• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عاشوراء کے دن یا رات میں کوئی خاص کیفیت والی نماز ثابت ہے ؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
کیا عاشوراء کے دن یا رات میں کوئی خاص کیفیت والی نماز ثابت ہے ؟

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین ، اما بعد :
محترم قارئین ! عاشوراء کے دن یا رات میں کوئی خاص کیفیت والی نماز کے تعلق سے میرے علم کی حد تک کوئی صحیح یا حسن روایت مروی نہیں ہے اور جو روایتیں مروی ہیں ، وہ موضوع ہیں۔ تفصیل پیش خدمت ہے:
[پہلی حدیث]
امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:597ھ) فرماتے ہیں:
”أَنبَأَنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّيِّبِيُّ، قَالَ: أَنبَأَنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنبَأَنا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَنبَأَنا عَبْدُ الله بْنُ عُبَيْدِ الله بْنِ كَالَةَ، قَالَ: حَدَّثنا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الله بْنُ أَحمَدَ، قَالَ: حَدَّثنا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثنا أَبُو عَبْدِ الله مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله النَّهْرَوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلى الله عَليهِ وسَلمَ: مَنْ صَلَّى يَوْمَ عَاشُورَاءَ مَا بَيْنَ الظُّهْرِ والْعَصْرِ أَرْبَعِينَ رَكْعَةً، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ مَرَّةً وآيَةِ الْكُرْسِيِّ عَشْرَ مَرَّاتٍ، وقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ إِحْدَى عَشْرَةَ مَرَّةً، والْمُعَوِّذَتَيْنِ خَمْسَ مَرَّاتٍ، فَإِذَا سَلَّمَ اسْتَغْفَرَ سَبْعِينَ مَرَّةً، أَعْطَاهُ اللَّهُ فِي الْفِرْدَوْسِ قُبَّةً بَيْضَاءَ فِيهَا بَيْتٌ مِنْ زُمُرُّدَةٍ خَضْرَاءَ، سَعَةُ ذَلِكَ الْبَيْتِ مِثْلُ الدُّنْيَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وفِي ذَلِكَ الْبَيْتِ سَرِيرٌ مِنْ نُورٍ، قَوَائِمُ السَّرِيرِ مِنَ الْعَنْبَرِ الأَشْهَبِ، عَلَى ذَلِكَ السَّرِيرِ أَلْف فِرَاشٍ مِنَ الزَّعْفَرَانِ“.
[ترجمہ] سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عاشوراء کے دن ظہر اور عصر کے درمیان چالیس (40) رکعتیں پڑھیں (اس طرح سے کہ) وہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک (1) مرتبہ ، آیۃ الکرسی دس (10) مرتبہ ،سورۃ الاخلاص گیارہ (11) مرتبہ ، معوذتین پانچ (5) مرتبہ پڑھے ۔ پھر جب وہ سلام پھیرے تو ستر (70) مرتبہ بخشش طلب کرے تو اللہ تعالی جنت الفردوس میں اس کو ایک سفید قبہ دے گا جس میں سبز زمرد (یہ ایک قیمتی پتھر کا نام ہے) کا ایک گھر ہوگا ، اس کی کشادگی دنیا کی تین گنا ہوگی ، اس میں نور کی ایک چار پائی ہوگی جس کے پائے لال عنبر کے ہونگے اور اس پر دو ہزار (2000) زعفران کے بستر ہوںگے۔
[تخریج] الموضوعات بتحقیق نور الدين شكري :2/433، ح:1005.
[حکم حدیث] ہذا حدیث موضوع (یہ موضوع حدیث ہے ) ۔
امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:597ھ) :
”هَذَا حَدِيث موضوع وكلمات الرَّسُول عَلَيْهِ السَّلامُ منزهة عَنْ مثل هَذَا التَّخْلِيط “ ”یہ موضوع حدیث ہے اور رسول اللہ ﷺ کے کلمات اس طرح کی تخلیط (بے تکی) سے پاک ہیں“۔( الموضوعات)
امام محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ) :
”سَنَده مظلم“ ”اس کلی سند تاریک ہے“۔ (تلخيص الموضوعات بتحقیق أبو تميم ياسر ،ص:184، ح:430)
امام محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ (المتوفی:1250ھ) :
”وَهُوَ مَوْضُوعٌ“ ”یہ حدیث موضوع ہے“ ۔ (الفوائد المجموعة بتحقیق المعلمی ،ص:47، ح :103)
[موضوع ہونے کی وجہ] روایت ہذا میں کئی مجہول راوی ہیں اور حسین بن ابراہیم (امام ابن الجوزی کے شیخ کے شیخ) اس حدیث کو گھڑنے کے تعلق سے متہم ہے۔

ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:597ھ) :
”والرواة مَجَاهِيل وَالْمُتَّهَم بِهِ الْحُسَيْن“ ”اس کے رواۃ مجہول ہیں اور حسین اس کو گھڑنے میں متہم ہے“۔(الموضوعات)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”وَالْمُتَّهَم بِوَضْعِهِ الْحُسَيْن بن إِبْرَاهِيم، مُتَأَخّر ”حسین بن ابراہیم متاخر اس حدیث کو گھڑنے میں متہم ہے“۔(تلخيص الموضوعات)
ان مجہول رواۃ کے نام درج ذیل ہیں :
(1) الحسین بن ابراہیم۔
(2) الحسن بن علی ابن جعفر۔
(3) عبد اللہ بن عبید اللہ بن کالة۔
(4) احمد بن نصر بن علی الرازی۔
[دوسری حدیث]
امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:597ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثنا مُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرٍ، قَالَ: أَنبَأَنا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ قُرَيْشٍ، قَالَ: أَنبَأَنا الْعُشَارِيُّ، قَالَ: أَنبَأَنا أَبُو بَكْر النُّوشَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثنا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ، قَالَ: حَدَّثنا إِبْرَاهِيمُ الْحَرْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثنا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثنا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلى الله عَليهِ وسَلمَ: مَنْ أَحْيَا لَيْلَةَ عَاشُورَاءَ فَكَأَنَّمَا عَبَدَ اللَّهَ تَعَالَى بِمِثْلِ عِبَادَةِ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ، ومَنْ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ الْحَمْدُ مَرَّةً، وخَمْسِينَ مَرَّةً قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، غفر لَهُ ذُنُوُبَ خَمْسِينَ عَامًا مَاضٍ، وخَمْسِينَ عَامًا مُسْتَقْبل، وبنى لَهُ فِي الأَعْلَى أَلْفَ أَلْفَ مِنْبَرٍ مِنْ نُورٍ“.
[ترجمہ] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عاشوراء کی رات شب بیداری کی تو گویا اس نے آسمان والوں کی عبادت کی مثل اللہ کی عبادت کی اور جس نے چار (4) رکعت پڑھی (اس طرح سے کہ) وہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک (1) مرتبہ اور سورۃ الاخلاص پانچ (5) مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالی اس کے گزشتہ پچاس (50) سال اور آئندہ پچاس (50) سال کے گناہوں کو معاف فرمادے گا اور مقرب فرشتوں کے پاس، اس کے لئے دس (10) لاکھ نور کے منبر بنائے گا۔
[تخریج] الموضوعات بتحقیق نور الدین شکری :2/432، ح:1004 و 2/567، ح:1140.
[حکم حدیث] ہذا حدیث موضوع (یہ موضوع حدیث ہے)۔
امام عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:597ھ):
”هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم“ ”یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے“۔(الموضوعات)
اور مذکورہ کتاب میں ہی دوسری جگہ فرمایا:
”هذا حديث لا يشك عاقل في وضعه“ ”اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی عقلمند شک نہیں کر سکتا ہے“۔
امام محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”حديث موضوع“ ”یہ حدیث موضوع ہے “۔ (ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :3/656، ت : 7989)
[موضوع ہونے کی وجہ] روایت ہذا کی سند میں دو (2) راوی ایسے ہیں جو فی نفسہ ثقہ صدوق ہیں لیکن ان کی احادیث میں باطل احادیث داخل کر دی گئی ہیں اور روایت ہذا انہیں دونوں میں سے کسی ایک کی احادیث میں داخل کی گئی ہے۔
(1) احمد بن سلمان ابو بکر البغدادی النجاد :
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی : 463ھ) :
”وَكَانَ صدوقا عارفا، جمع المسند وصنف فِي السنن كتابا كبيرا“ ”احمد النجاد حدیث کے جانکار اور صدوق تھے ۔ آپ نے مسند جمع کی اور سنن میں ایک بڑی کتاب تصنیف کی ہے“۔
پھر امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس قول : ”قد حدث أَحْمَد بْن سلمان من كتاب غيره بما لم يكن فِي أصوله“ ”احمد بن سلیمان نے دوسروں کی کتاب سےایسی حدیثیں بیان کی ہیں جو ان کے اصول میں نہیں ہیں“۔کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
”كَانَ النجاد قد كف بصره فِي آخر عمره، فلعل بعض طلبة الحديث قرأ عَلَيْهِ ما ذكره الدَّارَقُطْنِيّ، والله أعلم“ ”نجاد آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ شاید بعض طلبۃ الحدیث نے ان حادیث کو جن کا ذکر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کیا ہے (ان کے نابینا ہونے کے بعد) ان پر پڑھا ہے۔ واللہ اعلم“۔ (تاريخ بغداد بتحقیق بشار عواد:5/309، ت:2149)

امام محمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الحَافِظ، الفَقِيْه، المُفْتِي، شَيْخُ العِرَاق أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ سَلْمَان“ ”امام، محدث، حافظ، فقیہ، مفتی اور عراق کے شیخ ابو بکر احمد بن سلمان“۔ (سير أعلام النبلاء بتحقیق مجموعة من المحققين :15/502، ت:285)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ)،امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کے ایک قول پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وقد تقدم في ترجمة النجاد أنه عمي بأخرة وأن الخطيب جوز أن يكون أدخل عليه شيء وهذا التجويز محتمل في حق العشاري أيضا وهو في حق ابن أبي الزناد بعيد فقد وثقه مالك وعلق له البخاري بالجزم والعلم عند الله تعالى“
نجاد کے ترجمے میں گزر چکا ہے کہ وہ آخری عمر میں اندھے ہو گئے تھے اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان پر کچھ چیزیں داخل کی گئیں ہیں اور یہ امکان ابو طالب العشاری کے حق میں بھی ہے لیکن ابن ابی الزناد کے حق میں بعید ہے کیونکہ امام مالک نے ان کی توثیق کی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی روایت کو معلقا بالجزم ذکر کیا ہے اور علم اللہ کے پاس ہے“۔ (لسان المیزان للحافظ بتحقیق ابی غدۃ :7/375، ت:7211)

امام نور الدین علی بن محمد الکنانی رحمہ اللہ (المتوفی : 963ھ) فرماتے ہیں:
”وفي سنده أبو بكر النجاد وقد عمى بأخرة وجوز الخطيب أن يكون أدخل عليه شيء فيحتمل أن يكون هذا مما أدخل عليه ، والله أعلم“ ”اس کی سند میں ابو بکر النجاد ہے اور یہ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ ان پر کچھ چیزیں داخل کی گئیں ہیں لہذا یہ ممکن ہے کہ روایت ہذا انہیں احادیث میں سے ہو جو ان پر داخل کی گئیں ہیں۔ واللہ اعلم“۔ (تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة بتحقیق عبد الوہاب و عبد اللہ :2/151، ح:17)

