• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عورت برائی کی جڑ ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا عورت برائی کی جڑ ہے؟

بشارت حمید

یہ تصور ہمارے ہاں بہت عام ہے کہ دنیا میں ہر برائی کی جڑ عورت ہی ہے اور اسی نے آدم علیہ السلام کو اپنے پیچھے لگا کر جنت سے نکلوایا تھا یہ سراسر ایک غلط تصور ہے۔ یہ عیسائیوں کا عقیدہ تو ہو سکتا ہے جو انہوں نے اسرائیلی روایات سے لیا ہو۔ انہوں نے تو اس پر اتنا یقین کر لیا کہ انگریزی زبان میں حوا کو Eve کہا اور اسی سے پھر برائی کے لیے لفظ Evil بنا لیکن ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ رکھنا از روئے قرآن درست نہیں ہے۔

اللہ تعالٰی نے جب زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کیا تو ایسے شخص کو نائب بنانے والا ہے جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرتا پھرے۔ اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر فرشتوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ”میں سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر کی تخلیق کرنے والا ہوں اور جب میں اس کی نوک پلک سنوار دوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا“۔

پھر اللہ تعالی نے آدم کی تخلیق فرمائی اور ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ان کی پسلی سے اماں حوا کو پیدا کیا پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس جو کہ نسلاً جنوں میں سے تھا لیکن اللہ کی عبادت کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ اس کو فرشتوں کا بھی سردار بنا دیا گیا تھا، اس نے سجدہ نہیں کیا۔ اللہ تعالٰی نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے میرا حکم ماننے سے روک دیا؟ ابلیس نے کہا، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔ لہٰذا میں اس سے بہتر ہوں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ نکل یہاں سے مردود و نامراد ہو کر۔ روز قیامت تک تجھ پر لعنت کر دی گئی۔

پھر اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جو چاہو کھاؤ لیکن اس ایک درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

سورہ الاعراف میں قصہ آدم و ابلیس کا مطالعہ کیا جائے تو آیت نمبر 20 تا 25 میں فرمایا گیا:

شیطان نے دونوں کو وسوسے میں ڈالا تاکہ ان کے ستر ظاہر کروا دے جو کہ انہوں نے ایک دوسرے سے چھپائے ہوئے تھے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ کہیں اسے کھا کر تم فرشتے نہ بن جاؤ اور حیات جاوداں نہ پا لو۔ اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ تو اس نے ان دونوں کو دھوکے سے (نافرمانی کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ جب ان دونوں نے اس درخت کے پھل کو چکھا تو انکے ستر ایک دوسرے پر ظاہر ہو گئے پھر وہ جنت کے پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ تب ان کے پروردگار نے ان دونوں کو پکارا کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تم دونوں کو بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟

دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ اللہ نے (انکی توبہ قبول فرمائی اور) فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ اب تم (انسان اور شیطان) ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے زمین پر ایک مقرر وقت تک ٹھکانہ اور زندگی کا سامان (مہیا) کر دیا گیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اسی (زمین) میں تمہارا جینا ہوگا اور اسی میں تمہارا مرنا اور اسی میں سے (روز قیامت) زندہ کر کے نکالے جاؤ گے۔

اسی سورہ کی آیت نمبر 27 میں فرمایا گیا کہ اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوایا تھا ۔۔۔۔ الى آخر الايۃ

اس سارے واقعے میں تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عربی زبان میں دو افراد کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ قصہ سات مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے اور کسی بھی مقام سے ایسا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا کہ حضرت حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے پیچھے لگا کر اس درخت کا پھل کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ جہاں بھی ذکر ہوا ہے یہی فرمایا گیا ہے کہ شیطان نے دونوں کو ورغلا کر اس نافرمانی والے کام کی طرف راغب کیا اور جیسے ہی ان دونوں کے سامنے حقیقت کھل گئی انہیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اسی وقت اللہ تعالٰی سے اپنی خطا کی معافی مانگ لی۔

اگر عورت بذات خود برائی کی جڑ ہوتی تو قرآن مجید کی سورتوں کے نام عورتوں کے نام پر نہ ہوتے۔ سورہ النساء، سورہ مریم کے نام عورت سے ہی متعلق ہیں۔ حضرت مریم علیہ السلام کی پاکبازی کی گواہی قرآن مجید میں دی گئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے سورہ النور میں دو رکوع نازل فرمائے گئے۔ اور محدثین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ مقام ہے کہ جلیل القدر مرد صحابہ کرام اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔

پھر اللہ تعالٰی نے مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے کو اپنی نشانی قرار دیا۔ سورہ الروم کی آیت نمبر 21 میں فرمایا گیا:-

اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

دنیا میں اگر عورت نہ ہوتی تو نسل انسانی آگے کیسے بڑھتی۔ اللہ تعالٰی نے مرد اور عورت کو ایک حکمت کے تحت پیدا فرمایا اور پھر کیسے کیسے خوبصورت رشتوں میں ایک دوسرے سے منسلک کر دیا۔ کہیں یہ عورت اپنی اولاد سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی ماں کے روپ میں ہے کہیں یہ بہن ہے کہیں بیٹی اور کہیں زندگی کے ہمسفر یعنی بیوی کے روپ میں۔

خطبہ حجتہ الوداع میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت فرمائی۔ ہمیں اپنے معاشرے میں عورت کو اس کا مقام اور عزت دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم اس کو جنت سے نکلوانے والی اور ہر برائی کی جڑ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اختیار کریں۔

http://daleel.pk/2016/11/18/17631
 
Top