• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عبید اللہ بن زیاد کے سر میں سانپ گھسا تھا؟

شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
کیا عبید اللہ بن زیاد کے سر میں سانپ گھسا تھا؟
جا مع ترمذی کی روایت کا تحقیقی جا ئزہ:
حدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: " لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی 3780)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س روایت کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پرکریدا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعدامام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو صحیح الا سناد کہا ہے۔ (جامع ترمذی از تحقیق و تخریج از شیخ ناصر الدین البانی ،جلد 2 ،حدیث 3780)


جبکہ کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ " کے صفحہ نمبر 393 میں ابن زیاد کا دفاع کرتے ہوئےاس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ روایت مردود ہے ۔ کیوں کہ سند میں سلیمان بن مہران الاعمش نے عن سے روایت کیا ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں۔ لہٰذا ان کا عنعنہ غیر مقبول ہے۔

امام سلیمان بن مہران الاعمش ۔۔۔۔جراح و تعدیل کے میزان میں:
اس روایت پر صحیح یا مردود (ضعیف) کا حکم لگانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام الاعمش کا علم الحدیث میں کیا مقام ہے۔


امام اعمش رحمہ اللہ کی توثیق و تعدیل

1۔ امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (المتوفی160)فرماتے ہیں:
"سليمان أحب إلينامن عاصم"
"سلیمان ( الاعمش ) ہمیں عاصم سےزیادہ محبوب ہیں۔"
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللہ : 4136 )
ایک دوسری جگہ امام شعبہ نے فرمایا:
"ماشفاني أحدمن الحديث ماشفاني الأعمش"
"حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمش سے ہوئی وہ کسی سے نہیں ہوئی۔"
(تاریخ بغداد : 11/9 وا سنادہ صحیح )
2۔ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سليمان بن مهران الأعمش،ثقة"
"سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ ہیں۔"
(الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم: 4/146 بحوالہ موسوعہ اقوال ابن معین : 2/266 ،ا اسنادہ صحیح )
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"كانا الأعمش جليلا جدا"
"اعمش نہایت جلیل القدر شخصیت تھے۔"
(سؤالات الآجری : 1/203 )
ایک دوسری جگہ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
؎"(أصح الأسانيد) الأعمش عن إبراهيم عن علقمةعن عبدالله"
"اسانید میں سب سے صحیح اسناد اعمش عن ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ (ابن مسعود ہے")
(معرفہ علوم الحدیث للحاکم : 1/99 )
3۔ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نظرت فإذاالإسناديدورعلى ستة... ابن شهاب الزهري... عمروبن دينار... قتادةبن
دعامة...یحیی بن أبي كثير... أبوإسحاق... وسليمان بن مهران."
"میں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ ان اسناد کا دارو مدار چھ لوگوں پر ہے ( یعنی زیادہ تراسانید کی بنیاد ان پر ہے،اور وہ ہیں( ۔۔۔ابن ہادب الزہری، عمرو بن دینار، قتادہ بن دعامہ، یحیی بن ابی کثیر،ابواسحاق، اور سلیمان بن مہران الاعمش"
(علل لابن المدینی : ص 36-37 )
4۔ امام احمد سے پوچھا گیا ،عاصم بن ابی النجود اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ
محبوب ہے ؟آپ نے فرمایا:
"الأعمش أحب إلي،وهوصحيح الحديث،وهومحدث"
"اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں،ان کی حدیث صحیح ہے اور وہ محدث ہیں۔"
(سؤالات ابن ہانی: 2179 )
5۔ امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ ( المتوفی 256 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح بخاری" میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے جن کی تعداد تقریبا 370 ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک امام اعمش زبردست ثقہ امام تھے ۔
6۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی 261 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح مسلم " میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایات لی ہیں جن کی تعداد تقریبا 275 ہے۔
معلو م ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک امام اعمش ثقہ امام تھے۔
7۔ امام ابوالحسن العجلی رحمہ اللہ ( المتوفی 261) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ا ور فرمایا :
"ثقة،كوفي،وكان مُحدث أهل الكوفة في زمانه"
"آپ ثقہ کوفی تھے ،اور آپ اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے محدث تھے ۔"
8۔ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی 264 ھ) فرماتے ہیں :
"سليمان الاعمش امام"
"سلیمان الاعمش امام تھے ۔ "
(الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147 )
9۔ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ عنہ (المتوفی 277 ھ) فرماتے ہیں :
"الأعمش ثقة يحتج بحديثه"
"اعمش ثقہ تھے اور انکی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔"
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147)
10۔ امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ ( لمتوفی 279 ھ) نے اپنی مشہور کتاب سنن الترمذی میں بے شمارمقامات پر امام اعمش کی روایات کو صحیح کہا ہے اور ایک جگہ پر آپ نے امام اعمش کی روایت کو منصور بن معتمر کی روایت پر فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
"ورواية الأعمش أصح"

"اعمش کی روایت منصور سے زیادہ صحیح ہے"
(سنن الترمذی : تحت ح 70،756 )
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
11۔ امام ابوعبدالرحمٰن النسائی رحمہ اللہ (المتوفی 303 ھ) فرماتے ہیں :
"ثقة ثبت"
"اعمش ثقہ ثبت ہیں"
(تہذیب الکمال للمزی : 12/89)
12۔ امام ابوبکر ابن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفی311ھ) نےاپنی صحیح اور کتاب التو حید میں بے شمار
روایتیں امام اعمش سے روایت کی ہیں۔
اس سےمعلوم ہواکہ امام اعمش ابن خزیمہ کےنزدیک ثقہ صدوق تھے ۔
13۔ امام ابو حاتم ابن حبان البستی رحمہ اللہ (المتوفی 354 ھ) نےامام ا عمش کواپنی کتاب " الثقات " میں
ذکرکیا ہے اور ان سےکئی روایتیں اپنی صحیح میں روایت کی ہیں۔
14۔ امام ابوالحسن الدارقطنی رحمہ اللہ ( المتوفی385 ھ) نے امام اعمش کی ایک روایت کے تحت
فرمایا: "صحيح , إسناده حسن ورواته كل هم ثقات"
"یہ حدیث صحیح ہے اس کی اسناد حسن ہے اور اسکے تمام راوی ثقہ ہیں"
(سنن الدارقطنی: ح 182 نیز دیکھیں ح 442، 443 )
ایک دوسری جگہ آپ نے اعمش کےمتعلق فرمایا:
"هوأحفظ لحديث أبي وائل من واصل بن حيان"
"وہ ابووائل کی حدیث کےواصل بن حیان سےبڑےحافظ ہیں "
(الالزامات و التتبع : 1/158 )
اسی طرح فرماتے ہیں:
"الأعمش أثبت من أشعث وأحفظ منه"
"اعمش اشعث سے زیادہ ثبت اور بڑےحافظ ہیں "
(سنن الدار قطنی : ح 3964 )
15۔ امام ابو عبداللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی 405 ) نے المستدرک میں بے شمار مقامات پر امام اعمش کی
حدیث سےحجت پکڑی ہے اور ان کی اسانید کو صحیح کہا ہے۔
اور ایک جگہ پر فرماتےہیں:
"والأعمش أعرف بحديث الحكم من غيره"
"اعمش حکم کی حدیث کودوسروں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں "
(مستدرک : 1/501 )
16۔ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ ( المتوفی 748ھ ) امام اعمش کا تعارف کرواتےہوئے فرماتےہیں:
"الإمام شيخ الإسلام شيخ المقرئين والمحدثين أبومحمدالأسدي الكاهلي مولاهم الكوفي الحافظ"
"امام ، شیخ الاسلام ،قارئیوں اورمحدثین کے شیخ ،ابو محمدالاسدی الکا ہہلی ان کے آزاد کردہ غلام ،الکوفی ، الحافظ"
(سیر اعلام النبلاء : 6/227)
ایک دوسری جگہ فرماتےہیں:
" الحافظ الثقة شيخ الإسلام أبومحمدسليمان بن مهران الأسدي الكاهلي... وكان رأسافي
العلم النافع والعلم الصالح"
"حافظ ، ثقہ ، شیخ الاسلام ،ابومحمد سلیمان بن مہران الاسدی الکاہہلی۔ ۔۔آپ علم نافع اورعلم صالح
میں سردار تھے ۔"
(تذکرۃالحفاظ 116 /1)
17۔ حافظ ابن حجرالعسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی852ھ) فرماتےہیں :
"وهذ االإسنادمماذكرأنه أصح الأسانيد وهي ترجمة الأعمش عن إبراهيم النخعي عن علقمة عن ابن مسعود"
"یہ سند جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تمام اسانیدمیں سےسب سےصحیح اسناد ہے یعنی اعمش عن ابراہیم النخعی
عن علقمہ عن ابن مسعو د"
(فتح الباری : 9/107 )
ایک دوسری جگہ فرمایا:
"أبومعاويةهومحمدبن خازم بمعجمتين عن الأعمش سليمان بن مهران عن أبي صالح ذكوان
تكرركثيراوهومن أصح الأسانيد"
"ابو معاویہ کانام محمدبن خازم ہےدو نقطوں کےساتھ ، وہ اعمش سلیمان بن مہران سےروایت کرتے
ہیں وہ ابوصالح ذکوان سےروایت کرتے ہیں ، یہ سند کثرت سے پائی جاتی ہے ، اور یہ تمام اسانید میں
سب سےصحیح اسنادہے ۔"
(فتح الباری : 1/260)

