• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟


  • Total voters
    20
  • Poll closed .

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
انتہائی قابل احترام برادران گرامی۔
بجائے ایک پرانی بحث کو شروع کرنے کے اگر آپ اس تھریڈ میں جن اہل حدیث بھائیوں نے تقلید کو کسی حد تک قبول کیا ہے انہی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔
http://forum.mohaddis.com/threads/ایک-چھوٹا-سا-سوال-اہل-حدیث-بھائیوں-سے۔.20240/
اللہ پاک آپ دونوں کو جزائے خیر دے۔
محترم بھائی میں نے جاکر پورا تھریڈ پڑھا ہے۔ اور اپنی رائے بھی دی ہے۔ اس لیے آپ سے اب گزارش ہے کہ جو سوال آپ سے یہاں کیا گیا ہے۔ آپ اس کا جواب یہاں دیں۔ شکریہ
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
اشماریہ
sufi
ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ عامی پر تقلید کیوں واجب ہے؟
ASalamoalekom

umeed hai sab bakhair honge. Aap ne poocha hai K aami par Taqleed wajib Q hai ?
Pahle is Q ka jawab ho jaye. Aur iska simple answer ye hai k Aami aalim nahi is liye Tahqeeq ka mukalif nahi. Agar kisi alim se rojo karta hai aur wo dalail bayan kr deta hai tu is aami main dalail ki chan phatak ki salahiat nahi mazeed baran wo in dalail se ahkaam mustanbit nahi kar sakta. Mukhtalif dalail main tatbeeq nahi desakta, dalail main se rajih o marjooh ka ilam nahi rakhta. Os k tu ye b pata nahi hota k jo masadar se arabi zuban main jo dalail oske samne bayan kiye ja rahe hain wo waqiatan dalail bhi hain ya arabi zuban main use galian dee ja rahi hain. Pas in baton k sabab wo majboor hai k kisi ilam wale par bharosa karke oske bataye huwe par amal kare. Allah humain samjh naseeb farmaye. Ameen
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ASalamoalekom

umeed hai sab bakhair honge. Aap ne poocha hai K aami par Taqleed wajib Q hai ?
Pahle is Q ka jawab ho jaye. Aur iska simple answer ye hai k Aami aalim nahi is liye Tahqeeq ka mukalif nahi. Agar kisi alim se rojo karta hai aur wo dalail bayan kr deta hai tu is aami main dalail ki chan phatak ki salahiat nahi mazeed baran wo in dalail se ahkaam mustanbit nahi kar sakta. Mukhtalif dalail main tatbeeq nahi desakta, dalail main se rajih o marjooh ka ilam nahi rakhta. Os k tu ye b pata nahi hota k jo masadar se arabi zuban main jo dalail oske samne bayan kiye ja rahe hain wo waqiatan dalail bhi hain ya arabi zuban main use galian dee ja rahi hain. Pas in baton k sabab wo majboor hai k kisi ilam wale par bharosa karke oske bataye huwe par amal kare. Allah humain samjh naseeb farmaye. Ameen
وعلیکم السلام
جی محترم بھائی اللہ کا شکر ہے۔ قوی امید ہے کہ آپ بھی خیریت سے ہونگے۔ ان شاءاللہ
میں نے سوال کیا تھا کہ عامی پر تقلید کو کیوں واجب کیا جاتا ہے؟
آپ کےجواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عامی چونکہ جاہل ہوتا ہے۔ اس کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، اس لیے وہ کسی علم والے پر بھروسہ کرکے اس سے مسائل پوچھ کر عمل کرے۔

آپ نے اپنی باتوں میں تین پوائنٹ لکھے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ
1۔ عامی عالم نہیں، اس لیے تحقیق کا مکلف نہیں۔
2۔ عامی بیان کی ہوئی دلیل کی چھان پھٹک نہیں کرسکتا، دلیل سے احکام مستنبط نہیں کرسکتا، مختلف فیہ دلائل میں تطبیق نہیں دےسکتا، راجح ومرجوع کا علم نہیں، وہ عربی سے بالکل غیرواقف ہوتا ہے۔ اس لیے دلیل نہ تو دلیل دیکھ سکتا ہے۔ اور نہ دلیل کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
3۔عامی پر ہر حال میں کسی نہ کسی عالم کی تقلید واجب ہی ہوگی۔

