میں بیٹے بیٹی کا حصہ مذکور ہے؟
در اصل بیٹے بیٹی کا حق و حصہ اسی ایک آیت سے نکلتا ہے جس کا آپ برابر انکار کیے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میت کی اولاد کا حق و حصہ بیان فرمایا ہے بیٹا بیٹی کا الگ سے کوئی حق و حصہ بیان نہیں فرمایا ہے ۔ تو چونکہ اولاد میں بیٹا بیٹی بھی ہیں اور پوتا پوتی، نواسا نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہیں اس لیئے اسی آیت سے جس کو آپ صرف بیٹے بیٹی کے لیئے مانتے ہیں ساری اولادوں کا حق و حصہ نکلتا ہے جس میں بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی شامل ہیں ۔ تو جب آپ اولاد میں صرف بیٹے بیٹی کو داخل مانا اور باقی کو خارج کردیا تو اس پر یہ کہنا پڑا کہ بیٹے بیٹی کا حق و حصہ کہاں بیان کیا گیا ہے۔ تو اگر لفظ اولاد سے آپ بیٹے بیٹی کا حق و حصہ مانتے ہیں تو پھر اسی لفظ سے پوتے پوتیوں کا حق و حصہ بھی ثابت ہوتا ہےاور اگر پوتے پوتیوں کا حق و حصہ نہیں مانتے ہیں تو پھر بیٹے بیٹی کا حق و حصہ بھی نہیں ہوتا ہے کیونکہ اولاد میں جہاں بیٹے بیٹیاں داخل ہیں وہیں پوتے پوتیاں بھی داخل ہیں ۔

*---------------------------------------------*
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
ابن داود نے کہا ہے:
بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں کہ قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کاحصہ نہیں، تو پھر آپ بیٹے بیٹی کو حصہ کیوں دیتے ہو؟
اور اگر قرآن و حدیث میں بیٹے بیٹی کا حصہ نہیں لکھا ہوا، تو آپ بیٹے اور بیٹی کا حصہ قرار دے کر شریعت ساشی کا کفر کیوں کرتے ہو؟

الجواب:
آپ ہماری نہ مانیں بلکہ دکھائیں کہ قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث ہے جس میں بیٹے اور بیٹی کے لیئے حصہ بیان کیا گیا ہے آپ تا قیامت نہیں دکھا سکتے یہ میرا چیلنج ہے۔ اور جو آیت یا حدیث بیٹے اور بیٹی کے حصہ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے ہم اسی آیت اور حدیث کو یتیم پوتے پوتی کے لیئے بھی پیش کریں گے۔ اور آیت یا حدیث دادا کے حق و حصہ کے ثبوت کے طور پر لے آئیں گے اسی آیت کو یتیم پوتے پوتی کے حق و حصہ ہونے کے ثبوت کے طور پر لے آئیں گے۔ کیونکہ یتیم پوتے پوتیاں دادا دادی کی اولاد و بیٹے بیٹیاں ہیں جس طرح ان کے بیٹے بیٹیاں ان کی اولاد و بیٹے بیٹیاں ہیں۔ اگر قرآن میں بیٹے بیٹیوں کا حصہ ہے اور یقینا ہے کیونکہ وہ اولاد میت ہیں تو یتیم پوتے پوتیوں کا بھی ان کے دادا دادی کے ترکہ میں حق و حصہ ہے کیونکہ وہ بھی ان کی اولاد و بیٹے بیٹیاں ہیں ۔ اگر ان کا نہیں ہے تو اْن کا بھی نہیں ہے۔
شریعت سازی کا کفر تو آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں کہ دادا کے لیئے تو پوتے کے مال میں حصہ ہونا مانتے ہیں اور پوتے کے لیئے نہیں مانتے یہ تو صریحی طور پر کافرانہ و مشرکانہ اور جاہلیت کی تقسیم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے:
[وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (136) وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (137)، وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (138) وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (139) قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (140)] [سورة الأنعام]
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ور نہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے نیز قرآن میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ دادا یا دادی نانی کا حصہ ہے چنانچہ جب ابو بکر اور عمر فاروق کے پاس ایک دادی اور نانی آئیں تو بر جستہ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب قرآن میں دادی نانی کا حصہ نہیں پاتا لیکن جب صحابہ کرام نے انہیں بتایا کہ اللہ کے رسول نے انہیں چھٹا حصہ جو کہ ماں کا حصہ ہوتا ہے دیا ہے تو ان دونوں کو دیا گیا ۔
ابن داود نے کہا:
یہی بات ہم نے آپ کو اوپر بتلائی ہے، کہ مسلمانوں کے لئے تمام شرعی احکام بشمول رواثت کے قرآن و حدیث سے ثابت ہوتے ہیں، نہ کہ محض قرآن سے! اور آپ نے خود یہاں یہ تسلیم کیا کہ قرآن میں تو دادی اور نانی کا کوئی حصہ نہیں، لیکن حدیث ہے!
الجواب:
جناب من ہم نے کب یہ کہا ہے کہ شرعی احکام صرف قرآن سے ثابت ہوتے ہیں حدیث سے ثابت نہیں ہوتے ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ فرائض و مواریث کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے بنیادی احکام خالصتا قرآن سے ہی ثابت ہوتے ہیں سوائے چند فروعی احکام کے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وراثت کے جملہ احکام اپنی کتاب قرآن میں بذات خود بیان کر کے کہا ہے اس پر بعینہ عمل کرو۔ اور ہم نے یہ احکام اس لیئے کھول کھول کر بیان کردیئے تاکہ تم گمراہ ہونے سے بچ سکو۔ جیسا کہ سورہ نساء کی آخری آیت نمبر(۱۷۶) جسے آیت صیف کہا جاتا ہےمیں فرمایا ہے۔ چنانچہ جب عمر فاروق نے آپ سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیئے آیت صیف کافی نہیں ہے۔ نیز آپ کا فرمان ہے کہ ترکہ کے مال کو اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر تقسیم کرو (صحیح مسلم وغیرہ)
تو فرائض و مواریث کے جملہ احکام قرآن سے ہی ثابت ہوتے ہیں اور اس کا پورا سسٹم قرآن ہی میں بیان ہوا ہے۔ اور حدیث رسول میں صرف یہ بیان ہوا ہے کہ اہل فرائض سے اگر کچھ بچ جاتا ہے تو وہ باقی بچا ہوا ترکہ کا مال سب سے اولیٰ مرد مذکر کا ہوگا۔ اور بس۔
قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسانہیں لکھا ہوا ہے کہ بیٹے بیٹی کا حصہ ہوتا ہے نیز قرآن میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ دادا یا دادی نانی کا حصہ ہے چنانچہ جب ابو بکر اور عمر فاروق کے پاس ایک دادی اور نانی آئیں تو بر جستہ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب قرآن میں دادی نانی کا حصہ نہیں پاتا لیکن جب صحابہ کرام نے انہیں بتایا کہ اللہ کے رسول نے انہیں چھٹا حصہ جو کہ ماں کا حصہ ہوتا ہے دیا ہے تو ان دونوں کو دیا گیا ۔ اسی طرح جب یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے جب ایک صحابی محروم کیئے جانے کا فتویٰ دیا تو صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود نے اس پر برجستہ یہ کہا کہ اگر میں بھی ایسا کروں تو میں بھی گمراہ ہو جاؤں کیونکہ اللہ کے نبی نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو بھی حصہ دیا ہے۔ تو اگر قرآن میں بیٹے بیٹی اور پوتے پوتی کے لیئے الگ سے کوئی حصہ ہوتا تو جب ایک صحابی نے صرف بیٹی کو حصہ دیا اور یتیم پوتی کو نہ دیا تو دوسرے صحابی اس پر نکیر نہ کرتے اور پوتی کو ساقط نہ کرتے۔ اسی طرح دادا دادی، نانی کا کوئی حصہ قرآن میں مذکور ہوتا تو ابو بکر اور عمر فاروق ہرگز یہ نہ کہتے کہ میں قرآن میں دادا دای یا نانی کا کوئی حصہ نہیں پاتا۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مواریث کے بنیادی احکام کا اصل ماخذ و مرجع اور مصدر تو قرآن ہی ہے البتہ چند ایسے فروعی مسائل ہیں جس میں چند مخصوص اور محدود احادیث پورے ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں۔ ایسا کہنے سے نہ تو انکار حدیث ہوتا ہے اور نہ ہی گمراہی لازم آتی ہے۔ اور نہ ہی اجماع کی مخالفت لازم آتی ہے اگر ایسا ہوتا تو قرآن میں مونث اولاد میں صرف ایک اور دو سے زیادہ کا حکم بیان ہوا ہے چنانچہ عبد اللہ بن عباس مونث اولاد میں دو کے لیئے دو ثلث حصہ ہونے کا انکار نہ کرتے کیونکہ قرآن میں(فوق اثنتین) کا لفظ آیا ہوا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے قرآن میں(فوق اثنتین) کا لفظ استعمال کیا ہے لہذا دو ثلث حصہ دو سے زیادہ مونث اولاد کے لیئے ہے دو کے لیئے نہیں ہے تو کیا بقول آپ کے وہ بھی گمراہ، کج فہم، منکر حدیث اہل قرآن وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ہوگئے۔ اللہ کے بندے کسی پر حکم لگانے کے سلسلہ میں جلدی بازی سے کام نہ لو ورنہ مجھے بھی حکم لگانا آتا ہے۔ آپ تو ایک نہیں بلکہ متعدد آیات و احادیث کا مسلسل انکار کیئے جا رے ہو تو آپ کو کس زمرہ میں شامل کیا جائے۔ آپ صرف بیٹے بیٹی کو اولاد مانتے ہو جب کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ بے شمار احادیث صحیحہ ہیں کہ جس میں بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی اور ان سے نیچے کے طبقہ کے ان تمام مرد و عورت کو جن کا رشتے توالد تناسل کی بنیاد پر ہے اولاد اور جن سے یہ رشتہ ہے والدین ہونا بتایا گیا ہے جیسا کہ خود کلام الٰہی قرآن میں ہے:
(وَوالِدٍ وَما وَلَدَ)، يَعْنِي آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَذُرِّيَّتَهُ. [تفسير البغوي]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدم کو والد اور ان کی پوری ذریت یعنی تمام انسانوں مرد عورت جو کہ اس سرزمین پر موجود ہیں اور جو گذر گئے ہیں اور جو آنے والے ہیں خواہ وہ کافر م مشرک ہوں یا مومن یکساں طور پر اور لاد قرار دیا ہے اب آپ اللہ کی بات کو ہی نہیں مان رہے ہیں تو کیا خاک ہمارے کہے ہوئے کو مانیں گے۔ آپ تو پورے قرآن اور کتب تفاسیر و پورے ذخیرہ احادیث سب کو جھٹلا رہے ہیں اور کھلم کھلا انکار کر رہے محض اس لیئے جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں کیو نکہ اس کو مان لینے سے یتیم پوتے کا اولاد ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ جب کہ آپ ایسا نہیں چاہتے ہیں۔
اسی طرح صرف ماں باپ کو والدین مانتے ہیں اور دادا کو والد وماننے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ اگر دادا کو والد مان لیں گے تو اس سے یقینی طور پر اس کے یتیم پوتے کا اس کی اولاد ہونا لازم آئے گا جو آپ کی خواہش نفس کے خلاف ہے۔ تو اس طرح تو آپ صرف منکر حدیث ہی نہیں بلکہ سب سے بڑے منکر قرآن و حدیث ہیں۔
میں آپ کو یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف ماں باپ کا ہی حق و حصہ بیان کیا ہے نہ تو دادا کا بیان کیا ہے اور نہ ہی دادی و نانی کا ہی بیان کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں صاف لفظوں میں مذکور ہے۔
(وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ... وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ .. فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ... آبَاؤُكُمْ) [سورة النساء: 11]
تو اگر آپ کی مانی جائے تو صرف ماں باپ کا ہی حصہ لگے دادا دادی و نانی کا نہ لگے کیونکہ بقول آپ کے والدین تو صرف ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ اور ابو بکر و عمر کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ دادا دادی اور نانی کا قرآن میں کوئی حصہ ہم نہیں پاتے۔ تو آخر وہ کون سے بنیاد تھی جس کی بنا پر دادا دادی و نانی کو اس کے پوتے نواسے کے ترکہ میں حصہ دار و وارث مانا جاتا ہے؟۔
تو اس کا جواب ہم ہی دے دیتے ہیں کہ وہ بنیا د ہے ان کا والدین میں سے ہونا۔ اگر وہ والدین میں سے نہ ہوں تو پھر ان کا ان کے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ تو اگر آپ کے نزدیک اگر وہ والدین میں سے نہیں ہیں تو پھر آج ہی سے یہ فتویٰ صادر کر دیجئے کہ دادا دادی و نانی کا ان کے پوتے پوتی نواسے نواسی میں کوئی حصہ نہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ یہ اعلان بھی کر دیجیئے کہ دادا کا نکاح اس کی پوتی اور نانا کا نکاح اس کی نواسی سے جائز ہے اسی طرح یہ بھی فتویٰ جاری کردیجئے کہ دادی کا نکاح اس کے پوتے اور نانی کا نکاح اس کے نواسے سے جائز ہے؟ کیونکہ آپ کے نزدیک پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی اولاد نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کے والدین ہیں۔
در اصل جس شخص پر ضلالت و گمراہی کا تاریک پردہ پڑا ہوتا ہے وہی لوگ ہی حجت و بکواس اور لا یعنی بحث کرتے ہیں اور اس کے عواقب پر نگاہ نہیں رکھتے ہیں اور پھر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ حق اور ہدایت پر ہیں جیسا کہ آپ اس زعم باطل کا شکار ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم و حواء کا ذکر بطور اولاد و والدین ذکر کر کے فرمایا کہ لوگ شیاطین (الانس و الجن) کو اولیاء مان کر ان کے کہے بتائے پر چلتے اور عمل کرتے ہیں (بزرگوں کی تقلید کرتے ہیں) اور خود کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں جبکہ وہ ضلالت و گمراہی پر ہوتے ہیں چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

(يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (27) وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (28) قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (29) فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (30) [سورة الأعراف]
ابن داود نے کہا:
جبکہ اس سے قبل آپ نے کہا تھا کہ:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یہی وہ تینوں آیتیں ہیں جن سے خود اللہ کے رسول، آپ کے اصحاب ، ان اتباع اور اتباع اتباع نیز محدثین و فقہاء نے احکام بین کئے ہیں اور دلائل اخذ کئے ہیں۔
تو میرے بھائی! لکھنے سے پہلے ذرا سوچ بچار کر لی جائے کہ کیا لکھا جا رہا ہے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اسی طرح ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں باپ کے نہ رہنے پر جب دادا کے حق و حصہ کی بات آئی تو جملہ صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہو کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔
ابن داود نے کہا:
اول تو آپ کی یہ بات درست نہیں، اور نہ ہی ابن حجر عسقلانی نے یہ کہا ہے، جو آپ باور کروانا چاہتے ہیں، مگر اس پر تو بعد میں آتے ہیں، کہ ابن حجر عسقلانی نے کیا کہا ہے!
پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں، جو آپ کہہ رہے ہیں!
آپ یہاں کہتے ہیں کہ ''جملہ صحابہ کرام'' کا ''اتفاق'' ہوا اور آگے آپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ''جملہ صحابہ کرام'' سے خارج قرار دیتے ہو!
دیکھیں آپ نے خود آگے کیا فرمایا ہے:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا
تو آپ کی بقول بھی اس امر پر اجماع صحابہ نہ ہوا تھا! کیونکہ آپ کے ہی بقول عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر نے اختلاف کیا، آپ کے رقم کردہ ''خاصکر'' میں دیگر بھی شامل ہوتے ہیں، اس کے باوجود اپنی غلط فہمی میں ہمیں طعن کرتے ہیں کہ:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آب آپ کی خوش فہمی کے مطابق نعوذ باللہ عمر فاروق اور زید بن ثابت بھی اجماع امت کو توڑنے والے، غلط فہمی کا شکار، گمراہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرے؟۔
ابن داود نے کہا:
تو میرے بھائی! آپ کو چاہیئے کہ آپ کم از کم اپنے ہی کلام کو سمجھنے کی لیاقت پیدا کریں!
آپ نے خود یہ بتلایا ہے کہ کوئی اجماع نہیں ہوا، کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر نے اس معاملہ میں مخالفت کی تھی!

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آب آپ کی خوش فہمی کے مطابق نعوذ باللہ عمر فاروق اور زید بن ثابت بھی اجماع امت کو توڑنے والے، غلط فہمی کا شکار، گمراہ وغیرہ اور نہ جانے کیا کیا ٹھہرے؟۔
ابن داود نے کہا:
یہ آپ کا باطل گمان ہے، نہ تو آپ کی نقل کردہ تحریر میں اجماع کاثبوت ہے، اور نہ ہی حقیقت میں ایسا کوئی اجماع ثابت ہوتا ہے، یہ خواہ مخواہ میں بے بنیاد بہتان طرازی ہے!
الجواب:
در حقیقت آپ اپنی حالت و کیفیت کو میری جانب منسوب کرتے ہیں۔ آپ خود کلام کو درست طور پر سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ میں نے تو یہ کہا ہے کہ دادا کے والد و باپ ہونے پر اجماع یوں ہوا تھا کہ دادا مثل باپ کے والد و باپ ہے تو جس طرح باپ کے ہوتے میت کے بھائی بہنوں کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے اسی طرح دادا کے ہوتے ہوئے بھی بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس بات پر عہد ابو بکر میں اجماع ہو گیا تھا جس پر بھائی بہنوں کے تعلق سے بعض صحابہ کو کچھ اعتراض تھا لیکن سب خاموش رہے جن میں ایک عمر فاروق بھی تھے میں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ اجماع نہیں ہوا تھا۔ اجماع تو اسی وقت سے چلا رہا ہے اور اب تک ہے البتہ بھائی بہنوں کے تعلق سے عہد عمر فاروق میں اس میں تھوڑی سی تبدیلی یہ کی گئی اور وہ بھی زید بن ثابت کے مشورہ سے وہ یہ کہ دادا کے ساتھ سگے و علاتی بھائی بہنوں کا بھی حصہ لگے گا۔ اسی کو مقاسمۃ الجد کا نام دیا جاتا ہے۔
تو آپ خود غلط فہمی کا شکار ہیں اور دوسروں کو بھی مغالطہ دے رہے ہیں فالتو قسم کی باتیں کیئے جا رہے ہیں۔ میرے بھائی ادھر ادھر کی ہانکنے کے بجائے نفس موضوع سے بحث کریں۔ اور بات کو الجھائیں نہیں۔
نیز میرا کہنا یہ ہے کہ جب عہد ابو بکر کے اجماع کو توڑ کر عمر فاروق اور زید بن ثابت گمراہ اور اجماع کے توڑنے والے اور عبد اللہ بن عباس دو بیٹیوں کے لیئے دو تہائی حصہ نہ ہونے کا انکار کر کے گمراہ نہ قرار پائے تو اگر کوئی یتیم پوتے کی نام نہاد محجوبیت کا انکار کر تا ہے جس کی نہ تو کوئی دلیل قرآن میں ہی ہے اور نہ ہی پورے ذخیرہ احادیث میں ہی ہے تو وہ آخر گمراہ کیوں کر قرار پا گیا۔

وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ - رضي الله عنه - الْجَدُّ أَبٌ. وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ {يَا بَنِي آدَمَ} [الأعراف: 26] {وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ} [يوسف: 38]. وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ - رضي الله عنه - فِي زَمَانِهِ وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - مُتَوَافِرُونَ.
اس میں ابو بکر، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے یہ قول نقل کیا گیا ہے جس کہا یہ گیا ہے کہ دادا باپ ہے جس کی دلیل کے طور پر دو آیت قرآنی پیش کی گئی ہیں۔ ایک میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بنی آدم یعنی اولاد آدم کہا ہے تو اسی کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے بزبان یوسف یہ فرمایا ہے جس میں یوسف نے یہ کہا ہے کہ میرے باپ یعقوب ، اسحاق، اور ابراہیم۔ تو یوسف کے والد و باپ یعقوب اور یعقوب کے والد و باپ اسحاق جو کہ یوسف کے دادا ہیں اور اسحاق کے والد و باپ ابراہیم جو کہ یوسف کے پر دادا ہیں اس طریقے سے یوسف کے باپ یعقوب بھی یوسف کے والد، اور ان کے باپ اسحاق بھی یوسف کے والد جو یوسف کے دادا ہیں۔ اور اسحاق کے والد وباپ بھی والد باپ ہیں جو کہ یوسف کے پردادا ہیں۔ تو جو جس کا والد ہے اس کی وہ اولاد ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔
ابن داود نے کہا:
یہ بات آپ کے ذہن کی خانہ ساز ہے کہ آپ دادا کو باپ کی جگہ ''والد'' قرار دے رہے ہیں!
''جد'' کسی شخص کے ''والد'' کے ''والد'' کو کہتے ہیں! کسی شخص کے ''والد'' کو ''جد'' نہیں کہتے!
آپ کو ''ولد''، ''والد''، ''اب''، ''ابن'' اور ''ذریت'' کے الفاظ کو سمجھنے میں کافی مشکل پیش آرہی ہے اور اسے مستقل خلط کئے جا رہے ہو!

الجواب:
اب آپ کی اس سے بڑی جہالت اور حماقت کی ہوگی کہ دادا کے والد و باپ ہونے اور اس کی بنیاد پر اس کا حق و حصہ اس کے یتیم پوتے کے ترکہ ہونے کے مسلمہ امر اور اجماعی مسئلہ کو میری خانہ ساز بتا رہے ہیں۔ میں نے جو بات کہی ہے کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سارا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ باپ کے نہ رہنے پر دادا ہی اپنے پوتے کے باپ کی جگہ والد ہے اس لیئے وہی اس کے ترکہ کا مستحق بنے گا۔اور چچا تائے نہیں بنیں گے کیونکہ وہ والد نہیں ہیں البتہ باپ تو وہ بھی ہیں اور دادا بھی ہے۔ آپ نے تو جہالت و حماقت کی ساری حدیں ہی پار کر رکھی ہیں۔ کوئی معقول شخص اس طرح کی احمقانہ باتیں ہرگز نہیں کر سکتا ہے۔
آپ اب تک نہ تو والد و اولاد کا مفہوم ہی سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی والد و باپ اور اولاد و ابن کا فرق کی سمجھ سکے ہیں اسی لیئے اس قسم کی بے جا بے تکی باتیں اور بکواس محض کیئے جارہے ہیں۔ ارے اللہ کے بندے کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ اللہ کے سامنے بروز قیامت کھڑا ہونا اور جواب دینا ہے۔
میں نے جتنی بھی باتیں کی ہیں اپنے گھر سے نہیں بنائی ہیں کہ آپ اس کو خانہ ساز بتا رہے ہیں۔ بلکہ وہ کتب تفاسیر، احادیث اور شروح احادیث میں بکھری پڑی ہیں جن کے صحیح طور پر مطالعہ کرنے اور اس پر غور فکر کرنے کی ضروت ہے۔ جس کی توفیق اللہ تعالیٰ آپ کو نہیں دے رہا ہے جس کے چلتے آپ محض بکواس ہی کر رہے ہیں اور مغالطہ دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک طرف دادا اپنے یتیم پوتے کا باپ کی جگہ والد و باپ ہے اور اسی کے بالمقابل یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی ولاد و بیٹا ہے۔ تو جس بنیاد پر دادا اپنے یتیم پوتے کا وارث ہے اسی بنیاد پر یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار ہے۔ اس سلسلہ میں درج زیل عبارت جو کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری کی ہے پیش خدمت ہے:

وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ - رضي الله عنه - الْجَدُّ أَبٌ. وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ {يَا بَنِي آدَمَ} [الأعراف: 26] {وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ} [يوسف: 38]. وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ - رضي الله عنه - فِي زَمَانِهِ وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - مُتَوَافِرُونَ.
اس میں ابو بکر، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے یہ قول نقل کیا گیا ہے جس میں کہا یہ گیا ہے کہ دادا باپ ہے جس کی دلیل کے طور پر دو آیت قرآنی پیش کی گئی ہیں۔ ایک میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بنی آدم یعنی اولاد آدم کہا ہے تو اسی کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے بزبان یوسف یہ فرمایا ہے جس میں یوسف نے یہ کہا ہے کہ میرے باپ یعقوب ، اسحاق، اور ابراہیم۔ تو یوسف کے والد و باپ یعقوب اور یعقوب کے والد و باپ اسحاق جو کہ یوسف کے دادا ہیں اور اسحاق کے والد و باپ ابراہیم جو کہ یوسف کے پر دادا ہیں اس طریقے سے یوسف کے باپ یعقوب بھی یوسف کے والد، اور ان کے باپ اسحاق بھی یوسف کے والد جو یوسف کے دادا ہیں۔ اور اسحاق کے والد وباپ بھی والد باپ ہیں جو کہ یوسف کے پردادا ہیں۔ تو جو جس کا والد ہے اس کی وہ اولاد ہے۔
یہ تو اللہ کا کلام ہے اور آپ ہیں کہ اسے میری خانہ ساز بات قرار دے رہے ہیں۔

آپ صرف بیٹے بیٹی کو اولاد مانتے ہو جب کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ بے شمار احادیث صحیحہ ہیں کہ جس میں بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی اور ان سے نیچے کے طبقہ کے ان تمام مرد و عورت کو جن کا رشتے توالد تناسل کی بنیاد پر ہے اولاد اور جن سے یہ رشتہ ہے والدین ہونا بتایا گیا ہے جیسا کہ خود کلام الٰہی قرآن میں ہے:

(وَوالِدٍ وَما وَلَدَ)، يَعْنِي آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَذُرِّيَّتَهُ. [تفسير البغوي]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدم کو والد اور ان کی پوری ذریت یعنی تمام انسانوں مرد عورت جو کہ اس سرزمین پر موجود ہیں اور جو گذر گئے ہیں اور جو آنے والے ہیں خواہ وہ کافر م مشرک ہوں یا مومن یکساں طور پر اور لاد قرار دیا ہے اب آپ اللہ کی بات کو ہی نہیں مان رہے ہیں تو کیا خاک ہمارے کہے ہوئے کو مانیں گے۔ آپ تو پورے قرآن اور کتب تفاسیر و پورے ذخیرہ احادیث سب کو جھٹلا رہے ہیں اور کھلم کھلا انکار کر رہے محض اس لیئے جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں کیو نکہ اس کو مان لینے سے یتیم پوتے کا اولاد ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ جب کہ آپ ایسا نہیں چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ایک طرف والد تو دوسری طرف وہ تمام لوگ جو اس کی نسل و ذریت ہیں وہ سب اس کی اولادیں ہیں۔
تو یوسف، اپنے باپ یعقوب کی بھی اولاد و بیٹا اور اپنے دادا اسحاق کی بھی اولاد و بیٹا اور اپنے پردادا ابراہیم کی بھی اولاد و بیٹا ہے۔
اسی طرح اس کے برعکس ابراہیم اپنے بیٹے اسحاق کا بھی والد و باپ اور اپنے پوتے یعقوب کا بھی والد و باپ اور اپنے پڑپوتے یوسف کا بھی والد باپ ہے۔
یہ سب تو کلام الٰہی ہے جسے آپ میری خانہ ساز باتیں اور تڑکہ قرار دے رہے ہیں اللہ آپ سے نپٹے۔
آپ یتیم پوتے کے حق وراثت کی اس درجہ مخالفت پر اتر آئے ہیں کہ بالکل ہی اندھے بہرے بنے بیٹھے ہیں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی وحی نازل کردی ہو۔ تو میرے بھائی اس درجہ مخالفت درست نہیں کہ آپ باکل ہی اندھے بہرے بن جائیں۔ اور اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھیں جیسا کہ فرمایا ہے:

(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) [سورة المائدة: 8]
عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہا کرتے تھے:
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَرِثُنِي ابْنُ ابْنِي دُونَ إِخْوَتِي، وَلاَ أَرِثُ أَنَا ابْنَ ابْنِي. وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدٍ أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ.
یعنی جب میرا پوتا میرے بھائیوں کو چھوڑ کر میرا وارث بنتا ہے اور میں اپنے پوتے کا اس کے بھائیوں کو چھوڑ کر وارث کیوں نہ بنوں۔
در اصل وہ دادا کے ساتھ بھائیوں کے وارث ہونے کی مخالفت کر رہے تھے جس کے چلتے وہ ایسا کہہ رہے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دادا کے میت کا باپ اور والد ہونے کے قیاس کی بنیاد یتیم پوتا ہی ہے۔ جس پر قیاس کتے ہوئے دادا کو والد باپ مانا گیا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کے قول سے ظاہر ہے۔
جب آپ کو والد و اولاد کا معنی و مفہوم اور اس کا مصداق نیز اب و ابن(باپ اور بیٹے) کا فرق اور تمیز ہی معلوم نہیں ہے تو کج بحثی کیوں کئے جا رہے ہیں۔ دادا کا والد و باپ ہونا اور پوتوں کا اولاد و بیٹا ہونا تو اجماعی مسئلہ اور مسلمہ امر ہے جیسا کہ درج ذیل عبارت میں مذکور ہے:

(وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين إذا استووا في العدد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، وكذا إذا اختلفوا في التعدد لا يضرهم؛ لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم {لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} إلا ما أجمعوا عليه من أن الأعلى من بني البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى). [التوضيح شرح الجامع الصحيح]
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ. أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى أَبِي مُوسَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ مِثْلُهُ وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَيْضًا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا وَفِي لَفْظٍ لَهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا إِذَا لَمْ يَكُنْ دونه أَب وَبِسَنَد صَحِيح عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا. وَقَرَأَ بن عَبَّاسٍ يَا بَنِي آدَمَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيم وَإِسْحَاق وَيَعْقُوب أما احتجاج بن عَبَّاس بقوله تَعَالَى يَا بني آدم.
عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ الْجَدُّ أَبٌ وَقَرَأَ وَاتَّبَعَتْ مِلَّةَ آبَائِي الْآيَةَ وَاحْتَجَّ بَعْضُ مَنْ قَالَ بِذَلِكَ بِقَوْلِهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنا بن عبد الْمطلب وانما هُوَ بن ابْنِهِ.
خود اللہ کے رسول اپنے کو اپنے دادا کی اولاد و بیٹا کہتے تھے جب کہ وہ آپ کے یتیم پوتے تھے۔ اور اپنے نواسوں حسن حسین کو اولاد و بیٹا کہتے تھے جب کہ وہ آپ کے نواسے تھے۔
تو آپ ان حقائق کی اندیکھی کر کے اور جھٹلا کہ اپنی جہالت و حماقت اور سفاہت کا مزید ثبوت پیش نہ کریں۔ دیکھیئے آپ کے بزرگوں نے جس کتاب کے حوالے سے یتیم پوتوں کو مجازی بیٹا یا مجازی اولاد ٹھہرایا ہے اسی میں یہ لکھا ہوا ہے۔ اور اسی میں آپ کی ساری بکواسیات کا جواب بھی ہے:

(فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ). ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ). [احكام القرآن للجصاص]،
اب ہم آپ کی حماقت و جہالت کا کس قدر ثبوت پیش کریں۔ در حقیقت جو شخص اندھی تقلید کے موذی مرض کا شکار ہوتا ہے دل کا تو اندھا ہوتا ہی ہے عقل وخرد اور آنکھ کا بھی اندھا بن جاتا ہے جسے صرف اپنے بزرگوں کی ہی بات دکھائی، سنائی دیتی ہے اور سمجھ میں آتی ہے اسی لیئے تقلید خواہ کسی کی بھی ہو کسی امام و فقیہ کی ہو یا امرتسری کی ہو انسان کو فقیہ کی جگہ فکیہ و سفیہ بنا دیتی ہے ۔ اور اسی لیئے تقلید کرنا شرک اور حرام ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کیونکہ دادا باپ کی جگہ حقیقی باپ اور والد ہے اور یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری : کتاب الفرائض میں ہے: (قَوْلُهُ بَابٌ مِيرَاثُ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ): الْمُرَادُ بِالْجَدِّ هُنَا مَنْ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْمُرَادُ بِالْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَمِنَ الْأَبِ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ فِي الْحُرْمَةِ وَوُجُوهِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفُ عَنِ الْمَذْكُورِينَ الْأَوَّلُ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ.
ابن داود نے کہا:

یہاں تو ''اب'' کے متعلق کہا گیا ہے، آپ نے اس میں ''والد'' کے لفظ کو بھی شامل کردیا!
یہاں کہیں بھی جد کو اس کا
''حقیقی والد'' نہیں کہا گیا!
الجواب:
یہاں بھی آپ کی جہالت و ضلالت کار فرما ہے۔ اسی لیئے ایسا بے تکا سوال کر بیٹھے۔
الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ.
اس عبارت کہا یہ گیا ہے کہ جد یعنی دادا (یہاں جد سے مراد دا ہے کیونکہ نانا کو بھی جد ہی کہتے ہیں) بھی حقیقی باپ یعنی والد ہے۔ اور میں بار بار یہ بات کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا کہ والد و اولاد حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں۔ البتہ باپ اور دادا کے حقیق باپ و والد ہونے میں درجات کا فرق ہے درجہ اول اور طبقہ اولیٰ میں حقیقی باپ باپ اور والد ہوتا ہے اس کے بعد کے درجہ و طبقہ میں دادا آتا ہے جو حقیقی باپ اور والد ہوتا ہے پھر اس کے بعد کے درجہ و طبقہ میں پردادا آتا ہے جو حقیقی باپ اور والد ہوتا ہے۔ و قس علی ذلک۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دادا بمنزلہ باپ کے والد و باپ ہوتا ہے۔یعنی باپ کے نہ رہنے پر دادا باپ کی جگہ اس کے درجہ میں آجا تا ہے اور بطور والد و باپ کے ہوجاتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا لیکن پھر انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور جب ان کا خود کا ان کا اپنا دور آیا تو انہوں نے بمشورہ زید بن ثابت سگے و علاتی بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا اور اس کی دلیل قرآن کی صرف ایک آیت ایک ہی (ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی کتاب قرآن مجید میں صاحب فرض وارث اور حقدار و حصہ دار بنایا ہے لہذا انہیں بھی حصہ دیا جانا چاہئے چنانچہ اس کے بعد سے دیا جانے لگا۔
ابن داود نے کہا:
ابن حجر عسقلانی نے کیا بیان کیا ہے، یہ تو آگے بیان ہوگا، پہلے آپ کے بیان کا تضاد بیان کرتے ہیں!
آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے ہی موقف کی سمجھ نہیں! اور نہ ہی کچھ یاد رہتا ہے کہ آپ کیا کچھ لکھ آئے ہو!
دیکھیں یہاں آپ نے فرمایا کہ:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے
ابن داود نے کہا ہے:

اس میں قرآن کی آیت میں بیان کردہ شرط کہ میت کی بہن بھائیوں کے وراثت میں حصہ کے لئے ''ان لم يكن له ولد'' کی شرط کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن آگے آپ نے اپنے فہم کا تڑکہ لگایا ہے، وہ نہیں ماتے کہ ''جب میت کی أولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو''
کیونکہ یہاں
''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
اس کی دلیل وہی حدیث ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔ اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے
یاد دہانی کے لئے وہ حدیث بھی پھر سے نقل کر دیتے ہیں:
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ ‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کو قبول کرتے ہیں، کہ پوتی کی موجودگی میں بھی بہن کا حصہ ہے، یعنی پوتی کی موجودگی قرآن میں بیان کردہ شرط ''ان لم يكن له ولد'' کو مفقود نہیں کرتی، یعنی پوتی کی موجودگی سے میت کے ''ولد'' کی موجودگی قرار نہیں پاتی، یعنی پوتی دادا کی ''ولد'' نہیں!
بنابریں پوتا بھی میت کی کا
''ولد'' نہیں!
ہمیں تو یہ تسلیم ہے، مگر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ قبول نہیں! کیونکہ آپ کے نزدیک تو پوتا پوتی، اور ان کی ذریت بھی
''ولد'' میں داخل ہے!
بات در اصل یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے خلاف نہیں، آپ نے
''ولد'' کو یہ جو عالمی مفہوم پہنایاہے، یہ باطل ہے!
الحمد للہ! قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں
''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
الجواب:
آن جناب نے کہا:
یہاں ''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں! الحمد للہ! قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں ''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں! پوتی کی موجودگی سے میت کے ''ولد'' کی موجودگی قرار نہیں پاتی، یعنی پوتی دادا کی ''ولد'' نہیں! بنابریں پوتا بھی میت کی کا ''ولد'' نہیں! آپ نے ''ولد'' کو یہ جو عالمی مفہوم پہنایاہے، یہ باطل ہے!
تو جناب من! آپ کو کیا کہا جائے؟ آخر جاہل کہا جائے یا اندھا کہا جائے یا فضولیات بکنے والا کہا جائے؟۔ کیونکہ آپ ان تمام حقائق کی اندیکھی کررہے اور ان تمام باتوں کو جھٹلا کر اپنی جہالت و حماقت اور سفاہت کا مزید ثبوت پیش کررہے ہیں جو مختلف کتب تفاسیر اور شروح حدیث میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ چلیے آپ کے بزرگوں نے جس کتاب کے حوالے سے یتیم پوتوں کو مجازی بیٹا یا مجازی اولاد ٹھہرایا ہے اسی میں لکھا ہوا دکھاتے ہیں کہ ولد اور اولاد کے مفہوم میں پوتا پوتی داخل ہیں یا نہیں اور جس کو آپ نے میرا عالمی مفہوم پہنانا قرار دے کر باطل ہونے کا فتویٰ جڑ دیا ہے۔ اور اسی میں آپ کی ساری بکواسیات کا جواب بھی ہے:
(فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ). ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ). [احكام القرآن للجصاص]،
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ لفظ ولد یا اولاد (جو کہ ولد کی جمع ہے) کا اطلاق صلبی اولاد یعنی بیٹے بیٹی اور بیٹوں کی اولاد یعنی پوتے پوتی سب پر حقیقتا ہوتا ہے یعنی سبھی حقیقی اولاد ہے تو یہ بھی کوئی بعید بات نہیں ہے۔ ( کیونکہ یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے) جس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ) ہے۔ یعنی تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں ( تو صلبی بیٹوں میں بیٹے پوتے پڑپوتے نواسے ، پر نواسے وغیرہ درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی شامل ہیں) ۔ تو اس آیت سے پوتوں نواسوں، پڑپوتوں پر نواسوں سبھی کا صلبی بیٹا ہونا اسی طرح جانا سمجھا جاتا ہے حس طرح سے بیٹوں کا صلبی ہونا جانا سمجھا جاتا ہے۔
آپ لاکھ مخالفت کریں اور اپنی حماقت و جہالت کا جس قدر چاہیں ثبوت پیش کریں اس سے یتیم پوتے کے اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اولاد ہونے اور دادا کے اپنے یتیم پوتے کے والد و حقیقی باپ ہونے کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے ۔
دادا پھر بھی اپنے یتیم پوتے کا حقیقی باپ اور والد رہے گا اور یتیم پوتا اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اولاد ہی رہے گا اور اسی طریقہ سے رہے گا جیسے اس کا باپ اور چچا تائے ہیں۔

آپ جب اللہ کے نازل کردہ احکام و فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین اور فیصلوں سے ہی متفق نہیں ہیں تو ہماری کیا اوقات ہے۔ لفظ والدین، اولاد، ولد اور یتیم کا معنی و مفہوم اور اس کا اطلاق کن کن پر ہوتا ہے وہ تو اللہ و رسول نے خود ہی بتا دیئے ہیں جسے آپ مانتے ہی نہیں ہیں اور اس کا انکار کر رہے ہیں۔ اور اسے میرا تراشیدہ معنی و مفہوم کہہ رہے ہیں۔ اس سے بڑی حماقت و جہالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ اپنی حماقت اور جہالت کو درج ذیل عبارت کے آئینہ میں دیکھ لیجیئے۔
وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،
فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.

ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]

در حقیقت جو شخص اندھی تقلید کے موذی مرض کا شکار ہوتا ہے دل کا تو اندھا ہوتا ہی ہے عقل وخرد اور آنکھ کا بھی اندھا بن جاتا ہے جسے صرف اپنے بزرگوں کی ہی بات دکھائی، سنائی دیتی ہے اور سمجھ میں آتی ہے اسی لیئے تقلید خواہ کسی کی بھی ہو کسی امام و فقیہ کی ہو یا امرتسری کی ہو انسان کو فقیہ کی جگہ فکیہ و سفیہ بنا دیتی ہے ۔ اور اسی لیئے تقلید کرنا شرک اور حرام ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جو لوگ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کے ہونے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ او یتیم پوتا عصبہ بعید ہے اس لئے وہ وارث، حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا بلکہ محجوب و محروم الارث ہوتا ہے اور چونکہ لوگوں نے یہ ٹھان رکھا ہے کہ بہر صورت، لا محالہ یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کرنا ہی دین و شریعت اور صحیح فکر اور صحیح عقیدہ و مذہب ہے اور اس بات پر سب نے اتفاق کر رکھا ہے اور لازمی طور پر انہیں محروم کرنا یا محروم رکھنا دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت ہے اور اسی کو اجماع امت کا نام دے رکھا ہے جس کو قرآن و حدیث کی کسی بھی دلیل سے توڑا نہیں جا سکتا۔ تو ایسے تمام لوگوں کی صرف ایک ہی رٹ ہے کہ بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید لہذا چچا تائے کے ہوتے قطعی طور پر حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے اس خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت نیز نام نہاد اجماع امت کو صحیح ٹھہرانے کی خاطر قرآن و حدیث میں تحریف و تعطیل اور تاویل بیجا ہے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو انکار سے بھی نہیں چوکتے یہ کام آپ سے پہلے کے لوگوں نے بھی کی ہے اور آپ بھی کر رہے ہیں
ابن داود نے کہا:
یہ تمام تو آپ کی ہفوات اور بہتان طرازی ہے، اس پر آپ کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے، کیونکہ نصیحت قبول کرنے کو تو آپ آمادہ نظر نہیں آتے! بلکہ نصیحت قبول کرنے کے بجائے الٹی دشنام طرازی شروع کر دیتے ہیں! اللہ آپ کو جھوٹ اور بہتان طرازی سے پرہیز کی توفیق دے! آمیں!
الجواب:
جناب من!
یہ مقدس کام تو آپ انجام دے رہے ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ورنہ آپ کی زبان و قلم سے کبھی یہ نہ نکلتا کہ (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔
یہ تو کھلے طور پر اللہ کے اس فرمان اور دیگر فرامین الٰہی نیز اللہ کے احکام و فرامین اور فیصلے کو اور صحابہ تابعین اور محدثین کے اجماعی فتووں کو نظر انداز کر نا ہے۔ اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (آپ نے قرآن کی ایک آیت سے اپنے موقف پر دلیل کشید کرنے کی درج ذیل کوشش کی)۔ کھلے طور پر کلام الٰہی کی توہین اور اس کا مذاق اڑانا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة الأنعام: 115)) یعنی تمہارے رب کا سچا کلام پورا اور مکمل ہو چکا ہے ۔ جو انتہائی جامع و کا مل اور شامل اور عادلانہ و منصفانہ ہے۔
ذرا ان آیات کا ترجمہ پڑھ لیجئے گا اور اس پر غور فرمائیے گا:

(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام]
نیز فرمایا: (وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا) [سورة النساء: 87]
اور اللہ سے بھی بڑھ کر کون ایسا ہے جو سچا ، عادل اور انصافور ہو اور اس کی حدیث، کلام اور بات سے بھی کسی کی بات سچی اور اچھی ہو سکتی ہے۔ اللہ کی آیات کا اس طرح مذاق اڑانا اور اس کا استہزاء و توہین کرنا

ابن داود نے کہا:
آپ کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیئے!کہ آپ نے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد، جہالت پر مبنی، عقل و خرد سے عاری کلام کو قرآن و حدیث سمجھ لیا ہے، کہ جب آپ کے اس جاہلانہ و بیوقوفانہ کلام پر نقد کیا جاتا ہے، تو آپ اس نقد کو قرآن و حدیث پر نقد کہتے ہو!
اور لوگوں پر تہمت باندھتے ہو کہ انہوں نے قرآن وحدیث کا انکار کیا، مذاق اڑایا اور استہزا و توہین کی!
یہ تو اسی مثل ہے کہ جیسے مرزا قادیانی کی ہفوات کا انکار اور رد کرنے والوں کو مرزا قادیانی قرآن کا منکر قرار دیتا تھا!

الجواب:
جناب من!
لگتا ہے اب آپ دھیرے دھیرے اپنا دماغی توازن اور اپنا آپا کھوتے جا رہے ہیں در اصل ضرورت آپ کو ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ کا علاج کروائیں۔ در حقیقت آپ ہیں کہ کسی کی خود ساختہ، بے بنیاد انتہائی نامعقول، جہالت و ضلالت پر مبنی اور عقل و خرد سے عاری کہی ہوئی بات کو وحی الٰہی سمجھ رکھا ہے اور اس کو قرآن و حدیث سے بھی بڑھ تھامے بیٹھے ہیں۔ اور جب اس جاہلانہ و احمقانہ اور سفیہانہ بات کہ پردہ چاکی کی جارہی ہے تو اپنا آپا کھو کر آپ سے تم پر اتر آگئے ہیں۔ اور اللہ و رسول کی باتوں یعنی قرآن و حدیث کی باتوں کے پیش کیئے جانے پر بوکھلا سے گئے ہیں اور اب مرزا غلام احمد قادیانی سے ملانے لگے ہیں۔ واضح رہے کہ جس ثناء اللہ امرتسری کے فتوے کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں انہیں امرتسری کے عقائد کے چلتے ان پر باقاعدہ مملکت سعودی عرب کی مجلس قضائے اعلیٰ یعنی شرعی سپریم کورٹ سے کفر کا فتویٰ صادر ہوا۔ اور ان کے چالیس سے زیادہ عقائد کی باقاعدہ ان کی کتابوں کیے حوالے سے نشاندہی کی گئی جو درست ثابت ہوئے جس پر یہ فیصلہ صادر ہوا۔ اور آج بھی وہ ساری باتیں ان کی کتابوں میں مذکور موجود ہیں۔ جن میں سر فہرست تفسیر ثنائی ہے جس کے بارے میں مولانا عبد الجلیل سامرودی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ دین و ایمان اور عقائد کو تباہ کرنے والا ترجمہ و تفسیر ہے۔ نیز امرتسری کے بارے میں انہوں نے لکھ کہ امرتسری فروع و مسائل میں تو اہل حدیث ہیں البتہ عقائد میں نہیں ہیں کیونکہ وہ اشعریہ ماتریدیہ اور معتزلہ حتی کہ بعض جہمی عقائد کے حامل رہے ہیں۔
آپ کا تو اب یہ حال ہو رہا ہے جو اس کلام الٰہی کے مصداق ہے:

(بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ) (سورة الأنبياء: 18)
ترجمہ: (نہیں) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اسکا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری خرابی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور پھر یہ نعرہ لگانا: (ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔) کھلا ہوا تضاد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کی خواہ وہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو اس طرح استہزاء کو برداشت نہیں کرتا ہے اس کا فرمان ہے: (
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ) (سورة التوبة: 65)
اے نبی آپ ان لوگوں سے جو اللہ کی کسی ایک بھی آیت کا استہزاء کرتے ہوں کہہ بتا دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ اور اس کی آیتوں کا استہزاء کرتے ہو اس کا مذاق بناتے ہو یہی تمہارا دین اور ایسا ہی ایمان لانا ہے۔ ذرا ان درج ذیل آیت کو بھی ملاحظہ کر لیجئے گا:

(أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ) (سورة التوبة: 63)
ابن داود نے کہا:

یہ وہی مرزا قادیانی والے حربے، کہ مرزا قادیانی، اس کی ہفوات کو رد کرنے پر قرآن کا منکر قرار دے کر جہنمی کہہ دیا کرتا تھا، بعین یہی انداز آپ نے اپنایا ہوا ہے!
الجواب:
جناب من یہ تو آپ کی اپنی کیفیت ہے تو برائے مہربانی آپ اپنا حال اور اپنی کیفیت کو مجھ سے منسوب نہ کریں۔ یہ تو آپ ہیں جو اس کیفیت کا شکار ہیں میں نے تو صرف اللہ کا کلام پیش کیا ہے۔ میں نے یتیم پوتے کے اولاد و بیٹا ہونے کے بارے میں آیات و احادیث پیش کی جس کی آپ نے مخالفت کی اور مذاق اڑایا اسی طرح دادا کے حقیقی باپ ہونے اور والد ہونے کی آیات پیش کی تو اس کا بھی وہی حال کیا جس پر میں نے یہ آیات پیش کیں تو بوکھلا اٹھے۔ اور لگے مرزا قادیانی سے ملانے۔ اللہ کے بندے کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔ جس ثناء اللہ امرتسری کے فتوے کو آپ حرز جان بنائے ہوئے ہیں وہ کوئی نبی و رسول نہیں تھے اور نہ ہی معصوم عن الخطا تھے کہ ان کی بات کا رد نہ کیا جاسکے۔ وہ بھی ایک عام سے انسان تھے جن ایک نہیں بلکہ بے شمار غلطیاں ہوئی ہیں کہ جس پر کفر لازم آتا ہے اور ان غلطیوں پر ان پر شرعی عدالت عالیہ سے کفر کا فتویٰ لگابھی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس اگر پڑھنا اور جاننا سمجھنا چاہتے ہیں تو میں نے اوپر اپنی کتاب کا جو لنک دیا ہے وہیں پر ثنائی جرگہ نامی کتاب میں پڑھ لیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میرے محترم صرف یہی ایک آیت ہے جس میں اولاد اور والدین کے احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ جس سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔ ورنہ دوسری کسی بھی آیت سے بیٹے بیٹیوں کا حق و حصہ ثابت نہیں کی جاسکتا ہے۔ اور یہی وہ آیت ہے جس سے دادا کا حق و حصہ ثابت کیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن میں بیٹا ،بیٹی اور دادا ، دادی کا تو کوئی حصہ بیان ہی نہیں کیا گیا ہے۔
ابن داود نے کہا:
جناب من! بیٹے اور بیٹیوں کا حق بالکل اس آیت سے ثابت ہوتا ہے، مسئلہ بیٹے اور بیٹیوں کا نہیں، پوتا اور پوتیوں کا ہے، اور قرآن کی اس آیت میں ''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہوا!
اور دوسری بات یہ کہ، شریعت کے تمام احکامات بشمول رواثت کے محض قرآن مجید نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی ہیں!

الجواب:
جناب من!
آپ کا یہ کہنا : (
قرآن کی اس آیت میں ''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں)۔ بالکل جھوٹ ہے۔
جس آیت سے بیٹے بیٹیوں کا حق ثابت ہوتا ہےاسی آیت سے پوتے پوتیوں کا بھی حق و حصہ ثابت ہوتا ہے۔یہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے اور آپ دونوں کا ہی انکار کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل و دماغ اور آنکھ دی ہے تو درج ذیل عبارت پڑھ لیجیئے:

(وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى (يَا بَنِي آدَمَ) وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا) [احكام القرآن للجصاص]
ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (یابنی ادم)، یعنی اسے اولادآدم۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد سب پر محمول ہوتا ہے۔
*---------------------------------------------*
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم ابن داود صاحب نے کہا: قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
ابن داود نے کہا:
یہ غالباً کتابت کی غلطی ہے!
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ:
''ابن داود صاحب سے کہا:''

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو آپ اس کا جواب نہ دے پائے اور ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور نے کہا: (
ابن داود نے کہا:
یہ ہے دراصل آپ کے باطل موقف کی باطل بنیاد!)۔
نہیں یہ ہم نے آپ کے مطالبہ پر نہیں کہا!
بلکہ آپ نے اس کے بعد جو ''نیز'' کہہ کر ہمارا کلام رقم کیا ہے، اس سے متصل کہا ہے، اور ہمارا یہ کلام آپ کے اس مطالبہ کے جواب میں نہیں تھا، بلکہ ہم نے آپ کے کلام کا اقتباس پیش کر کرے یہ کہا تھا؛ تو میرے بھائی! کلام کو اس کے مواضع سے پھیر کر یہودیوں کا وصف اختیا نہ کریں!
دوم کہ اب آپ ''ہانکنے'' پر آگئے ہیں، اور جب ہم آ پ کے مستعمل الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں خواہ مخواہ کوسنے دینا شروع ہو جاتے ہو!
میں نے صرف ایک لفظ ایسا استعمال کیا ہے، جو آپ نے نہیں کیا تھا، وہ تھا ''بیوقوفی'' اور اسے استعمال کرنے کا ہمیں بالکل حق حاصل تھا، کہ جب آپ اپنی بیوقوفی میں ہم پر قرآن وحدیث کی ''لفظی تحریف'' کی بھی تہمت داغیں گے، تو اسے بیوقوفی کہنا تو ہمارا حق ہے!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
میں نے جو سوال کیا اس کا جواب تو آپ سے بن نہیں پڑرہاہے کیونکہ اس کا جواب نہ آپ کے پاس ہے اور نہ ہی کسی اور کے پاس ہے البتہ لوگ اس کا جواب نہ دیکر محض الزام تراشیاں ہی کیئے جا تے ہیں اور اصل مدعا سے بھٹکانا چاہتے ہیں جیسا کہ آپ کر رہے ہیں۔ آپ کو جو بھی کہنا ہو کہیئے پر ہماری بات کا قرآن وحدیث سے جواب دیجیئے اپنی بکواسیات سے نہیں ہمیں آپ کی ہفوات و بکواسیات کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں آپ کی لن ترانیاں سننی ہیں اپنی ان لن ترانیاں کو کسی اور کو سنائیے گا ۔ ہمیں صرف اور صرف اس بات کا جواب چاہیئے کہ وہ کون سی آیت قرآنی ہے یا حدیث صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پاسکتا ہے اور بس۔ کون سی ایسی دلیل ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کی اولاد و ذریت اور حقیقی و صلبی بیٹا اور اس کا دادا اپنے اس یتیم پوتے کا والد و حقیقی باپ نہیں ہوتا ہے۔ پیش کیجئے۔
لہذا اب ادھر ادھر کی ہانکنے اور بات کو گھمانے کے بجائے صرف اس نکتے پر بحث کیجئے جیسا کہ ہم آپ سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

نیز آپ نے کہا: دیکھیں! آپ نے یہاں فرمایا ہے کہ: ''أولاد'' حقیقی ہی ہوتی ہے؛ پوتا بھی دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے اور پوتا خواہ اس کا باپ حیات ہو، یا فوت ہو چکا ہو، وہ اپنے دادا کی حقیقی ''اولاد'' ہے، جیسے اس کے والد، چچا اور تایا وغیرہ حقیقی اولاد ہیں! حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں! مزید آپ نے تمام ذریت کو ''اولاد '' میں شامل کیا، کہ بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسے نواسی اور پھر ان سے جننے ہوئے آگے، تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے!
آپ نے اس طول طویل عبارت میں کہا: (حتی کہ آپ نے تو دادا کو اسی طرح ''والد'' قرار دیا جیسے وہ أبا، چچا اور تایا کے ''والد'' ہیں!)نیز (تمام کہ تمام ''اولاد'' ہیں، اور ''اولاد'' بقول آپ کے حقیقی ہی ہوتی ہے(!
تو میرے محترم یہ میرا اپنا قول نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی بیان کردہ بات ہے جس کو ہم صرف نقل کرنے والے ہیں۔

ابن داود نے کہا:
یہ تو آپ نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جھوٹ باندھ دیا!
دیکھتے ہیں آپ اس کا کیا ثبوت دیتے ہیں! یاد رہے یہ بات ''ولد'' اور ''والد'' کی ہو رہی ہے!