نوٹ : دنیا کی کوئی ایسی صحیح، سنن ،مسند ، مستدرک ، مستخرج ، موطا ، مصنف وغیرہ نہیں جس میں امام اعمش کی حدیث نہ ہو ، کیونکہ امام اعمش کا شمارمجموعہ حدیث کے سب سے اہم اورمرکزی راویوں میں ہوتا ہے ۔ جیساامام ابن المدینی نےصراحت کی ہے۔ اورآپ تمام محدثین و علماء کےنزدیک متفقہ طورپر ثقہ ہیں۔
اورآپ کی احادیث سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔


امام اعمش رحمہ اللہ اورتدلیس:
بعض محدثین نے امام اعمش کو مدلس قرار دیا ہے جیسے:
1۔ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ فرماتےہیں:
"وقالوالايقبل تدليس الأعمش لأنه إذا وقف أحال على غيرمليءيعنون على غير ثقة إذ ا سألته عمن هذا"
"اورانہوں (محدثین) نےکہا: اعمش کی تدلیس غیرمقبول ہےکیوں کہ انہیں جب عنعن روایت
میں( پوچھاجاتا توغیرثقہ کاحوالہ دیتےتھے۔جب آپ سےپوچھاجاتا کہ یہ روایت کس سےہے؟تو
کہتے: موسیٰ بن طریف سے (کذاب)،عبایہ بن ربعی سے (متروک متہم) اورحسن بن ذکوان سے (ضعیف)"
(التمہید : 1/30)
2۔ حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
"مشهور بالتدليس مكثر منه"
"آپ تدلیس کےساتھ مشہور ہیں اورآپ کثرت سےتدلیس کیا کرتےتھے۔"
(جامع التحصیل: 1/188 )
3۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أحدا لائمة الثقات ،عداده في صغارالتابعين ،مانقموا عليه إلاالتدليس""آپ آئمہ ثقات میں سےتھے ۔آپ کا شمار صغارتابعین میں ہوتا ہے۔آپ پرکسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہےسوائےتدلیس کے"
( میزان الاعتدال: 2/224 )
آپ مزیدفرماتےہیں:
"قلت: وهويدلس،وربما دلس عن ضعيف ،ولايدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام،ومتى قال
"عن " تطرق إلى احتمال التدليس"
"میں کہتاہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتےتھےاوربعض اوقات آپ ضعیف راوی سےبھی تدلیس کیا
کرتےتھےاورآپ کواس کاعلم نہ ہوتا۔لہٰذاجب آپ حدثناکہیں توان کی روایت کےحجت ہونے
میں کوئی کلام نہیں لیکن جب آپ "عن" کہیں تواس میں تدلیس کااحتمال موجود ہے۔"
(میزان الاعتدال: 2/224 )
4۔ حافظ ابن حجرالعسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب طبقات المدلسین (ص 33 ) میں امام اعمش کو
دوسرےطبقےکامدلس شمارکیا ۔البتہ بعدمیں آپ نےخوداس بات سےرجوع کرتےہوئےالنکت علی
کتاب ابن الصلاح میں انہیں تیسرےطبقےمیں شمارکیا ہے،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"الثالثة : من أكثروامن التدليس وعرفوابه،وهم..... وسليمان الاعمش....."
"تیسراطبقہ ان لوگوں کاہےجوکثرت سےتدلیس کرنےکی وجہ سےجانےجاتےتھےاوروہہیں۔۔۔۔اورسلیمان الاعمش۔۔۔"
( النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر : 2/640)
