ڈاکٹر محمد یٰسین
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 31، 2015
- پیغامات
- 31
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 36
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
کیا عبید اللہ بن زیاد کے سر میں سانپ گھسا تھا؟
جا مع ترمذی کی روایت کا تحقیقی جا ئزہ:
حدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: " لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی 3780)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س روایت کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پرکریدا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعدامام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو صحیح الا سناد کہا ہے۔ (جامع ترمذی از تحقیق و تخریج از شیخ ناصر الدین البانی ،جلد 2 ،حدیث 3780)
جبکہ کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ " کے صفحہ نمبر 393 میں ابن زیاد کا دفاع کرتے ہوئےاس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ روایت مردود ہے ۔ کیوں کہ سند میں سلیمان بن مہران الاعمش نے عن سے روایت کیا ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں۔ لہٰذا ان کا عنعنہ غیر مقبول ہے۔
امام سلیمان بن مہران الاعمش ۔۔۔۔جراح و تعدیل کے میزان میں:
اس روایت پر صحیح یا مردود (ضعیف) کا حکم لگانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام الاعمش کا علم الحدیث میں کیا مقام ہے۔
امام اعمش رحمہ اللہ کی توثیق و تعدیل
1۔ امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (المتوفی160)فرماتے ہیں:
"سليمان أحب إلينامن عاصم"
"سلیمان ( الاعمش ) ہمیں عاصم سےزیادہ محبوب ہیں۔"
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللہ : 4136 )
ایک دوسری جگہ امام شعبہ نے فرمایا:
"ماشفاني أحدمن الحديث ماشفاني الأعمش"
"حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمش سے ہوئی وہ کسی سے نہیں ہوئی۔"
(تاریخ بغداد : 11/9 وا سنادہ صحیح )
2۔ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سليمان بن مهران الأعمش،ثقة"
"سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ ہیں۔"
(الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم: 4/146 بحوالہ موسوعہ اقوال ابن معین : 2/266 ،ا اسنادہ صحیح )
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"كانا الأعمش جليلا جدا"
"اعمش نہایت جلیل القدر شخصیت تھے۔"
(سؤالات الآجری : 1/203 )
ایک دوسری جگہ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
؎"(أصح الأسانيد) الأعمش عن إبراهيم عن علقمةعن عبدالله"
"اسانید میں سب سے صحیح اسناد اعمش عن ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ (ابن مسعود ہے")
(معرفہ علوم الحدیث للحاکم : 1/99 )
3۔ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نظرت فإذاالإسناديدورعلى ستة... ابن شهاب الزهري... عمروبن دينار... قتادةبن
دعامة...یحیی بن أبي كثير... أبوإسحاق... وسليمان بن مهران."
"میں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ ان اسناد کا دارو مدار چھ لوگوں پر ہے ( یعنی زیادہ تراسانید کی بنیاد ان پر ہے،اور وہ ہیں( ۔۔۔ابن ہادب الزہری، عمرو بن دینار، قتادہ بن دعامہ، یحیی بن ابی کثیر،ابواسحاق، اور سلیمان بن مہران الاعمش"
(علل لابن المدینی : ص 36-37 )
4۔ امام احمد سے پوچھا گیا ،عاصم بن ابی النجود اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ
محبوب ہے ؟آپ نے فرمایا:
"الأعمش أحب إلي،وهوصحيح الحديث،وهومحدث"
"اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں،ان کی حدیث صحیح ہے اور وہ محدث ہیں۔"
(سؤالات ابن ہانی: 2179 )
5۔ امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ ( المتوفی 256 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح بخاری" میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے جن کی تعداد تقریبا 370 ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک امام اعمش زبردست ثقہ امام تھے ۔
6۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی 261 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح مسلم " میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایات لی ہیں جن کی تعداد تقریبا 275 ہے۔
معلو م ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک امام اعمش ثقہ امام تھے۔
7۔ امام ابوالحسن العجلی رحمہ اللہ ( المتوفی 261) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ا ور فرمایا :
"ثقة،كوفي،وكان مُحدث أهل الكوفة في زمانه"
"آپ ثقہ کوفی تھے ،اور آپ اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے محدث تھے ۔"
8۔ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی 264 ھ) فرماتے ہیں :
"سليمان الاعمش امام"
"سلیمان الاعمش امام تھے ۔ "
(الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147 )
9۔ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ عنہ (المتوفی 277 ھ) فرماتے ہیں :
"الأعمش ثقة يحتج بحديثه"
"اعمش ثقہ تھے اور انکی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔"
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147)
10۔ امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ ( لمتوفی 279 ھ) نے اپنی مشہور کتاب سنن الترمذی میں بے شمارمقامات پر امام اعمش کی روایات کو صحیح کہا ہے اور ایک جگہ پر آپ نے امام اعمش کی روایت کو منصور بن معتمر کی روایت پر فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
"ورواية الأعمش أصح"
"اعمش کی روایت منصور سے زیادہ صحیح ہے"
(سنن الترمذی : تحت ح 70،756 )
کیا عبید اللہ بن زیاد کے سر میں سانپ گھسا تھا؟
جا مع ترمذی کی روایت کا تحقیقی جا ئزہ:
حدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: " لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع الترمذی 3780)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س روایت کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پرکریدا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعدامام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو صحیح الا سناد کہا ہے۔ (جامع ترمذی از تحقیق و تخریج از شیخ ناصر الدین البانی ،جلد 2 ،حدیث 3780)
جبکہ کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ " کے صفحہ نمبر 393 میں ابن زیاد کا دفاع کرتے ہوئےاس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ روایت مردود ہے ۔ کیوں کہ سند میں سلیمان بن مہران الاعمش نے عن سے روایت کیا ہے۔ اور راجح قول کے مطابق یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں۔ لہٰذا ان کا عنعنہ غیر مقبول ہے۔
امام سلیمان بن مہران الاعمش ۔۔۔۔جراح و تعدیل کے میزان میں:
اس روایت پر صحیح یا مردود (ضعیف) کا حکم لگانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام الاعمش کا علم الحدیث میں کیا مقام ہے۔
امام اعمش رحمہ اللہ کی توثیق و تعدیل
1۔ امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (المتوفی160)فرماتے ہیں:
"سليمان أحب إلينامن عاصم"
"سلیمان ( الاعمش ) ہمیں عاصم سےزیادہ محبوب ہیں۔"
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللہ : 4136 )
ایک دوسری جگہ امام شعبہ نے فرمایا:
"ماشفاني أحدمن الحديث ماشفاني الأعمش"
"حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمش سے ہوئی وہ کسی سے نہیں ہوئی۔"
(تاریخ بغداد : 11/9 وا سنادہ صحیح )
2۔ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سليمان بن مهران الأعمش،ثقة"
"سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ ہیں۔"
(الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم: 4/146 بحوالہ موسوعہ اقوال ابن معین : 2/266 ،ا اسنادہ صحیح )
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"كانا الأعمش جليلا جدا"
"اعمش نہایت جلیل القدر شخصیت تھے۔"
(سؤالات الآجری : 1/203 )
ایک دوسری جگہ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
؎"(أصح الأسانيد) الأعمش عن إبراهيم عن علقمةعن عبدالله"
"اسانید میں سب سے صحیح اسناد اعمش عن ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ (ابن مسعود ہے")
(معرفہ علوم الحدیث للحاکم : 1/99 )
3۔ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نظرت فإذاالإسناديدورعلى ستة... ابن شهاب الزهري... عمروبن دينار... قتادةبن
دعامة...یحیی بن أبي كثير... أبوإسحاق... وسليمان بن مهران."
"میں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ ان اسناد کا دارو مدار چھ لوگوں پر ہے ( یعنی زیادہ تراسانید کی بنیاد ان پر ہے،اور وہ ہیں( ۔۔۔ابن ہادب الزہری، عمرو بن دینار، قتادہ بن دعامہ، یحیی بن ابی کثیر،ابواسحاق، اور سلیمان بن مہران الاعمش"
(علل لابن المدینی : ص 36-37 )
4۔ امام احمد سے پوچھا گیا ،عاصم بن ابی النجود اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ
محبوب ہے ؟آپ نے فرمایا:
"الأعمش أحب إلي،وهوصحيح الحديث،وهومحدث"
"اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں،ان کی حدیث صحیح ہے اور وہ محدث ہیں۔"
(سؤالات ابن ہانی: 2179 )
5۔ امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ ( المتوفی 256 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح بخاری" میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے جن کی تعداد تقریبا 370 ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک امام اعمش زبردست ثقہ امام تھے ۔
6۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی 261 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "صحیح مسلم " میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایات لی ہیں جن کی تعداد تقریبا 275 ہے۔
معلو م ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک امام اعمش ثقہ امام تھے۔
7۔ امام ابوالحسن العجلی رحمہ اللہ ( المتوفی 261) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ا ور فرمایا :
"ثقة،كوفي،وكان مُحدث أهل الكوفة في زمانه"
"آپ ثقہ کوفی تھے ،اور آپ اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے محدث تھے ۔"
8۔ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی 264 ھ) فرماتے ہیں :
"سليمان الاعمش امام"
"سلیمان الاعمش امام تھے ۔ "
(الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147 )
9۔ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ عنہ (المتوفی 277 ھ) فرماتے ہیں :
"الأعمش ثقة يحتج بحديثه"
"اعمش ثقہ تھے اور انکی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔"
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 4/147)
10۔ امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ ( لمتوفی 279 ھ) نے اپنی مشہور کتاب سنن الترمذی میں بے شمارمقامات پر امام اعمش کی روایات کو صحیح کہا ہے اور ایک جگہ پر آپ نے امام اعمش کی روایت کو منصور بن معتمر کی روایت پر فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
"ورواية الأعمش أصح"
"اعمش کی روایت منصور سے زیادہ صحیح ہے"
(سنن الترمذی : تحت ح 70،756 )