الجواب:
تو جناب عالی اللہ و رسول پر جھوٹ آپ بول رہے ہیں اور الزام میرے سر مڑھ رہے ہیں۔
آپ اس بات کا ثبوت مجھ سے مانگ رہے ہیں جب کہ میں نے بار بار اس کا ثبوت پیش کیا ہے اور ابھی ابھی پیچھے گذرا ہے۔ ثبوت تو آپ کو اس بات کا دینا چاہیئے کہ یہ کس آیت و حدیث میں لکھا ہے کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی، صلبی اولاد و بیٹا نہیں ہوتا ہے۔ اور دادا اپنے یتیم پوتے کا حقیقی، والد و باپ نہیں ہوتا ہے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس کا ثبوت ڈھونڈھ کے لائیں۔ رہا میرے ثبوت دینے کی بات تو اس کے بہت سارے ثبوت ہیں جن میں سے ایک یہ ثبوت ہے جو پیش خدمت ہے:

وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،
فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.

ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]

اب اگر آپ اس ثبوت کو بھی نہ مانیں تو آپ سے گذارش ہے کہ آپ ایک ایسا سنٹر قائم کریں جس میں دادی پوتے، دادا پوتی نانی نواسےاور نانا نواسی کی شادی کرائیں۔ کیونکہ بقول آپ کے نہ تو دادا دادی اور نہ ہی نانا نانی اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کے حقیقی والد و باپ ہیں، اور نہ ہی پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اپنے دادا دادی، نانا نانی کی صلبی اولادیں اور حقیقی بیٹے بیٹیاں ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

چنانچہ صحابہ تابعین اتباع تابعین اور جملہ محدثین و مفسرین اور شارحین حدیث نے وہی باتیں کہی ہیں جو ہم نے نقل کی ہیں چنانچہ شارح بخاری امام ابن جحر لکھتے ہیں: (وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ)
ابن داود نے کہا:
فتح الباری سے آپ نے یہ جو عبارت نقل کی ہے، اس میں آپ کو کہیں لفظ ''ولد'' یا ''والد'' نظر آرہا ہے؟
یہاں تو نہ
''ولد'' ہے اور نہ ہی ''والد'' بلکہ یہاں ''اب'' کا لفظ موجود ہے!
جبکہ
''ولد'' اور ''ابن'' میں اور ''والد'' اور ''اب'' میں تفاوت آپ نے خود بیان کیا ہے!
ہم آپ کا اپنا کلام یہاں نقل کرکے آپ کو یاد دلاتے ہیں:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔ البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے بھی باپ ہیں اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔
ابن داود نے کہا:
تو میرے بھائی! یہاں ''اب'' کو والد اور وہ بھی حقیقی والد باور کروانا درست نہیں، اور آپ کے پچھلے کلام کے بھی منافی ہے!
الجواب:
محترم ابن داود صاحب! آپ نے صرف مغالطہ دینا ہی سیکھا ہے یا اور کچھ بھی سیکھا ہے میں نے جو کہا ہے وہ بالکل صحیح کہا ہے کہ اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں کیونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے جو ایک نسلی تسلسل کا نام ہے ایک طرف اصل ہے تو دوسری طرف اس کی نسل و فرع ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ بیٹا حقیقی اولاد ہے اور پوتا مجازی اولاد ہے قطعا غلط ہے ان میں سے کوئی مجازی نہیں بلکہ سب حقیقی ہیں۔ اولاد حقیقی ہی ہوتی ہے مجازی نہیں ہوتی اسی طرح والد حقیقی ہی ہوتا ہے مجازی نہیں ہوتا۔
البتہ بیٹا بیٹی اور باپ مجازی بھی ہوتے ہیں اور حقیقی بھی چنانچہ باپ تو باپ ہے ہی چچا تائے اور دادا بھی باپ ہیں اسکی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:
(قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ) (سورة البقرة: 133)
اس آیت میں دادا ابراہیم، چچا تایا اسماعیل، اور باپ اسحاق سب کو یعقوب کے باپ کہا گیا ہے۔ جب کہ یعقوب کے باپ تو اسحاق تھے ۔ پس ثابت ہوا کہ باپ، چچا تائے، اور دادا پر دادا سبھی باپ ہوتے ہیں البتہ توالد و تناسل کے سلسلہ سے جو باپ ہوتا ہے وہ والد اور حقیقی باپ ہوتا ہے جب کہ چچا تائے مجازی باپ ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے اپنا بیٹا، بیٹے کا بیٹا اس کا بیٹا اور بھائی کا بیٹا سبھی بیٹے ہیں لیکن ان میں حقیقی بیٹا اور اولاد صرف وہی ہوتا ہے جس سے توالد و تناسل کی بنیاد پر رشتہ ہو یعنی اپنا بیٹا، اپنے بیٹے کا بیٹا اور اس کا بیٹا یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا وغیرہ درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی اولاد اور حقیقی بیٹے ہیں البتہ بھائی کا بیٹا مجازی بیٹا ہے۔ اسی طرح بیٹا تو بیٹا ہے ہی منہ بولا بھی بیٹا ہوتا ہے ۔ چچا تائے مجازی باپ ہیں البتہ والد نہیں اور منہ بولا بیٹا مجازی بیٹا ہے اولاد نہیں اسی لئے پوتے کے مرنے پر چچا تائے وارث نہیں ہوتے بلکہ دادا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ والد اور حقیقی باپ ہے لہذا باپ کے مرنے پر حقیقی بیٹا وارث ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے ہے اور منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اولاد میں سے نہیں ہے۔
وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،
فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.

ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]

لہذا آنجناب سے مودبانہ گذارش ہے کہ مغالطہ آرائی اور فریب دہی سے باز رہیں اور مدعا کو بھٹکائیں نہیں۔ جو چیز آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ آپ اس کے پیچھے نہ پڑیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (35) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (36) [سورة الإسراء]
میرے بھائی جو شخص والد ہوگا وہ لازما حقیقی باپ ہوگا البتہ یہ ضروری نہیں کہ جو باپ ہو وہ والد بھی ہو۔ یہی معاملہ اولاد کا بھی ہے کہ جو اولاد میں سے ہوگا اس کا حقیقی بیٹا بیٹی ہونا لازم ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو بیٹا یا بیٹی ہو وہ لازمی طور پر اولاد بھی ہو۔ کیونکہ اولاد و والدین میں صرف وہی لوگ شمار ہونگے جن کا رشتہ توالد تناسل کی بنیاد پر ہو۔ اب اگر اتنی موٹی موٹی باتیں ہی آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہیں تو یہ آپ کی عقل فہم کیا قصور ہے جس کے علاج کی ذمہ دری بھی آپ پر ہی ہے۔
*---------------------------------------------*
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یعنی اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ دادا ہے تو حقیقی باپ و والد ہے لیکن باپ کے ہوتے ہوئے وہ وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا کیونکہ اس کا درجہ و مرتبہ باپ کے بعد ہے لہذا باوجود حقیقی باپ و والد ہونے کے وہ باپ کے ہوتے وراثت و ترکہ میں سے حصہ نہیں پائے گا۔
ابن داود نے کہا:
دیکھیں! انہیں وجوہات کی بنا پر ہم آپ کے کلام کو رد کرتے ہیں، آپ نے یہاں ''والد'' کے الفاظ اپنی فہم کے تڑکہ کے تحت داخل کیئے ہیں، اور اس بات پر اجماع باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دادا پوتے کا ''حقیقی والد'' ہے، جبکہ بات یہ نہیں، جو آپ باور کروانا چاہتے ہیں!
اول تو آپ کی پیش کردہ عبارت میں
''والد'' کے الفاظ نہیں، بلکہ ''اب'' کے الفاظ ہیں!
دوم کہ یہاں اجماع اس بات پر نہیں کہا گیا کہ دادا حقیقی ''اب'' ہے، بلکہ اجماع تو اس بات پر نقل کیا گیا ہے کہ:
وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ.
اور آپ نے اسے کم از کم غلط فہمی میں دادا کے حقیقی ''اب'' ہونے پر منطبق کردیا!
اور پھر ''ایک تو کریلا اپر سے نیم چڑھا'' کے مصداق
''اب'' کو ''والد'' سے خلط کر دیا!
تو میرے بھائی! اس طرح آپ غلط فہمیوں کو ''اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں کہا کریں!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
آپ میری بات کو جتنا چاہیں اور جس طرح چاہیں رد کرتے رہیں لیکن اس سے حقائق تبدیل نہیں ہوجائیں گے۔
شاید آپ کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اب اور ابن کا لفظ بمقابلہ والد و ولد کے عام ہے لہذا اب اور ابن کا لفظ کبھی حقیقی اب اور ابن یعنی والد و اولاد پر بولا جاتا ہے اور کبھی غیر حقیقی اب اور ابن یعنی غیر والد و غیر اولاد پر بولا جاتا ہے ۔ جہاں تک زیر بحث مسئلہ میں جد کے تعلق سے اب کا جو لفظ بولا گیا ہے وہ حقیقی اب یعنی والد کے لیئے بولا گیا ہے اور وہ ہے دادا تو اب سے مراد یہاں حقیقی باپ اور والد ہی ہے دوسرا کچھ نہیں۔جسے آپ نے غلط سمجھا ہے۔میں نے نہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے میری نہیں ہے۔ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں میں نہیں ہوں۔ دادا کے اس کے یتیم پوتے کے وارث ہونے کی بنیا حقیقی باپ اور والد ہونا ہی ہے آپ اس سے انکاری محض اس لیئے ہیں کہ اگر آپ دادا کو حقیقی باپ اور والد مان لیں گے تو آپ کی بنی بنائی پوری عمارت ہی ڈھ جائے گی اور ڈھیر ہو جائے گی۔ تو آپ چالاکی نہ دکھائیں ۔ اور الفاظ کے الٹ پھیر سے مغالطہ نہ پیدا کریں۔ اور شاطرانہ چالوں سے باز رہیں۔ یہ اللہ کیا دین ہے اور اللہ کے سامنے بروز قیامت جوابدہی کرنی ہے۔ دادا کا والد اور حقیقی باپ ہونا اور یتیم پوتے کا اس کی اولاد اور حقیقی بیٹا ہونا ایک محکم شرعی فیصلہ اور مسلمہ امر اور حقیقت ہے ۔ لہذا اس قسم کی باتوں سے اس پر کوئی حرف آنے والا نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بعینہ یہی معاملہ پوتے کا بھی ہے خواہ یتیم ہو یا نہ ہو کہ وہ بھی اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے جس کی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں ہے تو جب تک اس کا باپ موجود ہے وہ محجوب و محروم الارث ہوگا دادا کے ترکہ میں سے ھصہ نہیں پائے گا اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو یقینی طور پر اس میں سے حصہ پائے گا میت کا کوئی دوسرا بیٹا (چچا تایا) اسے محجوب و محروم الارث نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ جب دادا حقیقی باپ اور والد ہے اور باپ کے نہ رہنے پر بطور حقیقی باپ و والد اپنے یتیم پوتے کے اموال متروکہ کا حقدار و حصہ دار ہے تو اسی کے بالمقابل پوتا خواہ یتیم ہو یا غیر یتیم اپنے دادا کا حقیقی بیٹا اور اس کی اولاد و ذریت میں سے تو جب تک اس کا باپ زندہ ہے وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث ہے اور جب اس کا باپ نہیں رہے گا تو وہ اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث نہیں رہے گا بلکہ حقدار و حصہ دار ہوگا۔
ابن داود نے کہا:
آپ کا یہ بیان، آپ کی باطل بنیاد پر قائم ہے، جس کا بطلان اوپر بیان کیا گیا!
الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
آپ اس کا بطلان کرتے رہیں باطل قرار دیتے رہیں پر اس سے حقیقت چھپنے والی نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو جس ایک آیت اور جن دلائل سے دادا کا وارث حقدار حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے اسی ایک آیت اور انہیں دلائل سے یتم پوتے کا اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ابن داود نے کہا:
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ اگر بیٹا میت ہو، باپ کی ماں یعنی میت کی دادی، باپ کے ہونے سے ساقط ہوتی ہے، جبکہ دادا ہونے سے ساقط نہیں ہوتی۔ باپ کی موجودگی میں تو چچا، تایا اور پھوپھی ترکہ میں حقدار و حصہ دار قرار نہیں پاتے، اور باپ کے نہ ہونے پر دادا کی موجودگی میں بھی چچا، تایا اور پھوپھی حقدار و حصہ دار قرار پاتے ہیں (جس کے آپ قائل ہو)، تو معلوم ہوا یہاں دادا کو باپ پر قیاس کرنا باطل ہے!
یہ تو ہوا آپ کے نقل کردہ اور بیان کردہ کا تناقض!

الجواب:
میرے محترم ابن داود صاحب!
میں نہیں آپ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ یہاں بھی آپ نے غلط بیانی کی ہے مغالطہ آرائی سے کام لیا ہے۔ باپ ہوں یا دادا کسی کے بھی رہتے چچا، تا یا اور پھوپھی قطعی طور پر حقدار و حصہ دار نہیں ہوتے ۔ یہ آپ نے جھوٹ بولا ہے آپ اس کے قائل ہوں تو ہوں ہم اس کے قائل نہیں ہیں ۔ کیونکہ باپ ہو یا دادا والد و وارث ہوتے ہیں اور چچا تائے ہوں یا پھوپھی وارث نہیں ہوتے۔ کیونکہ چچا تائے اور پھوپھی غیر وارث عصبہ ہیں۔ ہاں بھائی بہن ہوں تو وہ باپ کے رہتے وارث نہیں ہونگے البتہ دادا کے رہتے وارث ہوں گے کیونکہ سبھی اہل فرائض میں سے ہیں۔ در اصل آپ تناقض اور اختلاط اور غلط فہمی کے مرض کا شکار ہیں الحمد للہ ہم نہیں ہیں۔ دادا کو باپ پر قیاس کرنا حق ہے اور نہ کرنا باطل ہے۔
آپ اس کا بطلان کرتے رہیں باطل قرار دیتے رہیں پر اس سے حقیقت چھپنے والی نہیں ہے۔

*---------------------------------------------*
ابن داود نے کہا:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ ابن حجر عسقلانی نے کیا بات کی ہے، اور آپ نے ابن حجر عسقلانی کی بات نقل کرنے میں کم از کم کس درجہ غفلت سے کام لیا ہے!
ہم آپ کا کلام یاد دہانی کے لئے دوبارہ نقل کرتے ہیں:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اسی طرح ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں باپ کے نہ رہنے پر جب دادا کے حق و حصہ کی بات آئی تو جملہ صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہو کہ چونکہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے اور دادا باپ کی جگہ باپ اور والد ہے اس لئے یتیم پوتے کا سالا مال متروکہ (ترکہ) دادا کو ہی ملے گا اس کے چچا تایوں کو نہیں ملے گا۔ کیونکہ دادا باپ کی جگہ حقیقی باپ اور والد ہے اور یتیم پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری : کتاب الفرائض میں ہے: (قَوْلُهُ بَابٌ مِيرَاثُ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ): الْمُرَادُ بِالْجَدِّ هُنَا مَنْ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْمُرَادُ بِالْإِخْوَةِ الْأَشِقَّاءِ وَمِنَ الْأَبِ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. قَوْلُهُ: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ (الْجَدُّ أَبٌ) أَيْ هُوَ أَبٌ حَقِيقَةً لَكِنْ تَتَفَاوَتْ مَرَاتِبُهُ بِحَسَبِ الْقُرْبِ وَالْبُعْدِ وَقِيلَ الْمَعْنَى أَنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْأَبِ فِي الْحُرْمَةِ وَوُجُوهِ الْبِرِّ وَالْمَعْرُوفُ عَنِ الْمَذْكُورِينَ الْأَوَّلُ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ.
تو عہد ابوبکر صدیق میں یہ متفقہ فیصلہ رہا جس کی مخالفت بھی ہوئی خاصکر عمر فاروق نے اس سے اختلاف کیا لیکن پھر انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور جب ان کا خود کا ان کا اپنا دور آیا تو انہوں نے بمشورہ زید بن ثابت سگے و علاتی بھائیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا
ابن داود نے کہا:
آپ نے فتح الباري کی مذکورہ عبارت نقل کرکے اس کی بنیاد پر یہ دعوی کیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جملہ صحابہ کا اتفاق ہوا کہ باپ کی غیر موجودگی میں پوتے کا ترکہ دادا کو ملے گا، اور چچا، تایوں کو نہیں ملے گا! مگر آپ نے اسی سے متصل ابن حجر عسقلانی کے کلام کو نقل نہیں کیا، جو ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے متعلق کہا ہے!
دیکھیں، صحیح بخاری کی روایت اتنی ہے:
''وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ''
اور جس روایت کو بیان کرکے، آپ نے یہ دعوی کر دیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جملہ صحابہ کا اتفاق ہوا کہ باپ کی غیر موجودگی میں پوتے کا ترکہ دادا کو ملے گا، اور چچا تایوں کو نہیں ملے گا! وہ روایت تو آپ نے نقل کی،
قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ لَهُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا بكر وبن عَبَّاس وبن الزُّبَيْرِ كَانُوا يَجْعَلُونَ الْجَدَّ أَبًا يَرِثُ مَا يَرِثُ وَيَحْجُبُ مَا يَحْجُبُ
کہ یزید بن ہارون نے کتاب الفرائض میں کہا کہ انہیں محمد بن سالم نے شعبی کے حوالے سے خبر دی کہ ابوبکر، ابن عباس اور زبیر دادا کو ''اب'' ٹھہراتے تھے، کہ دادا وراثت پائے گا جو ''اب'' پاتا ہے، اور محجوب کرے گا، جسے ''اب'' محجوب کرتا ہے!

اول تو اس روایت کا فتح الباری میں بیان کردہ اجماع سے کوئی تعلق نہیں، فتح الباری میں جس کے متعلق اجماع کا ذکر ہے، وہ یہ ہے:
کہ
وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْجَدَّ لَا يَرِثُ مَعَ وُجُودِ الْأَبِ. کہ اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے، کہ باپ کی موجودگی میں دادا وراثت نہیں پائے گا!
آپ نے تو اس روایت پر ہی اتفاق واجماع کا بھی دعوی کردیا!
مگر آپ نے اسی سے متصل ابن حجر کا کلام پیش نہیں کیا، جس میں ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے ثبوت کا انکار کیا ہے!
اسی عبارت سے متصل ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ ضَعِيفٌ وَالشَّعْبِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُنْقَطِعُ
اور محمد بن سالم ضعیف ہے، اور شعبی اور ابو بکر کے درمیان سند منقطع ہے!

ایک نہیں! دو دو علتیں بیان کر کے ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے ثبوت کا انکار کیا ہے!
اور مزید علتیں بھی بیان کی:
وَقَدْ جَاءَ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى وَإِذَا حُمِلَ مَا نَقَلَهُ الشَّعْبِيُّ عَلَى الْعُمُومِ لَزِمَ مِنْهُ خِلَافُ مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ فِي صُورَةٍ وَهِيَ أُمُّ الْأَبِ إِذَا عَلَتْ تَسْقُطُ بِالْأَبِ وَلَا تَسْقُطُ بِالْجَدِّ وَاخْتُلِفَ فِي صُورَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا أَنَّ بَنِي الْعَلَّاتِ وَالْأَعْيَانِ يَسْقُطُونَ بِالْأَبِ وَلَا يَسْقُطُونَ بِالْجَدِّ إِلَّا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَنْ تَابَعَهُ وَالْأُمُّ مَعَ الْأَبِ وَأَحَدُ الزَّوْجَيْنِ تَأْخُذُ ثُلُثَ مَا بَقِيَ وَمَعَ الْجَدِّ تَأْخُذُ ثُلُثَ الْجَمِيعِ إِلَّا عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ فَقَالَ هُوَ كَالْأَبِ وَفِي الْإِرْثِ بِالْوَلَاءِ صُورَةٌ ثَالِثَةٌ فِيهَا اخْتِلَافٌ أَيْضًا
امام ابن حجر عسقلانی نے تو بتلایا ہے کہ ، ثابت ہونے کی صورت میں بھی، یہ عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کہ اس کا عموم تو خود ثابت اجماع کے خلاف ہے!
پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول کی مختلف روایات ذکر کر کے ان کا اثبات کیا ہے!
فَأَمَّا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ الصِّدِّيقُ فَوَصَلَهُ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ إِلَى أَبِي مُوسَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ مِثْلُهُ وَبِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَيْضًا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا وَفِي لَفْظٍ لَهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا إِذَا لَمْ يَكُنْ دونه أَب وَبِسَنَد صَحِيح عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا وَقَدْ أَسْنَدَ الْمُصَنِّفُ فِي آخِرِ الْبَابِ عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَكَذَا مضى فِي المناقب مَوْصُولا عَن بن الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَأَمَّا قَول بن عَبَّاسٍ فَأَخْرَجَهُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي كِتَابِ الْفَرَائِضِ مِنْ طَرِيقِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَن عَطاء عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ الْجَدُّ أَبٌ وَأَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْهُ أَنَّهُ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ مِنْ طَرِيقِ لَيْث عَن طَاوس أَن عُثْمَان وبن عَبَّاسٍ كَانَا يَجْعَلَانِ الْجَدَّ أَبًا وَأَمَّا قَوْلُ بن الزُّبَيْرِ فَتَقَدَّمَ فِي الْمَنَاقِبِ مَوْصُولًا مِنْ طَرِيقِ بن أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ كَتَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى بن الزُّبَيْرِ فِي الْجَدِّ فَقَالَ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَنْزَلَهُ أَبًا وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَفْتَاهُمْ بِمِثْلِ قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ وَأَخْرَجَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ مِنْ طَرِيقِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ كَاتِبًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ فَأَتَاهُ كتب بن الزُّبَيْرِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا
تو یہ علتیں جو بیان ہوئی ہیں، یہ تو اضافی بحث ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ابن حجر عسقلانی نے ابو بکر صدیق رضی اللہ کے زمانے میں آپ کا جملہ صحابہ سے منسوب کردہ اتفاق کو جسے آپ نے اجماع بھی باور کروانے کی کوشش کی، اس کے ثبوت کا انکار کیا ہے!
تو میرے بھائی! علمی مباحثہ کے لیئے انسان میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے! ایک علمی لیاقت اور دوسری علمی دیانت! دونوں میں سے ایک بھی مفقود ہو تو علمی مباحثہ ممکن نہیں رہتا، اور دونوں ہی مفقود ہوں تو انسان علمی مباحثہ نہیں کرتا، بلکہ وہ فریب کاری کے فن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
آپ کو اصل بات تو سمجھ نہ آئی اور آپ نے دوسری بات شروع کردی۔ اور اوپر سے لگے فلسفہ بگھاڑنے کہ (
علمی مباحثہ کے لیئے انسان میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے! ایک علمی لیاقت اور دوسری علمی دیانت! دونوں میں سے ایک بھی مفقود ہو تو علمی مباحثہ ممکن نہیں رہتا، اور دونوں ہی مفقود ہوں تو انسان علمی مباحثہ نہیں کرتا، بلکہ وہ فریب کاری کے فن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے!)
تو جناب من! جیسا کہ آپنے ذکر کیا آپ بعینہ ویسے ہی ہیں کہ نہ تو آپ کے پاس علمی لیاقت ہے اور نہ ہی دیانت آپ کے یہاں دونوں ہی چیزیں مفقود ہیں۔ آپنے تو محض فریب کاری ہی سیکھا ہے اور الزام مجھے دے رہے ہیں۔ بات کچھ کہی گئی اور آپ نے کچھ اور سمجھ کر بیجا بحث شروع کردی جو ایک الگ موضوع سے متعلق اور ایک ضمنی بحث ہے جس کا زیر بحث مسئلہ سے ایک جزوی تعلق ہے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

بلکہ آپ میری اس بات کا جواب قرآن و حدیث سے دیں جو میں نے آپ سے کہی ہے اور میں بار بار ان تمام لوگوں سے جو یتیم پوتے کی محجوبیت و محرومی ارث کو محکم شرعی حکم اور اللہ و رسول کا دین اور اس کی مقدس اور پاکیزہ کہتے ہیں کہتا رہوں گا : (قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے)۔ اور ایسا تا قیامت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ابن داود نے کہا:
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا، اس لطیفہ کا اصل مزا پنجابی میں ہی ہے، لہٰذا میں اسے پنجابی میں لکھتا ہوں:
پتر ماں نو اکھدا اے: امی! امی! میں اج سکول اچ شرط لائی اے؟
ماں: پتر! کی شرط لائی اے؟
پتر: امی! میں اکھیا اے کاں چٹا ہوندا اے، جے کاں چٹا نہ ہوئے، تے پنجی روپے دیواں گا!
ماں: پتر اے شرط تے تسی ہار جانی اے!
پتر: نا امی نا! میں نئیں ہارنا!
ماں: پتر! کاں تے چٹا نئیں ہوندا، کاں تے کالا ہوندا اے!
پتر: امی! کان پاویں کالا ہوئے، پاویں پیلا! میں مناں گا، تے ہاراں گا! نہ میں مننا اے، نہ ہارنا اے!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
یہاں مجھے آپ پر بڑی ہی ہنسی آرہی ہے کہ آپ مخاطب مجھ سے ہیں اور میں ہوں اردو بولنے والا جو پنجابی نہیں سمجھتا اور لطیفہ کسی پنجابی جاننے والے کو سنا کر خوش ہو رہے ہیں۔ تو یہ تو آپ کے لطیفہ سے بھی بڑا لطیفہ اور چٹکلا ہے۔
کم از کم آپ اس کا ترجمہ کر دیئے ہوتے تو بات کچھ سمجھ میں آئی ہوتی کہ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ یہی حال آپ کی اس سے قبل دادا کے تعلق سے اجماع کو لیکر بڑی طول طویل عبارت نل کر کے آپ نے اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کہ کوشش کی جب کہ اس کا مقصد کیا تھا کچھ سمجھ نہ آیا کہ آپ اس طول طویل عبارت سے کیا کہنا اور کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔


مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس کو میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنا چاہوں گا جیس کہ کسی شاعر نے کہا ہے: (شاید کہ اتر جائے تیری دل میں میری بات)۔
آپ کی مثال بھی دیکھ لیتے ہیں!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
مثال کے طور پر کسی شخص کے چار بیٹے ہیں اور ان سب کے بالترتیب ایک، دو، تین ، چار بیٹے ہیں۔ان میں سے ایک بیٹے کے باپ کو چھوڑ کر دو، تین ، چار بیٹوں کے باپ ایک ایک کر کے دادا کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے اور وہ بیٹا جس کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو اس کا باپ اس کے دادا کی وفات کے معا بعد جب کہ دادا کی تدفین بھی نہیں ہو پائی تھی وفات پا گیا۔ تو خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کے مطابق ان تینوں متوفیٰ بیٹوں کے بیٹے تو محجوب و محروم الارث قرار پائے کیونکہ ان کا جرم صرف بس اتنا سا تھا کہ وہ اپنے باپوں کو اپنے دادا کی وفات تک زندہ نہ رکھ پائے
ابن داود نے کہا:
آپ کی مثال کو یہی روکتے ہیں، کہ آپ کا یہ خود ساختہ عقیدہ ہے کہ زندگی وموت آپ نے بیٹوں کو دے دیا، کہ وہ یہ اختیار رکھتے ہوں، کہ اپنے باپ کو زندہ رکھ سکیں یا نہیں! ہمارے دین اسلام میں تو موت و حیات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے! آپ کی مثال میں باپ کی موت کا مجرم بیٹوں کو ٹھہرانا ہی عجب ہے!
الجواب:
جناب من!
جب آپ مانتے ہیں کہ موت وحیات کا مالک صرف اللہ ہے تو پھر یہ کیوں نہیں مانتے کہ میراث کا مالک بھی اللہ ہی ہے اللہ نے ہی یتیم پوتے کے باپ کو پیدا کیا اور اس کے باپ کے ذریعہ سے اسے پیدا کیا نہ کہ اس کے چچا تائے کے ذریعہ سے پیدا کیا۔ اب جب کہ اس کے باپ کو وفات دیدی اور اس کو یتیم بنادیا تو اس کے بعد اس کو اس کا قائم مقام بھی بنادیا۔ تو آپ کون ہوتے ہیں یہ شرط لگانے والے کہ جب اس کے چچا تائے بھی مرجائیں گے تبھی وہ اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس لئے دادا کے یہ نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہو گئے باقی بچا وہ پوتا جس کا باپ اس کے دادا کی وفات تک زندہ رہا اور اس کی وفات کے فورا بعد مر گیا تو وہ پوتا تنہا اپنے دادا کا وارث اور اس کے سارے مال کا حقدار و حصہ بن گیا اور بقیہ نو پوتے کف افسوس ملتے رہ گئے۔
ابن داود نے کہا:
یہ تو اللہ کی طرف سے ہے، کہ کون مرتا ہے، اور کس کی میراث تقسیم ہوتی ہے، باپ کے مرنے پر بیٹا اس کے مال کا وارث بنتا ہے، یا بیٹے کے مرنے پر اس کے مال کا وارث باپ بنتا ہے!
ویسے یہ بتلائیے کہ یہ نو پوتوں کو ان کے باپوں کے مال کا ترکہ ملا تھا، اس وقت تو ان پوتوں نے خوب خوشیاں منائی ہونگی، کہ جو اب کف افسوس مل رہے ہیں!
پرائے مال کے ہاتھ نہ آنے پر کف افسوس ملنا، کسی لالچی، حرام خور کا ہی فعل ہو سکتا ہے!
آپ کی مذکورہ مثال میں ان نو پوتوں کا دادا کے ترکہ میں کوئی حق نہیں، انہیں اس مال پر نظر نہیں رکھنی چاہیئے!

الجواب:
جناب من دادا کا مال کسی پرائے کا مال نہیں ہے۔ وہ اس کے دادا کا مال ہے جو اس کا والد و باپ ہے۔ اگر آپ کی یہ بات صحیح مان لی جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ گویااللہ کے نبی تریپن سال کسی پرائے کے گھر میں زندگی گذارتے رہے اور آپ کے اس قول کہ (کسی لالچی، حرام خور کا ہی فعل ہو سکتا ہے!) کے بموجب اللہ کے رسول کسی لالچی و حرام خور کی طرح اپنے دادا کے گھر میں ناجائز طور پر رہ رہے تھے اور زندگی گذار رہے تھے؟ (العیاذ باللہ)
اور آپ کے اس قول (
ان نو پوتوں کا دادا کے ترکہ میں کوئی حق نہیں، انہیں اس مال پر نظر نہیں رکھنی چاہیئے!) کے بموجب اللہ کےرسول کا ان کے دادا عبد المطلب کے ترکہ میں کوئی حق نہیں تھا اور انہیں ان کے اس مال پر نظر نہیں رکھنی چاہیئے تھی تو وہ آخر جاتے کہاں اور کس کے در پر جاتے؟
کیا اللہ کے رسول کے باپ عبد اللہ کو ان کے باپ عبد المطلب کے مال سے کچھ ملا تھا جو وہ اپنے بیٹے محمد کو دیکر گئے تھے؟
جناب عالی!
آپ صرف بکواس کرنا ہی جانتے ہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتے سمجھتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور اس کہے کا نتیجہ کیا نکلے گا اور انجام کیا ہوگا۔ آپ کا تو معاملہ یہ ہے کہ بس بکے جاؤ اور بکواس جاری رکھو۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کیونکہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت کہتی ہے کہ یہ سب کے سب نو یتیم پوتے محجوب و محروم الارث ہیں اور صرف ایک پوتا وارث، حقدار اور حصہ دار ہے۔
ابن داود نے کہا:
یہی انداز مرزا قادیانی کا تھا، کہ دین اسلام جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اور اس کی شریعت کو ''خود ساختہ'' کہتا تھا اور اپنی ہفوات کو منزل من اللہ قرار دیتا تھا! آپ کی مثال میں تو غلام احمد پرویز اور دیگر منکرین حدیث کے نقش قدم پر یتیم کے لئے جذباتی رونے دھونے کے سوا کچھ نہ تھا!
الجواب:
آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ اور یہ مقدس کام آپ انجام دے رہے ہیں۔ آپ ہیں کہ (دین اسلام جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اور اس کی شریعت کو ''خود ساختہ'' کہہ رہے ہیں اور اپنی ہفوات کو منزل من اللہ قرار دیئے ہوئے ہیں!)۔ آپ کو تو یتیم پوتے کے نام سے ہی نفرت ہے اور بلا کی بیر و دشمنی ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں فورا گدہوں کی طرح بدک جاتے ہیں اور لتیاں چلانا شروع کردیتے ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اللہ تعالیٰ نے صحیح فرمایا: (فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) [القرآن الكريم]
نیز فرمایا: (وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ) [القرآن الكريم]
ذرا ان آیات کو بھی بغور پڑھ لیجئے گا:
(قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (34) قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (35) وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (36) وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (37) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (38) بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (39) وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (40) وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (41) وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ (42)) [سورة يونس]
(مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (154) أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (155) أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (156) فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (157)) [سورة الصافات ]
(أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (35) مَا لَكُمْ كَيْفَ
تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ (40) أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (41)
[سورة القلم]
اب بتائیے کہ خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت ظالم ہے یا اللہ تعالیٰ؟۔
ابن داود نے کہا:
بے شک اللہ تعالیٰ ظالم نہیں! بلکہ ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نازل کردہ شریعت کو ظالم سمجھتا ہے!
یتیم پوتے کا، دادا کے کسی بھی بیٹے کی موجودگی میں وراثت میں کوئی حصہ نہیں، یہ اللہ تعالی کے کردہ دین و مذہب وشریعت کے موافق ہے، جو اسے ظلم سمجھتا ہے، وہی ظالم ہے! اور جو اس کے برخلاف حکم کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو رد کرتے ہوئے ''خانہ ساز'' دین ومذہب وشریعت ایجاد کرتا ہے!
دراصل آپ نے یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حصہ کا نہ ملنے کو اپنے تئیں خود ہی ظلم گمان کر لیا ہے، حالانکہ یہ کوئی ظلم نہیں، ظلم تب ہوتا، جب پوتے کا دادا کے کسی بیٹے کی موجودگی میں حق وراثت از قرآن وحدیث ثابت ہوتا، اور پھر اسے نہ ملتا! آپ کا گمان، ظلم ہونے یا عدل ہونے کا معیار نہیں!

الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
جب آپ کے بقول (
یتیم پوتے کا، دادا کے کسی بھی بیٹے کی موجودگی میں وراثت میں کوئی حصہ نہیں، یہ اللہ تعالی کے کردہ دین و مذہب وشریعت کے موافق ہے
تو آپ قرآن وحدیث سے وہ دلیل و ثبوت پیش کیوں نہیں کرتے جس کے چلتے آپ برابر اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ آخر وہ کونسی شریعت اور دین و مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ نی صرف آپ اور آپ جیسوں کو ہی دے رکھی ہے کیا وہ خفیہ دین و مذہب اور شریعت ہے جس کو ظاہر کرنے اور پیش کرنے سے آپ کترارہے ہیں۔ اور بس محض دعوے پر دعوے ہی کیئے جا رہے ہیں اور اس کاثبو ت و دلیل نہیں دے رہے ہیں۔
یہ آپ ہیں کہ خانہ ساز شریعت کو منزل من اللہ سمجھے بیٹھے ہیں اور یہ گمان کیئے ہوئے ہیں کہ ہم ہی حق اور ہدایت پر ہیں جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں(مسرور احمد الفرائضی )نے جو یہ کہا ہے: اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ یہ معنی و مفہوم اللہ تعالیٰ کے فرمان (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے نکلتا ہے کیونکہ اس آیت میں لفظ (یوصیکم) فعل مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہوتا ہے ۔ اسی طر ح لفظ اولاد بیٹے بیٹی اور ان سب کی اولادوں (درجہ بدرجہ نیچے تک) سب کا جامع اور سب کو شامل ہے یہ میرا خود ساختہ معنی و مفہوم نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کے دلائل و براہین سے ثابت شدہ اور مسلمہ امر ہے۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
ابن داود نے کہا:
یہ مفہوم بھی آپ کا خود ساختہ ہے، اگر یہ مان لیا جائے، تو لازم آتا ہے کہ زندگی میں بھی باپ اپنی بیٹیوں پر بیٹوں پر خرچ کیئے جانے کا نصف خرچ کرے! ''أولاد'' کے حوالہ سے بات اوپر بیان ہو چکی، اور قرآن وحدیث سے آپ کے مفہوم کا بطلان بھی بیان کیا جا چکاہے! آپ کے مفہوم کو منکرین حدیث اور ملحدین ہی تسلیم کرتے ہیں، اور آپ بڑے دھڑلے سے فرماتے ہی کہ'' مسلمہ امر ''ہے! یہ منکرین حدیث و ملحدین کا ''مسلمہ امر'' ہو گا! مسلمانوں کا ''مسلمہ امر'' نہیں!
الجواب:
محترم ابن داود صاحب!
کیا آپ درج ذیل باتوں کو بھی میری خود ساختہ ہی کہیں گے اور کیا یہ باتیں کسی منکر حدیث اور قادیانی کی ہیں:

وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،
فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.

ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (يَا بَنِي آدَمَ)، اے اولادآدم، اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ نبي(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا۔

فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ.

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائد اشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
ويدل عَلَيْهِ: أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ،

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]


مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میرے محترم ابن داود صاحب میں نے جو یہ کہا:
قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
ابن داود نے کہا:
پچھلے مراسلے میں اس کا مفصل بیان گزرا ہے، وہاں دیکھیئے،
الجواب:
محترم ابن داود صاحب! تو کیا ہم یہ مان لیں کہ آپ کے پاس میرے اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ آپ اس سوال کا جواب دینے سے عاجز ہیں۔ کیونکہ پچھلے مراسلہ میں تو میرے اس سوال کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں رہا اور اب بھی اس سوال کا جوب دینے سےعاجز ہیں۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو آپ اس کا جواب دیجئے اور ادھر ادھر کی نہ ہانکیئے۔ اور صرف اسی ایک نکتہ پر بحث کیجئے ادھر ادھر نہ بھاگئے۔
ابن داود نے کہا:
آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس ''ہانکنے'' سے باز رہیں، یہی آپ کے حق میں بہتر ہے!
فکر نہ کریں، ہم کہیں نہیں بھاگ رہے، بلکہ وہ کہتے ہیں، کہ ہم آپ کو بھگا بھگا کر ماریں گے!
یہاں ''بھگا'' میں ''ب'' زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے، دونوں طرح سے محاورے مستعمل ہیں!

الجواب:
جناب من!
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ رہی ہانکنے کی بات تو اس جیسے الفاظ کا آغاز آپ نے ہی کیا ہے۔اور ہم آپ کو آپ کے ہی الفاظ میں (
''بھگا'' رہے ہیں میں ''ب'' کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ) ۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

رہا حق اور باطل کا معاملہ تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرنے والا ہے آپ اور دوسرا کوئی نہیں۔
ابن داود نے کہا:
بالفرض آپ کی یہ بات مان لی جائے، تو آپ اپنی بات کو حق اور دوسروں کی بات کو باطل ، قرآن وحدیث کے خلاف، قرآن وحدیث میں تھریف، قرآن وحدیث کا انکار کہتے ہو تو آپ خود کو ''دوسرا کوئی'' نہیں سمجھتے تو کیا سمجھتے ہو؟
الجواب:
جناب من!
حق تو صرف وہی ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت و احادیث صحیحہ میں ہی ہے اور جو بات قرآن وحدیث میں نہ ہو اور اسے قرآن و حدیث میں تحریف کر کے گھڑا بنایا گیا ہو وہ حق کیسے ہو سکتی ہے؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

حق صرف وہی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے(قرآن و حدیث)۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے: (الحق من ربکم) حق صرف وہی ہے جو تمہارے رب کی جانب سے نازل شدہ ہے یعنی قرآن اور حدیث۔ فقہ و فتاویٰ اور علماء و فقہاء کے اقوال و آراء نہیں۔
ابن داود نے کہا:
فقہ وفتاوی اور علماء وفقہاء کے اقوال و آراء قرآن و حدیث کے موافق بھی ہوتے ہیں، جن کو قبول کیا جاتا ہے، اور اگر قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو انہیں رد کر دیا جاتا ہے!
فقہ وفتاوی اور فقہاء کے اقوال و آراء کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے!
اور آپ بھی ایسا نہیں کرتے، آپ نے بھی اپنے موقف کے اثبات پر فقہ و فتاوی اور فقہاء کے اقوال و آراء نقل کیئے ہیں، یہ الگ بات ہے، کہ آپ کو ان کا مطلب سمجھ نہیں آیا، اور بزعم خویش اپنے موقف پر انہیں دلیل سمجھا، جبکہ وہ آپ کے موقف کو باطل ثابت کرتے ہیں!

الجواب:
جناب من!
آپ کا یہ کہنا کہ (
فقہ وفتاوی اور علماء وفقہاء کے اقوال و آراء قرآن و حدیث کے موافق بھی ہوتے ہیں، جن کو قبول کیا جاتا ہے، اور اگر قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو انہیں رد کر دیا جاتا ہے!
ہم اس کو سو فیصد درست مانتے ہیں لیکن جس مسئلہ کو آپ نے قرآن و حدیث کے موافق سمجھ رکھا ہے وہ قرآن و حدیث کے یکسر مخالف ہیں جو رد کیئے جانے کے ہی قابل ہیں ۔ اسی لیئے تو میں نے تحقیق و تدقیق کے بعد اسے رد کردیا ہے ورنہ اس سے پہلے میں بھی آپ جیسی ہی جہالت کا شکار تھا۔ اگر موافق رہا ہوتا تو میں اسے کبھی رد نہیں کرپاتا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حق صرف وہی ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت و احادیث صحیحہ میں ہی ہے اور جو بات قرآن وحدیث میں نہ ہو اور اسے قرآن و حدیث میں تحریف کر کے گھڑا بنایا گیا ہو وہ حق کیسے ہو سکتی ہے؟ لہذا میں نے اس پر قرآن و حدیث کی کوئی ٹھوس دلیل نہ پائی تو رد کردیا۔ میں آپ کی طرح تقلیدی اہل حدیث تھوڑا ہی ہوں کہ جو بات قرآن و حدیث کے یکسر مخالف ہو اس کو دانتوں سے پکڑے رہوں ۔

-------------------------------------------------------------------
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ) (سورة الأعراف: 3)
یعنی اس حق کی اتباع کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے(قرآن و حدیث)۔اس سے ہٹ کر کسی کو اولیاء جان کر اس کی اتباع نہ کرو۔ تم لوگ بہت کم نصیحت پاتے ہو۔
ورنہ پھر یہ نعرہ لگانا بند کردیجئے: (
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم -*- صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست۔ یعنی : ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔)
کیونکہ اہل حدیث کا دین و مذہب اور نعرہ تو اللہ کے اس فرمان کے موافق ہوتا ہے: (اتبعوا ماانزل الیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ اولیاء)
اللہ کی طرف سے صرف قرآن وحدیث ہی نازل شدہ ہیں فقہ و فتاویٰ، علماء کے اقوال و آراء نہیں۔ اہلحدیث کا مذہب صرف قرآن و حدیث کی اتباع ہے فقہ و فتاویٰ، اور علماء کے اقوال و آراء کی تقلید نہیں ہے۔

ابن داود نے کہا:
ہم نے کب کہا کہ فقہ و فتاویٰ، علماء کے اقوال وآراء اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، فقہ وفتاوی اور علماء کے اقوال و آراء کے متعلق ہم نے اپنا موقف اوپر بیان کردیا ہے، اور وہ فقہ وفتاویٰ، اور علماء کے اقوال وآراء کی تقلید نہیں! لہٰذا آپ کا دررج ذیل نعرہ لگانا بند کرنے کا آپ کا مطالبہ باطل ہے؛
ما اہل حدیثیم، دغا را نشاناسیم * صد شکر کہ در مذہب ما، حیلہ وفن نیست
یعنی ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے۔ صد شکر کہ ہمارے مذہب میں، حیلہ و فنکاری نہیں
فقہ وفتاوی کے حوالہ سے مزید بیان بعد میں آئے گا!

الجواب:
جناب من!
ہم نے بھی (
فقہ وفتاوی اور علماء کے اقوال و آراء کے متعلق اپنا واضح اور دو ٹوک موقف اوپر بیان کردیا ہے) لہذا ہم یہ نعرہ لگانے کے مستحق ہیں آپ ہرگز نہیں ہیں کیونکہ آپ قرآن وحدیث میں لکھی ہوئی باتوں کی اتباع و پیروی کرنے کے بجائے اپنے (فقہ وفتاوی اور علماء کے اقوال و آراء) کی اندھی تقلید کر رہے ہیں۔

ؐ-------------------------------------------------------------------
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ میں حقداری و حصہ داری کے انکار کو اللہ و رسول کے کلام میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ اخذ شدہ معنی و مفہوم اور اس سے مستنبط حکم کو چونکہ آپ نے اللہ کا دین و شریعت سمجھ لیا ہے اور یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث ثابت کرنے کی کوششوں کو دین و شریعت کی بہت بڑی خدمت جان رکھا ہے اسی لئے آپ یہ خدمت بہت سارے لوگوں کی طرح انجام بڑے شد و مد سے دےرہے ہیں۔
اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب آپ سطحیت کا شکار ہو رہے ہیں اور ادب و تمیز کا دامن آپ سے چھوٹ رہا ہے اور میرے خیال میں آپ مجھے نام نہاد اہل قرآن منکر حدیث سمجھ کر مجھ سے مخاطب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے کہا : (
اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!)
اس طرح آنجناب مجھ ناچیز کو جہالت، بیوقوفی کم علمی اور کج فہمی جیسے القاب و آداب سے نواز رہے ہیں ۔ یہ الفاظ ہمیں بھی لکھنا آتا ہے لیکن ہم ان جیسے الفاظ کا استعمال کسی علمی مباحثے میں جائز نہیں سمجھتے۔ یہ ایک علمی مباحثہ ہے جو ادب و تہذیب کے دائرے میں ہی ہو تو بہتر ہے ۔

ابن داود نے کہا:
یہ تو آپ کا تجاہل عارفانہ ہے، کہ آپ ہمیں اس بات پر مطعون کرنا چاہتے ہیں، کہ ہم نے آپ کے لئے، جہالت، کم علمی اور کج فہمی کے الفاظ استعمال کئے، اور خود کو یاد نہیں رہتا، کہ خود کیا کچھ رقم کر آئے ہیں! بطور نمونہ آپ کے الفاظ پیش کرتا ہوں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ایسا کہنا قطعا غلط بے بنیاد جھوٹ اور فریب ہے نیز اللہ و رسول کے فرمان کے منافی ہے اور اللہ و رسول پر کھلی افتراء پردازی ہے۔
ابن داود نے کہا:
اب جب آپ اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت میں دوسروں پر جھوٹ، فریب، اور اللہ اور رسول اللہ پر افترا پردازی کی تہمت دھرتے ہیں، تو اسے آپ کی کم علمی، کج فہمی اور جہالت ہی کہا جائے گا! یہ تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر کہہ دیا! لیکن آپ یہ جو مستقل، اللہ اور رسول اللہ کے کلام میں لفظی اور معنوی تحریف کہ تہمت دھرتے جا رہے ہیں، اس میں معنوی تحریف کی تہمت تو آپ نے اپنی کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر لگا دی! لیکن یہ ''لفظی'' تحریف کی تہمت دھرنا، تو بالکل بیوقوفی ہے! اب آپ سے اگر کہا جائے، کہ اس پورے تھریڈ سے اس عبارت کا اقتباس پیش کریں، کہ جہاں کوئی اللہ اور اس کے کلام میں ''لفظی'' تحریف کا مرتکب ہوا ہو! تو آپ قطعاً وہ عبارت پیش نہیں کر سکتے!
تو میرے بھائی! آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
﴿﴾ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

الجواب:
جناب من!
یہ جو منگھڑت مسئلہ ہے جسے آپ اور آپ جیسے دیگر لوگ وحی الٰہی سمجھے ہوئے ہیں وہ صریحی طور پر قرآن وحدیث میں لفظی و معنوی تحریف کے ذریعہ گھڑا بنایا گیا ہے۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے اور میں نے اسے ثابت بھی کیا ہے لیکن آپ اسے میری (
کم علمی، کج فہمی اور جہالت کی بنا پر لگا ئی گئی تہمت قرار دے رہے ہیں!
جب کہ آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
زیر بحث مسئلہ میں بات بس اتنی سی ہے کہ آیا دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بنتا ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث ہے؟ ۔ اور یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا نہیں؟ ۔ کیا یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے یا اس کے اقرباء میں سےہے؟۔ اور قرآن و حدیث کی کون سے دلیل سے یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا؟۔

ابن داود نے کہا:
جی! یہ زیر بحث مسئلہ ہے! مگر یہاں ایک سوال اور بھی ہے، کہ کیا تمام ذریت حقیقی أولاد ہے؟
الجواب:
جی ہاں تمام ذریت ہی حقیقی اولاد ہے اور حقیقی اولاد کو ہی ذریت کہتے ہیں جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (83) وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (84) وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ (85) وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ (86) وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (87) [سورة الأنعام]
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا
لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَ أَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا (61) قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا (62) قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا (63)
[سورة الإسراء]
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (27) [سورة العنكبوت]
وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ (75) وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (76) وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ (77) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (78) سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ (79) [سورة الصافات]
دیکھا آپ نے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اولادو ذریت کا ذکر کیا ہے۔ کہ آدم کی اولاد وذریت تمام انسانوں کو قرار دیا۔ اس کے بعد نوح کی ذریت کو باقی رکھنے اور باقی اولاد و ذریت آدم کو فنا کر دینے کی بات کہی پھر ابراہیم اور ان کی ذریت کی بات کی جن میں ایک اسماعیل اور دوسرے اسحاق و یعقوب۔ اور ابراہیم کی ذریت میں سے ہی ہمارے پیارے نبی و رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی و رسول بنایا اور امام الانبیاء و خاتم النبیین قرار دیا۔
لیکن شاید یہ باتیں آپ کی اعلیٰ و ارفع فہم سے بالا تر ہوں؟
پس معلوم ہوا کہ جو بھی کسی کی ذریت میں سے ہے وہ تمام ہی اس کی حقیقی اولاد ہیں اور وہ ان تمام کا والد و باپ ہے۔

تو زیر بحث مسئلہ میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اس کا دادا حقیقی والد و باپ ہے ان میں سے کوئی کسی کا قریبی نہیں ہے پس یتیم پوتا اپنے دادا کے اقرباء میں سے نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ساری بحث کا محور بس یہ چند نکات ہیں جس کے تعلق سے میں نے چند آیات اور احادیث کو بطور دلائل پیش کیا اور اس سلسلہ میں صحیح بخاری کا یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اس پر اللہ کے رسول کا فرمان اور فیصلہ بھی پیش کیا جس میں اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا ہے۔
ابن داود نے کہا:
اور ہم نے اس بتلایا ہے کہ نہ امام بخاری سے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کے موقف پر ثبوت و دلیل ہے، بلکہ وہ آپ کے موقف کے بطلان پر ثبوت ودلیل ہیں!
آپ کا کہنا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کا جو حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اسی میں سے دیا، بالکل باطل ہے!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، جو کہ ایک بیٹی ہونے کی صورت میں اس کا حصہ اللہ نے مقرر کیا ہے، اگر پوتی کا شمار بیٹیوں میں کیا جاتا، تو دونوں کو یعنی پوتی اور پھوپی کو برابر کا حصہ ملنا چاہیئے تھا! مگر ایسا ہے نہیں!