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
تدلیس:
اتنے بڑے امام پر تدلیس کا الزام لگانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تدلیس کسے کہتے ہیں ۔
تدلیس 'دلس' سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ظلمت اور تاریکی اور تدلیس کے معنی ہیں عیب کو چھپا کر مخا طب کو تاریکی میں ڈال دیا جاۓ۔
(لسان العرب 6/86)
ابن قطان تدلیس کے معنی یوں کرتے ہیں:
"ومعنی به ان يروی الحدیث عمن قد سمع منه مالم یسمع منه غیران یذ کرانه سمعه منه (الکنت 2/614)
"تدلیس کے معنی یہ ہیں کہ راوی حدیث روایت کرتے وقت اپنے استاد کا نام نہ لے بلکہ اس اوپر کے راوی یعنی استاد کے استاد کا نام لے اور صیغہ ایسا اختیار کرے جس سے استاد سے ہی اس حدیث کے سننے کا احتمال ہوتو یہ فعل تدلیس کہلاتا ہے۔"
اگر کو ئی راوی اپنے استاد کے نام کو اس لئے چھپا تا ہے کہ وہ کذاب یا نا قابل اعتبار ہے تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اور یہ سامان فروش کا اپنے سامان کے عیب کو چھپا کر بیچنے نے سے زیادہ قبیح ہے۔ اس لئے کہ سامان فروش اپنے سامان کے عیب کو چھپا کر صرف خرید دار کو دھوکا دیتا ہے۔
لیکن اگر کوئی راوی کسی حدیث کے عیب کو چھپا تا ہے تو وہ پوری امت کو دھوکا دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
من غشنا فلیس منا (صحیح مسلم ) یعنی جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دھوکا دیتا ہے وہ امام نہیں ہو سکتا اور جو امام ہوتا ہے وہ دھوکا نہیں دے سکتا۔
علامہ حماد بن محمد الا نصاری لکھتے ہیں:
ثانیا: من ا حتمل ا لا ئمة تدلیسه و خرجو ا له فى ا لصحيح و ان لم یصرح با لسماع وذلک لواحد من اسباب ثلاثۃ 1۔ اما لا مامتہ
'دوسرے طبقے کے مدلس وہ لوگ ہیں جن کی تدلیس کو ائمہ نے اٹھا دیا ہے۔ اور ان سے اپنی صحیح میں حدیثیں روایت کی ہیں۔ اگر چہ انہوں نے (استاد سے) سننے کی تصریح نہیں کی ہے۔ اور اس کی وجہ تین وجوہ میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ 1۔ اس کی امامت کی وجہ سے۔
(التدلیس و اقسا مہ مطبو عہ مع کتاب طبقات المدلسین ص 19 )
علامہ حماد بن محمد کے بیان سے ظاہر ہوا کہ اگر کوئی شخص امام ہے اور اس پر تدلیس کا شبہ یا الزام ہے تو اس کی تدلیس اس کی امامت کی وجہ سے کالعدم سمجھی جا ئے گی۔ یعنی امام کے متعلق یہ تصور نہیں کیاجا سکتا کہ امام ہو کر تدلیس کرے۔
اگر بالفرض کسی امام یا محدث نے کسی راوی کے نام کو چھوڑ دیا تو اسے ہم اس امام یا محدث کی بھول شمار کریں گے۔ اسے تدلیس نہیں کہیں گے
اس لئے کہ تدلیس قصدا ہوتی ہے اور بد نیتی سے ہو تی ہے۔ امام یا محدث بد نیت نہیں ہوتے۔

