• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا صحیح بخاری امام بخاری کی تالیف ہے ؟ ایک شیعی اعتراض کا جائزہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰قسط اوّل


۰۰( ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد:-

آج صبح ہمارے محترم وکرم فرما شیخ شاہدرفیق حفظہ اللہ کے توسط سے کسی شیعہ کی تحریر موصول ہوئی ، جس کاعنوان تھا:-
“کیاصحیح البخاری محمدبن اسماعیل بخاری کی تالیف ہے،،؟؟”
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی امام بخاری کی طرف نسبت ہونے میں اجماع ہے ، اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہہ نہیں، لہذا جس شخص نے یہ تحریر لکھ کر اجماع کوتوڑنے کی کوشش کی ہے اور جن باتوں کوبنیاد بناکر اس نے یہ موقف دیاہے تو حقیقت میں اس کا جواب نہ بھی لکھاجائے تب بھی اس کی تحریر اپنی آپ موت ہی مرجائیگی، لیکن پھربھی اس کی تحریر کے دلائل کوذکرکرکے ہم جواب دے ہی دیتے ہیں۰
شیعہ موصوف نے صحیح بخاری کوامام بخاری کی کتاب نہ ہونے کے لئے درج ذیل باتیں ذکرکی ہیں:
۱- صحیح بخاری کے متن میں بہت سارے ایسے نصوص ہیں جو اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ کتاب کل کی کل بخاری کی جمع کردہ نہیں بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس میں من موافق اضافات کیے ہیںدنیا میں
۲-صحیح بخاری کی صرف ایک ہی متصل سند ہے۔
۳-یہ حکایت کہ:”صحیح بخاری کونوے ہزارلوگوں نے امام بخاری سے سناہے” غیرثابت اورضعیف ہے۔
۴-محمدبن یوسف فربری راوی کی توثیق محل نظرہے۔
۵-خود فَرَبْری کاامام بخاری سے سماع صحیح بخاری ہی مشکوک وغیرثابت ہے۔
( گویایہ روایت بھی منقطع ہے )
نتیجتا صحیح بخاری کسی ایک بھی متصل وصحیح سند سے ثابت نہیں!اناللہ واناالیہ راجعون!

اولا: موصوف نے اس تحریر میں فی الحال ایسی نصوص ذکرنہیں کیں کہ جوصحیح بخاری کو مشکوک کردیتی ہوں، بلکہ -جیساکہ ان کے کلام سے ظاہرہے- یہ تحریر بطورتمہیدکے ہے، اور آنے والی اپنی تحریر میں وہ ان نصوص کوذکرکرکے اپنے موقف کوواضح کرینگے۔لہذا اس بات سے فی الوقت ہم بھی خاموش ہی رہتے ہیں۰

ثانیا: موصوف نے جو باقی اعتراضات پیش کئے ہیں، یہ بھی انہی کی اختراع ہی ہیں، اگر صحیح بخاری ، امام بخاری کی کتاب نہ ہوتی تو یہ پوری امت تواتر کے ساتھ اسے امام صاحب کی طرف منسوب کرتی چلی آرہی ہے، لوگوں نے سینکڑوں کی تعداد میں اس پر شروحات لکھیں،اس کے رجال پر مستقل تالیفات لکھنا وغیرہ وغیرہ اس طرح کی دیگرتحقیقات کے ساتھ اس پربے شمار کام ہوچکے ہیں، اورمزید پروجیکٹ پر بھی کام جاری وساری ہے، تو کیاسب کچھ فضولیات کے باب میں سے ہے،،؟خود امام صاحب سے اسانید صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ کتاب امام بخاری کی ہے، سچ تویہ کہ اس پر دلیل دیتے ہوئے یا اس کی امام صاحب کی طرف نسبت کوثابت کرتے ہوئے ہمیں شرم سی محسوس ہورہی ہے، لیکن معترض کی جرات دیکھئے جن ائمہ عظام نے صحیح بخاری پر امام صاحب کی جلالت علمی اوربزرگی اور صحیح بخاری کی اہمیت وشرف کے پیش نظر شروحات لکھیں یاان پرکام کیاہے انہیں ائمہ سے اقوال نقل کرکے ناسمجھی میں ان سے اپنا جڑتو مفہوم اخذکرتے ہوئے امام بخاری کی طرف اس نسبت کے منکرہورہے ہیں، بھلا ابن حجر بھی (کہ جس نے ایک لمبا عرصہ صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے گذاردی اور پھر “لاھجرة بعد الفتح ولاشرح بعد الفتح” جیسے اعزازات سے نوازدی گئی) ایسی کوئی بات کہہ سکتے ہیں یاان کے متعلق یہ گمان کیاجاسکتاہے کہ : صحیح بخاری جن اسانید سے مروی ہے ان میں سے صرف ایک ہی سند متصل ہے باقی تمام اسانید میں انقطاع ہے،،،؟؟ موصوف کی تحریر سے واضح ہورہاہے کہ یاتوعربیت سے ناواقف ہیں یاپھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے:
“فان کنت لاتدری فتلک مصیبة، وان کنت تدری فالمصیبة اعظم”
اب یہ موصوف نے ہی فیصلہ کرناہے کہ آیا وہ عربی سے ناواقف ہیں یاپھر جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لیاگیاہے، یہ ہم موصوف پر ہی چھوڑتے ہیں، تاکہ بدگمانی سے بچاجاسکے،

ثالثا: ہم نے اندازہ لگایاکہ موصوف کویہ ہی معلوم نہیں کہ کتاب کی نسبت کے کیاکیااصول ہوتے ہیں، وہ کونسی باتیں ہیں جن سے کسی کتاب کی نسبت ثابت ہوتی ہے، اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ راوی کی توثیق کے لئے کون کون سے ذرائع ہیں، اپنے تئیں گفتگو کرکے سمجھ لیاکہ اس نے صحیح بخاری پر بڑی مضبوط گرفت کی ہے، دوسرے الفاظ میں آج تک ساری امت دھوکہ کھاتی رہی، محض موصوف پر ہی انکشاف عظیم ہواہے کہ صحیح بخاری توامام بخاری کی کتاب ہی نہیں،کہتے ہیں کہ سمجھنے کے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جناب! کچھ توعقل سے کام لیتے نقل میں اگرمہارت نہیں رکھتے۰
۰۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰قسط دوم


۰۰( ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی)

( اعتراضات وجوابات)
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:

(اعتراض:۱)صحیح بخاری کی صرف ایک ہی متصل سند ہے
فرماتے ہیں:
“صحیح بخاری کو امام بخاری سے فقط ایک متصل سند سے ہی روایت کیا گیا ہے چنانچہ سب سے بڑے شارح بخاری حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ
*ﻭﺍﻟﺮﻭﺍﯾﺔ ﺍﻟﺘﯽ ﺍﺗﺼﻠﺖ ﺑﺎﻟﺴﻤﺎﻉ ﻓﯽ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﻋﺼﺎﺭ ﻭﻣﺎ ﻗﺒﻠﻬﺎ ﻫﯽ ﺭﻭﺍﯾﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﻄﺮ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ ﺍﻟﻔﺮﺑﺮﯼ*
ﻫﺪﯼ ﺍﻟﺴﺎﺭﯼ ﻣﻘﺪﻣﺔ ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺷﺮﺡ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ، ﺝ 2 ، ﺹ 1314
اور وہ روایت جو سماعت کے اتصال کے ساتھ اس دور اور اس سے پہلے کے زمانے میں پہنچی ہے وہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر فربری کی روایت ہے۔
معلوم ہوا یہ کتاب فقط ایک متصل سند رکھتی ہے”
نیز موصوف کے نزدیک یہ سند بھی متصل نہیں، اس میں بھی امام بخاری اورفربری کے مابین انقطاع ہے، یعنی فربری کاامام بخاری سے سماع ثابت نہیں، جیساکہ آئندہ سطور میں بیان ہوگا.

جواب!موصوف نے حافظ ابن حجرعسقلانی سے ان کاکلام نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابن حجر کے نزدیک صحیح بخاری کی صرف ایک ہی سند متصل ہے، اور باقی اسانید میں انقطاع ہے” تو یہ موصوف کی اظہرمن الشمس غلطی ہے، ابن حجر نے قطعا قطعا قطعا یہ نہیں کہا جوموصوف فرمارہے ہیں، موصوف نے تو سرے سے درست ترجمہ بھی نہیں کیا، اس لئے غلطی کربیٹھے، ہم دوبارہ ابن حجر کاکلام مع ترجمة موصوف نقل کرکے وضاحت کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
“ﻭﺍﻟﺮﻭﺍﯾﺔ ﺍﻟﺘﯽ ﺍﺗﺼﻠﺖ ﺑﺎﻟﺴﻤﺎﻉ ﻓﯽ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﻋﺼﺎﺭ ﻭﻣﺎ ﻗﺒﻠﻬﺎ ﻫﯽ ﺭﻭﺍﯾﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﻄﺮ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ ﺍﻟﻔﺮﺑﺮﯼ”
موصوف نے اس عبارت کایوں ترجمہ کیاہے:
“اور وہ روایت جو سماعت کے اتصال کے ساتھ اس دور اور اس سے پہلے کے زمانے میں پہنچی ہے وہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر فربری کی روایت ہے”۔
یہ ترجمہ بلکل غلط ہے، نیز ابن حجر نے تو سرے سے اتصال وانقطاع کی بات ہی نہیں کی جوموصوف یہ نتیجہ اخذکررہے ہیں، موصوف یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ابن حجر کے بقول صحیح بخاری امام فربری کے طریق کے علاوہ کسی متصل طریق سے مروی نہیں، ابن حجرکے نزدیک دنیامیں صرف فربری کی ہی روایت متصل ہے، باقی جتنے طرق سے بھی صحیح بخاری مروی ہے ان میں انقطاع ہے،
دراصل ابن حجر یہاں محمدبن یوسف فربری کے طریق سے مروی صحیح بخاری کی حیثیت بتارہے ہیں کہ :
“ان ادوار اور ان سے قبل کے زمانہ میں (صحیح بخاری کی ) جو روایت سماع کے ساتھ متصل ہے وہ محمدبن یوسف بن مطر بن صالح بن بشرفربری کی روایت ہے”
آپ کے کہنے کایہ مقصد ہے کہ امام فربری کی روایت سے مروی صحیح بخاری سماع در سماع ہم تک پہنچی ہے، ان کے علاوہ باقی روایات کی کیفیت یہ نہیں، بلکہ وہ اجازتا وسماعا مروی ہے، کہ کہیں اجازہ ہے اور کہیں سماع۰ ہر طبقہ مسلسل بالسماع کے ساتھ اگر ہے تو وہ امام فربری کاہی طریق ہے،تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ امام بخاری سےجن لاتعداد لوگوں نے صحیح بخاری سنی یاروایت کی ہے، اس وقت دنیامیں صرف بانچ لوگوں یاتلامذہ کانام ملتاہے:
۱- ابراہیم بن معقل النسفی(۲۹۵ ھ)
۲- حماد بن شاکر النسفی(۳۱۱ھ)
۳- محمدبن یوسف فربری(۳۲۰ھ)
۴- ابوطلحة البزدوی(۳۲۹ھ)
۵- ابوعبداللہ المحاملی(۳۳۰)
تو ان روایات میں سے صرف محمد بن یوسف فربری کی روایت مسلسل بالسماع کی صفت سے متصف ہے، یعنی امام فربری نے صحیح بخاری کا درسا وسماعا امام بخاری سے سماع کیا اور انہیں اجازہ ملا، اسی طرح امام فربری نے اپنے تلامذہ کو صحیح بخاری درسا وسماع روایت کی، اسی طرح ان کے تلامذہ نے صحیح بخاری کو درسا وسماعا آگے بیان کیا، گویاامام فربری کی روایت سے اسی طرح مسلسل صحیح بخاری اساتذہ وتلامذہ آگے درسا وسماعا بیان کرتے رہے تاآنکہ ابن حجرکادورآیا،اس روایت کے برعکس باقی روایات ایسی نہیں ، وہ ہرطبقہ مسلسل بالسماع سے متصف نہیں، بلکہ روات کہیں پر درسا وسماعابیان کرتے ہیں تو کہیں بغیرسماع کئے صرف اجازہ پر ہی اکتفاء کرتے ہیں، چونکہ کسی کتاب کا محض اجازہ کاہونا مرتبہ میں کم ہے، اور سماع کا مرتبہ زیادہ ہے، لیکن کسی کتاب کاسماع ہو یاصرف اجازہ ، دونوں روایات متصل ہی ہونگی، یہ نہیں کہ سماع والی روایت متصل ہواور اجازہ والی روایت منقطع ہو، استاد صاحب نے بغیرسماع کے اپنے شاگرد کو اپنی کسی کتاب کااجازہ دیدیاتو اتناہی کافی ہے، وہ شاگرد اپنے استاد سے اس کتاب کوروایت کرسکتاہے، اور وہ سند متصل کی متصل ہی رہیگی، نہ کہ منقطع ، جیساکہ اللکفایة للخطیب ، مقدمہ ابن الصلاح وغیرہا اصول حدیث کی کئی کتب میں بالتفصیل مذکورہے، توجناب! ابن حجر نے تو کسی انقطاع کی بات نہیں کی، بلکہ وہ توصرف امام فربری کی روایت کی خصوصیت بتارہے ہیں کہ صرف وہ مسلسل بالسماع ہم تک پہنچی ہے جبکہ باقی روایات کی یہ کیفیت نہیں، بلکہ کہیں سماع ہے ،تو کہیں محض اجازہ دیکر صحیح بخاری کوروایت کیاگیاہے، اور جومحض اجازہ سے مروی ہیں وہ بھی متصل ہی ہیں، انہیں کوئی عقلمند یااصولوں سے واقف کامنقطع قرار نہیں دیگا.
ویسے بھی کتب رجال واسانید ہمارے ہاں متوفر ہیں، موصوف ان کتب کامراجعہ کرکے ابن حجر کی اس بات کی تصدیق فرماسکتے ہیں کہ امام فربری کی روایت سے مروی صحیح بخاری کیسی ہے اور امام بخاری کے باقی تلامذہ کی روایات کیسی ہیں،، ابھی تک بحمداللہ تعالی سب کچھ موجود ہے.
جب یہ کلئیرہوگیاکہ ابن حجر کسی بھی طرح صحیح بخاری کی روایات کو منقطع نہیں کہہ رہے بلکہ وہ صرف ان روایات کی کیفیت بیان فرمارہے ہیں، تو جناب سے گذارش ہے کہ اگر ابن حجر پر اعتماد کرتے ہوئے آپ صحیح بخاری کی اسانید کومنقطع قرار دے رہے تھے تو اب آپ براہ کرم ان پر اعتماد کل کرتے ہوئے صحیح بخاری کی روایات کو متصل مان لیں، ورنہ “میٹھا میٹھا ہڑپ - کڑوا کڑوا تھو” ہم سمجھیں گے کہ آپ نے محض مقصد کی برآری کے لئے ابن حجر کادامن پکڑا تھا، ناکہ حق کی تلاش اور حق کوحاصل کرنے کے لئے ، لہذا جرات کیجئے اور اپنے اختراعی دعوی سے باز آئیے.
(اعتراض :۲)فَرَبْری کاامام بخاری سے سماع صحیح بخاری ہی مشکوک وغیرثابت ہے۔
کہتے ہیں:

“یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فربری کی ولادت 231 ہجری کو ہوئی اورامام بخاری کی وفات 256 ہجری ہے بخاری کی وفات کے وقت فربری کی عمر 26 سال بنتی ہے، فربری نے بخاری سے اس کتاب کو کب سنا کہاں سنا کتنے عرصے میں سنا اس کے متعلق کوی قابل اطمینان روایت نظر سے نہیں گزری بلکہ ذہبی نے ایک قول نقل کیا ہے کہ
ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ " ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ " ﻓﻲ ﺳﻨﺔ ﺛﻤﺎﻥ ﻭﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ ، ﻭﻣﺮﺓ ﺃﺧﺮﻯ ﺳﻨﺔ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ ﻭﺧﻤﺴﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ
فربری نے کہا کہ میں نے جامع کو سن 248 میں سنا اور دوبارہ 252 کو سنا
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 12
مگر ذہبی نے یہ قول بغیر سند کے نقل کیا ہے ہماری نظر سے اس کی کوی سند نہیں گزری اگر کسی دوست کو ملے تو برائے مہربانی ہمیں بھی بتادے ؟؟”
موصوف کاکہناہے کہ :امام فربری نے امام بخاری سے صحیح بخاری کو کب ، کہاں اور کتنے عرصہ میں سنا اس کے متعلق کوی قابل اطمینان روایت نظر سے نہیں گزری ، البتہ ذہبی نے ایک قول نقل کیا ہے کہ
ﻗﺎﻝ : ﺳﻤﻌﺖ " ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ " ﻓﻲ ﺳﻨﺔ ﺛﻤﺎﻥ ﻭﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ ، ﻭﻣﺮﺓ ﺃﺧﺮﻯ ﺳﻨﺔ ﺍﺛﻨﺘﻴﻦ ﻭﺧﻤﺴﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ
فربری نے کہا کہ میں نے جامع کو سن 248 میں سنا اور دوبارہ 252 کو سنا
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 12
مگر ذہبی نے یہ قول بلاسندذکرکیاہے، لہذا اس کی کوئی حیثیت نہیں

جواب: جب دلائل سے ثابت ہے کہ فربری کاامام بخاری سے سماع ثابت ہے تو آخر آپ نے یہ کس بنیاد پر شرط رکھ دی ہے کہ اس سماع کا زماں ومکاں کیاہے،،؟؟؟ حیرت ہے! اس حوالے سے کیاآپ کسی ایک بھی محدث سے تصریح پیش کرسکتے ہیں کہ سماع کازماں ، مکاں اور عرصہ بھی ضرورقیدمیں لایاگیاہو، بھلا جب یہ واضح ہوگیا کہ فلاں شخص یاراوی جس سے روایت کررہاہے اس کا اس نے ادراک بھی کیاہے یعنی زمانہ پایاہے ، اس سے اس کاسماع ممکن ہے ، وہ سن تمیز کوپہنچ چکا ہے کہ روایت بیان کرسکے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے یقینی طورپراپنے شیخ سے سماع کیاہے تو ایسے میں اس قسم کے لایعنی اعتراضات آخرکیونکہ قابل مسموع اور قابل التفات ہوسکتے ہیں،
اور یہ یاد رہے کہ بے شمار ائمہ کے اسماء ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے صراحت کردی ہے کہ فربری نے امام بخاری سے صحیح بخاری کاسماع کیاہے، اگر ضرورت پڑی تو ان تمام ائمہ سے باحوالہ تصریحات بھی پیش کی جائینگی، ان شاء اللہ العزیز
ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب! حجت نہ آپ ہیں اور نہ ہی آپ کے بیان کردہ یہ کمزوراوربودے اعتراضات ۰آپ اگر اصولوں کی زبان بول رہے ہیں تو اصولوں کالحاظ بھی کرناسیکھئے، اپنے تئیں جودل میں آئے اسے اگلنے کی زحمت اور کوشش نہ فرمائیں، آپ اپنے اس اعتراض کو ائمہ سے ثابت کریں، کہ واقعتا سماع کے ثابت ہوجانے کے بعد بھی اگلامرحلہ زماں ومکاں وغیرہ کے اثبات کاہے، رہی ذہبی والی نقل تو آپ کواگر ذہبی کے علاوہ کسی اور سے نہیں ملی توہم آپ کو بتادیتے ہیں،دراصل یہ قول امام ابونصرکلاباذي(۳۱۳ھ -۳۹۸ھ) مصنف کتاب :الھدایة والارشاد فی معرفة اھل الثقة والسداد الذین اخرج لھم البخاری فی جامعہ “کاہے، اسے امام ابوعلی الجیانی نے “تقیید المہمل:۱/ ۶۴) میں ، ابن رشید نے “افادة النصیح :۱۲۶) میں، اور امام ابن نقطة نے “التقیید:) میں ذکرکیاہے، اتناجلدی آپ کوئی فیصلہ نہ دیاکریں، ذمہ داری کاثبوت دیناچاہئے۰

البتہ یہ نص یانقل منقطع ہونے کی بناپر قابل اعتماد نہیں، کیونکہ امام کلابازی اور فربری کے مابین انقطاع ہے، امام فربری ۳۲۰ھ میں فوت ہوئے ہیں جبکہ امام کلابازی کاسن ولادت ۳۲۳ھ ہے، گویاامام کلابازی ، امام فربری کی وفات کے تین سال بعد پیدا ہوئے ہیں، لہذا انقطاع واضح ہے.
مگر ہم صحیح سند کے ساتھ آپ کا یہ اعتراض بھی دور کئے دیتے ہیں کہ فربری نے کب اور کہاں سماع کیا،،،؟
۰۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰قسط سوم


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)

(امام فربری کاامام بخاری سے سماع)

امام فربری نے امام بخاری سے صحیح بخاری کاتین دفعہ سماع کیاہے،

ابوعبداللہ غنجار “تاریخ بخاریٰ” میں فرماتے ہیں :
“سمعت اباعلی اسماعیل ابن محمد بن احمد بن حاجب یعنی الکشانی یقول : سمعت محمد بن یوسف ابن مطر یقول : سُمِعَ الجامع الصحیح من ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل فی ثلاث سنین:فی سنة ثلاث وخمسین،واربع وخمسین ، وخمس وخمسین ومائتین، وسمعت من علی بن خشرم سنة ثمان وخمسین ومائتین وانابفربر مرابطا”
مصنف کتاب “تاریخ بخاریٰ” ابوعبداللہ غنجار فرماتے ہیں:
“میں نے محمد بن یوسف فربری سے یہ کہتے ہوئے سناکہ : فربر میں امام بخاری سے (ان کی ) الصحیح کاتین بار سماع کیاگیاہے، ۲۵۳ھ ۲۵۴ھ اور ۲۵۵ھ میں، اور میں نے علی بن خشرم سے سنہ ۲۵۸ ھ فربرمیں صحیح بخاری کاسماع کیاتھا، یہ وہ وقت تھا جب میں فربر میں جہاد کے سلسلہ میں موجود تھا”
[التقیید:۱/ ۱۳۲، لابن نقطة]
اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے، امام فربری کے شاگرد ابوعلی اسماعیل الکشانی کی حافظ ذہبی نے یہ کہتے ہوئے : الشيخ المسند الصدوق أبو علي إسماعيل ،،،توثیق کی ہے.
(السیر:۱٦/ ٤٨١) للذہبی.
مصنف تاریخ بخاری بھی ثقہ ، محدث اور حافظ ہے،
توضیح: یہاں دوباتیں پیش خدمت ہیں :
اولا: اس نص میں دوباتیں ہیں:
۱- عبارت میں مذکوریہ الفاظ (سمع) فربری اپنے سماع کے بارے کہہ رہے ہیں(اس صورت میں ان الفاظ کاضبط اس طرح ہوگا(سَمِعَ) یا
۲- امام بخاری کے سماع بارے بتارہے ہیں کہ اس مدت میں جن طلاب پرصحیح بخاری کاسماع ہوا، اوراس صورت میں ان الفاظ کاضبط اس طرح سُمِعَ)ہوگا۰
بہرحال ! اسے سَمِعَ ماضی معلوم سمجھیں کہ فربری اپنے سماع کے متعلق کہہ رہے ہوں یاسُمِعَ ماضی مجہول کہ فربری دوسرے طلاب علم پر سماع کے بارے کہہ رہے ہوں،دونوں احتمالات کے باوجود فربری کاسماع بعید نہیں،کیونکہ فربری جیسا شخص بلاشبہہ جو صحیح بخاری کے ساتھ خاص اہتمام رکھتاہو وہ آخر کیونکہ سماع صحیح بخاری کی مجلس کو مسلسل تین سال ترک کرسکتاہے خصوصا یہ مجلس ان کے اپنے گاؤں (فربر) منعقد ہورہی تھی۰
ثانیا: “تاریخ بخاریٰ” میں فربری کے مذکورہ الفاظ واحد مذکر غائب کے صیغہ (سمع) کے ساتھ مذکور ہیں، جبکہ :افادة النصیح کے حاشیہ میں امام کلاباذی کے مذکورہ کلام کے حاشیہ میں ہے:
“اخبرنا ابن الفراء بقرائتی علیہ بالجامع المظفری فی الصالحیة عن ابی نقطة الحافظ انہ ذکرعن الفربری انہ سمع الصحیح من البخاری بفربر فی ثلاث سنین:سنة ثلاث وخمسین ، واربع وخمسین، وخمس خمسین(ای ومائتین) ...ثم وقفت علی ذالک فی المجلس الخامس من امالی ابی بکر محمدبن منصورالسمعانی فی نسختی التی بخط عیسیٰ الرعینی الضابط ۰ ونص ماذکر: قال الفربری: سمعتُ الجامع الصحیح من ابی عبداللہ بفربروکان یقرأ علیہ فی ثلاث سنین: فی سنة ثلاث وخمسین واربع وخمسین وخمس وخمسین۰طرة التجیبی نقلتھا من خطہ”
“کہ ہمیں ابن الفراء نے (ہم نے جامع مظفر میں ان پرقراءت کرتے ہوئے) ہمیں ابوبکر ابن نقطة سے خبردی کہ انہوں نے امام فربری سے ذکرکیاکہ : میں (فربری ) نے امام بخاری سے فربرمیں تین سال صحیح بخاری کاسماع کیا، ۲۵۳ھ ۲۵۴ھ ۲۵۵ھ ، اھ۰اس کے بعد پھر میرے پاس موجود امام منصور السمعانی کی کتاب :امالی “ کے نسخہ( جوعیسی الرعینی ضابط کے خط سے نقل شدہ ہے) کی پانچویں مجلس میری نظر سے گذری، اس میں ہے : فربری نے کہا: میں نے فربر میں امام بخاری سے جب کہ آپ پر اس کی قراءت کی جارہی تھی جامع صحیح کاتین بار سماع کیا، ۲۵۳ھ ۲۵۴ھ ۲۵۵ ھ”
[افادة النصیح:۱۷]
اب یہاں سے واضح ہوگیاکہ : التقیید “ لابن نقطہ کے ایک نسخہ میں صراحت ہے کہ مذکورہ سالوں میں امام فربری نے بھی خود صحیح بخاری کاامام بخاری سے سماع کیا،اسی طرح پھر امالی امام ابوبکرمنصور میں بھی فربری صیغہ واحد متکلم سے بیان کررہے ہیں کہ مذکورہ سالوں میں میں نے امام بخاری سے صحیح بخاری کاسماع کیا، گویا امام فربری کو فربر میں لگاتار تین سال صحیح بخاری کے سماع کی سعادت حاصل ہوئی تھی، ویسے :التقیید” لابن نقطة کےماقبل والے سیاق پر بھی تھوڑاساغورکیاجائے تو فربری کاہی سماع درست معلوم ہوتاہے، آپ دوبارہ اس سیاق کو ملاحظہ فرمائیں اس میں امام فربری صحیح بخاری کے دوسماعوں کے متعلق فرمارہے ہیں، ایک جو امام بخاری پر ہوا، دوسرا جو فربری نے علی بن خشرم سے کیا، گویا امام فربری اپنے سماع کے ہی متعلق فرمارہے ہیں کہ : میں نے امام بخاری سے فربر میں فلاں سالوں میں سماع کیا اور علی بن خشرم سے فلاں سال میں۔ یعنی وہ اپنے سماع کے وقت کے متعلق خبردے رہے ہیں، ورنہ اگر مذکورہ تینوں سالوں میں فربری نے امام بخاری سے سماع نہ کیاہوتا تو پھر امام بخاری کے سماع کے بعد علی بن خشرم والے سماع کا ذکر کیامعنی رکھتاہے،،،؟؟ گویا یہاں وہ اپنے سماع کے سالوں کاتذکرہ فرمارہے ہیں، اس طرح سیاق کلام بھی آپس میں مربوط ہوجاتاہے، والحمدللہ،
بات کی وضاحت کے لئے میں دوبارہ وہی کلام تھوڑے رد وبد کے ساتھ پیش کررہاہوں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے:
ابوعبداللہ غنجار فرماتے ہیں: میں نے محمد بن یوسف فربری سے یہ کہتے ہوئے سناکہ : میں نے فربر میں امام بخاری سے (ان کی ) الصحیح کاتین بار سماع کیاہے، ۲۵۳ھ ۲۵۴ھ اور ۲۵۵ھ میں، اور علی بن خشرم سے سنہ ۲۵۸ ھمیں، یہ وہ وقت تھا جب میں فربر میں جہاد کے سلسلہ میں موجود تھا”
[التقیید:۱/ ۱۳۲، لابن نقطة]
آگے چلئے! مجھے ایک اور بھی نص مل گئی ہے جس میں امام فربری اپنے سماع کے بارے بتلارہے ہیں کہ انہوں نے سن۲۵۳ میں امام بخاری سے صحیح بخاری کاسماع کیاہے۰
امام ابن خیر الاشبیلی فرماتے ہیں:
“واماروایة ابن السکن : فحدثنی بھاشیخنا ابوالحسن یونس بن محمد بن مغیث ، رحمہ اللہ، قراءة منی علیہ، قال : حدثنی بھاالقاضی ابوعمر احمدبن محمد ابن الحذاء التمیمی سماعا علیہ بقراءة ابی علی الجیانی ، قال : حدثنا بھاابومحمد عبداللہ بن محمد بن اسد الجھنی قراءة علیہ سنة اربع وتسعین وثلاث مئة ، قال : حدثنا ابوعلی سعیدبن عثمان بن السکن الحافظ فی منزلہ بمصر سنة ثلاث واربعین وثلاث مئة ، قال : حدثنا محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بِشر الفربری بفربر من ناحیة بخاریٰ ، قال:حدثنا ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراھیم الجعفی البخاری سنة ثلاث وخمسین ومئتین”
[فہرسة ابن خیر الاشبیلی: ۱۳۲]
اس کے بعد امام ابن خیر الاشبیلی نے اصیلی کی روایت بھی ذکرکی ہے ، اس میں بھی سن ۲۵۳ ھ میں ان کے سماع کاتذکرہ ہے، جیساکہ اٹیچ کئے گئے صفحہ سے ظاہر ہے۰
اب یہاں سے بھی واضح ہوگیاکہ گویا امام فربری نے بھی مذکورہ سالوں میں صحیح بخاری کاسماع کیا ہے، والحمدللہ علی ذالک۰
خلاصہ کلام! امام فربری کاصحیح بخاری کاامام بخاری سے ثابت ہے،
۱- ائمہ کرام کی تصریحات سے
۲- معجم اور فہارس الکتب سے
۳- اخبار وروایات سے
اور ان کے سماع کا انکار ایک معاند اور اورمکابر ہی کرسکتاہے، اہل حق وصاحب ذوق نہیں۰
۰۰( جاری ہے)
FB_IMG_1555747423032.jpg
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط چہارم)