الجواب:
یہ بالکل ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کم و بیش جس کا جتنا بھی حصہ نکلتا ہے اس کو فریضہ کہا ہے جیسا کہ فرمایا: (لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) (سورة النساء: 7)
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ). (سورة النساء: 11)

اگر پوتی کو بیٹیوں میں شمار نہیں کیا گیا تھا تو پھر کس بنیاد پر یتیم پوتی کو اللہ کے رسول نے حصہ دیا تھا۔ آخر پوتی دادا کی کیا لگتی تھی ماں دادی یا نانی یا اخیافی بہن ؟؟؟ کیونکہ بقول آپ کے پوتی اپنے دادا کی بیٹی اور اولاد یقینا نہیں تھی۔ تو آخر کیا تھی۔ اس کا جواب آپ کو دینا ہی ہوگا۔ اگر دنیا میں نہیں دیا تو بروز قیامت اللہ کے سامنے ضرور بالضرور دینا ہوگا۔
یہ تو آپ مجھ کو نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ خود اللہ کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے رسول کے فیصلہ کو باطل ٹھہرا رہے ہیں کیونکہ میں نے نہیں بلکہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو حصہ دیا اور یقینی طور پر بیٹی و اولاد مان کر ہی دیا اور اللہ کے حکم اور فرمان :
(وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ)، (فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) کے بموجب ہی دیا ورنہ قرآن میں نہ تو بیٹے بیٹی کا ذکر ہے اور نہ ہی پوتے پوتی کا ہی ذکر ہے۔
اور اسی آیت کے تناظر میں امام بخاری نے بیٹے بیٹی، پوتے پوتی سب کے لیئے الگ الگ ابواب باندھے ہیں۔ اب آپ کی جہالت و حماقت ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ اور آپ برابر جھٹلائے جا رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

علمائے اہل حدیث سے چند سوالات:
تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو کیا ایسا کرنا (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ کی قرآن اور شریعت سے جہالت کے نتیجہ میں تھی؟ اور کیا اللہ کے رسول کج فہم اور کم علم، گمراہ فکر ، گمراہی پھیلانے والے تھے، اور کیا آپ نے قرآن کی آیت میں لفظی و معنوی تحریف کر کے ایسا کیا تھا؟ یا انہوں نے الاقرب فالاقرب کے قانون جو کہ ان کے بعد کے لوگوں نے گڑھ بنا رکھا ہے سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کیا تھا؟۔

میرے یہ سوالات صرف آپ سے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں سے ہیں جو اتباع قرآن وسنت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور انہوں نے دین و شریعت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اور انہیں مجھ جیسی کج فہمی اور کم علمی، گمراہ فکر ی اور گمراہی کا مرض لاحق نہیں ہے۔ تو وہ میرے ان سوالات کا جواب صرف اور صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث صحیحہ سے دیں ؟۔ میں مشکور ہونگا اور وہ آخرت میں اجر ثواب کے مستحق ہونگے ۔ اور اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر دیں جو اس نے آیات مواریث کے ضمن میں فرمایا ہے: (
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)[سورة النساء])
ابن داود نے کہا:
دیکھیں: جواب تو آپ کو دیا گیا ہے، مگر آپ یا تو اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، یا تسلیم کرنے سے گریزاں!
الجواب:
جناب من جس کو آپ جواب کہہ رہے ہیں وہ جوب نہیں بلکہ وہ محض بکواس ہےجسے آپ جواب دینا کہہ رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
خیر ایک بار پھر کوشش کریں گے!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں نے صرف اتنی سی بات کہی تھی کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد و ذریت میں سے ہے

ابن داود نے کہا:
آپ کی یہ ''اتنی سی بات'' باطل ہے، اور اسی باطل کی بنیاد پر آپ نے باطل موقف قائم کررکھا ہے!
الجواب:
یہ اتنی سی بات میری نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی کہی ہوئی باتیں ہیں جسے آپ برابر باطل قرار دے رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اس کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے۔ اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
ابن داود نے کہا:
اب اگر پاب، تایا ، چچا میں سے چچا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، تایا بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور باپ بھی دادا کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے، اور ''اسی طرح'' اگر پوتے کو بھی ''بیٹوں میں سے بیٹا'' مانا جائے! تو لازم آتا ہے کہ باپ کے حیات ہوتے ہوئے دادا کی وراثٹ تایا، اور اسے کے بیٹوں، چچا اور اس کے بیٹوں، باپ اور اس کے بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے۔ کیونکہ پوتا بھی باپ کی طرح بیٹا ہے!
الجواب:
جناب من!
آپ کا یہ کہنا: (
اگر پوتے کو بھی ''بیٹوں میں سے بیٹا'' مانا جائے! تو لازم آتا ہے کہ باپ کے حیات ہوتے ہوئے دادا کی وراثٹ تایا، اور اسے کے بیٹوں، چچا اور اس کے بیٹوں، باپ اور اس کے بیٹوں میں برابر تقسیم کی جائے۔ کیونکہ پوتا بھی باپ کی طرح بیٹا ہے!) ۔
بالکل ہی غلط ہے کیونکہ پوتے اپنے اپنے باپ کے واسطوں سے اپنے دادا کی اولاد و بیٹے ہیں تو جس پوتے کا باپ موجود ہے اس کا واسطہ موجود ہے اور اسے اس کے باپ کے واسطے سے اس کو ملے گا اور جس کا باپ موجود نہیں اسے براہ راست ملے گا کیونکہ اس کا دادا اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کا راست طور پر وارث ہوگیا ہے۔ تو جس پوتے کا باپ زندہ ہے اسکو راست طور پر نہیں ملے گا ۔ اور جس کا باپ زندہ نہیں ہے اسکو راست طور پر ملے گا ۔
مناب عالی!
در اصل آپ نے اسلام کے نظام وراثت کو سمجھا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اولاد والد کے معنی و مفہوم اور مصداق کو ہی سمجھ پا رہے ہیں اسی لیئے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں کیئے جا رہے ہیں۔ میراث کہتے ہی اس چیز کو ہیں جو باپ دادا سے بیٹوں پوتوں کو اور ان کے بعد کے لوگوں کو ملتی چلی جائے۔ اسی لیئے باپ دادا سے چلی آرہی چیز کو میراث کہتے ہیں جس میں اموال و املاک اور عادات و خصائل شکل و شباہت سبھی چیزیں آتی ہیں جن میں سے اموال و املاک کے علاوہ باقی ساری چیزیں اللہ تعالیٰ باپ دادوں سے ان کی اولادوں کی طرف راست طور پر منتقل کرتا رہتاہے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول سے ان کے نواسے حسین کی شکل و صورت ملتی جلتی تھی۔ جہاں تک مال کی منتقلی کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو انسان کی وفات کے بعد اس کی اولاد اور وارثوں کو منتقل کرنے کے لیئے انسانوں کے اوپر چھوڑ دیا ہے اور اس کی تقسیم کا ایک مستقل جامع و کامل و مکمل نظام بنا کر نازل کردیا ہے جسے فرائض و مواریث اور نظام تقسیم ترکہ کہا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد انسانی تخلیق، توالد و تناسل کے نظام پر رکھی گئی ہے۔ جس کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے اور جو لوگ اس کا لحاظ نہیں کرتے اور نہیں رکھتے ہیں وہی لوگ لا یعنی اور اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں جیسا کہ آپ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن بنیادی وارثوں کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے اولین وارث مرنے والوں کی خود کی اولادیں ہیں چاہے وہ بیٹے بیٹیاں ہوں یا ان کے بیٹے بیٹیاں یعنی پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہوں سب کے سب اس کے بنیادی وارثیں ہیں اور ان میں بھی مذکر اولادوں کو سارے وارثوں کے اوپر فوقیت دی گئی ہے اور وہی پورے نظام کا بنیادی نکتہ اور محور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وارث کے حق و حصہ کا ذکر اللہ تعالیٰ دو طرح کرتا ہے ایک اس صورت میں جب کہ میت صاحب اولاد ہو اور دوسری صورت جب میت صاحب اولاد نہ ہو۔ چنانچہ اگر میت صاحب اولاد مرا ہو اور اس کی اولاد میں سے کوئی ایک بھی شخص پایا جاتا ہو خواہ وہ کتنے ہی نچلے طبقہ کا ہی کیوں نہ ہو سارے احکام بدل جائیں گے مثلا کوئی شخص ایسا ہو جس کے بہت سارے وارث ہوں مثلا باپ دادا پر دادا، ماں دادی، نانی وغیرہ بیوی بھائی بہنیں ہوں اور اس کی اولاد میں سے صرف ایک شخص ایسا موجود ہو جو اس کے پرپوتے کا پر پوتا ہو۔ تو مرنے والے کا ترکہ صرف اس کی بیوی کو ملے گا اور ماں باپ کو اور باقی سارے ورثاء چھٹ جائیں گے اور کسی کو کچھ بھی نہ ملے گا۔ ترکہ کے کل (۲۴) حصے کیئے جائیں گے جن میں سے باپ کو (۴) ماں کو (۴) بیوی کو (۳) اور باقی سب یعنی (۱۳) حصہ پرپوتے کا پر پوتا لے لیگا۔ تو پرپوتے کا یہ پر پوتا اس لیئے سارا مال لے لیگا کیونکہ وہ مرنے والے کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ یہ ہے اللہ کا نظام جو اس نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے۔
آپ کا جو سوال ہے وہ انتہائی احمقانہ ہے۔ کیونکہ آپ نہ تو انسانی رشتوں کے نظام کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی توارث کے نظام کو ہی سمجھتے ہیں۔ اگر سمجھ رہے ہوتے تو اس قسم کے احمقانہ و بے تکے سوال نہ داغتے اور کٹھ حجتیاں نہ کرتے۔
میت کے والدیں صرف دو ہوتے ہیں ایک ماں اور دوسرے باپ تو اگر باپ ماں نہیں ہوتے ہیں تو ان کی جگہ ان کے اوپر کے ماں باپ لے لیتے ہیں لہذا اس میں کسی کو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کے درجہ میں دوسرا کوئی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب اولاد کا معاملہ آتا ہے خاص کر یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا تو لوگ بے شمار اشکالات شکوک و شبہات پیش کرتے اور کٹھ حجتیاں کرتے ہیں جیسا کہ آپ کر رہے ہیں۔ چونکہ میت کی اولاد میں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں ہوا کرتے ہیں اور ایسا بہت ہوتا ہے کہ ان میں کا کوئی ایک یا کئی ایک بیٹا یا بیٹی اپنے باپ کے جیتے جی ہیں مرجاتے ہیں تو ایک بڑا مسئلہ لوگ کھڑا کردیتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ بیٹا میت سے قریب ہے اس لیئے وہی اس کے مال کا اصل حقدار ہے اور یتیم پوتے دور کے قریبی ہیں اس لیئے وہ محجوب ہیں جیسا کہ آپ نے مسئلہ کھڑا کر رکھا ہے۔ تو شیطان نے اس بات کو اس درجہ لوگوں کے ذہن و دماغ میں بٹھا دیا اور اس کو اتنا مزین کردیا ہے کہ بس اس کے علاوہ دوسرا کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ جیسا کہ آپ اس کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ایک نمونہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ انسان کی جو بھی بیٹے یا بیٹیاں بطور اولادیں پیدا کرتا ہے ان میں سے ہر ایک اس کی مستقل اولاد اور ایک مستقل نسل کے نمائندے اور مستقل شاخیں ہوا کرتی ہیں۔ اور ہر ایک کی حد بندی اس نے کی ہوئی ہوتی ہے لہذا ان میں سے ہر ایک کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یوں بیان بھی فرمایا ہے کہ یہ وارث ان کے حقوق و حصے اور حصہ داریاں اور جملہ احکام میراث فرائض الٰہی اور حدود الٰہی ہیں جن کی پاسداری کرنا واجب و فرض ہے اور اس کی خلاف ورزی کا انجام ہمیشہ کے لیئے جہنم کی دائمی آگ ہے۔ (دیکھئے: سورہ نساء آیت نمبر: ۱۱۳ تا ۱۴)
مرنے والے شخص کی اولاد میں چونکہ متعدد بیٹے بیٹیاں ہوتے ہیں اور ان کے بھی بیٹے بیٹیاں ہوتے ہیں اور سبھی اس کی اولادیں ہیں جن میں سے بیٹے بیٹیاں بلا واسطہ اولادیں ہیں اور ان کے بیٹے بیٹیاں ان کے واسطے سے مرنے والے کی اولادیں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے جو حصہ مقرر کیا ہے وہ اول بلا واسطہ اولادوں کے لیئے ہے اور ان کے توسط سے ان کی بالواسطہ اولادوں کے لیئے ہے۔ تو حق و حصہ تو سبھی کا بنتا ہے اور ملنا بھی سب کو ہے۔ لیکن سب کو بیک وقت نہیں ملے گا بلکہ ہر ایک کے واسطوں کا لحاظ کر کے ہی ملے گا تو جو بلا واسطہ ہے اسے بلا واسطہ ملے گا اور جو بالواسطہ ہے اسے اس کے واسطے سے ملے گا۔ اسی بنیاد پر علماء نے یہ اصول بنا رکھا ہے :

وفريق يرثون بحال ويحجبون بحال هذا مبنى على أصلين:
أحدهما: (هو أن كل من يدلي إلى الميت بشخص لا يرث مع وجود ذلك الشخص سوى أولاد الأم فإنهم يرثون معها لانعدام استحقاقها جميع التركة). والثاني: (الأقرب فالأقرب كما ذكرنا في العصبات).
[السراجي في الميراث: ص ٢٧]
یعنی کسی وارث کے محجوب قرار پانے کی بنیاد دواصولوں پر ہے جن میں کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی میت سے قربت کسی دوسرے شخص کے واسطے سے رکھتا ہے تو اس کے محجوب اور وارث ہونے کے لئے اصول یہ ہے کہ جب وہ شخص جو کہ اپنے بعد والے کے لئے واسطہ ہے موجود رہے گا تو اس کی موجودگی کی وجہ سے اس کے بعد والا محجوب اور محروم الارث قرار پائے گاکیونکہ اس کی موجودگی میں وہ وارث نہیں ہوگا سوائے ماں جائی اولاد (اخیافی بھائی بہن ) کے کیونکہ وہ ماں کے ہوتے ہوئے بھی اس کے ساتھ وارث ہوں گے اس لئے کہ وہ تمام ترکہ کے مستحق نہیں ہوتے ہیں،اسی کے برعکس اگروہ شخص موجود نہیں رہتا ہے جو کہ اپنے بعدوالے کے لئے واسطہ ہے تو اس کے بعد والا اس کی عدم موجودگی میں وارث ہوگاز
اس کو مثال سے یوں سمجھئے: ابو بکر کے دو بیٹے ہیں عمر اور بشیر اور ان دونوں میں سے عمر کے تین بیٹے(زاہد،خالد،راشد) ہیں اور بشیر کے ایک ہی بیٹا(انیس)ہے ابو بکر کی زندگی میں ہی عمر کا انتقال ہوجاتا ہے ایسی صورت میں اس کے تینوں بیٹے اس کے درجہ میں آجائیں گے اور ابو بکر (دادا) اور عمر کے تینوں بیٹوں (یتیم پوتوں) کے درمیان کا حجب ختم ہوجائے گا اور دونوں ایک دوسرے کے براہ راست وارث ہوں گے کیونکہ جو واسطہ(عمر) اور ان دونوں (دادااور یتیم پوتوں ) کے درمیان تھا اور دونوں کے لئے حجب، رکاوٹ اور آڑ تھا وہ اب نہیں رہا اس لئے ان یتیم پوتوں میں سے کسی ایک کے پہلے مر جانے کی صورت میں اس کا وارث براہ راست باپ کے قائم مقام دادا ہوگا اور اگر دادا پہلے مر جاتا ہے تو یہ یتیم پوتے اپنے باپ کے قائم مقام کے طور پر دادا کے ترکہ میں سے اپنے باپ کے حق کے وارث اور حقدار ہیں ۔
اسی کے برخلاف چونکہ ابو بکر کی موت کے وقت بشیر زندہ رہا اسلئے وہی وارث ہوگا اور اس کا بیٹا محجوب ہوگا کیونکہ بشیر اپنے بیٹے کے لئے واسطہ ہے اور وہ موجود ہے لہذا اس کا بیٹا اپنے واسطہ کی موجودگی میں محجوب ہوگا، اور چونکہ بشیر کا بیٹا اپنے باپ کے توسط سے ہی ابوبکر کی اولادو وارث ہے لہذابشیر کی موجودگی اس کے بیٹے کو محجوب کر دے گی،اسی طرح اگر بشیر کا بیٹا پہلے مر جائے تو بشیر وارث ہوگا اور بشیر کا باپ یعنی بشیر کا دادا (ابوبکر)محجوب ہوگا۔
اس طریقہ سے اصولی طور پر بھی یتیم پوتا اپنے باپ کی عدم موجودگی میں چونکہ اپنے باپ کے درجہ میں آجا تا ہے پس بطور اس کے وارث اور قائم مقام کے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کے حصے کا وارث اور حقدار ہے،محجوب نہیں ہے اس لئے اس کو محجوب قرار دے کر اس کے باپ کے حق سے محروم کرنا صریحی طور پر ظلم اور اس کی حق تلفی اور موجب جہنم عمل ہے ۔


مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اس کا دادا اس کا حقیقی والد و باپ ہے ۔
ابن داود نے کہا:
دادا پوتے کا حقیقی والد نہیں! یہ بات بالتفصیل گزشتہ مراسلہ میں بیان ہوئی!
الجواب:
در اصل یہی وہ گمراہی ہے جس کے چلتے سارا معاملہ خراب ہوا ہے۔ اگر دادا حقیقی والد نہیں تو پھر کس حق سے وہ اپنے یتیم پوتے کا وارث و حقدار مانا جاتا ہے؟ اور اگر پوتے کا حقیقی والد نہیں تو پھر دادا کے لیئے اس کی بیوی حلال ہوئی اور اس کے لیئے اس کے دادا کی بیوی حلال ٹھہری۔ در اصل دنیا میں ایسے پاگلوں کی کمی نہیں ہے اور اگر اس میں سے ایک آپ بھی ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جس طرح اس کے باپ کی عدم موجودگی میں اس کا دادا بمنزلہ والد و باپ کے اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے اس کا یتیم پوتا بھی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد و بیٹے کے اپنے باپ کی جگہ اس کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
ابن داود نے کہا:
اول تو یہ سمجھنا چاہیئے، کہ جب ''بمنزلہ والد و پاب'' کہا ہے، تو لازم آتا ہے کہ دادا حقیقی والد اور باپ نہیں! کیونکہ ''حقیقی'' کو ''بمنزلہ'' ہونے کی حاجت نہیں ہوتی، اور جو ''بمنزلہ'' ہو وہ ''حقیقی'' نہیں ہوتا!
مسئلہ ہمارا ''باپ'' کے لفظ پر نہیں! مسئلہ ''والد'' کے لفظ کا ہے،

دوم کہ باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا وارث ہونا، صحیح حدیث سے ثابت ہے، جبکہ محض باپ کی عدم موجودگی میں پوتے کا وارث ہونا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ حدیث سے ثابت ہے، بلکہ دادا کی وراثت میں پوتے کے وارث ہونا ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے، وہ یہ کہ دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
الجواب:

باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا وارث ہونا کس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ؟ پیش کیجیئے؟ اور کس حدیث میں لکھا ہے کہ دادا کی وراثت میں یتیم پوتے کا حصہ نہیں ہوتا ہے پیش کیجیئے۔ اور قرآن کی کس آیت یا کس حدیث میں یہ شرط لکھی ہوئی ہے دادا کی کوئی مذکر اولاد نہ ہو تب یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا؟ ۔
ہم تو اسی کا مطالبہ آپ سے برابر کیئے جا رہے ہیں اور اس کا جواب نہ دیکر بس یوں ہی ہانکے چلے جا رہے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس ایسی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ہے جس میں یہ شرط لکھی ہوئی ہو کہ یتیم پوتا اسی وقت پائے گا جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہیں ہوگا۔
کہاں لکھا ہوا ہے ہم اسی کو تو برسوں سے قرآن و حدیث میں ڈھونڈھ رہے ہیں جو ہمیں اب تک نہیں مل پائی اور آپ ہیں کہ اس کو چھپائے بیٹھے ہیں۔ جلدی پیش کر دیجئے تا کہ ہم اس کو جلدی سے مان لیں۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے اور تا قیامت ہرگز ہرگز ایسا نہیں کر پائیں گے تو جان لیجئے کہ جہنم آپ کا انتظار کر رہی ہے ۔
میرے بھائی!
اول تو آپ والد و اولاد اور اب و ابن (باپ بیٹا) کا معنی و مفہوم اور فرق ہی نہیں جانتے سمجھتے ۔ اور حقیقی و بمنزلہ کا بھی مطلب نہیں سمجھتے ہیں۔
کس نے کہا آپ سے کہ دادا حقیقی والد و باپ نہیں؟۔ کہاں کس کتاب میں لکھا ہوا ہے؟ قرآن کی کون سی آیت میں ہے؟ اور کس حدیث میں لکھا ہوا ہے؟ پیش کیجیئے؟
میں کہتا ہوں کہ دادا حقیقی والد ہے اسی لیئے تو وہ بمنزلہ باپ کے ہے۔ اور یتیم پوتا حقیقی اولاد ہے اسی لیئے تو وہ بمنزلہ بیٹے کے ہے۔ جب باپ موجود ہے تو دادا باوجود حقیقی والد ہونے کے باپ کے درجہ میں نہیں ہوگا اور جب وہ نہیں رہے گا تب باپ کے درجہ میں ہوجائے گا۔ اسی طرح جب بیٹا موجود ہے تو جب تک وہ موجود ہے اس کا بیٹا باوجود حقیقی اولاد ہونے کے اس کے درجہ میں نہیں آئے گا۔ اور جب نہیں رہے گا تب اس کے درجہ میں آئے گا۔

ابن داود نے کہا: ویسے تو یہ تفصیل سے بیان ہوا ہے! پھر بھی آگے مزید تفصیل آئے گی!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اس کا واسطہ اس کا باپ تھا جو اب موجود نہیں رہا تو بمنزلہ اولاد میت کے اپنے باپ کی جگہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔
ابن داود نے کہا:
پہلے تو آپ اس بات کا فیصلہ کر لیں، کہ آپ پوتے کو دادا کی ''حقیقی أولاد'' مانتے ہیں، یا ''بمنزلہ أولاد'' دوم یہ آپ کامدعا ہے، جس پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں!
الجواب:
اس کا فیصلہ تو اللہ و رسول نے بنفس نفیس کر دیا ہے ہم کون ہوتے ہیں اس کا فیصلہ کرنے والے ۔ اللہ کی کھلی ہوئی کتاب موجود ہے اس کے رسول کی صحیح احادیث موجود ہیں اس میں ڈھونڈھ لیجیئے چونکہ اللہ و رسول نے پوتوں کو اس کے دادا کی حقیقی اولاد مانا ہے اور بمنزلہ اولاد بھی بنایا ہے کیونکہ اگر پوتا اپنے دادا کی حقیقی اولاد نہ ہوتا تو بمنزلہ اولاد بھی نہ بنتا۔ در اصل آپ کی مصیبت یہ ہے کہ آپ نہ تو اولاد کا ہی مفہوم و مصد اق سمجھتے ہیں اور نہ ہی حقیقی و بمنزلہ ہونے کا ہی مفہوم و مطلب سمجھتے ہیں۔ اور نہ ہی اب و ابن( باپ بیٹا) کا فرق ہی سمجھتے ہیں ۔
جناب من!
بمنزلہ اولاد وہی شخص ہوگا جو در اصل حقیقی اولاد ہوگا کیونکہ جو حقیقی اولاد نہ ہو وہ کبھی بمنزلہ اولاد نہیں ہو سکتا۔ آئیے ہم آپ کو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں ۔ (شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات)۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کے صرف ایک پڑ پوتا تھا جو یتیم تھا اور چندمہینوں کا تھا اور اس نے اپنے بھائی کے ایک بیٹے کو بیٹا بنا کر پال رکھا تھا۔ اب اس شخص کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اور اپنے پیچھے کروڑوں کی اموال و املاک چھوڑتا ہے۔ اور صرف دو شخص بطور اس کے وارثوں کے ہیں ایک تو یتیم پڑپوتا ہے یہ بھی اس کا بیٹا ہے۔ اور دوسرا اس کے بھائی کا بیٹا ہے جو اس کا بھتیجا ہے جس کو اس نے بیٹے کی طرح پالا پوسا ہے۔ یہ بھی اس کا بیٹا ہے۔ لیکن اس کی کروڑوں کی اموال و املاک کل کی کل ان دونوں بیٹوں میں سے صرف اس کے یتیم پڑپوتے کو ہی ملے گی اور اس کے دوسرے بیٹے یعنی بھائی کے بیٹے (بھتیجہ) کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔ جب کہ دونوں ہی اس کے بیٹے ہیں تو آپ کے نزدیک تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں ملنا چاہیئے کیونکہ آپ کے نزدیک تو چونکہ پوتے پڑپوتے حقیقی اولاد نہیں ہیں اس لیئے اس یتیم پڑپوتے کا کوئی حق اپنے پردادا کے مال میں نہیں بنتا ہے۔ چونکہ آپ کی نام نہاد شریعت میں تو قریب سے قریب تر ہی وارث ہوتا ہے اور دور والا محجوب ہوتا ہے۔ اس لیئے بھائی کا بیٹا جو کہ اس کا بھی بیٹا ہے اور اس نے بیٹے کی طرح ہی اسے پالا پوسا بھی ہے اس لیئے آپ کی نام نہاد شریعت کے مطابق بھائی کا بیٹا جو کہ اس کا بھی بیٹا ہے اس کے ترکہ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
لیکن اللہ کی شریعت میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں یوں ہے کہ ان دونوں بیٹوں میں سے صرف اس کے یتیم پڑپوتے کو ہی سارا ترکہ ملے گا اور اس کے دوسرے بیٹے یعنی بھائی کے بیٹے (بھتیجہ) کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔ کیونکہ اس کا یتیم پڑپوتا حقیقی اولاد ہے اس لیئے بمنزلہ اولاد اس کے حقیقی اولاد و بیٹے کی جگہ لے گا اور سارے ترکہ کا مستحق بنے گا۔ اور اس کا دوسرا بیٹا یعنی بھائی کا بیٹا (بھتیجہ) پھوٹی کوڑی بھی نہیں پائے گا کیونکہ وہ حقیقی اولاد و حقیقی بیٹا نہیں ہے۔ اس لیے وہ بمنزلہ اولاد و بیٹا نہیں ہوگا۔
امید ہے کہ اس مثال سے آپ کو اولاد، بیٹے، حقیقی غیر حقیقی بمنزلہ ہونے کا فرق سمجھ میں آجائے۔ اور اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو کسی دماغ کے ڈکٹر سے اپنے دل و دماغ کو صحیح ڈھنگ سے چیک کراکر اس کا صحیح سے علاج کرا لیجیے ۔ اللہ آپ کو شفائے عاجل و کامل عطا فرمائے۔ اور پھر بھی دماغ درست نہ ہو پائے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ جیسے لوگوں کا بہترین علاج مرنے کے بعد پہلے تو قبر میں اور پھر بروز قیامت جہنم کی دہکتی ہوئی ذلیل و رسوا کر دینے والی آگ میں کرے گا۔ اس کے لیئے تیار رہیئے گا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اس پر بین دلیل اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا ہے۔ اس کے بر خلاف ایسی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں پائی جاتی ہے۔ لہذا اس مسئلہ پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے؟
ابن داود نے کہا:
اس حدیث میں میت کی یعنی دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے کی شرط پوری ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کو دادا کی مذکر أولا کے ہوتے ہوئے بھی پوتے پوتی کی وراثت پر دلیل بنانا باطل ہے!
الجواب:

یہ شرط کس آیت قرآنی، و حدیث صحیح میں لکھی ہوئی ہے ذرا اس کو دکھائیے تو سہی۔ در اصل بلا دلیل کتاب و سنت کوئی بھی چیز باطل قرار پاتی ہے ۔ ہم برابر آپ سے یہی تو مطالبہ کیئے جا رہے ہیں۔ کہ وہ آیت یا حدیث دکھائیے جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ دادا کے کسی بھی بیٹے کے نہ ہونے پر ہی کوئی پوتا اپنے دادا کے ترکہ کا مستحق ہوگا۔ جب آپ کے بقول صرف بیٹا بیٹی ہی حقیقی بیٹے بیٹی اور حقیقی اولاد ہیں اور پوتے پوتیاں مجازی بیٹے بیٹیاں اور مجازی اولادیں ہیں تو آخر اللہ کے رسول نے حقیقی اولاد و حقیقی بیٹی کے ہوتے ہوئے مجازی اولاد اور مجازی بیٹی کو آخر حصہ کیوں دیا۔ اگرا یسا کرنا آپ باطل قرار دے رہے ہیں تو گویا آپ کے نزدیک اور آپ کے بقول اللہ کے رسول نے (نعوذ باللہ) ایک باطل کام کیا؟
اگر یہ حدیث کسی بیٹے بیٹی کے ہوتے دوسرے بیٹے بیٹی کی اولاد و بیٹے بیٹیوں ( یتیم پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں ) کی وراثت پر دلیل نہیں تو پھر کس چیز پر دلیل ہے؟
(
میت کی یعنی دادا کی مذکر أولاد کے نہ ہونے کی شرط پوری ہوتی ہے)واس کی دلیل آپ نے کس آیت قرآنی سے لی ہے یا کس حدیث سے آپ کو یہ شرط ملی ہے۔ اس کو آپ کو دکھانا ہوگا۔ آپ کی اس افتراء پردازی اور اللہ و رسول پر جھوٹ گھڑنے پر بروز قیامت اللہ تعالیٰ تو آپ سے باز پرس کرے گا ہی کرے گا ۔ یتیم پوتا بھی آپ کا دامن پکڑے گا اور میں بھی آپ کا گریبان پکڑوں گا۔ اس بات کو یاد رکھیئے گا اور اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیجئے گا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

چونکہ نام نہاد اہل قرآن، منکرین حدیث حضرات نے اس مسئلہ کو اچھال کر احادیث و سنت رسول کی حجیت کا انکار کیا اور احادیث کے مصدر تشریع ہونے کا انکار کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ احادیث حجت اور مصدر تشریع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ حجت ہوتیں تو اس مسئلہ کا بھی اس حل موجود ہوتا؟ تو ہم نے اس کے جواب میں ہم نے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی کہ احادیث رسول بھی حجت دین اور مصدر تشریع ہے جس طرح قرآن ہے۔ اور ان کا انکار کرے وہ حقیقی کافر ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (151) وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (152) [سورة النساء]
ابن داود نے کہا:
الحمدللہ! کہ آ پ حدیث کو حجت مانتے ہیں! معاملہ یہ ہے کہ، منکرین حدیث نے اس مسئلہ میں وارد احادیث کے حکم کا انکار کیا! لیکن یہ بات نہیں کہ احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجود نہیں! احادیث میں اس مسئلہ کا حل موجودہے، لیکن منکرین حدیث کو وہ قبول نہیں! اور اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! یہی اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے، اور یہی اس کا حل ہے! آپ نے بھی زبردست کوشش کی، کہ ''حل'' منکرین حدیث کی فکر کے مطابق لے کر اسے قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ٹھان لی! مگر، ایں خیال است و محال است و جنوں!
الجواب:

جناب من!
آپ نے کہا:
الحمدللہ! کہ آ پ حدیث کو حجت مانتے ہیں!
تو کیا صرف آپ نے یا آپ جیسے نام نہاد اہلحدیثوں نے قرآن و حدیث کو حجت ماننے کا ٹھیکا لے رکھا ہے یا یہ کہ اللہ و رسول نے آپ اور آپ جیسے لوگوں کو قرآن و حدیث کو حجت ماننے کا ٹھیکا دے رکھا ہے کہ صرف آپ لوگ ہی قرآن و حدیث کو حجت مانیں۔اور باقی دوسرے لوگوں کے لیئے اس پر پابندی لگی ہوئی ہے۔
آپ نے کہا: (
پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! یہی اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے)
تو جناب عالی اس مسئلہ کا حکم اور حل جو آپ نے یہ بتایا ہے کہ: (
پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) ۔
یہ کس قرآن کی آیت میں لکھا ہوا ہے؟ یا کس حدیث میں لکھا ہوا ہے؟۔
آپ کا یہ کہنا سراسر جھوٹ اور اللہ و رسول پر بھی افتراء پردازی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ یہ دعویٰ بھی کر بیٹھے کہ : (
اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے) تو کہاں ہے وہ آیت اور حدیث اسے پیش کیجئے۔ صرف آپ کی یا کسی کی من گھڑت بات اور اس پر جھوٹا دعویٰ صحیح نہیں مانا جاتا بلکہ اس پر دلیل دینا واجب و فرض ہو جاتا ہے۔
کیا آپ کے پاس کوئی خفیہ قرآن و حدیث ہے جس میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے جسے صرف آپ اور آپ جیسے لوگ ہی پڑھتے ہیں۔ یہ اللہ و رسول پر کھلا ہو جھوٹ اور کھی ہوئی افتراء پردازی ہے۔
اللہ تعالیٰ تو اپنے نبی سے یہ فرما رہا ہے:
(قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) (سورة الأنعام: 145)
اس فرمان الٰہی کے بموجب اللہ کے رسول کے نزدیک بیٹی کا ہونا یتیم پوتی کے لیئے کوئی مانع نہیں تھا اسی لیئے انہوں نے اسے اس کے دادا کے ترکہ سے دادا کی بیٹی یعنی اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دیا ۔ یہ چیز ہمارے لیئے کافی ہے اس بات کے لیئے کہ کسی چچا تائے کا ہونا کسی یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ پانے میں قطعا کوئی مانع نہیں ہے کیوں کہ سبھی اس کی اولاد و بیٹے بیٹیاں ہیں۔ جیسے یتیم پوتی اور بیٹی مرنے والے کی اولاد تھے جس کے سبب انہیں ایک سے زیادہ مونث اولاد کا مشترکہ حصہ دیا گیا۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ چچا تائے کے ساتھ یتیم پوتا اللہ کی کتاب اور نبی کے فیصلے یعنی قرآن و حدیث کے مطابق شرعا و قانونا حقدار و حصہ دار ترکہ ہے۔ اور جو اس سے انکار کرتا ہے وہ اللہ کا باغی و نافرمان منکر قرآن و سب سے بڑا منکر حدیث ہے۔
میرا یہ دعویٰ اور کھلا ہوا چیلنج ہے کہ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا ہے جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ : (
اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے) کہ (پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ (پوتا دادا کی وراثت کا اسی وقت حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) اور (اس مسئلہ کا حکم قرآن وحدیث میں ہے) تو وہ قرآن و حدیث کی اس صریحی دلیل کو پیش کر ے اور دکھائے۔ اور وہ دلیل صریح آیت قرآنی و صحیح حدیث رسول ہو ۔ ورنہ اللہ و رسول پر افتراء پردازی کرنا بند کریں۔ اور اللہ و رسول پر افتراء پردازی کرنے کا جو انجام ہے اس کو سہنے کے لیئے تیار رہیں۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ابن داودنے کہا:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے! اور آپ خود ہی قرآن و حدیث کے معنی ومفہوم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہو، اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے! تو میرے بھائی! یہ آ پ نے بلا سوچے سمجھے شیخ @کفایت اللہ کے متعلق تحریر کر دیا ہے، انہوں نے آپ کے متعلق جو تحریر فرمایا وہ قطعی طور پر بلا سوچے سمجھے نہیں! اور آپ کیا کوئی آسمانی ٹپکی مخلوق ہیں! کہ آپ تو دوسروں پر بے بنیاد قرآن وحدیث میں تحریف اور وہ بھی لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت لگانے کا حق لیئے پیدا ہوئے ہیں، لیکن آپ کو آپ کی گمراہی اور قرآن و حدیث کی بے سروپا، بے بنیاد من گھڑت تاویلیں کرنے پر گمراہ نہیں کہا جا سکتا!
الجواب:
ابن داود صاحب آپ کی ان بے تکی باتوں کا تو جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے:

ابن داود نے کہا:
آپ جواب دے بھی نہیں سکتے، کہ آپ نے ''معنوی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، وہ آپ کی کم علمی، کج فہمی، اور جہالت ہی ہے! اس کا آپ کیا جواب دے سکتے ہیں! کچھ بھی نہیں! اور جو آپ نے ''لفظی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، یہ تو بیوقوفی ہے! اگر یہ آپ کی بیوقوفی نہیں! تو اس تھریڈسے کسی کا بھی ایک اقتباس پیش کریں، جہاں کوئی ''لفظی تحریف'' کا مرتکب ہوا ہو! میں علی الإعلان اپنے الفاظ واپز لیتے ہوئے، آپ سے معذرت کروں گا! اور معافی طلب کروں گا! بالکل! یہی ہم آپ سے کہہ رہے ہیں! کہ الزام تراشی چھوڑیئے! اور خواہ مخواہ، بے بنیاد لفظی اور معنوی تحریف کے الزام تراشی نہ کیجیئے!
(اور اپنی جہالت وبیوقوفی میں دوسروں پر تحریف کی تہمت داغتے ہو! بیوقوفی بھی اس حد تک کہ آپ نے تو لفظی تحریف کا بھی الزام لگا دیا! چلو معنوی تحریف تو آپ نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا کر کہہ دیا! یہ لفظی تحریف کا الزام لگانا تو سراسر بیوقوفی ہے!
)

الجواب:

جناب من!
میں نہیں بلکہ آپ اور آپ جیسے لوگ زیر بحث مسئلہ میں جہالت و حماقت، نادانی و بیوقوفی جیسے مہلک مرض کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک من گھڑت بے بنیاد مسئلہ کو شرعی مسئلہ سمجھے بیٹھے ہیں۔ جس مسئلہ کو قرآن وحدیث کے الفاظ و معانی میں تحریف کر کے گھڑا بنایا گیا ہے۔ تو وہ تحریف نہیں تو اور کیا ہے یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ آئیے اس کی حقیقت ہم کھولتے ہیں:
زیر بحث مسئلہ یعنی دادا کے ترکہ میں چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث قرار دیئے جانے کا مسئلہ یکسر بے بنیاد ہے۔ کیونکہ یتیم پوتا ایک طرف مرنے والے اپنے دادا کی اولاد ہے۔ اور مرنے والا شخص یعنی دادا کا ترکہ اس کے والد کا ترکہ ہے کیونکہ اس کا دادا اس کا والد ہے۔ تو زیر بحث مسئلہ ایک والد کے ترکہ میں اس کی ایک اولاد کے حق و حصہ ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ اور اس مسئلہ میں استدلال یوں کیا جاتا ہے:
ایک صاحب نے مسئلہ پوچھا۔ جس پر صلاح الدین یوسف صاحب یوں جواب دیتے ہیں:

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ از صلاح الدين يوسف
٭ سوال: گذشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں مختلف ریمارکس دئے ہیں ۔۔ ازراہِ کرم اس ضمن میں صحیح شرعی رائے بتلائیے، تفصیلی دلائل بھی ذکر فرما سکیں تو میں بہت شکر گزار ہوں گا ۔۔ جزاکم اللہ (سمیع الرحمٰن، لاہور)
جواب: اس بارے میں شرعی دلائل یوں ہیں ۔۔
(1) قرآن کریم میں ہے:
﴿لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ مِمّا قَلَّ مِنهُ أَو كَثُرَ﴾ ﴿ النساء : ٧
"ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور اقارب چھوڑ مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اُس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔"
اس آیتِ کریمہ سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ وراثت میں مرد اور عورت دونوں کا حصہ ہے، نیز وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، ہر صورت میں وارث ہوں گے۔ وہاں اس آیت سے وراثت کا اصول بھی معلوم ہوا، اور وہ ہے اقربيت ۔ یعنی صرف قریب ترین افراد وارث ہوں گے، محض قرابت کافی نہیں۔ کیونکہ قرابت میں تو بڑی وسعت ہے، اس میں اول تو حد بندی ہی نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ثانیا، اس طرح کی تقسیم سے کسی کو بھی معقول ورثہ ملنے کی امید نہیں اور یوں وراثت ایک کارِ بے خیر بن کر رہ جاتی۔ اس لیے وارث صرف وہ ہوں گے جو مرنے والے کے قریب ترین ہوں اور ان کے ہوتے ہوئے بعید کے لوگ وارث نہیں ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان قریب ترین افراد کی وضاحت بھی آئندہ رکوع میں فرما دی ہے اور اُن کے مقررہ حصے بھی بیان کر دئیے ہیں۔ ان کو اصحابُ الفروض کہا جاتا ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور اُصول، حدیث میں بیان فرمایا: (أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا أَبْقَتَ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) [صحیح بخاری، الفرائض، باب میراث الولد بین ابیہ وامہ، مسلم، الفرائض، باب1، رقم 1615]
جن کے حصے (قرآن مجید) میں مقرر ہیں، وہ اُن کو دو۔ جو باقی بچے، تو وہ مردوں میں سے قریب ترین مرد کے لیے ہے۔
اس حدیث میں یہ دوسری اصولی رہنمائی دی گئی ہے کہ: اصحابُ الفروض میں تقسیم کے بعد بقیہ مال ان لوگوں میں تقسیم ہو گا جو مردوں میں سے قریب ترین ہو گا، اس کو اصطلاحِ شریعت میں عصبة کہا جاتا ہے۔
گویا قرآن میں بھی اقرب (اسم تفضیل) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی اولیٰ کا لفظ بولا گیا ہے،
جو بعض دفعہ احق (زیادہ حق دار) کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن یہاں یہ اقرب ہی کے معنی میں ہے۔ کیونکہ یہاں اگر دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو پھر یہ حدیث قرآن کے بیان کردہ اصول کے ہی خلاف ہو جائے گی۔
اس اعتبار سے قرآن کریم اور حدیث رسول دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ:
وراثت کی بنیاد اقربيت (سب سے زیادہ قریب ہونا) ہے نہ کہ احقيت (سب سے زیادہ مستحق ہونا) ۔۔۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد مستحق وراثت نہیں ہو گا۔

اگر اقربیت کی بجائے احقیت کو بنیاد بنایا جاتا، تو یہ بنیاد بھی نہایت کمزور اور غیر فیصلہ کن ہوتی اور وراثت کی تقسیم نزاع و جدال کا باعث بنی رہتی۔ کیونکہ ہر وارث یا رشتے دار ہی کسی نہ کسی وجہ سے اپنا استحقاق زیادہ ثابت کرنے پر زور صرف کرتا، کوئی بیماری کو، کوئی کاروباری نقصان یا کمی کو، کوئی زیادہ عیال داری یا زیادہ ذمے داریوں کو یا اس طرح کے دیگر اسباب و وُجوہ کو اپنے استحقاق کی بنیاد بناتا، جس کو تسلیم کرنا یا کرانا فساد و نزاع کا مستقل باعث ہوتا۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لا تَدرونَ أَيُّهُم أَقرَبُ لَكُم نَفعًا﴾ ...﴿النساء: ١١
تم نہیں جانتے کہ تمہیں نفع پہنچانے کے اعتبار سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔
بنا بریں شریعتِ اسلامیہ نے وراثت کی تقسیم میں انسانوں کے ظن و تخمین یا استحقاق کے دعوؤں کو بنیاد بنانے کی بجائے اقربيت کے اصول کو اختیار کیا جس میں نزاع و جدال کا امکان نہیں۔
کیونکہ وہ رشتے واضح ہیں جن میں کوئی ابہام یا اشکال نہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کر دئیے تاکہ مال کی کمی بیشی میں بھی اختلاف نہ ہو اور بچے ہوئے مال کی دوبارہ تقسیم کے لیے بھی ایک دوسرا اُصول بیان فرما دیا تاکہ اس میں بھی کوئی جھگڑا نہ ہو۔
قرآن و حدیث کے بیان کردہ اِسی اُصول اقربيت کی رو سے تمام علماء و فقہاء اور محدثین کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ: بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں یتیم پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں وارث نہیں ہوں گی، کیونکہ بیٹے بیٹیاں اقرب ہیں اور پوتے، نواسے ان کی نسبت سے ابعد ہیں۔
أقول(میں مسرور احمد الفرائضی کہتا ہوں):

اس فتوے میں نمبر (۱) پر جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ یہ آیت قرآنی ہے:
(1) قرآن کریم میں ہے: ﴿لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ مِمّا قَلَّ مِنهُ أَو كَثُرَ﴾ ﴿ النساء : ٧
"ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور اقارب چھوڑ مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اُس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔"
اس آیت قرآنی سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ یوں ہے:
اس آیتِ کریمہ سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ وراثت میں مرد اور عورت دونوں کا حصہ ہے، نیز وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، ہر صورت میں وارث ہوں گے۔
وہاں اس آیت سے وراثت کا اصول بھی معلوم ہوا، اور وہ ہے اقربيت ۔ یعنی صرف قریب ترین افراد وارث ہوں گے، ..... اس لیے وارث صرف وہ ہوں گے جو مرنے والے کے قریب ترین ہوں اور ان کے ہوتے ہوئے بعید کے لوگ وارث نہیں ہوں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان قریب ترین افراد کی وضاحت بھی آئندہ رکوع میں فرما دی ہے اور اُن کے مقررہ حصے بھی بیان کر دئیے ہیں۔ ان کو اصحابُ الفروض کہا جاتا ہے۔

اور دوسرے نمبر (۲) پر جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ یہ حدیث رسول ہے:
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور اُصول، حدیث میں بیان فرمایا: (أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا أَبْقَتَ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) [صحیح بخاری، الفرائض، باب میراث الولد بین ابیہ وامہ، مسلم، الفرائض، باب1، رقم 1615]
جن کے حصے (قرآن مجید) میں مقرر ہیں، وہ اُن کو دو۔ جو باقی بچے، تو وہ مردوں میں سے قریب ترین مرد کے لیے ہے۔
اس حدیث سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ یوں ہے:
اس حدیث میں یہ دوسری اصولی رہنمائی دی گئی ہے کہ: اصحابُ الفروض میں تقسیم کے بعد بقیہ مال ان لوگوں میں تقسیم ہو گا جو مردوں میں سے قریب ترین ہو گا، اس کو اصطلاحِ شریعت میں عصبة کہا جاتا ہے۔
گویا قرآن میں بھی اقرب (اسم تفضیل) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی اولیٰ کا لفظ بولا گیا ہے،
جو بعض دفعہ احق (زیادہ حق دار) کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن یہاں یہ اقرب ہی کے معنی میں ہے۔ کیونکہ یہاں اگر دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو پھر یہ حدیث قرآن کے بیان کردہ اصول کے ہی خلاف ہو جائے گی۔

اس مسئلہ میں آیت قرآنی اور حدیث رسول سے جو استدلال کیا گیا ہے اور جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ یوں ہے:
اس اعتبار سے قرآن کریم اور حدیث رسول دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ:
وراثت کی بنیاد اقربيت (سب سے زیادہ قریب ہونا) ہے نہ کہ احقيت (سب سے زیادہ مستحق ہونا) ۔۔۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد مستحق وراثت نہیں ہو گا۔

اس کے بعد مسئلہ میں آیت قرآنی اور حدیث رسول سے استدلال کے بعد جو نتیجہ نکالا اور فتویٰ دیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
قرآن و حدیث کے بیان کردہ اِسی اُصول اقربيت کی رو سے تمام علماء و فقہاء اور محدثین کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ: بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں یتیم پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں وارث نہیں ہوں گی، کیونکہ بیٹے بیٹیاں اقرب ہیں اور پوتے، نواسے ان کی نسبت سے ابعد ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میں قرآن و حدیث سے جس طرح استدلال کیا گیا ہے وہ استدلال بالباطل ہے اور کھلے طور پر کلام الٰہی اور کلام رسول کی لفظی و معنوی دونوں تحریف ہے اور یہ تحریف بالکل واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتا ب قرآن کریم میں فرمایا ہے: ﴿لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ مِمّا قَلَّ مِنهُ أَو كَثُرَ﴾ ﴿ النساء : ٧
(والدين اور عزیز و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال والدين اور اقارب چھوڑ مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اُس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے)۔
یعنی والدین کے ترکہ میں اس کی أولاد میں جو مرد ہوں ان کے لیئے بھی ایک مقررہ حصہ ہے اور عورتوں کے لیئے بھی ایک مقررہ حصہ ہے اسی طرح اقرباء کے ترکہ میں بھی جو مرد ہوں ان کے لیئے بھی ایک مقررہ حصہ ہے اور عورتوں کے لیئے بھی ایک مقررہ حصہ ہے۔ خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (ہر اُس مال میں) حصہ مقرر کیا ہوا جو میت نے چھوڑا ہو اور ہر ہر حصہ اللہ کا مقرر کیا ہوا فریضہ ہے۔
تو اس آیت میں دو لفظ استعمال کیا گیا ہے اور دو مرتبہ استعمال کیا گیا ہے ایک لفظ (الوٰلِدانِ)ہے اور دوسرا لفظ (وَالأَقرَبونَ) ہے اور مردوں اور عورتوں کے لیئے الگ الگ حکم بیان کیا گیا ہے۔
زیر بحث مسئلہ کا تعلق پہلے والے لفظ (
الوٰلِدانِ)ہے نہ کہ دوسرے (وَالأَقرَبونَ) سے ہے ۔ کیونکہ زیر بحث مسئلہ میت کی ایک اولاد کے تعلق سے ہے کہ جو میت ہے وہ اس کے والدین میں سے ہے اور ترکہ اس کے والدین کے ترکہ میں اس کے حق و حصہ کے ہونے نہ ہونے کا ہے تو استدلال اسی کے مطابق لفظ سے ہونا چاہیئے نہ کہ اس سے غیر متعلق لفظ سے استدلال کیا جائے۔ اور اگر غیر متعلق لفظ سے استدلال کیا جاتا ہے تو ایک تو تحریف لفظی ہوگی اور دوسرے تحریف معنوی ہوگی اور اس طرح استدلال استدلال بالباطل ٹھہرے گا اور حکم بھی باطل ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر (ابوین) یعنی ماں باپ کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (
الوٰلِدانِ) کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں ماں، باپ، دادا دادی سبھی آتے ہیں۔ تو جو بھی والدین میں ہوگا اس کا ترکہ والدین کا ترکہ ہوگا۔ اور اس کی اولاد میں جو بھی مرد وعورت ہونگے ان سب کا ایک مقررہ حصہ اس کے ترکہ میں ہوگا۔ چاہے وہ کم نکلےیا زیادہ۔ سب اللہ کا مقرر کیا ہوا فریضہ ہوگا۔
تو صلاح الدین یوسف صاحب نے لفظ (
الوٰلِدانِ) کو چھوڑ کر اس کے بجائے لفظ (وَالأَقرَبونَ) سے استدلال کیاہے جو کھلی ہوئی تحریف لفظی و معنوی ہے۔ یتیم پوتے کے حق وراثت سے محرومی کے سلسلہ میں جس طرح لفظ (وَالأَقرَبونَ) سے استدلال و استنباط کیا ہے وہ کھلی ہوئی لفظی و معنوی تحریف ہے۔ لہذا یہ استدلال ہی سرے سے باطل و مردود ہے تو اس بنیاد پر دیا گیا فتویٰ بھی باطل و مردود ہے۔
وراثت کی اولین بنیاد اولاد و والدیت ہے اور قرابت ثانوی چیز ہے۔ لہذا اقربیت کا یہ اصول اولاد و والدین کے معاملے میں استعمال کرنا سرے سے ہی باطل و مردود ہے۔کیونکہ اقربیت یا قریب سے قریب تر کا اصول اہل فرائض اولاد و والدین کے معاملہ میں نہیں بلکہ صرف اس جگہ کے لیئے ہے جہاں اہل فرائض کو دیدینے کے بعد کچھ مال بچ رہتا ہے تو اس میں اقربیت یا قریب سے قریب تر کا اصول کار فرما ہوتا ہے اور استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث رسول بطور دوسری دلیل پیش کی گئی اور اس سے استدلال پیش کیا گیا جو کچھ یوں ہے:

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور اُصول، حدیث میں بیان فرمایا: (أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا أَبْقَتَ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) [صحیح بخاری، الفرائض، باب میراث الولد بین ابیہ وامہ، مسلم، الفرائض، باب1، رقم 1615]
جن کے حصے (قرآن مجید) میں مقرر ہیں، وہ اُن کو دو۔ جو باقی بچے، تو وہ مردوں میں سے قریب ترین مرد کے لیے ہے۔
اس حدیث سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ یوں ہے:
اس حدیث میں یہ دوسری اصولی رہنمائی دی گئی ہے کہ: اصحابُ الفروض میں تقسیم کے بعد بقیہ مال ان لوگوں میں تقسیم ہو گا جو مردوں میں سے قریب ترین ہو گا، اس کو اصطلاحِ شریعت میں عصبة کہا جاتا ہے۔
گویا قرآن میں بھی اقرب (اسم تفضیل) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی اولیٰ کا لفظ بولا گیا ہے،
جو بعض دفعہ احق (زیادہ حق دار) کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن یہاں یہ اقرب ہی کے معنی میں ہے۔ کیونکہ یہاں اگر دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو پھر یہ حدیث قرآن کے بیان کردہ اصول کے ہی خلاف ہو جائے گی۔

