• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دنیاوی علم گمراہی ہے؟

کیا آپ میرے ساتھ اتفاق کرتے ہیں؟


  • Total voters
    3
شمولیت
اکتوبر 06، 2017
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
27
بہت سے دین سے منسلک لوگ (مولویوں) سے میں نے اور دیگر لوگوں نے یہ سنا ہے کہ وہ دنیاوی علم کو سراسر گمراہی سمجھتے ہیں سوچا آج تھوڑی وضاحت کر دی جائے۔

1- پہلی بات یہ کہ ہر علم قرآن مجید سے ہی اخذ ہوا ہے۔ بائیو، فزکس اور کیمسٹری دیکھ لیں۔ بزنس اور قانون کی تعلیم پہ نظر دوڑا لیں۔ سب کا سب قرآن مجید اور احادیث میں موجود ہے۔ سورۃ ملک میں ہی بہت زیادہ علم دنیا کے متعلق ہے تو پھر دنیاوی علم گمراہی کیسے ہوا؟

2- اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بارہا مقام پر یہ فرمایا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ آج کے سائنسدان بھی کائنات پہ غور کر رہے ہیں اور کائنات کی ہر شے اللہ ہی کی طرف لے کر جانے والی ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان اگر دنیاوی علم حاصل کرتا ہے تو وہ گمراہ ہر گز نہیں۔

3۔ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کے قیدیوں کو کہا کہ دس دس بچوں کو تعلیم دیں (لکھنا پڑھنا سکھائیں) تو یہ بھی دنیاوی علم کی طرف اشارہ ہے۔

نوٹ: یہ بات بالکل برحق ہے کہ دینی علم بہت زیادہ فضیلت کا حامل ہے لیکن ساتھ دنیاوی طور پہ مضبوط ہونا بھی بہت ضروری ہے کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا " طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔"
دنیاوی علم سے ہم نے ہتھیار بنائے ، اپنی طاقت کا سامان کیا۔ بہت سی بیماریوں کا علاج نکالا۔ آسمان تک رسائی حاصل کی۔
اس لیے ہر علم اہمیت کا حامل ہے اور دین اس سے ہر گز نہیں روکتا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: «لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ» قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: «مَا لِنَخْلِكُمْ؟» قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»
حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ۔اور حماد ہی نے ثابت سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجوروں میں گابھہ لگا رہے تھے ،آپ نے فر ما یا :" اگر تم یہ نہ کروتو(بھی ) ٹھیک رہے گا۔"کہا:اس کے بعد گٹھلیوں کے بغیر روی کھجور یں پیدا ہو ئیں ،پھرکچھ دنوں کے بعد آپ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فر ما یا :" تمھا ری کھجوریں کیسی رہیں ؟"انھوں نے کہا : آپ نے اس اس طرح فر ما یا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"تم اپنی دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ)
صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: شریعت کے حوالے سے نبی ﷺ نے جو فر ما یا اس پر عمل واجب ہے جہاں آپ نے دنیوی امور کے بارے میں محض اپنی را ئے کا اظہار فرما یا ہے(اس پر عمل واجب نہیں))
دیکھ لیں ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کہ جن سے بڑھ کر کوئی مجتہد عالم نہیں ہو سکتا، لوگوں کو دیناوی علوم میں بہتر جاننے والا کہا ہے!
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دینی علم میں سب سے بڑھ کر ہیں، اور دیناوی علوم میں دوسروں کو خود سے بہتر جاننے والا قرار دیتے ہیں، یعنی کہ دیناوی علم کا ماخذ وحی یعنی قرآن و حدیث ہو نا لازم نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیاوی علوم کا جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا، دوم کہ یہاں دنیاوی علوم کے حلال ہونا ثابت ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی علم کے بنا پر دنیاوی معاملات پر عمل کرنے کی توثیق کی ہے!
 
شمولیت
اکتوبر 06، 2017
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
27
شیخ قرآن مجید میں بیش بہا مقامات پر سائنسی علوم کی بیسک موجود ہے... میں فارغ ہو کر تمام آیات جمع کر دیتا ہوں اور آپ کو بھیجوں گا. دنیاوی کام اور چیز ہے اور دنیاوی تعلیم اور چیز ...
 
شمولیت
اکتوبر 06، 2017
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
27
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: «لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ» قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: «مَا لِنَخْلِكُمْ؟» قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»
حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ۔اور حماد ہی نے ثابت سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجوروں میں گابھہ لگا رہے تھے ،آپ نے فر ما یا :" اگر تم یہ نہ کروتو(بھی ) ٹھیک رہے گا۔"کہا:اس کے بعد گٹھلیوں کے بغیر روی کھجور یں پیدا ہو ئیں ،پھرکچھ دنوں کے بعد آپ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فر ما یا :" تمھا ری کھجوریں کیسی رہیں ؟"انھوں نے کہا : آپ نے اس اس طرح فر ما یا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"تم اپنی دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ)
صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: شریعت کے حوالے سے نبی ﷺ نے جو فر ما یا اس پر عمل واجب ہے جہاں آپ نے دنیوی امور کے بارے میں محض اپنی را ئے کا اظہار فرما یا ہے(اس پر عمل واجب نہیں))
دیکھ لیں ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کہ جن سے بڑھ کر کوئی مجتہد عالم نہیں ہو سکتا، لوگوں کو دیناوی علوم میں بہتر جاننے والا کہا ہے!
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دینی علم میں سب سے بڑھ کر ہیں، اور دیناوی علوم میں دوسروں کو خود سے بہتر جاننے والا قرار دیتے ہیں، یعنی کہ دیناوی علم کا ماخذ وحی یعنی قرآن و حدیث ہو نا لازم نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیاوی علوم کا جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا، دوم کہ یہاں دنیاوی علوم کے حلال ہونا ثابت ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی علم کے بنا پر دنیاوی معاملات پر عمل کرنے کی توثیق کی ہے!
شیخ قرآن مجید میں بیش بہا مقامات پر سائنسی علوم کی بیسک موجود ہے... میں فارغ ہو کر تمام آیات جمع کر دیتا ہوں اور آپ کو بھیجوں گا. دنیاوی کام اور چیز ہے اور دنیاوی تعلیم اورچیز ...
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
بھائی دنیاوی علوم سیکھنا منع نہیں ہے مسئلہ یہاں آتا ہے جب دین اسلام کو بھی لوگ سائنس سے پرکھ رہے ہوتے ہیں اور اس پر کتابیں بھی لکھ رہے ہوتے ہیں۔

ابن سينا کا فاسد عقیدہ

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمتہ الله کہتے ہیں :
ابن سينا رافضی قرمطی تھا اور صحابہ رضی الله عنهم کو گالیاں دیتا اور ان کی تنقیص کرتا تھا۔
[نقض المنطق ص 87]

إبن تيميہ علامہ ابن باز رحمتہ الله کہتے ہیں :
مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ابن سینا ، فارابی کے نام پر دکانوں کے نام رکھیں اللہ ان کا برا کرے۔
[الفوائد الجليہ للزهرانی ص 37]

ابن القيم رحمتہ الله کہتے ہيں:
ابن سينا ملحدوں کا امام تھا۔
[إغاثہ اللهفان :ج2 /ص267]

ابن الصلاح رحمتہ الله کہتے ہيں :
وہ انسانی شیطانوں میں سے شیطان تھا ۔
[فتاوی ابن الصلاح : ج1 ص209]

امام الذهبی رحمتہ الله ميزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
میں نہیں جانتا کہ اس نے علم (کتاب و سنت) سے کچھ روایت کیا ہو ، اور اگر وہ روایت کرتا بھی تو اس کی روایت قبول نہ کی جاتی کیونکہ وہ گمراہ فلسفی تھا ، ابن حجر رحمہ اللہ علامہ ذھبی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اللہ اس سے راضی نہ ہو۔
[لسان الميزان 2/291]