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)
(اعتراض :۳)
محمدبن یوسف فربری راوی کی توثیق محل نظرہے۔

فرماتے ہیں :
“کیا بخاری شریف کا مرکزی راوی ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﻄﺮ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ ﺍﻟﻔﺮﺑﺮﻱ موثق ہے؟
ہم نے اوپر اس کا ذکر کیا تھا کہ اہل سنت کے یہاں بخاری کا جو نسخہ رائج ہے اور یہی وہ نسخہ ہے جس کی سند بخاری تک متصل سماعت سے پہنچتی ہے،
*مگر کیا بخاری کا یہ مرکزی راوی ثقہ ہے؟* جہاں تک ہمیں معلوم ہے سب سے پہلے اس کی توثیق ذہبی نے ابوبکر سمعانی کی کتاب امالی سے نقل کی ہے
*ﺃﺭﺥ ﻣﻮﻟﺪﻩ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺍﻟﺴﻤﻌﺎﻧﻲ ﻓﻲ " ﺃﻣﺎﻟﻴﻪ " ﻭﻗﺎﻝ : ﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻭﺭﻋﺎ*
ابوبکر سمعانی نے اپنی امالی میں اس کی سنہ وفات نقل کی ہے اور کہا کہ ثقہ ہے
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 11
مگر یہ توثیق کافی نہیں ہے کیونکہ خود فربری کے ہم عصر علماء میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے
ابوبکر سمعانی کی کتاب امالی آج موجود نہیں ہے لہذا معلوم ہی نہیں اس نے فربری کی توثیق کس سے نقل کی ابوبکر سمعانی اور فربری کے درمیان طویل عرصہ کا فاصلہ ہے، امام ذہبی نے فربری کا سنہ وفات 320 ذکر کیا ہے
*ﻣﺎﺕ ﺍﻟﻔﺮﺑﺮﻱ ﻟﻌﺸﺮ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻦ ﺷﻮﺍﻝ ﺳﻨﺔ ﻋﺸﺮﻳﻦ ﻭﺛﻼﺛﻤﺎﺋﺔ*
سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 13
جبکہ ابوبکر سمعانی کا سنہ ولادت 467 ذکر کیا ہے
*ﻣﻮﻟﺪﻩ ﻓﻲ ﺳﻨﺔ ﺳﺒﻊ ﻭﺳﺘﻴﻦ ﻭﺃﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ*
سیر اعلام النبلاء ج 19 ص 372
دونوں کے درمیان 147 سال کا فاصلہ ہے
*ابوبکر نے نہ فربری کو دیکھا نہ اس کے کسی شاگرد کو معلوم نہیں یہ توثیق کس بنا پر کی ہے؟*
علمائے اہل سنت نے ابوبکر سمعانی کو علمائے جرح و تعدیل میں بھی شمار نہیں کیا بلکہ اس کی خود کی بھی توثیق مشکوک ہے چنانچہ اس کے بیٹے ابو سعد عبدالکریم سمعانی نے اس کی توثیق کچھ یوں نقل کی ہے
*ﻛﺎﻥ ﻭﺍﻟﺪﻩ ﻳﻔﺘﺨﺮ ﺑﻪ ﻭﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺀﻭﺱ ﺍﻷﺷﻬﺎﺩ ﻓﻲ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﻹﻣﻼﺀ : ﺍﺑﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻋﻠﻢ ﻣﻨﻲ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﻣﻨﻲ، ﺗﻔﻘﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺑﺮﻉ ﻓﻲ ﺍﻟﻔﻘﻪ، ﻭﻗﺮﺃ ﺍﻷﺩﺏ ﻋﻠﻰ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻭﻓﺎﻕ ﺃﻗﺮﺍﻧﻪ ﻭﻗﺮﺽ ﺍﻟﺸﻌﺮ ﺍﻟﻤﻠﻴﺢ ﻭﻏﺴﻠﻪ ﻓﻲ ﺁﺧﺮ ﺃﻳﺎﻣﻪ* اس کا والد اس پر فخر کرتا تھا اور اپنی مجلس املا میں کہتا تھا کہ میرا یہ بیٹا محمد مجھ سے بھی زیادہ عالم اور افضل ہے ،،،،،،،
الانساب ج 3 ص 300
مگر یہ توثیق بھی ناکافی ہے کیونکہ ابو سعد سمعانی نے اس قول کی کوی سند بیان نہیں کی ہے جبکہ ابو سعد سمعانی نے اپنے دادا منصور سے کچھ نہیں سنا اور نہ اس کو دیکھا ذہبی نے ابو المظفر منصور کا سنہ وفات 489 ذکر کیا ہے
*ﻭﺗﻮﻓﻲ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺍﻟﺜﺎﻟﺚ ﻭﺍﻟﻌﺸﺮﻳﻦ ﻣﻦ ﺭﺑﻴﻊ ﺍﻷﻭﻝ ﺳﻨﺔ ﺗﺴﻊ ﻭﺛﻤﺎﻧﻴﻦ ﻭﺃﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ*
سیر اعلام النبلاء ج 19 ص 119
جبکہ خود ابو سعد سمعانی کا سنہ ولادت 506 ذکر کیا ہے
*ﻭﻟﺪ ﺑﻤﺮﻭ ﻓﻲ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﺳﻨﺔ ﺳﺖ ﻭﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ*
سیر اعلام النبلاء ج 20 ص 456
یہاں تک کہ ابو سعد نے اپنے باپ ابوبکر سے بھی روایت نہیں کی ہے ذہبی نے ابوبکر سمعانی کا سنہ وفات 510 ذکر کیا ہے
*ﺗﻮﻓﻲ ﻓﻲ ﺻﻔﺮ ﺳﻨﺔ ﻋﺸﺮ ﻭﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﻦ ﺛﻼﺙ ﻭﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ*
سیر اعلام النبلاء ج 19 ص 373
جہاں تک بات متاخرین کی توثیق کی ہے جیسے امام ذہبی و حافظ ابن حجر وغیرہ یہ بھی ناکافی ہے، اور کسی راوی سے نقل روایت ہمیشہ اس کی توثیق کی دلیل نہیں ہوتی، اگر کسی دوست کو متقدمین میں سے فربری کی توثیق کے متعلق کسی کا قول ملے تو برائے مہربانی ہمیں بھی بتادے دے شکریہ
خلاصہ ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ امام ذہبی کی نقل کردہ توثیق کافی نہیں ہے نیز توثیق کرنے والا ابوبکر سمعانی بھی توثیق شدہ نہیں نہ اس کا شمار علمائے جرح و تعدیل میں ہے ۔
کیا فربری کی توثیق کیا متقدمین میں سے کسی نے کی ہے؟؟”
موصوف کے تفصیلی کلام کوہم درج ذیل شقوں میں تقسیم کرکے ترتیب وارجواب دیتے ہیں، ان شاء اللہ العزیز۔
۱- امام فربری کی اس کے ہم عصر ائمہ میں سے کسی نے توثیق نہیں کی۔
۲- امام ابوبکر سمعانی نے فربری کی توثیق کی ہے مگر اول تو وہ خود متاخر، غیرموثق ہے ، نیز اسے علماء جرح وتعدیل میں بھی شمار نہیں کیاگیا، اس لئے اس کی توثیق مقبول نہیں، اور پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے جب فربری کازمانہ ہی نہیں پایا تو آخرکس بنیاد پر فربری کی توثیق کی ہے،،؟؟؟ گویا ان کے نزدیک تعدیل بھی مفسر ہوناضروری ہے،!نیز حافظ ذہبی اور ابن حجر کی بھی توثیق بھی متاخر ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول اور مردود ہے۔

جواب: موصوف کے نزدیک کسی راوی جی جرح وتعدیل کرنے کے لئے معاصرت ولقاء شرط ہے، جارح اورمُعَدِّل نے اگر مُعَدَّل اورمجرُوح راوی کازمانہ نہیں پایااور نہ ہی اس سے متلاقی ہواتو ایسی جرح وتعدیل موصوف کے نزدیک ناقابل حجت اور مردودہے۔
ہم نے پہلے بھی کہاتھا اور اب بھی موصوف سے ہم ملتجی ہیں کہ جناب! حجت نہ آپ ہیں اور نہ ہی آپ کے یہ واہی اعتراضات۰ آپ محدثین سے ثابت کریں کہ جرح وتعدیل کے لئے معاصرت اور لقاء ضروری ہے،ہمیں معلوم ہواہے کہ آپ اہل السنة والجماعة کی کتب مثل علم الرجال ومصطلح الحدیث کاکثرت سے مطالعہ کرتے ہیں، اچھی بات ہے، مگر ہم حیران ہیں کہ آپ کو کہیں بھی یہ نظرنہیں آیا یاآپ نے کہیں بھی یہ نہیں پڑھاکہ ائمہ نقد کے ہاں راوی کی توثیق وتضعیف کے لئے معاصرت ولقاء مشروط نہیں، بلکہ اس کے برعکس کتب کتب احادیث ، مصطلح الحدیث ، کتب علم الرجال وغیرہا بھری پڑی ہیں کہ روات کی توثیق معاصرت ولقاء کے بغیربھی ممکن ہے، اور کئی ایک ائمہ نے گذرے ہوئے بیشمارروات کی جرح وتعدیل کررکھی ہے، چاہے کبار محدثین ہوں یاصغار، متقدمین ائمہ ہوں یامتاخرین، ائمہ متشددین یامعتدلین ومتساہلین ، تقریباتمام ائمہ نے اپنے سے ماقبل یعنی گذرے ہوئے روات کی جرح وتعدیل کی ہوئی ہے، صحیحین ہی کودیکھ لیجئے، ان میں بھی آپ کوایسے روات مل جائینگے جوشیخین کریمین کہ نہ ہم عصر ہیں اور نہ ہی وہ ان سے متلاقی ہوئے ہیں، اس کے باوجود بھی شیخین کریمین نے ان رجال وروات کی احادیث کواپنی کتب میں ذکرکرکے تصحیح کرتے ہوئے ان کی توثیق کرتے نظرآتے ہیں، اگر جرح وتعدیل کے لئے معاصرت ولقاء مشروط ہوتے تو یہ ائمہ کبھی بھی اس قسم کے روات کی توثیق نہ کرتے، ان ائمہ کے توثیق وتضعیف کے اس طرز سے انداز ہوتاہے کہ جرح وتعدیل کے لئے معاصرت ولقاء مشروط نہیں، ان کے بغیر بھی جرح وتعدیل ممکن ہے ۰
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ اگر معاصرت ولقاء کے بغیرروات کی توثیق وتجریح ممکن ہے تو اس کاطریقہ کار کیاہے، ؟؟ آخر یہ ائمہ کس طرح راوی کے احوال پر مطلع ہوتے ہوئے جرح وتعدیل کرتے ہیں، ؟؟ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے ذریعے غیرمعاصر روات کی توثیق کی جاتی ہے؟؟
عرض ہے کہ : ہم پہلے بھی اپنی تحاریر میں کئی دفعہ اس موضوع کوبیان کرچکے ہیں کہ جرح وتعدیل کے مختلف طریقے ہیں:
۔ راوی اپنی ثقاہت میں اس قدرشہرت رکھتاہو کہ جس کی توثیق کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
۔ راوی کی نصا (لقاء کرتے ہوئے) توثیق کی گئی ہو۔
۔ توثیق کے بعض دیگرذرائع
۔ راوی کی احادیث کاسبر وتتبع کرتے ہوئے توثیق کی جاتی ہے۔
عام طور زیادہ تر قلیل الروایة روات کی توثیق وتضعیف کرنے کامرحلہ مشکل ہوتا ہے، کثیرالروایة راوی کی شہرت کی بناپر توثیق وتضعیف کردی جاتی ہے یاکم ازکم اس کے تلامذہ ہی اس کی حیثیت کوواضح کردیتے ہیں، مگر اس کے برعکس قلیل الروایة راوی کی قلت احادیث وقلت تلامذہ کی بناپر جرح وتعدیل بڑی مشکل سے کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کتب رجال وغیرہا میں عام تور قلیل الروایة روات کا یاتو سرے سے ترجمہ ہی نہیں ملتا یاپھر ان کے متعلق ائمہ کاسکوت نظر آتاہے، اس کے بارے کوئی جرح وتعدیل نظرنہیں آتی۔
چونکہ حدیث کی تصحیح کے لئے راوی کی عدالت اور ضبط دونوں کا معلوم ہونا ضروری ہے، اگر عدالت مجروح ہے تو راوی کسی کام کانہیں، عدالت اور ضبط دونوں کا ہونا ضروری ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ محض راوی کے ضبط کی وجہ سے بھی راوی کی استقامت معلوم کی جاسکتی ہے، تفصیل کچھ یوں ہے جیساکہ عربی مقولہ ہے :یترشح الاناء بمافیہ “ کہ : برتن سے وہی کچھ بہیگاجواس میں ہوگا”
اس بات کوذہن میں رکھیں، ہم آگے بڑھتے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر جوکچھ ہوتاہے وہ بالآخر زباں پر ایک نہ ایک دن آہی جاتاہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ مختلف قسم کے فتنوں نے اٹھناشروع کردیاتھا، مادہ پرستی، عقل پرستی، فتنہ خوارج، فتنہ روافض ، سبائیت،ناصبیت، زیدیقیت ، صوفیاء کااحادیث گھڑنا، سیاسی محاذ اور جنگی لڑائیاں ،بدعات کاسلسلہ، عام ہونے لگا، لوگوں نے اپنے اپنے مذہب اور موقف کو تقویت دینے کے لئے اور مدمقابل فریق کے رد میں احادیث وضع کی جانے لگیں، اسماء وصفات کے حوالے سے احادیث کے اختراع کادور دورہ شروع ہوا، اب اگر ایساراوی نظر آیا جس کے بارے جرحاوتعدیلاسکوت کیاگیاہو، ائمہ نقد اس کی احایث کوجمع کرناشروع کردیتے ہیں، چونکہ عام تو پر مسکوت عنہم روات کی قلیل الروایہ ہونے کی احادیث کو ائمہ نقد کے لئے جمع کرنا کوئی مشکل امر نہیں، اس راوی کی احادیث کو جمع کرنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ اس نے کس قسم کی احادیث بیان کی ہیں، عقیدہ کے متعلق ہیں، فضائل پر ہیں، تاریخ پر ہیں، مغازی پر ہیں، سیرت کے متعلق ہیں، فقہی ہیں وغیرہ وغیرہ، ظاہر ہے اگر یہ شخص مذکورة الصدر فرقوں سے تعلق رکھتاہوگا، اوراپنے مذہب کوتقویت دینے کے لئے، دوسروں پر رد کرنے لئے، الغرض ! اپنے مذہب کی تائید میں احادیث گھڑنے کوجائز سمجھتاہوگا تو احادیث بھی اسی قسم کی ہی بیان کریگا، “یترشح الاناء بمافیہ” لہذا یہ تو ہوہی نہیں سکتاکہ ہوتو کذاب اور وضاع ، بدعقیدہ ، زندیق ، لیکن اپنےآراء کو ترویج نہ دیتاہوں، جواس کی ذہنیت ہوگی اسی طرح وہ احادیث بیان کریگا، اور آپ کے سامنے تاریخ بھری پڑی ہے کہ خوارج ، روافض ، سبائیوں، زندیقوں، صوفیوں ، سیاسی اختلافات رکھنے والے لوگوں نے کئی احادیث اور اخبار گھڑرکھی ہیں، جس کی مثالیں اہل علم پر مخفی نہ ہونگی، یہی وجہ ہے کہ دشمن کی دشمن پر گواہی قبول نہیں کی گئی، لہذاایسی صورت میں ائمہ نے راوی کی عدالت کو اہم قرار دیاہے،
اگر راوی اس قسم کے الزامات سے بری ہوجائےتو ایساراوی عدالت سے متصف ہوجائیگا، کہ اس کی عدالت میں کوئی کلام نہیں،یہ اس طرح ہے جیسے ہمیں اگر کسی متقدم شخص کا کلام مل جائے، ہم نے نہ اسے دیکھاہے اور نہ ہی وہ ہم سے متلاقی ہوا، محض اس کے کلام کودیکھ اور پڑھ کراس کی نوعیت معلوم کرلینگے کہ یہ شخص کن نظریات کامالک تھا،شاعر تھا، مؤرخ تھا، فلسفی تھا، عقل پرست تھا، مادہ پرست تھا، زندیق تھا، وغیرہ وغیرہ، علی ھذاالقیاس ہم محض کسی کے بیان کردہ کلام سے ہی اس کی ذہنیت معلومکرلیتے ہیں، بلکہ کسی حد تک اس کاضبط بھی معلوم کرلیاجاتاہے، دنیاکی ایجنسیز کوہی دیکھ لیں ! انہیں محض آدمی کے لہجے اور عادات واطوار سے ہی ذہنیت معلوم ہوجاتی ہے، پھر یہاں تو ائمہ نقد ہیں، جن کااٹھنا بیٹھنا لکھنا پڑھنا حدیث ہی تھا، وہ فرسان الحدیث تھے، وہ طبیب تھے، انہیں ظاہری اور مخفی کمزوریوں اوربےماریوں کاخوب علم تھا، اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ائمہ نقد محض کسی حدیث کو سن کر ، سلسلہ اسناد کو دیکھ کر ہی اس کی فنی حیثیت معلوم مرلیتے تھے، آج کل جولوگ ائمہ نقد پر اپنی گندی زبانوں کو بے لگام کرتے ہیں، کہ ائمہ کو حدیث کی صحت وقسم اورراوی کے حالات کیسے معلوم ہوجاتے تھے ، انہیں میری بیان کردہ تمام ترتفصیل پر غورکرنا چاہئے کہ اس وقت بھی گذرے ہوئے لوگوں کے محض احوال سے ان کی اصلیت معلوم کی جاسکتی ہے، یہ دنیاکی ایجنسیز لوگوں کے چہرہ کودیکھ کر ہی ان کی ذہنیت معلوم کرسکتے ہیں تو پھر ائمہ نقد پر یہ اعتراض کیوں؟؟؟ بہر کیف بات کہیں زیادہ تفصیل میں چلی گئی، تومیں عرض کررہاتھا کہ اس طرح ائمہ نقد راوی کی عدالت معلوم کرلیتے تھے،
باقی اس کاضبط رہ جاتاہے، تو اس کاضبط چیک کرنے کے لئے اس کی بیان کردہ احادیث کو ثقات کی احادیث پر پیش کرینگے، اگر تو وہ راوی اکثر احادیث میں ثقات کی موافقت کرتاہے اور شاذونادر مخالفت تو اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے ثقات وصدوق روات میں شامل کردیاجاتاہے ، اور اگر ایسے راوی کی بیان کردہ ساری کی ساری یااکثرروایات مخالفت اور مناکیر پر مشتمل ہوں تو ائمہ نقد معلوم کرلیتے ہیں کہ اس کاضبط ٹھیک نہیں، اسے پھر ضعیف قرار دیدیتے ہیں،اور اس طریقہ (یعنی راوی کی احادیث ثقات پر پیش کرکے اس کاضبط معلوم کرنے)کو محدثین نے سبرروایات الراوی کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، تفصیل آئندہ قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔
۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط پنجم)


