lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟
یہ بہتان سب سے پہلے مکہ کے کفار و مشرکین نے قرآن پر لگایا تھا، اللہ نے قرآن ہی میں انکے ان تمام وساوس کا جواب دے دیا تھا، پھر بھی بعد میں یہود ونصاری نے باوجود اپنی کتابوں میں ہی اس کتاب کے سچی ہونے کی گواہیوں کے’ محض اپنے عناد و تکبر کی وجہ سے اسے دوہرایا اور آج بھی انکے پیروکار جان بوجھ کر یا جہالت میں ان وساوس کو کاپی کرتے آرہے ہیں۔
کفار ومشرکین کی قرآن پر تہمت
کفار نے قرآن پر جو تہمت لگائی تھی اسکو خود قرآن نے کئی جگہ ذکر کیا ہے، چند آیات درج ذیل ہیں۔
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ۔
(سورۃ الانفال ایت اکتیس)
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں اس میں پہلو ں کے قصے کے سوا اور کچھ نہیں۔
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ
صَادِقِينَ۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے ، جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہوں، اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو۔
(ھود 13)
وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ۔ (سورہ النحل آیت چوبیس)
اور جب ان سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے کہتے ہیں پہلے لوگوں کے قصے ہیں
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ۔
(سورۃ المومنون، آیت تریاسی)
اس کا تو ہم سے اوراس سے پہلے اور ہمارے باپ دادا سے وعدہ ہوتا چلاآیا ہے یہ صرف اگلےلوگوں کی کہانیاں ہیں
حتّى إذا جاؤوك يجادلونك يقول الذين كفروا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين۔
(سورہ الانعام، آیت 25)
یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں
قرآن کا چیلنج:
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جس علاقے میں اس نے اپنا کوئی بنی اور رسول بھیجا ہے اس کو اپنی بات کی تائید میں کوئی ایسا معجزہ بھی دیا ہے جو اس علاقے کے لوگوں کی ذہنی ، عقلی، علمی اور تمدنی سطح کے مطابق تھا۔ جس علاقے میں جس علم اور فن کا چرچا اور مہارت مسلمہ ہوتی تھی اس علاقے میں مبعوث ہونے والے نبی کو ایسا معجزہ دیا جاتا تھا جو اس علاقے اعلیٰ ترین انسانی کمال اور فن سے ماورا اور بہت اعلیٰ درجے کا ہوتا تھا، تاکہ لوگ اس کو آسانی سے تسلیم کر لیں کہ یہ چیز انسانی بس سے باہر ہے اور اس کو پیش کرنے والا شخص ضرور اللہ کی طرف سے پیش کر رہا ہے ۔مثلاً، حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں طب یونانی کا چرچا تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دست مسیحائی کا معجزہ دیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو اور جادوگروں کا چرچا تھا ۔ جادو کا فن اپنے عروج پر تھا اور اسی جادو کی بنیا د پر معاشرے میں لوگوں کا مقام متعین کیا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عصائے موسوی عطاء کیا گیا ، جس کے معجزات دیکھ کر ماہر فن جادوگر پکا ر اٹھے کہ یہ ضرور اللہ کی طرف سے ہے اور وہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کے دربار میں سجدہ ریز ہو گئے ۔قرآن مجید اللہ تعالی کا ایک زندہ معجزہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی نبوت کے ثبوت اور اس کی تائید میں عطا کیا گیا تھا۔جب عربوں نے اس قرآن کو انسانی کلام اور پچھلی قوموں کی قصے کہانیاں کہا تو اللہ تعالیٰ نے عربوں کو جنھیں اپنی فصاحت و
بلاغت پر ناز تھا، چیلنج دیا کہ اس جیسی کوئی ایک صورت ہی بنا لاؤ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
قل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظہیرا۔
(بنی اسرائیل)
’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ دیجیے کہ اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیساکوئی کلام لے آئیں تو اس جیسا کلام ہرگز نہ لا سکیں گے ، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔‘‘
ایک اور جگہ پھر مقابلے کی دعوت ان الفاظ سے دی ہے
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعو شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔‘‘
( سورۃ البقرۃ ۲:۲۳)
’’ اگر تم اس چیز میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کسی قسم کے شک میں ہو تو پھر تم اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاو ، اور اللہ کو چھور کر اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘
پورے قرآن میں ایک سو چودہ چھوٹی بڑی سورتیں ہیں اور اس جگہ لفظ سورۃ بغیر الف لام کے لانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اس چیلنج میں شامل ہے کہ اگر تمہیں اس قرآن کے کلام الہی ہونے میں کوئی تردد ہے اور یہ سمجھتے ہوں کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے انسان نے خود بنالیا ہے تو اس کا فیصلہ بڑی آسانی سے اس طرح ہوسکتا ہے کہ تم بھی اس قرآن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنالاؤ، اگر تم اس کی مثال بنانے میں کامیاب ہوگئے تو بیشک تمہیں حق ہوگا کہ
اس کو بھی کسی انسان کا کلام قرار دو۔
قرآن کے اس چیلنج کے پہلے مخاطب عرب کے تمام فصحاء و بلغاء اور شاعر و خطیب تھے ، جن کی گھٹی میں فصاحت و بلاغت تھی۔ جن کا بچہ بچہ شعر گوئی کے فن سے آشنا تھا۔ جو قوم اسلام اور قرآن کی مخالفت اور اسکو گرانے مٹانے کے لیے اپنی جان، مال آبرو، اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے تلی ہوئی تھی ، اس کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا کہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی صورت کی مثال بنا لاتے، مگر وہ لوگ اپنی پوری کوشش کے باوجود قرآن جیسا کوئی ایک لفظ یا فقرہ بھی نہ بنا سکے، قرآن نےپھر اگلی آیت میں ان کو خبردار کیا۔
فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکٰفرین۔‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲:۲۴
پس اگر تم ایسا نہ کر سکو اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ، پس تم اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آگ اور پتھر ہوں گے ۔‘‘
سرداران قریش کے صلاح مشورے
1. قریش نے ایک گھر میں اجتماع کیا اور مشورے کے بعد عتبہ بن ربیعہ کو رسول اکرم کے پاس بھیجا ۔عتبہ نے آکر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم وقبیلے والے کہتے ہیں کہ آپ ایک عجیب و غریب امر لے کر آئے ہیں کہ آپ کے آباء و اجداد بھی اس آئین و دین پر نہ تھے اور ہم میں سے بھی کوئی فرد اس پر اعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی اس امر میں اتباع کرنے کو تیار ہیں ، یقینا آپ کو کسی نہ کسی چیز کی ضرورت و احتیاج ہے کہ جس کو ہم پورا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ آپ کو جس قدر مال و دولت چاہیے ، عورت چاہیے ۔ہم دیں گے آپ فقط اس کام سے ہاتھ اٹھالیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمانی شروع کیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حم۔ تنزیل من الرحمن الرحیم۔ کتاب فصلت آیاتہ قرآنا عربیا لقوم یعلمون ۔ ۔فان اعرضوا فقل انذرتکم صاعقة مثل صاعقة عاد و ثمود۔ ۔
عتبہ ان آیات کو سننے کے بعد قریش کی جانب واپس ہوا اور سارا ماجرا ان کو سنایا اور کہا کہ
" انہوں نے مجھ سے کچھ ایسا کلام کیا کہ جو نہ شعر تھا اور نہ سحر و جادو بلکہ
وہ ایک عجیب کلام تھا ، وہ انسانی کلام بھی نہیں تھا" ۔
2. عربوں نے بھی اسلوب قرآن کی اس استقامت اور ہم آہنگی کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے فصحاء و بلغاء کو اس کی تاثیرات کا یقین تھا۔ اسی لیےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ سن اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنیں گے تو فریفتہ ہوجائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لیے قریش نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کا اجلاس بلایا۔ ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں سب سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، سب نے ولید کے سامنے یہ بات رکھی کہ اطراف سے آنے والے لوگ جب محمد کے بارے میں ہم سے پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں ؟
لوگوں نے مجنون، شاعر، کاہن کہنے کی تجویز رکھی، ولید نے کہا لوگ جب اس سے گفتگو کریں گے ، اس کا کلام سنیں گے تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ مجنون کا کلام ہے ، نا شاعر کا اور نہ کسی کاہن کا۔ وہ پھر تمہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے۔اس کے ولید بن مغیرہ نے کہا:
"خدا کی قسم تم جانتے ہو شعر و شاعری، رجز خوانی و قصیدہ خوانی میں میرے پائے کا کوئی آدمی نہیں ہے ۔ خدا کی قسم اس کلام میں خاص حلاوت ہے اور ایک خاص رونق ہے، جو میں کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا"
پھر لوگوں نے اس کہا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کہیں ۔ ولید نے کہا کہ ''مجھے سوچنے دو"۔
ولید نے سوچ کر کہا:
"تم اسے ساحر کہو کہ یہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتا ہے"۔
قوم اس سے مطمئن ہوگئی، مگر خدا کا چراغ پھونکوں سے بجھنے والا نہ تھا ، اطراف عرب سے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہوگئے اور آہستہ آہستہ سارے اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا
(خصائص کبری)