• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سعودی عرب نائن الیون کے واقعہ میں ملوث ہے؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
کیا سعودی عرب نائن الیون کے واقعہ میں ملوث ہے؟
روزنامہ پاکستان، 19 مئی 2016
کالم: پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد اقبال

جیسا کہ گزشتہ ایک کالم (مورخہ 29 اپریل 2016ء) میں بیان کیا گیا تھا، آج کل سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات نہایت سرد مہری کا شکار ہیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ عرصے پر محیط دوستی کے نام پر قائم دونوں ملکوں کے تعلقات کو انتہائی مثالی سمجھا جاتا رہا ہے ، لیکن گزشتہ چند برسوں میں ان تعلقات میں بہت خلیج واقع ہو چکی ہے۔ دیگر اسباب کے علاوہ ایک سبب 9/11 کمیشن کی رپورٹ کے وہ 28 صفحات ہیں، جنہیں ابھی تک پوشیدہ رکھا گیا ہے۔۔۔ یاد رہے کہ 9/11 کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ امریکی کانگریس کو 2003ء میں پیش کی گئی تھی، لیکن امریکی صدر نے رپورٹ کے 28 صفحات کو شائع کرنے سے منع کر دیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 28 صفحات میں جو معلومات درج ہیں، ان کے افشاء سے امریکی سلامتی کو خطرا ت لاحق ہو سکتے ہیں۔ بعض امریکی حلقوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان حذف شدہ صفحات میں سعودی حکومت کے 9/11 واقعہ میں ملوث ہونے کا ذکر ہے۔ اگرچہ امریکہ نے دنیا بھر سے بالخصوص مسلم ممالک سے ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے گوانتا ناموبے میں کئی سال قید رکھا ، کئی افراد کو سزائیں ہوئیں اور سینکڑوں افراد کو کئی برسوں کی قید و بند کے بعد بعض ممالک کو واپس کر دیا گیا، لیکن ان قیدیوں میں نہ تو کوئی سعودی شہری شامل تھا اور نہ ہی کبھی امریکہ نے سعودی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا، جس کی دو وجوہات تھیں۔

اول تو یہ کہ سعودی عرب کے 9/11 کے واقعے میں ملوث ہونے کی بات تب تک یقین سے نہیں کہی جا سکتی، جب تک یہ حذف شدہ 28 صفحات شائع نہ ہوں۔ دوسرا ایک امریکی قانون کے تحت غیر ملکی حکومتوں اور ان کے سرکردہ افراد کو ایک استثنا حاصل ہے، جس کے تحت غیر ملکوں کی حکومتوں کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات نہیں چلائے جا سکتے، اس لئے امریکی ایوان میں چند سال قبل ایک بل پیش کیا گیا، جو اگر پاس ہو گیا تو غیر ملکی حکومت یعنی سعودی عرب کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات قائم کئے جا سکیں گے ۔ پہلے یہ بل دو بار ناکام ہو چکا ہے۔ اب یہ تیسری بار پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کو دونوں سیاسی جماعتوں، یعنی کنزرویٹو پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران کی حمایت حاصل ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ بل کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اوباما حکومت پر یہ دباؤ بھی بڑھ رہا ہے کہ 9/11 کمیشن ان 28 صفحات کو افشا یا منتشر کیا جائے جو ابھی تک مخفی رکھے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے بعض تبصروں میں اس بات کا اظہار کیا جا ر ہا ہے کہ امریکی حکومت زیادہ عرصے تک ان صفحات کو صیغہ راز میں نہیں رکھ سکے گی۔ ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے، چونکہ کمیشن کی رپورٹ کے ان صفحات میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کا ذکر ہے، اس لئے اگر یہ صفحات شائع کر دئیے گے تو مستقبل میں امریکی اور سعودی حکومت کے مابین ان دوستانہ تعلقات کا قائم رہنا اگر نا ممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہو گا ، جن تعلقات کو ماضی میں مثالی سمجھا جاتا رہا ہے، اسی لئے امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی فرماں روا کے مابین گزشتہ ماہ ہونے والی دو گھنٹے سے طویل ملاقات میں یہ امر خاص طور پر زیر بحث آیا۔۔۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی حکومت واقعی 9/11 کے واقعے میں ملوث ہے؟ اگر نہیں تو پھر دوسرا کون سا ملک یا ممالک اس واقعے میں ملوث ہو سکتے ہیں؟