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)

(روات کی روایات کے سبر اورتتبع کے ذریعے ائمہ نقد کا جرح وتعدیل کرنا)

۱- امام شافعی رحمہ اللہ
۔ آپ فرماتے ہیں :
“ إذا شرك أهل الحفظ في الحديث وافق حديثهم”
[الرسالة:۳۷۱]
۔ “والموافقة المشترطة هي الموافقة غالبًا ولو من حيث المعنى لروايات المتقنين الضابطين، ولا تضر المخالفة النادرة، فإن كثُرت فهي دليل على اختلال الضبط”
[تدریب الراوی:۲۰۰]
۔ “ویکون اذاشرک احدامن الحفاظ فی حدیث لم یخالفہ ، فان خالفہ وُجِدحدیثہ انقص : کانت فی ھذہ دلائل علی صحة مخرج حدیثہ”
[الرسالة:۴۶۳]
۲- امام ابن معین رحمہ اللہ
۔ آپ فرماتے ہیں:
“قال لي إسماعيل بن علية يومًا: كيف حديثي؟ قلت: أنت مستقيم الحديث، فقال لي: وكيف علِمتم ذاك؟ قلت له عارَضْنا بها أحاديث الناس، فرأيناها مستقيمة، فقال: الحمد لله”
[سؤالات ابن محرز ]
۔ إبراهيم بن الجنيد فرماتے ہیں کہ : قلت لابن معين محمد بن كثير الكوفي قال ما كان به بأس قلت إنه روى أحاديث منكرات قال ما هي قلت عن إسماعيل بن أبي خالد عن مقالتي وبهذا الإسناد يرفعه اقرأ القرآن ما هناك فإذا لم يهنك فلست تقرأه قال ومن يروي هذا عنه فقال رجل من أصحابنا فقال عيسى هذا سمعه من السدي فإن كان هذا الشيخ روى هذا فهو كذاب وإلا فإني قد رأيت حديث الشيخ مستقيما”
[سؤالات ابن الجنید:ص:۴۸۹]
۳-امام ابن الصلاح رحمہ اللہ
آپ فرماتے ہیں:
“يعرف كون الراوي ضابطًا بأن نعتبر رواياته بروايات الثقات المعروفين بالضبط والإتقان، فإن وجدنا رواياته موافقة، ولو من حيث المعنى لرواياتهم، أو موافقة لها في الأغلب، والمخالفة نادرة، عرَفنا حينئذ كونه ضابطًا ثبتًا، وإن وجدناه كثير المخالفة لهم، عرَفنا اختلال ضبطه، ولم نحتج بحديثه، والله أعلم
[علوم الحديث لابن الصلاح ص:۹۵،٩٦]

یہ اور اس طرح کی دیگرکئی ایک نصوص ائمہ نقد سے منقول ہیں کہ وہ راوی کی محض روایات کے ذریعے سے ہی راوی کاضبط چیک کرلیتے تھے کہ اس کاحافظہ درست اورقوی ہے کہ نہیں،یعنی اس کی احادیث کو ثقات کی احادیث پرپیش کرکے، آپ کو جابجاائمہ کے کلام میں نظرآئیگاکہ فلاں راوی کی احادیث ثقات کی احادیث کے مشابہ نہیں، یافلاں راوی احادیث فلاں ضعیف راوی کی بیان کردہاحادیث کے مشابہ ہیں:

۱-امام احمد محمد بن عباد المکی کے بارے میں فرماتے ہیں:حدیثہ حدیث اھل الصدق، وارجوالایکون بہ باس”
[العلل ومعرفةالرجال:۱، ۴۰۷]
۲-امام ابوزرعہ رازی سوید ابی حاتم کے متعلق فرماتے ہیں:
“لیس بالقوی، حدیثہ یشبہ حدیث اھل الصدق”
[الجرح والتعدیل:۳، ۲۳۷]
امام صاحب نے اس راوی کو اس کے ضبط کے خراب ہونے کی وجہ سے لیس بالقوی قراردیاہے، اور اس کی احادیث کوجواھل صدق کی احادیث کے مشابہ کہاہے تو وہ اس کی عدالت کے متعلق کہہ رہے ہیں، کہ راوی تو سچاہے، مگر حافظہ میں کمزوری کے باعث قوی نہیں۰
۳-امام دولابی شہربن حوشب کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
“شهر بن حوشب لا يشبه حديثه حديث الناس”(حدیث الناس: ای حدیث الثقات)
۴-امام ابن عدی حسن بن ابی الحسین البغدادی المؤذن کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
“منكرالحديث عن الثقات، ویقلب الاسانید،، لم ارلہ کثیرحدیث، ومقدارمارایتہ لایشبہ حدیثہ حدیث اہل الصدق”
[الکامل ]
۵-امام ابن حبان ہشام بن لاحق ابوعثمان المدائنی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
“منکرالحدیث ، یروی عن الثقات مالایشبہ حدیث الاثبات، لایجوزالاحتجاج بہ لمااکثرمن المقلوبات عن اقوام ثقات”
[المجروحین:۳،۹۱]
میں نے یہ چندمثالیں بطور مشتے نمونہ ازخروارے کے ذکرکی ہیں، کتب رجال اس طرح کی ائمہ عظام کی تصریحات سے بھری پڑی ہیں، حافظ مزی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب کے مراجعہ سے کئی مثالیں مل جائینگی، ان شاء اللہ العزیز،
تو مذکورہ امثلہ میں آپ دیکھیں!محدثین کرام واضح طور پر محض سبرروایات سے راوی کاضبط معلوم کررہے ہیں، ان کے سامنے ثقات روات کی احادیث بھی ہیں اور ضعفاء کی بھی، اب جس راوی کاانہیں ضبط چیک کرناہوتاہے تو انہیں عرض وسبرروایات سے معلوم ہوجاتاہے کہ اس راوی کی روایات کاانداز اورکیفیت فلاں ثقہ راوی کی طرح ہے، لہذا مرتبہ میں بھی یہ راوی اُس ثقہ راوی کے موافق ہے، اسی طرح کسی راوی کاضط چیک کرتے ہوئے
انہیں کسی ضعیف راوی کی روایات کے موافق لگیں تو اس سے انہیں معلوم ہوجاتاہے کہ یہ راوی ضعیف ہے اور یہ راوی بھی فلاں ضعیف راوی کے مرتبہ کاہے، یہ چیز توباقاعدہ ہمارے روز مرہ کے مشاہدہ میں بھی ہے، مثلا : کسی کے اشعار کاموازنہ کرکے معلوم کرلیاجاتاہے کہ اس کاانداز فلاں شاعرجیساہے، یافلاں شخص کے عادات واطورفلاں شخص جیسے ہیں، یافلاں شخص میں چور، ڈاکو، لٹیرا ، اور خونی کی صفات معلوم ہوتی ہیں، یافلاں شخص کی نقل کردہ باتیں اوپری لگتی ہیں، گویایہ جھوٹ بولتاتھا، علی ھذاالقیاس ائمہ نقد کے ہاں بھی توثیق وتضعیف کایہ انداز باتم پایاجاتے ہے، نیزعلمی بصیرت کے ساتھ ساتھ انہیں اللہ تعالی سے خاص مدد ونصرت بھی بطورنعمت کے ملی،وہ علم کے ساتھ ساتھ زہد ، تقوی ، اورپرہیزگاری کے درجہ کمال کوپہنچے ہوئے تھے، ایسے شخص پر اس قسم کی باتیں معلوم کرنے میں اللہ تعالی کی خصوصی شفقت ہوتی ہے،اتباع قرآن وسنت اور ان کے دفاع کی برکات کی وجہ سے اس کے دل کے دریچے کھل جاتے ہیں، اور اللہ تعالی کی دی گئی اس بصیرت کے ذریعے اسے لوگوں کی بیان کردہ احادیث سے معلوم پڑجاتاہے کہ فلاں راوی کس مقام ودرجہ کاہے، بہرکیف ! ہم نے ائمہ نقد کے اقوال اور ان سے نقل کردہ امثلہ سے اچھی طرح ثابت ہوگیاکہ جرح وتعدیل کے لئے معاصرت ولقاء ضروری نہیں، بلکہ روایات کے سبر وعرض سے بھی راوی کی عدالت اور ضبط معلوم کیاجاسکتاہے، اور اگر موصوف کواس پرمزید بھی اصرار ہوتو الزاما ہم بھی ان کے ایسے روات پیش کرسکتے ہیں کہ جن کی ان کے معاصرین سے توثیق ثابت نہیں، مگر قرائن کے ذریعے اس کی توثیق کی جاتی ہے، فی الحال ایک مثال پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
۱-ابراہیم بن ہاشم القمی شیعہ روایات کا بہت بڑا راوی ہے، چھ ہزار سے زیادہ روایات کا راوی ہے، اس کی اس کے معاصرین یا متقدمین میں سے کوئی توثیق نہیں ملتی، اس کو صرف قرائن کے ذریعے ثقہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پہلا قرینہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس کے بیٹے علی بن ابراہیم قمی نے اس سے روایت لی ہے اوروہ صرف ثقات سے روایت لیتا ہے،حالانکہ یہ توثیق دو وجوہ کی بناپر مردود ہے:
۱-موجودہ تفسیر قمی کی نسبت علی بن ابراہیم کی طرف سرے سے ہی غلط ہے۔کیوں کہ اس کی سند میں ایک راوی ہے :
ابوالفضل العباس بن محمد بن القاسم بن حمزة بن موسى بن جعفر
یہ راوی تفسیر قمی کو علی بن ابراہیم قمی سے روایت کر رہا ہے اور یہ راوی خود مجہول ہے۔ اس کی کہیں سے کوئی توثیق یا ترجمہ نہیں ملتا۔
۲- خود قمی کی توثیق کسی معاصر نے نہیں کی، اس کی توثیق سب سے پہلے نجاشی نے کی ہے، قمی 329 ھ میں فوت ہو رہا ہے اور نجاشی 450 ھ میں، اب معترض موصوف بتائیں کہ اس کی توثیق کہاں سے لائی جائیگی،،؟؟
ابراہیم بن ہاشم کی توثیق کا دوسرا قرینہ یہ دیا جاتا ہے کہ چوں کہ اس نے سب سے پہلے قم میں شیعہ کی حدیث نشر کی اور اہل قم سے یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ :چوں کہ وہ حدیث لینے میں بڑے سخت تھے تو اسی لئے ان کے پاس ایک ثقہ انسان ہی رہ سکتا ہے۔
نیز جعفر سبحانی کودیکھئے وہ کس طرح ابراہیم بن ہاشم کی توثیق کوثابت کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں، لکھتے ہیں:
إبراهيم بن هاشم والد علي بن إبراهيم القمي، فقد ادعى ابن طاووس الاتفاق على وثاقته.
فهذه الدعوى تكشف عن توثيق بعض القدماء لا محالة وهو يكفي في إثبات وثاقته.
بل يمكن الاعتماد على مثل تلك الاجماعات المنقولة حتى إذا كانت في كلمات المتأخرين، فإنه يكشف أيضا عن توثيق بعض القدماء لا محالة.
الخامسة: المدح الكاشف عن حسن الظاهر إن كثيرا من المدائح الواردة في لسان الرجاليين، يكشف عن حسن الظاهر الكاشف عن ملكة العدالة، فإن استكشاف عدالة الراوي لا يختص بقولهم: " ثقة أو عدل " بل كثير من الالفاظ التي عدوها من المدائح، يمكن أن يستكشف بها العدالة، وهذا بحث ضاف سيوافيك شرحه.
السادسة: سعي المستنبط على جمع القرائن إن سعي المستنبط على جمع القرائن والشواهد المفيدة للاطمئنان على وثاقة الراوي أو خلافها، من أوثق الطرق وأسدها، ولكن سلوك ذاك الطريق يتوقف على وجود قابليات في السالك وصلاحيات فيه، ألزمها التسلط على طبقات الرواة والاحاطة على خصوصيات الراوي، من حيث المشايخ والتلاميذ، وكمية رواياته من حيث القلة والكثرة، ومدى ضبطه، إلى غير ذلك من الامور التي لا تندرج تحت ضابط معين، ولكنها تورث الاطمئنان الذي هو عم عرفا ولا شك في حجيته، وبما أن سلوك هذا الطريق لا ينفك عن تحمل مشاق لا تستسهل، قل سالكه وعز طارقه، والسائد على العلماء في التعرف على الرواة، الرجوع إلى نقل التوثيقات والتضعيفات.
هذه الطرق مما تثبت بها وثاقة الراوي بلا كلام وهي طرق خاصة تثبت بها وثاقة فرد خاص، وهناك طرق عامة توصف بالتوثيقات العامة، تثبت بها وثاقة جمع من الرواة وسيأتي البحث عنها في الفصل القادم إن شاء الله”
[كليات في علم الرجال :۱،۱۳۶]
بہرحال جرح وتعدیل کے لئے اگر آپ معاصرت ولقاء کی شرط بھی لگائینگے تو پھر آپ کو بھی ایسے کئی روات سے ہاتھ دھوناپڑیگا جن سے آپ کے مذہب میں ہزاروں روایات مروی ہیں، لہذا آپ کے لئےبہتری اسی میں ہی ہے کہ آپ اتنی چھلانگ نہ لگائیں کہ درمیان میں ہی گرپڑیں۰
۰۰۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط ششم)


