• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا غیرمسلموں کے تیوہار کے موقع پران سے ہدیہ لینا جائز ہے ؟

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا غیرمسلموں کے تیوہار کے موقع پران سے ہدیہ لینا جائز ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اورعلی رضی اللہ عنہ اسے جائز بتلاتے تھے کیا یہ صحیح ہے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722

غیرمسلموں کے تیوہار کے مواقع پر ان کے تحائف قبول کرنے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو بھی روایات ملتی ہیں ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔
تفصیل ملاحظہ ہو:
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر :

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم
قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]


یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں موجود”قابوس بن أبي ظبيان الجنبي“ضعیف راوی ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ليس هو بذاك وقال سئل جرير عن شيء من أحاديث قابوس فقال نفق قابوس نفق[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 389]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحَديث لين، يكتب حَديثه، ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 145]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان رديء الحفظ يتفرد عن أبيه بما لا أصل له [المجروحين لابن حبان: 2/ 216]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ضعيف، ولكن لا يترك[سؤالات البرقاني للدارقطني، ت الأزهري: ص: 121]

بعض ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کی تضعیف ہی راجح ہے ۔
نیزاس اثر کے راوی جریربن عبدالحمید کہتے ہیں:
أتينا قابوس بعد فساده[التاريخ الكبير للبخاري: 7/ 193 واسنادہ صحیح]

اس سے معلوم ہواکہ جریر نے جس حالت میں اس سے روایت لی ہے اس حالت میں یہ ضعیف تھے ۔
لہٰذا یہ اثر ہر حال میں ضعیف وغیرمقبول ہے۔

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا اثر:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]

یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ”الحسن بن حکیم“ کی ”والدہ“ کا تعارف اور ان کی توثیق کہیں نہیں ملتی لہذا یہ مجہولہ ہیں۔

علی رضی اللہ عنہ کا اثر:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا الحسن بن علي بن عفان، ثنا أبو أسامة، عن حماد بن زيد، عن هشام، عن محمد بن سيرين، قال: أتي علي رضي الله عنه بهدية النيروز فقال: ما هذه؟ قالوا: يا أمير المؤمنين هذا يوم النيروز , قال: فاصنعوا كل يوم فيروز. قال أبو أسامة: كره أن يقول نيروز. قال الشيخ: وفي هذا كالكراهة لتخصيص يوم بذلك لم يجعله الشرع مخصوصا به
محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس نیروز کا ہدیہ لایا گیا تو آپ نے کہا: یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ نیروز کا دن ہے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر ہردن ”فیروز“ مناؤ ۔ راوی ابواسامہ کہتے ہیں کہ : علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ”نیزوز“ کہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس میں گویا کہ کراہت ہے کہ کسی ایک دن کو اس کام کے لئے مخصوص کرلیا جائے جسے شریعت نے مخصوص نہیں کیا ہے۔[السنن الكبرى للبيهقي: 9/ 392]


یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے محمدبن سیرین کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
مزید یہ کہ اس روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یوم نیروز کا ہدیہ قبول کیا تھا ۔بلکہ ظاہری الفاظ سے تو یہی لگتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا ۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قاله لنا موسى بن إسماعيل، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن سعر.وحدثنا آدم، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن السعر التميمي؛ أتي علي بفالوذج، قال: ما هذا؟ قالوا: اليوم النيروز، قال: فنيروزا كل يوم.
سعرتمیمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس فالوذج لایاگیا تو انہوں نے پوچھا: یہ کیاہے؟ تو لوگوں نے کہا: آج نیزوز کادن ہے۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا:پھر نیروز ہردن ہوناچاہئے[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 200]

یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔”سعرالتمیمی“ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔
اور”علی بن زیدبن جدعان“ ضعیف ہے۔دیکھئے ہماری کتاب یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص 571۔


علاوہ بریں اس سے قوی تر سند سے علی رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ کہ وہ غیرمسلموں کے تیوہار پر ان کی ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے چنانچہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
أيوب بن دينار.عن أبيه؛ أن عليا كان لا يقبل هدية النيروز.حدثني إبراهيم بن موسى، عن حفص بن غياث.وقال أبو نعيم: حدثنا أيوب بن دينار، أبو سليمان المكتب، سمع أباه، سمع عليا بهذا
ایوب بن دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نیروز کا ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے۔[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 414]

اس کی سند کا کوئی راوی مجروح نہیں ہے اور سب کی توثیق موجود ہے لیکن ایوب بن دینار اوران کے والد کے توثیق میں ابن حبان منفرد ہیں ، اگر ان کی تائید مل جائے تو یہ اثر صحیح ثابت ہوگا۔




 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
درج بالا آثار کے بارے میں فاضل بھائی نے یہ کہا ہے کہ یہ آثار گرچہ ضعیف ہیں لیکن حسن لغیرہ بن سکتے ہیں ۔
اس تعلق سے عرض ہے کہ:
شواہد اور متابعات سے تقویت تب لی جاتی ہے جب سارے شواہد ومتابعات کا مخرج ایک ہو یعنی قائل ایک ہو ۔

مثلا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قول مختلف سندوں سے منقول ہو لیکن سب میں ضعف خفیف تو یہاں تقویت کی بات کہی جائے گی کیونکہ سب کا مخرج ایک ہی ہے ۔
لیکن ایک قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ضعیف سند سے منقول ہے اور وہی قول کسی صحابی سے بھی ضعیف سند سے منقول ہو تو چونکہ یہاں دونوں اقوال کا مخرج الگ الگ ہے اس لئے یہاں تقویت کی بات نہیں کی جاسکتی ۔

اسی طرح اگرکسی ایک صحابی کاقول مثلا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کوئی قول کئی ضعیف سندوں سے منقول ہو تو یہاں بھی تقویت کی بات کہی جائے گی کیونکہ مخرج ایک ہی ہے۔
لیکن اگر ایک قول ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند سے منقول ہو اور وہی قول کسی دوسرے صحابی مثلا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ضعیف سند سے منقول ہو تو یہاں مخرج الگ الگ ہے اس لئے یہاں تقویت کی بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔

اس اصولی وضاحت کے بعد غیر مسلم کے تیوہار سے متعلق آثار دیکھیں تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی ایک ہی سند ہے ، اسی طرح ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے قول کی بھی ایک ہی سند ہے ۔اورچونکہ دونوں قول کا مخرج الگ الگ ہے اس لئے یہاں تقویت کی کوئی گنجائش نہیں ۔
مزید یہ کہ اس ضمن میں علی رضی اللہ عنہ کا قول ان دونوں اقوال کے خلاف بھی ہے ۔ لہٰذا ان آثار کے سلسلے میں تقویت کی بات کرنا ہر لحاظ سے اصول حدیث کے خلاف ہے ۔

ایک مثال سے بھی بات واضح کردی جائے :
فرض کریں زید نامی مفتی کا فتوی ایک غیر معتبر شخص نے نقل کیا ۔
اور یہی فتوی بکر نامی دوسرے مفتی سے ایک دوسرے غیر معتبر شخص نے نقل کیا ۔
تو کیا کوئی معقول آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں نقول آپس میں تقویت پہنچاتے ہیں ؟ ہرگز نہیں کیونکہ دونوں کا مخرج الگ ہے ۔
ہاں اگر صرف زید ہی کا فتوی دو غیر معتبر شخص نقل کرتے تو کہا جاسکتا ہے دو لوگ ایک ہی شخص سے ایک بات نقل کرنے پر متفق ہیں اس لئے نقل میں مضبوطی آجاتی ہے ۔
لیکن مذکورہ آ ثار میں یہ معاملہ نہیں ہے۔
 
Top