یہاں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمومی تاثر کے بر عکس امریکی ذرائع ابلاغ میں جتنی تنقید سعودی عرب پر یا سعودی حکومت کے تصورِ اسلام پر کی جاتی ہے، اتنی تنقید شاید ہی کسی اور ملک کے بارے میں ہوتی ہو۔ اسی طرح امریکی عوام میں بھی پاکستان کی طرح سعودی عرب کے بارے میں بہت منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اگر چہ سعودی حکومت امریکہ سے اپنے اختلافات کا اظہار سفارتی سطح پر کرتی رہتی ہے، لیکن ذرائع ابلاغ میں ان کا اظہار شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو حکومتی سطح پر 9/11 کے واقعے میں کیوں ملوث قرار دیا جا رہا ہے؟ اس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ مبینہ طور پر جن 19 افراد کو اس واقعہ میں ملوث قرار دیا جاتا ہے، یعنی وہ افراد جنہوں نے امریکی جہاز اغوا کر کے مختلف جگہوں پر گرائے، ان میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے بتایا جاتا ہے، لیکن اس بات میں کہا ں تک صداقت ہے، اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ وہ قارئین جنہوں نے اس واقعے کی خبر براہِ راست بی بی سی یا سی این این پر اس وقت دیکھی تھی، جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا ، تو انہیں یاد ہو گا کہ 11 ستمبر 2001ء کے چند دن کے بعد ان ہائی جیکرز کے بظاہر سرغنہ کی ایک ویڈیو دکھائی گئی تھی، جو اپنی ایک رشتہ دار کی شادی کے سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں مخلوط ڈانس میں حصہ لے رہا تھا۔ اس وقت اس کو فلسطینی شہری بتایا گیا تھا، لیکن بعد میں بتایا گیا کہ وہ سعودی شہری ہے۔ اس بات کا بھی واویلا کیا جاتا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اُسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کا ہاتھ تھا، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم جن اسلامی نظریات کا پرچار کرتی رہی ہے، کیا اس میں اس قسم کی مخلوط محفلوں اور لہو و لعب کی سرگرمیوں کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسی مخلوط محفل میں شریک ہوں جو اسلام کی تعلیمات تو ایک طرف، خود عرب معاشرے میں بھی غیر اخلاقی سمجھی جاتی ہوں۔