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)

{معاصرت ولقاء کے علاوہ توثیق کے دیگرذرائع}

ائمہ نقد کے ہاں معاصرت ولقاء کئے بغیرتوثیق کرنے کے دیگربھی کئی ذرائع ہیں، جن میں سے چند کایہاں تذکرہ کیاجاتاہے:
۱)- محدثین کی ایک اچھی خاصی لمبی فہرست ہیں جن کے بارے آتاہے کہ وہ صرف اورصرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، بعض کے بارے ان کے مشائخ کاتتبع کرکے فیصلہ دیاجاتاہے کہ وہ روایت لینے سختی اورتشدد سے کام لیتے ہیں، وہ ہرکسی سے روایت نہیں لیتے، بلکہ انتقاء یعنی چھان پھٹک کرکے ہی صرف ثقہ روات سے ہی روایت لیتے ہیں، اور بعض سے نصا ثابت اور منقول ہے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں،درج ذیل ان ائمہ کی فہرست دی جاتی ہے:
امام مالک
امام شعبہ بن الحجاج
امام یحیی بن سعید القطان
امام عبدالرحمن بن مہدی
امام احمد بن حنبل
امام عبداللہ بن امام احمد
امام بخاری
امام ابوزرعہ رازی
امام بقی بن مخلد الاندلسی

۔ امام مالک
بشر بن عمر الزهراني کہتے ہیں : سألت مالك بن أنس عن رجل نسيت ‏اسمه ؟ فقال : هل رأيته في كتبي ؟ قلت : لا قال : لو كان ثقة لرأيته في كتبي .
“میں نے امام مالک سے ایک شخص (جس کانام مجھے یاد نہیں) کے متعلق (جرحاوتعدیلا) سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: کیاتم نے اسے میری کتب میں دیکھاہے؟؟ میں نے جواب دیاکہ : نہیں! آپ نے فرمایا: اگروہ ثقہ ہوتا تو تم ضرور اسے میری کتب میں پاتے”
[الانتقاء: ۱۷]-[التمہید:۱، ٦٨]
‏ امام سفيان بن عيينة فرماتے ہیں : كان مالك لا يبلغ من الحديث إلا صحيحاً ، ولا يحدث إلا عن ثقات الناس “[الانتقاء :۲۱]
‏ نیز فرماتے ہیں: ومانحن عندمالک بن انس؟ انماکنانتبع آثارمالک وننظرالشیخ اذاکان کتب عنہ مالک کتبناعنہ”
[الانتقاء:۲۱]
امام أحمد فرماتے ہیں: مالك إذا روى عن رجل لم يُعرف فهو حجة “[الإمام في معرفة أحاديث الاحکام]
امام يحيى بن معين فرماتے ہیں:كل من روي عنه مالك بن أنس فهو ثقة إلا عبد الكريم البصري أبو أمية “
[تهذيب الكمال " ‏‏(27/112) ، “تهذيب التهذيب " (10/6) . ‏
‏ امام ابن عدي فرماتے ہیں: كفى بالراوي صدقاً إن حديث عنه مالك ؛ فإن مالكاً لا يروي إلا عن ثقة . " الكامل " ‏‏[6/125)
امام ابن حبان فرماتے ہیں: كان مالك أول من انتقى الرجال من الفقهاء بالمدينة ، وأعرض عمن ليس بثقة في ‏الحديث ، ولم يكن يروى إلا ما صح ، ولا يحدث إلا عن ثقة مع الفضل والنسك " الثقات " (7/459) .‏
۔ امام شعبہ بن الحجاج
امام ابوحاتم فرماتے ہیں: إذا رأيت شعبة يحدث عن رجل فأعلم أنه ثقة، إلا نفرا بأعيانهم”[تقدمة الجرح والتعدیل:۱۲۸]
۔ امام یحیی بن سعید القطان
امام أحمد بن عبد الله العجلي فرماتے ہیں : كان يحيى بن سعيد نقي الحديث ، لا يحدث إلا عن ثقة “[معرفة الثقات]
نیزآپ سے کسی راوی کے بارے پوچھاگیا تو آپ نے اسے ضعیف قراردیا، جس پرکہاگیا:”روى عنه يحيى بن سعيد القطان! فقال: خفي عليه ضعفه. والقطان ممن وصف بانتقاء الشيوخ وانه لا يروي الا عن ثقة”
۔ امام عبدالرحمن بن مہدی
امام احمد فرماتے ہیں : أبان بن خالد شيخ بصري لا بأس به كان عبد الرحمن يحدث عنه، وكان لا يحدث إلا عن ثقة [سؤالات ابی داؤد لاحمد:۳۳۸، ۳۳۹]
امام ابن حبان فرماتے ہیں:وکان من الحفاظ المتقنین واھل الورع فی الدین ممن حفظ وجمع وتفقہ وصنف وحدث ، وابی الروایة الاعن الثقات”[الثقات:۸، ۳۷۳]
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: “من عرف من حاله أنه لا يروي إلا عن ثقة ، فإنه إذا روى عن رجل ، وصف بكونه ثقة عنده ، كمالك وشعبة والقطان وابن مهدي وطائفة ممن بعدهم”
۔ امام احمد بن حنبل
امام سخاوی نے فتح المغیث میں صراحت کی ہے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کیاکرتے تھے، امام ابن عبدالہادی نے بھی امام صاحب کے بارے یہی رائے دی ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
فإن قيل : قد روى الإمام أحمد بن حنبل عن موسى بن هلال وهو لا
يروي إلا عن ثقة ، فالجواب أن يقال : رواية الإمام أحمد عن الثقات هو
الغالب من فعله والأكثر من عمله كما هو المعروف من طريقة شعبة ومالك وعبد
الرحمن بن مهدي ويحيى بن سعيد القطان وغيرهم ، وقد يروي الإمام أحمد قليلاًفي بعض الأحيان عن جماعة نُسبوا إلى الضعف وقلة الضبط، وذلك على وجه
الاعتبار والاستشهاد لا على طريق الاجتهاد”
[الصارم المنكي:۱۸، ۱۹]
ویسے بھی آپ اپنے بیٹے عبداللہ کے لئے شیوخ کاانتخاب کرتے تھے، جیساکہ آگے ذکرآرہاہے، تو جب آپ اپنے بیٹے کے لئے بھی شیوخ کاانتخاب کرتے ہیں تو اپنے لئے تو بالاولی شیوخ کاانتخاب کرتے ہونگے۰
۔ امام بخاری
علامہ معلمی نے التنکیل میں تفصیلی گفتگوکرتے ہوئے ثابت کیاہے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کیاکرتے تھے۔
۔ امام ابوزرعہ الرازی
ابن حجر في ترجمة داود بن حماد البلخي من لسان الميزان : « من عادة أبي
زرعة أن لا يحدث إلا عن ثقة
۔ امام عبداللہ بن احمد
ابن حجرلیث بن خالد البلخي کے ترجمہ میں فرماتے ہیں : وقد كان
عبد الله بن أحمد لا يكتب الا عن من يأذن له أبوه في الكتابة عنه، ولهذا
كان معظم شيوخه ثقات “
[تعجیل المنفعة:۳۵۵]
۔ امام بقی بن مخلد الاندلس
مغلطاي حنفی اکمال تهذيب الكمال میں فرماتے ہیں:وفي "تاريخ قرطبة" : قال بقي : كل من رويت عنه فهو ثقة۰
ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسے ائمہ اور روات ہیں جوصرف ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے، یہاں یہ چندروات بطور مثال ذکرکئے ہیں، احصاء مقصود نہیں۰
یادرہے کہ ان ائمہ کے مشائخ میں ضعفاء بھی موجود ہیں، جس سے یہ الزام نہیں آئیگاکہ اگریہ صرف ثقہ ہی سے روایت کررہے ہوتے تو پھر ان کے مشائخ میں ضعفاء نہ ہوتے، کیونکہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ جوروات ہمارے نزدیک ضعیف ہوں وہ لازما ان ائمہ کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہوں، ہوسکتاہے ان کے نزدیک ثقہ ہی ہوں، چنانچہ ‏ حافظ ذہبی امام مالك کے ماقبل والے قول پر تعلیق لگاتے ہوئے یوں گویاہوتے ہیں : " فهذا القول يعطيك بأنه لا يروي إلا عمَّن هو عنده ثقة . ولا يلزم من ‏ذلك أنه يروي عن كل الثقات ، ثم لا يلزم مما قال أن كل من روَى عنه ، وهو عنده ثقة ، أن يكون ثقة عند باقي ‏الحفاظ ، فقد يخفي عليه من حال شيخه ما يظهر لغيره ، إلا أنه بكل حال كثيرُ التحري في نقد الرجال “
[سير ‏أعلام النبلاء
کہ امام مالک کے کسی ثقہ ہی راوی سے راوی سے روایت کرنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ لازما دوسرے حفاظ کے نزدیک بھی ثقہ ہی ہوں، ممکن اپنے شیخ کاحال ان پرمخفی رہ گیاہوجبکہ دوسرے ان پرمطلع ہوگئے .اور تقریبایہی بات امام احمد نے امام یحی بن سعید القطان کے بارے میں فرمائی ہے،آپ سے ایک راوی کے بارے جب سوال کیاگیاتو آپ نے اسے ضعیف قراردیا ، جس پر کہاگیا:روى عنه يحيى بن سعيد القطان! فقال: خفي عليه ضعفه. والقطان ممن وصف بانتقاء الشيوخ وانه لا يروي الا عن ثقة”
کہ (آپ اسے ضعیف کہتے ہیں جبکہ) یحی بن سعید القطان اس سے روایت کرتے ہیں! توآپ نے جواب دیا: ان پر اس کاضعف مخفی رہ گیاہوگا، اور قطان شیوخ کے انتقاء کرنے میں متصف ہیں، اور وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں.
گویاامام صاحب نے امام القطان کے روایت کرنے کاعذرفرمارہے ہیں کہ وہ توصرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، اور اس ضعیف راوی سے اس لئے روایت کردی کہ شاید انہیں اس کے ضعف کاعلم نہ ہوسکا، ورنہ وہ کبھی ان سے روایت نہ کرتے۰
امام ابن عبدالہادی اس کایوں جواب دیتے ہیں جیساماقبل میں امام احمد کے تذکرہ میں گذرا،کہ : اگر کہیں نظرآئے کہ امام احمد ضعفاء سے روایت کرتے ہیں(جوکہ تعدادمیں بھی قلیل ہیں)تو ایسے روات سے انہوں نے احتجاج نہیں کیاہوتا، بلکہ انہیں استشہاد کے طورپر قبول کیاہے۰
خلاصہ کلام! کہ ائمہ عظام توثیق میں صرف معاصرت ولقاء کوہی کافی نہیں سمجھتے تھے، بلکہ محض کسی راوی کی اس بنیاد پربھی توثیق کردیتے تھے کہ اس سے فلاں امام ومحدث روایت کرتے ہیں، جوکہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتاہے، لہذایہ راوی ثقہ ہے۰
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط ہفتم)


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)

