• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا طلاق یافتہ یا بیوہ کے دوسرے نکاح کے لئے بھی ولی کی اجازت ضروری ہے؟

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
میرے اس سوال کا پس منظر ایک واقعہ ہے جو ہمارے گاؤں میں پیش آیا۔ ایک خاتون جن کے پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا انہوں نے اپنے گزر بسر کے لئے ایک سکول میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی سکول میں انہیں ایک ساتھی مرد استاد نے شادی کا پیغام دے دیا جو انہوں نے قبول کر لیا اور اس سے نکاح کر لیا۔ اور اس نکاح میں خاتون کی طرف سے کسی مرد (ولی) کی اجازت شامل نہیں تھی۔

میرا سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ کیا ایک طلاق یافتہ یا بیوہ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے؟ جبکہ حدیث میں ہے کہ کوئی عورت اپنا نکاح خود نہ کرائے اور نہ ہی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح کروائے۔

انس رفیق طاھر
 

رضوان طاہر

مبتدی
شمولیت
اگست 17، 2013
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
15
کیلانی صاحب نے درست نہیں کہا کیونکہ حدیث میں ہے عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ؛؛(ولی کے بغیر نکاح نہیں)ابوداود2085 دوسری حدیث میں ہےعَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ» ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے)ابوداود2083 یہ احادیث عام ہیں اس سے مطلقہ عورت کو مستثنی نہیں کیا جا سکتا؛یوسف بھائی نے جو حدیث بیان کی ہے اس کا مطلب ہے کہ مطقہ عورت کی رائے کو ترجیع دی جائے گی نہ یہ کہ وہ اپنا نکاح خود کر لے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
یہ مسئلہ ایک چھوٹے سے فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے الجھن کا باعث بنتا ہے اور وہ فرق دو لفظوں میں"کہاں اور کون" کے الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

لڑکی کا نکاح کہاں ہونا چاہیے؟ اس میں لڑکی کے اختیار کو ترجیح حاصل ہے۔ اور اگر اس کا اس مسئلے میں ولی سے اختلاف ہو جائے تو پھر بھی لڑکی کی رائے کو ولی کی رائے پر ترجیح حاصل ہو گی جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔ باکرہ ہو یا ثبیہ، ولی کو بھی حکم یہی ہے کہ کہاں سوال میں لڑکی کی رائے کو ترجیح دے اور اگر وہ نہیں دیتا تو ولایت منتقل ہو جائے گی۔

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ لڑکی کا نکاح کون کرے؟ تو اس کا جواب صرف اور صرف ولی ہے۔ لڑکی کو یہ اختیار کسی صورت بھی نہیں ہے، چاہے وہ باکرہ ہو یا ثیبہ کہ وہ اپنا نکاح خود کرے۔ ایجاب تو ولی ہی کر سکتا ہے لڑکی کیسے کر سکتی ہے۔ ایجاب کا معنی واجب کرنا ہے اور واجب ذمہ داری کی جاتی ہے۔ یعنی لڑکی کا ولی ایجاب کے ذریعے لڑکی کے نان نفقہ، نگرانی، سرپرستی، حفاظت وغیرہ کی ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتار کر اس کے ہونے والے شوہر کو پیش کرتا ہے جسے ہونے والا شوہر قبول کے الفاظ سے قبول کرتا ہے۔ عام طور لوگ سمجھتے ہیں کہ قبول ہے کا معنی ہے لڑکی قبول کرنا۔ ابتسامہ۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ قبولیت، ایجاب کے مقابلے میں ہے اور ایجاب ذمہ داری کا ہے اور ذمہ داری کا ایجاب وہ کر سکتا ہے جو ذمہ دار ہو جبکہ لڑکی اس کے معاشرتی نظام میں ہمیشہ ڈی پینڈینٹ ہوتی ہے۔ شادی پہلے اپنے باپ یا ولی کی اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی۔ پس ایجاب و قبول کے ذریعے ایک لڑکی کی کفالت کی ذمہ داری کا انتقال ایک مرد سے دوسرے مرد کی طرف ہوتا ہے۔

