• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دو یا دو سے زیادہ قربانی کر سکتا ہے؟ (ضرور پڑھیں)

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا دو یا دو سے زیادہ قربانی کر سکتا ہے؟

سوال:

کیا دو سے زیادہ قربانی کے جانور ذبح کیے جا سکتے ہیں؟ کیونکہ ہم نے کچھ لوگوں کو تین اور چار قربانیاں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔


الحمد للہ:

اول:

قربانی کرنا شرعی اور نیک کام ہے، اور اسکا حکم فقہائے کرام کے مختلف اقوال کی روشنی میں سنت مؤکدہ یا واجب ہے۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (36432) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

گھر کے سربراہ اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہے، چاہے اہل خانہ کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو؛ اس کی دلیل ترمذی: (1505) اور ابن ماجہ: (3147) میں عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : "میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: "گھر کا سربراہ اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا، پھر اس میں سے خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ بنا لیا، اور حالت یہاں تک بگڑ گئی جو اب آپ کے سامنے ہے"

نیز نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"ایک بکری ایک شخص کی طرف سے قربانی میں کافی ہے، لیکن ایک سے زیادہ [گھر کے سربراہان ]کی طرف سے ایک ہی بکری کافی نہیں ہوگی، تاہم اگر گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کر دی جائے تو وہ سب اہل خانہ کی طرف سے ہو جائے گی، اور اس طرح ان کی طرف سے قربانی سنت کفایہ کے طور پر ہوگی " انتہی
"المجموع" (8/370)

چنانچہ اگر ایک سے زیادہ قربانی فخر و تکبر سے دور رہ کر ذبح کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

"کیا اسلام نے عید کے دن قربانی کرنے کی تعداد مقرر کی ہے؟ اور کی ہے تو یہ کتنی تعداد ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"اسلام میں قربانی کی تعداد کیلئے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قربانیاں کیا کرتے تھے، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسری امت محمدیہ میں سے موحدین کی طرف سے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک، یا دو ، یا اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

"ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بکری ذبح کرتے تھے، اور پھر اسی سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے، اس کے بعد لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ بنا لیا"،

خلاصہ یہ ہے کہ:

اگر کوئی انسان اپنے گھر میں اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کر دے تو اس طرح اس کا سنت پر عمل ہو جائے گا، اور اگر کوئی دو ، تین، چار، یا گائے ، یا اونٹ کی قربانی کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی

ماخوذ از ویب سائٹ شیخ ابن باز رحمہ اللہ:

http://www.binbaz.org.sa/mat/11662

افضل اور بہتر یہی ہے کہ اپنی طرف سے اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی قربانی کرے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اسی طرح تھا۔

چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عید الاضحی کے موقع پر عید گاہ میں حاضر ہوا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے ، تو آپ کے پاس ایک مینڈھے کو لایا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہوئے فرمایا: ("بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ" یہ میری اور میری امت میں سے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے)

ابو داود: (2810) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بلا شک و شبہ سنت پر کار بند رہنا ہی بہتر ہے۔۔، چنانچہ اگر ہم یہ کہیں کہ : "گھر کا سربراہ صرف ایک ہی قربانی پر اکتفا کرے" تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اگر اس نے زیادہ قربانی کی تو اسے گناہ ہوگا، سربراہ کو ایک سے زیادہ قربانی کرنے پر گناہ نہیں ہوگا، تاہم مسنون طریقہ کار پر عمل کرنا ڈھیروں عمل کرنے سے افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً )

تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے افضل عمل کرنے والا ہے۔ [الملك:2]


اور یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو صحابہ کو کسی مشن پر روانہ کیا تو انہیں راستے میں پانی میسر نہ ہوا، چنانچہ انہوں نے تیمم کر کے نماز ادا کر لی، پھر کچھ دیر بعد انہیں پانی مل گیا، جس پر ایک نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھ لی، جبکہ دوسرے نے نماز نہیں دہرائی، اس کے بعد دونوں نے اپنا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ دہرانے والے کے بارے میں فرمایا: (تم نے سنت کے مطابق عمل کیا) اور دوسرے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہیں دو بار[نماز پڑھنے کا] اجر ملے گا) اب ان میں سے کون افضل ہے؟ جس نے سنت کے مطابق عمل کیا، اگرچہ دوسرے کو دو بار اجر ملے گا؛ دوبار اجر ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دو دفعہ عمل کیا، اس لئے دو دفعہ عمل کرنے کا تو اسے اجر ملا، لیکن سنت کے مطابق عمل کرنے والے کے درجے تک نہیں پہنچ سکا" انتہی

ماخوذ از: "فتاوی نور على الدرب"

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
::: ریاکاری ایک مذموم عمل ہے :::



ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم عمل ہے- یہ گناہ اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے- لفظ ریا "زویۃ" سے ماخوذ ہے جس کا معنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے- اس کی صورت یوں ہوتی ہس کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لین اور میری تعریف کریں

ریا دو قسم کی ہے:

ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے-

دوسری ریا کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا - ( الکھف 18/110)

"(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں سے کہ دیجیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں، البتہ میری طرح وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے- پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے"

اس آیت میں ہر قسم کے شرک کی ممانعت ہے- ریاکاری بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے- اسی لیے علماء نے اس آیت سے ریا کے مسائل پر استدلال کیا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ میں شرک والوں کے شرک سے بے پرواہوں جو آدمی میرے لئے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہون

[صحيح مسلم 4/ 2289 رقم 2985]

یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے- جب کسی عبادت میں ابتداہ ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے) تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہگار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے- البتہ اگر اصل عمل (عبادت) محض اللہ تعالی کے لیے ہی ہو مگر عمل کرنے والا اس میں کسی قدر ریا کو شامل کردے مثلا: اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نماز کا رکوع طویل کردے اور تسبیحات کی تعداد زیادہ کردے اور ایسا کرنے سے وہ آدمی گناہگار ہوگا اور اس کی اتنی عبادت ضایع ہوجائے گی جتنی اس نے ریا کے لیے کی جبکہ مالی عبادت میں ریا شامل اونے سے ساری کی ساری عبادت اکارت ہوجاتی ہے-

{اشرک معی فیہ عیری ۔ ۔ ۔ ۔ }

" جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو بھی شامل کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے- وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے حو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے-

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل"

( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)

{ کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے "شرک خفی" کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے-}

مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بین فرمادیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرح متوجہ کردیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)- اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے-

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ " قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " الرِّيَاءُ، يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً "
[مسند أحمد ط الرسالة 39/ 39 رقم23630]

محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں‌ تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں‌ وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔


اقتباس: کتاب التوحید
از: صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابریہیم آل شیخ
 
Top