معاصرت ولقاء کے علاوہ توثیق کے دیگرذرائع}

۲)ائمہ کی تصریحات کے مطابق خلیفہ عمربن عبدالعزیز اپنے لئے ثقہ عُمَّال ہی کاانتخاب کیاکرتے تھے، امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں آپ کے ترجمہ میں رقمطرازہیں:
وقد صرح كثير من الأئمة بأن كل من استعمله عمر بن عبدالعزيز ثقة.
کہ کئی ایک ائمہ نے تصریح کی ہے کہ عمربن عبدالعزیز کے عاملین ثقہ ہیں”
[١٢، ٧١٠]
اس کی تائید امام احمد کے کلام سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ امام اثرم لکھتے ہیں:
سألت أبا عبدالله عن الوضوء من القيء . فقال : نعم يتوضأ.
قلت : على إيجاب الوضوء . قال : نعم ولايصح لحديث ثوبان : أنا صببت لرسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءه .
قلت له : هو يثبت عندك ؟
قال : نعم .
قلت له : إنهم يضطربون ؟
فقال : حسين المعلم يجوِّدُه .
قلت له : هو يقول عن عبدالله بن عمرو الأوزاعي ؟!
فقال : عبدالله وعبدالرحمن ، واحد .
قلت له : يعيش بن الوليد معروف ؟
قال : قد روي عنه .
قلت له : فأبوه ؟
قال : أبوه معروف ، سمع منه ابن عيينة ، قال حدثني الوليد بن هشام المعيطي وكان عامل عمر بن عبدالعزيز .
قلت لأبي عبدالله : فيكون قول ثوبان أنا صببت لرسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءه توكيدا لقول أبي الدرداء في الفطر من القيء .
فذهب إلى أنه توكيد للوضوء .
وذكر ايضا من قال من القيء الوضوء .
اب یہاں دیکھیں! امام صاحب اس راوی کو عامل خلیفہ عمر بن العزیز ہونے کے سبب قوی قراردے رہے ہیں،توگویاکچھ شخصیات کایہ خاصہ بھی تھاکہ وہ قابل اعتماد لوگوں کو عہدے اورمناصب دیاکرتے تھے، جن میں ایک خلیفہ عمربن عبدالعزیز بھی ہیں، ان قرائن توثیق کے علاوہ اوربھی قرائن ہیں، احصاء مقصود نہیں، طوالت کے ڈر سے انہی دو قرائن کے ذکرہراکتفاء کرتاہوں، اور آخر میں اس حوالے سے ذہبی عصر علامہ معلمی کاایک بہترین اقتباس نقل کررہاہوں، تاکہ آپ احباب بھی مستفید ہوسکیں، آپ فرماتے ہیں:
“تقدم أن من شرط المعدل أن يكون ذا خبرة بمن يعد له وذكروا أن الخبرة تحصل بالجوار أو الصحبة أو المعاملة ولا شك أنه لا يكفي جوار يوم أو يومين وكذلك الصحبة وكذا المعاملة لا يكفي فيها أن يكون قد اشترى منه سلعة وسلعتين بل لابد من طول الجوار أو الصحبة أو المعاملة مدة يغلب على الظن حصول الخبرة فيها و المدار في ذلك على غلبة ظن المزكي الفطن العارف بطباع الناس وأغراضهم .
واشتراط الخبرة بهذا التفصيل في مزكي الشاهد لا إشكال فيه ، وإنما الإشكال في تزكية الرواة ، فإن ما في كتب الجرح والتعديل من الكلام في الرواة المتقدمين غالباً من كلام من لم يدركهم بل ربما كان بينه وبينهم نحو ثلاثمائة سنة ، هذا الدار قطني المولود سنة 306 يتكلم في التابعين فيوثق ويضعف ، قد يتوهم من لا خبرة له أن كلام المحدث فيمن لم يدركه إنما يعتمد النقل عمن أدركه فالمتأخر ناقل فقط أو حاكم بما ثبت عنده بالنقل ، وهذا الحصر باطل ، بل إذا كان هناك نقل فإن المتأخر يذكره ، فإن لم يذكره مرة ذكره أخرى أو ذكره غيره والغالب فيما يقتصرون فيه على الحكم بقولهم "ثقه" أو "ضعيف" أو غير ذلك إنما هو اجتهاد منهم ، سواء أكان هناك نقل يوافق ذاك الحكم أم لا وكثيراً ما يكون هناك نقل يخالف ذاك الحكم ، واعتمادهم في اجتهادهم على طرق :
الطريقة الأولى : النظر فيمن روى عن الرجل فإن لم يرو عنه إلا بعض المتهمين كابن الكلبي والهيثم بن عدي طرحوه ولم يشتغلوا به ، وإن كان قد روى عنه بعض أهل الصدق نظروا في حال هذا الصدوق فيكون له واحدة من أحوال :
الأولى : أن يكون يروي عن كل أحد حتى من عرف بالجرح المسقط .
الثانية : كالأولى إلا أنه لم يرو عمن عرف بالجرح المسقط .
الثالثة : كالأولى إلا أنه لم يعرف بالرواية عمن عرف بالجرح وإنما شيوخه بين عدول ومجاهيل ، والمجاهيل في شيوخه كثير .
الرابعة : كالثالثة إلا أن المجاهيل من شيوخه قليل .
الخامسة : أن يكون قد قال " شيوخي كلهم عدول " أو " أنا لا أحدث إلا عن عدل " .
فصاحب الحال الأولى لا تفيد روايته عن الرجل شيئاً ، وأما الأربع الباقية فإنها تفيد فائدة ما ، تضعف هذه الفائدة في الثانية ثم تقوى فيما بعدها على الترتيب ف أقوى ما تكون في الخامسة .
الطريقة الثانية : النظر في القرائن كأن يوصف التابعي بأنه كان من أهل العلم أو من سادات الأنصار أو إماماً في مسجد النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، أو مؤذناً لعمر
أو قاضياً لعمر بن عبد العزيز أو ذكر الراوي عنه أنه أخبره في مجلس بعض الأئمة وهو يسمع كما قال الزهري .
وعكس هذا أن يوصف الرجل بأنه كان جندياً أو شرطياً أو نحو ذلك من الحرف التي يكثر في أهلها عدم العدالة .
الطريقة الثالثة : وهي أعم الطرق ، اختبار صدقة وكذبه بالنظر في أسانيد رواياته ، ومتونها مع النظر في الأمور التي قد يستفاد منها تصديق تلك الروايات أو ضعفها .
فأما النظر في الأسانيد ، فمنه أن ينظر تاريخ ولادته . وتاريخ وفاة شيخه الذي صرح بالسماع منه . فإن ظهر أن ذلك الشيخ مات قبل مولد الراوي ، أو بعد ولادته بقليل بحيث لا يمكن عادة أن يكون سمع منه ووعى كذبوه ومنه أن يسأل عن تاريخ سماعه من الشيخ ، فإذا بينه وتبين أن الشيخ قد كان مات قبل ذلك ، كذبوه .
ومنه أن يسأل عن موضع سماعه من الشيخ ، فإذا ذكر مكاناً يعرف أن الشيخ لم يأته قط ، كذبوه ، وقريب من ذلك أن يكون الراوي مكياً لم يخرج من مكة وصرح بالسماع من شيخ قد ثبت عنه أنه لم يأت مكة بعد بلوغ الأول سن التمييز وإن كان قد أتاها قبل ذلك .
ومنه أن يحدث عن شيخ حي فيسأل الشيخ عن ذلك فيكذبه .
فإذا لم يوجد في النظر في ح اله وحال سنده ما يدل على كذبه ، نظر في حال شيوخه المعروفين بالصدق ، مع الشيوخ الذين زعم أنهم سمعوا منهم على ما تقدم . فإذا كان قد قال حدثني فلان أنه سمع فلاناً فتبين بالنظر أن فلاناً الأول لم يلق شيخه كذبوا هذا الراوي ، وهكذا في بقية السند .
لكن إذا وقع شيء من هذا ، ممن عرفت عدالته وصدقه وكان هناك مظنة للخطأ حملوه على الخطأ وقد يختلفون ، فيكذبه بعضهم ، ويقول غيره إنما أخطأ هو أو شيخه أو سقط في الإسناد رجل ، أو نحو ذلك .[الاستبصار في نقد الأخبارص ۵۵]
۰۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط -۸)


۰۰( ابو المحبوب سیدانورشاہ راشدی)
ملحوظہ :یہاں میں ایک بات کوواضح کرتاچلوں کہ کئی ایک ائمہ نے صحیح بخاری کی احادیث کونقل کرکے انہیں صحیح قراردیاہے بلکہ انہیں اصح الکتب کتاب میں ہونے کے باعث بصورت اختلاف ترجیح بھی دیتے ہیں،اور حدیث کی تصحیح روات کی توثیق ،اتصال سند ، عدم شذوذ وعدم علت کومستلزم ہے، لہذا جن بے شمارائمہ نے صحیح بخاری کی حدیث کونقل کرکے اسے صحیح قراردیاتوگویاان کے نزدیک صحیح بخاری کی سند متصل اور اس کے تمام روات ثقہ اور قابل اعتماد ہیں.

۲- امام ابوبکر سمعانی نے فربری کی توثیق کی ہے مگر اول تو وہ خود متاخر، غیرموثق ہے ،ان کے بیٹے ابوسعد نے اپنے دادا ابوالمظفر منصور بن محمد السمعانی سے توثیق نقل کی ہے ، لیکن اول تو :وہ مبہم توثیق ہے، گویا ان کے نزدیک تعدیل بھی مفسر ہوناضروری ہے،!دوسرا:ابوسعد نے نہ اپنے دادا کاادراک کیاہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی اس کی سند بیان کی ہے،نیز ابوبکرالسمعانی کو علماء جرح وتعدیل میں بھی شمار نہیں کیاگیا جو ان کی توثیق متعبر ہو، اس لئے ان کی توثیق مقبول نہیں، نیز حافظ ذہبی اور ابن حجر کی بھی توثیق بھی متاخر ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول اور مردود ہے۰

معترض موصوف نے اپنے اس کلام میں درج ذیل موقف اختیارکئے ہیں:
۱- امام سمعانی خود غیرموثق ہیں، کسی قابل قدرمحدث نے ان کی توثیق نہیں کی۔ان کے بیٹے نے جواپنے دادا سے ان کے متعلق نقل کیاہے وہ مذکورہ اسباب کے بناپر مردود ہے، وہ توثیق معتبرنہیں۔
۲- امام سمعانی کاائمہ جرح وتعدیل میں بھی شمار نہیں ہوتا۔
۳-امام سمعانی، ابن حجر اور ذہبی یہ (فربری کی توثیق کرنے والے)خود متاخرہیں، لہذا ان کی بھی توثیق مقبول نہیں۔
۴- تعدیل وتوثیق کا مفسر ہونا بھی ضروری ہے۔