محترم بھائی جو بات آپ نے عامی کے حوالے سے کی مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اسی بات کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ نہ تو ہم اس کو تقلید کہتے ہیں۔ اور نہ آپ کے اکابرین نے اس کو تقلید میں شمار کیا ہے۔۔اگر آپ کو معلوم نہیں تو کتب کی طرف مراجعت کریں۔

یہاں پر ہم چونکہ بات عامی پر تقلید کے واجب ہونے کے حوالے سے کررہے ہیں۔ (اور لفظ تقلید چونکہ بعض علماء لغوی طور پر اہل حدیث کےلیے بھی بولتے ہیں، لیکن میں اس کا قائل نہیں۔ مگر ہماری یہاں بات عامی پر اصطلاحی تقلید کے وجوب پر ہے)

اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ عامی کو کیسے پتہ چلے گا کہ

وہ کس عالم کی تقلید کرے؟ یعنی کس فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم کی ؟ کیونکہ جب وہ کچھ کرہی نہیں سکتا، اور نہ کچھ سمجھ سکتا ہے تو پھر اس کو اس بات کا کیسے علم ہوگا کہ میں نے کس فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم کی بات کو ماننا ہے؟ اور پھر ایک ہی عالم کی باتوں کو پوری زندگی ماننا ہے؟ یا عالم تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے؟

آپ گھبرائیں نہیں، اس طرح میرے ذہن میں کچھ اشکالات ہیں، آپ سے بات کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔۔شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خاوند اوربیوی کےمابین فقھی اختلافات کی وجہ سے گھریلو کشیدگی :

میرا خاوند شافعی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اوروہ اس میں متعصب ہے ، اورجب میں کسی فتوی کواختیار کرتی ہوں کہ دلیل کے اعتبار سے یہ قوی اورصحیح ہے اوراس میں مذاہب اربعہ کونہیں دیکھتی تومیرا خاوند کہتا ہے کہ مجھے ایسا کرنے کا کوئي حق نہیں ، حالانکہ میں کوئي عالمہ نہیں توکیا یہ صحیح ہے ؟

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب ضرور دیں کیونکہ اس کی وجہ میں میرے گھرمیں بہت کشیدگی پائي جاتی ہے ۔

الحمد للہ :

اس کے جواب میں کچھ معلومات کی ضرورت ہے کہ کچھ جوانب کا علم ہونا چاہیے :

1 - کسی بھی مذھب میں تعصب رکھنا سے دور رہنا چاہیے اس کی بہت ہی زيادہ اھمیت ہے چاہے وہ مذہب فقہی ہو یا پھر فکری وغیرہ ، بلکہ اس سے دور ہٹ کر کتاب وسنت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے کہ جوقرآن و سنت میں ہے اسے تسلیم کیا جائے اوران کے طریقے کواپنا طریقہ بنایا جائے ۔

2 - فقھاء کے اقول لینے میں ایک چيز جسے میلان کا نام دیا جاتا ہے بھی پائي جاتی ہے ، اس میں اس قدر ترجیح نہیں ہوتی جتنی کہ خواہش اور رخصتوں پر چلنے اور انسان اپنی غرض کے موافق اقوال کولینے میں ہوتی ہے ۔

اورپھر انسان میں تاویل کی بھی ایک نوع ہوتی ہے اوربعض اوقات کچھ ایسے دوافع پائے جاتے ہیں جنہیں وہ صحیح سمجھتا ہے ، اوراس کی غلطی اسے جلدواضح نہیں ہوتی بلکہ کچھ مدت گزرنے کے بعد اسے وہ غلطی نظر آتی ہے ۔

تو اس لیے کسی قول کواختیار کرنے یا اس کی ترجیح میں ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلہ میں دراسہ کرلیا جائے اوراس کے دلائل کو دیکھ کرانہیں پرکھا جائے اورہر فریق کے دلائل اوربراہین کا تتبع کرکے موازنہ کیا جائے کہ کس کے دلائل صحیح ہیں جوکہ ایک متمکن طالب علم ہی کرسکتا ہے ، یا پھر دینی علم میں مشہور عالم جوکہ ورع و تقوی میں معروف ہے اوراس پر نفس بھی مطمئن ہوکہ اس میں اخلاص اور وسعت علم بھی ہے وہ کرے ، تو جس کے دلائل قرآن و سنت کے مطابق ہوں اسے مان لیا جائے۔

3 - ازدواجی زندگی میں گھر کے اندر اختلافات سے بچنا ضروری ہے اور اولی ہے ، کسی رائے کودوسری رائے پر مقدم کرنے یا کسی مذھب کوکسی مسئلہ میں مقدم کرنے میں اختلافات سے بچنا چاہیے جب کہ وہ مسئلہ بھی ایسا ہوجس میں کئي ایک اقوال کا احتمال ہو اوروہ آپس میں معارض بھی ہوں ۔