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ الله سے پوچھا گیا :
جو لوگ ابن سینا کی تعریف کرتے ہیں اور اسے مسلمان علماء میں سے مانتے ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ جواب : اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں : یا تو وہ آدمی لا علم ہے اور ابن سینا کے حال سے واقف نہیں ایسے آدمی کو حق نہیں کہ وہ بولے اس کے لیے خاموشی بہتر ہے . اور اگر وہ اس کے حال اور اس کی کفریات سے واقف ہے اور پھر بھی اس کی تعریف کرتا ہے تو اس کا حکم بھی ابن سینا جیسا ہے، العیاذ باللہ معاملہ بہت سنگین ہے بعض لوگ صرف اس لیے اس کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ طبیب تھا، اور یہ اس کا دنیوی پیشہ تھا اور کفار میں اس سے بھی زیادہ حاذق طبیب موجود ہیں، تو پھر ابن سینا ہی کیوں؟ کہتے ہیں : وہ اسلام کی طرف منسوب تھا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے قابل فخر بات ہے . ہم کہتے ہیں :اسلام اس سے بری اور بےنیاز ہے . اورحاصل کلام یہی ہے کہ اس کی تعریف اور مدح سرائی نہ کی جائے کیونکہ وہ باطنی اور ملحد فلسفی تھا ۔
[التعليق المختصر على القصيدة النونیہ 3/1328]

باقی شیوخ حضرات اور رہنمائی کردیں گے۔
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
مضمون کا موضوع ؛ علم کی حقیقت

بسم اللہ الرحمان الرحیم
اللھم ارنا الحق حقاً و ا رزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلاً وا رزقنا اجتنابہ

سوال نمبر ۱:
علم اور عقل کا باہمی ربط کیا ہے؟
قول اور عمل سے پہلے علم کی اہمیت اور ضرورت کی دلیل تو اللہ تعالٰی کا فرمان ہے
"فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" ۔ عقل ، دینی و دنیاوی علوم کی بنیاد نہیں بلکہ فقط اِن علوم کی بنیاد کی توثیق، تحقیق اور اُن کے صحیح و غلط استعمال کا ایک آلہ ہے۔ ماسوا سلیم الفطرت عقل کے بالعموم عقل آزادانہ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی اور بالعموم انسان کے فیصلے اُس کے حالات، جذبات، معلومات، ذہنی استطاعت یا قرآن کی اصطلاح میں "شاكلة" کے تابع ہوتے ہیں؛ جبکہ دینی علوم بالخصوص اور دنیاوی علوم و فنون بالعموم اِن تمام قابل تغیر اثرات سے پاک ہوتے ہیں۔ اِسی لیے علم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے کی حیثیت محض عقل کی بنیاد پر فیصلے کی نسبت زیادہ معتبر اور دیرپا ہے۔

دینی علوم کی بنیاد اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف سے قرآن و سنت
[بمعنی حدیث] کی صورت میں نازل کردہ وحی پر ہے اور عقل کا مقام[1] فقط اِن دونوں بنیادوں کی توثیق ؛ بعد از توثیق بذریعہ تحقیق دینی و دنیاوی مسائل کا استنباط [نکالنا۔ چُننا۔ نتیجہ اخذ کرنا ۔ چھانٹنا] اور اپنی انفرادی، باہمی اور اجتماعی زندگیوں میں اِن علوم کے صحیح یا غلط استعمال پر موقوف ہے۔

