• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا زمین پر ابھی تک خضر زندہ ہیں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا زمین پر ابھی تک خضر زندہ ہیں؟


کیا خضرعلیہ السلام دنیا میں آج تک زندہ ہیں ، اورکیا وہ قیامت تک زندہ ہی رہيں گے ؟

الحمد للہ:

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

خضر علیہ السلام کے بارہ میں صالحین کی حکایات کا شمار نہیں ، اوران کا یہ دعوی کہ الیاس اورخضر علیہ السلام ہرسال حج کرتے ہیں ، اوران سے بعض دعائيں بھی روایت کی جاتی ہیں یہ سب کچھ معروف ہے ، اس کے قائلین کی سب سندیں بہت ہی زيادہ ضعیف ہیں ۔

اس لیے کہ ان میں غالب طورپران لوگوں سے حکایات ہیں جن کے بارہ میں گمان ہے کہ وہ صالح قسم کے لوگ تھے ، اوریا پھر وہ خوابوں کے قصے ہیں ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ سے کچھ مرفوع احادیث بھی ہيں جو سب کی سب ضعیف ہیں اورپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں اور نہ ہی ان سے حجت قائم ہوسکتی ہے ۔

اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ جوبات مجھے راجح معلوم ہوئ ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ، اس کے کئ ایک دلائل ہيں جن میں سے چند ایک ذکر کیا جاتا ہے :

پہلی دلیل :

اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :

{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔

دوسری دلیل :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔

تیسری دلیل :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ:

زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔

توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ‏ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :

تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔

چوتھی دلیل :

اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔

واللہ اعلم .

دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔

http://islamqa.info/ur/20505
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
الزهر النضر في حال الخضر نام سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس موضوع پر مستقل تصنیف ہے ۔
اس کےعلاوہ بھی پانچ چھے کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اہل علم حضرات سے توجہ کی درخواست ہے۔ مذکورہ بالا دلائل حضرت عیسیؑ کی وفات کے ضمن میں قادیانی دیتے ہیں۔ حضرت عیسیؑ کی حیات تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اہل اصول کے نزدیک کسی عام میں جب ایک بار تخصیص ہو جائے تو وہ ظنی ہو جاتا ہے (بعض کے نزدیک ہر حالت میں ظنی ہی ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک مذکورہ حکم ہے)۔
ان کی حیات کے دلائل کس درجے کے ہیں جو ظنی سے بھی کم ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ بالا دلائل حضرت عیسیؑ کی وفات کے ضمن میں قادیانی دیتے ہیں۔ حضرت عیسیؑ کی حیات تو تواتر سے ثابت ہے
جب عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تواتر سے ثابت ہے، تو قادیونیوں کو ان دلائل کو عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے پیش کرنا مفید نہیں، اور نہ قادیانیوں کے عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے ان دلائل کو پیش کرنے سے ان دلائل میں کوئی نقص وارد ہوتا ہے۔ اور تخصیص صرف اسی کی قائم رہتی ہے، جس کی تخصیص کا ثبوت ہو! بقیہ پر عمومی حکم برقرار رہتا ہے۔
لیکن اہل اصول کے نزدیک کسی عام میں جب ایک بار تخصیص ہو جائے تو وہ ظنی ہو جاتا ہے
یہ بات سمجھ نہیں آئی!
مردار کا حرام ہونا عام حکم ہے، اور دو مردار کے حلال ہونے پر مردار کے حرام ہونے کی دلیل پر تخصیص ثابت ہے!
اب کیا کہا جائے گا کہ مردار قطعی حرام نہیں ظنی حرام ہے؟
اس اصول پر کچھ تفصیل بیان کریں!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جب عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تواتر سے ثابت ہے،
الشيخ محمد أنور شاه الكشميري (ت1352هـ)
قال في كتابه : " التصريح بما تواتر في نزول المسيح " : ولعلك قد عرفت مما ذكرنا أن الأحاديث في هذا الباب متواترة وقد صرح به جماعة من المحدثين فقال العلامة السيد محمود الآلوسي في تفسيره روح المعاني ولا يقدح في ذلك أي في ختم النبوة ما أجمعت الأمة عليه واشتهرت فيه الأخبار ولعلها بلغت مبلغ التواتر المعنوي ونطق به الكتاب على قول ووجب الإيمان به وأكفر منكره كالفلاسفة من نزول عيسى عليه السلام آخر الزمان لأنه كان نبيا قبل تحلي نبينا صلى الله عليه وسلم بالنبوة في هذه النشأة "

https://archive.org/stream/aboughoda/tasrih#page/n67/mode/2up
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وبه صرح الحافظ عماد الدين ابن كثير حيث قال في تفسيره في تفسير سورة الزخرف عند قوله تعالى ! ( وإنه لعلم للساعة ) ! وقد تواترت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أخبر بنزول عيسى عليه السلام قبل يوم القيامة إماما عادلا وحكما مقسطا وصرح به في تفسير سورة النساء أيضا وذكر الحافظ ابن حجر في كتابه فتح الباري تواتر نزول عيسى عليه السلام عن أبي الحسين الآبري وقال في التلخيص الحبير من كتاب الطلاق وأما رفع عيسى عليه السلام فاتفق أصحاب الأخبار والتفسير على أنه رفع ببدنه حيا وإنما اختلفوا هل مات قبل أن يرفع أو نام فرفع وقال في فتح الباري من باب ذكر إدريس إن عيسى رفع وهو حي على الصحيح "
 
Last edited:
Top