- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
کیا دو گواہوں کی غیر موجودگی میں طلاق ہو جاتی ہے؟
دوست نے سوال کیا کہ کیا دو گواہوں کی غیر موجودگی میں طلاق ہو جاتی ہے؟
جواب: فقہاء نے طلاق کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک طلاق سنی ہے اور دوسری طلاق بدعی۔ اگر تو اُس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے کہ جو کتاب وسنت میں بیان ہوا ہے تو اسے طلاق سنی کہا جاتا ہے اور اگر اس طریقے کے مطابق طلاق نہ دی جائے جو کتاب وسنت میں مذکور ہے تو اسے طلاق بدعی کہتے ہیں۔
اب سب فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس طریقے کے مطابق طلاق دینی چاہیے کہ جو کتاب وسنت میں بیان ہوا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ اُس حالت طہر میں طلاق دے کہ جس میں عورت سے مباشرت کا تعلق قائم نہ کیا ہو اور اس طلاق پر دو گواہ بھی بنائے۔ امام بخاری نے اس طریقہ کار کو اپنی کتاب صحیح البخاری میں "وَطَلاَقُ السُّنَّةِ: أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وَيُشْهِدَ شَاهِدَيْنِ" کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
پس طلاق بدعی یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے دیں۔ طلاق بدعی یہ بھی ہے کہ ایک شخص حالت حیض (menses) یا حالت نفاس (postpartum period) میں بیوی کو طلاق دے۔ بدعی طلاق یہ بھی ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو اس طہر میں طلاق دے کہ جس میں اس سے تعلق قائم کر چکا ہو۔ اور بدعی طلاق یہ بھی ہے کہ ایک شخص دو گواہوں کی غیر موجودگی میں بیوی کو طلاق دے۔ طلاق کے باب میں شریعت یہ چاہتی ہے کہ طلاق کے وقت شوہر کی پوری رغبت بیوی کی طرف موجود ہو اور شوہر اپنے پورے ہوش وحواس میں ہو۔
پس علماء میں اختلاف اس میں ہو گیا کہ اگر کسی شخص نے کتاب وسنت کے طریقے کے مطابق طلاق نہ دی، تو کیا اس کی طلاق ہو جائے گی؟ جمہور علماء (majority) کا کہنا یہ ہے کہ ایسی طلاق دینے والا گناہ گار ہو گا لیکن طلاق ہو جائے گی لیکن بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایسی طلاق دینے والا گناہ گار بھی ہے اور ایسی طلاق واقع بھی نہیں ہو گی۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الطلاق البدعي أنواع منها: أن يطلق الرجل امرأته في حيض أو نفاس أو في طهر مسها فيه، والصحيح في هذا أنه لا يقع" [مجموع الفتاوی: 20/58] ترجمہ: اگر کسی شخص نے حالت حیض یا حالت نفاس میں یا ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دی کہ جس میں بیوی سے تعلق قائم کر چکا ہو تو یہ طلاق بدعی ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ طلاق نہیں ہوتی ہے۔ معاصر علماء میں علامہ البانی کا فتوی یہ ہے کہ دو گواہوں کی غیر موجودگی میں طلاق نہیں ہوتی ہے۔
طلاق کے مسائل میں اگر کوئی راقم کی طرف رجوع کرے تو اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ اگر حنفی ہو تو اس کے مسلک کے مطابق جواب دے دیتا ہوں اور اگر اہل حدیث ہو تو اہل حدیث علماء کا موقف بتلا دیتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی راقم کی رائے جاننا چاہے تو اپنا موقف بتلا دیتا ہوں، اور وہ یہی ہے کہ میرے نزدیک طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس نے ہمارے اس دین میں اس چیز کا اضافہ کیا کہ جو دین میں نہیں ہے، وہ مردود ہے۔ [صحیح بخاری]۔ اور اسی پر فتوی دیتا ہوں۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب