• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صحابہ کرام کے اقوال وافعال ہمارے لئے حجت ہیں ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کیا صحابہ کرام کے اقوال وافعال ہمارے لئے حجت ہیں ؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
شیخ ایک سوال کا جواب مطلوب ہے،صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چند حبشی نوجوانوں کو جنگی مشق کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر خاموشی اختیار فرمائی،اسی طرح عید کے روز چند بچیوں کو جنگی اشعار گاتے ہوئے سنا تو اس پر بھی خاموشی اختیار فرمائی۔اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں کہ صحابہ کرام کے اقوال و افعال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہے۔ اس پس منظر میں ،،،،،،
(1) پہلا سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ان اقوال و افعال کو حجت بنایا جاسکتا ہےجن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہے؟
(2) دوسرا سوال یہ ہے کہ جس عمل کی صراحت قرآن و احادیث میں نا ملے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اعمال وأقوال کو بطور حجت مان سکتے ہیں یا نہیں؟
براہ کرم ان دو مسئلوں پر روشنی ڈال کر ہماری رہنمائی فرمائیں،نوازش ہوگی۔ جزاک اللہ خیرا
سائلہ : ام عائشہ صدیقہ مالیگاؤں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
سب سے پہلے حدیث سمجھ لیں کسے کہتے ہیں پھر دونوں سوالوں کے جواب آسان ہوجائیں گے ۔ حدیث کہتے ہیں ہر وہ قول ، فعل ،تقریر یا صفت جو نبی ﷺکی طرف منسوب ہو ۔ اگر نسبت صحیح ہوئی تو حدیث صحیح ہوتی ہے ورنہ ضعیف ہوتی ہے۔
اس تعریف میں تقریر کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صحابہ کا قول یا فعل جس کا علم نبی ﷺ کو ہوا ہو اور آپ ﷺ نےاس قول یا فعل پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی ۔ گویا آپ کا جو پہلا سوال ہے وہ حدیث تقریری سے متعلق ہے ، ایسا کوئی عمل صحابی یا قول صحابی جس پر رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ہو وہ حدیث ہی کہلاتی ہے اگر اس تقریری حدیث کی سند صحیح ہو تو دین میں حجت ہے۔ یہ پہلے سوال کا جواب ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ان دونوں کے ماسوا دین میں کسی کی بات قابل حجت نہیں ہے تاہم محض وہ اجتہادی مسائل جن میں شریعت خاموش ہواور صحابی کا قول یا فعل صحیح سند سے معلوم ہورہا ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا ہے ،جدید قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہیں اور علمائے امت ان میں اجتہاد کرتے رہیں گے جن کا اجتہاد دلائل سے قوی ہوگا اختیار کرسکتے ہیں ۔ ائمہ اربعہ کے اجتہاد کا بھی یہی حکم ہے ۔ ان کے جو اجتہاد کتاب وسنت کے خلاف ہیں انہیں رد کردیں دراصل ان مسائل میں ائمہ کا بھی یہی موقف ہے اور جو مسائل کتاب وسنت سے نہیں ٹکراتے ان میں جس امام کا فتوی دلائل سے قوی معلوم ہو اختیار کرلیا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف ایک امام کے ہی اجتہاد لیں گے ، نہیں ۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تقلید جائز نہیں ہے۔ سارے ائمہ ہمارے اپنے ہیں، ان سب کو اللہ نے دین میں بصیرت وفقاہت عطا فرمائی، استفادہ علم میں کسی ایک کی تخصیص اوردوسرے ائمہ سے صرف نظر کرنا سراسر زیادتی اور دوسرے ائمہ کی فقاہت وبصیرت اور حکمت ودانائی سے چشم پوشی کرناہے ۔ تمام ائمہ کا احترام ، ان کے اجتہادات سے استفادہ بلکہ ان کے علاوہ قیامت تک جو فقیہ ومجتہد پیدا ہوتے رہیں تمام سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)
 
Top