دوسری بات جو محل نظر ہے، وہ یہ کہ جب 2003ء میں کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تھی اور ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان 28 حذف شدہ صفحات میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کا ذکر ہے تو اس وقت سعودی وزیر خارجہ نے خود اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ اگر ایسا ہے تو سعودی حکومت کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب حکومتی سطح پر یا اس کی کوئی اعلیٰ شخصیت اس واقعے میں ملوث نہیں ہے، اگر نچلی سطح کا کوئی فرد یا افراد ملوث ہیں تو سعودی حکومت کو اس سے آگاہ ہونا چاہئے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ موثر طریقے سے کردار ادا کیا جا سکے، لیکن سعودی حکومت کے مطالبے کے باوجود ان صفحات میں درج معلومات کا سعودی عرب سے تبادلہ نہیں کیا گیا۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ امریکی حکومت نے سعودی عرب کی محبت میں ان 28 صفحات میں درج معلومات کو مخفی رکھا ہو، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان معلومات کو ابھی تک افشا نہیں کیا گیا؟ اس ضمن میں دو باتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ، جن سے اس پہلو پر کچھ روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ 9/11 کمیشن جب اس واقعہ کی تحقیقات کر رہا تھا تو اس کے سامنے کچھ افراد نے ایسے شواہد رکھے تھے جن سے اس بات کو تقویت ملتی تھی کہ اس واقعہ میں اسرائیل ملوث ہو سکتا ہے، لیکن 9/11 کمیشن نے ان معلومات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ جن لوگوں نے یہ معلومات 9/11 کمیشن کو فراہم کی تھیں، انہوں نے ان معلومات کو 9/11 کمیشن کے میمو کے نام سے انٹرنیٹ پر عام افراد کی دلچسپی کے لئے ڈال دیا تھا۔ ان معلومات کے مطابق مبینہ طور پر 9/11 واقعے میں ملوث افراد اس واقعے سے قبل امریکہ کے جن جن شہروں میں رہے، انہی شہروں میں اور انہی اوقات میں ہائی جیکروں کی رہائش گاہ کے قریب اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کے تقریباً 150 افراد بھی رہائش پذیر رہے۔ ان میں سے کچھ افراد نے کچھ امریکی خفیہ معلومات تک رسائی کی بھی کوشش کی اور پھر جس روز نیو یارک میں دو جہازوں کے ٹکرانے سے دو عمارتیں تباہ ہوئیں، عین اسی وقت جائے حادثہ کے قریب نیو جرسی میں واقع ایک مکان میں کچھ افراد خوشی میں ناچتے اور جشن مناتے پائے گئے۔ ایک خاتون نے اپنے قریبی مکان کی چھت سے یہ سب کچھ دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے فوری طور پر ان افراد کو گرفتار کیا، لیکن راتوں رات کچھ امریکی سینٹرز نے ان کو رہا کرا کر اسرائیل روانہ کر دیا۔ ان کا تعلق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ سے بتایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کافی تفصیلی معلومات اس میمو میں درج ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

دوسری بات خود امریکی ذرائع ابلاغ میں بعض سائنس دانوں اور ماہرین کی طرف سے چلائی گئی ایک ایسی مہم ہے، جس میں اس واقعے کے سائنسی بنیادوں پر صحیح ہونے پر متعدد سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اتفاق سے ایسے افراد میں امریکہ کے بعض چوٹی کے سائنس دان ، ہوا بازی کے ماہرین اور دیگر سر کردہ افراد شامل ہیں، جن کا قطعاً کوئی تعلق کسی بنیاد پرست مسلم تنظیم یا اسلام پرست گروہ سے نہیں ہے۔ ان واقعات کی روشنی میں بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 9/11 کے واقعے میں اسرائیل براہ راست ملوث ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ سب کچھ خود امریکی حکومت کے ایما اور تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ تو پھر کچھ بعید نہیں کہ یہ ڈرامہ واقعی خود امریکی حکومت نے رچایا ہو اور اسرائیلی حکومت اس میں معاون رہی ہو۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
11 ستمبر کے حملوں کا بھوت
جمعہ 20 مئی 2016م
کالم: عبدالرحمان الراشد

جب یہ بات ظاہر ہوئی کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں شریک ہونے والے دہشت گردوں میں سے پندرہ سعودی ہیں تو اسی وقت ہمیں اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ ہم ایسے بحران کے سامنے ہیں جو ہمیشہ دوست اور حلیف بن کر رہنے والے دو ملکوں کے تعلقات میں برسوں تک تک کردار ادا کرتا رہے گا۔ 2001ء کے بقیہ ہفتے اور اس کے بعد آنے والے سال سست روی سے گزرتے رہے یہاں تک کہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا اور سعودی عرب کے اس معاملے سے کوئی تعلق نہ ہونے کی تصدیق کردی۔ تاہم گزشتہ ہفتوں کے دوران ریاض اور واشنگٹن کے درمیان انتہائی درجے کی کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ مزید برآن بدترین پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کرلی کہ اگر حملوں کا شکار ہونے والے افراد کے اہل خانہ عدالت میں ثابت کر دیں کہ حملوں میں سعودی عرب ملوث ہے تو پھر وہ مملکت کے خلاف مقدمات دائر کر سکتے ہیں !

اس سے قبل تاریخ کی ایک سب سے بڑی تحقیقاتی کارروائی میں امریکی تحقیق کاروں اور معائنہ کاروں نے اس جرم (حملوں) سے ادنی درجے کا بھی تعلق رکھنے والوں کی تلاش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا تاہم انہیں سعودی عرب کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ تمام تر شواہد القاعدہ تنظیم کی جانب اشارہ کر رہے تھے جو خود سعودی عرب کے لیے سب سے بڑا دشمن ہے اور جس نے انیس سو نوے کی دہائی سے مملکت کے خلاف براہ راست جنگ شروع کر رکھی ہے۔

مشرق وسطی کے امور سے واقف کوئی بھی امریکی سیاست داں، سیکورٹی ماہر یا انٹیلجنس ماہر کسی طور یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ القاعدہ تنظیم کی کسی کارروائی سے سعودی عرب کا کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ خواہ وہ نیویارک اور واشنگٹن یا دنیا میں کسی بھی اور مقام پر کیے جانے والے حملے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بے ہودہ الزام نے حال ہی میں ایک سنجیدہ سیاسی موضوع کا روپ اختیار کیا ہے جب کہ سیاسی تعلق میں مختلف امور کے حوالے سے سردمہری اور نقطہ ہائے نظر کی دوری اور مغرب کے سامنے ایرانی کشادگی دیکھی جا رہی ہے۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کی تحقیقات کرنے والوں کی 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت منظرعام پر نہیں لانا چاہتی تھی، تاکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نقصان نہ پہنچے۔ وہ ایسا وقت تھا جب جذبات بھڑکے ہوئے تھے اور ایسے میں جذباتی عناصر غلطیوں اور دانستہ افعال کے درمیان فرق نہیں کر سکتے تھے۔ اسی دوران میں نے ایک سعودی ذمہ دار سے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ہم نے اس کو روکنے کا مطالبہ نہیں کیا اور ہمیں اس کے جاری ہونے پر بھی کوئی اعتراض نہیں، تمام تر حقائق تحقیقاتی کمیٹی کو معلوم ہیں۔ اب وہ روکے گئے صفحات بھی جاری کر دیے گئے ہیں جن کو سعودی عرب کے مخاصم سیاسی جدل میں استعمال کریں گے تاہم یہ کوئی مذمتی دستاویز نہیں ہے۔

القاعدہ تنظیم کی 20 سالہ عمر کے دوران سعودی عرب کا اس دہشت گردی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ مملکت تو تنظیم کے اولین دشمن رہی۔ اس دوران ایران کی القاعدہ کے ساتھ معاملہ بندی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ایران نے القاعدہ کے درجنوں رہ نماؤں کو پناہ دی جو2001 میں امریکی بمباری کے نتیجے میں افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے ان دستاویزات کو جاری کیا گیا جو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی خفیہ پناہ گاہ اور جائے قتل سے امریکیوں کے ہاتھ لگی تھیں۔ ان دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ القاعدہ کے سربراہ نے اپنے آدمیوں کو تحریری ہدایات ارسال کیں کہ وہ ایران کو نشانہ نہ بنائیں اور عراق میں ایرانی شیعوں پر حملے نہ کریں۔ اس لیے کہ ایرانی حکومت القاعدہ کی حلیف ہے جو ان کو مالی رقوم، افرادی قوت، ہتھیار اور رابطوں کے سلسلے میں سہولتیں پیش کررہی تھی۔ ہم ایران کی حلیف یعنی شام میں بشار الاسد کی حکومت کے کردار کو بھی نہیں بھول سکتے جس نے القاعدہ کے ہزاروں جنگجوؤں کی میزبانی کی۔ بعد ازاں یہ جنگجو سرحد عبور کر کے عراق میں داخل ہوئے اور امریکی افواج کے خلاف زیادہ تر کارروائیاں کا حصہ بنے۔ ان کارروائیوں میں تقریبا چار ہزار امریکی فوجی مارے گئے۔