اوراس میں یہ کوشش اورحرص کرنی چاہیے کہ خاوند کوبڑے آرام سے اس پر مائل کریں کہ وہ دلائل پر اعتماد کرے نا کہ کسی خاص مسلک اورمذھب اورقول پر ، کیونکہ کومذاہب میں کوئي مذہب اورعالم ہر وقت صحیح نہيں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس میں تبدیلی بھی آسکتی ہے ۔

اورجب کسی بھی امام کا قول مشہوردلیل اورحدیث کے مخالف ہو تو اسے ترک کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی خود ہی فرماتے ہیں :

جب میرا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مخالف ہو تومیرا قول دیوار پر دے مارو ۔

تواس سے یہ معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل ہوگا نہ کہ کسی امام کے قول پر۔

اس لیے اگرآپ اورآپ کا خاوند متمکن شرعی طالب علم نہیں تو پھر آپ کسی عالم دین سے رجوع کریں اوراس سے مسائل پوچھیں ، اوریہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی ایک عالم دین کے بارہ میں اتفاق کرلیں ہم اس سے مسائل پوچھا کریں گے تو یہ بہتر ہے ۔

اوراگرآپ کسی ایک عالم کو اوروہ کسی دوسرے عالم کو اختیار کرتا ہے تو پھر آپ اس میں بھی قرآن وسنت کے دلائل کوسامنے رکھیں اورآپ قرآن وسنت کے دائرہ میں رہتےہوئے ان عالموں کی بات تسلیم کریں ، اوراگرآپ کوسمجھ نہيں آتی توپھر ان سے پوچھیں اوراس پر عمل کریں اگروہ غلط بتائے گا توجواب دہ ہوگا ۔

خاوند اپنے عالم دین کی بات مانے اورآپ اپنے کی ۔( لیکن قرآن وسنت کو معیار بنائيں ) ۔

واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/3755
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
وعلیکم السلام
جی محترم بھائی اللہ کا شکر ہے۔ قوی امید ہے کہ آپ بھی خیریت سے ہونگے۔ ان شاءاللہ
میں نے سوال کیا تھا کہ عامی پر تقلید کو کیوں واجب کیا جاتا ہے؟
آپ کےجواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عامی چونکہ جاہل ہوتا ہے۔ اس کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، اس لیے وہ کسی علم والے پر بھروسہ کرکے اس سے مسائل پوچھ کر عمل کرے۔

آپ نے اپنی باتوں میں تین پوائنٹ لکھے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ
1۔ عامی عالم نہیں، اس لیے تحقیق کا مکلف نہیں۔
2۔ عامی بیان کی ہوئی دلیل کی چھان پھٹک نہیں کرسکتا، دلیل سے احکام مستنبط نہیں کرسکتا، مختلف فیہ دلائل میں تطبیق نہیں دےسکتا، راجح ومرجوع کا علم نہیں، وہ عربی سے بالکل غیرواقف ہوتا ہے۔ اس لیے دلیل نہ تو دلیل دیکھ سکتا ہے۔ اور نہ دلیل کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
3۔عامی پر ہر حال میں کسی نہ کسی عالم کی تقلید واجب ہی ہوگی۔

محترم بھائی جو بات آپ نے عامی کے حوالے سے کی مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اسی بات کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ نہ تو ہم اس کو تقلید کہتے ہیں۔ اور نہ آپ کے اکابرین نے اس کو تقلید میں شمار کیا ہے۔۔اگر آپ کو معلوم نہیں تو کتب کی طرف مراجعت کریں۔

یہاں پر ہم چونکہ بات عامی پر تقلید کے واجب ہونے کے حوالے سے کررہے ہیں۔ (اور لفظ تقلید چونکہ بعض علماء لغوی طور پر اہل حدیث کےلیے بھی بولتے ہیں، لیکن میں اس کا قائل نہیں۔ مگر ہماری یہاں بات عامی پر اصطلاحی تقلید کے وجوب پر ہے)

اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ عامی کو کیسے پتہ چلے گا کہ