صحیحین میں مدلسین کی روایات:

کہا جاتا ہے کہ شیخین نے جہاں اپنی تصانیف یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مہتم بالتدلیس راویوں کی معنعن روایات پیش کی ہیں وہاں ان روایات کے اصول و شواہد موجود ہوتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پھر شیخین نے اپنی کتب میں ان شواہد کو ترجیح کیوں نہ دی اور آخر وہ تدلیس والی روایات کو ہی کیوں پیش کرتے رہے؟ کیا یہ بات ثابت نہیں کر رہی کہ وہ بھی ان جلیل القدر ائمہ کو تدلیس کی تہمت سے بری جانتے تھے۔ معترضین کے اس بے جا مفروضے کو کالعدم قرار دینے کے لئے ابن حجر عسقلانی کی 'النکت' سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
قال ابن حجر: وفی اسئلة الامام تقی الدین السبکی للحافظ ابی الحجاج المزی وسالتة عن ماوقع فی الصحیحین من حدیث المدلس معنعنا هل نقول انھما اطلعا علی اتصالها؟ فقال کذالک یقولون وما فيه الا تحسین الظن بھما والا ففیھما احادیث من روایته المدلسین ما تو جد من غیر تلک الطریق التی فی الصحیح ۔
ترجمہ : امام تقی الدین السبکی کے اسئلہ میں ہے کہ میں نے ابو الحجاج المزی سے صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات کے متعلق پوچھا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں (امام بخاری و امام مسلم) کو ان احادیث کے متصل ہونے کا علم تھا ؟ تو جواب دیا کہ لوگ تو اسی طرح کہتے ہیں لیکن یہ صرف ان دونوں کے متعلق حسن ظن ہےورنہ تو ان دونوں (کتابوں) میں مدلسین کی ایسی احادیث بھی ہیں جو ان (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) میں مذکورہ سند کے علاوہ (دوسری سندوں ) سے نہیں ملتی۔
اب کیا کیا جائے مدلسین کی ایسی روایات جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عن کے ساتھ مروی ہیں جن کی سند صرف ایک ہے کوئی تابع نہیں تو ان کو رد کر دیا جائے گا یا مانا جائے گا۔ یقینا ایسی تمام روایات کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شیخین نے اپنی مذکورہ کتابوں میں مدلسین کی معنعن روایات لا کر یہ باور کرا دیا کہ اس سے حدیث ضعیف نہیں ہوتی۔
حسین احمد مدنی ٹانڈوی صاحب دیوبندی قراءت خلف الامام کی حدیث کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ کہ اس کو عبادہ بن الصامت معنعنا ذکر کرتے ہیں حالانکہ یہ مدلس ہیں ۔ مدلس کا عنعنہ معتبر نہیں "
(توضیح ترمذی ص 436)
تدلیس اتنی بری چیز ہے کہ جب صحابی عبادہ رضی اللہ عنہ کو حسین احمد مدنی صاحب دیوبندی نے مدلس لکھا تو زبیر علی زئی صاحب چیخ اٹھے اور لکھا:
"حالانکہ عبادہ رضی اللہ عنہ مشہور بدری صحابی ہیں اور صحابہ کو مدلس قرار دینا انتہائی غلط اور باطل ہے"۔
(نصرالباری ص 27، 28 )