چونکہ دینی علوم کی اصل "مشاہد ات و منطقی دلائل" کے برعکس "نقل" پر ہے، اس لیے ایمانیات اور عبادات میں عقل کے صحیح استعمال سے مراد نقلی دلائل کی توثیق اور بعد از توثیق فقط اتباع ، جبکہ معاملات میں تحقیق کو اُن بنیادی اصولوں [جس میں اول ترین اصول مقاصد شریعت[2] ہے]کی پیروی کرنا ہے جو اہل سنت و الجماعہ کے سلف و خلف
[بدون عصر حاضر]کے جمہور علماء سے ثابت ہیں ؛
کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "اللہ میری اُمت کو کبھی
گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے " [المستدرک ۔ کتاب العلم ۔ حدیث ۳۹۹]۔ مزید رسول اللہﷺ نے فرمایا "اللہ تعالٰی اُس شخص کو خوش و خرم رکھے جو میری گفتگو سن کر یاد کر لے اور اُن لوگوں تک پہنچا دے جنہوں نے اِسے نہیں سنا کیونکہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ [میری گفتگو کو یاد کر کے] پہنچانے والا خود اتنا سمجھدار نہیں ہوتا اور آگے جس تک وہ میری بات پہنچاتا ہے وہ اُس سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔ [پھر آپﷺ نے فرمایا] تین چیزیں ایسی ہیں جن سے متعلق بندہ مومن کا دل دھوکہ نہیں کھاتا [۱]وہ عمل جو خالصتاً اللہ کے لیے ہو [۲]ذوی الامر کی اطاعت [۳] مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ مومنوں کی دعوت اُن کے بعد والوں کو بھی پہنچے گی"[المستدرک ۔ کتاب العلم ۔ حدیث ۲۹۴]۔

عقل نے جب بھی ایمانیات اور عبادات میں اپنے اِس مقام سے تجاوز کیا ہے تو اِن اختراعات کو بدعات
[3]سے موسوم کیا گیا جو مذموم اور مردود ہیں اور امت مسلمہ میں واحد وجہ تفرقہ ہیں۔
بعینہ
[ہو بہو] دنیاوی علوم و فنون کی اصل بنیاد حضرت آدم﷩ کو ودیعت کیے گئے اسماء اور حواس خمسہ پر ہے ۔ عقل کا مقام فقط اِن دونوں بنیادوں پر حاصل شدہ معلومات کی توثیق؛ بعد از توثیق بذریعہ تحقیق اِن دنیاوی علوم و فنون کی اصلاح و بہتری اور اپنی انفرادی، باہمی اور اجتماعی زندگیوں میں اِن علوم و فنون کے صحیح یا غلط استعمال پر موقوف ہے۔
دنیاوی علوم میں بدون مشاہد ات محض منطقی دلائل کی بنیاد پر اختراعی نظریات کو قیاسات
[Theory]اور غیر منطقی اختراعی نظریات کو افسانوں [Fiction]سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اُن کی حیثیت مباح ہے۔

سوال نمبر۲:
تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار کون؟
علم اور معلومات کے باریک فرق کو نظر انداز کرنے کے باعث آج ہم بحیثیتِ امت شدید ذہنی غلامی اور احساس کمتری کا شکار ہیں۔ علم؛ جس کی وجہ سے انسان کو فرشتوں پر فضیلت اور زمین پر خلافت کا حقدار قرار دیا اور دینِ اسلام جو علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیتا ہے
[بحوالہ ابن ماجہ اور بیہقی] اُس کے ماننے والوں کی حالت یہ ہو کہ وہ ہر نظریہ اور عمل کو مغرب کے فقط معلومات کی بنیاد پر قائم تعلیمی نظام پر پرکھتا ہو اور اُسی میں اپنے ہر مسئلہ کا حل ڈھونڈتا ہو۔ اسلامی تعلیم کا مطمع نظر آخرت کا حصول جبکہ اُس کے بر عکس مغربی تعلیم کا اولین اور آخر ین مقصد دنیا کا حصول ہے۔ اسلامی اور مغربی تعلیمی نظاموں کے اِن اہداف کا فرق صرف ایک بات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری اسلامی تعلیم کی تاریخ بلا مبالغہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں علماء کے تذکروں اور اُن کے کارناموں سے بھری پڑی ہے مگر سائنسدانوں کی فہرست انتہائی محدود ؛اور اُن میں سے بھی اکثریت اُن لوگوں کے ناموں پر محیط ہے جن کے عقائد کی گمراہی پر اُن کے ہم عصر علماء کو اتفاق تھا ؛ جبکہ اِس کے بر عکس مغربی تعلیم کی تاریخ جو خود صرف تین چار سو سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے وہ ہزاروں سائنسدانوں کے ناموں پر تو محیط ہے مگر چند علماء کے نام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