ریاض اور واشنگٹن کے درمیان اختلافی موضوعات مرکزی نوعیت کے نہیں ہیں۔ ماضی میں ان میں مشکل ترین معاملہ شدت پسندوں کی سرگرمیوں، شدت پسند مبلغین، عطیات جمع کرنے والوں اور میڈیا میں القاعدہ کی حمایت سے متعلق گردش میں رہتا تھا۔ یہاں تک کہ سعودی وزارت داخلہ فکری طور پر دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ڈھانچوں کو منہدم کر دینے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے "جہادیوں" کی بھرتی، عطیات جمع کرنے یا اس کے لیے پروپیگنڈہ میں کردار ادا کرنے والے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا۔ ان سب سے بڑھ کر سعودی عرب نے امریکی وفاقی تحقیق کاروں کے لیے ان تمام مشتبہ اور مشکوک امور کی تحقیق کے لیے دروازے کھول دیے جو تحقیقات کے دوران پیش کیے گئے تھے۔

گرد کے حالیہ طوفان کے ساتھ امریکا ایران تعلقات میں بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ ایسے میں تعلقات کے مشترکہ ویژن کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کی جانی چاہیں۔ تہران، جس نے واشنگٹن کے خلاف معاندانہ پالیسی اپنا رکھی تھی اب تیس برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد یہ انکشاف کر رہا ہے کہ مخاصمت کے سبب نقصان اٹھانے والا وہ اکلوتا فریق ہے لہذا اس نے مصالحت اور دست برداری کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایرانی نظام کی فطرت اسے حقیقی طور پر مغرب کی جانب ڈھلنے اور اس کے ساتھ دائمی تعلقات برقرار رکھنے سے روکے گی۔
* بشکریہ روزنامہ "الشرق الاوسط"
ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
سعودی عرب کا 9/11 سے کوئی تعلق نہیں: سی آئی اے
ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی خبریں بے بنیاد ہیں: جان برینن

اتوار 12 جون 2016م
واشنگٹن ۔ نادیا البلبیسی
'سی آئی اے' کے سربراہ جان برینن العربیہ کی نادیا البلبیسی کو انٹرویو دے رہے ہیں، ویڈیو

امریکا کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے چیف جان برینن نے کہا ہے کہ نائن الیون کے واقعات سے سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ دونوں دوست ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خوش گوار سطح پر قائم ہیں۔

جان برینن نے ان خیالات کا اظہار ’العربیہ‘ چینل کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ امریکا سعودی عرب کی دہشت گردی کے خلاف مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین تعلقات اور دو طرفہ تعاون قائم ہے۔

سی آئی اے چیف نے کہا کہ سعوی عرب اور امریکا کے درمیان بہترین تعلقات قائم رہے ہیں۔ ہم نے ریاض کے ساتھ مل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طویل سفر طے کیا ہے۔ میں خود پانچ سال تک سعودی عرب میں رہا اور وزیر داخلہ ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف کے ساتھ کام کیا۔ گذشتہ پندرہ سال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کلیدی کردار کا عرصہ ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے مضبوط اور حقیقی اتحادی اب بھی موجود ہیں۔