(2) محمد بن علی بن الفتح ابو طالب العشاری :
امام ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی : 463ھ) :
”وكان ثقة دينا صالحا“ ”آپ ثقہ دیندار اور نیک تھے“. (تاريخ بغداد بتحقیق بشار عواد:4/179، ت:1372)
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ) ان کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
”شيخ صدوق معروف لكن أدخلوا عليه أشياء فحدث بها بسلامة باطن، منها: حديث موضوع في فضل ليلة عاشوراء“
”آپ معروف صدوق شیخ ہیں لیکن لوگوں نے کچھ چیزیں ان پر داخل کی ہیں پھر انہوں نے ان احادیث کو باطن کی سلامتی کے ساتھ بیان کیا ۔ انہیں احادیث میں سے ایک حدیث : عاشوراء کی رات کی فضیلت میں ہے جو کہ موضوع حدیث ہے“۔ (ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :3/656، ت:7989)
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔ دیکھیں : (لسان المیزان للحافظ بتحقیق ابی غدۃ :7/375، ت:7211)
اور امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی ایک دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
”وقد أُدخل في سماعه أشياء باطلة، ولم يعلم“ ”ان کی مسموعات میں باطل چیزیں داخل کی گئیں اور یہ نہیں جان سکے“۔ (تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام بتحقیق بشار عواد:10/23، ت:32)
[فائدہ] امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی رحمہ اللہ (المتوفی:911ھ) زیر بحث روایت کو تفصیلا نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”موضوع ورجاله ثقات والظاهر أن بعض المتأخرين وضعه وركبه على هذا الإسناد“ ”یہ حدیث موضوع ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور ظاہر بات یہ ہے کہ بعض متاخرین نے اِسے گھڑ کر، اُس پر اِس سند کو جوڑ دیاہے“۔ (اللآلىء المصنوعة بتحقیق صلاح بن محمد : 2/93)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[تنبیہ] الموضوعات بتحقیق عبد الرحمن (2/122 و 2/200) کی سند میں ابن ابی الزناد رحمہ اللہ کے شاگرد کا نام:
(1) پہلی جگہ ” شریح بن نعمان“ لکھا ہوا ہے ۔
(2) اور دوسری جگہ ” سریح بن نعمان“ لکھا ہوا ہے۔
(3) اور اللالی المصنوعہ میں ” شریح بن عمان“ لکھا ہوا ہے۔
ان کی بابت عرض ہے کہ یہ تینوں غلط ہے ، صحیح ” سریج بن نعمان“ ہے جیساکہ الموضوعات بتحقیق نور الدین شکری میں ہے۔ مزیددیکھیں: (تاريخ بغداد بتحقیق بشار عواد:11/494، ت:5312 و تهذيب الكمال للمزی بتحقیق بشار عواد :10/218،ت:2190)
[خلاصۃ التحقیق] عاشوراء کے دن یا رات میں کوئی خاص کیفیت والی نمازنبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
[ایک عظیم جرم]
کسی شخص نے لکھا کہ :
”عاشوراء کے دن غسل کرکے دو (2) رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ دونوں رکعتوں میں الحمد للہ کے بعد دس (10) مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھے اور سلام کے بعد ایک مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھے اور نو (9) مرتبہ درود ابراہیمی پڑھے“ ۔
قارئین ! آپ غور کریں ۔۔ کس طرح سے من گھڑت باتیں بیان کی جارہی ہیں ۔اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔
کوئی مجھے بتائے کہ مذکورہ طریقہ نماز ، نبی کریم ﷺ سے مروی ہے؟ اگر ہے تو دنیا کی کس کتاب میں ہے؟

[آخری بات]
اگر کوئی بندہ عاشوراء کے دن یا رات میں کسی خاص کیفیت والی نماز کا اہتمام کرتا ہے تو اس کا یہ عمل عند اللہ مقبول نہیں ہوگا، مردود ہوگاکیونکہ اس نے ایک ایسا عمل کیا ہے جس کا حکم نبی کریم ﷺ نے نہیں دیا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عاشوراء کے دن یا رات میں کسی خاص کیفیت والی نماز اللہ کے بھیجے ہوئے دین میں ہے ہی نہیں، اگر دین کا حصہ ہوتی تو نبی کریم ﷺ سے ثابت ہوتی۔
اللہ ہم سب کو بدعات و محرمات سے بچائے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
1440ھ-ذو الحجہ -26
28-AGU-2019

Pdf کے لئے کلک کریں
https://drive.google.com/file/d/17F-99DAqodCHuWIkhwzte6V4F3VwUkMB/view?usp
 
Last edited by a moderator:
Top