• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا فرمانبرداربیوی کا سبق آمواز واقعہ صحیح ہے؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
کیا فرمانبرداربیوی کا سبق آمواز واقعہ صحیح ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ عہد رسول اللہ میں ایک عورت کو اس کے شوہر نے گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا تھا ، جب اس عورت کا باپ بیمار ہوا تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے باپ کی عیادت کے لئے پوچھا تو آ پ نے شوہر کی اطاعت کا حکم دیااور جب باپ کی وفات ہوگئی تو اس کے جنازہ میں شرکت کرنی چاہی تو بھی شوہر کی اطاعت کا حکم دیا اور آپ نے یہ فرمایا کہ شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے باپ کو اللہ نے معاف کردیا ہے ۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پہ کافی گردش میں ہے، لوگوں کو آگاہ کرنے کے مقصد سے اس واقعہ کی حقیقت بیان کی جاتی ہے ۔
اس واقعہ کا متن مسند ابن حمید میں اس طرح مذکور ہے۔
((أن امرأة كانت تحت رجل فمرض أبوها فأتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن أبي مريض وزوجي يأبى أن يأذن لي أن أمرضه فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم أطيع زوجك فمات أبوها فاستأذنت زوجها أن تصلي عليه فأطاعت زوجها ولم تصل على أبيها فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم قد غفر الله لأبيك بطواعيتك لزوجك))
ترجمہ: ایک عورت کی ایک مرد سے شادی ہوئی تھی ، اس عورت کا باپ بیمار پڑ گیا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سوال کیا کہ میرا باپ بیمار ہے اور میرا شوہر باپ کی عیادت کرنے سے منع کرتا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایاکہ شوہر کی اطاعت کرو چنانچہ اس کا باپ مرگیا تو ان نے شوہر سے باپ کے جنازہ کی نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی (تو اس نے منع کیا) ، اس نے شوہر کی فرمانبرداری کی اور باپ کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی ۔ نبی ﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ شوہر کی فرمانبردای کی وجہ سے تمہارے باپ کو اللہ نے بخش دیا دیا ہے ۔
یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ مسند عبدبن حمید میں رقم: 1369 کے تحت ہے ۔
یہ واقعہ بہت ساری کتابوں میں موجود ہے مثلا أبو القاسم الأصبهاني کی الترغيب والترهيب (2/249 رقم:1522) میں , أبو أحمد بن عدي کی الكامل في ضعفاء الرجال ( 7/ 2611) میں , أبو محمد بن حزم کی المحلى ( 10 / 332 )میں ، الحكيم التّرمذي ّکی نوادر الأصول ( 1/ 557-558 رقم : 793و794)میں ، حافظ ابن حجر کی المطالب العالية( 2/ 197 رقم: 1682) میں,بوصيري کی إتحاف الخيرة المهرة( 4/ 535 رقم: 4322و4323 ) میں اورجلال الدين السيوطي کی الدر المنثور في التفسير بالمأثورمیں وغیرہ وغیرہ.
ان ساری جگہوں پہ جس سند سے مروی ہے وہ سند ہے : "يوسف بن عطية عن ثابت البناني عن أنس بن مالك"
اس سند میں یوسف بن عطیہ بہت ہی ضعیف راوی ہے۔ کئی محدثین نے اسے ضعیف اور کئی نے متروک الحدیث قرار دیا ہے ۔
یہ حدیث طبرانی کی المعجم الأوسط ( 8/ 315 رقم 7644 ) میں ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے وہ طریق اس طرح ہے :
حدثنا محمد بن موسى, ثنا محمد بن سهل بن مخلد الإصطخري, ثنا عصمة بن المتوكل, حدثنا زافر, عن ثابت بن البناني, عن أنس بن مالكٍ, عن النبي - صلى الله عليه وسلم – " أنَّ رجلاً خرج وأمرَ امرأته أنْ لا تخرج من بيتها, وكان أبوها في أسفل الدار وكانت في أعلاها, فمرض أبوها, فأرسلت إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - فذكرت له ذلك, فقال: " أطيعي زوجك " فمات أبوها, فأرسلت إلى النبي - صلى الله عليه وسلم – فقال: " أطيعي زوجك " فأرسل إليها النبي - صلى الله عليه وسلم - : " إنَّ الله غفر لأبيها بطاعتها لزوجها " .
قال الإمام الطبراني : لم يرو هذه الأحاديث عن زافر بن سليمان إلاَّ عصمة بن المتوكل.
اولا امام طبرانی نے بھی یہ اشارہ کردیا کہ اس حدیث کو زافر بن سلیمان سے صرف عصمہ بن متوکل نے روایت کیا ہے ۔
اس حدیث کو ہیثمی نے بھی مجمع الزوائد میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں عصمہ بن متوکل ضعیف ہے ۔ (مجمع الزوائد:4/316) شیخ البانی نے بھی الإرواء:(7/76-77)میں ضعیف قرار دیا ہے۔
اس طرح ہم نے جان لیا کہ یہ قصہ جو دو سندوں سے مروی ہے دونوں میں ضعیف راوی ہونے کے سبب یہ ضعیف ہے اس لئے اس قصہ کو بیان کرکے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔
قصہ گو مقررین اس قسم کے نادر قصص لیکر بڑے دردیلے انداز میں بیان کرتے ہیں انہیں اس قسم کے واقعہ کی حیثیت کا علم ہی نہیں ہوتا اور عوام سمجھتی ہے کہ فلاں مقرر بڑا دردیلا بیان کرتا ہے ۔ ہمیں دردیلا بیان، انوکھے قصے اور نادر واقعات پہ نہیں جانا چاہئے جس بات کی ٹھوس دلیل ہو اسے ہی سننا اور بیان کرنا چاہئے ۔
 
Top