جواب:امام سمعانی غیرموثق نہیں بلکہ ثقہ اور حفاظ حدیث میں سے تھے، ان کانام ہے:ابوبکرمحمدبن ابوالمظفر منصوربن عبدالجبار التمیمی السمعانی۰
یہ امام ابوسعد السمعانی صاحب کتاب الانساب کے والد محترم ہیں۔
امام سمعانی کی توثیق کوثابت کرنے سے قبل یہ جان لیناضروری ہے کہ توثیق کے تین ادوارہیں:
۱)دورروایة الحدیث
۲)دورروایة الکتب
اول میں راوی کی عدالت اور ضبط دونوں کااثبات ضروری ہے،راوی کی عدالت یاضبط مجروح ہے تو اس کی بیان کردہ احادیث (اس کے ضعف کے اعتبارسے)ضعیف گردانی جائینگی۔
دوم میں راوی کاحافظہ مشروط نہیں، بلکہ اسکی عدالت اوراس سے مروی کتب کتاب سے روایت کرنے کےاصولوں کے موافق ہونے کومدنظررکھ کر توثیق کی جانی لگے۔ جیسے جیسے دورالروایہ کااختتام ہورہاتھا روات کی توثیق میں وہ شدت ختم ہورہی تھی،یعنی روات کی توثیق میں تساہل برتتاگیا، اور یہ تساہل اصولوں کے تقاضا کےبناپرہی کیاجارہاتھا کہ اس وقت یہی مناسب تھا۔نہ کہ محض روات کے تساہل کی وجہ سے۔ظاہرہے کتاب سے روایت کرنے میں یہ بات بدیہی ہے کہ اس میں حافظہ کا کوئی تعلق بھی نہیں بنتا کہ وہ مشروط ہو،اس لئے یہ شرط ختم کردی گئی۔
راوی کاروایت کردہ کتاب کاسماع درست اور صحیح ہو، تحمل اور اداء اصولوں کے مطابق ہو ایساراوی محدثین کے نزدیک ثقہ گرداناجاتاہے،یہی وجہ ہے کہ کتب رجال میں کئی ایک روات مذکورہیں جن کی بظاہرتوثیق نظرنہیں آتی لیکن اس کے سماع درست ہونے کی وجہ سے اس کی توثیق کرتے ہوئے اس کی بیان کردہ کتاب کو قابل اعتماد تسلیم کیاجاتاہے،ذیل میں ایک راوی کو بطورمثال ذکرکئے دیتاہوں، ملاحظہ فرمایاجائے:
۔ ابوبکراحمد بن یوسف ابن خلاد بن منصورالنصیبی راوی امام دارقطنی اور امام ابونعیم الاصبہانی وغیرہماکا شیخ ہے،خطیب بغدادی اس کے متعلق فرماتے ہیں: کان لایعرف شیئامن العلم، غیران سماعہ صحیح،وقدسأل اباالحسن الدارقطنی فقال:ایمااکبر الصاع اوالمد؟،فقال للطلبة :انظروالی شیخکم ۔
کہ وہ علم سے ان جان تھا ، البتہ اس کاسماع ٹھیک ہے، اس نے (ایک دفعہ اپنے شاگرد)امام دارقطنی سے پوچھا:صاع بڑاہوتاہے یا مد؟،(جس پر)امام دارقطنی نےاپنے طلبہ سے کہا: اپنے شیخ کوذرادیکھو(کہ اسے صاع اور مد کابھی پتانہیں)[السیر:١٦، ٦٩]
یہ واقعہ تاریخ بغداد میں یوں منقول ہے:حسن بن شہاب العبکری کہتے ہیں:حضرت مع ابی الحسن الدارقطنی عند احمد بن یوسف بن خلاد ،فجری ذکر الصاع والمد۔فقال ابن خلاد لابی الحسن :ایمااکبر، الصاع اوالمد؟فقال لناابوالحسن :انظرواالی شیخکم الذی تسمعون منہ والی ماسال عنہ !اوکماقال.[تاریخ بغداد:۵، ۴۳۰]
طلباء ،ابن خلاد سے کتب کاہی سماع کررہے تھے، اسی کی طرف امام دارقطنی اشارہ فرمارہے ہیں کہ تم اپنے شیخ کو دیکھو تم اس سے جس کاسماع کررہے ہواوراس کوبھی دیکھوجس کے متعلق وہ سوال کررہے ہیں!گویا یہاں واضح ہے کہ وہ حدیث اور علم حدیث سے ناآشناتھے اسی لئے تو صاع اور مد کے متعلق سوال کررہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ان کی توثیق کردی گئی،
امام ابونعیم اورابوالفتح بن ابی الفوارس اور حافظ ذہبی نے اس کی توثیق کی ہے،ابن ابی الفوارس نے بھی کہاہے :لم یکن یعرف من الحدیث شیئا.[تاریخ بغداد:۵، ۴۳۰][السیر:١٦، ٦٩]
یہاں دیکھیں! یہ شیخ احادیث کاراوی نہیں یہاں تک کہ وہ علم سے بھی ناآشناہے، لیکن خطیب بغدادی نے اس کے سماع کوصحیح قرار دیااور دیگر ائمہ نے اس کے سماع کے صحیح ہونے کی بناپر اس کی توثیق کردی ہے،حالانکہ وہ توحدیث کاسرے سے راوی ہی نہیں تو توثیق کس بات کی،
اب آگے دیکھئے !حافظ ذہبی ان اقوال کونقل کرنے کے بعد ان پریوں تعلق لگاتے ہیں:قلتُ: فمن ھذاالوقت بل وقبلہ صارالحفاظ یُطلِقون ھذہ اللفظة علی الشیخ الذی سماعہ صحیح بقراءة متقن ،واثبات عدل ، وترخصوا فی تسمیتہ بالثقة ،وانماالثقة فی عرف ائمة النقد کانت تقع علی العدل فی نفسہ ،المتقن لماحملہ ،الضابط لمانقل ،ولہ فھم ومعرفة بالفن ،فتوسع المتاخرون.
کہ اس وقت(۴۰۰ھ ) بلکہ اس سے قبل حفاظ (حدیث)ان الفاظ (توثیق)کااطلاق اس شیخ پر کیاکرتے تھے جس کاسماع پختہ قراءت اور(راوی کی)عدالت کے اثبات کے ساتھ صحیح ہو،ایسے شخص کوثقہ قراردینے انہوں نے رخصت دیدی تھی، جبکہ ائمہ نقد کے ہاں ثقہ کااطلاق اس پر ہوتاتھا جو عادل ہونے کے ساتھ ساتھ تحمل میں متقن اور نقل کرنے میں ضابط ہو، اور اسے فن کافہم اور معرفت حاصل ہو،مگر متاخرائمہ نے اس میں توسع اختیارکرلیا[السير:١٦، ٧٠]
حافظ ذہبی نے اپنے اس کلام میں دوباتیں فرمائی ہیں:
۱- دورالروایہ میں راوی کے عادل ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث کے تحمل اور اداء میں اتقان ،ضبط ،اور فن میں فہم اور معرفت کی شرط لگائی ہے،کہ جب سینہ سے روایت کی جائے تو ضابطہ مشروط ہے،تحمل میں اتقان ہو اور اسی طرح اداء میں پختگی ہو،ائمہ نقد یعنی امام بخاری، امام علی بن مدینی وغیرہما کے ہاں یہ مشروط تھا۔
۲-راوی کی عدالت کے ساتھ حافظہ مشروط نہیں، بلکہ کتاب سے قراءت پختہ اورسماع ٹھیک اوردرست ہو،ایساراوی بھی ائمہ کے نزدیک ثقہ ہی گرداناجاتاتھا۔
یہاں حافظ ذہبی نے صراحت کردی ہے کہ چوتھی صدی سے قبل ہی صحیح السماع راوی پرثقہ کااطلاق کیاجانے لگاتھا،اپنی کتاب المغنی میں تو فرماتے ہیں :
وکذالم اعتن بمن ضُعِّفَ من الشیوخ ممن کان فی المائة الرابعة وبعدھا ،ولوفتحت ھذاالباب لماسلم احد الاالنادر من رواة الکتب والاجزاء.
کہ میں (المغنی فی الضعفاء میں)چوتھی صدی اور اس کے بعدوالے ضعیف شیوخ کو لائق ذکرنہیں سمجھتا،اور اگر میں نے یہ دروازہ(تضعیف کا)کوکھولدیا تو کتب اوراجزاء کے چند روات کے علاوہ کوئی بھی نہیں بچیگا(سارے ہی ضعیف ٹھہرینگے)[المغنی :۱، ۴]
دیکھیں! یہاں بھی حافظ ذہبی کس قدر صراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ اگرکتب اوراجزاء کے روات کواگر روایت حدیث کے پیمانے میں لانے کی کوشش کی گئی تو بہت کم روات ہی بچ پائنیگے، ضعفاء کی باقاعدہ لائن لگ جائیگی،حافظ ذہبی ایک ناقد فن ہیں، ائمہ متقدمین وجہابذہ کے تعامل کاانہیں خوب ملکہ حاصل تھا ، وہ آخر جوکچھ فرمارہے ہیں محض ان کی اپنی رائے نہیں کہ انہیں منفرد کہہ کرردکردیاجائے، ائمہ نقد اوائل کے ائمہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں، مثلاامام شافعی ،امام احمد وغیرہما،اور بھی کئی ایک ایمہ کایہی موقف تھاکہ کتب کے روات کے لئے وہی کچھ مشروط ہے جوکتابوں کے اصولوں میں مذکورہے،اس کے علاوہ باقی کوتشدد قراردیاگیاہے،گویاحافظ ذہبی کے کلام سے واضح ہوگیاکہ اگر کتب واجزاء کا کوئی راوی حافظہ کے اعتبارسے کمزورہے تو اسے ضعفاء میں ذکرکرکے اس سے مروی کتب وغیرہاکوردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکاجائیگا،بلکہ انہیں سرے سے ضعیف کہناہی درست نہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ خود اس قسم کے روات کو ضعفاء پر مشتمل کتب میں ذکرکرنامناسب نہیں سمجھتے(اگرچہ اس قسم کے بعض روات کوانہوں نے ضعفاء میں بھی ذکرکردیاہے)فرماتے ہیں :اگر ایسے روات کو ضعفاء میں داخل کیاگیاتو پھر چند کے علاوہ باقی اکثرروات سے ہاتھ دھوناپڑیگا۔
میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں:
لیس العمدة فی زماننا علیٰ الرواة،بل علی المحدثین والمفیدین الذین عرفت عدالتھم وصدقھم فی ضبط اسماء السامعین ،ثم من المعلوم انہ لابد من صون الراوی وسترہ.[ ]
کہ ہمارے زمانے میں روات پر اعتماد نہیں ، بلکہ ان محدثین اور مفیدین پر اعتماد کیاجاتاہے جو اپنی عدالت اورسامعین کے اسماء کے ضبط میں معروف ہیں،پھریہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ راوی کی سترپوشی بھی نہایت ضروری ہے.
حافظ ذہبی کامقصد ہے کہ بعدوالے ادوار مکمل طورپر روات سے خالی ہیں، ان زمانوں میں تسلسل کے ساتھ کوئی خبر یا روایت سینہ بسینہ نہیں چل رہی جو روات پر اعتماد کیاجائے، بلکہ ان ادروامیں محدثین اور مفیدین ہی ہیں جو کتب اوراجزاء کے راوی ہیں،ایسے میں راوی کی ظاہری عدالت ہو اور پھر اس کا سماع ثابت اور درست ہو، تو پھراس قسم کے روات پر ہی اعتماد کیاجائیگا۔مزید چھیڑچھاڑ کی ضرورت نہیں کہ اس کی عیب جوئی وغیرہ کی جائے۔
بہرحال مذکورہ تفصیل سے ثابت ہواکہ کتب اور اجزاء کے روات کے لئے صرف ظاہری عدالت ہی کافی ہے، اس کاسماع ٹھیک ہے یااس کے سماع میں کسی قسم کے شک وشبہ کااظہارنہیں کیاگیا، بلکہ اس کی روایت کردہ کتب پر اعتماد کیاگیاہو تو ایساراوی ائمہ نقد کے ہاں ثقہ ہی تصورکیاگیاہے، اور اسے ثقہ ہی سمجھاجائیگا،اب آئیے اسی تناظر میں ہم امام سمعانی کو دیکھتے ہیں کہ کیاوہ توثیق کے قابل ہیں کہ نہیں،؟ملاحظہ فرمائیں:
۰۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط نہم-۹)

۰۰( ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی)

(امام ابوبکر السمعانی کی توثیق)

۔ امام ابوسعد اپنے والد کے متعلق فرماتے ہیں:
رحل بی وباخی سنة تسع وخمس مائة الی نیسابور فسمعنا من الشیروی وقد املی مائة واربعین مجلسا بجامع مرو وکل من رآھااعترف لہ انہ لم یسبق الی مثلھا ،وکان یعظ ویروی فی وعظہ الحدیث باسانیدہ ،...وقیل لہ فی مجلس الوعظ انہ یضع -یعنی الاسانید - فی الحال :فنحن لانعرف؛وکتبوالہ بذالک رقعة ؛فنظرفیھا وروی حدیث :من کذب علی متعمدا -من نیف وتسعین طرق ،ثم قال:ان کان احد یعرف فقولوا لہ یکتب عشرة احادیث باسانیدھا ویخلط الاسانیدویسقط منھا فان لم امیزھا فھوکمایدعی؛ ففعلواذالک امتحانا فردکل اسم الی موضعہ.
نیز فرماتے ہیں:
نشافی عبادة وتحصیل وبرع فی الادب وکان متصرفا فی فنون بمایشاء وبرع فی الفقہ والخلاف وزاد علی اقرانہ بعلم الحدیث ومعرفة الرجال والانساب والتاریخ وطرز فضلہ بمجالس تذکیرہ الذی یصدع الصخور عندتحذیرہ ونفق سوق تقواہ عندالملوک والاکابر.
[تذکرة الحفاظ:۴/ ۱۲٦٧- ١٢٦٨]
نیز فرماتے ہیں:
سافر الی العراق والحجاز ورحل الی اصبہان لسماع الحدیث ، وادرک الشیوخ والاسانیدالعالیة ،وحصل النسخ والکتب ...کتب لی الاجازة بجمیع مسموعاتہ وشاھدت خطہ بذالک [الانساب:۷/ ۲۲٦- ٢٢٧]
۔ علامہ عبدالغافرفرماتے ہیں:
الامام ابن الامام...زادعلی اقرانہ واھل عصرہ بالتبحر فی علم الحدیث ومعرفة الرجال والاسانید ومایتعلق بہ من الجرح والتعدیل والتحریف والتبدیل وضبط المتون والمشکلات فی المعانی مع الاحاطة بالتواریخ والانساب ...متخلق باحسن الاخلاق متمکن بتواضعہ وتؤدتہ من الاحداق رافل فی جلابیب اھل الصفا مراع لعہود الاسلاف بحسن الوفامجموع لہ الاخلاق الحمیدة.
[طبقات الشافعیة للسبکی:۴/ ۱۸۷]
۔ابن خلکان فرماتے ہیں:
کان ..اماما فاضلا مناظرا محدثا فقیھا شافعیا حافظا ،ولہ الاملاء الذی لم یسبق الی مثلہ ،وتکلم علی المتون والاسانید،وابان عن مشکلاتہ ،ولہ عدة تصانیف.[وفیات الاعیان:۳/ ٢١٠- ٢١١]
۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
تاج الاسلام..الامام الحافظ الاوحد ...کان احدفرسان[السیر:۱۹، ۳۷۱]
۔ امام ابن کثیرفرماتے ہیں :
کان لہ معرفة تامة بالحدیث ،وکان ادیبا شاعرا فاضلا ،لہ قبول عظیم فی القلوب .
[البدایة والنھایة:۱۲/ ۱۸۰]
ان عبارات سے امام سمعانی کی توثیق کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے:
ان کی عدالت تو ائمہ عظام کے ہاں مسلمہ ہے، ان کے زہد اور تقوی کے متعلق محدثین رطب اللسان ہیں،گویا ان کی عدالت بالاستفاضہ اورشہرت کی بناپر ثابت ہوچکی ہے، آپ ایسی شخصیات میں سے ہیں جن کی عدالت کے بارے فی الحقیقہ کہاجاسکتاہے :لایُسئل عن مثلہ۰ کہ آپ کی عدالت کے بارے سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں، کسی ایک بھی محدث سے - فیمااعلم - ان کی عدالت پرجرح ثابت نہیں،لہذا اس حوالے سے محض ان کانام ہی کافی ہے۔بلکہ اگریوں کہاجائے کہ آپ کا ثقہ ہونا بھی بالاستفاظہ ثابت ہے، محض عدالت نہیں ، تو دروغ گوئی نہیں ہوگی۔
آپ کتب اور اجزاء کے بھی راوی ہیں،آپ نے اپنے بیٹے امام ابوسعد کو اپنی تمام مسموعات کا اجازہ دیاہے- جیساکہ ابوسعد کے کلام میں یہ مذکورہے - لہذا آپ نے جن کتب کا اپنے شیوخ سے سماع کیاہےاگر ان مسموعات میں کلام ہوتا اور آپ کاسماع صحیح نہ ہوتا تو آپ کے بیٹے اس پرضرور تبصرہ فرماتے، آپ کے بیٹے کامسموعات کااجازہ لینا اور ان کے متعلق کسی بھی شک وشبہ کااظہارنہ کرنااس پر دلالت کرتاہے کہ آپ کاان مسموعات کاسماع ٹھیک تھا، تحمل میں بھی اتقان ہے اور اداء میں بھی پختگی ہے، لہذاجب یہ ثابت ہوگیاکہ ان کا اپنی مسموعات میں سماع ٹھیک ہے تو گویا وہ ثقہ اور قابل اعتماد ٹھہرے- جیساکہ ماقبل میں بالتفصیل اس پر گفتگو ہوچکی ہے- آپ کی عدالت بھی ثابت اور آپ کاسماع بھی درست۔ تو اب ان کی توثیق سے آخرکونسی چیز مانع ہے، جوانہیں غیرموثق قراردیاجائے! موصوف معترض پر حیرت ہے کہ امام سمعانی جو ائمہ اہل السنہ کے ایک مشہور امام اور حفاظ حدیث میں سے ہیں، جن کاشہرہ بہت زیادہ ہے، اس قدر واضح باتوں سے ان کا ان جان ہونا یاتجاہل عارفانہ اختیار کرنا بڑی حیرت اور استعجاب میں ڈال رہاہے، اورپھر دعوی یہ کہ وہ اہل السنہ کی کتب علم الرجال پرگہری نظررکھتے ہیں۔ جناب ! آپ کتب علم الرجال پر گہری نظررکھتے ہونگے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ائمہ اہل السنہ کی توثیق کو بغیر اصولوں کے اپنے تئیں رس کرتے پھریں،محدثین کے اصولوں اورتعاملات پر بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے، ورنہ آپ کے انداز تحقیق سے جو منظر کشی ہوگی وہ بہت بہیانک ہوگی۔
خیر امام صاحب کی عدالت بھی ثابت ہوچکی اور سماع بھی درست ہوا، لہذا وہ اصول محدثین کے مطابق وہ ثقہ اور حفاظ حدیث میں سے ہیں۔
معلوم شد کہ اگر راوی حدیث ہے تو توثیق میں عدالت کے ساتھ ضبط کاہوناضروری ہے،اور امام سمعانی کاحافظہ اور ضبط بھی نہایت قوی اورمضبوط تھا۔
أ-امام عبدالغافر کے کلام میں تھاکہ آپ :زادعلی اقرانہ واھل عصرہ بالتبحر فی علم الحدیث ومعرفة الرجال والاسانید ومایتعلق بہ من الجرح والتعدیل والتحریف والتبدیل وضبط المتون.
کہ آپ اپنے ہمعصروں سے تبحر فی علم الحدیث ، علم الرجال اور اسانید اور جرح وتعدیل اوررجال میں واقع تحریف اورتبدیل اور متون کے یاد کرلینے میں سبقت کرچکے تھے.
تو امام صاحب کے اس کلام میں اس بات کی صراحت ہے کہ انہیں متون اچھی طرح یاد تھے، بلکہ آپ علم حدیث کے بہت بڑے امام اورحافظ تھے، مصطلح الحدیث میں راوی کا ضبط معلوم کرنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کاامتحان لیاجائے، اور امتحان لینے کے مختلف طریقے ہیں، من جملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ بعض احادیث کی اسانید کوخلط ملط کرکے شیخ کے سامنے پڑھی جائیں، اگر وہ شیخ اس الٹ پلٹ اور قلب کوبھانپ لے اور بتادے کہ صحیح یہ ہے اور غلط یہ ہے، یعنی درست اور غلط کے مابین تمیزکردے، تو ایسا شخص گویا اچھا حافظہ رکھنے والا ہے، جیساکہ اس حوالے سے امام بخاری ، امام مسلمہ بن قاسم وغیرہ کا امتحان مشہور اور معروف ہے،اور اگر راوی اس قسم کے قلب یعنی تغیروتبدل کومعلوم نہ کرسکے بلکہ تلقین قبول کرلے تو گویا اس شیخ کاحافظہ ٹھیک نہیں، کمزورہے۔ اس قسم کے امتحان کو ائمہ نے اصول حدیث کی مقلوب والی بحث میں ذکرفرمایاہے۔ تو عرض کررہاتھاکہ یہ امتحان امام سمعانی سے بھی ہواتھا، جس سے آپ کاحافظہ غضب کامعلوم ہوتاہے۔
ب- امام ابوسعد السمعانی فرماتے ہیں :
وکان یعظ ویروی فی وعظہ الحدیث باسانیدہ ،...وقیل لہ فی مجلس الوعظ انہ یضع -یعنی الاسانید - فی الحال :فنحن لانعرف؛وکتبوالہ بذالک رقعة ؛فنظرفیھا وروی حدیث :من کذب علی متعمدا -من نیف وتسعین طرقا،ثم قال:ان کان احد یعرف فقولوا لہ یکتب عشرة احادیث باسانیدھا ویخلط الاسانیدویسقط منھا فان لم امیزھا فھوکمایدعی؛ ففعلواذالک امتحانا فردکل اسم الی موضعہ.
کہ آپ وعظ ونصیحت کرتے ہوئے(اپنے خطبہ میں )احادیث کوان کی اسانید کے ساتھ بیان کرتے تھے، (جس پر)کہاگیا:آپ اسی (خطبہ کے دوران ہی)ان کی اسانید گھڑلیتے ہیں، جبکہ ہمیں معلوم ہی نہیں پڑتا،تواس پر لوگوں نے آپ کو ایک رقعہ لکھ بھیجا، آپ نے اسے دیکھ کرحدیث :من کذب علی متعمدا” کو نوے (۹۰) طرق میں سے اسی لمحے بیان کیا،پھرفرمایا:جوکوئی جانکاری کادعویدار ہو، اسے کہوکہ :وہ دس احادیث مع ان کی اسانید لکھے،پھر ان اسانیدکوآپس میں خلط ملط(مکس) کردے،اوربعض کوحذف بھی کردے،اگر میں ان کے مابین تمیزنہ کرسکا تو پھر اس دعویدار کے مطابق فیصلہ ہوگا، تو لوگوں نے بطورامتحان ایساہی کیا، جس پر آپ نے ہر نام کو اپنی جگہ پر رکھ دیا.
محترم قارئین!اس واقعہ سے آپ بخوبی امام سمعانی کے ضبط کااندازہ کرسکتے ہیں، آپ کاضبط باقاعدہ مثال رکھتاہے،ہر محدث اور شیخ ایسا قوی الحفظ نہیں ہوتا،اس طرح کی مثالیں کمیاب ہیں،بہرکیف امام سمعانی کا اس واقعہ سے قوی الحفظ ہونا اچھی طرح واضح ہوگیا،لہذا آپ کی عدالت اور ضبط کے ثابت ہوجانے کے بعد بھی اگر انہیں کوئی غیرموثق سمجھتاہے تو ایسے شخص کو کسی اچھے ہسپتال اپنے دماغ کاعلاج کراناچاہئے،ورنہ علم حدیث دانی کادعوی سے دستبردار ہوجائے۔
آپ کو آپ کے بیٹے ابوسعد نے علم الرجال ، جرح وتعدیل کا ماہر اورامام بھی قراردیاہے، نیز حافظ ذہبی نے بھی آپ کو اپنی کتاب :ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل “ میں ذکر کرکے ائمہ جرح وتعدیل میں شمار کیاہے،کہ روات کی جرح وتعدیل کے باب میں ان کی بات معتبر اور قابل اعتماد ہے،اور جرح وتعدیل کے باب میں کسی کی بات تب مرجوع الیہ بنتی ہے جب اس شیخ کی اپنی توثیق ثابت ہوچکی ہے، ضعیف یاغیرموثق شخص کے جرح وتعدیل کے باب میں اقوال لائق التفات نہیں ہوتے، تو اگر امام سمعانی غیرموثق ہوتے تو پھر انہیں جرح وتعدیل کے باب کیوں حجت تسلیم کیاگیاہے؟
ان کو معتبر سمجھنے سے واضح ہے کہ وہ ثقہ ہیں، ان کی توثیق کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ امام سمعانی کی کئی طرح سے توثیق ثابت ہے
بالاستفاظہ
بالنص
بالاستقراء
بالامتحان
اس کے بعد امام سمعانی کوغیرموثق کہنے والا علم حدیث سے ناآشنا یاڈھٹائی کرنے والاہی ہوسکتاہے،واللہ اعلم۔
۰۰( جاری ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحیح بخاری پر ایک شیعی اعتراض کا جائزہ ۰۰۰۰۰(قسط دہم-۱۰)