اس حدیث میں بھی تحریف لفظی و معنوی کی گئی ہے اور استدلال بالباطل کیا گیا ہے۔ کیونکہ حدیث رسول میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے (الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا) تو اس کا معنی ہوتا ہے جو فرائض کے اہل ہیں یعنی اہل فرائض اور اصحاب فرائض ۔ اور پھر یہ لفظ استعمال ہو ہے (أَبْقَتَ الْفَرَائِضُ) یعنی فرائض سے جو باقی رہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اہل فرائض کو ان کے فرض حصے دیدیئے جانے کے بعد فرائض سے جو بچ رہے۔ یہ خاص حکم ہے جو خاص خاص صورتوں کے لیئے ہے یہ کوئی اصول یا حکم عام نہیں ہے کہ ہر ہر جگہ اس کو استعمال کرتے پھرا جائے۔
اب اہل فرائض کون کون ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بذات خود اپنی کتاب قرآن مجید میں جن لوگوں کے حصے مقرر فرمائے ہیں وہ سبھی اہل فرائض ہیں جن میں اولین اور نمبر ایک کے اہل فرائض مرنے والے کی مذکر اولادیں یعنی بیٹے پوتے پڑپوتے وغیرہ پھر مونث اولادیں بیٹی پوتی پڑپوتی وغیرہ اس کے بعد ماں باپ، پھر شوہر بیوی پھر سگے و علاتی بھائی بہنیں پھر اخیافی بھائی بہنیں ہیں۔ یہ تمام کے تمام لوگ اہل فرائض ہیں جن کے درمیان ترکہ کا مال تقسیم کرنے کا حکم اللہ و رسول نے دیا ہے۔ اب بعض صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ میت کے اہل فرائض ورثہ میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہوتی ہیں یا بعض مرد ہوتے ہیں تو ان کو ان کے حصے دیدیئے جانے کے بعد ترکہ کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچا ہوا کس کو دیا جائے تو اس کے تعلق سے اللہ کے رسول نے فرمایا کہ وہ باقی بچا ہوا مال میت کے قریبی رشتہ داروں میں جو سب سے قریبی رشتہ دار ہوں انہیں دیدو۔ مثلا کسی شخص نے ایک بیٹی چھوڑا، ماں چھوڑا اور بیوی چھوڑا تو اس کے ترکہ کے (۲۴) حصے کیئے جائیں گے جن میں سے آدھا (۱۲) حصہ بیٹی کو دیا جائے گا۔ چھٹا (۴) حصہ ماں کو اور آٹھواں (۳) حصہ بیوی کو دیدیا جائے گا۔ اور سب کا مجموعہ (۱۹) حصہ ہوتا ہے تو اس طرح (۵) حصہ باقی بچ رہتا ہے تو یہ باقی بچا ہوا کسے دیا جائے تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ میت کا کون قریب سے قریب رشتہ دار ہے اور یہ کہ وہ مرد مذکر ہے تو اگر میت کا بھائی ہوگا یا بھتیجا ہوگا تو اسے دیدیا جائے گا یا پھر چچا یا چچا زاد ہوگا اسے دیدیا جائے گا۔ تو ایک حکم خاص ہے کوئی قاعدہ کلیہ اور اصول عام نہیں ہے۔
زیر بحث مسئلہ میں اس حدیث رسول میں بھی لفظی و معنوی تحریف کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے:

اس حدیث میں یہ دوسری اصولی رہنمائی دی گئی ہے کہ: اصحابُ الفروض میں تقسیم کے بعد بقیہ مال ان لوگوں میں تقسیم ہو گا جو مردوں میں سے قریب ترین ہو گا، اس کو اصطلاحِ شریعت میں( عصبة) کہا جاتا ہے۔
گویا قرآن میں بھی اقرب (اسم تفضیل) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی اولیٰ کا لفظ بولا گیا ہے،

اسی طرح شيخ الحديث عبيد الله رحماني مباركپوري لکھتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثہ میں ایک گروہ ایسا ہے جس کاحصہ قرآن مجید میں مقرر کردیا گیا ہے۔ ان کو (ذوی الفروض) کہتے ہیں، اوران کے مقرر حصے الگ کرنے کے بعد ( مابقی)پانے والے (غیرذوی الفروض) کہلاتے ہیں۔ ان کوشریعت کی اصطلاح میں (عصبہ) کہاجاتاہے،لیکن ان میں سے وہی شخص مستحق ترکہ ہوگا جوتمام عصبات میں سب سے زیادہ میت کاقریبی رشتہ دار ہوگا۔ صورت مسئولہ میں ظاہر ہے کہ بیٹا بنسبت پوتے کے، میت کے زیادہ قریب ہے، اوراسی طرح بھائی بھتیجے کے اعتبار سے میت کے زیادہ قریب ہے۔
یتیم پوتے کی محجوبیت کا فتویٰ:
پس اس حدیث کی روسے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا، اوربھائی کے ہوتے ہوئے بھتیجا میراث نہیں پاسکتا۔ یہ حدیث مسئلہ وارثت میں ایک ضابطہ اورقانون کلی کی حیثیت رکھتی ہے۔ [دیکھئے: فتوى شيخ الحديث عبيد الله رحماني مباركپوري، مطبوعہ جریدہ ترجمان دہلی شمارہ فروری: ٢٠٠٦ ؁ ص٣٩)]
یہ ہے حدیث رسول سے استدلال و استنباط کا حال جو ایک شیخ الاسلام کہے جانے والے ثناء اللہ امرتسری، تو دوسرے شیخ التفسیر کہے جانے والے صلاح الدین یوسف اور تیسرے شیخ الحدیث کہے جانے والے عبيد الله رحماني مباركپوري صاحبان نے کیاہے۔جو بالکل ہی غلط بات ہے اور یکسر باطل و مردود ہے۔ یہ اللہ کے رسول پر جھوٹ بولا گیا ہے اور ان سے ایک جھوٹی بات منسوب کی گئی ہے اللہ کے رسول نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے جو ان کے حوالے سے کہا بتایا گیا ہے۔ یہ قرآن و حدیث میں کی گئی کھلی ہوئی لفظی و معنوی تحریف ہے کیونکہ حدیث رسول میں ( اصحابُ الفروض) یا (ذوی الفروض) اور (عصبة) کا لفظ قطعی طور پر استعمال ہی نہیں ہوا ہے ۔ اس طرح کا استدلال و استنباط اور فتویٰ یکسر باطل و مردود ہے ۔ نہ تو اللہ نے ہی ایسا کچھ کہا ہے اور نہ ہی رسول نے ہی ایسا کچھ کہا ہے۔ یہ اللہ و رسول پر کھلی ہوئی افتراء پردازی اور جھوٹ گھڑ کر ان سے منسوب کرنا ہے۔
(ذوی الفروض) اور (عصبة) جیسے الفاظ تو خیر القرون میں پائے ہی نہ جاتے تھے نہ تو اللہ کے رسول کے دور میں اور نہ ہی صحابہ تابعین کے دور میں ہی اس کا کوئی وجود تھا۔ یہ تو خیر القرون کے بہت بعد کی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں اور قرآن وحدیث کے الفاظ کی تفسیر، توضیح و تشریح خود ساختہ الفاظ و اصطلاحات سے کرنا اللہ و رسول کے کلام میں کھلی ہوئی تحریف ہے۔ ان پر اللہ کا یہ کلام صادق آتا ہے:
(يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا) [سورة النساء: 46]
(يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ) [سورة المائدة: 13]
(يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ) [سورة المائدة: 41]
[تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى (22) إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ
سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى (23) أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى (24) فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى (25)] [سورة النجم]
(مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً
سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ). (سورة يوسف: 40)
(قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ
سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ). (سورة الأعراف: 71)

یہ سب لوگوں کی گھڑی بنائی ہوئی اصطلاحیں ہیں جنہیں بعد کے لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں۔ اور اس کے ذریعہ اللہ و رسول کے کلام کی تفسیر و توضیح اور تشریح قطعا غلط اور باطل و مردود ہے۔ اور ایک ایسے شخص کے لیئے جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہے قطعا مناسب نہیں ہے اور ایک شیخ الاسلام کہے جانے والے ، دوسرے شیخ التفسیر کہے جانے والے اور تیسرے شیخ الحدیث کہے جانے والے اشخاص کے لیئے تو اور بھی زیب نہیں دیتا ہے۔ جن کے کلام کو لوگ وحی الٰہی کا درجہ دیئے ہوئے ہیں۔ مسئلہ اولاد و والدین کے بیچ کا ہے اور استدلال اقرباء سے کیا جاتا ہے۔ مسئلہ اہل فرائض و اصحاب فرائض کا ہے اور استدلال و استنباط ذوی الفروض اور عصبات کا حوالہ دے کے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں لفظ (الوٰلِدانِ) استعمال کیا ہے اور مسئلہ ترکہ والدین میں اس کی اولاد میں سے ایک کے حق و حصہ کا ہے اور استدلال و استنباط لفظ (وَالأَقرَبونَ) سے کیا جا رہا ہےیہ سب اللہ و رسول کے کلام اور ان کے اصل دین دین اسلام اور قرآن و حدیث میں کھلواڑ کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟۔
اللہ کے رسول تو یہ فرما رہے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [رواه مسلم وغيره]
یعنی اللہ کے رسول فرما رہے ہیں کہ ترکہ کے مال کو (أَهْلِ الْفَرَائِضِ) کے درمیان تقسیم کرو۔ تو شیخ الاسلام، شیخ التفسیر اور شیخ الحدیث حضرات اس کا ترجمہ و تشریح یہ کر رہے ہیں کہ (ذوی الفروض) اور (عصبة) کو دو۔ اور اللہ کے رسول فرما رہے ہیں کہ ترکہ کے مال کو (كِتَابِ اللهِ) یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید کی اساس و بنیاد پر تقسیم کرو ۔
تو اس پر عمل کے بجائے تو
(ذوی الفروض) اور (عصبة) میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ (ذوی الفروض) اور (عصبة) کو دو۔ یہ سب اللہ و رسول کے کلام کے ساتھ کھیل تماشہ کرنا نہیں ہےتو اور کیا ہے؟
اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے اور اس پر اتباع کتاب و سنت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے اور قرآن وحدیث کی پیروی کا راگ الاپنے والے نام نہاد اہل حدیث اسے وحی الٰہی سمجھے بیٹھے ہیں اور کٹھ حجتیاں کیئے جا رہے ہیں اور خود تو جہالت، ضلالت اور حماقت کا شکار ہیں اور الٹا مجھے کسی عالم سے پڑھنے اور فرائض کا علم حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ذرا بھی شرم نہیں آتی ہے۔ جب اتنے بڑے بڑے شیخ الاسلام، شیخ التفسیر اور شیخ الحدیث کا خطاب رکھنے والے لوگوں کی قرآن دانی اور حدیث دانی کا یہ حال ہے تو ان کی تقلید کرنے والے جاہل اور اندھے مقلدوں کا کیا حال ہوگا۔ اور ابن داود اور کفایت اللہ سنابلی جیسے لوگوں کی کیا اوقات ہے۔
اللہ کے رسول صاف لفظوں میں فرما رہے ہیں کہ ترکہ کے مال کو (
أَهْلِ الْفَرَائِضِ) کے درمیان تقسیم کرو۔ اور اگر اہل فرائض سے بچ رہتا ہے تب اولیٰ رجل کو دو۔ جو کسی خاص مسئلہ کے لیئے ہے نہ کہ بقول شیخ الحدیث و شیخ التفسیر و شیخ الاسلام (یہ حدیث مسئلہ وارثت میں ایک ضابطہ اورقانون کلی کی حیثیت رکھتی ہے
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یوں کہا گیا ہے:

(وَلَمْ يَقْصِدْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْ يُدْلِي بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ مَثَلًا لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِمْ مَنْ هُوَ أَوْلَى مِنْ غَيْرِهِ إِذَا اسْتَوَوْا فِي الْمنزلَة كَذَا قَالَ بن الْمُنِير وَقَالَ بن التِّينِ إِنَّمَا الْمُرَادُ بِهِ الْعَمَّةُ مَعَ الْعَمِّ وَبنت الْأَخ مَعَ بن الْأَخ وَبنت الْعم مَعَ بن الْعَمِّ وَخَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْأَخُ وَالْأُخْتُ لِأَبَوَيْنِ أَوْ لِأَبٍ فَإِنَّهُمْ يَرِثُونَ بِنَصِّ قَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَيَيْنِ وَيُسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ مَنْ يُحْجَبُ كَالْأَخِ لِلْأَبِ مَعَ الْبِنْتِ وَالْأُخْتِ الشَّقِيقَةِ وَكَذَا يَخْرُجُ الْأَخُ وَالْأُخْتُ لِأُمٍّ لِقَوْلِهِ تَعَالَى فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدس). [فتح الباري شرح صحيح البخاري]
یعنی اس حدیث میں (فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) کا مصداق و مقصود وہ لوگ نہیں ہیں جو آباء و امہات (باپ، داد، پردادا وغیرہ نیز ماں، دادی نانی وغیرہ ) کے واسطوں سے جڑے ہوئے ہیں یعنی بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاںوغیرہ کیونکہ ان میں کوئی ایک دوسرے سے اولیٰ و اقرب نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد پھوپھی و چچا ہیں یعنی اگر چچا و پھوپھی باقی بچا ہوا پانے والے ہوں تو چچا چونکہ اولیٰ رجل ذکر ہے اس لیئے مابقی وہ پائے گا پھوپھی کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح بھتیجے کے ساتھ بھتیجی ہو تو ما بقی بھتیجہ پائے بھتیجی کو نہیں ملے گا۔ باقی رہے بھائی بہنیں تو وہ تو نص قرآنی سے ثابت شدہ فریضہ کے مستحق ہیں۔ یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا پوتی، پڑپوتا پڑپوتی، نواسے نواسی وغیرہ اور ہر قسم کے بھائی بہنیں سبھی اہل فرائض میں سے ہیں ان میں سے کوئی اولیٰ رجل ذکر کا مصداق اور عصبہ نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ پوتے پوتیوں، پڑپوتے پر پوتیوں اور نواسے نواسیوں وغیرہ اولاد میں داخل ہیں یا نہیں تو یہ سبھی لوگ اولاد اور اہل فرائض میں سے ہیں۔ ان میں سے کوئی نہ تو مصطلحہ ذوی الفروض میں سے ہے اور نہ ہی نام نہاد عصبہ میں سے ہی ہے۔ جیسا کہ مذکور ہے:
(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ ایک عام لفظ ہے (اس کی جمع اولاد ہوتی ہے) جو مذکر مونث سب پر بولا جاتا ہے۔ اور اس کا اطلاق صلبی اولاد یعنی بیٹے بیٹیوں پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی ان کے بیٹے بیٹیوں اور ان کی اولادوں پر بھی ہوتا ہے درجہ بدرجہ نیچے تک۔
اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ اولاد میں بیٹے بیٹیوں اور ان کے بیٹے بیٹیاں اور ان کے بیٹے بیٹیاں شاخ در شاخ سبھی شامل ہیں۔ بنا بریں یتیم پوتا اولاد میت میں سے ہے اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ترکہ ہے جس میں اس کا حصہ اسی طرح بنتا ہے جیسے اس کے چچا تائے کا بنتا ہے۔ اور یہ حکم نص قرآنی سے ثابت ہے اور اس کے خلاف ذوی الفروض اور عصبہ کی ایجاد کردہ اصطلاحات کے استعمال سے دیا گیا فتویٰ چاہے وہ کسی شیخ الاسلام کا ہو یا کسی شیخ التفسیر یا شیخ الحدیث کا ہو سب کا سب باطل و مردود ہے کیونکہ اس پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جتنی بھی دلیلیں دی جاتی ہیں وہ سب کی سب محض کٹھ حجتی و بکواس اور جھوٹی ہیں ۔ اللہ و رسول اس قسم کے فتوے اور حکم سے قطعی طور پر بری و بیزار ہیں۔

(وَوَقَعَ فِي كُتُبِ الْفُقَهَاءِ كَصَاحِبِ النِّهَايَةِ وَتِلْمِيذِهِ الْغَزَالِيِّ فَلِأَوْلَى عَصَبَةٍ ذَكَرٍ قَالَ بن الْجَوْزِيِّ وَالْمُنْذِرِيُّ هَذِهِ اللَّفْظَةُ لَيْسَتْ مَحْفُوظَةً وَقَالَ بن الصَّلَاحِ فِيهَا بُعْدٌ عَنِ الصِّحَّةِ مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ فَضْلًا عَنِ الرِّوَايَةِ فَإِنَّ الْعَصَبَةَ فِي اللُّغَةِ اسْمٌ لِلْجَمْعِ لَا لِلْوَاحِدِ كَذَا).
یعنی عصبہ کا لفظ کسی بھی حدیث میں نہیں ہے اور یہ محض فقہاء کہ ایجاد کردہ اصطلاح ہے جو فقہی کتابوں میں وارد شدہ ہے اور امام ابن الجوزی اور امام منذری نے کہا ہے کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے اور امام ابن الصلاح کہتے ہیں کہ لغوی طور پر بھی یہ غلط ہے چہ جائے کہ وہ حدیث کا حصہ ہو اورلغوی طور پر اس کا استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ عصبہ کا لفظ جمع و جماعت کے لیئے بولا جاتا ہے مفرد اور واحد کے لیئے نہیں بولا جاتا۔
بنا بریں ذوی الفروض اور عصبات کی اصطلاح کا اطلاق خاص کر بیٹے پوتوں وغیرہ پر کرنا قطعی طور پر درست نہیں ہے بلکہ ناجائز و حرام ہے۔
اگر اب بھی نہ مانے تو پھر آپ جیسے کٹھ حجتی کرنے والوں سے اللہ نپٹے۔
اور شیخ الحدیث کا یہ کہنا اور یہ فتویٰ دین سراسر غلط اور باطل و مردود ہے:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثہ میں ایک گروہ ایسا ہے جس کاحصہ قرآن مجید میں مقرر کردیا گیا ہے۔ ان کو''ذوی الفروض'' کہتے ہیں، اوران کے مقرر حصے الگ کرنے کے بعد'' مابقی'' پانے والے'' غیرذوی الفروض'' کہلاتے ہیں۔ ان کوشریعت کی اصطلاح میں ''عصبہ'' کہاجاتاہے،لیکن ان میں سے وہی شخص مستحق ترکہ ہوگا جوتمام عصبات میں سب سے زیادہ میت کاقریبی رشتہ دار ہوگا۔ صورت مسئولہ میں ظاہر ہے کہ بیٹا بنسبت پوتے کے، میت کے زیادہ قریب ہے، اوراسی طرح بھائی بھتیجے کے اعتبار سے میت کے زیادہ قریب ہے۔
یتیم پوتے کی محجوبیت کا فتویٰ:
پس اس حدیث کی روسے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا، اوربھائی کے ہوتے ہوئے بھتیجا میراث نہیں پاسکتا۔ یہ حدیث مسئلہ وارثت میں ایک ضابطہ اورقانون کلی کی حیثیت رکھتی ہے۔ [دیکھئے: فتوى شيخ الحديث عبيد الله رحماني مباركپوري، مطبوعہ جریدہ ترجمان دہلی شمارہ فروری: ٢٠٠٦ ؁ ص٣٩)]

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ نے کہا: آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے، گو کہ آ کی باتوں میں تو تضاد در تضاد ہے!
الجواب:
اس کا جوب ہے:
جی ہاں ہمارے پاس اللہ و رسول کی جانب سے آسمانی سند اور دلیل ہے یعنی قرآنی آیات اور احادیث نبویہ
ابن داود نے کہا:
آپ سے پوچھا کیا گیا ہے، آپ جواب کیا دے رہے ہیں! اس کو کہتے ہیں، سوال گندم، جواب چنا!
سوال آپ سے یہ تھا:

ابن داود نے کہا ہے:
آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے،
ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ ''آپ کے پاس کیا کوئی آسمانی سند ہے'' بلکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ''آپ کے حق میں کیا کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے! اور وہ سند یہ بتلاتی ہو کہ قرآن وحدیث سے متعلق آپ کا ہی فرمان قرآن وحدیث کا اصل مفہوم ہے! تو میرے بھائی! ایسی کوئی سند آپ کے حق میں نازل نہیں ہوئی، نہ ہمارے حق میں! لہٰذا آپ کا اپنی فہم پر نقد ورد کو قرآن وحدیث کا انکار وتحریف باور کروانا بالکل باطل ہے!
الجواب:

جناب من!
یقینی طور پر ہمیں آسمانی سند حاصل ہے اور وہ ہے اللہ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی کی پاک سنت اور صحیح حدیثیں۔ جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ جس طرح یتیم پوتے کا چچا تایا اپنے باپ کے بیٹے و اولاد ہیں ٹھیک اسی طریقے سے یتیم پوتا بھی اپنے دادا کی اولاد و بیٹا ہے۔ کیونکہ جتنا حصہ اس کے دادا کا اس کے مال میں بنتا ہے ٹھیک اتنا ہی حصہ اس کے چچا تائے میں بھی نکلتا ہے۔ پس جس طریقے سے یتیم پوتے کے چچا تائے اپنے مرنے والے باپ کے بحیثیت اولاد وارث ہو کر اس کے ترکہ سے حصہ پاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طریقے سے یتیم پوتے بھی اپنے باپ کے نہ ہونے کے سبب اپنے مرنے والے دادا کے بحیثیت اولاد وارث ہو کر اس کے ترکہ سے حصہ پائیں گے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جو اس بات پر دلیل واضح اور حجت قاطع ہے کہ بیٹا، پوتا بیٹی پوتی نواسے نواسیاں سبھی انسان کی اولاد اور اس کی شاخیں ہوتی ہیں جنہیں اولاد، ذریت اور فرع کہا جاتا ہے اور بالاجماع سب کے سب لفظ اولاد کے مفہوم میں شامل ہیں اور لفظ اولاد سب کا جامع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے باپ، دادا، پردادا، دادی پردادی، نانا نانی وغیرہ سب والدین کے لفظ کے عموم میں داخل اور سب کو شامل اور یہ لفظ سب کا جامع ہے۔
ابن داود نے کہا:
یہ آپ کا وہم ہے، گزشتہ مراسلہ میں یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جا چکی ہے!
الجواب:

جناب من!
یہ میرا وہم نہیں بلکہ آپ کی جہالت و حماقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔کیونکہ پوتے پوتیوں، پڑپوتے پر پوتیوں اور نواسے نواسیوں وغیرہ اولاد میں داخل ہیں یا نہیں تو یہ سبھی لوگ اولاد اور اہل فرائض میں سے ہیں۔ ان میں سے کوئی نہ تو مصطلحہ ذوی الفروض میں سے ہے اور نہ ہی نام نہاد عصبہ و اقرب ہی ہے۔ جیسا کہ ولد کی تشریح ان الفاظ میں مذکور ہے جو نصور قرآن و حدیث سے ثابت شدہ مسلمہ امر ہے۔ چنانچہ مفسرین و شارحین حدیث اور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ ایک عام لفظ ہے (اس کی جمع اولاد ہوتی ہے) جو مذکر مونث سب پر بولا جاتا ہے۔ اور اس کا اطلاق صلبی اولاد یعنی بیٹے بیٹیوں پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی ان کے بیٹے بیٹیوں اور ان کی اولادوں پر بھی ہوتا ہے درجہ بدرجہ نیچے تک۔
اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ اولاد میں بیٹے بیٹیوں اور ان کے بیٹے بیٹیاں اور ان کے بیٹے بیٹیاں شاخ در شاخ سبھی شامل ہیں۔ بنا بریں یتیم پوتا اولاد میت میں سے ہے اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ترکہ ہے جس میں اس کا حصہ اسی طرح بنتا ہے جیسے اس کے چچا تائے کا بنتا ہے۔ اور یہ حکم نص قرآنی سے ثابت ہے اور اس کے خلاف ذوی الفروض اور عصبی کی ایجاد کردہ اصطلاحات کے استعمال سے دیا گیا فتویٰ چاہے وہ کسی شیخ الاسلام کا ہو یا کسی شیخ التفسیر یا شیخ الحدیث کا ہو سب کا سب باطل و مردود ہے کیونکہ اس پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جتنی بھی دلیلیں دی جاتی ہیں وہ سب کی سب محض کٹھ حجتی و بکواس اور جھوٹی ہیں ۔ اللہ و رسول اس قسم کے فتوے اور حکم سے قطعی طور پر بری و بیزار ہیں۔ اب اگر یہ آپ کی جہالت و حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہیں اور آپ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں پارہے ہیںاور آپ کٹھ حجتی کئے جا رہے ہیں اور ایک بے بنیاد بات کو توڑ مڑور کر صحیح ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اصل موضوع بحث سے ہٹ کر ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
ابن داود نے کہا:
آپ کی ''اتنی معمولی سی بات'' کو ہم سمجھ کر ہی باطل قرار دے رہے ہیں! یہ آپ کا وہم ہے کہ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آرہی! ہم آپ کی بات سمجھ بھی رہے ہیں،اور اس کے مقتضی کو بھی سمجھتے ہیں!
مگر آپ خود اپنی ہی بات کے مقتضی سے غافل ہیں!

الجواب:
جب آپ کے بزرگوں کو یہ بات نہ سمجھ آسکی تو پھر آپ کو کیا خاک سمجھ آئے گی۔ جب آپ کو اور آپ کے بزرگوں کو اللہ و رسول کی بات سمجھ نہ آ سکی اور اس کا مقتضی نہ سمجھ پائے تو آپ اور سنابلی جیسے لوگوں کی کیا اوقات ہے۔ یہ ساری باتیں اور آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے ۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ میری اس بات کا جواب دیں جس کا میں آپ سے بار بار مطالبہ کر رہا ہوں وہ یہ کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ جب کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں باقاعدہ دو باب ہے ایک یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کا اور دوسرا یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا۔
آپ میری اس بات کا جواب تو دے نہیں رہے ہیں اور الٹا مجھ ناچیز کو بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم قرار دے رہے ہیں۔

ابن داود نے کہا:
اس کا جواب دیا جا چکا ہے، اور آپ کو متعدد بار یہ بات بتلائی ہے، کہ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو پھوپھی کے ساتھ ترکہ میں حصہ میت کی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں دیا تھا!
صحیح بخاری میں پہلا بات پوتے کی وراثت کے مشروط اثبات کا ہے، کہ جب میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!
اور دوسرے باب میں میں بھی مذکر أولاد کی عدم موجودگی میں پوتی کو وراثت کا حق ثابت کیا ہے

الجواب:

آپ اس کا جواب کیا دینگے کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا ہے جو تا قیامت اس کا جواب دے سکے ۔ صحیح بخاری کا پہلا باب پوتے کی وراثت کے مشروط اثبات کا یقینی طور پر ہے لیکن شرط صرف اس کے باپ کا نہ ہونا ہے اور یہی شرط پوتی کی وراثت کے اثبات کے لیئے بھی ہے اس بات کی دلیل اور پختہ ثبوت خود امام بخاری کا باندھا ہوا باب ہے:
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ) (1)
یعنی پوتے کی میراث کا باب جب پوتے کا باپ نہ ہو۔ اور اس کے تعلق سے اس کتاب کے محققین نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ صحیح بخاری کے اصل الفاظ یہی ہیں جو حافظ ابن الملقن کی شرح کے اندر ثبت اور محفوظ ہیں جب کہ دوسرے الفاظ جس میں اب کی جگہ ابن ہے وہ دوسرے نسخہ ( نسخہ یونینیہ) میں ہیں۔ اور اس سے لیکر نقل کیئے گئے ہیں۔ صحیح بخاری کی شرح کے اصل نسخہ میں ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))ہی ہے۔ جیسا کہ اس کے محققین نے اس پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھا ہےلکھتے ہیں:
(1) كذا ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن) [((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ أبن))].
یعنی اصل الفاظ
((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) ہی ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں بدلے ہوئے الفاظ اس طرح ہیں: [((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ أبن))]. ۔
اس کا ایک اور ثبوت وہ حوالہ ہے جو آنجناب نے ایک رسالہ سے دیا ہے اور اس میں بھی دھاندھلی کی ہے۔
صاحب رسالہ نے اپنی تعلیق و تحقیق اور حوالہ میں جن الفاظ کا ذکر کیا ہے اور جو حوالہ ابن بطال کا دیا ہے اس میں بھی در اصل یہی الفاظ ہیں:
((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) چنانچہ صفحہ (۲۸۳) پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔ (٥) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، (باب: ميراث ابن الابن إذا لم يكن له أب).
وقال زيد رضي الله عنه -:
وكذا ولد الابناء (١) بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن. ثم ساق حديث ابن عباس — رضي الله عنهما — السالف.
[وأثر زيد - رضي الله عنه - هذا أخرجه يزيد بن هارون، عن محمد بن سالم، عن الشعبي، عنه (٢).

وقول زيد هذا إجماع، وحديث ابن عباس سلف معناه. والمراد إذا توفيت امرأة عن زوج، وأب، وبنت [وابن ابن] (٣) وبنت ابن، فإن الفرائض هاهنا [تبدأ] (٤) الزوج بالربع، وللأب السدس، وللبنت النصف، وما بقي فللباقي إنكن معه في درجة واحدة، أو كان أسفل منهن فالباقي له دونهن. و هذا قول مالك، والشافعي، وأكثر الفقهاء] (٥). [ومنهم من يقول الباقي [لابن الابن] (٦) دون بنات الابن، وسواء كن معه في تعدد (٧) واحد أو أرفع منه لا شيء لهن لهذا الحديث بظاهره. وقيل: يرد على من معه ولا يرد على من فوقه.
وأما حجة زيد ومن ذهب مذهبه ممن يقول: لأولى رجل ذكر مع أخواته فظاهر قوله تعالى
(يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) (٨).
وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنتين كالبنتين إذا استووا في التعدد (٩) ذكرهم كذكرهم. وأنثاهم

(١) في ب، وج وكذا الابناء ".
(٢) انظر: سنن سعيد بن منصور، ج٣/١
قال ابن حجر في الفتح: وصله سعيد بن منصور، عن عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبيه، عن خارجة بن زيد، عن أبيه، ج١٧/١٢
(٣) ساقطة من الأصل، وما أثبته من ج.
(٤) في الأصل بداءة " ولعل ما أثبته هو لصحيح.

(٥) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، (باب: ميراث ابن الابن إذا لم يكن له أب).
(٦) في الأصل من اان " ولعل ما أثبته هو الصواب كما تقدم، وكما في نسخة ج، وابن بطال.
(٧) في ابن بطال (قعدد).
(٨) سورة النساء، آية رقم (١١).
(٩) في ابن بطال: (القعدد).

اسی طرح صفحہ (۲۸۴) پر حاشیہ میں بھی یہی الفاظ ہے لکھتے ہیں۔ (2) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، (باب: ميراث ابن الابن إذا لم يكن له أب).
كأنثاهم، وكذا إذا اختلفوا في التعدد (١) لا يضرهم لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم للذكر مثل حظ الأنثيين، إلا ما أجمعوا عليه من أن الأعلى من بني البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى]. (2).
(١) في ابن بطال (القعدد).
(2) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، (باب: ميراث ابن الابن إذا لم يكن له أب).
یعنی صاحب توضیح نے صحیح بخاری کے جس نسخہ سے اس باب کی عبارت لی ہے اس میں در اصل یہی عبارت ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) ہی تھی اور امام ابن بطال نے صحیح بخاری کے جس نسخہ سے اس باب کی عبارت لی اس میں در اصل یہی عبارت ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) تھی اور صاحب رسالہ نے ابن بطال کے حوالے سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بعینہ وہی عبارت ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) ہے ۔
واضح رہے کہ امام ابن بطال جو کہ شارح بخاری ہیں جن کا پورا نام
(ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (المتوفى: 449هـ)۔ جو پانچویں صدی ہجری کے ہیں جن کی وفات سن : ((المتوفى: 449هـ)) میں ہوئی۔ جب کہ صاحب توضیح شارح جامع صحیح بخاری حافظ ابن الملقن آٹھویں اور نویں صدی کے ہیں جن کا پورا نام ((ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري المتوفى:804هـ)) ہے اور ان کی وفات سن : ((المتوفى: 804هـ)) میں ہوئی۔
اور صاحب فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی جو کہ شارح بخاری ہیں جن کا پورا نام
أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المصري (المتوفى: 852 هـ)ہے اور ان کی وفات سن : ((المتوفى: 852 هـ)) میں ہوئی۔
گویا امام ابن حجر عسقلانی ان دونوں کے بعد کے ہیں اور ان کے ہی نسخہ میں یہ الفاظ ہیں: (
قَوْله: (مِيرَاث بن الابْن إِذا لم يكن ابن)) جو انہوں نے صحیح بخاری کے نسخہ یونینیہ سے لیا ہے۔ اسی لیئے ان کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ((أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)) یعنی بیٹے سے مراد پوتے کا باپ بھی ہے اور چچا تایا بھی ہے تو جب میت کا وہ صلبی بیٹا یا مذکر اولاد جو پوتے کا باپ ہے نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہوگا یا پھر میت کا وہ صلبی بیٹا یا مذکر اولاد جو پوتے کا چچا تایا ہے نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہوگا۔
اب اس سے یہ معنی و مطلب نکالنا کہ میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو۔ نہ تو اس یتیم پوتے کا باپ ہی ہو اور نہ ہی اسکا چچا تایا ہی ہو۔ یا یہ کہنا کہ (
جب میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) یہ سراسر دھاندھلی و فریب بازی اور جھوٹ گھڑنا ہےیہ دین کی خدمت نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے کھلواڑ کرنا اور اس میں تحریف کرنا ہے۔
اسی طرح امام ابن حجر نے اپنے اس کلام (
(وَقَوْلُهُ: بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ أَيْ لِلصُّلْبِ، وَقَوْلُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)) کے ذریعہ اس بات کی وضاحت و صراحت بھی کردی ہے کہ دادا پوتے کے مابین کا وہ بیٹا جو پوتے پوتیوں اور ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا ہے نہ ہو جو کہ صرف اور صرف ان کا باپ ہی ہے چچا تائے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ (سورة هود: 71)) یعنی یعقوب اور ابراہیم کے مابین کا بیٹا اسحاق جس کے واسطہ سے یعقوب جیسا بیٹا یعنی ابراہیم کا پوتا پیدا ہوگا۔
تو کیا یعقوب اسحاق کے بھائی تھے یا باپ تھے یا چچا تایا تھے۔ اور وراء کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ احمق کون ہے، کم فہم اور کم علم کون ہے اور جھوٹا و فریبی اور قرآن و حدیث میں تحریف، پھیر بدل کرنے والا میں ہوں یا آپ اور آپ جیسے لوگ یا آپ کے بزرگ۔
دین، دینداری اور دین کی خدمت اور اہل حدیثیت قرآن و حدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور اس میں پھیر بدل اور تحریف کرکے گھڑ بناکر معانی و مفاہیم نکالنا نہیں ہے اور قرآن و حدیث کسی کے باپ دادا کی جاگیر نہیں ہے اور صرف یہ نعرہ لگانے سے کوئی اہلحدیث نہیں ہوجاتا کہ (
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست يعني ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
)
یہ جتنی بھی آپ بکواس کیئے جا رہے ہیں وہ (
دھوکہ، حیلہ اور فنکاری نہیں) تو اور کیا ہے۔ یہ اہل حدیثیت ہے؟ اہل حدیث تو اہل تقویٰ ہوتے ہیں جنہیں آخرت کا ڈر و خوف ہوتا ہے جو اللہ و رسول کی باتوں اور اللہ کی وحی کو دانتوں سے پکڑے رہتے ہیں نہ یہ کہ بزرگوں کی باتیں پکڑ کر رکھتے ہیں۔ جو اللہ کے اس فرمان (وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10) ) سے ڈرتے ہیں۔
نیز اللہ کے ان فرامین سے ڈرتے ہیں:

(غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12) تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)
جو حدود الٰہی کی پاسداری کرتے ہیں اور حقوق و فرائض خاص کر کسی وارث کے حق و حصہ کے سلسلہ میں حد درجہ محتاط ہوتے ہیں۔
جو اولاد و والدین اور وارثوں کے سلسلہ میں اللہ کے ان فرامین کو لازم پکڑتے ہیں:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7) يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ، ... آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11)
اور اہل حدیث وہ ہیں جو اللہ کے رسول کے ان احکام و فرامین پر عمل کرتے ہیں:
*-* عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [صحيح بخاري: 6732، 6735، مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
*-*عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «
اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [صحيح مسلم: 4 - (1615)]

یعنی مال کو اہل فرائض کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو۔ یہ نہیں کہ اپنے خود ساختہ بزرگوں کے اس کہے ہوئے پر ترکہ تقسیم کرو۔ کہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکہ کا مال ((ذوی الفروض) اور (عصبة) کو دو۔) ۔
یہ اہل حدیثیت نہیں ہے اور قطعا نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اگر آپ اپنے الفاظ (جہالت وبیوقوفی) کا شکار نہیں ہیں اور بے وقوف، ناسمجھ، کم فہم، کم علم اور کج فہم نہیں ہیں اور آپ کے حق میں کوئی آسمانی سند نازل ہوئی ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے متعلق جو فرمائیں گے، وہی قرآن و حدیث کا اصل اور درست مفہوم ہوگا۔تو برائے مہربانی پیش کریں۔
ابن داود نے کہا:
نہیں! ہمارے حق میں ایسی کوئی آسمانی سند نازل نہیں ہوئی کہ ہمارا بیان کردہ مفہوم ہی قرآن وحدیث کا اصل اور درست مفہوم ہو گا!
الجواب:

جب آپ خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ (نہیں! ہمارے حق میں ایسی کوئی آسمانی سند نازل نہیں ہوئی کہ ہمارا بیان کردہ مفہوم ہی قرآن وحدیث کا اصل اور درست مفہوم ہو گا!) تو پھر دوسرے کے بارے میں یہ کہنے کا حق آپ کو کہاں سے ملا کہ (وہ آپ کی کم علمی، کج فہمی، اور جہالت ہی ہے! اس کا آپ کیا جواب دے سکتے ہیں! کچھ بھی نہیں! اور جو آپ نے ''لفظی تحریف'' کا الزام لگایا ہے، یہ تو بیوقوفی ہے!)
اور پھر اس بات پر اصرار کہ نہیں (
ہمارا بیان کردہ مفہوم ہی قرآن وحدیث کا اصل اور درست مفہوم ہے!)
ہو سکتا ہے کہ دوسرا جو کہہ رہا وہ حق و صواب ہو اگر اس کی دلیل قرآن و حدیث سے دی جارہی ہو اور اس کی سند قرآن و حدیث سے پیش کی جارہی ہو۔ میرے محترم بھائی: صرف بزرگوں کا کچھ کہہ دینا خواہ وہ غلط ہو یا صحیح آسمانی سند نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی دلیل ہوا کرتی ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث ہی ہوتا ہے کہ اس پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیا جائے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ورنہ آپ کی ساری باتیں بے تکی بے بنیاد خلاف کتاب و سنت قرار پائیں گی۔
ابن داود نے کہا:
اگر ایسا ہے! تو آپ صرف قرآن وحدیث کا متن تحریر فرمائیں! اور آپ کو بھی اس سے کوئی استدلال استنباط کرتے ہوئے، کچھ بھی بیان کرنے کی اجازت نہیں! اورآپ کی منطق کے مطابق آپ کا تمام کلام بے تکا اور بے بنیاد اور خلاف کتاب وسنت قرار پاتا ہے!
لہٰذا آپ پھر ایسا کیجیئے کہ آپ صرف قرآن وسنت کا متن پیش تحریر کیا کیجیئے!
دیکھیں: ایسی بے تکی باتوں سے گریز کریں! یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ پر کوئی نقد کیا جاتا ہے، تو آپ نے بھی ٹھانی ہوئی ہے، کہ اسی طرح کا نقد آپ نے مخالف پر کرنا ہے، جیسے آپ نے ''نکتہ چینی'' کے ضمن میں کیا تھا! لیکن یہ خیال نہیں رہتا، کہ خود اس نقد کے اول مصداق ٹھہرتے ہیں!

الجواب:
در حقیقت بے تکی باتیں تو آپ کر رہے ہیں آپ خوب شوق سے نقد کیجیئے اور علمی نقد کیجئے پر (''نکتہ چینی'') نہ کیجیئے کیونکہ نکتہ چینی اور منطق کا استعمال بے بنیاد ہوتا ہے اورمحض بات بنانا اور باتوں کو گھمانا ہوتا ہے جب کہ نقد علمی علم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اور آپ کا یہ کہنا (
آپ صرف قرآن وحدیث کا متن تحریر فرمائیں! اور آپ کو بھی اس سے کوئی استدلال استنباط کرتے ہوئے، کچھ بھی بیان کرنے کی اجازت نہیں! اورآپ کی منطق کے مطابق آپ کا تمام کلام بے تکا اور بے بنیاد اور خلاف کتاب وسنت قرار پاتا ہے!)
یہ کہنا بھی غلط ہے اور اللہ کے فرمان کے خلاف ہے۔ کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

[مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (80) وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (81) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (82) وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (83)] [سورة النساء]
تو اگر آپ کے کہے ہوئے کے مطابق عمل کیا جائے گا تو یہ بھی اللہ کی نافرمانی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث کے علم کی بنیاد پر قرآن و حدیث کے اندر تدبرکرنے اور مسائل کے سلسلہ میں قرآن و وحدیث سے استدلال و استنباط کرنے کا حکم دیا ہے۔ فافہم و تدبر اذا کنت عاقلا!
رہی بات منطق کا استعمال تو یہ اہل بدعت اور اہل کلام کا طریقہ ہے اہل سنت اور اہل حدیث کا طریقہ ہرگز نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو برائے مہربانی الزام تراشی چھوڑیئے
بالکل! یہی ہم آپ سے کہہ رہے ہیں! کہ الزام تراشی چھوڑیئے! اور خواہ مخواہ، بے بنیاد لفظی اور معنوی تحریف کے الزام تراشی نہ کیجیئے!
الجواب:
ہم نہ تو کوئی الزام تراشی کر رہے ہیں اور نہ ہی خواہ مخواہ بے بنیاد لفظی و معنوی تحریف کا الزام ہی لگا رہے ہیں بلکہ قرآن و حدیث میں جو تحریف کرکے مسئلہ گھڑا بنایا گیا ہے اس کی حقیقت بیان کر رہے ہیں اور اسے کھول کر دکھا رہے ہیں۔ جسے آپ الزام تراشی کہہ رہے ہیں تو آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

ور اصل مدعا پر آکر میرے اس سوال کہ کون سی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں بن سکتا۔ اور اس سے متعلق دیگر سوالات کا جواب دیجئے۔ادھر ادھر کی نہ ہانکئے۔
ویسے تو یہ بیان ہو چکا ہے، مگر جیسے کہا ہے کہ ایک بار پھر بیان کریں گے! اور آپ ''ہانکنے'' سے باز نہیں آرہے! اور دوسروں کے لئے، فوراً منافق کی علامت کا اطلاق کر دیتے ہیں!
الجواب:
جناب من!
اگر آپ قرآن و حدیث کے خلاف کوئی بھی بات کریں گے تو ہم اسے ہانکنا ہی کہیں گے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں نے قرآن کی یہ آیت:
(
وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴿ سورة هود ٧١﴾)
یہ دکھانے کے لئے پیش کیا تھا کہ اولاد میں بیٹا بھی آتا ہے اور پوتا بھی جیسا کہ ابراہیم کی بیوی کو اسحاق بیٹے اور اس کے توسط سے پیدا ہونے والی اولاد پوتے یعقوب کی خوشخبری دی گئی۔
ظاہر سی بات ہے کہ اسحاق کے بیٹے یعقوب جو کہ ابراہیم کے پوتے ہیں ان کی بیوی کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اسحاق کی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد و بیٹا کہا۔ جب کی پہلے سے ابراہیم کے ایک بیٹا اسماعیل جو کہ یعقوب کے تایا تھے موجود تھے۔

ابن داود نے کہا:
اس آیت میں کہاں یعقوب علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام کی ''اولاد'' اور وہ بھی '' حقیقی أولاد'' کہا گیا ہے؟ اور آپ نے اس آیت کو اپنے اس موقف پر پیش کیا تھا:
الجواب:

جناب عالی!
اگر آپ کو اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے اور آپ کے پاس سوائے کٹھ حجتی کے دوسرا کچھ بھی نہیں ہے۔ تو میں آپ کو یہ مخلصانہ ہمدردانہ مشورہ دے رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ پہلے آپ اپنے دل و دماغ کا کسی اچھے ماہر نفسیات اور ماہر عقل و دماغ ڈاکٹر حکیم اور وہ بھی دل و دماغ اور نفسیات کا ماہر اور اسپیشلسٹ ہو سے پہلے چیک اپ کرائیے پھر علاج کرائیے اور جب بالکل ٹھیک و درست ہو جائے تب بحث کیجیئے۔
اگر اس آیت میں اولاد و بیٹے کی خوشخبری نہیں دی گئی ہے تو کیا نانا دادا بھائی بھتیجہ چچا چچا زاد پیدا ہونے کی خوشخبری ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کو دی گئی تھی ۔ اور یعقوب علیہ السلام کیا ابراہیم اور سارہ کے پھوپھا اور خالو ماموں لگتے تھے۔ آپ نے تو جہالت و حماقت اور ضلالت و گمراہی کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ ایک جھوٹ کو صحیح ٹھرانے اور سچ ثابت کرنے کے لیئے ایک جھوٹا شخص ہزار جھوٹ بولتا ہے ۔ اور آپ کا یہی حال ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباء (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔
ابن داود نے کہا:
اس پر ہم نے آپ پر اعتراض وارد کیا ہے، کہ انبیاء کی تو مالی وراثت ہی نہیں ہوتی، آپ نے اسے وراثت کی تقسیم بالترتیب پر کیسے دلیل بنا لیا؟
الجواب:

یہاں بھی آپ نے اپنے پاگل ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہاں انبیاء کی وراثت تقسیم کرنا بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا اور ثابت کرنا مقصود ہے کہ جس طرح بیٹا اولاد ہوتا ہے اسی طرح پوتا بھی اولاد میں سے ہوتا ہے اور کسی پوتے ، پوتی، و نواسے، نواسی کے اولاد ہونے کا ذریعہ و واسطہ اس کے باپ اور ماں ہی ہوتے ہیں چچا تائے، خالہ ماموں نہیں ہوتے ہیں۔ اور ہر پوتے ، پوتی، و نواسے، نواسی اپنے دادا دادی، نانا نانی کی اولاد اپنے باپ اور ماں کے واسطے سے ہی ہوتے ہیں چچا تائے، خالہ ماموں کے واسطے سے نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اس فرمان باری تعالیٰ: ((من وراء اسحاق یعقوب) الآیة یعنی بیٹے اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا دوسرا بیٹا یعنی پوتا یعقوب پیدا ہوگا۔)) میں مذکور ہے کہ اسحاق کے پیچھے یعقوب پیدا ہوگا یعنی ایک بیٹا اسحاق ہوگا جو ابراہیم کے نطفہ اور سارہ کے بطن سے پیدا ہوگا جو اس کا بیٹا اور اولاد ہوگا۔ اور اسی بیٹے اسحاق کے واسطے سے ابراہیم کا دوسرا بیٹا یعقوب پیدا ہوگا۔ یہ بھی ابراہیم کی اولاد و بیٹا ہوگا پر یہ اس کی اولاد کا ایک دوسرا طبقہ اور اس کی دوسری نسل کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی اس کی اولاد اور بیٹا ہوگا یعنی پوتا یعقوب پیدا ہوگا۔ جو اسحاق کے نطفہ اور اس کی بیوی کے بطن سے ہوگا۔ جبکہ دوسری آیت میں اس بات کی وضاحت صراحت خود اللہ تعالیٰ نے کردی ہے جیسا کہ فرمایا:
(
(وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ) (سورة الأنبياء: 72))
یعنی ہم نے ابراہیم کو ایک بیٹا اور اولاد اسحاق عطا کیا اور ایک دوسرا بیٹا اور اولاد یعقوب عطا کیا۔ جو کہ ابراہیم کا پوتا ہے اور سب کو صالح اور سب کو نبی و رسول بنایا۔
جناب من!
آپ کو سوائے بکواس و اعتراض کے کچھ آتا ہی نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ کی اعلیٰ فہم اور قرآن و حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ آپ اتنی معمولی بات کو سمجھ نہ سکے اور لگے انبیاء کی وراثت جاری ہوتی ہے یا نہیں پر بحث کرنے۔
ابن داود نے کہا:
جناب من! آپ کی ''اتنی معمولی بات'' قرآن کی اس آیت میں نہیں ہے! اور اس وہم کا علاج کروا لیں کہ ہم آپ کی بات نہیں سمجھ رہے! ہم آپ کی بات کو سمجھ کر ہی باطل کہہ رہے ہیں!
الجواب:
جناب من!
آپ کے مشورہ کا شکریہ۔ وہم ہمیں نہیں بلکہ آپ کو ہے اور در اصل آپ کو وہم دور کر لینے کی ضرورت ہے جس کے لیئے آپ کو اپنے دل و دماغ اور عقل و فہم ہی نہیں بلکہ آنکھ کا بھی علاج کروالینا چاہیئے تاکہ آپ کو جو وہم ہے وہ دور ہو جائے اور جو وہم دوسرے کے دل ودماغ میں ڈالنا چاہ رہے ہیں اس سے باز رہیں۔ اور قرآن و حدیث کی ساری باتیں صاف طور پر دکھائی بھی دیں اور صحیح طور پر سمجھ میں بھی آسکیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

چنانچہ یوں رقم طراز ہیں: دیکھیں! قرآن میں یوں ہے:
(وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ) ﴿ سورة هود ٧١﴾
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری
اور آپ! اپنے تئیں، جو شیطان نے دل میں ڈالا اسے قرآن و حدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کیئے جا رہے ہو!
جناب من! إسحاق علیہ السلام نبی ہیں، اور یعقوب علیہ السلام میں بھی نبی ہیں!
اورمعلوم ہونا چاہیئے کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی! اور آپ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے إسحاق علیہ السلام اور پھر إسحاق علیہ السلام کے ہاں ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت، سے پوتوں، پوتیوں اور ان کی ذریت کو ، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، اور اب انہیں اس حق سے محروم کرتے ہو؟

یہ ہے آپ کا مبلغ علم اور اعلیٰ فہم و فراست؟ ...... آگے اور کیا کہا جائے!
ابن داود نے کہا:
جناب من! تو بتلائیے بھی! کیونکہ یہ ہماری فہم نہیں، بلکہ آپ کی فہم کا مقتضی ہے! کیونکہ آپ پوتوں پوتیوں اور ان کی ذریت کو، جس کے متعلق بقول آپ کے حق وراثت اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اللہ کا تاکیدی حکم ہے، آپ انہیں ان کے حق سے محروم کیوں کرتے ہیں؟
الجواب:
جناب من ہم کسی کو اس کے حق و حصہ سے محروم نہیں کر رہے ہیں بلکہ جسےلوگ محروم و محجوب قرار دے رہے ہیں ہم ان کو ان کا وہ حق جو اللہ نے بحیثیت اولاد دیا ہے دلانے کی بات کر رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح میں نے یہ واضح کرنے کے لئے کہ اولاد کی نسبت اور پہچان اس کے والدین کے توسط سے ہوتی ہے۔ نہ کہ چچا تائے کے توسط سے یا کسی منہ بولے بیٹے کی نسبت اور پہچان اس کے منہ بولے باپ سے نہیں کی جاتی جیسا کہ عہد جاہلیت میں ہوتا تھا۔ لہذا کسی کی نسبت اس کے باپ، دادا، پردادا سے کی جانی چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ انہیں ان کے باپ کے واسطوں سے نسبت کر کے پکارو۔
شکر ہے آپ کواس بات کا ادراک تو ہوا، کہ یہ نسبت کے لئے ہے!
الجواب:

جناب من!
آپ تو نسبت کا بھی مطلب نہیں سمجھتے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

جس کے جواب میں آپ طول طویل بحث کرنے میں لگ گئے۔ اور اس سلسلہ میں حدیث جبرئیل پیش کی جس میں یا محمد اور یا عمر کا لفظ آیا ہوا ہے۔ اس میں اس لفظ سے پکارنے سے مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کا نام لیکر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ نہ یہ کہ کس کی طرف اس کی نسبت ہے کون اس کا باپ دادا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ''بات بنتی نہیں تو بناتے کیوں ہو!''
ہم نے یہ کہا تھا :

