• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا علی رضی اللہ عنہ کے لئے سورج کا لوٹایا جانا صحیح ہے؟

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
السلام علیکم
یہ واقعی کیا صحیح ہے؟
اسکی سند مطلوب ہے اور اگر یہ صحیح نہیں تو پھر اس کو پیش کرنے والے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگر صحیح ہے تو کیا اسی طرح سے ہے؟ اور کیا یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے لئے ہوا؟
تفصیل بھی درکار ہے
جزاکم اللہ خیرا


حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔
حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اگر معاذاللہ محبت وعشق سے بےبہرہ خشک اعمال پرست مسلمان ہوتے تو عرض کردیتے یارسول اللہ ! ذرا چند لمحے توقف فرمائیں میں عصر پڑھ لوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن جہاں بحر محبت موجزن ہو وہاں عقل کا کیا کام ۔ اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب کا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے۔ وہ تو سالارِ عاشقاں ہیں اس راز کو بخوبی جانتے تھے
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں

چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر محبوب کل جہاں انے اپنا مبارک سر انکی گود میں رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟
آفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتاجارہا تھا۔ اور آٍفتابِ رسالت انکی گود میں جلوہ فرما تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔
پوچھا : کیا بات ہوئی؟
عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔
فرمایا : قضا پڑھ لو۔
سالارِ عاشقاں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ، گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ آقا !ٗنماز جائے آپ کی خدمت میں اور قضا پڑھوں؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
غور طلب نکتہ :
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے ہیں۔ آرام تو حضور علیہ السلام کا تھا، نیند بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ
’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘ لیکن ایسا نہیں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی نماز قضا ہو کر بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔
حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
مجمع الزوائد کا اصل نام مجمع الزوائد و منبع الفوائد ہے۔ یہ حدیث مبارکہ کی ایک کتاب ہے اور یہ علی ابن ابو بکر الہیتمی (735ہ - 807ہ) کی تصنیف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عن أبي سعيد الخدري يقول دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا رأسه في حجر علي وقد غابت الشمس فانتبه النبي صلى الله عليه وسلم وقال يا علي أصليت العصر قال لا يا رسول الله ما صليت كرهت أن أضع رأسك من حجري وأنت وجع فقال رسول الله يا علي ادع يا علي أن ترد عليك الشمس فقال علي يا رسول الله ادع أنت وأنا أؤمن فقال يا رب إن عليا في طاعتك وطاعة نبيك فاردد عليه الشمس قال أبو سعيد فوالله لقد سمعت للشمس صريرا كصرير البكرة حتى رجعت بيضاء نقية
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/86
خلاصة حكم المحدث: موضوع


فاردد عليه الشمس

 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
عن أبي سعيد الخدري يقول دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا رأسه في حجر علي وقد غابت الشمس فانتبه النبي صلى الله عليه وسلم وقال يا علي أصليت العصر قال لا يا رسول الله ما صليت كرهت أن أضع رأسك من حجري وأنت وجع فقال رسول الله يا علي ادع يا علي أن ترد عليك الشمس فقال علي يا رسول الله ادع أنت وأنا أؤمن فقال يا رب إن عليا في طاعتك وطاعة نبيك فاردد عليه الشمس قال أبو سعيد فوالله لقد سمعت للشمس صريرا كصرير البكرة حتى رجعت بيضاء نقية
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/86
خلاصة حكم المحدث: موضوع


فاردد عليه الشمس

جزاک الله خیرا کلیم بھائی
اگر اسکا ترجمہ بھی مل جائے تو بہت اچھا رہے گا اور آپ اس پر تبصرہ بھی کرینگے تو دوسرے فریق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک الله خیرا کلیم بھائی
اگر اسکا ترجمہ بھی مل جائے تو بہت اچھا رہے گا
حضرت ابو سعید خدری ﷜ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ پر داخل ہوا اور آپﷺ اپنا سر مبارک حضرت علی﷜ کی گود میں رکھے ہوئے تھے اور سورج غروب ہو چکا تھا۔نبی کریمﷺ حضرت علی﷜ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے علی﷜ آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے؟ حضرت علی﷜ نے فرمایا نہیں اے اللہ کے رسولﷺ میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی۔کیونکہ میں نے اس بات کو ناپسند جانا کہ آپ کا سرمبارک میری گود میں ہونے کی وجہ سے آپ کو کسی تکلیف کا سامنا ہو۔تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا اے علی دعا کرو کہ سورج آپ پر لوٹا دیا جائے۔حضرت علی﷜ نے فرمایا اے اللہ کے رسولﷺ آپ دعا کریں اور میں آمین کہونگا۔تو آپﷺ نے فرمایا
اے اللہ بے شک علی﷜ آپ کی اور آپ کے نبیﷺ کی اطاعت میں مصروف میں ہے (کہ عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا) اس پر سورج کو لوٹا دیجیے۔(تاکہ عصر کی نماز پڑھ سکے)
حدیث کے آخر میں یہ بات ہے کہ سورج چمکتا ہوا لوٹ آیا۔
اور آپ اس پر تبصرہ بھی کرینگے تو دوسرے فریق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی
عزیز بھائی پہلی بات جب حدیث موضوع ہے تو پھر تبصرہ پیش کرنا ہی فضول ہے۔اور پھر جنہوں نے یہ حدیث وضع کی وہ اس سے فضائل علی﷜ ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اسی حدیث میں فضیلت کےبجائے حضرت علی﷜ کے ساتھ (نعوذباللہ ثم نعوذباللہ) نبی کریمﷺ کی بھی تنقیص ثابت ہورہی ہے۔کیونکہ
1۔اس حدیث سے حضرت علی﷜ کا نبی کریمﷺ کی امامت میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنا ثابت ہورہا ہے۔جو کہ اس بات پر دال ہے کہ حضرت علی﷜ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سستی کرتے تھے۔(نعوذباللہ) اور یہ بات فضیلت پر نہیں بلکہ تنقیص پر دلالت کرتی ہے۔اور پھر خاص مجبوری کا بھی ذکر نہیں کہ حضرت علی﷜ نے اس وجہ سے عصر کی نماز باجماعت اداء نہیں کی۔
2۔ اس موضوع حدیث میں یہ الفاظ ’’وقد غابت الشمس‘‘ سے یقینی طور پر یہ معلوم ہورہا ہے کہ سورج غروب ہوچکا تھا۔اور سورج غروب ہونے کے بعد بھی آنحضورﷺ کو اور حضرت ﷜ کو نماز کی فکر نہ تھی؟ (نعوذباللہ)۔ یعنی نبی کریمﷺ اور حضرت علی﷜ کی بھی تنقیص ثابت ہورہی ہے۔کہ حضرت علی﷜ نے نہ عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپﷺ اور حضرت علی﷜ کو نماز مغرب کی بھی فکر نہ تھی۔اور پھر اچانک آپﷺ کو حضرت علی﷜ کی عصر کی نماز رہ جانے کا خیال آیا یعنی خود آپﷺ نے (نعوذباللہ ثم نعوذباللہ) اپنی مغرب کی نماز کی فکر نہیں کی۔
3۔اگر یہ لوگ’’وقد غابت الشمس‘‘ کا معنی یہ کرتے ہیں کہ سورج غروب ہونے کو تھا۔تو حدیث میں آتا کہ جس نے بھی عصر کی نماز کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی گویا اس نے مکمل نماز پالی۔تو حضرت علی﷜ نے اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ نعوذباللہ یا خود نبی کریمﷺ نے حضرت علی﷜ کو اپنی اس بات پر عمل کیوں نہیں کروایا۔؟نعوذباللہ ثم نعوذباللہ ۔ اس حدیث سے تو یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ حضرت علی﷜ کے ساتھ خود نبی کریمﷺ نے بھی حکم کی خلاف ورزی کی۔انا للہ وانا الیہ راجعون
المختصر مزید بھی غور کرنے سے اس طرح کی باتیں اس حدیث میں واضح کی جاسکتی ہیں کہ جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث موضوع من گھڑت ہے۔ اور جن لوگوں نے حضرت علی﷜ کی فضیلت بڑھانے کےلیے یہ حدیث گھڑی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس حدیث سے فضیلت حضرت علی﷜ ثابت ہی نہیں ہوتی۔واللہ اعلم۔مزید روشنی اہل علم ہی پیش فرمائیں گے۔
 
Top