تبصرہ
: جس طرح صحابی کے لئے ان کے عدل، تقوی اور ایمانداری کی وجہ سے مدلس لفظ استعمال کرنا غلط اور باطل ہے اسی طرح ہر اس امام کے لئے یہ لفظ استعمال کرنا غلط اور باطل ہے جو کہ عادل و ثقہ ہے۔


لہٰذا ثابت ہوا کہ زبیر علی زئی صاحب کے ہاں بھی تدلیس اچھی چیز نہیں اس لئے انہوں نے صحا بی کے لئے مدلس لفظ استعمال کرنے کو غلط اور باطل قرار دیا۔
خلاصہ:
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: " لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی : 3780)

ترجمہ: عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


اس روایت کو کفایت اللہ سنابلی صاحب نے مردود (ضعیف) کہا ہے کیوں کی اس روایت کے راوی امام الا عمش مدلس ہیں اور انہوں نے عن سے روایت کیاہے۔

2۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِخَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ قِرَاءَتَهُ؟ قَالَ: «بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ»
(صحیح بخاری کتاب: الأ ذان باب: القراءۃ فی العصر)

ترجمہ: ہم سےمحمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے اعمش سے، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے، انہوں نے ابو معمر سے،کہ میں نے خباب بن الارت سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ ظہر اور عسر کی نمازوں میں قرأت کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی قرأت کرنے کو آپ لوگ کس طرح معلوم کر لیتے تھے؟ فرمایا کہ آپﷺ کی ڈاڑھی مبارک کے ہلنے سے۔


3۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»¡
(صحیح مسلم : کتاب النکاح، باب: استحباب النکاح لمن تاقت نفسه الیه ووجد مؤنه واشتغال من عجز عن المؤن بالصوم )

ترجمہ : عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ " اے نوجوانوں کے گروہ تم میں سے جو خرچ کی طاقت رکھے وہ نکاح کر لے اس لئے کہ نکاح آنکھوں کو نیچا کر دیتا ہے اور فرج (شرم گاہ) کو زنا وغیرہ سے نچا دیتا ہے۔ اور جو خرچ کی طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے کہ گویا یہ اس کے لئے خصی کرنا ہے"۔


اگر امام الاعمش کے عن سے روایت کرنے سے روایت مردود کہلاتی ہے تو پھر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مذکورہ روایات بھی مردود کہلانی چاہئے کیوں کہ ان روایات میں بھی امام الاعمش نے عن سے روایت کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ شیخین نے جہاں اپنی تصانیف یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مہتم بالتدلیس راویوں کی معنعن روایات پیش کی ہیں وہاں ان روایات کے اصول و شواہد موجود ہوتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پھر شیخین نے اپنی کتب میں ان شواہد کو ترجیح کیوں نہ دی اور آخر وہ تدلیس والی روایات کو ہی کیوں پیش کرتے رہے؟ کیا یہ بات ثابت نہیں کر رہی کہ وہ بھی ان جلیل القدر ائمہ کو تدلیس کی تہمت سی بری جانتے تھے۔ اب کیا کیا جائے مدلسین کی ایسی روایات جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عن کے ساتھ مروی ہیں تو ان کو رد کر دیا جائے گا یا مانا جائے گا۔ یقینا ایسی تمام روایات کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شیخین نے اپنی مذکورہ کتابوں میں مدلسین کی معنعن روایات لا کر یہ باور کرا دیا کہ اس سے حدیث ضعیف نہیں ہوتی۔ لٰہذا ثا بت ہوا کہ جامع الترمذی کی مذکورہ روایت صحیح ہے۔

دیکھئیے شاہ ولی اللہ کیا فرماتے ہیں:
"اما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانھما متواتر ان الی مصنفیھما و انه کل من یھون امر ھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المومنین"
(حجۃ اللہ البالغہ 1/242 مترجم)
ترجمہ: "صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بابت محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی متصل، مرفوع احادیث ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور اپنے مصنفین تک متواتر ہیں نیز یہ کہ جو شخص بھی ان دونوں (مجموعہ ہائے احادیث) کی شان گھٹاتا ہے وہ بدعتی ہے اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کا پیروکار ہے۔"