ابن داود نے کہا ہے:
معلوم ہوا کہ یہاں حکم در اصل اس کے والد کے نسب ونسبت سے پکارنے کے لزوم کا حکم نہیں، بلکہ والد کے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارنے کی نفی کا حکم ہے! یعنی کہ یہ لازم نہیں کہ کسی شخص کو اس کے والد کے نسب ونسبت سے ہی پکارا جا سکتا ہے، اور والد کے نسب ونسبت کے بغیر پکارنا ممنوع قرار پائے، بلکہ ممنوع یہ قرار پاتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے والد کے بجائے کسی اور کے نسب ونسبت سے پکارا جائے!
ابن داود نے کہا:
مختصراً مقصود یہ ہے کہ مخاطب کو اس کے والد کے نسب کے علاوہ کسی اور نسب سے منسوب کر کے نہ پکارا جائے! اور صرف پکارنا ہی نہیں، اس طرح منسوب کرنا اور سمجھنا بھی ممنوع ہے!
الجواب:
جناب من!
آپ تو پوتے کو اس کے چچا تائے سے منسوب کر رہے ہیں اور یتیم پوتے کا اس کے دادا سے رشتہ اس کے چچا تائے سے مشروط مان رہے ہیں۔ تو پوتے کا نسب نامہ اس کے باپ دادا پردادا سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اور آپ یتیم پوتے کا اس کے دادا سے رشتہ اور نسب نسب نامہ اس کے باپ دادا پردادا سے جوڑ کر دیکھے کے بجائے اس کے چچا تائے سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ اور پوتے و دادا کے بیچ پوتے کے باپ کے بجائے اس کے چچا تائے کو لا رہے ہیں۔ بریں عقل و خرد بباید گریست۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اتنی معمولی سی بات آپ کی اعلیٰ فہم میں نہیں آرہی ہے اور نہ سمجھ پارہے ہیں اور الٹی پلٹی ہانکے جارہے ہیں۔ اور ہم نے جس نکتے پر توجہ چاہی تھی وہ پس پشت ڈال کر یہ طول طویل بات لکھ ماری:
ابن داود نے کہا:
میرے بھائی! ہم نے آپ سے جو سوال کیا تھا اس کا جواب دینے کے بجائے کوسنے دینا شروع!
میں وہ سوال دوبارہ پیش کرتا ہوں:
کسی شخص کو اس کے والد کی نسبت سے پکارنے سے وہ اپنے دادا کی وراثت سے کیونکہ محروم قرار پاتا ہے؟ جب کہ یہ حکم تو سب کے لئے ثابت ہے، کہ اسے اس کے والدکے علاوہ کسی اور کے نسب ونسبت سے نہیں پکارا جائے! کسی بھی شخص کا نسب ونسبت اس کے والد کی حیات میں بھی وہی ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ والد کی وفات کے بعد یتیم ہونے کی صورت میں تبدیل ہوتا ہے! تو یتیم ہونے اور نہ ہونے میں اس امر میں تو کوئی فرق نہیں آتا! یعنی کہ یہ کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!
اس کا جواب دیں!
الجواب:
جناب من!
آپ کا یہ کہنا کہ (
کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!)
جب آپ کے بقول: (
کسی کو پکارنے کا حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!) تو یتیم پوتوں کو اس کے دادا کے ترکہ سے آپ اور آپ جیسے لوگ کس جرم کی پاداش میں محجوب و محروم الارث قرار دے رہے ہیں۔ اور اللہ کے حکم اور فرمان کا انکار کرکے کفر آپ اور آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں جس کا احساس بھی آپ اور آپ جیسے لوگوں کو نہیں ہے۔
میں نے نسب اور نسبت کی بات اس فرمان باری تعالیٰ کے حوالے سے کہی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے:

فرمان باری تعالیٰ ہے (ادعوہم لآبائہم ہو اقسط عند اللہ) الآیۃ یعنی انہیں ان کے آباءیعنی ان یتیموں کو ان کے باپ دادا کے (واسطوں) سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قابل انصاف بات ہے۔ نیز فرمایا : (من وراء اسحاق یعقوب) الآیۃ یعنی اسحاق کے بعد اس کے پیچھے اس کا بیٹا یعقوب۔
تو اس میں صرف یہ بتانا مقصودتھا کہ یتیموں کو ان کے واسطون سے جانا و پکارا جائے۔ کیونکہ ان کا نسب و رشتہ ان کے باپ دادا پردادا وغیرہ سے ان کے باپ کے واسطے سے ہی ہوتا ہے یہی قرین انصاف اور درست بات ہے۔ اس کی دلیل و ثبوت خود اللہ نے بیان کی ہے کہ یعقوب ابراہیم کی اولاد و بیٹا اپنے باپ اسحاق کے واسطے سے ہی ہے۔ چچا تایا اسماعیل کے واسطے سے نہیں۔ تو پوتے یعقوب پر اللہ تعالیٰ نے دادا ابراہیم کا بیٹا اور اولاد ہونے کا حکم بواسطہ اس کے باپ اسحاق کے واسطے سے لگایا ہے۔ تو بنا بریں زیر بحث مسئلہ میں پوتے پر حکم اس کے باپ کے حوالے سے لگے گا یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ کس پوتے کا باپ موجود ہے اور کس پوتے کا باپ موجود نہیں ہے۔ تو جس پوتے کا باپ موجود ہے وہی محجوب ہوگا اور جس پوتے کا باپ موجود ہے تو وہ وارث ہوگا۔
تو زیر بحث مسئلہ میں جن پوتوں کا باپ موجود ہے وہ محجوب ہیں البتہ محروم الارث نہیں ہیں کیونکہ ان کے باپ کے واسطے سے انہیں ان کے دادا کے ترکہ سے ترکہ کا مال پہنچتا ہے جب کہ یتیم پوتوں کو جن کا باپ موجود نہیں ہے ان کے دادا کے ترکہ سے ترکہ کا مال نہیں پہنچتا ہے۔ لہذا وہ محجوب نہیں ہوتے البتہ انہیں محروم الارث ضرور ہونا پڑتا ہے۔
اور حجب کا جو پہلا اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطہ کے ہوتے ہی محجوب ہوگا۔ اور جب واسطہ موجود نہیں ہوگا تو وارث ہوگا۔ یہ بالکل اصولی بات ہے۔ اس میں کسی طرح کا کوئی اشکال نہیں ہے اور اس بات میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے کہ یتیم پوتے کا واسطہ ان کے باپ ہی ہیں چچا تائے ہرگز نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے باپ کے ہی واسطے سے پیدا ہوئے ہیں اور صرف انہیں کے پیچھے ہیں۔ وہ اپنے چچا تائے کے پیچھے ہرگز نہیں ہیں۔ بنا بریں انہیں چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا قطعی طور پر بے اعتدالی، بے اصولی اور حدود الٰہی سے کھلا ہوا تجاوز ہے۔ یتیم پوتا قطعی طور پر چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پورے نظام تقسیم ترکہ اور میراث کو حدود الٰہی قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: (
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ) یعنی فرائض و مواریث کے جملہ احکام و فرامین اور اس کا پورا نظام و سسٹم حدود الٰہی ہے ۔ اور آگے فرمایا کہ جو ان کی پاسداری و پیروی کریگا وہ ہمیشہ کے لیئے جنتی ہوگا اور جو ان کی خلاف ورزی، بے اعتدالی کرے گا اور اللہ کی متعین کی ہوئی حدوں سے تجاوز کریگا تو پھر اس کا انجام جہنم کی آگ کا دائمی ذلت آمیز عذاب ہوگا۔ (سورہ نساء: ۱۳-۱۴)
ظاہر سی بات ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں یتیم پوتے پر صریحی ظلم اور ان کے ساتھ ناانصافی اور حد سے تجاوز کیا جارہا ہے کہ پہلے تو اسے اولاد ماننے سے انکار کیا جاتا ہے پھر اسے عصبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور وراثت کی بنیاد قرابت داری بتائی جاتی ہے اور چچا تائے اور یتیم پوتے کو بلا حدود و قیود اور ان کے واسطے کا لحاظ کیئے ہوئے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر کے چچا تائے کو قریب تر عصبہ اور یتیم پوتے کو عصبہ بعید کہہ کر محجوب قرار دیا جاتا ہے اور محروم الارث ٹھہرادیا جاتا ہے۔ جب کہ نہ تو یتیم پوتا عصبہ ہے اور نہ ہی قرابت دار ہے بلکہ وہ تو اولاد میت میں سے ہے اور اس کا دادا اس کا والد اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا اسی طرح ترکہ ہے جیسے اس کے چچا تائے کے والد کا ترکہ ہے۔اور وہ بنیادی طور پر اپنے باپ کے واسطے سے ہی اپنے دادا کی اولاد ہے جیسے اس کا دادا اس کے باپ کے واسطے سے اس کا والد و باپ ہے۔ پس بفرمان الٰہی کہ والدین کے ترکہ میں اس کی اولاد میں ہر مرد و عورت کا ایک مقررہ حصہ ہے خواہ وہ کم نکلے یا زیادہ۔ ترکہ کا مال کم ہو یا زیادہ۔ بہر صورت سب کا حصہ ہے اور وہ اللہ کا مقرر کیا ہوا فریضہ ہے۔ نیز اللہ کا یہ بھی فرمان ہے کہ آباء و اجداد، یعنی باپ دادا پردادا اور ابناء یعنی بیٹوں پوتوں کے معاملہ میں قرابت داری، قرب و بعد کا لحاظ نہ کرو کیونکہ ان کا کون قریبی ہے اور کون دور والا تم نہیں جانتے۔ یہ اللہ کا فریضہ ہے جسے بعینہ اس کے مستحقین تک اسے پہنچاؤ۔ اور زیادہ حکمتیں نہ بگھاڑو۔ اور بکواس نہ کرو اللہ تعالیٰ کو سب پتا ہے کہ کون قریبی ہے اور کون دور والا تم کیا جانو کہ کون قریب والا ہے اور کون دور والا ۔
نیز آپ کا یہ کہنا کہ (
حکم تو یتیم اور غیر یتیم دونوں کے لئے قائم ہے!تو پھر بقول آپ کے، ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!)
جناب عالی !
یتیم پوتے کو محروم کرنے کا جرم ہم نہیں بلکہ آپ اور آپ جیسے لوگ ہی کر رہے ہیں۔ صرف وہی پوتے محروم ہوتے ہیں جن کے باپ نہیں ہوتے۔ اور جن کے باپ ہوتے ہیں ان کو تو ملتا ہی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ابراہیم کے دو بیٹے ہیں ایک اسماعیل اور دوسرا اسحاق، اور اسماعیل کا ایک بیٹا محمد ہے اور اسحاق کا ایک بیٹا یعقوب ہے۔ اسماعیل اپنے باپ ابراہیم کی زندگی میں وفات پاجاتا ہے اور اپنے بعد اپنے بیٹے محمد کو چھوڑ جاتا ہے اس کے بعد ابراہیم کی وفات ہوتی ہے تو اس کی اولاد اور ورثاء میں صرف ایک بیٹا اسحاق ہے اور ایک یتیم پوتا محمد ہے اور دوسرا پوتا یعقوب ہے۔ ایسی صورت میں آپ کی خانہ ساز شریعت یہ کہتی ہے کہ چونکہ بیٹا اسحاق بمقابلہ اپنے بھتیجے یعنی مرنے والے کے یتیم پوتے محمد کے مرنے والے سے زیادہ قریب ہے اس لیئے سارا مال صرف اور صرف اسحاق کا ہوگا۔ اور یتیم پوتے محمد کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔اب اس کے بعد اسحاق کا بھی انتقال ہوجاتا ہے تو اس طرح ابراہیم کا سارا مال بواسطہ اسحاق کے اس کے بیٹے یعقوب یعنی ابراہیم کے صرف ایک پوتے کو پہنچتا ہے جب کہ محمد کے باپ کے ہونے کی صورت میں ابراہیم کے دودونوں پوتوں کو آدھا آدھا مال ملتا۔ محمد و یعقوب دونوں ہی ابراہیم کے پوتے یکساں طور پر ہیں ان میں قطعی کوئی ادنیٰ سا بھی فرق نہیں ہے۔ جس طرح اسماعیل و اسحاق دونوں یکساں طور پر ابراہیم کے بیٹے ہیں اور ان میں ادنیٰ سا بھی فرق نہیں ہے۔
تو جس پوتے کا باپ موجود ہے وہ کب محروم ہوتا ہے۔اس کو تو اس کے باپ کے واسطے سے اس کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچتا ہے۔ محروم تو صرف وہ یتیم پوتا ہی ہوتا ہے جس کا باپ موجود نہیں ہوتا ہے۔
لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (
ان پوتے پوتوں اور ان کی ذریت کو دادا کی وراثت سے محروم کر کے آپ کےبقول، اللہ تعالی کے حکم اور عائد کردہ فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر کیوں کرتے ہو!)
بالکل غلط اور کھلا ہوا فریب و جھوٹ ہے۔ ہم نہ کسی پوتے کو محروم کہتے ہیں اور نہ ہی محروم کرتے ہیں ہم پر آپ یہ الزام لگا رہے ہیں اور سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم نہ تو اللہ کے حکم کا انکار کر رہے ہیں اور نہ ہی اس کے عائد کردہ فریضے کا ہی انکار کر رہے ہیں لہذا ہم پر کفر کا جو فتویٰ آپ جھاڑ رہے ہیں وہ در حقیقت آپ پر لازم آتا ہے اور یقینا لازم آتا ہے کیونکہ آپ کھلے طور پر اللہ و رسول کے احکام وفرامین کا انکار کر رہے ہیں کہ دادا حقیقی والد و باپ نہیں اور پوتا حقیقی اولاد و بیٹا نہیں ہے جبکہ قرآن و حدیث کی ایک نہیں بلکہ ایسی متعدد آیات و احادیث ہیں جو دادا کے حقیقی والد و باپ ہونے اور اس کے پوتے کے حقیقی اولاد و بیٹا ہونے پر دلات کرتی ہیں جس کےآپ انکاری ہیں اور جس کو ہم نے بار بار پیش کیا ہے اور جس سے صحابہ، تابعین، اتباع تابعین اور مفسرین و محدثین نے استدلال و استباط کیا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے : وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [سورة النساء: 33]
(ہر ایک کےلئے ہم نے موالی (وارث، حقدار، حصہ دار) بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔ اور ان لوگوں کے بھی جن سے تم نے عقد یمین کیا ہو تو انہیں ان کے حصے دیدو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد و گواہ ہے۔)۔ [۴/النساء:۳۳]
ہمارا اس آیت سے استدلال یہ تھا کہ: اس آیت میں بھی پہلے والدان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے پھر الاقربون کا لفظ استعمال ہوا جس سے یہ واضح اور ثابت ہوا کہ ترکہ دو طرح کا ہے ایک والدین کا دوسرے اقرباء کا ۔ تو چونکہ دادا والدین میں سے ہے اور اس کا ترکہ والد کا ترکہ ہے اور اس کا پوتا اس کی اولاد و ذریت میں سے ہے اس لئے اس کے ترکہ میں جس طرح اس کے بیٹے بیٹیوں کا حق وحصہ بنتا ہے اسی طریقہ سے اس کے پوتے پوتیوں کا بھی حق حصہ بنتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ نے لکھا:

جب آپ نے قرآن کی اس آیت سے پوتوں، پوتیوں،اور ان کی أولاد و ذریت کو اسی طرح دادا کی رواثت حقدار ٹھہرایا ہے، جیسے میت کے بیٹے، بیٹیاں، یعنی پوتے کے ابا، چچا، پھپی دادا کی وراثت میں حقدار ہیں، تو پھر آپ آگے ان میں سے کسی کو بھی وراثت کے حق سے محروم کرنے کے در پر کیوں ہیں؟ پھر ان سب کو وراثت میں حصہ دییجئے! اور کسی کو محروم کرتے ہوئے! اللہ کی وصیت، اللہ کے عائد کردہ فریضہ، اور تاکیدی حکم کی مخالفت کرت ہوئے، کافر کیوں بنتے ہو؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا
ابن داود نے کہا:
جیسے میت کے بیٹے اور پوتے بیک وقت حصہ پاتے ہیں، اسی طرح آپ کے بقول تو پوتے اور پوتیاں بھی اسی طرح وراثت کی حقدار ہیں، تو انہیں بھی بیک وقت ہی وراثت میں حصہ دیا جانا لازم آتا ہے!آپ آخر کیوں پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں! جبکہ آپ کے بقول پوتے اور پوتیوں اور دیگر ذریت کے لئے حق ميں اللہ تعالی کا تاکیدی حکم ہے، اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے! اس فریضہ سے روگرادنی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

Click to expand...
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
الجواب: میں کسی پوتے کو ان کے حق سے محروم کئے جانے کی بات تو کرہی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف یتیم پوتوں کے محروم نہ کئے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے کہ دیگر پوتوں کو دیتے ہیں! اس طرح کا جھوٹ بولنے سے تو گریز کیجیئے!
الجواب:

جناب من!
جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں کہ دیگر پوتوں کو نہیں ملتا ہے اس طرح کا جھوٹ بولنے سے آپ پرہیز کریں۔ اللہ کے یہاں کھڑا ہونا ہے اور جواب بھی دینا ہے۔ ہم نے پیچھے ایک مثال دے کر بتایا ہے کہ جس پوتے کا باپ موجود ہوتا ہے اسے اپنے باپ کے واسطے سے اس کے دادا کے ترکہ کا مال ملتا ہے بلکہ آپ کی خانہ ساز شریعت تو کل کا کل دیدیتی ہے اور یتیم پوتے کو پھوٹی کوڑی نہیں دیتی ہے جب کہ اسی یتیم پوتے کے مرنے پر یتیم پوتے کا سارا مال دادا کو دلا دیتی ہے جبکہ دیگر پوتوں سے دادا کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی ہے۔
چنانچہ صرف وہی پوتے محروم ہوتے ہیں جن کے باپ نہیں ہوتے اور جن کے باپ ہوتے ہیں ان کو تو ملتا ہی ملتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پیچھے ایک مثال دیکر سمجھایا ہے جسے ہم دوبارہ یہاں دہرائے دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ابراہیم کے دو بیٹے ہیں ایک اسماعیل اور دوسرا اسحاق، اور اسماعیل کا ایک بیٹا محمد ہے اور اسحاق کا ایک بیٹا یعقوب ہے۔ اسماعیل اپنے باپ ابراہیم کی زندگی میں وفات پاجاتا ہے اور اپنے بعد اپنے بیٹے محمد کو چھوڑ جاتا ہے اس کے بعد ابراہیم کی وفات ہوتی ہے تو اس کی اولاد اور ورثاء میں صرف ایک بیٹا اسحاق ہے اور ایک یتیم پوتا محمد ہے اور دوسرا پوتا یعقوب ہے۔ ایسی صورت میں آپ کی خانہ ساز شریعت یہ کہتی ہے کہ چونکہ بیٹا اسحاق بمقابلہ اپنے بھتیجے یعنی مرنے والے کے یتیم پوتے محمد کے مرنے والے سے زیادہ قریب ہے اس لیئے سارا مال صرف اور صرف اسحاق کا ہوگا۔ اور یتیم پوتے محمد کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔اب اس کے بعد اسحاق کا بھی انتقال ہوجاتا ہے تو اس طرح ابراہیم کا سارا مال بواسطہ اسحاق کے اس کے بیٹے یعقوب یعنی ابراہیم کے صرف ایک پوتے کو پہنچتا ہے جب کہ محمد کے باپ کے ہونے کی صورت میں ابراہیم کے دودونوں پوتوں کو آدھا آدھا مال ملتا۔
جب کہ محمد و یعقوب دونوں ہی ابراہیم کے پوتے یکساں طور پر ہیں ان میں قطعی کوئی ادنیٰ سا بھی فرق نہیں ہے۔ جس طرح اسماعیل و اسحاق دونوں یکسان طور پر ابراہیم کے بیٹے ہیں اور ان میں ادنیٰ فرق نہیں ہے۔
تو جس پوتے کا باپ موجود ہے وہ کب محروم ہوتا ہے۔اس کو تو اس کے باپ کے واسطے سے اس کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچتا ہے۔ محروم تو صرف وہ یتیم پوتا ہی ہوتا ہے جس کا باپ موجود نہیں ہوتا ہے۔
لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے کہ دیگر پوتوں کو دیتے ہیں! اس طرح کا جھوٹ بولنے سے تو گریز کیجیئے!)
بالکل غلط اور یہ آپ کا کھلا ہوا فریب و جھوٹ ہے۔ ہم نہ کسی پوتے کو محروم کہتے ہیں اور نہ ہی محروم کرتے ہیں ہم پر آپ یہ الزام لگا رہے ہیں اور سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہمیں جھوٹ بولنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہم کسی بھی پوتے کے حق و حصہ کے انکاری نہیں ہیں ۔ البتہ یتیم پوتے کے حق و حصے کے انکاریوں سے ہماری یہ دردمندانہ اپیل ہے کہ دوسروں کے مفاد کی خاطر اللہ و رسول پر افتراء پردازی نہ کریں۔ اور جھوٹی و من گھڑت بات کو کم از کم اللہ و رسول کا حکم اور اس کی شریعت نہ ٹھہرائیں۔ اور خود کو جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بنائیں۔ جس پوتے کے حق کا انکار کر رہے ہیں اور جس پوتے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر یہ ساری بکواس اور کٹھ حجتیاں کر رہے ہیں اس سے آخرت میں سوائے ذلت و رسوائی اور جہنم کی دائمی آگ کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اور بیچارے یتیم پوتے نے آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑا ہے کہ آپ اس کی اس درجہ مخالفت پر آمادہ ہیں اور اس کے حق و حصہ کا انکار کیئے جا رہے ہیں۔ اگر آپ صاحب اولاد ہیں تو اپنی اولاد کو سامنے رکھ کر اور اللہ کے اس فرمان (
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)سورة النساء) کو سامنے رکھ کر سوچیئے اور اللہ سے ڈریئے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کی اسی طرح پکڑ میں آجائیں جیسے آپ کے بزرگ مولانا امرتسری شکار ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے بیٹے چھین لیئے اور ان کے یتیم پوتوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے ان کا وارث بنادیا۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!
نیز میں نے دسیوں ایسے لوگوں کو دیکھا کہ جو ان یتیم پوتوں کے حق وراثت کے مخالف اور منکر تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑا اور آزمائش میں ڈالا جن میں سے کچھ تو خود ہمارے گھر خاندان کے ہیں اور کچھ اعزہ و اقارب میں سے ہیں اور کچھ ہمارے جانکار لوگوں میں سے ہیں۔ لہذا ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں اور سنبھل کر باتیں کریں اور حد سے نہ گذریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کیونکہ لوگ یتیم پوتوں کو محجوب الارث قرار دیکر محروم الارث کرتے ہیں۔ اور دیگر پوتوں کو دیتے ہیں۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کو نہیں دیا جائے گا۔ اور چچا تایوں کو دیا جائے گا تو ان کے توسط سے ان کے بیٹے بیٹیوں یعنی غیر یتیم پوتے پوتیوں میں سے ہر ایک کو مل جائے گا اور ان سب پوتے پوتیوں کو ان کے دادا کے ترکہ کا مال پہنچ جائے گا۔
ابن داود نے کہا:
یہ آپ کی اٹکل ہے، جو حقیقت کے خلاف ہے، اس کا بیان پہلے ہو چکا ہے، کہ وہ چچا اور تایوں کی ہی ملکیت ہوتا ہے، نہ کہ ان کے بیٹوں کی!
الجواب:

یہ میری اٹکل نہیں بلکہ یہی حقیقت ہے جس کو سمجھنے کے لیئے پیچھے دی گئی مثال کافی ہے اس پر غور کریں۔ آپ نے کہا (چچا اور تایوں کی ہی ملکیت ہوتا ہے، نہ کہ ان کے بیٹوں کی) چچا تایوں سے ان کے بیٹوں کو جو مال پہنچتا ہے وہ سب کا سب چچا تایوں کی ملکیت نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں ان کے باپ یعنی پوتوں کے دادا کے ترکہ کا مال بھی شامل ہوتا ہے جب کہ یتیم پوتوں کو محجوب و محروم الارث قرار دینے کی صورت میں ان کو ان کے دادا کے ترکہ سے کچھ بھی نہیں پہنچتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور صرف یتیم پوتے پوتیاں محروم رہ جائیں گے۔ جب کہ اللہ کے رسول نے بیٹی کے ہوتے یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم نہیں کیا ہے۔
ابن داود نے کہا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو! اور ہم اسی کے قائل ہے!
الجواب:

تو جناب عالی!
یہ محض آپ کی بکواس ہے۔ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ (
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) تو ہم تو بار بار اسی بات کا آپ سے مطالبہ کر رہیں کہ ہمیں وہ حدیث دکھائیے تو سہی جس کی بنیاد پر آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں اور اللہ کے رسول پر یہ افتراء پردازی کر رہے ہیں کہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!) ۔ آپ کا یہ کہنا سو، ہزار، لاکھ نہیں بلکہ کروڑ ہا کروڑ فیصد بلکہ اسے بھی زیادہ بڑا جھوٹ ہے یہ اللہ کے رسول پر بولا گیا دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ آپ تو کذاب اعظم مرزا غلام احمد قادیانی سے بھی بڑے جھوٹے ہیں جس نے کم از کم اللہ کے رسول کو خاتم النبیین تو مانا تھا البتہ اپنے آپ کو ظلی و بروزی نبی قرار دیا۔ اور آپ تو اللہ کے رسول کو ہی جھوٹا بتا رہے ہیں اور ان سے بھی بڑا بن رہے ہیں اور ان سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پوتی اپنے دادا کی اولاد و بیٹی نہ تھی۔ تو آپ ہی بتائیے کہ وہ اپنے دادا کی ماں، دادی، نانی یا اخیافی بہن تھی کہ اسے چھٹا حصہ دیا تھا؟ آخر اس کو یہ حصہ کس بنا پر دیا؟۔
جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے کہا ہی نہیں اس کے بارے میں آپ یہ کہہ رہے ہیں:
(
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتیوں کا اسی وقت وراثت میں حصہ قرار دیا ہے، جب دادا یعنی میت کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!)
اور اس خود کے گھڑے ہوئے جھوٹ کے ماننے اور قائل ہونے کا بھی آپ بایں الفاظ (
اور ہم اسی کے قائل ہے!) اقرار کر رہے ہیں۔ جیسے بہت سارے لوگ اس کے قائل ہیں۔ تو آپ بھی اس کے قائل رہیئے کون آپ کو روک رہا ہے البتہ اسے آپ اللہ اور اس کے رسول کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو گمراہ نہ کیجئے اور واضح رہے کہ کذاب اعظم مرزا غلام احمد قادیانی بھی اسی بات کا قائل تھا جس کے آپ قائل ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہ تو آپ جیسے لوگ ہیں جو یتیم پوتوں اور پوتیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں!
ابن داود نے کہا:
جب قرآن و حدیث سے دادا یعنی میت کی مذکر أولاد موجود ہو، تو پوتے پوتی کو اللہ اور اس کے رسول وراثت کا حقدار قرار نہیں دیتے، ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے تابع ہیں!
الجواب:

جب ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی آپ قرآن وحدیث کی وہ آیت اور حدیث پیش کردیجئے جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ (دادا یعنی میت کی مذکر أولاد موجود ہو، تو پوتے پوتی کو اللہ اور اس کے رسول وراثت کا حقدار قرار نہیں دیتے) ۔
آپ کے پاس قرآن وحدیث کی وہ آیت اور حدیث ہے تو پیش کیوں نہیں کرتے ہم ابھی مان لیں گے۔ ورنہ اللہ و رسول پر جھوٹ نہ بولیئے اور جھوٹ بول کر دوسروں کو گمراہ نہ کیجیئے اور لوگوں کو مغالطے میں نہ ڈالیئے کہ اللہ و رسول کا فرمان ہے۔ کہاں ہے اللہ کا وہ فرمان اور کہاں ہے اللہ کے رسول کا وہ فرمان۔ کیا کوئی مخصوص قرآن و حدیث آپ کے پاس ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے جسے صرف آپ نے ہی پڑھا ہے ہم نے نہیں پڑھا ہے۔

ؐ---------------------------------------------------
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
الجواب:
میری اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی جو ترتیب رکھی ہے پہلے بیٹا پھر اس کا بیٹا پھر اس کا بیٹا۔ یعنی بیٹا پوتا پڑپوتا درجہ بدرجہ نیچے تک۔ جیسے اللہ نے انہیں بنایا ہے اسی ترتیب سے درجہ بدرجہ انہیں حق و حصہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چچا کی عمر زیادہ ہے یا پوتے کی عمر۔ لیکن آپ کی اعلیٰ فہم و فراست نے اس کو یوں سمجھ لیا جو آپ نے یوں تحریرکیا:

آپ ترتیب سے دے دیجئے، کہ پہلے اسے دیجئے، جو پہلے پیدا ہوا ہو! یعنی کہ اگر پہلے کوئی پوتا ہوا ہو، اور بعد میں اس کا کوئی چچا، یعنی کہ پوتا اگرچچا سے عمر میں بڑا ہو، تو پہلے پوتے کو دیں، بعد میں اس کے چچا کو!
یعنی کہ بالترتیب عمر تمام کو ان کا حصہ دیا جائے!تمام بیٹوں کو بھی، تمام بیٹیوں کو بھی، تمام پوتوں کو بھی، تمام پوتیوں کو بھی اور دیگر تمام ذریت کو بھی! لیکن ملنا سب کو چاہیئے، اگر کسی کو بھی محروم کیا، تو آپ کے بقول اللہ کے تاکیدی حکم اور فریضہ کا انکار کرتے ہوئے کفر لازم آئے گا! مگر آپ ترتیب نہیں فرما رہے، آپ یہاں بعض کو حق وراثت سےمحروم کرنے کے درپر ہو! جن کے حق کو آپ نے اللہ کا حکم اور عائد کردہ فریضہ قرار دیا ہے!

الجواب:
یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم و فراست جس کی اگر داد نہ دی جائے تو ایسی اعلیٰ فہم و فراست اور قرآن و حدیث دانی کی توہین ہوگی۔
بات درجہ بدرجہ پیدا ہونے کی ترتیب کے لحاظ کی ہے لیکن سمجھا گیا عمر کے زیادہ و کم ہونے کے اعتبار سے ترتیب کا لحاظ رکھنا۔ کہاں کا تیر کہاں کا تکہ۔

Click to expand...
ابن داود نے کہا:
یہ ''کہیں کا تیر کہیں کا تکہ'' ہمارا نہیں آپ کا تھا! اور یہ آپ کی ''اعلی فہم وفراست'' آپ نے بایں الفاظ رقم فرمائی تھی:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
رہا یہ سوال کہ کیا سب کو بیک وقت حصہ ملے گا یا کیسے ملے گا تو اس کا فیصلہ خود اللہ نے کردیا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے اور جس ترتیب سے پیدا کیا ہے اسی کے مطابق انہیں دیا جائے گا۔
ابن داود نے کہا:
اور آپ کا مدعا یہ ہے کہ پوتے پوتیاں اور ان کی ذریت بھی دادا کی ''حقیقی أولاد'' ہے، جیسے باپ، چچا اور تایا، بقول آپ کی ترتیب کے تو لازم آتا ہے کہ جس ترتیب سے ان کی پیدائش ہوئی ہے، انہیں اس ترتیب سے دیا جائے! مگر آپ یہ نہیں کرتے، بلکہ آپ، آپ کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو دیتے ہیں، اور بعض ''حقیقی أولاد'' کو نہیں دیتے! ہم نے آپ پر یہ اعتراض کیا تھا، کہ یہاں ترتیب کا معاملہ نہیں، معاملہ یہ ہے کہ آپ، آپ ہی کے بقول بعض ''حقیقی أولاد'' کو محروم کرتے ہیں!
الجواب:
آپ کا یہ جملہ (یہ ''کہیں کا تیر کہیں کا تکہ'' ہمارا نہیں آپ کا تھا! اور یہ آپ کی ''اعلی فہم وفراست'') خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔
ہم نے نہ تو کوئی تیر چلایا ہے اور نہ ہی تکا مارا ہے، آپ ہیں کہ بے تکی باتیں کیئے جارہے ہیں۔ آپ کو تو ترتیب کا معنیٰ و مفہوم تک ہی سمجھ نہ آیا تو یہ بے تکی باتیں کیرنے لگ گئے ۔ ترتیب یہ ہے کہ پہلے بیٹا پیدا ہوتا ہے پھر اس کے واسطے سے اس کا بیٹا (پوتا) پیدا ہوتا ہے پھر اس کے واسطے سے اس کا بیٹا (پڑپوتا) پیدا ہوتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(
(وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ) [سورة هود: 71])
یعنی بیٹے اسحاق کے پیچھے و بعد پوتا یعقوب پیدا ہوگا۔
تو اس فرمان باری تعالیٰ کے بموجب بیٹا اسحاق بھی حقیقی اولاد و بیٹا اور پوتا یعقوب بھی حقیقی اولاد و بیٹا ہے۔
آنجناب کو یہ تک پتہ نہیں کہ حقیقی اولاد ہی ذریت ہوتی ہے اور والد و اولاد حقیقی ہی ہوتے ہیں۔ مجازی نہیں ہوتے البتہ باپ حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مجازی بھی ہوتے ہیں اسی طرح بیٹے حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مجازی بھی ہوتے ہی۔
چچا باپ ہے پر والد نہیں۔ بھتیجہ بیٹا ہے پر اولاد نہیں۔ آپ کو یہ سب تو معلوم ہے نہیں صرف بکواس کرنا ہی آتا ہے۔

ؐ---------------------------------------------------
ابن داود نے کہا:
السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نوٹ: یہاں @مسرور احمد الفرائضی
صاحب مخاطب تو شیخ @کفایت اللہ حفظہ اللہ سے ہیں، لیکن یہ مراسلہ میری طرح دیگر قارئین کی نظر میں بھی ہے، اس پر میں ایک قاری کی حیثیت سے تبصرہ ونقد کا حق رکھتا ہوں! مجھے شیخ کفایت اللہ حفظ اللہ کی نیابت وترجمانی کا کوئی اجازت نامہ حاصل نہیں۔ میرے تبصرہ وتقد کو شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہٰ سے منسوب نہ کیا جائے، تاکہ میری تحریر کے عیب کا ذمہ مجھ پر رہے، شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ اس عیب کے ذمہ دار نہیں!
الجواب:
جناب من!
میرے مخاطب تو کفایت اللہ سنابلی ہی تھے جنہوں نے مجھے میراث کا علم کسی عالم سے سیکھنے کا مشورہ دیا تھا اور آپ جب بچولیہ کی طرح اس میں ٹپک پڑے تو آپ جو بھی غلطی کریں گے وہ ساری غلطی سنابلی صاحب کی بھی مانی جائے گی۔ در اصل میرے مخاطب صرف آپ نہیں بلکہ تمام علمائے اہل حدیث بشمول مولانا امرتسری، مولانا عبید اللہ مبارکپوری، صلاح الدین یوسف سبھی لوگ شامل ہیں کیونکہ ان تمام لوگوں نے ہی یتیم پوتے کی محجوبیت کا فتویٰ دیا ہے اور میرا اصل نشانہ یتیم پوتی کی محجوبیت کی شرعیت حیثیت ہےافراد نہیں ہیں کیونکہ جس مسئلہ کو شرعی محکم اور اجماعی مسئلہ بتایا گیا ہے اور اس کو اہل حدیث کا موقف و مسلک بتایا گیا ہے تو میری ساری بحث کا ماحصل یہی ہے کہ یہ اہل حدیث کا مسلک قطعی طور پر نہیں ہے یہ مسلک اہل حدیث کیا یہ پورے دین اسلام پر ایک کلنک اور بدنما داغ ہے۔
ایک ایسا مسئلہ جس کی بنیاد ہی غلط ہو اور جسے قرآن و حدیث کے الفاظ و معانی میں پھیر بدل کر کے گھڑا بنایا گیا ہو اور جس کی کوئی ادنی سی بھی دلیل قرآن و حدیث کے اندر قطعی طور پر نہ ہو ۔ وہ شرعی کیسے ہو سکتا ہے اور اہل حدیث کا مسلک کیسے بن سکتا ہے اور میرا یہ دعویٰ اور کھلاہوا چیلنج ہے کہ کوئی بھی مائی کا لال ایسا پیدا ہی نہیں ہوا ہے جو اس خود ساختہ من گھڑت اور خانہ ساز مسئلہ پر ایک بھی صحیح دلیل قرآن و حدیث سے تا قیامت پیش کرسکے۔ پس اس مسئلہ کا اسلام اور شریعت اسلامی سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اہل حدیث کا ہی یہ مسلک ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

محترم کفایت اللہ صاحب!
میرے محترم آپ کے مشورہ کا شکریہ۔ آپ ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں اور آپ کی فرائض کے سلسلہ معلومات بس سراجی جیسی فقہی کتابیں ہی ہیں۔

ابن داود نے کہا:
ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ شیخ کفایت اللہ صاحب ''ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں'' اور اس سے متصل جملہ میں ہی بلا ثبوت وبنیاد کے کہتے ہیں کہ شیخ کفایت اللہ کی فرائض کے سلسلہ میں معلومات ''بس سراجی جیسی فقہی کتابیں ہی ہیں''۔ یہ آپ کا وہم ہے! شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس تھریڈ میں دو مراسلے لکھے ہیں، اور ان میں کہیں بھی علم المیراث پر لکھی کسی کتاب کا نام تک ذکر نہیں کیا!
الجواب:
جناب من !
اگر ہم نے کفایت اللہ صاحب کو (
بڑے عالم اور محقق ہیں) کہہ دیا تو کیا ہوا ۔ کیا کسی کو بڑا عالم و محقق کہہ دینے سے وہ نبوت کے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے؟ اور اس کی ہر بات من و عن آنکھ بند کر کے مان لینا ہم پر واجب ہو جاتا ہے؟
ہم نے ویسے اپنی بات نہیں کہی تھی بلکہ لوگ ان کو ایسا کہتے ہیں۔ اور لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کو نقل کیا ہے۔ اور اگر میری کہی ہوئی بات ہو بھی تو کسی خاص مسئلہ میں ہی ہوگی ہر مسئلہ میں نہیں کیونکہ زیر بحث مسئلہ میں وہ اور آپ دونوں برابر ہیں ۔ دونوں ہی زیر بحث مسئلہ میں اندھی تقلید کا شکار ہیں اور تحقیق سے عاری باتیں کرتے ہیں۔ جہاں تک علم میراث کا تعلق ہے تو ہم نے یہ جملہ بطور طنز کہا تھا کہ لوگ جس کو بڑا عالم و محقق کہتے ہیں ان کی اس مسئلہ میں تحقیق کا یہ حال ہے۔ اب آپ کی معلومات کا یہ حال ہے جب کہ آپ بڑے عالم و محقق بنتے ہیں جبکہ ہیں مقلد۔ آپ کو یہ پتہ ہی نہیں کہ سنابلی صاحب کی فرائض پر ایک کتاب بھی ہے تو آئیے ہم آپ کو اس کتاب کا نام بھی بتا دیتے ہیں جس کا نام انہوں نے تفہیم الفرائض رکھا ہے جس میں وہی ساری باتیں ہیں جو سراجی جیسی کتابوں میں مذکور ہے اور بس۔ تحقیق نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ وہی ذوی الفروض اور عصبات کی بحث اور یہ کہ گھسی پٹی باتیں کہ بیٹے کے ہوتے یتیم پوتا محجوب و محروم الارث ہوگا۔ اور اسی کو سیکھنے کا انہوں نے مجھے مشورہ دیا تھا جس کے تناظر میں میں نے بطور طنز یہ جملہ کہا تھا کہ (
''ماشاء اللہ بڑے عالم اور محقق ہیں'') ۔
ابن داود نے کہا:
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی تحریر وتقریر اس پر شاہد ہیں، کہ انہوں نے کتب فقہ سے استفادہ کیا ہے، لیکن محض کتب فقہ سے نہیں، بلکہ قرآن اور اس کی تفاسیر، اور احادیث اور ان کی شروحات سے بھی!
اور وہ بھی بے استاد نہیں، بلکہ با استاد!

الجواب:
جناب من !
آپ کو کیا لگتا ہے میں یہ جو ساری باتیں لکھ رہا ہوں وہ اپنے گھر بنائی ہوئی ہیں۔ یہی سب سے بڑی آپ کی جہالت و حماقت ہے کہ آپ میری پیش کی ہوئی آیتوں اور حدیثوں کو اور کتب تفاسیر و شروح احادیث کی باتوں اور عبارتوں کو میری خانہ ساز اور میرا وہم قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب کہ آپ ہوں یا سنابلی صاحب یا آپ کے بزرگ سبھی لوگ خانہ ساز اور من گھڑت باتوں کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ اللہ کی وحی ہو جو آپ پر اور سنابلی صاحب پر اور آپ کے امرتسری، مبارکپوری اور صلاح الدین یوسف صاحبان پر نازل ہوئی ہو۔
میری پیش کردہ اس پوری بحث میں آپ کو کہیں کوئی آیت و حدیث نظر نہیں آرہی ہے؟۔

ابن داود نے کہا:
آپ نے یہ مراسلہ شیخ کفایت اللہ کے جس مراسلہ کے جواب میں لکھا ہے، اس میں بھی شیخ نے آپ کی مستدل حدیث سے آپ کے موقف کا بطلان واضح کیا ہے، اس کا جواب تو آپ سے بن نہ پڑا! بے بنیاد افترا پردازی شروع کردی! آپ اس وہم کا علاج کروائیں، کہ آپ کے علاوہ کوئی قرآن وحدیث کا پیروکار نہیں!
الجواب:
جناب من !
سنابلی صاحب کیا آپ کی جماعت کا کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی میری مستدل حدیث اور اس سے ماخوذ موقف کو تاقیامت قرآن و حدیث کی کسی دلیل سے باطل نہیں کر سکتا ۔ رہا معاملہ افتراء پردازی کرنے کا تو یہ آپ اور آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کی قطعی کوئی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔ اور وہم آپ اور آپ جیسے لوگوں کو ہے۔ آپ لوگ اپنا علاج کروائیں ۔ قطعا مجھے کسی بھی قسم کا کوئی وہم ہے ہی نہیں کہ مجھے علاج کی ضروت پڑے۔ علاج تو آپ لوگوں کو کرانا چاہیئے کیونکہ آپ لوگ وہم کا شکار ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

آپ اس مسئلہ میں قرآن و حدیث میں بحث و تحقیق کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی کسی عالم سے میراث کا علم حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہ۔
ابن داود نے کہا:
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے سے ثابت أمور کو رد کرنے کا نام بحث وتحقق رکھا ہوا ہے!
قرآن وحدیث میں بحث کا مطلب یہ نہیں ہوتا، کہ پہلے سے ثابت امر کو قرآن وحدیث ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے رد کردیا جائے! یہ در حقیقت زندیقیت ہے!

الجواب:
در اصل بحث و تحقیق کا بھی معنی و مفہوم آپ کو پتہ نہیں ہےاور یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔ زندیقیت یہ ہے کہ ایک خود ساختہ اور بے بنیاد مسئلہ کو زور زبردستی سے شرعی مسئلہ قرار دیا جائے۔ جس کی کوئی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں ہی ہے۔ اور جس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں ہو ہی نہ تو اس کو رد کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ باقی بچتا ہی نہیں ہے۔یہ قرآن و حدیث میں کھلواڑ تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے اس مفروضہ کو دین و شریعت مان رکھا ہے کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ نہیں ہو سکتا ہےکیونکہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا مرنے والے کی اولاد نہیں رہ جاتا ہے۔ جب ایک ایک کرکے تمام بیٹے مرجائیں گے تبھی کوئی پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حصہ پا سکتا ہے۔ ورنہ نہیں۔ اور اس مفروضہ کی بنیاد اس خود ساختہ اصول پر رکھی گئی ہے کہ وراثت کی بنیاد صرف قرابتداری اور قریب سے قریب تر ہونا ہے۔ اس خود ساختہ اصول و بنیاد کے چلتے قرآن و حدیث کو توڑا مروڑا جاتا ہے یہ ہے اصل زندیقیت۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو میں آپ کو اور اہل حدیث علماء کو یہ مشورہ دیتاہوں کہ فقہی کتابوں سے جو علم میراث حاصل کیا ہے اس سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے اندر جو علم فرائض و مواریث ہے اس کو حاصل کریں۔ اور فقہی کتابوں کو لیکر اس کے حوالے دیکر فتوے نہ دیں اور حکم نہ لگائیں۔
ابن داود نے کہا:
فقہی کتب قرآن وحدیث سے مستدل، مستنبط، اور مقیس مسائل پر مشتمل ہوتی ہیں، اس میں اختلاف ممکن ہے، کہ کسی مسئلہ میں ، استدلال، استنباط، اور قیاس میں غلطی واقع ہوئی ہے، لیکن کتب فقہ کو چھوڑ، کہ امت کے تمام علماء وفقہاء کی قرآن وحدیث کی تفسیر وشرح اور ان کے استدلال واستنباط اور قیاس باطل گمان کرتے ہوئے، از خود مسائل کا استنباط کرنے کی ٹھان لینا زندیقیت ہے!
الجواب:
آپ کا یہ کہنا قطعا غلط اور صریحی جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور اللہ کے رسول نے صرف قرآن و حدیث کو بطور شریعت اور ماخذ و مصدر اور مرجع چھوڑا ہے اور صرف اسی کی اتباع و پیروی کا مکلف کیا ہے کسی عالم فقیہ مفتی مولانا شیخ الاسلام، شیخ التفسیر و شیخ الحدیث کے بے بنیاد استدلال و استنباط اور فتوی کو لازم پکڑے رہنے کا مکلف نہیں بنایا ہے کہ چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو ہم اس کو لازما مانیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ میں بحث و تحقیق کرنا، اس مسئلہ کی بنیاد کو جاننا سمجھنا اور اس کی دلیل کو تلاش کرنا اور دی گئی دلیلوں کو جاننا سمجھنا۔ اور با دلیل باتوں کو قبول کرنا اور بے بنیاد و بلا دلیل باتوں کو رد کرنا زندیقیت نہیں بلکہ عین اسلام ہے۔
جیسا کہ فرمان باری تعالٰی ہے:
(أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ اللہ کا کلام جو کہ بالکل سچا مبنی بر عدل و انصاف کامل و مکمل جامع و شامل ہے جسے دنیا کی کوئی ہستی بدل دینے والی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ساری باتیں تفصیل سے کھول کھول کر بیان فرمادی ہیں۔ تو جن لوگوں کو اللہ نے کتاب دی ہے وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہے اور جب اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہے تو وہی برحق ہے تو اس کے ماننے والے اس میں کسی قسم کا شک نہیں کرتے اور نہ انہیں اس میں کسی قسم کا کوئی شبہہ ہی ہوتا ہے تو اس کو چھوڑ کر وہ کسی بھی چیز کو حکم نہیں مانتے رہی اکثریت کی بات کو ماننا تو یہ تو اور بڑی گمراہی ہے کیونکہ اگر اکثریت کی باتوں کا لحاظ کر کے کسی چیز کو مانا جائے اور اس کی پیروی کی جائے تو اکثریت کی باتیں گمراہ کردینے والی ہیں۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت کی باتیں محض قیاس و گمان ہی ہوتی ہیں اور لوگوں کی اکثریت کا کام تو محض اٹکلیں لگانا ہی ہے۔ رہا ہدایت و گمراہی تو اس کا علم صرف اللہ کو ہی ہے کہ کون ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پرہے۔
بنا بریں اکثریت کی باتوں کو ماننا اور اللہ و رسول کی باتوں کو ٹھکرانا زندیقیت نہیں بلکہ عین اسلام ہے اور زندیقیت اللہ و رسول کی باتوں کو ٹھکرانا اور اکثریت کی اٹکل پچو باتوں کو ماننا ہے۔

ابن داود نے کہا:
معلوم ہوا کہ حق قیامت تک معدوم نہیں ہوگا! یعنی جو مسائل درپیش آئیں ہیں، ان کے متعلق یہ نہیں ہوسکتا کہ سب کے سب علماء وفقہاء ہی باطل ہوں، اور صدیوں بعد ایک صاحب کو حق سمجھ آئے، اور منکرین حدیث کے علاوہ اس کے موقف کا حامی بھی کوئی نہ ہو! بلکہ اس کا موقف منکرین حدیث سے ہی اچکا ہوا ہو! مختصراً کہ پہلے سے درپیش فقہی مسائل میں بھی کسی نئے اور منفرد موقف کا نیا اور منفرد ہونا از خود اس کے بطلان کی دلیل ہے! لہٰذا کتب فقہ میں حق پایا جاتا ہے، اور کتب فقہ سے اعراض، حق سے اعراض کرنے کے مترادف ہے!
الجواب:
یہی بات تو وہ تمام لوگ ہی کہتے ہیں جو فقہ اور فقہاء کے پجاری ہیں۔ اہل حدیث تو صرف وہی کہتے ہیں جو اللہ نے کہا ہے اور اللہ کے رسول نے کہا یا کیا ہے۔ در اصل جس مسئلہ کو آپ جیسے جاہل لوگ منکرین حدیث سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں وہ منکرین حدیث کا ہے ہی نہیں ۔ بلکہ یہ تو اللہ و رسول، صحابہ کرام، تابعین عظام مفسرین و محدثین کا موقف ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ موقف ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کے دو ابواب اس پر شاہد عدل ہیں۔ اور جو باتیں آپ اور اپ جیسے لوگوں کو اچھی لگتی ہیں وہ در حقیقت شیطان کی وحی اور اس کی چکنی چپڑی باتیں ہیں جو اس نے آپ اور آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھی ہیں کہ بیٹے کے ہوتے پوتے اولاد نہیں ہوتے اور قریب کے ہوتے قریب تر وارث نہیں ہوتے ۔ تو آخر اللہ کے رسول کے نزدیک کیسے بیٹی کے ہوتے یتیم پوتی اولاد و بیٹی شمار کی گئی اور اس کو بیٹی کے حصے میں سے حصہ دیا گیا۔ کیا اللہ کے رسول نے اسے ماں، دادی، نانی سمجھ کر چھٹا حصہ دیا تھا یا اخیافی بہن سمجھ کر حصہ دیا تھا؟ آخر یتیم پوتی کا اس کے دادا سے کون سا رشتہ تھا؟ اگر آپ ہی قرآن وحدیث کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث کو صحیح سمجھنے کا آپ اور آپ جیسے لوگ اور آپ کے بزرگ ہی ٹھیکہ لیئے بیٹھے ہیں تو اس کا جواب دیجیئے اور دادا پوتی کا رشتہ کیا ہے اس کو واضح کریں؟
اللہ نے سچ فرمایا:
(شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ)، (وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ).
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا کہ شیاطین الجن شیاطین الانس کے دل و دماغ میں انہیں دھوکے میں ڈالنے کیلئے ایسی جھوٹی ، منگھرت بات بنا سنوار کر ڈال دیتے ہیں جو انہیں اچھی لگتی ہیں اور ان کے دلوں کو چھونے والی ہوں ہوتی ہیں تاکہ وہ اللہ کی باتوں سے بہک اور بھٹک جائیں۔ اور وہی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں جن کا آخرت پر ایمان و اعتقاد درست نہیں ہوتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے لیکن یہ اللہ کی مشیت ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں پس انہیں شیطان کی وحی کی پیروی کرنے دو۔
نیز آپ اور آپ جیسے لوگوں کی ان ساری ہفوات و بکواس کا جواب اللہ کے اس کلام میں ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) [سورة الأنعام]
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (28) وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (29) [سورة الكهف]
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (2) وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (3) [
سورة الأحزاب]
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (7) فَلَا
تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ (8) [سورة القلم]

جناب من!
(فتدبر!
) والا جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اگر قرآن و حدیث کی باتیں جو کہ بالکل سیدھی سادی، آسان اور سمپل ہیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں تو قرآن وحدیث کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس میں تحریفات و تاویلات بے جا کر کے یتیم پوتے کی محجوبیت کے فتوے نہ دیں۔
ابن داود نے کہا:
اس پر مجھے ایک سیدھا سادا، آسان اور سمپل شعر یاد آیا:
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ
آپ نے بس ٹھانی ہوئی ہے کہ جو نقد آپ پر کیا جائے گا، اسے کسی بھی طرح معترض پر بھی کرنا ہے، خواہ بلاجواز ہی سہی! آپ کی بزعم خود قرآنی دلیل تو آپ کی قرآن کی سمجھ کو ناقص وباطل ثابت کرتی ہے، اس کا بیان ہو چکا، اورایک بار پھر مزید تفصیل سے آئے گا!

