• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قدیم علما ء سائنس کا علم حاصل کرنا جائز تھا ۔جواب درکار ہے

شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی محترم بھائی! میرا یہ ہی مطلب ہے۔
مذکورہ سائنس کی بنیاد مشاہدہ اور تجربہ پر ہے ،اس کو وحی سے کوئی غرض نہیں۔ یہ خالق کوتسلیم نہیں کرتی، البتہ کئی سائنسدان خالق کو تسلیم کرتے ہیں اور کئی تسلیم نہیں کرتےاور اس کے باوجود خالق کے بنائے ہوئے قوانین سے ہی استفادہ کرتے ہوئے کئی قسم کی ایجادات کردیتے ہیں۔
کیا مذکورہ سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قانون تجاذب کس خالق نے تخلیق کیا ہے؟
السلام علیکم بھائی
قانون تجاذب میں اگر کوئی فالٹ ہے تو اس یہ لازم نہیں آتا کہ سائنس کے لئے ئی ضروری ہے کہ وہ خالق کا انکار کرے ، دیکھیں خود قانون تجاذب کو متعارف کروانے والے نیوٹن بھی کہتے ہیں کہ میرے فہم سے یہ بات زیادہ ہے کہ کس طرح کے ایک بے جان مادہ دوسرے مادہ کو اپنی طرف مائل کرتا ہے حالانکہ دونوں کے درمیان میں کوئی مماثلت یا تعلق نہیں ہوتا۔ )Works of W. Bently III, p.221)
دیکھیں اب اگر آپ اس پر غور کریں تو نیوٹن دوسرے الفاظ میں اس کائنات کے خالق کا اقرار کر گئے ہیں جس کے حکم سے چیزیں ہوتیں ہیں اور پھر ایک غبارہ دیکھیں جب اس میں ہوا ڈالتے ہیں تو ااوپر کی طرف جاتا ہے اور بہت سے معاملات ہین جو کہ انسانوں کے زہن کا اخراج ہیں جن پر آہستہ آہستہ کام ہوگا۔ لیکن جب سائنسی ترقی ہورہی تھی اور عیسائی پادریوں کی عجیب عجیب تاویلات اور بائیبل سے ٹکراوو کی صورتحال پر سائنسدانوں کو عبرتناک سزائیں دی گئیں یہی وجہ تھی کہ سائنسدان پھر ظاہری طور پر کسی مذہب سے باہر نکل ہی کام کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے خالق کا انکار لازمی تھا۔لیکن یہ ان کی ظاہری صورت تھی اگر آپ نیوٹن ، یا دوسرے سائنسدانوں کی کے کتب کو بغور مطالعہ کریں تو انہوں دبے الفاظ میں خالق حقیقی کا نہ صرف اقرار کیا ہے بلکہ بہت سے سائنسدانوں تو اس دنیا کے خاتمے کا بھی یقین رکھتے تھے یعنی قیامت۔۔۔جبکہ مسلمانوں کے ہاں ایسا ممکن نہیں تھا کیون کہ ایک تو الحمداللہ کتاب اللہ ان غلطیوں سے پاک ہے اور دوسری مسلمان وحی کو حرف کل سمجھتے ہیں جو ہر انسان کے لئے لازمی ہے (کیوں کہ اس سے پھر انسانی مفروضات و جہوٹ و شہرت کے لئے بنائے گئے سائنسی قوانین سے چھٹی ملتی ہے) جو چیز کتاب اللہ کے ٹکراو مین ہے وہ لازمن انسانی ہے اور انسان خطا کا گھر ہے ۔۔میں نے ترکی کے ڈاکٹر ہلوک نور کی کتاب قرآن آیات اور سائنس پڑہی تھی انہوں ان مسائل پر بہت زبردست بات کی ہے ڈاکٹر زاکر بھی ان پر بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ایک فتوٰی مل ہی گیا
امام غزالی کی مشہور کتاب احیاء العلوم سے پیش کرتے ہیں ۔ امام علوم پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں :
“غیر شرعی علوم: ان کی تین اقسام ہیں
(۱) پسندیدہ علوم
(۲) ناپسندیدہ علوم
(۳) مباح علوم
پسندیدہ علوم :
وہ ہیں جن سے دنیاوی زندگی کے مصالح وابستہ ہیں جیسے علمِ طب اور علمِ حساب۔ ان میں سے بعض علوم فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض صرف اچھے ہیں، فرض نہیں ہیں۔
فرضِ کفایہ وہ علوم ہیں جو دنیاوی نظام کے لیے ناگزیر ہیں۔ جیسے طب تندرستی اور صحت کی سلامتی کے لیے ضروری ہے، یا حساب کہ خرید و فروخت کے معاملات، وصیتوں کی تکمیل اور مالِ وراثت کی تقسیم وغیرہ میں لازمی ہے۔ یہ علوم ایسے ہیں کہ اگر شہر میں ان کا کوئی جاننے والا نہ ہو تو تمام اہلِ شہر کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ان میں سے اگر ایک شخص بھی ان علوم کو حاصل کر لے تو باقی لوگوں کے ذمے سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے۔
یہاں اس پر تعجب نہ کرنا چاہیے کہ صرف طب اور حساب کو فرضِ کفایہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے جو اصول بیان کیے ہیں، اس کی روشنی میں بنیادی پیشے جیسے پارچہ بافی، زراعت اور سیاست بھی فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ سینا پرونا اور پچھنے لگانا بھی فرضِ کفایہ ہیں، کہ اگر شہر بھر میں کوئی فاسد خون نکالنے والا نہ ہو تو جانوں کی ہلاکت کا خوف رہتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جس نے بیماری دی ہے، اس نے دوا بھی اتاری ہے اور علاج کا طریقہ بھی بتلایا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم ان سے فائدہ اٹھائیں؟ بلا وجہ اپنے آپ کو ہلاکت کی نذر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے پچھنے لگانے کا علم بھی فرضِ کفایہ ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ طب اور حساب کا صرف وہ حصہ فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انسانی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ طب اور حساب کی باریکیوں کا علم محض پسندیدہ ہے، فرضِ کفایہ نہیں ہے۔

مباح علوم:
(۱) شعر و شاعری اگر وہ اخلاق سوز نہ ہو، (۲) تاریخ یا دیگر تاریخی علوم۔
ان صورتوں کی روشنی میں دوسرے ناپسندیدہ یا مباح علوم و فنون کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔

ناپسندیدہ علوم :
(۱) جادوگری، (۲) شعبدہ بازی، (۳) وہ علم جس سے دھوکہ ہو وغیرہ۔
 
Top