سوال نمبر۳:
تو کیا مغربی تعلیم صرف معلومات کا مجموعہ ہے؛ علم نہیں؟؟؟
اِس سوال کا اصل جواب اُس مَقْصُود
[Final Goal]میں پنہا ہے جو اِس معلومات کو حاصل کرنے کا اصل مقصد ہے؛ مَقْصُود [Final Goal] کی عظمت اپنی ذات کے اندر اُس کے حصول کے ذرائع کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے۔ تو چونکہ قرآن اور حدیث، اللہ کے تقوٰی؛ اُس کی رضامندی کے حصول؛ جہنم سے نجات اور جنت کے حصول کو واحد مَقْصُود [Final Goal]کے طور پر پیش کرتے ہیں چنانچہ یہ دونوں صرف اُسی معلومات پر علم کی اصطلاح کا اطلاق کرتے ہیں جو اِس مقصد کے حصول کو آسان کر دے ۔
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ [سورة الزمر ۹] "]بھلا مشرک اچھا ہے[ یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ [اور] نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں"
۔۔۔۔۔وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا [سورة طٰہٰ ۱۱۴] "۔۔۔۔۔ اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اُس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے [پڑھنے کے] لئے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے"
۔۔۔۔۔ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۔۔۔۔۔ [سورة فاطر ۲۸] "۔۔۔۔۔ خدا سے تو اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔۔۔۔۔"
مغربی تعلیمی نظام کا کُل مرکزِ نگاہ اِس دنیا میں اپنی ضروریات سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ خواہشات کا حصول ہے اور آخرت کا معاملہ اُس کے نزدیک قابلِ توجہ ہی نہیں ؛
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ [سورة الروم؛ ۷] ؛ اِس لیے قرآن اور حدیث کے مطابق اُس پر علم کی اصطلاح کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے اور اُس کے ذریعے سے حاصل معلومات پر علم کے بجائے فنون کی اصطلاح کا اطلاق ہو گا جو دنیا کے حصول میں متعدد اسباب میں سے ایک سبب ہو تا ہے۔ علم اور فن کی باہمی نسبت وہی ہے جو آخرت کی دنیا سے ہے؛ فقط ایک ظاہری مشابہت؛ وَ اُتُواْ بِهِ مُتَشٰبِھًا[سورة البقرة؛ ۲۵]۔ اِسی طرح دین کا علم بھی فقط معلومات اور ایک فن سے زیادہ کچھ نہیں اگر اُس کے حصول کا مقصد دنیاوی فوائد ہیں۔