الجواب:
جناب من یہ تو آپ کا وطیرہ ہے کہ کسی بھی طور پریتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کر ہے چاہے اس کے لیئے پورا دین ہی ملیامیٹ نہ کرنا پڑ جائے اور چاہے پورے قرآن اور پورے ذخیرہ احادیث کا ہی انکار نہ کرنا پڑجائے کیونکہ تنہا آپ اور آپ جیسے دیگر اہل حدیث حضرات جیسے سنابلی اور آپ کے وہ بزرگ جن کی اندھی تقلید میں آپ یہ ساری بکواس کیئے جا رہے ہیں۔ کیونکہ آپ ہی لوگ تو اہل حدیثیت کا ٹھیکہ لیئے بیٹھے ہیں۔
کہاں کا تیر کہاں کا تکا چلایا جا رہا ہے۔ مسئلہ اولاد و والدین یعنی یتیم پوتے اور اس کے دادا کے مابین کا ہے اور استدلال اقرباء سے کیا جارہا ہے۔ واہ بھائی واہ کیا خوب استدلال و استنباط ہے کیا ہی خوب قرآن دانی و حدیث دانی ہے۔ بریں عقل و خرد بباید گریست!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اللہ کے رسول نے ترکہ و میراث کے مال کو اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اہل فرائض کو ان کے فریضے سونپنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث ہے۔ ترکہ و میراث کو ذوی الفروض اور عصبات کے مابین تقسیم کا حکم نہیں دیا ہے یہ اصطلاحات اور اصول فرائض سب بعد کی ایجادات ہیں جو لوگوں بنایا اور مرتب کیا ہے اور جس کا وجود اللہ کے رسول کے زمانے میں نہ تھا چنانچہ مقاسمت الجد۔ عول اور رد کے مسائل سب بعد میں پیش آئے جس پر کچھ نے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔ اور ذوی الفروض، عصبات کی اصطلاحات تو اللہ کے رسول اور صحابہ کے وقت میں پائی ہی نہیں جاتی تھیں۔
ابن داود نے کہا:
یہ وہم آپ کو کیسے لاحق ہوا کہ اصطلاحات کا وجود بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہونا ضروری ہے، یا اصطلاحات کا وجود قرآن وسنت میں ہونا ضروری ہے! ''اصطلاح'' کسی امر کو دیئے جانے والا نام ہے، اور اس امر کا وجود قرآن وحدیث میں ہونا لازم ہے، نہ کے نام کا!
الجواب:
یہ وہم نہیں بلکہ حقیقت ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے ہے جیسا کہ خود اللہ و رسول کی صراحت موجود ہے اور اس پر قرآن و حدیث کا نص موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ و رسول کا فرمان ہے۔
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7) يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ، ... آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11)
اور اہل حدیث وہ ہیں جو اللہ کے رسول کے ان احکام و فرامین پر عمل کرتے ہیں:
*-* عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [صحيح بخاري: 6732، 6735، مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
*-*عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «
اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [صحيح مسلم: 4 - (1615)]

یعنی مال کو اہل فرائض کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم کرو۔
جب اللہ و رسول نے باپ دادا پردادا، بیٹے پوتے، پڑ پوتے ، سبھی کو اہل فرائض کہا ہے اسی طرح شوہر، بیوی اور بھائی بہنوں سبھی اللہ و رسول اہل فرائض قرار دے رہے ہیں اور ان ہیں کے مابین ترکہ تقسیم کرنے کا حکم بھی دے رہے ہیں تو اس کے بجائے ذوی الفروض اور عصبات کی اصطلاحیں ایجاد کر کے ان اہل فرائض کو (
(ذوی الفروض) اور (عصبة) میں بانٹنے کا کسی کو کیسے حق حاصل ہوا اور پھر اس بنیاد پر بیٹے پوتے میں تفریق اور بیٹے یعنی چچا تائے کو اقرب اور یتیم پوتے کو ابعد قرار دینے کا حق کسی کو کہاں سے مل گیا۔ اور پھر یتیم پوتے کو محجوب قرار دینے کا جواز کہاں سے حاصل ہوا۔
جب ایک نام اور اصطلاح پہلے سے موجود ہے تو دوسرا نام دینے اور اصطلاح گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
اللہ و رسول کچھ کہیں اور کسی گھڑی ہوئی اصطلاح سے اس کا کوئی دوسرا معنی و مطلب نکالا جائے۔
کیا یہی اللہ کا دین ہے اور یہی اس کی شریعت ہے؟۔
اللہ و رسول نے یہ تو نہیں کہا ہے کہ اپنے خود ساختہ بزرگوں کے کہے ہوئے اور ان کی گھڑی بنائی ہوئی اصطلاحوں کی بنیاد پر ترکہ تقسیم کرو۔ انہوں نے توہر گز یہ نہیں کہا ہے کہ ترکہ کا مال (
(ذوی الفروض) اور (عصبة) کو دو۔) ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح حجب کے اصول بھی بعد کی ہی ایجاد ہیں یہ کوئی اللہ و رسول کا حکم اور فیصلہ نہیں ہے اور نہ ہی اللہ و رسول کے نازل کردہ اصول اور اصطلاحیں ہیں جن پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آیا جائے۔
ابن داود نے کہا:
یہاں غالباً روانی میں آپ نے ''اللہ ورسول کے نازل کردہ'' لکھ دیا ہے، جبکہ ''صرف اللہ کا نازل کردہ'' ہونا چاہیئے، اور ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ'' ہونا چاہیئے! خیر عبارت کی یہ تعبیر غالباً روانی میں غلط ہوگئی ہو گی!
ابن داود نے کہا:
مجھے تو آپ نسیان کے مریض بھی معلوم ہوتے ہیں، خود حجب کے أصول رقم کرنے کے باوجود بھی، فرماتے ہیں، کہ حجب کے أصول بعد کی ایجاد ہیں؛ بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
الجواب:
جناب من!
مجھے تو آپ نسیان کے مریض معلوم ہوتے ہیں میں نے جو کہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حجب کا جو دو اصول ہے وہ اللہ کے رسول کے بعد کی ایجاد ہے۔ اور وہ اصول زید بن ثابت کے اس قول کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ بیٹوں کی اولاد بمنزلہ اولاد ہیں تو جو بیٹا موجود نہ ہو وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث ہوگا اور عدم موجودگی وارث ہوگا۔ بنا بریں یہ اصول بنایا گیا کہ جو بھی بالواسطہ وارث ہوگا وہ اپنے واسطہ کے رہتے محجوب ہوگا اور اس کی عدم موجودگی میں وارث ہوگا۔ جب کہ دوسرا اصول مابقی پانے والے غیر وارث قریبی رشتہ داروں کے سلسلہ میں یہ بنایا گیا کہ جو قریب سے قریب تر ہوگا وہ وارث ہوگا اور جو دور والا ہوگا۔ وہ محروم ہوگا جس کی بنیاد اللہ کے رسول کا یہ فرمان ہے کہ فرائض سے جو بچ رہے وہ اولٰی رجل ذکر کا ہوگا۔تو لفظ اولیٰ اور رجل ذکر کی بنیاد پر یہ اصول بنایا گیا ہے ورنہ اللہ کے رسول نے تو مابقی مال اولیٰ رجل ذکر کے بجائے ایک مونث یعنی بہن کو دیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ذوی الفروض اور عصبہ کی اصطلاحیں اللہ کے رسول کے بعد کی ایجادات ہیں اور ان کا وجود اللہ کے دور میں نہیں تھا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ،
اور جس طرح بیٹے اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگے۔
اور جس طرح بیٹیاں اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردیتی ہیں ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتے پوتیاں بھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کردینگیں۔

ابن داود نے کہا:
اب آپ سے کہا جائے کہ آپ تو فرما رہے تھے کہ حجب کے أصول بعد کی ایجاد ہیں، ہیں! تو آپ کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوگا! تو میرے بھائی! أصول فقہ بھی قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں! محض یہ کہہ کہ یہ بعد میں اخذ کیئے گئے ہیں، تمام سے جان خلاصی کرنا، زندیقیت ہے!
الجواب:
جناب من!
یہاں پھر آپ نے ڈنڈی ماری ہے میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ اصول فقہ سارے کے سارے قرآن وحدیث سے ماخوذ نہیں ہیں بلکہ کچھ اصول قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں اور کچھ محض قیاسی ہیں ۔ جن میں غلط اور صحیح ہونے کا دونوں احتمال پایا جاتا ہے۔ تو جو قراں و حدیث کے موافق ہوگا وہ لیا جائے گا اور جو اس کے خلاف ہوگا اسے رد کردیا جائے گا۔ ورنہ فقہ کو ماننے والے لوگوں نے تو یہ اصول بنا رکھا ہے کہ قرآن و حدیث کی ہر وہ بات جو ان کے خود ساختہ ائمہ کے قول کے خلاف ہوگی اسےیا تو تاویل کے ذریعہ رد کردیا جائے گا یا پھر یہ کہہ کر رد کردیا جائے گا کہ وہ ہمارے آئمہ کو معلوم تھا لیکن انہوں نے کسی دوسری نا معلوم دلیل سے مسئلہ مستنبط کیا ہے۔
چنانچہ آپ اسی اصول پر اب تک عامل چلے آرہے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی باتوں کو کسی بھی طور پر صحیح ثابت کرنا چاہے جو حربہ استعمال کرنا پڑے اور کتنی ہی تاویلیں کرنی پڑے۔

ابن داود نے کہا:
اور یہ بتلائیے کہ آپ کے علاوہ اور آپ سے قبل علماء وفقہاء کے قرآن وحدیث مستنبط أصول تو بعد کی ایجاد ٹھہرے! اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور فیصلہ نہیں، اور اللہ کا نازل کردہ أصول نہیں! مگر آپ جو أصول اخذ کریں وہ کیا بعد کی ایجاد نہیں؟ اور وہ کیا اللہ کا حکم اور فیصلہ ہے؟ اور وہ کیا اللہ کانازل کردہ ہے؟
دیکھیں؛ یہاں آپ نے از خود ایک أصول بنایا ہے:

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ایک اصول نکلا کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ ہے واسطوں کی موجودگی اور عدم موجودگی ۔ چنانچہ حجب و توریث کے سلسلہ میں اصول فرائض میں پہلا اصول ہے بھی یہی ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہے وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا اور جب واسطہ نہیں رہے گا تو وہ وارث ہوگا۔ یہ اصول والدین اور اولاد کے درمیان نافذ ہوگا۔ اور جب ایک اصول کہیں نافذ کردیا جاتا ہے تو پھر دوسرا اصول نافذ نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ بالواسطہ اولاد و وارثوں کے تعلق سے یہ بنیادی اصول ہے کہ ہر بالواسطہ وارث اپنے واسطے کے ہوتے محجوب ہوگا۔ اور اپنے واسطے کی عدم موجودگی میں وارث قرار پائے گا۔ بنا بریں اولاد میں پوتا پوتی، پڑپوتاپڑپوتی ہوں یا نواسے نواسیاں یا اس سے نیچے کی بالواسطہ اولادیں سب کے سب صرف اسی اصول کے تحت ہی محجوب قرار پائیں گے بصورت دگر وارث ہونگے۔
ابن داود نے کہا:
حالانکہ جن آیات سے آپ نے یہ أصول اخذ کرنا چاہتے ہیں، ان آیات سے اس أصول کا اخذ کیا جانا درست نہیں، یہ بات بالتفصیل بیان کی جا کی ہے!
الجواب:
جناب من!
یہاں پھر آپ نے ڈنڈی ماری ہے میں نے جو اصول بیان کیئے ہیں اور جنہیں آپ نے میرا خود ساختہ اصول بتانے اور ثابت کرنے کوشش کی وہ وہی اصول ہے جو اصول فقہ اور فرائض کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

یہی وجہ ہے کہ جب عول کا مسلہ درپیش ہوا تو کچھ صحابہ نے اس سے اتفاق کیا اور کچھ نے اختلاف کیا۔
صحابہ میں کسی فقہی مسئلہ میں اختلاف اس بات کو مستلزم نہیں، کہ مختلف فیہ مسئلہ میں تمام مخطی ہوں! بلکہ اس لازم آتا ہے کہ مصیب انہیں میں ہے!
الجواب:
تو جناب من بتائیے تو صحیح کہ یتیم پوتے کے مسئلہ میں کس نے اختلاف کیا تھا اور کس نے مخالفت کی تھی جب کہ دادا اور بھائی بہنوں کے مسئلہ کو لیکر اختلاف و اتفاق کا ذکر ملتا ہے ۔ زیر بحث مسئلہ فقہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ فریضے کا مسئلہ ہے اور وارث کے حقوق و حصے کا مسئلہ ہے جس پر جہنم و جنت کا فیصلہ ہونا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح دادا ور بھائی کے مسئلہ میں کچھ صحابہ کا موقف یہ تھا کہ بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے اور کچھ کا موقف یہ تھا کہ نہیں کیونکہ دادا باپ ہوتا ہے اور باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے کو کچھ نہیں مل سکتا۔ اس پر عہد ابو بکر تک تو اتفاق رہا لیکن عہد فاروقی میں بمشورہ زید بن ثابت اس بات پر اتفاق ہوا کہ نہیں بھائیوں کو بھی حصہ ملنا چاہئے۔
اس مسئلہ پر مفصل بحث گزری، جہاں آپ کے بیان کردہ '' اتفاق'' اور پھر اس کے برعکس پر ''اتفاق'' کا بطلان بالتفصیل بیان کیا گیا ہے!
الجواب:
جہاں آپ نے میرا بطلان کرنے کی کوشش کی ہے وہیں ہم نے آپ کی باتوں کا دلائل کے ساتھ رد کیا ہےاور باطل ہونا بھی ثابت کیا ہے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اسی طرح رد علی الزوجین کا بھی مسئلہ ہے کہ کچھ صحابہ کا کہنا تھا زوجین کو نہیں ملنا چاہئے جبکہ عثمان بن عفان کا کہنا تھا کہ نہیں انہیں بھی ملنا چاہئے جس طرح عول میں انہیں شامل کیا جاتا ہے ور ان کے حصے میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس اختلاف سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ قرآن وحدیث سے استدلال و استنباط کرنے میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، اور ہوا ہے، اور ہوتا ہے!
الجواب:
جناب من!
یہی بات تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ زیر بحث مسئلہ میں قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط کرنے میں غلطی واقع ہوئی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

مطلب یہ کہ فرائض و مواریث کا اصل ماخذ و مرجع اور مصدر صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی ہے اور اسی کے مطابق ترکہ کی تقسیم ہونی چاہئے جیسا کہ اللہ و رسول کا حکم اور فرمان ہے۔ اور اسی کے تعلق سے بحث و تحقیق ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ چند فقہی اصول و اصطلاحات کو لیکر جوتم پیزار کی جائے۔
ابن داود نے کہا:
صرف فرائض ومواریث کا ہی اصل ماخذ ومرجع اور مصدر صرف اور صرف قرآن وحدیث ہی نہیں، بلکہ تمام شریعت کا اصل ماخذ ومرجع اور مصدر قرآن وحدیث ہی ہے، اور اجماع اور قیاس شرعی ان اصل ماخذ سے ماخوذ و تابع ہیں! اور قرآن وحدیث سے مستنبط وراثت کی تقسیم کا نام فقہ الميراث ہے!
اپ بھی ''یتیم'' پوتے کے حق وراثت کو قرآن کی آیات سے مستنبط کرنے کے لئے کوشاں ہیں، حالانکہ قرآن میں وراثت کے تعلق سے ''یتیم'' پوتے کی وراثت کے لئے، کوئی عبارت النص نہیں، یعنی کہ ''یتیم'' پوتے کے الفاظ کے ساتھ اس کے حق وراثت کے الفاظ ہوں، اور اس کا معین حصہ بتلایا گیا ہو! ایسا تو قرآن میں نہیں! تو جب آپ اپنی فہم کے موافق اپنے مستنبط مسئلہ پر جوتم پیزار کیوں کرتے ہیں؟
آپ تو جوتم پیزار سے بھی آگے بڑھ کر دوسروں پر قرآن و حدیث میں لفظی ومعنوی تحریف کی تہمت بھی دھر دیتے ہیں!

الجواب:
جملہ احکام شرعی قرآن وحدیث اور اجماع ثابت مبنی بر کتاب و سنت و قیاس صحیح سے ثابت ہوتے ہیں جب کہ فرائض و مواریث کے مسائل کا اصل ماخذ و مرجع اور صرف اور صرف کتاب الٰہی قرآن مجید ہی ہے کیونکہ بفرمان الٰہی و بفرمان رسول ترکہ کو کتاب الٰہی قرآن مجید کے مطابق ہی تقسیم کرنا واجب اور فرض عین ہے۔
یتیم پوتے کا حق وراثت اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت سے ثابت شدہ امر مسلم ہے۔ کیونکہ یتیم پوتا بھی اولاد میت میں سے ہے اور اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد اپنے باپ کے حصے کا مستحق ہے جو اجماع صحابہ سے ثابت ہے اور چچا تائے کے ہوتے وہ نہ تو شرعا، نہ اصولا اور نہ ہی عقلا محجوب و محروم الارث اور نہ ہی ان کے ہوتے اس کے محجوب و محروم الارث پر قرآن و حدیث سے کوئی ادنی سی دلیل ہی پائی جاتی ہے۔ اور اس کے محجوب و محروم الارث کی بات کلام الٰہی اور کلام رسول میں تحریف کر کے ہی کی جا رہی ہے۔ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے۔
رہا معاملہ یتیم پوتے کے الفاظ کے ساتھ کسی حکم کے پائے جانے کا تو بیٹے اور بیٹی کے لفظ کے ساتھ کوئی حکم نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں ہی ہے۔ اولاد میں صرف بیٹے بیٹی ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ پوتے پوتی، نواسے نواسی سبھی اولاد میں سے ہی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لفظ کا استعمال کر کے وصیت کی ہے صرف بیٹے بیٹی کے لفظ کے ساتھ ہر گز وصیت نہیں کی ہے اس لیئے صرف بیٹے بیٹی کو ہی اولاد ماننا زندقیت بلکہ کھلا ہوا کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی سب کو اولاد و ذریت ہی مانا اور کہا ہے جو اللہ کے کلام اور اس کے رسول کی صحیح احادیث میں موجود و محفوظ ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اولاد و بیٹی مان کر ہی اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ دیاہے اما، دادای نانی یا اخیافی بہن مان کر حصہ نہیں دیا تھا جو اس مسئلہ میں نص صریح، دلیل بین اور حجت قاطع اس بات پر کہ یتیم پوتا بھی اپنے چچا تائے کے ساتھ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار اور وارث ہے جیسے اس کا دادا چچا تائے کے رہتے اپنے اس یتیم پوتے کا بمنزلہ والد اور بحیثیت حقیقی باپ اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار اور وارث ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت نص صریح دلیل بین اور حجت قاطع اور صحابہ سے ثابت شدہ اجماع حقیقی ہے اور اس کے خلاف جو کچھ بھی کہا و بکا جاتا ہے وہ محض بکواس ہی ہے۔
لہذا ہم جوتم پیزار نہیں کر رہے بلکہ آپ یا آپ جیسے لوگ ہیں جو اس مسئلہ میں جوتم پیزار کر رہے ہیں۔ اور سارے حقائق کو جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر اس کے برعکس کوئی ایسی صریحی دلیل کتاب و سنت سے آپ کے پاس ہے جو یہ ثابت کرے کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے رہتے اپنے دادا کے ترکہ میں کے حقدار و حصہ دار اور وارث نہیں ہو سکتا ہے تو پیش کریں ہم اس کو اپنے سر و آنکھوں پر رکھیں گے ورنہ کسی کی بے بنیاد و بے عقلی اور بے اصولی باتوں کو ہم شریعت نہیں مان سکتے ہیں جس کو ماننا ہو وہ مانے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی لکھی ہیں
ابن داود نے کہا:
آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھی ہیں! اور آپ کے علاوہ اور اور آپ سے قبل علماء وفقہاء نے کیا تورات وانجیل کی روشنی میں لکھی ہیں؟ میرے بھائی! درحقیقت آپ نے اپنے موقف کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔
الجواب:
یہ تو آپ کی بے تکی باتیں ہیں میں نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ قرآن وحدیث کی بنیاد پر ہے اور ہمارے موقف کی بنیاد صرف یہ ہے کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی اولاد ہے اور دادا والد ہے تو جب دادا والد ہے اور یتیم پوتا اس کی اولاد میں سے ہے تو اس کے ترکہ میں جیسے اس کے بیٹے کا حصہ ہے ٹھیک اسی طریقے سے اس کے یتیم پوتے کا بھی حصہ ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل اللہ کے رسول کا بطور اولاد و بیٹی یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کے مشترکہ حصہ میں سے حصہ دینا ہے۔ اب اگر اس کے خلاف کسی کے پاس دلیل ہو تو وہ پیش کرے۔ آپ کا یہ کہنا کہ (درحقیقت آپ نے اپنے موقف کو قرآن وحدیث کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔) یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ میں نے اپنے موقف کو قرآن و حدیث کا جامہ نہیں پہنایا ہے۔ بلکہ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے اسی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور میں نے قرآن و حدیث کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے۔کسی کے قول و رائے اور فتویٰ سے نہیں کیا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور میں آپ کو بھی اور دگر لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض و مواریث کے سلسلہ میں بحث و تحقیق صرف قرآن و سنت ساے ہی ہونی چاہئے ۔
ابن داود نے کہا:
ایک تو آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے، کہ جو نصیحت اور مشورہ آپ دوسروں کو دیتے ہیں، آپ خود اس پر قائم نہیں رہتے، آپ ہمیں مشورہ دے رہیں ہیں کہ ''مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض ومواریث کے سلسلہ میں بحث وتحقیق صرف قرآن وسنت سے ہی ہونی چاہیئے!''
جبکہ خود متعدد بار فقہ اور فقہاء کی آراء سے استدلال کر چکے ہیں؛
بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)(1).
یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔
آپ نے اسے صحیح بخاری سے منسوب کیا ہے، اس میں بریکٹ میں موجود (له أبّ) میں یہ بریکٹ کیوں ہے، اور یہاں ''له أبّ'' کی کیا حقیقت ہے، یہ تو آگے اسی مقام پر بیان ہوگی، ان شاء اللہ!
الجواب:
آپ کی عقل وخرد اور قرآن و حدیث فہمی کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آپ کس درجہ احمق اور جاہل ہیں۔ آپ کی جہالت کا عالم یہ ہے کہ آپ صحیح بخاری کے اس باب میں مذکور اس صریحی لفظ کو جو کہ آٹھویں صدی کے ایک محدث شارح صحیح بخاری نے اپنی صحیح بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے جس پر اس کتاب کے محقق نے یہ حاشیہ چڑھایا ہے کہ اصل میں یہی الفاظ ہیں البتہ صحیح بخاری کا جو نسخہ لوگوں کے مابین متداول ہے یعنی نسخہ یونینیہ تو اس میں اب کے بجائے ابن ہے۔ اب آپ کی افتراء پردازی اور فریب دہی کا عالم یہ ہے کہ اس کو میری جانب منسوب کر کے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اسے صحیح بخاری سے منسوب کردیا۔ اور آپ کی جہالت و حماقت کا یہ عالم ہے کہ آپ نے دکتوراۃ کے ایک رسالہ کا حوالہ دیا ہے اس میں صاحب رسالہ نے حاشیہ میں ابن بطال کے حوالے سے صحیح بخاری کے باب کے بعینہ یہی الفاظ نقل کیئے ہیں۔ وہاں بھی آپ نے فریب دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ صحیح بخاری کے باب کے ان الفاظ سے آپ کا خود ساختہ دین دھرم باطل ٹھہرتا ہے اس لیئے آپ نے وہاں بھی فریب دینے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ امام ابن بطال پانچویں صدی کے محدث ہیں۔ جب کہ امام بخاری تیسری صدی ہجری کے محدث ہیں۔ تو لگتا ہے کہ صحیح بخاری کے اس باب کے الفاظ میں جو بھی گڑبڑی ہوئی ہے اور جو اشکال پیدا ہوا ہے وہ صحیح بخاری کے اسی نسخہ یونینیہ سے ہی ہوا ہے جس میں (له أبٌ) کے بجائے (ابنٌ) ہے۔ اور اس پر آپ اور جیسے لوگوں کا اس کا ترجمہ کوئی بھی بیٹا نہ ہواور معنیٰ و مفہوم یہ بتلانا کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب کوئی پوتا اپنے دادا کے ترکہ کا مستحق ہوگا۔ یعنی نہ تو اس کا باپ ہو اور نہ ہی اس کے چچا تائے ہوں۔ صریحی طور پر غلط بیانی اور تحریف لفظی و معنوی ہے۔ جب کہ صحیح بخاری کے مذکورہ باب کے الفاظ : ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) میں اس معنی و مفہوم کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔جبکہ آپ کے پیش کردہ الفاظ میں اس بات کی گنجائش ہے جس کے چلتے تحریف کر کے خود ساختہ معنی و مفہوم اور مطلب کیا گیا ہے۔ اس کی دلیل اس کے بعد والا باب ہے جس میں اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے میں سے حصہ دیا۔
ابن داود نے کہا:
ابھی جو بات زیر بحث ہے، وہ یہ ہے، جو آپ نے اس باب کے تحت اپنا مستدل بیان فرمایا ہے:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس باب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ باب اس پوتے کی میراث کے اثبات کا باب ہے جس کا باپ نہ ہو۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جب کوئی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا وارث، حقدار و حصہ دار ہوگا۔ جیسا کہ آپ اور آپ جیسے لوگ سمجھے بیٹھے ہیں اور اس پر تلے ہوئے ہیں اور یہ طے کیئے بیٹھے ہیں کہ بہر صورت یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونا ثابت کر کے رہیں گے۔
کیا اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی ثبوت ہو سکتا ہے اس بات کا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ و میراث سے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہوتا ہے بلکہ وارث ، حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔

ابن داود نے کہا:
یہاں آپ اپنی دانست میں امام بخاری سے ایک باب کا عنوان منسوب کر کے، اس عنوان کو اپنے موقف پر سب سے بڑا ثبوت قرار دے رہے ہیں! اب آپ سے کہا جائے کہ کیا آپ کے نزدیک باب کا یہ عنوان ''صرف قرآن وحدیث ہے؟ تو اس کا کوئی معقول جواب آپ کے پاس نہیں ہوگا!
الجواب:
آپ کی یہ انتہا درجہ کی بد بختی ہے کہ آپ ایک ایسی بات کو جو مجھ سے سیکڑوں سال قبل کے ایک عالم و محدث نے صحیح بخاری کے وہ الفاظ نقل کیئے ہیں جس سے زیر بحث مسئلہ کا واضح حکم اور حل سامنے آرہا ہے جو ہمارے موقف پر و روز روشن کی طرح واضح و عیاں دلیل اور حجت قاطع ہے اس کے تعلق سے آپ مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہیں اور یہ افتراء پردازی کر رہے ہیں کہ میں اسے گھڑ بنا کر امام بخاری سے منسوب کر رہا ہوں۔
آپ نے یہ کہا (
کیا آپ کے نزدیک باب کا یہ عنوان ''صرف قرآن وحدیث ہے؟ تو اس کا کوئی معقول جواب آپ کے پاس نہیں ہوگا!) تو جناب من یہ باب صرف قرآن و حدیث نہیں بلکہ مبنی بر قرآن و حدیث ہے ۔اور یہی حق ہے۔
میری موقف کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ دادا والد ہے اور پوتا اس کی اولاد ہے والد کے ترکہ میں اس کی اولاد کا حق و حصہ ہونا نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے اور اس کا دوسرا ثبوت اللہ کے نبی کا پھوپھی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ سے بیٹی کے اس مشترکہ حصہ سے حصہ دینا ہے جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔

ابن داود نے کہا:
میرا یہ أسلوب نہیں، کہ میں دوران مکالمہ فریق مخالف پر قرآن کی ان آیات کا اطلاق کروں، جو کسی امر کی وعید و تنبیہ میں نازل ہوئی ہیں! لیکن آپ دوسروں پر بے بنیاد اور بے محل کبھی نفاق کی علامات کا اطلاق کرتے ہیں، کبھی یہودیوں کے وصف کو منطبق فرماتے ہیں، تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو قرآن کی آیت یاد دلائیں، يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾ ﴿سورة الصف﴾
الجواب:
یہاں بھی آپ جھوٹ بول رہے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ بار بار۔ مجھے کم علم، کم فہم، کج فہم، جھوٹا ، گمراہ حتی کہ قادیانی، منکر حدیث اور زندیق تک قرار دے رہے ہیں ۔ اور برابر قرآن وحدیث کے الفاظ و معانی میں تحریف کرکے معانی و مفاہیم بیان کر رہے ہیں۔ اس کا ثبوت آپ کی سابقہ تحریریں ہیں جس کے چلتے مجھے بھی ایسا اسلوب اختیار کرنا پڑا۔ اب آپ جب مجھے کافر و زندیق اور منکر حدیث وقادیانی وغیرہ سبھی کچھ بنا چکے ہیں تو اب جو کچھ میں آپ کے تعلق سے کہوں گا اس میں میں حق بجانب ہونگا کیونکہ عربی مقولہ ہے (البادی ہو الظالم) یعنی ابتداء کرنے والا ہی اصل مجرم و ظالم ہوا کرتا ہے آپ مجھے جو چاہیں کہیں جو چاہیں بنائیں اس سے میرے موقف پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ (111) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113) أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117) فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (118) [سورة الأنعام]
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر غور و خوض کیا جانا چاہئے اور بحث و تحقیق ہونی چاہئے
ابن داود نے کہا:
بحث و تحقیق کے حوالہ سے اور بیان گزرا!
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
صرف یہ کہہ دینے سے فرصت ملنے والی نہیں ہے کہ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ اور پوری امت کا اتفاق ہے۔
ابن داود نے کہا:
اجماعی مسئلہ صرف کہہ دینے سے تو فرصت ملنے والی نہیں، مگر اجماعی مسئلہ ہونے سے فرصت مل جاتی ہے،
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، سَمِعْتُ المُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا۔ اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ " ‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت کوقائم رکھے گا۔ انھیں ذلیل یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی حالت پر گامزن ہوں گے۔ " (راوی حدیث) عمیر نے کہا کہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں وہ لوگ شام میں ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یہ مالک بن یخامر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ شام کے علاقے میں ہیں۔ صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابٌ:)

الجواب:

جناب من!
اجماع صرف اس بات پر ہے کہ کسی بیٹے کے ہوتے ہوئے اس کے ساتھ اس کے بیٹے بیٹیاں ترکہ سے حصہ نہیں پائیں گے۔ جس چیز کو آپ اجماع سمجھے بیٹھے ہیں تو اجماع اس کے خلاف پر ہے۔ یعنی جب کسی پوتے کا باپ نہ ہو تو وہ پوتا اپنے دادا کا وارث ہے خواہ اس کے چچا تائے ہوں یا نہ ہوں۔ اور وہ صحیح بنیادوں یعنی نصوص کتاب و سنت کی بنیاد پر ہے اور وہ ثابت شدہ دلیل سے ہے جو یقینا بر حق اور قابل عمل ہے۔

ؐ------------------------------------------------
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
ابن داود نے کہا:
اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، کہ جب کسی مسئلہ پر اجماع ہو، تو لا محالہ وہ حق پرقائم گروہ بھی اسی میں شامل ہے! لہٰذا بحث و تحقیق کی حاجت نہیں رہتی، اور اس مسئلہ میں بحث وتحقیق سے فرصت مل جاتی ہے! اس سے کے علاوہ قرآن سے بھی ایک دلیل سمجھ لیں:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
﴿سورة النساء 59﴾
دیکھیں؛ یہاں قرآن وحدیث کی طرف لوٹانے کا حکم تنازع کی صورت میں ہے، اور تنازع اسی صورت ممکن ہے، جب اختلاف ہو، اللہ اور رسول اللہ کا یعنی قرآن وحدیث کو نہ آپس میں کوئی اختلاف ہو سکتا ہے، اور نہ کوئی ان سے اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے، ہاں ان کے علاوہ کا آپس میں اختلاف وتنازع ممکن ہے!
ایسا نہیں، کہ کوئی تنازع واختلاف نہ ہو، اور قرآن وحدیث میں ''بحث وتحقیق'' کرکے ایک نیا موقف کشید کرکے تنازع واختلاف پیدا کیا جائے! معلوم ہوا کہ جب کوئی اختلاف نہ ہو، وہ درست ہے، قرآن وحدیث کے موافق ہے! اجماع کا انعقاد ہمیشہ حق پر ہی ہوگا، اور باطل پر اجماع محال ہے!

الجواب:

جناب من!
اجماع اگر صحیح بنیادوں پر نصوص کتاب و سنت کی بنیاد پر ہو اور ثابت شدہ دلیل سے ہو تو یقینا بر حق اور قابل عمل ہے اور اس سے اختلاف کرنا درست نہیں لیکن اگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہو اگر اس اجماع کی مخالفت کی جائے تو یہ بھی حق اور جائز ہے۔ جیسا کہ دادا اور بھائی کے مسئلہ میں عہد ابو بکر میں اس بات پر جماع ہوا کہ جس طرح باپ کی موجودگی میں بھائی بہن مرنے والے کا ترکہ نہیں پاتے۔ اسی طرح جب دادا بھی والد ہے تو دادا کے ہوتے ہوئے بھی بھائی بہن میت کے ترکہ سے محروم ہونگے۔ اس پر لوگوں کا سکوتی اجماع سامنے آیا ۔ لیکن جب عمر فاروق کا دور آیا تو زید بن ثابت نے یہ کہا کہ چونکہ بھائی بہن مرنے والے کے باپ کی ایک شاخ ہیں اور ان کا حق و حصہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے لہذا ان کا بھی حق و حصہ میت کے ترکہ میں لگنا چاہیئے چنانچہ مقاسمت الجد کا مسئلہ سامنے آیا۔
رہا پوتوں کے تعلق سے اجماع کا مسئلہ تو اجماع صرف اس بات پر ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے اس کے ساتھ اس کے بیٹے بیٹیاں مرنے والے کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہونگے۔ جسے آپ جیسے جاہل و احمق لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا میت کے ترکہ سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر اجماعی نہیں ہے بلکہ یہ تو کھلی ہوئی گمراہی ہے جو نصوص کتاب و سنت کے منافی و مخالف ہے۔ لہذا باطل و مردود ہے۔جتنے بھی لوگوں نے پوتوں کے حق و حصہ کا ذکر کیا ہے ان کی مراد صرف یہی تھی کہ کسی بیٹے کے ہوتے ہوئے اس بیٹے کے بیٹے میت کے ترکہ میں حصہ دار نہیں بنیں گے لیکن آپ جیسے لوگوں نے اس کو یوں سمجھ لیا کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پا سکتا۔ جب کہ خود اللہ کے رسول نے بیٹی کے ہوتے ہوئے یتیم پوتی کو حصہ دیا۔ تو ذرا بتائیے تو سہی کہ آپ اور آپ جیسے لوگ اور آپ کے بزرگ دین کو صحیح و زیادہ سمجھنے والے ہیں یا اللہ کے رسول زیادہ سمجھتے ہیں؟ اللہ کے رسول کے نزدیک تو بیٹی کا ہونا یتیم پوتی کے لیئے اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ پانے میں مانع نہیں لیکن آپ لوگوں کے یہاں چچا کا ہونا یتیم پوتے کے لیئے اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ پانے میں مانع ہے۔ تو بتائیے تو سہی کہ آپ حق پر ہیں یا اللہ کے رسول حق پر ہیں۔ آپ کی مانا جائے یا اللہ کے رسول کے فیصلے کو مانا جائے؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

تو اگر یتیم پوتے کی محجوبیت کا مسئلہ اجماعی اور متفق علیہ ہوتا تو پھر یتیم پوتے اور یتیم پوتی کی توریث کے اثبات کا یہ دو باب صحیح بخاری میں کہاں سے آیا؟۔
ابن داود نے کہا:
یا تو آپ انتہائی جاہل آدمی ہیں، یا آپ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہیں ہیں!
اجماعی مسئلہ یہ نہیں کہ پوتا پوتی کسی صورت بھی دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوتے!
اجماعی مسئلہ یہ ہے کہ دادا کی مذکر أولاد کے ہوتے ہوئے، پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوتے!
صحیح بخاری کے ان دونوں أبواب میں اسی کا بیان ہے، کہ پوتا پوتی اس صورت میں دادا کی وراثت کے حقدار ہوں گے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!

الجواب:

جاہل بلکہ آپ تو احمق ترین انسان معلوم ہوتے ہیں۔ بلکہ فریب باز بھی ہیں۔
یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ (
دادا کی مذکر أولاد کے ہوتے ہوئے، پوتا پوتی دادا کی وراثت میں حقدار نہیں ہوتے!)!
یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ:
(
پوتا پوتی اس صورت میں دادا کی وراثت کے حقدار ہوں گے، جب دادا کی کوئی مذکر أولاد نہ ہو!)
یہ مذکر اولاد کے نہ ہونے کی شرط قرآن کی کس آیت اور کون سے حدیث میں لکھی ہوئی ہے۔ ذرا دکھائیے تو سہی۔ ہمارا آپ اور آپ جیسے لوگوں سے یہی تو مطالبہ ہے جو لوگ کسی بھی بیٹے کے نہ ہونی کی من گھڑت شرط کسی بھی یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونے کے لیئے لگاتے ہیں۔ وہ اس شرط کو دکھلائیں۔ ورنہ بروز قیامت اللہ کے سامنے انہیں اس کا جواب دینا ہوگا۔
اس خود ساختہ شرط کی بنیادپر یتیم پوتے کو اس کے حق سے محروم کرنا انتہا درجہ کی بد بختی اور بڑی دور کی گمراہی ہے جس کا انجام جہنم کی دائمی آگ ہے یہ کوئی کھیل نہیں ہے کہ بس کہہ دیا اورکوئی گرفت نہیں ہوگی۔ یہ آپ کی جہالت ہی نہیں بلکہ آپ کی انتہا درجہ کی بد بختی ہے کہ آپ اور آپ جیسے لوگ اللہ کے دین و شریعت میں اپنی من گھڑت بات اور شرط کو گھسیڑ کر حکم لگائیں اور پھر لوگوں سے کہیں کہ اللہ کی شریعت ہے اور یہی حق ہے۔ یہ یہودیوں کا طریقہ و شعار ہے جیسا کہ اس تعلق سے اللہ کا یہ فرمان ہے :

أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77) وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (78) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79) وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (80) بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (81) [سورة البقرة]
نیز فرمایا:
(يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ) [سورة المائدة: 41]
نیز فرمایا:
(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) (سورة الحشر: 7)
اپنی خود ساختہ شرطوں اور اپنے خود ساختہ اصولوں پر کسی مسئلہ کو فٹ کر کے یہ کہنا کہ یہی دین و شریعت ہے یہودیت ہے۔ جب اللہ و رسول نے یہ شرط بیان نہیں کی تو پھر آپ یا دوسرا کوئی بھی یہ شرط لگانے والا کون ہے۔ اور اگر شرط ہے تو وہ شرط قرآن کی آیت سے دکھائیے یا کسی صحیح حدیث رسول سے دکھائیے۔
ؐ------------------------------------------------
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میرے محترم آپ کا ارشاد گرامی ہے:
یہاں آپ حدیث پیش کرکے سوال کررہے ہیں حالانکہ یہ حدیث خود آپ کے خلاف دلیل ہے ۔بلکہ آپ کی ساری باتیں اس حدیث کے سامنے ہوا ہوجاتی ہے۔

الجواب:
میں کہتا ہوں یہ حدیث آپ جیسے لوگوں کی ساری باتوں کو ہوا بنادیتی ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ فرائض کو اہل فرائض کے حوالے کرو۔ (بخاری و مسلم) اور صحیح مسلم کی دوسری حدیث ہے کہ ترکہ کے مال کو اللہ کی کتاب قرآں مجید کے مطابق اس کی بنیاد پر اہل فرائض کے درمیان تقسیم کرو ۔ اور جو باقی بچ رہے وہ سب سے اولیٰ مرد مذکر کے لئے ہے۔
Click to expand...
ابن داود نے کہا:
آپ کا موقف نہ ان احادیث کے موافق ہے، اور نہ قرآن کے موافق، کہ آپ نے اپنے تئیں، ہی بعض کو اہل فرائض میں شامل کر لیا ہے، جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں!
الجواب:
یہ آپ کی جہالت کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ در اصل آپ نے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا اور سچ کو جھٹلانا ہی اپنا دین و مذہب بنا رکھا ہے اسی لیئے آپ کو اپنے خود ساختہ دین و مذہب کی بے بنیاد باتیں تو نظر آتی ہیں لیکن صحیح باتوں کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی ہے۔ دیکھیئے درج ذیل عبارتیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ». [صحيح مسلم: 4 - (1615)].
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ».

قَوْله: (ألْحقُوا الْفَرَائِض بِأَهْلِهَا): وَالْمُرَادُ بِأَهْلِهَا مَنْ يَسْتَحِقُّهَا بِنَصِّ الْقُرْآنِ.
قَوْله:
(فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) وَلَمْ يَقْصِدْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْ يُدْلِي بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ مَثَلًا لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِمْ مَنْ هُوَ أَوْلَى مِنْ غَيْرِهِ إِذَا اسْتَوَوْا فِي الْمنزلَة كَذَا قَالَ بن الْمُنِير.
خَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْأَخُ وَالْأُخْتُ لِأَبَوَيْنِ أَوْ لِأَبٍ فَإِنَّهُمْ يَرِثُونَ بِنَصِّ قَوْلِهِ تَعَالَى (وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَيَيْنِ)، وَيُسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ مَنْ يُحْجَبُ كَالْأَخِ لِلْأَبِ مَعَ الْبِنْتِ وَالْأُخْتِ الشَّقِيقَةِ وَكَذَا يَخْرُجُ الْأَخُ وَالْأُخْتُ لِأُمٍّ لِقَوْلِهِ تَعَالَى (فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدس)
.
(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس میں اللہ کے رسول نے یہ نہیں کہا ہے کہ پہلے سراجی اور اس جیسی کتابیں اور اس کے پڑھنے پڑھانے والے عالموں سے سیکھو پھر جو کچھ وہ رٹیں رٹائیں اس کے مطابق ذوی الفروض اور عصبات میں تقسیم کرو۔ جس کے سیکھنے اور حاصل کرنے کا آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
آپ قرآن کی اس آیت کو بھول رہے ہیں؛
(وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ) ﴿سورة التوبة 122﴾
لہٰذا آپ کو ان سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے، جنہوں نے دین میں تفقہ حاصل کیا ہے!
الجواب:
جناب من!
در اصل آپ اس آیت کا معنی و مفہوم ہی نہیں سمجھتے ہیں جس کے چلتے آپ الٹی پلٹی باتیں کر رہے ہیں اس آیت میں کہا یہ گیا ہے کہ چونکہ ہر شخص نکل کر دین کی تعلیم یعنی قرآن و حدیث کا علم حاصل نہیں کر سکتا ہے تو کم از کم کچھ ایسے لوگ ہوں جو قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں اور اللہ کے دین کو قرآن و حدیث سے صحیح طور پر سمجھیں پھر وہ علم حاصل کرنے کے بعد اللہ کے عذاب سے لوگوں کو ڈرائیں تاکہ کوگ اللہ کے عذاب کا شکار ہونے سے بچیں۔
اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی ہے کہ چند خود ساختہ اصول و قواعد کو سیکھ کر چند منطقیانہ و فلسفیانہ باتوں کو رٹ لیں اور بکواس شروع کردیں جیسا کہ آپ ابتک کیئے جا رہے ہیں۔
دین کے اندر تفقہ کا مطلب آپ نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ جوبھی غلط سلط بے بنیاد باتیں فقہ کے نام پر گھڑ بنالیں جائیں اور اٹکل بازی کر کے کوئی مسئلہ گھڑ لیا جائے تو اس کو اللہ کا دین اور اس کی شریعت مان لیا جائے۔ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ نے تفقہ فی الدین کرنے کو کہا ہے یہ نہیں کہ ہم سے پہلے کے لوگوں میں سے کسی نے اپنے طور پر جو بھی صحیح غلط سمجھ لیااس کو تفقہ فی الدین قرار دیکر آنکھ بند کرکے مان لیا جائے یہ تفقہ فی الدین نہیں بلکہ یہ اندھی تقلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عقل، سمجھ، دل و دماغ اور سوچنے سمجھنے اور صحیح غلط کا فیصلہ کرنے کا شعور دیا ہے جس کو استعمال کرنا اس کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی کی عقل پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جانے کے ہمیں مکلف کیا گیا ہے۔
جاہل لوگ کسی کی طرف رجوع کریں ہمیں جو حکم ہے کہ ہم اللہ و رسول یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کریں اور جس کو اللہ نے قرآن وحدیث کا علم دیا ہو تو وہ لوگ جن کو یہ علم حاصل نہیں ہےان کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کو یہ علم حاصل ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میرے محترم! میں نے سراجی پڑھی بھی ہے اور پڑھائی بھی ہے اور اور اصول فرائض پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔
ابن داود نے کہا:
ماشاء اللہ! اندازہ ہو رہا ہے، کہ یہ کتب فہم و فقہ کا کیا شاہکار ہوں گی! لیکن پہلے یہ تو بتائیے، کہ آپ نے یہ کتب لکھی کیوں؟ آپ نے تو ابھی اسی مراسلہ میں کہا تھا کہ:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
میں آپ کو بھی اور دگر لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض و مواریث کے سلسلہ میں بحث و تحقیق صرف قرآن و سنت ساے ہی ہونی چاہئے ۔
ابن داود نے کہا:
جب آپ دوسرے تمام لوگوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں، کہ مسائل شرعیہ کے تعلق سے خاص کر فرائض ومواریث کے سلسلہ میں بحث وتحقیق صرف قرآن وسنت سے ہی ہونی چاہیئے، تو پھر آپ یہ کتابیں لکھ کر لوگوں کو قرآن وحدیث کے بجائے آپ کی کتب پڑھنے اور ان سے مسائل شرعیہ اور خاص کر فرائض ومواریث سیکھنے پر کیوں لگانا چاہتے ہیں!
آپ کی کتب قرآن وحدیث تو نہیں! میرے بھائی! آپ نے خود کو کچھ گمان کر لیا ہے، کہ آپ کے لئے وہ سب کچھ جائز و حلال ہو جاتا ہے، جس پر آپ دوسروں کو کوسنے دینے سے باز نہیں رہتے!

الجواب:
جناب عالی آپ کا یہ کہنا کہ (آپ یہ کتابیں لکھ کر لوگوں کو قرآن وحدیث کے بجائے آپ کی کتب پڑھنے اور ان سے مسائل شرعیہ اور خاص کر فرائض ومواریث سیکھنے پر کیوں لگانا چاہتے ہیں!)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تاکہ آپ جیسے فریبی لوگوں سے لوگوں کو بچایا جائے جو دین میں فریب بازیاں کرتے ہیں۔ اور بے بنیاد باتوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں قلع قمع کیا جاسکے۔
آپ نے کہا (
آپ کی کتب قرآن وحدیث تو نہیں!) تو کیا آپ کے بزرگوں کی کتابیں قرآن وحدیث ہیں جن کی آپ اندھی تقلید کر رہے ہیں۔ کہ اس کو بس یوں ہی مان لیا جائے۔
اور جو باتیں آپ میرے بارے میں کہہ رہے ہیں ووہ ساری باتیں اور جملے خود آپ پر ہی فٹ ہو رہے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور تقریبا بیس سال سے اس علم اور یتیم پوتے کے مسئلہ کے تعلق سے بحث و تحقیق میں لگا ہوا ہوں اور الحمد للہ ثم الحمد اللہ ۔ میں نے علم فرائض و مواریث کو اس کے اصل ماخذ و مصدر اور مرجع قرآن و حدیث سے حاصل کیا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اس پر میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
ابن داود نے کہا:
شکر تو اللہ کا ہر حال میں ادا کرنا چاہئے! یہ تو اچھی بات ہے! مگر معاملہ ہوا کچھ یوں ہے کہ جیسے اوپر بیان کیا گیا تھا؛ کہ آپ نے ایسے مسئلہ میں، جس میں تنازع واختلاف نہیں ہے، اس مسئلہ میں ''بحث وتحقیق'' کے نام سے نیا اور منفرد موقف کشید کیا ہے، اور آ کے موقف کا نیا اور منفرد ہونا ہی آپ کے موقف کے بطلان کو کافی ہے!
الجواب:
یہ قطعا آپ کی غلط فہمی ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے اگر اختلاف نہ ہوتا تو اس طرح کے مسائل وقتا فوقتا سامنے نہ آتے اور لوگ اس کے بارے میں سوال نہ کرتے اور آپ یہ ساری بکواس نہ کرتے بلکہ آپ یا آپ کے ہم نوا حضرات قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل پیش کردیتے جس کے بعد کسی بحث کی گنجائش ہی نہ رہ جاتی۔ لیکن آپ ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ ایسی کوئی صریحی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث رسول میں ہی ہے کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پا سکتا ہے۔ اگر اس پر قرآن یا حدیث سے کوئی دلیل ہو تو پیش کریں ورنہ بکواس کرنا بند کریں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

میں یتیم پوتے کی محجوبیت کے تعلق سے جتنے لوگوں کی بھی تحریریں پڑھی ہیں جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ ان سب کا خلاصہ اور ان سب کی ساری باتوں کا محور صرف اور صرف یہی ہے کہ چونکہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے۔ اور قرآن میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے اور علم فرائض کا اصول ہے (الاقرب فالاقرب) جس کا مطلب ہوا کہ قریب کے ہوتے ہوئے دور والا وارث نہیں ہو سکتا ہے۔
صرف پڑھنے کے علاوہ کچھ سمجھا بھی ہوتا، تو بہتر تھا!
الجواب:
سمجھا ہے تبھی تو لکھ رہا ہوں اگر نہ سمجھا ہوتا تو پھر آپ اور آپ کے بزرگوں کی مان نہ لیتا۔ میں نے قرآن وحدیث کتب تفاسیر اور شروح حدیث کو پڑھا ہے تبھی تو سمجھ میں آیا کہ یتیم پوتا بھی اپنے دادا کی اولاد و بیٹا ہے اور اس کا دادا اس کا والد و باپ ہے اور والد کے ترکہ میں اولاد کا حصہ ہے اور اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو پھوپھی کے ساتھ دادا کے ترکہ میں حصہ دیا ہے۔ جب کہ آپ نے نہ پڑھا ہے اور نہ ہی سمجھاہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھنے کی توفیق ہی دے رہا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اب اسی کو ثابت کرنے اور صحیح ٹھہرانے کی خاطر لوگ قرآن وحدیث کے الفاظ کو توڑتے مروڑتے اورتاویلات بیجا کرکے معنی و مفہوم اخذ کرتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں اور سلسلہ میں کچھ بھی سننا گوارا نہیں کرتے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
فضول باتوں کو سننا گوارا کرنا بھی نہیں چاہیئے! قرآن وحدیث کے الفاظ کو کوئی اور توڑتا مروڑتا ہے یا نہیں، اور تاویلات بیجا کرکے معنی ومفہوم اخذ کرتا ہے یا نہیں، یہ تو ان کی تحریر یا تقریر سامنے آنے پر کہا جا سکتا ہے، لیکن سر دست آپ کی تحریر ہے، اس میں آپ نے بلاشبہ یہ تمام کام کیئے ہیں!
الجواب:
جناب من!
یہ سارا کام تو آپ کر رہے ہیں جس کی گواہ آپ کی یہ ساری تحریریں ہیں۔ اور آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

اور اگر کوئی کچھ کہتا بھی ہے تو اسے گمراہ، کج فہم، بے عقل بےوقوف، جاہل، بد عقیدہ، اجماع امت کو توڑنے والا۔ اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالتے ہیں ۔ اور ایسا کہنے والے کوئی اور نہیں بلکہ قرآن و حدیث کا ٹھیکہ لئے ہوئے اتباع کتاب و سنت کے دعویدار حضرات ہیں۔ جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔
ابن داود نے کہا:
کوئی قرآن وسنت کے خلاف بات کرتا کیوں ہے، جب وہ ایسے کام کرے گا، قرآن وحدیث میں ''بحث وتحقیق'' کے نام پر قرآن وحدیث کے احکام کو نفسی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا، تو اس کو گمراہ، کج فہم کہا جائے گا، اور جب اسے اپنی ہی باتوں میں تضاد کی ہی سمجھ نہیں آئے گی، تو اسے بیوقوف اور جاہل کہا جائے گا! اور بالکل جناب! قرآن وحدیث کے دفاع کا ''ٹھیکہ'' ہم نے لیا ہے! اور اس ''ٹھیکہ'' میں ہمارا اجر، اللہ کی رضا ہے، اللہ ہمیں ہمارا ''ٹھیکہ'' موت تک اٹھانے کی توفیق دے!
الجواب:
یہ تو آنجناب کی خوش فہمی و خوش خیالی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے مسئلہ میں جو یکسر من گھڑت ہے جس کی قطعی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ہے اسے آپ قرآن و حدیث کا دفاع اور خدمت سمجھ رہے ہیں اور اس پر اللہ کی رضا کی امید لگائے ہوئے ہیں اور اجر کی توقع رکھتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں اولادوں اور کسی کی اولاد و ذریت کے حق میں عدل و انصاف کرنے اور ان کے حقوق کے تعلق سے اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی ہے۔ جاہل و بے وقوف کج فہم عقل کے کورے تو آپ ہیں کہ اولاد و ابن اور والد و اب کا فرق تک نہیں سمجھ پا رہے ہیں اور والدین اور اقربون کا مفہوم تک آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ گمراہ تو آپ ہیں کہ کسی کی یتیم اولاد کے حق و حصہ کو مار کر کھا جانے اور غصب کرنے کرانے کی بے سود دلالی کر رہے ہیں۔ اور اپنے انجام بد سے یکسر غافل ہیں۔
غالب نے کیا ہی خوب کہا ہے (دل کو خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے)۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:

کیا آپ کو فرائض کا علم بذریعہ وحی آیا ہوا ہے؟ یا آپ کے پاس جبرئیل آئے تھے جو آپ کو سراجی پڑھا کے اور میراث کا علم دے کر گئے تھے؟۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ سے یا آپ جیسے دوسرے لوگوں سے غلطی ہو رہی ہو۔ کیا آپ کا علم منزل من اللہ ہے؟۔ کہ آپ مجھے گمراہ اجماع امت کو توڑنے والا، کج فہم ، گمراہ، جاہل قرار دیئے جا رہے ہیں اور کسی عالم سے بیٹھ کر علم میراث حاصل کرنے کا مشورہ دیئے جا رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
اسی طرح کے سوالات ہم آپ سے کرتے ہیں! کیا آپ کو فرائض کا علم بذریعہ وحی آیا ہوا ہے؟ یا آپ کے پاس جبرئیل آئے تھے، جو آپ کو یہ بتلا کے گئے ہیں کہ ''یتیم'' پوتے پوتی دادا کی وراثت میں ہر صورت حصہ کے حقدار ہیں؟
الجواب:
ہاں ہمارے پاس اللہ کی وحی قرآن اور حدیث رسول آئی ہوئی موجود ہے جو جبرئیل بتاکر گئے ہیں کہ یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی اولاد ہیں اور ان کا دادا ان کا والد ہے اور والد کے ترکہ میں اس کی ساری اولادوں بشمول یتیم پوتے پوتیاں حق و حصہ ہے اسی لیئے اللہ کے رسول نے بذات خود بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا ہے جیسا کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول کا فیصلہ موجود ہے اور یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا الگ الگ باب موجود ہے جیسے بیٹا بیٹی کا باب الگ الگ موجود ہے۔ جو صرف اور صرف ان لوگوں کو نظر نہیں آتا ہے جو عقل کے اندھے ہونے کے ساتھ آنکھ کے بھی اندھے ہیں۔ ہمارے لیئے تو اللہ کے رسول کا صرف یہی ایک فیصلہ ہی تنہا کافی اور حجت قاطع ہے جس کے بعد کسی کی کسی بھی طرح کی بکواس کی ہمیں قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیئے تو صرف اللہ و رسول کا ایک فیصلہ ہی کافی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا) (سورة الأحزاب: 36)
یعنی جب اللہ و رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں کوئی حکم دیدیں تو پھر ہمیں کسی کی کسی بھی طرح کی کسی بھی بات کی قطعی کوئی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اور جو اس کی مخالفت و خلاف ورزی کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔
ابن داود نے کہا:
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ سے غلطی ہو رہی ہو؟ کیا آپ کا علم منزل من اللہ ہے؟
الجواب:
قطعی نہیں کیونکہ ہمارے پاس اللہ کی وحی قرآن و حدیث رسول آئی ہوئی موجود ہے کیونکہ یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی اولاد ہیں اور ان کا دادا ان کا والد ہے اور والد کے ترکہ میں اس کی ساری اولادوں بشمول یتیم پوتے پوتیاں حق و حصہ ہے کیونکہ اللہ کے رسول نے بذات خود بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا ہے جیسا کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول کا فیصلہ موجود ہے اور یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے اثبات کا الگ الگ باب موجود ہے جیسے بیٹا بیٹی کا باب الگ الگ موجود ہے۔
غلطی پر صرف وہی لوگ ہیں جو یتیم پوتے پوتی کو اس کے دادا کی اولاد ماننے اور اولاد کے حق میں اللہ کی کی ہوئی وصیت کے انکاری ہیں اور اس انکار کے بعد شریعت سازی کرتے ہوئے ان کے حق میں دادا کو وصیت کر جانے کو فرض کرتے ہیں اور اللہ کی شریعت کو ناکافی بتا کر خود ان کے بارے میں شریعت سازی کے مرتکب اور مجرم ہیں اور اللہ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
آں جناب نے کہا: (
کیا آپ کا علم منزل من اللہ ہے؟)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں میرا علم منزل من اللہ ہے جو اللہ کے پاس سے جبرئیل امین لے کر آئے تھے اور اللہ کے نبی محمد رسول اللہ پر اس کو نازل کیا تھا اور جو قرآن و حدیث میں موجود ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیئے محفوظ کردیا ہے۔

ابن داود نے کہا:
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنی کج فہمی، گمراہی، جہالت میں قرآن وحدیث میں معنوی تحریف کر رہے ہوں، اور آپ کو اس کا إحساس بھی نہ ہو؟
الجواب:
ہرگز نہیں مجھے نہ تو کوئی کج فہمی ہے اور نہ ہی کوئی گمراہی اور جہالت ہے،اور نہ ہی میں نے کسی طرح کی تحریف کی ہے کیونکہ مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کج فہمی ، گمراہی اور جہالت کا شکار تو آپ جیسے لوگ ہیں جنہیں اپنے خود ساختہ مسئلہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے قرآن و حدیث میں لفظی و معنوی تحریف کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیئے تو آپ اور آپ کے بزرگوں نے اولاد و والدین کے مسئلہ میں قرآن میں مذکور لفظ (الْوَالِدَانِ) کے بجائے (وَالْأَقْرَبُونَ) اور حدیث میں (الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا) کے بجائے (لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ) سے استدلال کیا ہے جو کہ قرآن و حدیث میں کھلی ہوئی لفظی و معنوی تحریف ہے۔ اور آپ سب کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔
ابن داود نے کہا:
میں یہ''ہو سکتا'' والے سوالات میں مزید اضافہ کرتا ہوں! کیا آپ کو جبرئیل بتلا کے گئے ہیں کہ شیطان آ پ کو وسوسہ میں مبتلا نہیں کر سکتا؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو شیطان نے وسوسہ میں مبتلا کردیا؟
الجواب:
نہیں ہرگز نہیں اللہ کے رسول کو جبرئیل بتلا کر گئے تھے کہ یتیم پوتے پوتیاں بھی اولاد میت ہیں اسی لیئے تو اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا تھا۔ شیطان نے مجھے نہیں بلکہ آپ اور آپ جیسے لوگوں کو اس وسوسہ میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پوتا وارث نہیں ہو سکتاہے جبکہ بنیادی طور پر دونوں ہی اولاد و وارث ہیں۔ اور اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ اسی بنیاد پر ایک سے زیادہ بیٹی کے مشترکہ حصہ میں سے حصہ دیا۔ تو شیطانی وسوسہ کا تو آپ لوگ شکار ہیں۔ میں نہیں ہوں۔
ابن داود نے کہا:
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شیطان نےآپ کو وحی کی، کہ ''یتیم'' پوتے پوتی ہر صورت دادا کی وراثت میں حصہ کے حقدار ہیں؟
الجواب:
نہیں ہر گز نہیں بلکہ شیطان نے آپ اور آپ جیسے لوگوں کو اس بات کی وحی کی ہے کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا ہرگز اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔ حالانہ قرآن وحدیث میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ جب بیٹا نہ ہو تو اس کے بیٹے بیٹیاں اس کی جگہ اپنے دادا کے ترکہ کے حقدار اور حصہ دار ہونگے۔
ابن داود نے کہا:
کیا جبرئیل نے آپ کے پاس آئے تھے، اور کیا آپ کو یہ بتلا کے گئے ہیں کہ شیطان آپ پر وحی نہیں کر سکتا؟
الجواب:
نہیں جبرئیل اللہ کے رسول کے پاس آئے تھے اور وہ اللہ کے نبی کو بتلا کر گئے تھے کہ بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کا بھی حق ہوتا ہے چنانچہ اللہ کے نبی نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو بھی حصہ دیا ۔ اور جب ایک صحابی نے بیٹی کے ہوتے یتیم کو حصہ نہ دیا تو دوسرے صحابی عبد اللہ بن مسعود نے برجستہ کہا کہ بیٹی کے چلتے یتیم پوتی کو محروم کرنا کھلی گمراہی ہے کیونکہ اللہ کے رسول نے اسے حصہ دیا ہے تو اگر میں بھی ایسا کروں تو میں بھی گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔ جیسا کہ آپ لوگ یتیم پوتے کو محروم کر کے گمراہ ہو۔ چنانچہ اللہ کے رسول کے اس فیصلہ کے سامنے آنے پر اس صحابی نے اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا کیونکہ وہ مومن اور ہدایت پر تھے جب کہ آپ اور آپ جیسے لوگ اللہ و رسول کا فیصلہ پیش کر دیئے جانے کے باوجود اس کو ماننے کے انکاری ہیں اور ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں۔
[فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (98) إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (99) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ (100)] [سورة النحل]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ شیطان کا تسلط صرف انہیں لوگوں پرہوتا جو اس کی باتوں کی پیروی کرتے ہیں اور شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ و رسول پر صحیح ایمان رکھتے ہیں اور صرف انہیں پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان پر شیاطین کا تسلط نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس شیطانی وحی آتی ہے۔
ابن داود نے کہا:
میاں جی!انسان کو بیوقوفی والی باتیں بھی اتنی ہی کرنا چاہیئے، جتنا وہ بیوقف ہو، بیوقفی میں ہشیاری دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے!
الجواب:
جناب عالی! آپ تو سراسر بیوقوفی کی ہی باتیں کیئے جارہے ہیں اور آپ کی بیوقوفیاں ہیں کہ رکتی ہی نہیں ہیں۔بیوقوفی کے باوجود ہوشیاری تو آپ دکھائے جا رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
اور یہ بتلائیے آپ کو کسی عالم سے علم میراث سیکھنے سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
الجواب:
میراث کا علم تو اللہ و رسول نے قرآن وحدیث میں بیان فرمادیا ہے جس کو سیکھنے سے آپ انکار کر رہے ہیں اور نفرت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فقہی کتابوں میں علم میراث نہیں بلکہ فقہی حسابی اصول بیان کیئے گئے ہیں جنہیں آپ اور آپ جیسے لوگ اپنی جہالت و بیوقوفی میں علم میراث سمجھے ہوئے ہیں اور جسے سیکھنے کا مشورہ کفایت اللہ سنابلی صاحب دے رہے ہیں اور جس کو سیکھنے سکھانے کے لیئے انہوں نے تفہیم الفرائض نامی کتاب لکھ رکھی ہے۔
ابن داود نے کہا:
کیا علم المیراث کو کسی عالم سے سیکھنا کوئی گناہ ہے؟ کہ علم المیراث کسی عالم سے نہ سیکھا جائے!
الجواب:
جناب من!
علم میراث تو اللہ و رسول نے قرآن و حدیث میں صاف صاف بیان کردیا ہے جس کو سیکھنے سکھانے کا حکم اللہ و رسول نے دیا ہے۔ جس کا سیکھنا سکھانا فرض عین ہے اور جس کے تعلق سے امام بخاری نے باقاعدہ ایک باب تعلیم الفرائض کے نام سے باندھا ہوا ہے جس میں صحابی رسول عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ قبل اس کے کہ قیاس آرائیاں اور اٹکل بازیاں کرنےوالے پیدا ہو جائیں علم فرائض سیکھ لو۔ تو علم فرائض تو صرف قرآن و حدیث میں ہے۔ اور آپ جس علم کو مجھے سیکھنے سکھانے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ حسابی اصول ہیں علم میراث نہیں ہیں ۔ اور وہ میں نے پہلے ہی سیکھ لیا ہے اب مرحلہ سیکھنے کا نہیں بلکہ بحث و تحقیق کا ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی حدیث میں مذکور علم میراث کو سیکھنا فرض عین ہے اور قرآن و حدیث سے ہٹ کر گھڑی بنائی باتوں کا سیکھنا یقینا گناہ ہے۔

ابن داود نے کہا:
اور یہ بات ذہن نشین کر لیں، کہ آپ کو گمراہ، کج فہم، جاہل قرار دینے کے لئے، کسی پر وحی کے نزول کی ضرورت نہیں! بلکہ آپ کو گمراہ، کج فہم اور جاہل قرار دینے کے لئے آپ کے آپ کے اب تک کے مراسلے ہی کافی ہیں! انہیں میں آپ کے گمراہ، کج فہم اور جاہل ہونے کا کافی ثبوت موجود ہے!
الجواب:
در اصل (گمراہ، کج فہم، جاہل قرار دینے) کاجوطریقہ آپ نے اختیار کیا ہوا ہے وہ کفار و مشرکین کا طریقہ و شعار ہے جو آپ نے اپنا رکھا ہے جیسا کہ کفار مکہ نے اس وقت جب اللہ کے رسول نے توحید کی دعوت دی تو کہا کہ یہ تو گمراہ، کج فہم، جاہل اور بد دین ہے جب کہ وہ خود گمراہ، کج فہم، جاہل اور بد دین تھے۔ تو یہ طریقہ جو آپ نے اپنا رکھا ہے وہ در اصل ہمیشہ سے ان لوگوں کا رہا ہے جو باپ دادا سے چلی آرہی روایات کو اپنا دین و مذہب بنا ئے ہوئے ہوتے ہیں اور جب اس کے خلاف کچھ کہا جاتا ہے اور ان کی گمراہیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ یہی جملے استعمال کرتے ہیں تو جو ان پر فٹ ہوتا تھا اور وہ آپ پر بھی فٹ ہو رہا ہے۔
لہذا آپ جن خطابات سے مجھے نواز رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات آپ نے نہیں کہی ہے اہل حق کے خلاف اہل باطل کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ جب انہیں حق بات بتائی جاتی ہے توحق بات بتانے والوں کو گمراہ، کج فہم اور جاہل قرار دیتے ہیں جیسا کہ خود اللہ کے رسول کو یہ سب کچھ کہا گیا۔ لیکن اس سے ان کی ذات و شخصیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ کہنے والے کی حقیقت کا ضرور پتہ چل گیا کہ وہ کتنا جاہل احمق اور گمراہ ہے کہ وہ بات کو سمجھ ہی نہیں پارہا ہے اور سوائے گمراہ، جاہل اور پاگل و بیوقوف کہنے کے اس کو کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ تو آپ یہ سب کچھ کہتے رہیئے اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ جو چاہیئے بنائیے جتنا ہو سکے گالیاں دیجئے۔ کیونکہ چھلنی سے وہی چیز گرتی ہے جو اس میں ہوتی ہے۔ ہم تو بس اس بات کے پابند ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے رکھا ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالٰی ہے: (ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) (125) (وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ) (126) [سورة النحل]
ہم نے ابتک جتنی باتیں کی ہیں وہ صرف قرآن و حدیث کی باتیں کی ہیں نہ تو کسی عالم ، فقیہ کی رائے و قیاس اور مفتی کے فتوے کی بات کی ہماری دلیل تو صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے جسے آپ سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں۔ اور اپنی ناسمجھی کی وجہ سے آپ اناپ شناپ بکے جارہے ہیں اور ہمیں گمراہ، جاہل، پاگل دیوانہ بتا رہے ہیں۔ ہم نے نہ تو آپ کو پاگل دیوانہ کہا ہے نہ ہی جاہل بنایا ہےنہ ہی گمراہ کہا ہے۔ اگر ایسی کوئی بات کی ہے تو وہ محض آپ کے الفاظ آپ کی طرف لوٹائے ہیں۔ ورنہ میرا مقصد کسی کو پاگل دیوانہ کہنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ یتیم پوتے کے مسئلہ کو لیکر جو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ غلط ہے اور محض غلط فہمی کی بنا پر ایسا ہے اوراس کا سب سے بڑا ثبوت خود اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضے میں سے حصہ دینا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما رکھا ہے۔ لہذا اس مسئلہ کے سلسلہ میں اہل علم کو پھر سے غور و فکر کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس مسئلہ کو لیکر منکرین حدیث، نام نہاد اہل قرآن، قادیانی مرزائی اور دیگر اسلام دشمن اسلام کے عادلانہ و منصفانہ، شاف شفاف نظام تقسیم ترکہ و مواریث پر حرف گیری کرتے ہیں۔ اور ہمارے مخاطب علمائے اہل حدیث ہیں جن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کے تناظر میں پھر سے قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں اور اس میں غور و فکر کریں۔ تو ایسا نہ کرکے صرف مخالفت کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اور یہ کام پہلے پہل مولانا ثناء اللہ امرتسری نے انجام دیا پھر شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری نے اور اب میرے سامنے مولانا صلاح الدین یوسف صاحب کا ایک فتویٰ نظر سے گذرا۔ جس میں تقریبا وہی ساری باتیں کہی گئی ہیں جو مولانا امرتسری اور مبارکپوری نے کہی ہیں۔ اور اب آپ نے ان کی تقلید میں اس کی تائید کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ ہدایت یافتہ، سب سے بڑا عالم، سب سے زیادہ سمجھ دار، سب سے زیادہ عاقل سمجھ رکھا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ) (سورة يوسف: 76)
قرآن و حدیث، علم، دین، شریعت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اور قرآن و سنت کسی کی جاگیر نہیں۔ اور مسلک و مذہب اہل حدیث کسی کے گھر کی لونڈی نہیں ہے کہ وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرلے؟ مسلک و مذہب اہل حدیث ایک خاص فکر، عقیدہ، منہج اور طریقہ کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کہا ہے جو اللہ کے رسول اور ان کے صحابہ کا طریقہ اور منہج ہے جسے اللہ کے رسول نے (ما انا علیہ و اصحابی) یعنی جس عقیدہ و منہج اور طریقہ پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ وہی سبیل المومنین ہے جسے بعد میں اہل سنت و الجماعت کا نام دیا گیا جس پر چلنے والے کو اہل الحدیث کہا جاتا ہے۔ اہل حدیث صرف حدیث ماننے والے کو نہیں کہتے ہیں جیسا کہ اہل قرآن صرف قرآن کو ماننے والے ہیں اور احادیث رسول کے منکر ہیں۔ بلکہ اہل حدیث اس کو کہتے ہیں جو احسن الحدیث کتاب اللہ کو سب سے پہلے مانتے ہیں اور اس کی تشریح و تعبیر احادیث صحیحہ اور سنت مطہرہ سے کرتے ہیں۔ اور اسی چیز کو قبول کرتے ہیں جو قرآن و حدیث اور سنت صحیحہ سے ثابت ہوتی ہے۔ اور وہ کسی ذات و شخصیت کو اپنا امام، قدوہ، اور مقتدیٰ نہیں مانتے ہیں اور نہ ہی اس کی ہر کہی ہوئی بات کو حجت سمجھتے ہیں وہ تو صرف اور صرف اللہ کے رسول کی ذات و شخصیت کو ہی تنہا اپنا امام اعظم مانتے ہیں ۔ جیسا کہ امام مالک نے قبر نبوی کے بغل میں بیٹھ کر کہا تھا کہ دنیا کے ہر کسی انسان کی بات کو ٹھکرایا و رد کیا جا سکتا ہے سوائے اس قبر والے(رسول اللہ) کی بات کے۔ تو میرے بھائی! اہل حدیث کسی پارٹی اور گروہ کا نام نہیں ہے کہ جو اس پارٹی کا ممبر بن گیا اور (ما اہلحدیثیم ) کا نعرہ لگا کر اس گروہ میں شامل ہوگیا پس وہ اہل حدیث ہوگیا۔ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ سب سے پہلے اس کا عقیدہ و منہج دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس کا عقیدہ کیا ہے اور اس نے کون سا منہج اختیار کیا ہے آیا اس کا عقیدہ صحابہ کے عقیدہ جیسا ہے یا نہیں؟ اور اس کا منہج صحابہ کے منہج کے موافق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ اہل حدیث ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ اہل حدیث نہیں ہے۔کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
[قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137) صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (138) قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (139)] [سورة البقرة]

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ اور آپ جیسے لوگ جو قرآن و حدیث کی اتباع کے دعویدار ہیں ۔ اس مسئلہ میں اتباع کتاب و سنت کی دعویداری کہاں گم ہو گئی ہے؟۔
ابن داود نے کہا:
اس مسئلہ میں بھی قرآن وحدیث کی دلیل سے ہی، پوتا پوتی دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت کے حقدار قرار پاتے ہیں، بصورت دیگر نہیں! آپ نے قرآن کی آیات ضرور لکھیں ہیں، لیکن وہ دادا کی مذکر أولاد ہونے کے باوجود پوتے پوتی کی وراثت پر دلیل نہیں!
الجواب:
جناب من!
مذکر اولاد کے نہ ہونے کی شرط قرآن کی کس آیت یا کس حدیث میں ہے؟ دکھائیے تو سہی؟ قرآن و حدیث کی وہ دلیل کہاں ہے جس کا آپ سے بار بار مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ذرا پیش بھی کریں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ دادا کی مذکر اولاد نہ ہونے کی صورت میں پوتا پوتی وراثت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ کہیں آپ کے پاس کوئی خفیہ قرآن و حدیث تو نہیں ہے جسے صرف آپ اور آپ جیسے لوگ ہی پڑھتے ہیں۔
جب آپ کو اولاد و والدین کا مفہوم و مصداق ہی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون کون لوگ ہوتے ہیں تو آپ دلیل کہاں سے لائیں گے۔ لفظ اولاد کا اطلاق تو بیٹے، بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی، پڑپوتے پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک پوری نسل پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح والدین کا لفظ ماں باپ، دادا دی، نانا نانی، پردادا پردادی، پرنانا پرنانی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی پر بولا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کے نصوص صریحہ سے ثابت شدہ مسلمہ امر اور اجماعی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں:

(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ (جس کی جمع أولاد ہوتی ہے) مذکر و مونث سب کے لیئے عام ہے اس کا اطلاق صلبی أولاد یعنی بیٹا بیٹی پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے پوتی، نواسے نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کے کیوں نہ ہوں سب پر ہوتا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
جس کا آپ نے انکار کر رکھا ہے۔ اس لئے آپ کو کوئی بات سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے۔ اور نہ ہی آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہرایک چیز کو جھٹلائے چلے جا رہے ہیں۔
آپ نے تو جھٹلانا ہی اپنی روزی بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول کے اس فرمان کو کہ ترکہ کا مال میت کے اہل فرائض وارثوں کے مابین اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر بانٹو۔ کو بھی جھٹلا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

(وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ) (سورة الواقعة: 82)
یعنی تم نے جھٹلانا ہی اپنی روزی بنا رکھی ہے۔
یہ تو آخرت کا معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ بروز قیامت ضرور بالضرور پوچھے گا تب پتہ چلے گا:
[أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (105) قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ (106)] [سورة المومنون]
کیا تمہارے اوپر اللہ کی کتاب کی آیتیں پڑھ کر سنائی نہیں جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلادیا کرتے تھے۔ تو کہیں گے کہ ہمارے اوپر ہماری بد بختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
ہم نے کہا کہ دادا والد ہے اور پوتا اولاد اور اس کی دلیل قرآن وحدیث سے دی ۔ پھر آپ نے کہا کہ دادا مجازی باپ ہے اور پوتا مجازی بیٹا ہے ہم نے قرآن وحدیث اس کا بھی ر د کیا اور ثابت کیا کہ دادا حقیقی والد اور باپ ہے اور پوتا حقیقی بیٹا اور اولاد ہے۔ اور ہم نے اللہ و رسول کر فرمان(قرآن و حدیث) سے ثابت کردیا۔
ابن داود نے کہا:
یہ آپ کا صریح جھوٹ ہے!
الجواب:
جناب من جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں اور آپ مجھے نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ اللہ ورسول کو ہی جھوٹا بتا رہے ہیں جنہوں نے قرآن و حدیث کے اندر بڑی ہی وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ بات بتائی ہے۔ تو آپ کا یہ جملہ خود آپ پر ہی فٹ ہو رہا ہے۔
اور جب آپ نے بفرمان الٰہی جھوٹ بولنا ہی اپنی روزی بنا رکھا ہے تو آپ جھوٹ بولنے اور جھٹلانے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: (وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ) (سورة الواقعة: 82)
یعنی تم نے جھٹلانا ہی اپنی روزی بنا رکھی ہے۔
ابن داود نے کہا:

اب ذرا یہاں سے آپ کے جھوٹ کا شمار بھی کرتے ہیں:
اول تو یہ بات شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے ان أمور میں کوئی بحث نہیں کی ہے، انہوں نے آپ کو ایک نصحیت کی ہے، اور آپ کی ہی پیش کردہ ایک حدیث سے آپ کے موقف کا بطلان واضح کیا ہے! خیر اسے جھوٹ میں شمار نہیں کرتے، کہ''آپ'' سے آپ تاویلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''آپ'' سے مرادفریق مخالف ہے!

جھوٹ نمبر 01:
نہ قرآن سے اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوتے کے حقیقی أولاد ہونے پر کوئی ثبوت نہیں دیا! بس نرے دعوے کیئے ہیں، اور وہ اب بھی کیئے جا رہے ہیں!
ابن داود نے کہا:
اب ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ آپ قرآن کی وہ آیت پیش کریں، جس میں پوتے کو دادا کی ''حقیقی اولاد'' اور دادا کو پوتے کا ''حقیقی والد'' کہا گیا ہو!
ابن داود نے کہا:
اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث پیش کریں، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے کو دادا کی ''حقیق أولاد'' اور دادا کو پوتے کا ''حقیقی والد'' کہا ہو!
اور آپ یقیناً یہ نہیں کر سکتے! کیوں کہ قرآن وحدیث میں ایسا ہے ہی نہیں! بلکہ قرآن سے اس کے برخلاف پردلیل قائم ہے، جو پہلے بیان ہوئی! ہم اسے پھر پیش کرتے ہیں:
الجواب:

در حقیقت جو شخص اللہ و رسول کو ہی جھوٹا ثابت کرنے پر تلا ہو اور قرآن وحدیث کی انتہائی صاف اور واضح باتیں پیش کر نے کے باوجود اس کو ماننے سے انکارہی ہو اور اس فرمان الٰہی کا مصداق ہو (وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ) (سورة الواقعة: 82)۔ یعنی تم نے جھٹلانا ہی اپنی روزی بنا رکھا ہے۔
اور وہ پھر ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ قرآن کی آیت اور حدیث پیش کی جائے تو بطور اتمام حجت اس شخص کے مطالبے پر درج ذیل آیات و احادیث پیش کی جارہی ہیں تاکہ حجت تمام ہوجائے اور بروز قیامت عذر باقی نہ رہ جائے۔
آپ تو دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے انسان ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ (پوتے کے حقیقی أولاد ہونے پر کوئی ثبوت نہیں) اسی طرح آپ یہ کہہ رہے ہیں (پوتے کو دادا کی ''حقیقى أولاد'' اور دادا کو پوتے کا ''حقیقی والد'' کہا ہو!) نیز آپ نے یہ کہا: (قرآن وحدیث میں ایسا ہے ہی نہیں!
تو دنیا کا اس سے بڑا کوئی جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ آپ مجھے نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ اللہ و رسول کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں یہ تو آپ ہیں کہ اللہ و رسول پر افتراء پردازی کر رہے ہیں اور اللہ و رسول کو جھوٹا بتا رہے ہیں کہ اللہ و رسول نے پوتےکو دادا کی حقیقی اولاد نہیں کہا ہے۔ اور قرآن و حدیث میں ایسا نہیں ہے۔

تو آئیے ہم آپ کے ان تمام جھوٹوں کا پردہ فاش کرتے ہیں۔ جو آپ نے اللہ ورسول پر بولا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یوں مذکور ہے۔
(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ (جس کی جمع أولاد ہوتی ہے) مذکر و مونث سب کے لیئے عام ہے اس کا اطلاق صلبی أولاد یعنی بیٹا بیٹی پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے پوتی، نواسے نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کے کیوں نہ ہوں سب پر ہوتا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
اس آیت میں اللہ تعالی ٰنے اولاد کا ہی لفظ استعمال کیا ہے ابن اور بنت یعنی بیٹا بیٹی کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ پس اس آیت اور حکم الٰہی و فرمان الٰہی کے حکم میں بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی اور ان کی اولاد و ذریت درجہ بدرجہ نیچے تک سب داخل ہیں اور سب کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کردی ہے جس کے بعد کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت و حاجت نہیں ہے۔
جناب عالی!
جب آپ کو اولاد و والدین کا مفہوم و مصداق ہی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں والد و اولاد کہا جاتا ہے تو آپ سوائے جھٹلانے اور اپنی جہالت و حماقت کا مظاہرہ کرنے کے اور کرہی کیا سکتے ہیں۔ لفظ اولاد کا اطلاق تو بیٹے، بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی، پڑپوتے پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک پوری نسل پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح والدین کا لفظ ماں باپ، دادا دی، نانا نانی، پردادا پردادی، پرنانا پرنانی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی پر بولا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کے نصوص صریحہ سے ثابت شدہ مسلمہ امر اور اجماعی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں:
(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ (جس کی جمع أولاد ہوتی ہے) مذکر و مونث سب کے لیئے عام ہے اس کا اطلاق صلبی أولاد یعنی بیٹا بیٹی پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے پوتی، نواسے نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کے کیوں نہ ہوں سب پر ہوتا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
(وَلِأَبَوَيْهِ
لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ).
اس آیت میں اللہ تعالی ٰنے بیٹے بیٹی، پوتے پوتی اور ان کی اولاد و ذریت درجہ بدرجہ نیچے تک کسی ایک کے بھی ہونے کی صورت میں ماں باپ کا چھٹا حصہ رکھا ہے۔
(فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ).
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
اس آیت میں آباء سے مراد باپ، دادا، پردادا درجہ بدرجہ اوپر تک سبھی آتے ہیں۔ اور ابناء میں بیٹے ، پوتے، پڑ پوتے اور ان کی اولاد و ذریت میں جو بیٹے پوتے ہیں درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہی۔ ان میں سے کوئی بھی قریبی نہیں ہے بلکہ سبھی حقیقی والد اور اولاد ہیں۔ اور سب کا حصہ فریضہ الٰہی ہے۔
یہ بات میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ مفسرین و محدثین نے کہا ہےجیسا کہ پیش خدمت ہے:

وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا بَنِي آدَمَ)، وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا.
ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (یابنی ادم، اے اولادآدم) اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد سب پر محمول ہوتا ہے۔
فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ،
إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ، لَمَّا كَانَ اسْمًا لِاتِّصَالِ النَّسَبِ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ جِهَةِ أَحَدِ أَبَوَيْهِ، شَمِلَ الِاسْمُ الْجَمِيعَ وَكَانَ عُمُومًا فِيهِمْ جَمِيعًا سَوَاءٌ كَانُوا لِأَبٍ وَأُمٍّ أَوْ لِأَبٍ أم لأم. ويدل عَلَيْهِ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ) قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ.
اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔

جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔

آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری:
(وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)،
یعنی اور تمہارے حقیقی صلبی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کی بیوی كا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔
[أحكام القرآن، لمؤلفه: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)]
چونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اور ان کے بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی حقیقی صلبی اولاد ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی مجازی نہیں ہوتے ہیں۔
نیز باپ، دادا، پردادا، اور ان کے باپ، دادا، پردادا درجہ بدرجہ اوپر تک سبھی حقیقی والد ہوتے ہیں ان میں کوئی بھی مجازی نہیں ہوتا ہے۔
کیونکہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اولاد و والدین حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں ہوتےہیں۔
یہی سبب ہے کہ بیٹے ، پوتے ، نواسے اور ان کے بیٹے ، پوتے ، نواسے درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی کی بیویاں حقیقی صلبی اولاد کی بیویاں ہونے کے سبب باپ، دادا، پردادا، اور ان کے باپ، دادا، پردادا درجہ بدرجہ اوپر تک سبھی پر حقیقی والد ہونے کی بنا پر حرام ہیں۔
اسی طرح باپ، دادا، پردادا، اور ان کے باپ، دادا، پردادا درجہ بدرجہ اوپر تک سبھی کی منکوحہ بیویاں حقیقی والد کی بیویاں ہونے کی بنا پرسبھی مائیں ہیں جو بیٹے ، پوتے ، ان کے بیٹے ، پوتے ، درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی حقیقی صلبی اولاد ہونے کے سبب ان سب پر حرام ہیں۔
اگر آپ ایسا نہیں مانتے تو گویا آپ کے نزدیک یقینی طور پر پوتے کا اپنے دادا کی بیویوں(دادی)، نانا کی بیویوں(نانی)، پردادا و پرنانا کی بیویوں (پردادی، پرنانی) اور درجہ بدرجہ اوپر کے باپ دادوں کی بیویوں سے نکاح جائز ہے ۔
نیز آپ کے نزدیک آپ کے اپنے پوتے ، نواسے اور ان کے بیٹے ، پوتے ، نواسے درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی کی بیویوں سے نکاح جائز ہے ۔
(فافہم و تدبر)۔
جو کچھ میں نے کہا ہے یہ میرے اپنی کشیدہ اور خانہ ساز نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ سمجھتے اور کہتے ہیں بلکہ یہ ساری باتیں مفسرین و محدثین کہہ گئے ہیں میں صرف ان باتوں کا ناقل ہوں۔ چنانچہ پیش خدمت ہے:
*أَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ حَلَائِلُ أَبْنَائِهِ وَأَبْنَاءِ أَوْلَادِهِ وَإِنْ سَفَلُوا مِنَ الرِّضَاعِ وَالنَّسَبِ بِنَفْسِ الْعَقْدِ.
یعنی آدمی پر حرام ہے کہ وہ اپنے بیٹوں پوتوں اور ان کے بیٹوں پوتوں پر درجہ بدرجہ نیچے تک کسی کی بھی بیویاں ہوں ان سے شادی کرے۔ اور یہی نہیں بلکہ نسبی بیٹوں کے ساتھ ساتھ رضاعی بیٹوں کی بھی بیویاں حرام ہیں۔
*حَلِيلَةُ الْأَبِ وَالْجَدِّ وَإِنْ عَلَا فَيَحْرُمُ عَلَى الْوَلَدِ وَوَلَدِ الْوَلَدِ بِنَفْسِ الْعَقْدِ سَوَاءٌ كَانَ الْأَبُ مِنَ الرِّضَاعِ أَوْ مِنَ النَّسَبِ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} وَقَدْ سَبَقَ ذِكْرُهُ
.
اسی طرح باپ، دادا پردادا اور ان کے اوپر کے دادا پردادا سبھی کی بیویاں ان کے بیٹوں، پوتوں، پڑپوتوں درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی پر حرام ہیں۔ خواہ باپ دادا نسبی ہوں یا رضاعی۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: جن سے تمہارے باپ دادوں نے نکاح کیا ہوان سے نکاح نہ کرو۔
[معالم التنزيل في تفسير القرآن = تفسير البغوي، لمؤلفه : محيي السنة ، أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي (المتوفى : 510هـ)]
*-------------------------

قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ)
الْمَسْأَلَةُ الْخَامِسَةُ: اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ تَقْتَضِي تَحْرِيمَ حَلِيلَةِ وَلَدِ الْوَلَدِ عَلَى الْجَدِّ،
وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ وَلَدَ الْوَلَدِ يُطْلَقُ عَلَيْهِ أَنَّهُ مِنْ صُلْبِ الْجَدِّ، وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ وَلَدَ الْوَلَدِ مَنْسُوبٌ إِلَى الْجَدِّ بِالْوِلَادَةِ.
[تفسير القرآن للرازي]

اللہ کا فرمان ہے: تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں۔ تم پر حرام ہیں۔
اس سلسلہ میں پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت کے تقاضے کے مطابق پوتے ۔ پڑپوتے اور ان کے بیٹے پوتے اور پڑپوتے درجہ بدرجہ نیچے تک کی بیویاں ، دادا، پردادا اور ان کے اوپر کے دادا پردادا پر حرام ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولاد کی اولادیں درجہ بدرجہ نیچے تک سب پر صلبی و حقیقی اولاد ہونے کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اولاد کی اولاد اپنے آباء و اجداد سے بسبب ولادت منسوب ہیں اور اسی بنیاد پر بیٹا پوتا، پڑپوتا درجہ بدرجہ اوپر تک سبھی حقیقی و صلبی اولاد ہیں۔
پس یہ معلوم ہوا کہ اولاد میں وہ تمام لوگ داخل ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، یتیم ہوں یا غیر یتیم جن کا تعلق ولادت یعنی توالد و تناسل سے ہو ۔ مثلا بیٹا بیٹی اور ان کے بیٹے بیٹیاں (پوتے پوتیاں پڑپوتے پڑپوتیاں) درجہ بدرجہ نیچے تک۔گویا انسان کی پوری نسل اس کی اولاد و ذریت اورحقیقی و صلبی اولاد ہیں۔

ان سارے حقائق اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کوئی عقل و خرد کا اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھ کا بھی اندھا شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ میرے اپنے کشید کردہ اور خانہ ساز معانی و مفاہیم ہیں۔
(وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ). (سورة النساء: 22)
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ
أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ). (سورة النساء: 23)
(وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ) (سورة النساء: 23)
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي
بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (6)
إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (سورة الزمر: 7)
(هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي
بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى) (سورة النجم: 32)
آپ کتنی ماؤں کے پیٹوں سے نکل کر اس دنیا میں آئے ہوئے ہیں؟ تو کیا آپ اپنی دادی یا نانی یا اپنی پوتی یا پوتے کی بیوی سے شادی کریں گے؟۔ کیونکہ بقول آپ کے دادا دادی نانا نانی حقیقی والدین اور پوتےپوتی حقیقی اولادیں نہیں ہیں۔
اگرسمجھ میں آگیا تو فبہا ورنہ آپ اپنے دل دماغ، ذہن اور فکر کا علاج کیجئے نہ کہ میں جیسا کہ آپ نے مجھے مشورہ دیا ہے اور احمق، جاہل، بے وقوف وغیرہ نہ جانے کیا کیا بنا رکھا ہے۔ اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ کے عقیدہ و ایمان کی اصلاح فرمائے۔ (آمین)۔
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (105) قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ (106) [سورة المومنون]
کیا تمہارے اوپر اللہ کی کتاب کی آیتیں پڑھ کر سنائی نہیں جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلادیا کرتے تھے۔ تو کہیں گے کہ ہمارے اوپر ہماری بد بختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔
(وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ) (سورة الواقعة: 82)
تم نے جھٹلانا ہی اپنی روزی بنا رکھی ہے۔
والدین اور اولادیں حقیقی ہوتے ہیں، مجازی نہیں ہوتے ہیں۔
جب آپ کو اولاد و والدین کا مفہوم و مصداق ہی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون کون لوگ ہوتے ہیں تو آپ دلیل کہاں سے لائیں گے۔ لفظ اولاد کا اطلاق تو بیٹے، بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی، پڑپوتے پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک پوری نسل پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح والدین کا لفظ ماں باپ، دادا دی، نانا نانی، پردادا پردادی، پرنانا پرنانی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی پر بولا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کے نصوص صریحہ سے ثابت شدہ مسلمہ امر اور اجماعی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں:

(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ (جس کی جمع أولاد ہوتی ہے) مذکر و مونث سب کے لیئے عام ہے اس کا اطلاق صلبی أولاد یعنی بیٹا بیٹی پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے پوتی، نواسے نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کے کیوں نہ ہوں سب پر ہوتا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
ابن داود نے کہا:

دیکھیں یہاں آپ نے فرمایا تھا:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
(ان لم یکن لہ ولد) میں لفظ ولد ہی تھا کہ جب میت کی اولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو تو بھائی بہنوں کا حصہ بنتا ہے
ابن داود نے کہا:
اس میں قرآن کی آیت میں بیان کردہ شرط کہ میت کی بہن بھائیوں کے وراثت میں حصہ کے لئے ''ان لم يكن له ولد'' کی شرط کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن آگے آپ نے اپنے فہم کا تڑکہ لگایا ہے، وہ نہیں ماتے کہ ''جب میت کی أولاد میں سے بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کوئی بھی نہ ہو''
کیونکہ یہاں
''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!

الجواب:
در اصل یہ آپ کی جہالت ہی ہے جو آپ سے یہ کہوا رہی ہے کہ (
یہاں ''ولد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!) آپ بارر بار اپنی جہالت و حماقت کا ثبوت کیوں دے رہے ہیں۔
اگر کسی شخص کے اگر ایک پوتا یا پڑ پوتا ہو اور ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو چونکہ میت کا ولد موجود ہے اس لیئے بھائی بہنوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
اس صورت میں جس میں میت کی ایک بیٹی ، اور ایک یتیم پوتی تھی جن کا مشترکہ حصہ (ثلثین) تو اس میں بہن کو بطور کلالہ حصہ نہیں ملا تھا بلکہ بطور باقی بچا ہوا سب سے قریبی رشتہ دار کے طور پر حصہ ملا تھا جو بیٹی ، یتیم پوتی کا (ثلثین) دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اور اللہ کے رسول کے اس فرمان کے بموجب کہ ترکہ کا مال اول میت کے اہل فرائض وارثوں کے مابین اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر بانٹو۔ تو جس طرح بیٹی اہل فرائض میں سے ہے اسی طرح یتیم پوتی بھی اہل فرائض میں سے ہے اور بہن بھی اہل فرائض میں سے ہی ہے۔ لیکن چونکہ میت کی اولادیں موجود تھیں اس لئے اس کا ترکہ ابھی کلالہ نہیں بنا تھا البتہ قریبی رشتہ دار ہونے کے سبب باقی بچا ہواحصہ ملا۔
یہاں بہن کو حصہ نہیں ملا تھا بلکہ مابقی ملا تھا جو دو بیٹیوں کے حصہ دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اس صورت میں بہن کو بطور کلالہ نہیں بلکہ بطور مابقی پانے والے قریبی رشتہ دار کے حصہ ملا ہے جو بیٹی ، یتیم پوتی کا (ثلثین) دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اور کلالہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کے اولاد میں کوئی نہ ہو اور اس کے وارث بھائی بہن ہوں۔ اور اللہ کے رسول کے اس فرمان کے بموجب کہ ترکہ کا مال اول میت کے اہل فرائض وارثوں کے مابین اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر بانٹو۔ تو جس طرح بیٹی اہل فرائض میں سے ہے اسی طرح یتیم پوتی بھی اہل فرائض میں سے ہے اور بہن بھی اہل فرائض میں سے ہی ہے۔

ابن داود نے کہا:

اس کی دلیل وہی حدیث ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ:
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔ اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے
ابن داود نے کہا:
یاد دہانی کے لئے وہ حدیث بھی پھر سے نقل کر دیتے ہیں:
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ: (لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ)، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ (‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
ابن داود نے کہا:

ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کو قبول کرتے ہیں، کہ پوتی کی موجودگی میں بھی بہن کا حصہ ہے،
الجواب:
آپ نبی کے آدھے فیصلہ کو مانتے ہیں اور آدھے کا انکار کرتے ہیں۔ جب پوتی کی موجودگی میں بہن کا حصہ ہے تو بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کا بھی حصہ ہے بنا بریں چچا تائے کے ساتھ یتیم پوتے کا بھی حصہ ہے۔ بہن کو جو حصہ ملا وہ فریضہ نہ تھا بلکہ باقی بچا ہوا ملا تھا اور پوتی کو جو حصہ ملا وہ ایک سے زیادہ بیٹیوں کے مشترکہ حصہ میں سے حصہ ملا جو فریضہ تھا۔ تو بعض کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا تو یہودیوں کا طریقہ ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:

(أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ) [سورة البقرة: 85]
ابن داود نے کہا:
یعنی پوتی کی موجودگی قرآن میں بیان کردہ شرط ''ان لم يكن له ولد'' کو مفقود نہیں کرتی، یعنی پوتی کی موجودگی سے میت کے ''ولد'' کی موجودگی قرار نہیں پاتی، یعنی پوتی دادا کی ''ولد'' نہیں! بنابریں پوتا بھی میت کی کا ''ولد'' نہیں!

ہمیں تو یہ تسلیم ہے، مگر آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ قبول نہیں! کیونکہ آپ کے نزدیک تو پوتا پوتی، اور ان کی ذریت بھی ''ولد'' میں داخل ہے!
بات در اصل یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے خلاف نہیں، آپ نے
''ولد'' کو یہ جو عالمی مفہوم پہنایاہے، یہ باطل ہے!
الجواب:
یہ میرے نزدیک اس لئے ہے کیونکہ اللہ و رسول کے نزدیک پوتا پوتی ہی نہیں بلکہ پوری نسل اور ذریت ولد اور اولاد میں داخل ہے جو نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے۔اور یہ اولاد کا یہ عالمی مفہوم اللہ و رسول نے دیا ہے۔ جو نصوص کتاب و سنت سے ثابت شدہ ہے اور آپ جیسا جاہل و احمق اور فریب باز شخص اس معنی و مفہوم کو باطل قرار دے رہا ہے تو آپ (نعوذ باللہ) قرآن وحدیث کو ہی باطل قرار دے رہے ہیں۔
ابن داود نے کہا:
الحمد للہ! قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں ''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں! آپ کی کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اپنی ہی مستدل حدیث کی سمجھ نہیں!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کی موجودگی میں ، بہن کو حصہ دیا!
اور آپ فرماتے ہیں کہ میت کا بیٹا ، بیٹی، پوتا، پوتی کوئی بھی نہ ہو، تو بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے!
الجواب:
اگر آپ کے بقول (قرآن کی آیت میں یہاں ''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں)
تو کیا اگر پوتی کی جگہ پوتا ہوتا تو بھی بہن کو حصہ ملتا؟ تو کیا پوتی کی موجودگی جو حصہ بہن کو ملا تھا وہ وہی حصہ تھا جو بطور کلالہ اللہ نے بہن کے لیئے مقرر فرمایا ہے۔ یہ آپ کی کج فہمی ہے کہ آپ نہ تو اولاد کا ہی مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ ہی کلالہ کی ہی حقیقت معلوم ہے۔ آپ جانتے سمجھتے کچھ نہیں بس بکواس کرنا ہی جانتے ہیں۔
حدیث کے اندر پیش کردہ صورت میں جس میں میت کی ایک بیٹی ، اور ایک یتیم پوتی تھی جن کا مشترکہ حصہ (ثلثین) تھا تو اس میں بہن کو بطور کلالہ حصہ نہیں ملا تھا بلکہ باقی بچا ہوا حصہ سب سے قریبی رشتہ دار کے طور پر ملا تھا جو بیٹی ، یتیم پوتی کا (ثلثین) دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اور اللہ کے رسول کے اس فرمان کے بموجب کہ ترکہ کا مال اول میت کے اہل فرائض وارثوں کے مابین اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر بانٹو۔ تو جس طرح بیٹی اہل فرائض میں سے ہے اسی طرح یتیم پوتی بھی اہل فرائض میں سے ہے اور بہن بھی اہل فرائض میں سے ہی ہے۔ لیکن چونکہ میت کی اولادیں موجود تھیں اس لئے اس کا ترکہ ابھی کلالہ نہیں بنا تھا البتہ قریبی رشتہ دار ہونے کے سبب باقی بچا ہواحصہ ملا۔
یہاں بہن کو حصہ نہیں ملا تھا بلکہ مابقی ملا تھا جو دو بیٹیوں کے حصہ دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اس صورت میں بہن کو بطور کلالہ نہیں بلکہ بطور مابقی پانے والے قریبی رشتہ دار کے حصہ ملا ہے جو بیٹی ، یتیم پوتی کا (ثلثین) دیئے جانے کے بعد بچ رہا تھا۔ اور کلالہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کے اولاد میں کوئی نہ ہو اور اس کے وارث بھائی بہن ہوں۔ اور اللہ کے رسول کے اس فرمان کے بموجب کہ ترکہ کا مال اول میت کے اہل فرائض وارثوں کے مابین اللہ کی کتاب قرآن مجید کی بنیاد پر بانٹو۔ تو جس طرح بیٹی اہل فرائض میں سے ہے اسی طرح یتیم پوتی بھی اہل فرائض میں سے ہے اور بیٹی ہے نیز بہن بھی اہل فرائض میں سے ہی ہے۔

ابن داود نے کہا:
قرآن کی آیت میں ''ان لم يكن له ولد'' میں ''ولد'' میں آپ کے مطابق پوتا پوتی شامل ہیں، تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی یہ آیت سمجھ نہیں آئی تھی؟
الجواب:
در اصل آپ کو قرآن کی کوئی بھی آیت اور کوئی بھی حدیث سمجھ نہیں آتی ہےاسی لیئے آپ کو یہ سوال کھڑا کرنے کی جرات ہو رہی ہے کہ (کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی یہ آیت سمجھ نہیں آئی تھی؟) اگر اللہ کے رسول قرآن کونہیں سمجھیں گے تو کا آپ جیسے جاہل اور احمق سمجھیں گے اور انہیں سمجھائِں گے؟ اللہ کے رسول اگر ولد اور اولاد کا مفہوم نہ سمجھے ہوتے تو وہ بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو بحیثیت اولاد و بیٹی اس حصہ میں سے حصہ ہرگز نہ دیتے جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا مشترکہ حصہ ہے۔ آپ کو یہ آیت سمجھ میں آئی تبھی تو بہن کو اس کا فریضہ نہ دیکر باقی بچا ہوا مال دیا۔ کیونکہ میت کی اولاد موجود تھی۔ لیکن آپ کی یہ بد بختی ہے کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
ابن داود نے کہا:

مجھے تو آپ سے یہ سوال کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ آپ نے معاذ اللہ! بیس سال کی تحقیق میں درست مطلب سمجھ لیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو رد کر دیں! جناب من! قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں! قرآن وحدیث پرجھوٹ بولنے کا انجام جہنم کی آگ ہے!
الجواب:
جناب من!
اللہ و رسول پر جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں۔ اور اللہ کے رسول کے فیصلہ کو آپ رد کر رہے ہیں اور نہ ماننے کے لیئے ادھر ادھر کی باتیں کیئے جا رہے ہیں اور ذرا بھی اللہ کا اور یوم آخرت کا آپ کو خوف اور ڈر نہیں ہے۔ لہذا آپ اللہ و رسول پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں اور جو چیز قرآن و حدیث میں نہیں ہے اس کو قرآن و حدیث نہ بتائیں۔ یہی آپ کے حق میں بہتر ہے ۔ اللہ و رسول پر جھوٹ بولنے کا انجام یقینا جہنم ہے اور اس کے مستحق وہی لوگ ہونگے جنہوں نے اللہ و رسول پر یہ جھوٹ گھڑا ہے کہ اللہ و رسول نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب مرنے والے کا کوئی بیٹا یا مذکر اولاد نہیں رہے گا تبھی کوئی پوتا یا پوتی اپنے دادا کے وارث اور اس کے ترکہ کے حصہ دار بنیں گےجس کائی ثبوت اور دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں ہی ہے۔ اگر ہے تو کوئے دکھائے ورنہ جھوٹ بولنے سے باز رہے!
اللہ کے نبی نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس حصہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا حصہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی (ثلثین) تو بیٹی اور پوتی کا مشترکہ حصہ (ثلثین) ہوا یہ بات اہم نہیں کہ دونوں کو برابر ملے۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ یتیم پوتی اور بیٹی کا جو مجموعی حصہ ہے وہ (ثلثین) ہے جو ایک سے زیادہ مونث اولاد کا اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما رکھا ہے۔ تو یتیم پوتی اور بیٹی کو بطور اولاد ملا اور بہن کو جو ملا تو وہ بطور قرابت دار کے ملا اور وہ بھی مابقی ملا۔ تو اس میں میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے قرآن و حدیث کھلا ہوا ہے کوئی بھی اس کو کھول کر دیکھ سکتا ہے اور تصدیق کر سکتا ہے۔
یہ میری نہیں بلکہ آپ کی کج فہمی ہے اور جھوٹ تو آپ اللہ و رسول پر باندھ رہے ہیں۔ اور لکھ رہے ہیں کہ (
قرآن اور حدیث سے ہی یہ ثابت ہوا کہ قرآن کی آیت میں یہاں ''ولد'' اور ''اولاد'' میں پوتا پوتی شامل نہیں!
اگر پوتا پوتی شامل نہ ہوتے تو اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو ایک سے زیادہ بیٹی کے حصہ میں سے حصہ نہ دیتے۔ اگر پوتا پوتی اولاد یا ولد میں سے نہیں ہیں تو پھر بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس حصہ میں سے دینے کا کیا معنی جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا بنتا ہے۔ اور پھر (تکملۃ للثلثین) کا کیا معنی ہوا؟۔
یہ تو آپ ہیں کہ قرآن وحدیث کی غلط تعبیر وتشریح اور تاویل کر رہے ہیں اور ایسی بات اللہ و رسول سے منسوب کر رہے ہیں جو اللہ و رسول نے قطعی طور پر نہیں کہی ہے۔ اور جس کی قطعی کوئی دلیل اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت و احادیث میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر فرمایا ہے :

(غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ) (سورة النساء: 12)
(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33)

کہ اولاد و وارث ہم نے پیدا کیئے و بنائے ہیں اور ان کے حق و حصے ہم نے ہی متعین کیئے ہیں اور ہم ہی اس کے نگراں بھی ہیں۔لہذا تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم انہیں ان کے حصے دیدو۔ اور جان رکھو کہ اگر ہمارے پیدا کئے و بنائے ہوئے کسی بھی وارث کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہوا تو پھر تمہاری خیر نہیں۔ (دیکھیئے: سورہ نساء آیت نمبر: ۱۲، ۳۳)
اور یہ بھی فرمایا ہے :

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9)
کہ اپنی اولاد و ذریت کو سامنے رکھ کر دوسروں کی اولاد و ذریت کے بارے میں فیصلہ کرو اور حکم لگاؤ و فتویٰ دو۔ اگر ان کی جگہ تمہاری اپنی اولاد و ذریت ہوتی تو تمہارا فیصلہ کیا ہوت؟ پس جو کچھ بھی کہو حق و انصاف کے مطابق صحیح و درست بات کہو۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)
اور جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کر کے ہڑپ کر جاتے ہیں وہ بھی کان کھول کر سن لیں کہ ان کی بھی خیر نہیں ہے کیونکہ جو کچھ وہ کھا اور اپنی اولاد و ذریت کو کھلا رہے ہونگے وہ جہنم کی آگ ہی کھا رہے ہونگے اور عن قریب وہ جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ (دیکھیئے: سورہ نساء آیت نمبر: ۹، ۱۰)
ابن داود نے کہا:
قرآن کی آیت میں ''ان لم يكن له ولد'' میں ''ولد'' میں آپ کے مطابق پوتا پوتی شامل ہیں، تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی یہ آیت سمجھ نہیں آئی تھی؟
الجواب:
اللہ کے نبی کو یقینا سمجھ میں آئی تھی تبھی تو اللہ کے نبی نے یتیم پوتی کو بیٹی کے ساتھ ایک سے زیادہ بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دیا۔ ورنہ دیتے ہی نہیں۔ محروم کردیتے۔ اور یہ بات صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود کو بھی سمجھ میں آئی تھی تبھی تو انہوں نے کہا کہ اگر میں یتیم پوتی کو محروم کروں تو میں بھی گمراہوں میں سے ہوجاؤں اور ہدایت یافتہ نہ رہوں۔ کیونکہ اللہ کے رسول کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ اور جس صحابی نے یتیم پوتی کو حصہ نہیں دیا تھا اپنی غلطی مان کر اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا تھا۔
لیکن آپ ہیں کہ بجائے اپنی غلطی ماننے کے ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں۔
اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جو لوگ یتیم پوتے پوتیوں کو چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے محجوب و محروم الارث کرتے ہیں وہ یقینا گمراہی کا شکار ہیں۔

(لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ) غرضُه بقراءة الآية: لو حَرَّمْتُ بنتَ الابنِ، كنت ضالًّا. [للامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح، المؤلف: شمس الدين البِرْماوي، أبو عبد الله محمد بن عبد الدائم بن موسى النعيمي العسقلاني المصري الشافعي (المتوفى: 831 هـ)]
یعنی صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس آیت کو پڑھنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر میں بھی یتیم پوتی کو محروم کروں تو میں بھی گمراہوں میں سے ہوجاؤں اور ہدایت یافتہ نہ رہوں۔ کیونکہ اللہ کے رسول کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ اور جس صحابی نے(ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) یتیم پوتی کو حصہ نہیں دیا تھا انہوں نے اپنی غلطی مان کر اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا تھا۔
لہذا اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جو لوگ یتیم پوتے پوتیوں کو چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے محجوب و محروم الارث کرتے ہیں وہ یقینا گمراہی کا شکار ہیں۔

ابن داود نے کہا:
جناب من! قرآن وحدیث پر جھوٹ بولنے سے باز رہیں! قرآن وحدیث پرجھوٹ بولنے کا انجام جہنم کی آگ ہے!
الجواب:
قرآن و حدیث کا حوالہ دیکر آپ اللہ و رسول پر یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا محجوب و محروم الارث ہے۔ کیونکہ وہ اپنے دادا کی اولاد نہیں ہے اس لیئے اس کا اس کے دادا کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں۔
تو اللہ کے نبی نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو کس حیثیت سے حصہ دیا کیا ماں دادی، نانی سمجھ کر دیا تھا یا اخیافی بہن سمجھ کر چھٹا حصہ دیا تھا؟
لہذا آپ یہ جھوٹ پھیلانے سے باز رہیں کہ یتیم پوتا اپنی چچا تائے کے رہتے اپنے دادا کی اولاد نہیں رہتا ہے اور نہ ہی اس کا دادا اس کا والد ہوتا ہے۔
یہ اللہ اور اس کے رسول پر کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے۔ جس کا انجام جہنم کی دائمی آگ ہے نیز کسی وارث کو نقصان پہنچانے کا انجام بھی اللہ نے ہمیشہ کے لیئے جہنم کی آگ بتلایا ہے۔ اور آپ اور آپ جیسے لوگ تو دوہرے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ایک تو اللہ و رسول پر افتراء پردازی کرتے ہوئے ایک من گھڑت بات کو اللہ و رسول کی جانب منسوب کر رہے ہیں اور دوسرے اللہ کے مقرر کیئے ہوئے ایک وارث اور میت کی ایک اولاد و ذریت اور یتیم کو اس کے حق و حصہ سے محروم کرنے کا جرم عظیم کر رہے ہیں۔

قوله: (ابن داود نے کہا):

آپ کا اخذ کردہ نتیجہ، آپ کی نفسانی خواہشات کے اثر کا نتیجہ ہے! قرآن وحدیث سے یہ حکم ثابت نہیں! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے، کہ چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!
الجواب:
أقول:
در اصل نفسانی خواہشات کا شکار تو آپ اور آپ جیسے لوگ ہی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ اور آپ جیسے لوگ یہ کہنے کی جرات و گستاخی کر رہے ہیں کہ (چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!) جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آپ سے اور قرآن و حدیث کے ان تمام ٹھیکیدار علمائے اہل حدیث سے جو کہ کتاب و سنت کی پیروی کے دعویدار ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ (
چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!) تو میرا ان سب سے یہی تو سوال ہے جو میں بار بار کر رہا ہوں کہ وہ کون سی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ: (چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!
لیکن اب تک اس کا کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہ کی اور آپ ہیں کہ بجائے قرآن کی وہ آیت پیش کرتے یا کوئی ایسی حدیث پیش کرتے جس سے یہ ثابت ہو کہ (
چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!
محض خواہ مخواہ کی بکواس کیئے جا رہے ہیں۔ اگر دلیل ہے تو پیش کیوں نہیں کرتے؟ اور میرا دعویٰ اور چیلنج ہے کہ قیامت تک کوئی بھی بندہ اس کی دلیل قرآن وحدیث سے پیش نہیں کرسکتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
پھر آپ نے کہا کہ قرآں میں لفظ (الاقربون) آیا ہوا ہے تو ہم نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن میں (والدان) کا لفظ پہلے آیا ہوا ہے۔ (الاقربون) کا لفظ بعد میں آیا ہوا ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
دادا پوتے کا ''والد'' نہیں! اور یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کی جاچکی ہے، لہٰذا ''والدان'' کا لفظ خواہ پہلے آئے یا بعد میں آئے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ پوتے کا تعلق ''والدان'' سے قرار دیا جائے!
الجواب:
أقول:

جناب من!
دادا پوتے کا والد نہیں تو پھر کیا ہے بھائی ہے بھتیجہ ہے یا پھر چچا ہے یا خالو ماموں ہے آخر وہ کیا ہے اور کس حق سے دادا کو اسی پوتے کے مرنے پراس کے باپ کی جگہ حصہ دیا جاتا ہے۔
لگتا ہے کہ آپ کا دماغ بالکل ہی ماؤف ہو چکا ہے آپ کی جگہ تو کوئی پاگل خانہ ہی ہے جہاں آپ کوہونا چاہیئے تاکہ کوئی اچھا سا ڈاکٹر آپ کا دماغ درست کر سکے۔
لگتا ہے یتیم پوتے کی مخالفت میں آپ نے اپنا دماغی توازن بھی کھودیا ہے۔ آپ کا دماغ بالکل ہی ماؤف ہوگیا ہے۔ دادا کا پوتے کا والد و باپ ہونا تو قرآن و حدیث ہی نہیں بلکہ لغت و عرف عام سے ثابت شدہ مسلمہ امر ہے۔ جسے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی مانتا ہے اور عالم تو کیا عام آدمی بھی جانتا ہے اور جو اس کا انکار کرتا ہے وہ آپ جیسا پاگل شخص ہی کر سکتا ہے۔ جو صریحی طور پر قرآن اور حدیث دونوں کا ہی منکر ہے۔کیونکہ پوتے پوتی کا اولاد و ذریت ہونا اور دادا دادی نانا نانی کا والدین ہونا قرآن و سنت کے نصوص صریحہ سے ثابت شدہ ہے۔ جس پر قرآن و حدیث خود دلیل و ثبوت ہیں۔
اولاد (جن میں بیٹے بیٹیاں، یتیم پوتے پوتیاں سبھی آتے ہیں ) اور والدین ( جن میں ماں باپ دادا، دادی، پردادا پردادی وغیرہ سبھی آتے ہیں) کا حق و حصہ اور ان کےجملہ احکام درج ذیل ان ہی دو آیتوں سے ہی ثابت اور مستنبط ہوتے ہیں:۔

[1](لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) [سورة النساء: 7].
[2] (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي
أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) [سورة النساء: 11]
میت کی اولاد سب سے اولین وارث اور ان کا حق و حصہ سب سے اولین فریضہ بلکہ خصوصی فریضہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ہی (نصیبا مفروضا)، (فریضۃ من اللہ) کہا ہے۔ چونکہ پوتا میت کی اولاد و ذریت میں سے ہے لہذا وہ صاحب فرض وارث ہوا۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
پوتے کا تعلق دادا سے ''الاقربون'' کے تحت ہے! ''والدان'' کا لفظ پہلے آیا ہے، تو کیا بیوی کو بھی ''والدان'' کے تحت وارث شمار کیا جائے! جناب من! ''والدان'' کے تحت وراثت میں انہیں کے حق کا استدلال کیا جائے گا، میت جس کے ''والدان'' میں ہوں! اور وہ ہیں ''بیٹا'' اور بیٹی''
الجواب:
أقول:

اگر دادا والدان میں سے نہیں تو پھر دادا کا اپنی پوتی سے اور اپنے پوتے کی بیوی سے نکاح جائز ہوا اسی طرح پوتے کا اپنے دادا کی بیوی (دادی ) سے نکاح جائز ٹھہرا۔ اور آپ کے پاگل پن کا یہ عالم ہے کہ بیوی کو بھی والدان کے تحت شمار کر رہے ہیں۔ آپ تو اللہ کے کلام اور رسول کے فرمان کو ہی جھوٹا اور باطل ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ نے تو جہالت اور حماقت کی ساری حدیں ہی پار کردی ہے یتیم پوتے کے حق و حصہ کی مخالفت میں اس درجہ اندھے ہو گئے ہیں کہ دادا کے والد اور پوتے کے اس کی اولاد و ذریت ہونے سے ہی انکار کر بیٹھے۔ ابھی تک تو حقیقی والد و اولاد ہونے کے انکاری تھے اب اس سے اور آگے بڑھ کر والد و اولاد ہونے کا ہی کلی طور پر انکار کردیا۔ جبکہ ان کا والد و اولاد ہونا قرآن و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت شدہ مسلمہ امر ہے۔
وَلَا خِلَافَ بَيْنَ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ فِي قِيَامِ أَوْلَادِ الْبَنِينَ مَقَامَ وَالِدَيْهِمْ عِنْدَ فَقْدِهِمْ وَعَدَمِ إِرْثِهِمْ مَعَ وُجُودِهِمْ لِأَنَّ النَّسَبَ لِلذُّكُورِ
. [تفسير المنار]
مسلم علماء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بیٹوں کی اولادیں اپنے والد کے قائم مقام ہیں جب وہ موجود نہ ہوں اور جب وہ موجود ہوں تو وارث نہیں ہونگے کیونکہ نسب مذکر سے چلتا ہے۔
جاہلیت کے لوگ بھی پوتوں اور نواسوں کو اپنے بیٹے کہا کرتے تھے جیسا کہ جاہلیت کا یہ شعر ہے:

كَمَا قَالَ الشاعرُ:
بَنُونَا بَنُو أَبْنَائِنَا، وَبَنَاتُنَا ... بَنُوهُنَّ أَبْنَاءُ الرِّجَالِ الْأَبَاعِدِ
ہمارے بیٹے وہ بھی ہیں جو ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ہماری بیٹیوں کے بیٹے ہیں البتہ بیٹیوں کے بیٹے دور والے مردوں کے بیٹے ہیں۔ بیٹیوں کے بیٹے کے تعلق سے جاہلیت کے تصور کو رد کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے نواسے فاطمہ کے بیٹے حسن کے بارے میں فرمایا کہ (ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ) [بخاري: 7109]. میرا یہ بیٹا یعنی میرا نواسا حسن سردار ہے۔ اور خود اپنے بارے میں فرمایا : «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ». [بخاري: 2874]. میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
لفظ اولاد کا اطلاق تو بیٹے، بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی، پڑپوتے پڑپوتی، پڑنواسے پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک پوری نسل پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح والدین کا لفظ ماں باپ، دادا دی، نانا نانی، پردادا پردادی، پرنانا پرنانی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی پر بولا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کے نصوص صریحہ سے ثابت شدہ مسلمہ امر اور اجماعی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں:

(لَفْظُ الْوَلَدِ أَعَمُّ مِنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَيُطْلَقُ عَلَى الْوَلَدِ لِلصُّلْبِ وَعَلَى وَلَدِ الْوَلَدِ وَإِنْ سفل).
یعنی ولد کا لفظ (جس کی جمع أولاد ہوتی ہے) مذکر و مونث سب کے لیئے عام ہے اس کا اطلاق صلبی أولاد یعنی بیٹا بیٹی پر بھی ہوتا ہے اور اولاد کی اولاد یعنی پوتے پوتی، نواسے نواسی درجہ بدرجہ نیچے تک خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کے کیوں نہ ہوں سب پر ہوتا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
قوله: (ابن داود نے کہا):
پوتے کا تعلق دادا سے ''الاقربون'' کے تحت ہے!
الجواب:

یہی تو کھلے طور پر اللہ کی کتاب کی آیت اور فرمان میں تحریف لفظی و معنوی ہے جو کی جارہی ہے اور آپ کے بزرگوں نے کر رکھی ہے۔ اور جو کوئی بھی اللہ کے کلام (
مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) کو چھوڑ کر لفظ (وَالْأَقْرَبُونَ) سے یتیم پوتے کے سلسلہ میں استدلال و استنباط کرتا ہے تو کھلی ہوئی تحریف لفظی اور تحریف معنوی کرتا ہے۔ آپ تو اللہ کے کلام اور رسول کے فرمان کو جھوٹا اور باطل قرار دے رہے ہیں۔ یہ آپ کی جہالت و حماقت کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ (پوتے کا تعلق دادا سے ''الاقربون'' کے تحت ہے!) ۔
آپ نے دادا کو والد و باپ کے بجائے قریبی اور پوتے کو بیٹے اور اولاد و ذریت کے بجائے قریبی بتایا ہے۔ کیونکہ آپ کے بزرگوں نے آپ کو ایسا ہی سبق پڑھایا ہے اور آپ ہیں کہ آپ ان کا اگال چاٹ رہے ہیں۔
تو گویا آپ کے نزدیک دادا کی بیوی (دادی) سے بھی نکاح جائز ہے کیونکہ بقول آپ کے وہ اپنے پوتے کا والد و باپ نہیں بلکہ قریبی ہے۔ جس طرح چچا تائے کی بیوی سے نکاح جائز ہے جو کہ پوتے کا والد نہیں بلکہ قریبی ہے۔ اسی طرح آپ کے نزدیک پوتے کی بیوی سے دادا کا نکاح جائز ہوا کیونکہ بقول آپ کے پوتا دادا کی اولاد و بیٹا نہیں بلکہ اس کا قریبی ہے۔ آپ پہلے اپنے دماغ اور عقل کا علاج کر اآئیے پھر بحث کیجیئے گا۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
''والدان'' کا لفظ پہلے آیا ہے، تو کیا بیوی کو بھی ''والدان'' کے تحت وارث شمار کیا جائے!
الجواب:
اقول:
آپ کی جہالت اور حماقت کی کوئی حد نہیں آپ نے تو حماقت و جہالت کی انتہا کردی ہے والدان اور اولاد کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جو عام اور شامل ہے جس میں وہ لوگ آتے ہیں جن کا تعلق توالد اور تناسل سے ہوتا ہے ۔ بیوی تو الاقربون میں سے ہے اور اس کا حق و حصہ تو اللہ تعالیٰ نے اولاد و والدین کے بعد الگ سے بیان فرمایا ہے۔
اولاد کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:

قَوْلُهُ تَعَالَى: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ........ )، ..........،
اور اسی آیت میں آگے والدین کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:
(وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ......)،
اور اسی آیت کے اخیر میں آگے آبا ء (باپ، داد، پردادا، اور اوپر کے تمام باپ دادے) اور ابناء(بیٹا، پوتا، پڑپوتا اور نیچے کے تمام بیٹے پوتے) دونوں کے بارے میں اکٹھا فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی اقرب یعنی قریبی اور قریب تر عصبہ نہیں بلکہ سب کے سب صاحب فرض وارث ہیں جو درجہ بدرجہ ایک کے بعد اپنے واسطوں کے نہ ہونے پر حقدار و حصہ دار ہونگے چنانچہ آباء (باپ، داد، پردادا، اور اوپر کے تمام باپ دادے) اور ابناء(بیٹا، پوتا، پڑپوتا اور نیچے کے تمام بیٹے پوتے) کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے:
(آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا} [النساء: 11]
یعنی تمہارے آباء (باپ، داد، پردادا، اور اوپر کے تمام باپ دادے) اور ابناء(بیٹا، پوتا، پڑپوتا اور نیچے کے تمام بیٹے پوتے) سب کے سب فریضہ الٰہی کے مستحق صاحب فرض وارث ہیں ان میں سے کوئی کسی کا قریبی اور قریب تر عصبہ نہیں ہے۔ ان کا جو بھی حق و حصہ بنتا ہے وہ اللہ کی جانب سے ان کا مقرر کیا ہوا فریضہ ہوتا ہے اور سب کے سب اہل فرائض میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے وہ اپنے علم خاص اور حکمت خاصہ سے نازل فرمایا ہے۔کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے اور انتہائی علم اور حکمت والا ، سب کچھ جاننے اور سب سمجھنے والا ہے۔
چنانچہ بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو جو کچھ بھی ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضے میں سے ہی ملا تھا اور ان فرامین الٰہی کے تحت ہی ملا تھا جو کہ درج ذیل ہیں:

[1](وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ ... مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) [سورة النساء: 7]
[2](يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ... فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ...) [سورة النساء: 11]
یہ اس وصیت الٰہی کے تحت ہی ملا تھا جو اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حق میں کی ہے جن میں بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، یتیم یا غیر یتیم، پڑپوتا پڑپوتی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہیں۔ لہذا اللہ کی وصیت سب کے لیئے کافی ہے سب کو شامل سب کی جامع ہے۔ لہذا کسی پوتے پوتی کے لیئے دادا کی کسی وصیت کی قطعی کوئی ضرورت و حاجت نہیں ہے اور اگر کوئی دادا اپنے کسی پوتے کے لیئے مالی وصیت کرتا ہے تو راست طور پر اللہ کی اس وصیت کا مقابلہ کرتا ہے اور وہ اللہ کا مجرم اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہے پس دادا کا اپنی کسی بھی اولاد خواہ وہ بیٹا بیٹی ہوں یا پوتا پوتی ہوں وصیت کرنا ناجائز و حرام ہی نہیں بلکہ کفر صریح اور شرک اکبر ہے۔
یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ جو کچھ بھی ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضے (
فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی ملا تھا اور وہ بھی بحیثیت اولاد و بیٹی کے ہی ملا تھا دادا کی کی ہوئی وصیت کے ذریعہ نہیں ملا تھا بلکہ اللہ کی کی ہوئی وصیت کے تحت اور اللہ کے مقرر کردہ فریضے میں سے بحیثیت اولاد و بیٹی کے ہی ملا تھا ۔ کیونکہ بیٹوں کی اولاد بمنزلہ حقیقی اولاد کے ہوتی ہے جیسا کہ صحابی رسول زید بن ثابت نے کہا ہے۔
اور جو کوئی ان حقائق کا انکار کرے وہ صرف منکر حدیث نہیں بلکہ وہ منکر قرآن بھی ہے اور اللہ و رسول کو جھٹلانے والا ہے۔ اس کا ایمان بھی مشکوک ہے۔ ایسے شخص کو اپنے ایمان کی تجدید اور اپنے اس کفر سے توبہ کرنی چاہیئے۔
اولاد میں ابناء و بنات یعنی بیٹے بیٹیاں اور ان کے بیٹے بیٹیاں درجہ بدرجہ نیچے تک پوری نسل آتی ہے۔ جنہیں نسل، فروع، اولاد اور ذریت کہا جاتا ہے اسی طرح والدین اور ابوین میں ماں باپ اور ان کے ماں باپ درجہ بدرجہ اوپر تک آتے ہیں جنہیں اصول ، والدین، ابوین کہا جاتا ہے۔ چونکہ ان کے مابین توالد و تناسل کا رشتہ ہوتا ہے اسی لئے آباء پر بنات اور ابناء کی بیویاں حرام ہوتی ہیں۔ اور ابناء پر امہات اور آباء کی منکوحہ حرام ہوتی ہیں۔
رہی بیویاں اور شوہر تو وہ تو بنیادی طور پر ایک دوسرے کے قریبی ہوتے ہیں اور قرابت نکاح کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قریبی اور وارث ہوتے ہیں اور وہ الاقربون کے تحت ہی وارث ہوتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے علاحدہ طور پر ان کا حکم بیان فرما دیا ہے چنانچہ ان کے تعلق سے فرمایا ہے:

قَالَ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ .... وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ } [النساء: 33]
نیز شوہر کے تعلق سے فرمایا :
(وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)، [النساء: 12]
اور اسی آیت میں آگے بیوی کے تعلق سے فرمایا :
(وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ) [النساء: 12]
اگر آپ کو اتنا سا بھی علم نہیں ہے تو خواہ مخواہ کی بحث کیوں کئے جا رہے ہیں۔
''والدان'' کا لفظ پہلے آیا ہے، پھر (الأقربون) کا لفظ آیا ہوا ہے اور اسی ترتیب سے ان کے تحت آنے والے وارثوں کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ والدان کا سب سے پہلا وارث اولاد کو ہی قرار دیا گیا ہے اور ان کا حق و حصہ سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ پھر والدین کا حکم بیان ہوا ہے پھر اس کے بعد ازواج (شوہر و بیوی) کا حکم بیان ہوا ہے پھر اخیر میں اس کے بعد اخوہ اخوات(بھائی بہنوں) کا حکم بیان ہوا ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
جناب من! ''والدان'' کے تحت وراثت میں انہیں کے حق کا استدلال کیا جائے گا، میت جس کے ''والدان'' میں ہوں! اور وہ ہیں ''بیٹا'' اور بیٹی''
الجواب:
اقول:
جناب من!
اگر دادا آپ کے بقول اپنے پوتے کا والد نہیں تو پھر تو دادا کا اپنے پوتے کی منکوحہ سے نکاح جائز ٹھہرا اور پوتے کا اپنے دادا کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح جائز ٹھہرا؟
والدان اپنی تمام اولاد کے والدان ہیں جن میں بیٹا، بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، پڑپوتا پڑپوتی، پڑنواسا پڑنواسی درجہ بدرجہ نیچے تک سبھی آتے ہیں شرعا بھی اور عرفا بھی۔ تو جو میت بھی والدان میں سے ہوں اور ان کی جو بھی اولاد ہو ان سب کے حق میں اسی آیت سے استدلال کیا جائے گا اور ان تمام کا حق و حصہ اسی آیت سے ثابت ہوگا۔ یہ تو آپ جیسے جاہل اور احمق لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے اور آپ جیسے جاہل اور احمق لوگ یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ یتیم پوتا یا پوتی اپنے دادا کی اولاد و بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں۔ اور شاید آپ نہیں جانتے کہ ان یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اولاد و بیٹے بیٹیاں نہ ماننے سے کیا کیا خرابیاں لازم آتی ہیں اور اس سے اللہ کی کون کون سی حدوں کی پامالی ہوتی ہے۔ آپ جیسے جاہل اور احمق لوگوں کو شاید یہ چیز سمجھ میں نہ آسکے جن کے یہاں کٹھ حجتیوں کے سوا دوسرا کچھ نہیں ہوتا ہے۔
سب سے پہلی خرابی یہ لازم آتی ہے اور اللہ کی سب سے پہلی حد جو توڑی جاسکتی ہے وہ یہ کہ پوتی، نواسی سے اس کے دادا ، نانا کا نکاح جائز و حلال ٹھہریگا۔نیز پوتے، نواسے کی بیویاں دادا ، نانا کے لیئے جائز قرار پائیں گیں ۔ ظاہرسی بات ہے کہ اللہ و رسول کے ایک فرمان کا اگر انکار پایا جائے تو اس سے سارے فرامین کا انکار لازم آتا ہے۔ بنا بریں اگر کوئی شخص کسی ایک آیت یا کسی ایک صحیح حدیث کا انکارکرتا ہے تو وہ پورے قرآن اور احادیث صحیحہ کا منکر قرار پاتا ہے حتی کہ قرآن و حدیث میں فرق کرنے والا بفرمان الٰہی حقیقی کافر ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا) (150) (أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا) (151) (وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا) (152) [سورة النساء]
جب آپ کے بقول میت صرف بیٹے بیٹیوں کا ہی والدان ہے اور پوتے پوتیوں کا نہیں ہے تو آپ کے اس قول کے مطابق آپ کے نزدیک پوتے کا دادی سے نکاح اور دادا کا پوتی سے نکاح جائز ہوا۔کیونکہ دادا دادی اس کے والدان میں سے نہیں ہیں؟
یہ ہے آپ کے بقول آپ کی جہالت اور حماقت کی معراج؟۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
آپ نے کہا بیٹا قریب تر عصبہ ہے اور پوتا عصبہ بعید ہے۔ ہم نے کہا بیٹا بلا واسطہ صاحب فرض وارث ہے اور پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ کا یہ کہنا کہ پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے، باطل ہے! پوتا کسی صورت بھی صاحب فرض نہیں! پوتے کا صاحب فرض ہونا ، نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں!
الجواب:

یہ بھی آپ کی جہالت اور حماقت ہے اور آپ ایسا اس لیئے کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بزرگوں نے ایسا ہی آپ کو پڑھایا اور رٹایا ہے جسے سیکھنے کا آپ ہم کو مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ تو آپ اللہ کے کلام اور رسول کے فرمان کو جھٹلا رہے ہیں اور باطل قرار دے رہے ہیں۔ میت کی اولاد سب سے اولین وارث اور ان کا حق و حصہ سب سے اولین فریضہ بلکہ خصوصی فریضہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ہی کہا ہے (نصیبا مفروضا)، (فریضۃ من اللہ) کہا ہے۔ چونکہ پوتا میت کی اولاد و ذریت میں سے ہے لہذا وہ صاحب فرض وارث ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اولاد مذکر ہو یا مونث کے لیئے ایک خصوصی فریضہ متعین کیا ہے اور اس کا ایک پیمانہ مقرر فرمایا ہے جسے علم حساب میں تناسبی اعداد کہتے ہیں جو یوں ہے:
(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ... ) اور آخر آیت میں فرمایا: (... آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا) (سورة النساء: 11)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مذکر اولاد کے حق و حصہ کو ایک خصوصی لفظ (حَظِّ) سے تعبیر کیا ہے جو (نَصِيبٌ) کا ہم معنی ہے۔ یعنی لفظ (نَصِيبٌ) ایک عام لفظ ہے جب کہ لفظ (حَظِّ) ایک خاص لفظ ہے جس کا استعمال اللہ تعالیٰ نے خصوصی وارث مذکر اولاد اور ان کے قائم مقام وارث کےلیئے استعمال کیا ہے۔ جہاں تک آباء و ابناء کے حصوں کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام سے واضح کردیا ہے کہ باپ، دادا، پردادا وغیرہ اور بیٹے پوتے پرپوتے وغیرہ کے حصے بھی اللہ کے مقرر کیئے ہوئے فریضے ہیں اسی طرح بھائی بہنوں کے حصے بھی اللہ کے مقرر کیئے ہوئے فریضے ہیں۔ جیسا کہ یہی حصہ ان بھائی بہنوں کا ہے جو ان اولادوں کی عدم موجودگی میں ان کی جگہ وارث ہوں جیسا کہ فرمایا:
(وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ) (سورة النساء: 176)
بنا بریں بیٹا ہو یا بیٹی، پوتا ہو یا پوتی باپ ہو یا دادا ماں ہو یا دادای نانی، شوہر ہویا بیوی، بھائِ ہوں یا بہنیں سبھی اہل فرائض ہیں۔ اور نہیں کے درمیان میت کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا حکم اللہ و رسول نے دیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ آپ نے اپنے جن بزرگوں سے علم میراث حاصل کیا ہے وہاں قرآن و حدیث کی یہ باتیں نہیں تھیں اس لیئے آپ کو یہ باتیں یقینا سمجھ میں نہ آئیں گیں تو نتیجتا آپ اسے جھٹلائیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ جس کی دلیل ہم نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری سے دی۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
پوتے کا باپ اگر زندہ ہے، تو دادا کے ترکہ میں باپ صاحب فرض میں ہے، وہ اپنے باپ کے ترکہ سے بحثیت أولاد حقدار اور حصہ دار ہے۔
الجواب:
یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر پوتے کا باپ زندہ رہتا تو کوئی مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ پوتے کا باپ موجود نہیں ہے اور چچا تائے ہیں تو یتیم پوتا وارث ہے یا نہیں؟ جب باپ کے نہ رہنے پر وہ بمنزلہ اولاد کے ہو گیا ہے جیسا کہ زید بن ثابت نے کہا ہے تو اس کا بمنزلہ اولاد ہونے کے حق و حصہ بنتا ہے۔ جس کی دلیل زید بن ثابت کا قول ہے اور اس پر مستنبط صحیح بخاری کا باب۔جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا):
پوتے کا باپ اگر فوت ہو چکا، تو فوت شدہ کی قبر میں ترکہ کا حصہ نہیں ڈالا جائے گا! فوت شدہ شخص کا اپنا مال بھی اس کا اپنا نہیں رہتا، بلکہ اس کا ترکہ اس کے وارثوں میں بٹ جاتا ہے! یعنی دادا کے فوت شدہ بیٹے کا کوئی حصہ نہیں، کہ اسے اس کی نیابت میں فوت شدہ بیٹے کے بیٹے کو دیا جائے!
الجواب:
جس پوتے کا باپ مرا تھا تو کیا وہ پوتے کے ترکہ میں اپنے باپ (پوتے کے دادا ) کا حصہ لے کر قبر میں گیا تھا کہ پوتے کے دادا کو حصہ دیا جاتا ہے؟ کیونکہ دادا تو باپ کے بعد ہی مرا تھا ؟ تبھی تو اس کو باپ کا حصہ دیا گیا۔
بنا بریں جس طرح دادا بمنزلہ والد و باپ کے اپنے دادا کے ترکہ کا حقدار و حصہ دار بنتا ہے ٹھیک اسی طریقہ سے یتیم پوتا بھی اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہوتا ہے۔
یہ تو آپ ہیں جو اللہ و رسول پر جھوٹ بک رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پوتے کو میت کی اولاد و ذریت کے طور پر بواسطہ اس کے باپ کے پیدا کیا ہےاور بمنزلہ اس کے باپ کے اس کے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار صاحب فرض وارث بنایا ہے جس کی دلیل دادا کا یتیم پوتے کے ترکہ میں اس کے چچا تائے کے ہوتے حقدار و حصہ دار ہونا ہے۔

قوله: (ابن داود نے کہا):

آپ کا جھوٹ نمبر 02:
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ آپ نے صحیح بخاری سے اس کی دلیل دی کہ ''پوتا بالواسطہ صاحب فرض وارث ہے۔ اور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔''
الجواب:
یہ تو آپ ہیں جو اللہ و رسول پر جھوٹ بک رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پوتے کو میت کی اولاد و ذریت کے طور پر بواسطہ اس کے باپ کے پیدا کیا ہےاور بمنزلہ اپنے باپ کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار صاحب فرض وارث بنایا ہے جس کی دلیل: اللہ کا کلام، اس کے رسول کا فرمان اور زید بن ثابت کا قول ہے:

(1) (لِلرِّجالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّساءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيباً مَفْرُوضاً) [سورة النساء (4) : آية 7]
(2) (
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثا مَا تَرَكَ وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ واحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها أَوْ دَيْنٍ آباؤُكُمْ وَأَبْناؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيماً حَكِيماً) [سورة النساء (4) : آية 11]
(صحيح بخاري: 85 - كِتَابُ الفَرَائِضِ: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)

وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ.
6735 - حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16]
قوله: (ابن داود نے کہا):
آپ نے صحیح بخاری سے اس پر کوئی دلیل نہیں دی! اور نہ ہی صحیح بخاری میں ایسی کوئی بات ہے!
الجواب:
یہ آپ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیونکہ باقاعدہ امام بخاری نے اس پر مستقل ایک باب باندھا ہے۔

(صحيح بخاري: 85 - كِتَابُ الفَرَائِضِ: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)
یعنی پوتے کے وارث ہونے کا باب جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔
تو کیا میں نے مندرجہ بالا باب اورر آیات جن میں درج ذیل الفاظ ہیں:
(نَصِيباً مَفْرُوضاً)، (آباؤُكُمْ وَأَبْناؤُكُمْ)، (لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً)، (فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ)
)، حدیث رسول: (أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا) اور قول زید بن ثابت : (وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) اپنے گھر پر بنایا ہے؟ اگر آپ آنکھ کے بھی اندھے نہیں ہیں تو آپ کو یہ الفاظ ضرور نظر آجانے چاہیے۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ ابواب ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
کئی بار آپ کو بتلا چکے ہیں، کہ صحیح بخاری میں دادا کی وراثت میں پوتے پوتیوں کی وراثت کے ااثبات کے مشروط ہونے کے باب ہیں! یا تو آپ اپنی کج فہمی کی بنا پر یہ بات سمجھ نہیں پا رہے، یا پھر ۔۔۔۔۔
الجواب:
جناب من!
آپ فریب بازی کیوں کر رہے ہیں؟
ہم نے کب کہا ہے کہ پوتے پوتیوں کی وراثت بلا شرط ہے۔ یقینا مشروط ہے اور وہ شرط ہے صرف ان کے باپ کا نہ ہونا جو یہاں پائی گئی کہ جب بیٹا موجود نہیں تو اس بیٹے کےبیٹے بیٹیاں بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہیں۔ جیسا کہ زید بن ثابت کا قول ہے۔
(وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) یعنی بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں (پوتے پوتیاں) بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں ہیں جب ان کے اوپر کابیٹا جو ان کے اور ان کے دادا کے درمیان ہے نہ ہو۔ یعنی پوتے پوتیوں کے وارث ہونے کی شرط صرف ان کے باپ کا نہ ہونا ہے۔ چچا، تائے یاپھوپھی کا نہ ہونا کوئی شرط نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کے باپ سے ہے چچا تائے سے نہیں ہے۔ چنانچہ واسطہ ان کے باپ ہیں چچا تائے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا وجود ان کے باپ کے ذریعہ بخشا ہے ان کے چچا تائے کے ذریعہ نہیں۔ تو جو جس کا واسطہ ہے وہی اس کا حاجب بھی ہے۔ چچا تائے قطعی طور پر حاجب نہیں بن سکتے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اس یتیم پوتے کے دادا کے لئے حاجب نہیں ہوتے ہیں۔
آپ یہ شرط قرآن کی کس آیت اور کس حدیث کی بنیاد پر لگا رہے ہیں کہ (
پوتا پوتی دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت کے حقدار قرار پاتے ہیں، بصورت دیگر نہیں!
وہ آیت اور حدیث تو پیش کیجیئے؟

یہ تو آپ کی کج فہمی اور بے عقلی ہے جو یہ بات سمجھ نہیں پارہے ہیں۔
امام بخاری نے
یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے دو الگ الگ ابواب باندھے ہی اسی لیئے ہیں کیونکہ ان کا باپ موجود نہیں ہے چنانچہ باپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیٹا نہ ہونے کی جو شرط پائی جانی تھی وہ پوری ہوچکی ہے لہذا اس پر مزید شرط لگانا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے جس کی اللہ کی شریعت اجازت نہیں دیتی ہے بلکہ یہ تو مشرکوں کا طریقہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان فرمایا ہے:
(وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً فَقالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهذا لِشُرَكائِنا فَما كانَ لِشُرَكائِهِمْ فَلا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَما كانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلى شُرَكائِهِمْ ساءَ مَا يَحْكُمُونَ) [سورة الأنعام (6) : آية 136]
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے۔ پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی۔ اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
بعینہ یہاں معاملہ ایسا ہی ہے کہ ایک طرف تو دادا کے لئے اس کے یتیم پوتے کے لئے حصہ مقرر کیا جاتا اور چچا تائے حاجب نہیں بنتے ہیں۔ اور ٹھیک اسی پوتے کے لئے اس کے دادا کے ترکہ میں حصہ نہیں کیونکہ چچا تائے آڑے آرہے ہیں۔ کیا ہی برا فیصلہ ہے جو لوگ کر رہے ہیں؟۔
جب کہ دادا کی اولاد کے طور پر اللہ تعالیٰ نے پوتے کو پیدا کیا اور پوتے کے والد کے طور پر اللہ تعالیٰ نے دادا کو بنایا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یتیم پوتے اور یتیم پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ ابواب ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتا اور پوتی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اولاد(بیٹا بیٹی) اپنے دادا کے ترکہ سے اپنے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حقدار و حصہ دار ہیں۔
قوله: (ابن داود نے کہا):

صحیح بخاری کے ان أبواب سے یہ ثابت نہیں ہوتا، کہ چچا تائے کہ ہوتے ہوئے بھی پوتا پوتی، دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہے! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے، کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے پوتا پوتی دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار نہیں!
الجواب:
یہ محض آپ کی جہالت اور ہٹ دھرمی ہے اور آپ کی آنکھ پر چونکہ اندھی تقلید کی عینک لگی ہوئی ہے جس کے سبب آپ کو وہی چیز نظر آرہی ہے جو آپ کے بزرگوں نے آپ کو پڑھادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی جہالت و حماقت کا برابر مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے یہ کہتے نظر آرہے ہیں (
صحیح بخاری کے ان أبواب سے یہ ثابت نہیں ہوتا، کہ چچا تائے کہ ہوتے ہوئے بھی پوتا پوتی، دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہے! بلکہ اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے، کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے پوتا پوتی دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار نہیں!)
امام بخاری نے صاف طور پر یہ باب بندھا ہے:
((
صحيح بخاري: 85 - كِتَابُ الفَرَائِضِ: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)
یعنی پوتے کے وارث ہونے کا باب جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔

صحیح بخاری کا مذکورہ باب اگر یتیم پوتے کے اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کے دادا کے ترکہ سے حق و حصہ کے ہونے پر واضح دلیل نہیں ہے تو آخر کس چیز کی دلیل ہے؟۔

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
اس سلسلہ میں میں نے ایک فیصلہ نبوی بھی پیش کیا جس میں محل شاہد بس اتنا سا ہے کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے اس فریضے میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا محدود حصہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی دو تھائی میں سے حصہ دیا۔
آپ کا جھوٹ نمبر 03:
یہ آپ کا بہت خطرناک جھوٹ ہے، کیونکہ یہ آپ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہے ہیں، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو ایک سے زیادہ بیٹیوں کے محدود فریضے میں سے حصہ دیا! کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ بیٹیوں کے محدود حصہ میں سے فریضہ دیا ہوتا، تو آپ کے بقول ''بیٹیوں'' کو جو ''ایک سے زیادہ'' ہیں، اور آپ کے مطابق ''پوتی'' کا بیٹی'' میں شمار ہے، تو دونوں کو یعنی ''بیٹی'' اور ''پوتی'' کو برابر دیا گیا ہوتا!
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''ایک بیٹی'' ہونے پر اسے نصف دیا، جیسا کہ قرآن میں أولاد میں صرف ''ایک بیٹی'' کے لئے نصف مقرر ہے !
''وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ''
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، کیوں کہ ایک ہی بیٹی تھی!
اور پوتی کو بیٹیوں کے حصہ میں سے نہیں دیا!

یہاں یہ بھی سمجھ لیں کہ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''پوتی'' کو دادا کی ''بیٹی'' میں شمار نہیں کیا! یعنی پوتی کو ''دادا'' کو أولاد میں شمار نہیں کیا، کیوں کہ ''بیٹی'' تو أولاد ہے۔
الجواب:
اقول:
جناب عالی!
آپ یا تو انتہا درجہ کے فریب باز، چاباز،اور عیار شخص ہیں یا پرلے درجہ کے جاہل اور احمق شخص ہیں؟
اگر پوتی اولاد و بیٹی میں سے نہیں تھی تو کیا وہ مرنے ولے اپنے دادا کی ماں یا دادی یا نانی یا اخیافی بہن تھی کیہ اس کو اللہ کے رسول نے چھٹا حصہ دیا تھا؟
آخر یتیم پوتی کو کس حیثیت سے اور کس بنیاد پر چھٹا حصہ دیا گیا تھا؟
جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں کیونکہ آپ کو بد دیانتی کرنا ہے جس کے لیئے جھوٹ بولنے کی آپ کو ضرورت ہے مجھے ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں جھوٹ بولوں یا کسی قسم کی فریب دہی کروں۔
جناب من!
آئیے اب میں آپ کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتا ہوں اور آپ نے یہاں وہی حرکت کی ہے جو یہودیوں نے آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر کی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اولاد کے بارے میں یہ حکم دیا ہے(
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیٹے بیٹی کا حصہ بیان نہیں کیا ہے بلکہ صرف اولاد کا حکم بیان کیا ہے اور ایک سے زیادہ مونث اولاد کے بارے میں یہ حکم دیا ہے(
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) جب کہ مونث اولاد میں صرف ایک کا حصہ نصف حصہ ہے۔
تو آنجناب نے یوں چالاکی دکھائی ہے اور بد دیانتی کی ہے کہ اس آیت کا وہ حصہ جو اس سے پہلے ایک سے زیادہ مونث اولاد کا اللہ نے بیان فرمایا ہے اس کو یکسر چھپالیا ہے اور صرف اس ٹکڑے کو ذکر کیا ہے جس سے صرف ایک مونث اولاد کا حصہ ثابت ہوتا ہے اور اس پر یہ صریحی جھوٹ بولا کہ(
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، کیوں کہ ایک ہی بیٹی تھی! اور پوتی کو بیٹیوں کے حصہ میں سے نہیں دیا!)
جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مونث اولاد کے بارے میں یہ حکم فرمایا ہے(
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) یعنی جب مرنے والے کی مونث اولاد میں ایک سے زیادہ ہوں تو ان سبھی کا مشترکہ حصہ دو تہائی ہے۔ یہ وہی یہودیانہ حرکت ہے جو اللہ کے رسول کے سامنے یہودیوں نے آیت رجم کو چھپا کر کی تھی اور یہاں آں جناب نے بعینہ یہی حرکت آیت میراث کے سلسلہ میں کی ہے کہ ایک سے زیادہ مونث اولاد کا جو مشترکہ حصہ اس کو چھپا گئے۔ اور یہ بددیانتی کرنے کے بعد اللہ کے رسول پر جھوٹ گھڑتے ہوئے آں جناب لکھتے ہیں((اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، کیوں کہ ایک ہی بیٹی تھی! اور پوتی کو بیٹیوں کے حصہ میں سے نہیں دیا!))
جب کہ حدیث کے اندر صاف لفظوں میں مذکور ہے:

حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو قَيْسٍ سَمِعْتُ هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ قَالَ سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ: (لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُهْتَدِينَ)، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ (‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ ۔۔۔۔)
یعنی اللہ کے نبی نے بیٹی کے لیئے آدھا حصہ اور پوتی کے لیئے چھٹا حصہ دیئے جانے کا فیصلہ دیا جو دوتہائی کی اس مقدار کو پوری کرنے کے لیئے جو ایک سے زیادہ مونث أولاد کے لیئے مقرر کی گئی اس دو تہائی کی مقدار پوری کرنے کے لیئے جو ایک سے زیادہ مونث أولاد کے لیئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے۔
تو اس سے بڑی بد دیانتی اورجھوٹ و فریب کیا ہوگا جو آنجناب نے اللہ کے رسول پر بولا ہے کہ (((
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو نصف دیا، کیوں کہ ایک ہی بیٹی تھی! اور پوتی کو بیٹیوں کے حصہ میں سے نہیں دیا!))۔ اللہ کے رسول پر جھوٹ بولتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی اور ذرا بھی خوف نہ آیا کہ اللہ کے سامنے جواب بھی دینا ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ نعرہ لگا رہے ہیں(
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست، ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔)
اتنا بڑا فریب اور اتنا بڑا دھوکا! اور وہ بھی صرف اس لیئے کیونکہ اس سے یتیم پوتی پوتیوں کا اس کے دادا کی اولاد ہونا اور ان کے دادا کے ترکہ میں ان کا حق و حصہ ہونا ثابت ہورہا ہے۔ اور دعویٰ اہل حدیث ہونے کا یہ ہے نام نہاد اہلحدیثوں کی اہل حدیثیت اور قرآن و حدیث دانی۔ یہ ہیں اہل حدیث جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود و ہنود۔

برائے مہربانی بتلائیے تو سہی کہ اللہ کے نبی نے یتیم پوتی کو جو حصہ دیا تھا تو کس بنیاد پر دیا تھا؟ وہ میت یعنی اپنے دادا کی کیا لگتی تھی ؟ کیا ماں کی حیثیت سے اسے چھٹا حصہ دیا تھا؟ یا دادی نانی کی حیثیت سے چھٹا حصہ دیا تھا؟ یا پھر اخیافی بہن ہونے کی حیثیت سے چھٹا حصہ دیا تھا؟ اور (تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْن) کس بات پر دلالت کر رہا ہے؟
بقول آپ کے (
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ''پوتی'' کو دادا کی ''بیٹی'' میں شمار نہیں کیا! یعنی پوتی کو ''دادا'' کو أولاد میں شمار نہیں کیا، کیوں کہ ''بیٹی'' تو أولاد ہے۔)
تو اگر یتیم پوتی میت کی اولاد میں سے نہ تھی اور اپنے دادا کی بیٹی نہ تھی تو آخر وہ میت کی کیا لگتی تھی؟ میت سے اس کا کیا رشتہ تھا کہ اللہ کے رسول نے اسے میت کے ترکہ میں حصہ دیا تھا؟ کس رشتے کی بنیاد پر اس کو بیٹی کے ساتھ حصہ دیا گیا؟
کیا وہ اپنے دادا کی ماں لگتی تھی کہ ماں ہونے کی بنیاد پر چھٹا حصہ دیا تھا ؟ کیونکہ بیٹے بیٹی ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ چھٹا ہوتا ہے۔ یا پھر دادی نانی پردادی پرنانی لگتی تھی ؟ کہ ماں کے نہ ہونے پر دادی نانی پردادی پرنانی کا حصہ چھٹا ہوتا ہے۔ یا پھر اخیافی بہن لگتی تھی ؟ کہ اس کا حصہ چھٹا بنا۔
آخر
(تَكْمِلَةَ للثُّلُثَيْنِ) میں (الثُّلُثَيْنِ) کا فریضہ کس کے لئے ہے؟
یتیم پوتی بقول آپ کے اپنے دادا کی اولاد و بیٹی نہیں ہے تو گویا آپ کے نزدیک پوتی کا نکاح اس کے دادا سے جائز اور حلال ہے؟ کیونکہ آپ کے نزدیک پوتی (
وَبَنَاتُكُمْ) میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی پوتا صلبی اولاد و بیٹا ہی ہے تو آپ کے نزدیک پوتے کی بیوی بھی اس کے دادا کے لئے جائز ہوئی اور دادی سے پوتے کا نکاح بھی جائز ہے؟۔ لہذا آپ کے قول کے مطابق درج ذیل آیت میں بنات میں پوتی داخل نہیں اور ابناء میں پوتا داخل نہیں نیز یہ کہ پوتا صلبی اولاد نہیں ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:

(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ ...... وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ ....) (سورة النساء: 23)
ارے اللہ کے بندے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے اور قبر میں داخل ہونا ہے پھر اللہ کے سامنے بھی پیش ہونا ہے اور جواب دینا ہے جہاں کوئی بھی کام نہ آئے گا نہ تو کوئی شیخ الاسلام، نہ شیخ الحدیث اور نہ ہی کوئی شیخ التفسیرہی کام آنے والا ہے صرف اور صرف آپ ہونگے اور اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی بھی نہ ہوگا۔ اللہ سے ڈریئے اور ایسی بیہودہ لایعنی باتوں اور بکواس سے باز رہیئے!

مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے:
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی یتیم پوتے حقدار و حصہ دار ہیں اللہ و رسول کے یہاں چچا تائے کا ہونا یتیم پوتے کے حقدار و حصۃ دار ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا):
یہ بات متعدد بار بتلائی جا چکی ہے، کہ اس حدیث میں چچا اور تایا کا وجود نہیں تھا! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی وراثت میں دادا کی مذکر أولاد نہ ہونے کی صورت میں حصہ دیا ہے!
اس کے باوجود ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ''یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی یتیم پوتے حقدار و حصہ دار ہیں اللہ و رسول کے یہاں چچا تائے کا ہونا یتیم پوتے کے حقدار و حصۃ دار ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔'' اللہ اور اسے کے رسول پر افترا باندھنے کے مترادف ہے!
ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ ذخیرہ احادیث سے ایک صحیح حدیث پیش کر دیجیئے؛ کہ جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتے پوتی کو دادا کی کسی مذکر أولاد، یعنی پوتے پوتی کے چچا یا تایا کی موجودگی میں، وراثت میں سے حصہ دیا ہو!

الجواب:
اقول:
جناب من!

آپ ہم سے کیا مطالبہ کریں گے آپ کی تو اٹکی ہوئی ہے جس کے چلتے آپ ہٹ ھرمی و بے شرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اللہ کے رسول تک پر جھوٹ گھڑنے سے باز نہیں آرہے ہیِں۔ چلیئے مان لیجیئے کہ ہم نہیں دکھا پائے تو آپ ہی پورے ذخیرہ احادیث سے صرف اور صرف ایک صحیح حدیث ہی پیش کر دیجئے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں پا سکتا ہے اور آپ کیا آپ جیسے پوری دنیا کے نام نہاد اہلحدیث تا قیامت اگر الٹا لٹک جائیں تب بھی نہیں دکھا سکتے۔ اور سوائے فریب بازی کے اور کچھ پیش نہیں کر سکتے جیسا کہ ابھی آپ نے اپنی فریب بازی اور اللہ کے رسول پر افتراء پردازی کا ایک واضح نمونہ پیش کیا ہے۔
چلیئے آپ ہی بتا دیجیئے کہ اللہ کے رسول نے کس حدیث میں اس بات سے منع کیا اور روکا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟۔
پوتا صرف اپنے باپ کے ہوتے ہی محجوب ہے چچا تائے کے ہوتے قطعی طور پر محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ اگر ہے تو اسے پیش کیجیئے۔ اور پوری دنیا کے آپ جیسے نام نہاد اہلحدیثوں کو میں یہ کھلا ہوا چیلنج دیتا ہوں۔
جس طرح اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت ایک اولاد و بیٹی کے ایک سے زیادہ بیٹیوں کے فریضے میں سے حصہ دیا ہے ٹھیک اسی طریقے سے یتیم پوتے کا بھی اس کے چچا تائے کے ساتھ بحیثیت ایک بیٹے کے حق و حصہ بنتا ہے۔ اگر آپ اس بات سے انکاری ہیں تو پھر آپ اس کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش کیجئے۔
برائے مہربانی ہم آپ سے جو سوال کررہے ہیں اس سوال کا جواب دیجئے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتا اپنے دادا (جو کہ اس کا والد و باپ ہے) کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے؟۔ تو اس سلسلہ میں وہ آیت اور حدیث پیش کیجئے؟ جس میں اللہ کے رسول نے کسی چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا (جو کہ اس کا والد و باپ ہے) کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث کیا ہو؟
کیونکہ دعویٰ آپ نے کیا ہے :
(
چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں مانع ہے!)
تو آپ اپنے اس دعوی پر قرآن و حدیث سے دلیل پیش کیجیئے۔
ہم تو یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث ہونے کے قائل ہی نہیں کیونکہ ہمارے سامنے اللہ کے رسول کا صرف یہ فیصلہ ہی کافی ہے جو صحیح بخاری کے باب اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دیا۔ اور بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ اور چونکہ بیٹوں کی اولاد بمنزلہ اولاد ہوتی ہے جیسا کہ زید بن ثابت کا قول ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ بیٹے کی عدم موجودگی میں اس کے بیٹے بیٹیاں بمنزلہ اولاد ہوتی ہیں لہذا یتیم پوتا بمنزلہ اولاد ہونے کے اپنے چچا تائے کے ساتھ اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے اور چچا تائے ہرگز ہرگز اس کے حق و حصہ پانے میں مانع نہیں ہیں کیونکہ جب یتیم پوتی کی پھوپھی اس کے لئے مانع نہ بنی تو یتیم پوتے کے لئے اس کے چچا تائےبھی مانع نہیں ہو سکتے ہیں؟ یتیم پوتا تو یتیم پوتی کے مقابلے میں بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ یعنی یتیم پوتی کو تو صرف چھٹے حصے پر اکتفاء کرنا پڑا تھا لیکن یتیم پوتا تو اپنے باپ کی جگہ اپنے باپ کے پورے حصے کا مستحق ہے اور اپنے چچا و تائے کے برابر حصہ کا مستحق ہے۔
لہذا ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے وہ آیت اور حدیث پیش کیجئے؟ جس میں اللہ کے رسول نے کسی چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا (جو کہ اس کا والد و باپ ہے) کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث کیا ہو؟ یا کم از کم ایسی کوئی آیت یا حدیث پیش کیجئے جس سے یہ ثابت ہو کہ اللہ کے رسول نے چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتے کو حصہ دیئے جانے سے منع فرمایا ہو؟ اور تا قیامت کوئی بھی مائی کا لال ہرگز ہرگز نہ کوئی آیت پیش کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حدیث؟ اور یہ میرا دعویٰ اورکھلا ہوا چیلنج ہے!

(چچا یا تایا کا ہونا، دادا کے ترکہ میں پوتے کے حقدار و حصہ دار ہونے میں قطعی طور پر مانع نہیں ہے! اور نہ ہی چچا تائے کے ہوتے یتیم پوتا محجوب ہو سکتا ہے)
 
Top