۰۰( ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی)

تنیبہ: موصوف معترض فرماتے ہیں کہ :ان (امام ابوبکرالسمعانی)کے بیٹے (امام ابوسعد)نے جواپنے دادا(ابوالمظفر السمعانی) سے ان کے متعلق نقل کیاہے وہ مذکورہ اسباب کے بناپر مردود ہے، وہ توثیق معتبرنہیں۔
عرض ہے کہ امام ابوسعد نے اپنے والد کے متعلق اپنے دادا سے جو الفاظ نقل کئے ہیں ،اور موصوف معترض نے انہیں الفاظ توثیق میں شمار کیاہے وہ یہ ہیں:
ﻛﺎﻥ ﻭﺍﻟﺪﻩ ﻳﻔﺘﺨﺮ ﺑﻪ ﻭﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺀﻭﺱ ﺍﻷﺷﻬﺎﺩ ﻓﻲ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﻹﻣﻼﺀ : ﺍﺑﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻋﻠﻢ ﻣﻨﻲ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﻣﻨﻲ، ﺗﻔﻘﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺑﺮﻉ ﻓﻲ ﺍﻟﻔﻘﻪ، ﻭﻗﺮﺃ ﺍﻷﺩﺏ ﻋﻠﻰ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻭﻓﺎﻕ ﺃﻗﺮﺍﻧﻪ ﻭﻗﺮﺽ ﺍﻟﺸﻌﺮ ﺍﻟﻤﻠﻴﺢ ﻭﻏﺴﻠﻪ ﻓﻲ ﺁﺧﺮ ﺃﻳﺎﻣﻪ* اس کا والد اس پر فخر کرتا تھا اور اپنی مجلس املا میں کہتا تھا کہ میرا یہ بیٹا محمد مجھ سے بھی زیادہ عالم اور افضل ہے.
[الانساب ج 3 ص 300]
اول تو یہ ساراکاسارا کلام امام ابوسعد کے دادا ابوالمظفر کانہیں جو معترض انہی کی طرف منسوب کررہے ہیں، ان کے دادا کے الفاظ صرف یہ ہیں:
ﺍﺑﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻋﻠﻢ ﻣﻨﻲ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﻣﻨﻲ”
ان کے آگے بقیہ تمام کاتمام کلام خود امام ابوسعد کا ہےجو اپنے والد ابوبکر کے بارے فرمارہے ہیں۔
ثانیا:معترض فرماتے ہیں :
ابوسعد نے نہ اپنے دادا کاادراک کیاہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی اس کی سند بیان کی ہے۔نیزفرماتے ہیں کہ :
یہاں تک کہ ابو سعد نے اپنے باپ ابوبکر سے بھی روایت نہیں کی ہے ذہبی نے ابوبکر سمعانی کا سنہ وفات 510 ذکر کیا ہے
ﺗﻮﻓﻲ ﻓﻲ ﺻﻔﺮ ﺳﻨﺔ ﻋﺸﺮ ﻭﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﻦ ﺛﻼﺙ ﻭﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ
[سیر اعلام النبلاء ج 19 ص 373 ]
ظاہر تو یہی بتارہاہے کہ امام ابوسعد نے یہ سب کچھ اپنے والد سے ہی سن کرفرمایاہو،مگریہ الفاظ نہ بھی ثابت ہوں تو بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم امام سمعانی کی توثیق کو بحمداللہ ہم دلائل کے ساتھ ثابت کرچکے ہیں،اور معترض سے اپیل بھی کرتے ہیں کہ وہ ذراان الفاظ کو توثیق ثابت کرکے دکھائیں،ہمیں انتظاررہیگا۔
باقی ان کایہ کہناکہ ابوسعد نے اپنے والد ابوبکرالسمعانی سے بھی روایت نہیں کی تو یہ انہوں نے بلاشک وبلا ریب بغیرتحقیق ہی ایسے کہدیاہے ، ورنی سابقہ قسط میں ہم نے ابوسعد کی عبارت ذکرکردی ہے کہ جس میں انہوں نے اپنے والد تمامام مسموعات کے سماع کی صراحت کردی ہے،ہم دوبارہ وہ الفاظ ذکرکئے دیتے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں:
کتب لی الاجازة بجمیع مسموعاتہ وشاھدت خطہ بذالک [الانساب:۷/ ۲۲٦- ٢٢٧]
دیکھیں! یہاں وہ واضح طورفرمارہے ہیں کہ ان کے والد ابوبکر انہیں تمام مسموعات کااجازہ لکھ کردیاتھا کہ وہ ان سے ان تمام کتب کوروایت کرسکتے ہیں،تو پھر موصوف معترض آخر کس بناپر ایک فرضی بات کہہ رہے ہیں؟

۲- امام سمعانی کاائمہ جرح وتعدیل میں بھی شمار نہیں ہوتا۔
جواب:سابقہ قسط میں ہم امام ابوسعد اور امام ذہبی کے حوالے سے نقل کرآئے ہیں کہ وہ جرح وتعدیل کے امام ہیں،انہیں توثیق وتضعیف کاملکہ حاصل تھا،لہذا اس حوالے سے ان ائمہ کی عبارات وہیں ملاحظہ کی جائیں۔
تو جب یہ ثابت ہوگیاکہ امام سمعانی ثقہ اور حفاظ حدیث میں سے ہیں،جرح وتعدیل کے امام ہیں،انہیں جارح ومُعَدِّلْ تسلیم کیاگیاہے،اور اس حوالے سے وہ مرجوع الیہ ہیں تو پھر انہوں نے جو امام فربری کی توثیق کی ہے وہ توثیق معتبر اور درست مانی جائیگی،اور اس کا منکر یاتواصول محدثین کی دھجیاں اڑاناچاہتاہے یاپھر ہرحال میں امام فربری کی توثیق کوردکرناچاہتاہے،خیرہم نے تو اہل انصاف کے سامنے امام فربری اور امام سمعانی کی توثیق کے دلائل رکھ دئے ہیں،وہی فیصلہ فرمائینگے،اور ہاں! اگر اس کامنکرمیدان میں اترے تو اس پر لازمی ہے کہ ائمہ اہل السنہ کے اصولوں کے مطابق ہمارے پیش کردہ دلائل نقض کرے،ورنہ ان کی تحریر ہمارے لائق نہ التفات ہوگی اور نہ ہی قابل مسموع۔

۳-امام سمعانی، ابن حجر اور ذہبی یہ (فربری کی توثیق کرنے والے)خود متاخرہیں، لہذا ان کی بھی توثیق مقبول نہیں۔
جواب :
اول تو امام فربری کی توثیق میں امام سمعانی کے علاوہ حافظ ذہبی اور ابن حجر منفرد نہیں جو موصوف معترض صرف ان دونوں کو ہی ذکرکرکے یہ تاثر دیناچاہتے ہیں،بلکہ ان سے قبل بھی کئی ایک ائمہ نقد نے انہیں ثقہ قراردیاہے،جن ائمہ نے امام بخاری کتاب صحیح بخاری کو اصح الکتب مان کراس کی احادیث کوصحیح مانا اورقراردیاہے تو گویا ان کے نزدیک فربری ثقہ تھے،کیونکہ بخاری کی احادیث کی اسانید کے ایک راوی امام فربری بھی ہیں،اور یہ تو واضح ہے کہ کسی حدیث کی تصحیح اورتحسین اس کی سند کے رجال کی توثیق کو مستلزم ہے،لہذا بخاری کی احادیث کو صحیح قرار دینے والے ائمہ نے اس طرح گویا امام فربری کی بھی ایک طرح سے توثیق ہے کردی، فتدبر!
ثانیا:حافظ ذہبی اور ابن حجر متاخر ضرور ہیں،لیکن بہرحال وہ بھی جارح اور ناقد ہیں،انہیں بھی اسی میدان کاامام تسلیم کیاگیاہے،انہیں روات کی جرح وتعدیل کرنے کاملکہ حاصل تھا اور خوب حاصل تھا،اور پیچھے ہم تفصیل دے چکے ہیں کہ متاخر ہونا روات کی توثیق اور تجریح کو مانع نہیں،بلکہ متاخر امام متقدم روات کی توثیق کرسکتاہے،جس طرح امام بخاری،امام علی بن المدینی وغیرہما اپنے سے متقدم روات کی توثیق کرتے تھے،لہذا حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر پر پھراعتراض کیسا۔
حافظ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال میں تصریح کردی ہے کہ وہ بھی روات کی جرح وتعدیل کرینگے،ظاہر ہے وہ اس مقام کوپہنچے ہوئے تھے کہ روات کی جرح وتعدیل کریں، جب ہی تو اپنے بارے یہ رائے دے رہے ہیں، ورنہ جب اہلیت نہ ہو تو پھر ایساشخص روات کی جرح وتعدیل کی اہلیت نہ رکھتاہو پھر بھی وہ اس میدان میں قدم رکھے تو یہ اس کے لئے بڑے وبال کاسبب بنیگا، کہ ناسمجھی میں ثقہ کوضعیف اور ضعیف کو ثقہ قراردے بیٹھیگا،تو کیاامام ذہبی اور ابن حجر جیسے اشخاص کے متعلق یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے یایہ ان کے متعلق یہ بدگمانی رکھی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اہل نہ ہونے کے باوجود بھی جرح وتعدیل کرکے اپنی آخرت برباد کردی ہے،معاذااللہ ثم معاذااللہ۔
ہم تو ان ائمہ کے خوش چین ہیں،اور بالیقین کہتے ہیں انہوں نے اپنی آخرت سنواردی ،اپنے علم کے مطابق انہوں نے حدیث کی وہ خدمت سرانجام دی ہے جسے دنیا تاقیامت یارکھیگی،اور امت ان کی کتب سے مسلسل استفادہ کرتی آرہی ہے اور ان کایہ صدقہ جاریہ تاقیامت جاری رہیگا، ان شاء اللہ العزیز۔
بہر کیف موصوف معترض کا یہ اعتراض بھی سراسر ھباءا منثورا ہے، اس میں کوئی جان نہیں۔
۰۰۰( جاری ہے)
 
Top