سوال نمبر۴:
جاہل کون؟ معاشرہ میں جہالت پھیلانے کے ذمہ دار کون؟
نبی کریم ﷺ نے جہالت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا؛ "اللہ تعالٰی ہر اکھڑ مزاج، سخت طبیعت، بہت پیٹو، بازاروں اور گلیوں میں شور شرابہ کرنے والے، رات کو مردار کی طرح محو خواب رہنے والے، دن میں گدھے کی طرح دنیا کے کاموں میں جتے رہنے والے، امور دنیا سے واقفیت رکھنے والے مگر
امور آخرت سے جاہل شخص کو نا پسند فرمایا ہے" [صحیح ابن حبان ؛ ۲۷۳/۱]۔
دینی یا دنیاوی لحاظ سے جہالت اصل میں انسان کا حق بات کو جان لینے کے بعد یا لا علمی کے سبب اُس بات کو ردّ کرنے کا جذبہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ٹریفک سگنل کی سرخ بتی پر رکنا فرض ہے مگر اگر میں نہیں رکتا تو میں جاہل ہوں؛ میں ہوائی جہاز میں متعدد اعلانات کے باوجود اگر اپنا موبائل فون بند نہیں کرتا تو میں جاہل ہوں اور یہی رویہ دینی معاملات میں اختیار کرنا دین میں جہالت ہے ۔
غیر تعلیم یافتہ ہونا ، جہالت کے متعدد اسباب میں سے ایک چھوٹا سبب ہے؛ جہالت کے بڑے اسباب ذاتی انا؛ تکبر؛ ہٹ دھرمی؛ حسد؛ معاشرتی و سیاسی و علاقائی وابستگیاں؛ معاشرتی و معاشی نا انصافیاں وغیرہ ہیں ؛ اور چونکہ یہ اسباب عموماً غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ ہوتے ہیں اِس لیے یہ دونوں اصطلاحات مترادف کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ قرآن اِس فرق کو
سورة الاحزاب میں واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ اعرابی نفاق میں مدینہ والوں سے زیادہ سخت ہیں اور یہ سختی اُن کی حق کو ردّ کرنے کی شدّت میں زیادتی کی وجہ سے تھی۔
آج ہمارا ہر سکول یا مدرسہ چاہے اِس میں دینی تعلیم کا عنصر موجود ہو یا نہ ہو؛ وہ اپنی پیشانی پر "
رب زدنی علما" کندہ کرانا لازمی سمجھتا ہے؛ مگر رسول پاک ﷺ کی اِس حدیث کو "۔۔۔۔ لوگوں کو "مُثَنَّاة" پڑھائی جائے گی اور اِسے کوئی برا نہیں سمجھے گا۔ پوچھا گیا: یہ "مُثَنَّاة" کیا چیز ہے؟ فرمایا: جو کچھ اللہ کی کتاب کے سوا لکھا جائے" [المستدرك على الصحيحين للحاكم (ط مقبل) ۵/ ۱۶؛ السلسلة الصحيحة ، ۲۸۲۱ ] کو لاعلمی کے سبب یا دیدہ دانستہ نظر انداز کر دیتا ہے۔ اصل مقصد تعلیم کا حصول نہیں بلکہ وہ مقصد ہے جس کے لیے تعلیم حاصل کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی تعلیمی ادارہ اِس مقصد سے لاعلم ہے تو وہ تعلیم پھیلانے کا حقدار نہیں ہے؛ اور اگر دیدہ دانستہ نظر انداز کرتا ہے تو حق کو ردّ کرنے کے باعث وہ جہالت پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔

سوال نمبر
۵: علم حاصل کرنے کی ذمہ داری معاشرہ میں کس کس پر ہے؟
دین اسلام؛ یہودیت اور عیسائیت کے بر عکس کسی مذہبی پیشوا؛ عالم؛ مولوی یا پیر کو نجات دہندہ قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے ہر ماننے والے پر دین سیکھنے کو لازم ٹھیراتا ہے اور اُس کی اخروی کامیابی کا معیار بھی اُس کی یہی کوشش اور اُس کے نتیجہ میں پیدا ہو نے والے عمل پر ہے۔
فقط مسلمان پیدا ہونے کو ہم نے اپنی کامیابی کا ضامن ٹھہرا لیا ہے؛ اور بھول گئے کہ مرجئہ، روافض، خوارج، جہمیہ، جبریہ، قدریہ، معتزلہ؛ باطنیہ، خطّابیہ، قادیانی وغیرہ جیسے باطل فرقوں کی اکثریت پیدائشی مسلمان تھی اور ایسے ہی ایک حدیث جس میں نبیﷺ نے اپنی امت کی ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو نے کی پیشن گوئی فرمائی اور ایک کے سوا باقی ۷۲ فرقوں کو جہنم میں جانے کی وعید سنائی؛؛؛ یہ حدیث اور اُس کے ساتھ
سورة التحریم کی آیت "قو انفسکم و اھلیکم نارا" کسی بھی مسلمان کو اُس علم کو حاصل کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کے بنیاد پر وہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم سے نجات والے فرقہ کا امیدوار بنا سکے۔
یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ اُس نے تعلیم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
"طلب العلم فریضةعلی کل مسلم"[بحوالہ ابن ماجہ اور بیہقی] "علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے" ۔مولانا عاشق الٰہی بلند شہری﷬ اِس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ”اسلام سراسر عمل کا نام ہے۔ ماں کی گود سے لے کر قبر کے گڑھے میں پہنچنے تک احکام ہی احکام ہیں۔ حکم کی تعمیل چوں کہ بغیر علم کے نہیں ہو سکتی ہے، اِس لیے احکامِ دین کا جاننا اور احکام پر عمل کرنا انسان کا اولین فریضہ ہے“۔
قرآن اور حدیث کے شواہد میں علماء کے مطابق ہر مسلمان پر جو علم سیکھنا فرض ہیں وہ اِس طرح ہیں۔

ایمانیات؛ کے ضمن میں بنیادی عقائد؛ ایمان کی حقیقت[4]؛ ضروریات دین[5]؛ طاغوت کی حقیقت[6]؛ الولاء والبراء[7]؛ نواقض اسلام[8] [یعنی اسلام کو توڑنے والے امور]؛ صغیرہ و کبیرہ گناہ[9] وغیرہ۔
عبادات؛ کے ضمن میں طہارت کے مسائل؛ نماز اور روزہ کے فرائض و شرائط و مفسدات ؛ اگر صاحب نصاب ہو تو زکوٰة کے مسائل؛ اگر صاحب استطاعت ہو تو حج کے مسائل؛ جہاد [10]کے مسائل وغیرہ۔
معاملات ؛ کے ضمن میں حلال و حرام کے مسائل ؛ نکاح کے مسائل؛ اگر تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل؛ کاشتکار و زمیندار ہو تو کھیتی باڑی کے مسائل؛ ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے پر ملازمت سے متعلق مسائل؛ غرض کہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سیکھنا فرض عین ہے۔
آج کے دور میں جہاں "رواداری" کے نام پر ہر عقیدہ؛ نظریہ اور عمل کو ہمارے معاشرہ میں کھلے دل سے قبول کیا جا رہا ہے اور دین کے بنیادی اصول سے نا واقفیت اور فروعی معاملات کو ہی اصل دین سمجھنے کی وجہ سے مجھ جیسے بے شمار مسلمان لا علمی میں اُس حد فاصل کو عبور کر لیتے ہیں جو اخروی نجات کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

لا الہ الا اللہ ؛ لا الہ الا اللہ ؛ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی سیدنا محمد و علی اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیماً کثیرا کثیرا
والسلام و علیکم و رحمة اللہ
فرقان الدین احمد

furqanuddin@gmail.com

[1] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ ضروریات دین کی حقیقت [کاوش نمبر۵]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ شریعت کی حقیقت [کاوش نمبر۱۱]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[3] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ کلمہ رسالت کی شرائط [کاوش نمبر ۳]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[4] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ ایمان کی حقیقت [کاوش نمبر ۴]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[5] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ ضروریات دین کی حقیقت [کاوش نمبر ۵]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[6] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ طاغوت کی حقیقت [کاوش نمبر ۹]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[7] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ الولاء و البراء کی حقیقت [کاوش نمبر ۱۱]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[8] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ نواقض اسلام [کاوش نمبر ۱۳]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[9] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ گناہوں کی حقیقت [کاوش نمبر ۸]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[10] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ جہاد کی حقیقت [کاوش نمبر ۱۲]" کا مطالعہ فرمائیں۔
 
Top