اس کو
www.cris.co.nf کے محقق ڈاکٹر محمد یٰسین صاحب نے تیار کیا اور نظر ثانی اسی ادارہ کے ایک اورمحقق ڈاکٹر نور الحسین قاضی نے کیا ہے۔ الحمد للہ۔

نوٹ : قارئین کرام سے گذارش ہے کہ عبیداللہ بن زیاد کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کریں۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
عبیداللہ بن زیاد

اگر صاحب مضمون برا نہ منائیں تو میں اس دھاگے کا موضوع بحث تھوڑا وسیع کرنا چاہوں گا، کیوں نہ اس موضوع کو عبیداللہ بن زیاد پر پھیلا دیا جائے چونکہ میں کوئی عالم نہیں لہٰذا اپنی رائے تو نہیں دیے سکتا لیکن اس موضوع میں کچھ اقتباسات نقل کرنا چاہوں گا۔

1۔جب حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا، محترم داود راز نے بخاری شریف کی حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ابن زیاد کو 'بدبخت' لکھا ہے، ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔

dawood raz ibne zyad.PNG
dawood raz title.PNG
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
1۔جب حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا، محترم داود راز نے بخاری شریف کی حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ابن زیاد کو 'بدبخت' لکھا ہے، ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔
علامہ
عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى (المتوفى: 1353هـ)
اپنی مشہور عالم تصنیف ( تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ) میں عبید اللہ کے سر میں سانپ گھسنے والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

قَالَ الْعَيْنِيُّ : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَازَى هَذَا الْفَاسِقَ الظَّالِمَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ بِأَنْ جَعَلَ قَتْلَهُ عَلَى يَدَيْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ يَوْمَ السَّبْتِ لِثَمَانِ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ سِتٍّ وَسِتِّينَ عَلَى أَرْضٍ يُقَالُ لَهَا الْجَازِرُ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْمُوصِلِ خَمْسَةُ فَرَاسِخَ وَكَانَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ الثَّقَفِيُّ أَرْسَلَهُ لقتال بن زياد ولما قتل بن زياد جيء برأسه وبرؤوس أَصْحَابِهِ وَطُرِحَتْ بَيْنَ يَدَيِ الْمُخْتَارِ وَجَاءَتْ حَيَّةٌ دقيقة تخللت الرؤوس حتى دخلت في بن مرجانة وهو بن زِيَادٍ وَخَرَجَتْ مِنْ مَنْخَرِهِ وَدَخَلَتْ فِي مَنْخَرِهِ وَخَرَجَتْ مِنْ فِيهِ وَجَعَلَتْ تَدْخُلُ وَتَخْرُجُ مِنْ رأسه بين الرؤوس ثم إن المختار بعث برأس بن زياد ورؤوس الَّذِينَ قُتِلُوا مَعَهُ إِلَى مَكَّةَ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ وَقِيلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزبير فنصبها بمكة وأحرق بن الأشتر جثة بن زياد وجثث الباقين
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
شیخ زبیر علی زئی کی تحقیق کے ساتھ کتاب چھپی ہے فضائل صحابہ پر جو کہ حافظ شیر علی صاح کی تالیف ہے پر، اس میں بھی بخاری کی اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ابن زیاد کو 'ظالم مبغوض' لکھا گیا ہے، ملاحظہ ہو
fazail e sahaba.PNG
ibne zyad fazail sahaba.PNG


دارالسلام سے صیح بخاری کا جو ترجمہ چھپا ہے اس میں بھی ابن زیاد کو 'بدبخت' ہی لکھا گیا ہے
dar usalam ibn e zyad.PNG
sahib bukhari dar usalam.PNG
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
196
پوائنٹ
84
ابن زیاد تو ظالم تھا۔ لیکن اس سے محبت رکھنے والے آج بھی موجود ہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔
 
Top