جان برینن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا میں ہونے والی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2002ء میں نائن الیون کے واقعات کے حوالے سے تیار کردہ ایک رپورٹ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت بھی اس میں ملوث رہی ہے پر نظر ثانی کی گئی اور تفتیش کاروں نے رپورٹ کی تیاری میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ کیا ہے۔ ہم نے ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں بتایا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون کے حملوں میں کوئی کردار نہیں ہے۔ سعودی عرب بہ طور ریاست، کوئی ادارہ یا کوئی سرکاری عہدیدار ان حملوں میں بالواسطہ یا براہ راست ہر گز ملوث نہیں ہیں۔ اٹھائیس صحفات پر محیط یہ رپورٹ جلد ہی سامنے لائی جائے گی۔ ہم اس رپورٹ کے منظر عام پر لانے کے حامی ہیں کیونکہ اس میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون کے واقعات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

عرب ممالک میں ایران کی کھلی مداخلت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سی آئی اے چیف کا کہنا تھا کہ انہیں عراق، شام اور دوسرے عرب ملکوں میں ایران کی فوجی مداخلت پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران عرب خطے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑائی چھیڑنے کے لیے اپنے حامیوں کی مدد کر رہا ہے۔ ہم ایرانی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے تہران سے عرب ممالک میں دخل اندازی بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امریکا اور ایران کے درمیان دو طرفہ روابط کے بارے میں جون برینن کا کہنا تھاکہ واشنگٹن کے تہران کے ساتھ کسی قسم کے کوئی روابط قائم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا ایران کی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت بالخصوص شام اور عراق میں شدت پسندوں کی معاونت پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔

ح
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ، امریکی رپورٹ میں سعودی عرب نفرت پھیلانے کا مجرم قرار
این این آئی، اتوار 3 جولائ 2016

2003 کی کانگریس رپورٹ منظرعام پر لائیں گے، امریکی خفیہ ادارے، ہم منتظر ہیں، رپورٹ کا ایک لفظ بھی نہ چھپایا جائے، سعودی ردعمل


واشنگٹن: امریکی انٹیلی جنس ادارے جلد ہی 28 صفحات پر مشتمل 2003ء کی کانگریس کی رپورٹ منظر عام پر لانے والے ہیں جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملے میں سعودی عرب کو نفرت پھیلانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے جبکہ ادھر سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ اس رپورٹ کے شدت سے منتظر ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ رپورٹ کو من و عن شائع کیا جائے اور ایک بھی لفظ اس میں سے حذف نہ کیا جائے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 28 صفحات پر مشتمل یہ خفیہ رپورٹ نائن الیون حملوں کی پہلی کانگریسی تحقیقات کا حصہ ہیں جس میں امریکا میں موجود مبینہ سعودی نیٹ ورک کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جس نے 2 ہائی جیکرزکی معاونت کی۔ رپورٹ میں سعودی عہدے دار فہد ال تھمیری کے حوالے سے زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں جو نائن الیون کے 2 ہائی جیکر سے اس وقت رابطے میں تھا جب وہ 2000ء میں سان ڈیاگو آئے تھے۔

نائن الیون حملوں کی تحقیقات کرنے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سابق سینیٹر باب گراہم حالیہ مہینوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ 28 صفحات دھماکا خیز ہوں گے جبکہ دیگر کا خیال کچھ اور ہی ہے.

27 اپریل کو نائن الیون کمیشن کے شریک چیئرمین ٹام کین اور لی ہیملٹن نے بیان جاری کیا کہ ان 28 صفحات میں موجود معلومات نامکمل اور غیر مصدقہ ہیں۔ انھوں نے بارہا یہ کہا کہ کمیشن اس موقف پر پہنچا ہے کہ انھیں سعودی حکومت یا کسی سعودی عہدے دارکے القاعدہ کی فنڈنگ کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

امریکا میں سعودی سفارتخانے کے ڈائریکٹر انفارمیشن اور امور کانگریس نائل الجبیری نے بتایا کہ وہ 28 صفحات کی اشاعت کے منتظر ہیں اور انھیں امید ہے کہ رپورٹ میں سے کچھ بھی حذف نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایک بھی لفظ چھپایا نہ جائے کیوں کہ اس سے سازشی نظریات پھیلانے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔

ح
 
Top