وہ کس عالم کی تقلید کرے؟ یعنی کس فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم کی ؟ کیونکہ جب وہ کچھ کرہی نہیں سکتا، اور نہ کچھ سمجھ سکتا ہے تو پھر اس کو اس بات کا کیسے علم ہوگا کہ میں نے کس فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم کی بات کو ماننا ہے؟ اور پھر ایک ہی عالم کی باتوں کو پوری زندگی ماننا ہے؟ یا عالم تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے؟

آپ گھبرائیں نہیں، اس طرح میرے ذہن میں کچھ اشکالات ہیں، آپ سے بات کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔۔شکریہ
عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم سے دینی مسائل جان سکتا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اپنے قرب و جوار میں میسر ایسے عالم کے پاس وہ جاتا ہے جو اسکے حلقے میں مقبول ہو۔ میں آپ کو اپنی آبزرویشن بتاوں تو جس بھی فقہ والے کے پاس آپ جائیں ہر ایک کے پاس اپنے دلائل ہوتے ہیں۔ یہ پھر مولوی حضرات ہوتے ہیں جو اپنے فقہ کے دلائل کو قوی سمجھتے ہوئے عامیوں کو اپنی فقہ کی رغبت دیتے ہیں یا ہم جیسے معمولی دینی سوجھ بوجھ رکھنے والے ہوتے ہیں جو عامیوں کو اپنی فقہ کے عالموں کے طرف ریفر کرتے ہیں۔ اگر آپ جواب میں تشنگی پائیں تو ضرور لکھئے میری کوشش ہوگی کہ اپنے علم کی حد تک آپکو جو بات صحیح سمجھتا ہوں جواب دوں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی فقہ سے تعلق رکھنے والے عالم سے دینی مسائل جان سکتا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اپنے قرب و جوار میں میسر ایسے عالم کے پاس وہ جاتا ہے جو اسکے حلقے میں مقبول ہو۔ میں آپ کو اپنی آبزرویشن بتاوں تو جس بھی فقہ والے کے پاس آپ جائیں ہر ایک کے پاس اپنے دلائل ہوتے ہیں۔ یہ پھر مولوی حضرات ہوتے ہیں جو اپنے فقہ کے دلائل کو قوی سمجھتے ہوئے عامیوں کو اپنی فقہ کی رغبت دیتے ہیں یا ہم جیسے معمولی دینی سوجھ بوجھ رکھنے والے ہوتے ہیں جو عامیوں کو اپنی فقہ کے عالموں کے طرف ریفر کرتے ہیں۔ اگر آپ جواب میں تشنگی پائیں تو ضرور لکھئے میری کوشش ہوگی کہ اپنے علم کی حد تک آپکو جو بات صحیح سمجھتا ہوں جواب دوں۔
1۔ محترم بھائی جب عامی کا کوئی مذہب نہیں تو پھر وہ مکلف کس بات پہ؟ ارے بھائی جان عامی آدمی کی جہالت کیا قیامت کو کچھ کام آئے گی؟ کیا وہ رب کریم کو یہ کہہ سکے گا کہ میں نے نماز، روزہ، زکوۃ یا اختلافی مسائل خاص طور سورۃ الفاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کو اس لیے نہیں کرتا تھا، کیونکہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں گے کہ ٹھیک ہے تم جنت چلےجاؤ ؟۔۔
2۔ اس کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے قرب وجوار میں مقبول عالم کون ہے؟ اگر اس کے قرب وجوار میں شیعہ مسلک یا قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے والا مقبول ہے، اور جس سے بھی پوچھتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہاں یہ درست کہتے ہیں۔ تو کیا عامی پھر ان کی تقلید کرنا شروع کردے؟
3۔محترم بھائی یہی تو سب سے بڑی وجہ ہے مولوی حضرات کو اپنی اپنی فقہ کی طرف جانا ہی کیوں چاہیے؟ کیا جو مولوی حضرت صاحب فقہ سے مسئلہ نکال کر اس کو بتا رہا ہے۔ کیا وہ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکال کر نہیں بتا سکتا ؟
4۔ آپ کے بقول جب عامی کا کوئی مذہب ہی نہیں، تو پھر ایک معین شخص کی تقلید کا اس کو درس کیوں دیا جاتا ہے؟ ٹھیک ہے جب اس کا کوئی مذہب ہی نہیں تو پھر جیسے مرضی کرے، جو دل میں آئے ، جس مسلک کی بات اس کو من پسند لگے وہ مانتا چلا جائے۔ کیا ایسا فعل اس کےلیے درست ہے؟
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
1۔ محترم بھائی جب عامی کا کوئی مذہب نہیں تو پھر وہ مکلف کس بات پہ؟
اسکی وضاحت فرمائیں گے تو جواب دیا جائے گا۔ إزہب سے مراد میں فقہی مزاہب لے رہا ہوں دین اسلام نہیں۔ عامی اپنی حیثیت کے مطابق شرعی احکامات پر عمل کا مکلف ہے۔ اور اپنی جہالت کی وجہ سے کتاب و سنت سے براہ راست احکام اخذ کرنے کا مکلف نہیں ۔
1۔ارے بھائی جان عامی آدمی کی جہالت کیا قیامت کو کچھ کام آئے گی؟ کیا وہ رب کریم کو یہ کہہ سکے گا کہ میں نے نماز، روزہ، زکوۃ یا اختلافی مسائل خاص طور سورۃ الفاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کو اس لیے نہیں کرتا تھا، کیونکہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں گے کہ ٹھیک ہے تم جنت چلےجاؤ ؟
اس بات کا ہماری بات سے کیا ربط بنتا ہے بھائی
1۔اس کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے قرب وجوار میں مقبول عالم کون ہے؟ اگر اس کے قرب وجوار میں شیعہ مسلک یا قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے والا مقبول ہے، اور جس سے بھی پوچھتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہاں یہ درست کہتے ہیں۔ تو کیا عامی پھر ان کی تقلید کرنا شروع کردے ؟
میں نے عرض کیا تھا کہ اپنے حلقہ کے ذریعے سے۔ اس کا خاندان، عزیز و رشتہ دار اور دوست احباب کے ذریعے جس پر انکو اعتماد ہوتا ہےوہ علما کو طے کرتے ہیں اور ان سے مسائل میں مدد لیتے ہیں
1۔محترم بھائی یہی تو سب سے بڑی وجہ ہے مولوی حضرات کو اپنی اپنی فقہ کی طرف جانا ہی کیوں چاہیے ؟
اپنے دلائل کو قوی جان کر وہ اپنی فقہ سے وابستہ ہوتے ہیں
1۔ ؟کیا جو مولوی حضرت صاحب فقہ سے مسئلہ نکال کر اس کو بتا رہا ہے۔ کیا وہ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکال کر نہیں بتا سکتا
سلف کی سمجھ پر اعتماد ہوتا ہے۔ اور قرآن و حدیث میں اتنا درک ورسوخ نہیں ہوتا جتنا کہ سلف کو۔
1۔ ؟آپ کے بقول جب عامی کا کوئی مذہب ہی نہیں، تو پھر ایک معین شخص کی تقلید کا اس کو درس کیوں دیا جاتا ہے
تصحیح فرمالیں معین مذہب کی۔
1۔ ؟ٹھیک ہے جب اس کا کوئی مذہب ہی نہیں تو پھر جیسے مرضی کرے، جو دل میں آئے ، جس مسلک کی بات اس کو من پسند لگے وہ مانتا چلا جائے۔ کیا ایسا فعل اس کےلیے درست ہے
اس طرح دین بازیچہ اطفال بن جائے گا اور عامی نفس کا پجاری
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی میں نے جاکر پورا تھریڈ پڑھا ہے۔ اور اپنی رائے بھی دی ہے۔ اس لیے آپ سے اب گزارش ہے کہ جو سوال آپ سے یہاں کیا گیا ہے۔ آپ اس کا جواب یہاں دیں۔ شکریہ
جی بھائی میں نے عرض کیا تھا کہ وہاں جو بھائی کسی حد تک تقلید کے قائل ہیں ان سے یہ سوال دریافت فرما لیجیے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے ہم مشرب بھی ہیں اور اہل علم بھی۔ آپ کو ان کی رائے پر میری رائے کے مقابلہ میں زیاد اعتماد ہوگا۔

اگر آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے عقلا میرا جواب صوفی بھائی والا ہی ہے۔ کہ ایک عامی کی یہ ضرورت ہے۔

اگر میں ایک عامی شخص ہوں اور مجھے علم سے کوئی واسطہ نہیں اور مجھے کوئی دو احادیث متعارض نظر آتی ہیں تو میں کس پر عمل کروں گا؟ مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے عدوی اور طیرہ سے منع کیا اور دوسری میں ہے مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اب یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اگر میں عامی ہوں تو مجھے علماء کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر آپ اہل علم میں سے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ اس تعارض کا صراحت سے حل نہ قرآن کریم میں ہے نہ احادیث میں۔ علماء نے اپنے اندازوں اور رائے کی بنیاد پر اسے حل کیا ہے۔ اگر میں اس مسئلے میں آپ کی رائے پر عمل کرتا ہوں تو یہ تقلید ہے۔ اور اگر عمل نہیں کرتا تو پھر میں کیا کروں؟ کیا اپنی مرضی سے تشریح کر دوں؟ یا منکر حدیث ہو جاؤں؟
دوم:۔ میں ایک عامی شخص ہوں اور تھوڑا سا علم بھی رکھتا ہوں اور مجھے ایک حدیث ملتی ہے جس کے ایک راوی کے بارے میں علماء میں کسی عالم نے جرح کی ہے۔ یعنی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس عالم اور راوی کی آپس میں لڑائی تھی، حسد تھا، مسلکی منافرت تھی یا اور کچھ۔ لیکن اس عالم کے تقوی اور ورع پر اعتماد کرتے ہوئے میں اس کی جرح کو قبول کرتا ہوں۔ قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ یہ شخص ضعیف ہے۔ میں تو صرف اس عالم کی تقلید کر رہا ہوں۔ آپ بتائیے کیا اس کا اس تقلید کے علاوہ کوئی حل ممکن ہے؟
سوم:۔ میں تھوڑا اور علم حاصل کر لیتا ہوں۔ اب میرے پاس ایک ایسی حدیث آگئی ہے جس کے کسی راوی کے بارے میں علماء کی دو آراء ہیں۔ بعض اسے ضعیف کہتے ہیں اور بعض اسے ثقہ۔ میں کس کی مانوں گا؟ کیا میں اس کے لیے علماء کے بنائے ہوئے اصولوں کی طرف رجوع نہیں کروں گا؟ کیا وہ قرآن و حدیث میں ہیں یا وہ علماء کی اپنی آراء ہیں؟
میرے انتہائی محترم بھائی! یہ دعوی ہے تو بہت خوشنما کہ کسی کی تقلید نہ کی جائے لیکن حقیقت میں بالکلیہ طور پر اس پر عمل پیرا ہونا ناممکن ہے۔ جس چیز (حدیث) کی بنیاد پر آپ تقلید چھوڑیں گے اس کے اپنے ثبوت کے لیے تقلید کی ضرورت ہے۔ اور یہ تقلید تو اہل حدیث بھی کرتے ہیں۔
بس تقریبا یہی حال فقہ میں ہوتا ہے۔
اگر میں درست ہوں تو فان آمنو بمثل ما آمنتم بہ فقد اہتدوا ایک اشارہ تھا کہ الفاظ اگر گم بھی ہو جائیں یا کچھ اور مطلب دینے لگیں تو بھی ایمان وہ معتبر ہوگا جس میں تمہاری (صحابہ کی) تقلید ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خوارج و معتزلہ باوجود علم کے اور مضبوط استدلالات کے بھٹکے ہوئے شمار ہوئے۔
اسی طرح جب ہم کسی بھی فقہ کو بغور دیکھیں تو اس میں دلائل لفظیہ کے ساتھ ساتھ قرون اولی کے مسلمانوں کے عمل کو بھی دیکھا گیا ہے جنہوں نے لفظی علم اتنا حاصل نہیں کیا تھا جتنا عمل سیکھا تھا۔
یہ چند مثالیں اور کچھ گذارشات ہیں۔ بحثیں تو ہر دو جانب کے علماء نے اس پر بہت کی ہیں اور کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ بھی سکتا ہے اور اپنے مزاج کے موافق بات پر سر بھی دھن سکتا ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
٭ یعنی اللہ تعالیٰ نے عامی پر احکامات کا بوجھ تو لاد دیا ہے۔ مگر بوجھ لاد کر بھی اتنی طاقت نہیں دی، کہ وہ قرآن وحدیث کو سمجھ سکے، اس لیے اس کو چار مذاہب فقہیہ میں سے کسی مذہب کی تقلید کرنے والے مولوی صاحب کی بات کو ماننا، اس کو سمجھنا اور پھر اس کے مطابق آنکھیں بند کرکے عمل کرنا ہی ہوگا، تبھی وہ اس مکلف والے بوجھ کو اٹھا سکے گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عامی ایسے آدمی کی بات جو قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط کرتا ہے کی بات کو نہ سمجھ سکتا ہے؟ نہ اس پر عمل کرسکتا ہے۔ لیکن یہی عامی ایسے مولانا کی بات جو فقہی مذاہب میں سے کسی مذہب کا مقلد ہے وہ اگر اس کو کوئی مسئلہ بتائے گا۔ تو عامی اسی پر عمل بھی کرلے گا اور اس کو سمجھ بھی لے گا۔۔یعنی مقلد مقلد کی بات تو سمجھ بھی سکتا ہے۔ اس پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ مگر متبع کی نہ بات سمجھ سکتا ہے۔ نہ اس پر عمل کرسکتا ہے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون

٭ اس بات کا تعلق ہے یا نہیں؟ بات لکھ دی گئی ہے۔ تعلق وربط دیکھنے والے خود تلاش کرلیں گے۔ ان شاءاللہ

٭ اگر اس کے حلقہ والے، اس کے رشتہ دار اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے سبھی شیعہ مسلک وقادیانی مسلک کو معتبر سمجھتے ہیں تو کیا یہ عامی بھی انہیں مسالک کو معتبر سمجھ کر نجات پاسکتا ہے؟ یا اس کےلیے کوئی اور احکام بھی ہیں؟

٭ یہی مولاناز دلائل جان کر قرآن وحدیث سے بھی وابستہ ہوسکتے ہیں۔ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

٭ مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ ہمیں طریق سلف نہیں چھوڑنا چاہیے، مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے اتباع صرف اور صرف قرآن وحدیث کی کرنی ہے۔ جو مولوی حضرات اپنے آپ کو صاحب علم ومفتیان کرام کے القابات سے نوازتے ہیں۔ لیکن پھر بھی تقلید کرتے ہیں۔ اور اپنے مذہب کو تقویت دینے میں کیسے کیسے دلائل کہاں کہاں سے لاتے ہیں؟ الامان والحفیظ۔ مگر یہی مولوی طبقہ اگر طریق سلف پر رہتے ہوئے اول قرآن وحدیث کو سامنے رکھے، اور پھر اس کے تحت اپنے سلف کے مسائل کو دیکھیں، اور جہاں تضاد سامنے آئے، سلف کی بات کو چھوڑ کر قرآن وحدیث پہ عمل کریں۔ اور یوں نہ کہیں کہ ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی تو کیا اختلاف ختم ہوسکتے ہیں؟ اور یہی ہماری دعوت ہے۔

٭ تقلید شخصی سے مراد معین مذہب ؟ یعنی اب مقلَّد کے بیان کردہ مسائل کو مقلد ین میں سے ایک معین جماعت فیصلہ کرے گی کہ یہ بات معین مذہب میں آسکتی ہے یا نہیں؟ ۔ تو پھر یہ لوگ مقلد کیسے رہ جائیں گے؟ جو مقلَّد کی باتوں کا فیصلہ کررہے ہیں ۔ کچھ باتوں کو تسلیم کررہے ہیں اور کچھ کا انکار۔۔۔ پھر تو یہ مقلد نہ ہوئے بلکہ مقلَّد سے بھی بڑے مجتہد ہوئے؟ ۔ کیا خیال ہے؟

٭بالکل میں آپ کی بات سے متفق ہوں، کہ اسی طرح دین بازیچہ اطفال بن جائے گا، اور لوگ نفس کے پجاری ہوجائیں گے۔ اور یہی حال تقلید کو ضروری قرار دینے سے ہوا ہوا ہے۔ جس کے نام سے مذاہب بنائے گئے ہیں، مقلدین ان کے بیان کردہ مسائل ہی نہیں مانتے؟ جو نفس پجاری کی مین جڑ ہیں۔ آگے کی باتیں تو آگے کی ہیں۔۔۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ صرف قرآن وحدیث پہ آجاؤ، جو بات جس کسی کی بھی جس مسلک سے تعلق رکھنے والے کی بھی قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہو، اس کو مان لو۔۔۔ تمام مسائل ہی حل ہوجائیں گے۔۔۔کیونکہ تقلید ہی (ہم صرف اسی کو تقلید میں شامل کرتے ہیں، جو قرآن وحدیث کے مخالف بات ہو، جو بات جس کسی کی بھی قرآن وحدیث کے مخالف نہیں ہے، اس پر تقلید کا لفظ بولا ہی نہیں جاسکتا) سب فتنوں کی جڑ ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جی بھائی میں نے عرض کیا تھا کہ وہاں جو بھائی کسی حد تک تقلید کے قائل ہیں ان سے یہ سوال دریافت فرما لیجیے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے ہم مشرب بھی ہیں اور اہل علم بھی۔ آپ کو ان کی رائے پر میری رائے کے مقابلہ میں زیاد اعتماد ہوگا۔

اگر آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے عقلا میرا جواب صوفی بھائی والا ہی ہے۔ کہ ایک عامی کی یہ ضرورت ہے۔

اگر میں ایک عامی شخص ہوں اور مجھے علم سے کوئی واسطہ نہیں اور مجھے کوئی دو احادیث متعارض نظر آتی ہیں تو میں کس پر عمل کروں گا؟ مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے عدوی اور طیرہ سے منع کیا اور دوسری میں ہے مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اب یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اگر میں عامی ہوں تو مجھے علماء کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر آپ اہل علم میں سے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ اس تعارض کا صراحت سے حل نہ قرآن کریم میں ہے نہ احادیث میں۔ علماء نے اپنے اندازوں اور رائے کی بنیاد پر اسے حل کیا ہے۔ اگر میں اس مسئلے میں آپ کی رائے پر عمل کرتا ہوں تو یہ تقلید ہے۔ اور اگر عمل نہیں کرتا تو پھر میں کیا کروں؟ کیا اپنی مرضی سے تشریح کر دوں؟ یا منکر حدیث ہو جاؤں؟
دوم:۔ میں ایک عامی شخص ہوں اور تھوڑا سا علم بھی رکھتا ہوں اور مجھے ایک حدیث ملتی ہے جس کے ایک راوی کے بارے میں علماء میں کسی عالم نے جرح کی ہے۔ یعنی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس عالم اور راوی کی آپس میں لڑائی تھی، حسد تھا، مسلکی منافرت تھی یا اور کچھ۔ لیکن اس عالم کے تقوی اور ورع پر اعتماد کرتے ہوئے میں اس کی جرح کو قبول کرتا ہوں۔ قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ یہ شخص ضعیف ہے۔ میں تو صرف اس عالم کی تقلید کر رہا ہوں۔ آپ بتائیے کیا اس کا اس تقلید کے علاوہ کوئی حل ممکن ہے؟
سوم:۔ میں تھوڑا اور علم حاصل کر لیتا ہوں۔ اب میرے پاس ایک ایسی حدیث آگئی ہے جس کے کسی راوی کے بارے میں علماء کی دو آراء ہیں۔ بعض اسے ضعیف کہتے ہیں اور بعض اسے ثقہ۔ میں کس کی مانوں گا؟ کیا میں اس کے لیے علماء کے بنائے ہوئے اصولوں کی طرف رجوع نہیں کروں گا؟ کیا وہ قرآن و حدیث میں ہیں یا وہ علماء کی اپنی آراء ہیں؟
میرے انتہائی محترم بھائی! یہ دعوی ہے تو بہت خوشنما کہ کسی کی تقلید نہ کی جائے لیکن حقیقت میں بالکلیہ طور پر اس پر عمل پیرا ہونا ناممکن ہے۔ جس چیز (حدیث) کی بنیاد پر آپ تقلید چھوڑیں گے اس کے اپنے ثبوت کے لیے تقلید کی ضرورت ہے۔ اور یہ تقلید تو اہل حدیث بھی کرتے ہیں۔
بس تقریبا یہی حال فقہ میں ہوتا ہے۔
اگر میں درست ہوں تو فان آمنو بمثل ما آمنتم بہ فقد اہتدوا ایک اشارہ تھا کہ الفاظ اگر گم بھی ہو جائیں یا کچھ اور مطلب دینے لگیں تو بھی ایمان وہ معتبر ہوگا جس میں تمہاری (صحابہ کی) تقلید ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خوارج و معتزلہ باوجود علم کے اور مضبوط استدلالات کے بھٹکے ہوئے شمار ہوئے۔
اسی طرح جب ہم کسی بھی فقہ کو بغور دیکھیں تو اس میں دلائل لفظیہ کے ساتھ ساتھ قرون اولی کے مسلمانوں کے عمل کو بھی دیکھا گیا ہے جنہوں نے لفظی علم اتنا حاصل نہیں کیا تھا جتنا عمل سیکھا تھا۔
یہ چند مثالیں اور کچھ گذارشات ہیں۔ بحثیں تو ہر دو جانب کے علماء نے اس پر بہت کی ہیں اور کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ بھی سکتا ہے اور اپنے مزاج کے موافق بات پر سر بھی دھن سکتا ہے۔
اشماریہ بھائی آپ سے اس مسئلہ پر اگر موقع ملا تو بات ہوگی، ان شاءاللہ
 
Top