پس شادی کے معاملے میں کہاں کے سوال میں اختیار لڑکی کا ہے اور کون کے سوال میں ولی کا۔ شریعت نے اس خوبصورتی سے اس معاملے میں ایک متوازن رہنمائی فرمائی ہے۔ مختلف روایات میں جمع کے اعتبار سے یہ توجیح بہتر محسوس ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بیوہ کا ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر بیوہ عورت باپ کے ہوتے ہوئے بغیر اجازت کسی مرد سے نکاح کرے ۔ دین اسلام میں یہ جائز ہے یا کہ نہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولی کی اجازت ورضا کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہوتا خواہ بکر ہو یا ثیب۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
نکاح کے مسائل ج1ص 318
محدث فتویٰ
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120


لڑکی کا نکاح کہاں ہونا چاہیے؟ اس میں لڑکی کے اختیار کو ترجیح حاصل ہے۔ اور اگر اس کا اس مسئلے میں ولی سے اختلاف ہو جائے تو پھر بھی لڑکی کی رائے کو ولی کی رائے پر ترجیح حاصل ہو گی جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔ باکرہ ہو یا ثبیہ، ولی کو بھی حکم یہی ہے کہ کہاں سوال میں لڑکی کی رائے کو ترجیح دے اور اگر وہ نہیں دیتا تو ولایت منتقل ہو جائے گی۔
ولایت منتقل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر باپ بیٹی کی رائے کو ترجیح نہیں دیتا تو ولایت کس کو منتقل ہو گی۔ کیا قاضی کو منتقل ہو جائے گی؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ولایت منتقل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر باپ بیٹی کی رائے کو ترجیح نہیں دیتا تو ولایت کس کو منتقل ہو گی۔ کیا قاضی کو منتقل ہو جائے گی؟
یہ ولایت قریبی رشتہ داروں کو منتقل ہو گی مثلا باپ کے بعد دادا کی طرف چلی جائے گی۔ وہ نہ ہو تو بیٹے کی طرف۔ وہ نہ ہو تو بھائی کی طرف۔ وہ نہ ہو تو چچا کی طرف۔ پس الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ولایت منتقل ہو گی اور عصبات میں جائے گی اور جس کا کوئی بھی نہ ہو تو اس کا ولی سلطان ہوتا ہے۔

وقال ابن إبراهيم - رحمه الله - : " متى بلغت المرأة سن البلوغ وتقدم لها من ترضاه دينا وخلقا وكفاءة ، ولم يقدح فيه الولي بما يُبعده عن أمثالها ويُثْبت ما يدعيه ، كان على ولي المرأة إجابة طلبه من تزويجه إياها ، فإن امتنع عن ذلك نُبّه إلى وجوب مراعاة جانب موليته ، فإن أصر على الامتناع بعد ذلك سقطت ولايته وانتقلت إلى من يليه في القربى من العصبة " .
فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم - رحمه الله - (10/97).
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
یہ ولایت قریبی رشتہ داروں کو منتقل ہو گی مثلا باپ کے بعد دادا کی طرف چلی جائے گی۔ وہ نہ ہو تو بیٹے کی طرف۔ وہ نہ ہو تو بھائی کی طرف۔ وہ نہ ہو تو چچا کی طرف۔ پس الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ولایت منتقل ہو گی اور عصبات میں جائے گی اور جس کا کوئی بھی نہ ہو تو اس کا ولی سلطان ہوتا ہے۔

وقال ابن إبراهيم - رحمه الله - : " متى بلغت المرأة سن البلوغ وتقدم لها من ترضاه دينا وخلقا وكفاءة ، ولم يقدح فيه الولي بما يُبعده عن أمثالها ويُثْبت ما يدعيه ، كان على ولي المرأة إجابة طلبه من تزويجه إياها ، فإن امتنع عن ذلك نُبّه إلى وجوب مراعاة جانب موليته ، فإن أصر على الامتناع بعد ذلك سقطت ولايته وانتقلت إلى من يليه في القربى من العصبة " .
فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم - رحمه الله - (10/97).
السلام علیکم

اس فتوی کے تحت نکاح کے وقت دو گواہ لڑکی کی طرف سے ہوتے ہیں جب وہ نکاح نامہ پر دستخط کریں گے تو یہ اجازت ہی ھے جس پر وہ ولی کہلائیں گے۔

والسلام
 
Top