• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قران میں زبرزیر بعد میں داخل کیا گیاہے؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اہل بدعت کی طرف سے بارباریہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ قران میں پہلے زبرزیرنہیں تھا بعدمیں داخل کیا گیاہے، کیونکہ یہ اچھی چیز ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش ہے۔
لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قران میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:


پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔

اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔

اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔

اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔


دوسری دلیل:
زیرزبرلکھنے سے پہلے قران کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا جماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں گیا ہے۔


تیسری دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔


چوتھی دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔


پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔


چھٹی دلیل:
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔

اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔


ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔


آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟؟؟


نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔



دسویں دلیل:
اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوقران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقران صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعدصحابہ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقران بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
تلک عشرة کاملہ۔

اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں زبرزیرنہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لئے اس جواز پرعمل کرتے ہوئے ہمارے لئے زبرزیرلکھ دیاگیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبرزیرلکھنے پردلیل موجودہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ماشاء اللہ۔ بہت زبردست دلائل پیش کئے ہیں کفایت اللہ بھائی۔ جزاک اللہ و احسن الجزاء۔
اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں خوب برکت عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

بھائی جان، بدعت حسنہ کو ثابت کرنے کے لئے تو وہ کئی دیگر مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایسی مثال ہے جو ہر عامی بہت فخر سے لاجواب سمجھتے ہوئے پوچھتا پھرتا ہے۔ آپ نے ماشاء اللہ موضوع کا حق ادا کر دیا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
محترم کفایت اللہ بھائ، آپ کی پوسٹ بہت اچھی اور تحقیقی ہے۔ مگر یہ نظریہ صحیح نہیں کہ قرآن میں اعراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زمانے سے ہی تھے۔ علماء کرام کا موقف کا اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی عالم نے یہ نہیں بتایا جو آپ نے کہا ھے۔

نیز امام زرقانی کا قول ھے کہ:


والمعروف أن المصحف العثماني لم يكن منقوطاً … وسواء أكان هذا أم ذاك فإن إعجام – أي : تنقيط - المصاحف لم يحدث على المشهور إلا في عهد عبد الملك بن مروان ، إذ رأى أن رقعة الإسلام قد اتسعت واختلط العرب بالعجم وكادت العجمة تمس سلامة اللغة وبدأ اللبس والإشكال في قراءة المصاحف يلح بالناس حتى ليشق على السواد منهم أن يهتدوا إلى التمييز بين حروف المصحف وكلماته وهي غير معجمة ، هنالك رأى بثاقب نظره أن يتقدم للإنقاذ فأمر الحجاج أن يُعنى بهذا الأمر الجلل ، وندب " الحجاج " طاعة لأمير المؤمنين رجلين يعالجان هذا المشكل هما : نصر بن عاصم الليثي ، ويحيى بن يعمر العدواني ، وكلاهما كفء قدير على ما ندب له ، إذ جمعا بين العلم والعمل والصلاح والورع والخبرة بأصول اللغة ووجوه قراءة القرآن ، وقد اشتركا أيضاً في التلمذة والأخذ عن أبي الأسود الدؤلي ، ويرحم الله هذين الشيخين فقد نجحا في هذه المحاولة وأعجما المصحف الشريف لأول مرة ونقطا جميع حروفه المتشابهة ، والتزما ألا تزيد النقط في أي حرف على ثلاث ، وشاع ذلك في الناس بعدُ فكان له أثره العظيم في إزالة الإشكال واللبس عن المصحف الشريف .

وقيل : إن أول من نقط المصحف أبو الأسود الدؤلي ، وإن ابن سيرين كان له مصحف منقوط نقطه يحيى بن يعمر ، ويمكن التوفيق بين هذه الأقوال بأن أبا الأسود أول من نقط المصحف ولكن بصفة فردية ، ثم تبعه ابن سيرين ، وأن عبد الملك أول من نقط المصحف ، ولكن بصفة رسميَّة عامَّة ذاعت وشاعت بين الناس دفعاً للبس ، والإشكال عنهم في قراءة القرآن .

" مناهل العرفان "
( 1 / 280 ، 281 ) .


ترجمہ:

یہ معروف ہے کہ مصحف عثمانی نقطوں کے بغیر تھا ۔۔۔۔ چاہے جو بات بھی ہو مشہور یہی ہے کہ قرآن مجید کے نقطوں کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ہوا ہے اس لیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ اسلام کی حدیں پھیل چکی اورعرب وعجم آپس میں گھل مل گئے اور عجمیت عربی زبان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہی اور لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کو پڑھنےمیں التباس اور اشکالات کا شکارہورہی ہے ، حتی کہ ان کی اکثریت قرآن مجید کے بغیر نقطوں والےحروف و کلمات کی پہچان میں مشکل کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں ۔

تو اس وقت اس نے اپنی باریک بینی اوردوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اس مشکل اور اشکا لات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوئے حجاج بن یوسف کو یہ معاملہ سونپا کہ اس کوحل کرے ، حجاج بن یوسف نے امیر المومنین کی اطاعت کرتے ہوئے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے دوآدمیوں کوچنا اور یہ ذمہ داری نصربن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوائ جو عالم بامل اور زھدورع اور عربی زبان کے اصول وقواعدمیں ید طولی رکھنے کی بنا پر اس اہم کام کی اہلیت رکھتے تھے ، اوروہ دونوں قرآت میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ابوالاسود الدولی کے شاگرد بھی تھے ۔

اللہ تعالی ان دونوں علم کے عظیم سپوتوں پر اپنی رحمت برسائے یہ دونوں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور قرآن مجید کے حروف کلمات پرنقطے لگائے اوراس میں اس کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ کسی حرف پر بھی تین سے زیاد نقطے نہ ہوں ۔

بعد میں لوگوں میں یہ چیز عام ہوئ جس کا قرآن مجید کے پڑھنے میں پیدا شدہ اشکالات اور التباس کے ازالہ میں اثر عظيم پایا جاتا ہے ۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ مصحف پرنقطے لگانے والا سب سے پہلا شخص ابوالاسود الدؤلی ہے ، اور ابن سیرین کے پاس وہ مصحف موجود تھا جس پر یحیی بن یعمر نے نقطے لگائے تھے ۔

تو ان اقوال کے درمیان تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ انفرادی طور پر تو ابوالاسود الد‎ؤلی نے ہی نقطے لگائے لیکن عمومی اور رسمی طور پر نقطے لگانے والا شخص عبدالملک بن مروان ہے اور یہی وہ مصحف ہے جو کہ لوگوں کے درمیان عام مشہور ہوا اور تاکہ قرآن مجید میں التباس اوراشکالات کا خاتمہ ہوسکے ۔ مناھل القرآن ( 1 / 280-281 )


واللہ اعلم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
محترمRazaصاحب آپ سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ میری تحریر کو از اول تا آخر دو تین بار بغور پڑھیں، اس کے بعد آپ کیا کہہ رہے ہیں اس پربھی دھیان دیں ، آپ کی پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں نقطے اورزبرزیروغیرہ مصحف میں نہیں لکھے گئے تھے ، اب ذرا بتلائیے کہ میں نے اپنی تحریر میں اس سے کہاں اختلاف کیا ہے؟؟؟
یقینا میں بھی مانتا ہوں کہ مصحف میں یہ ساری چیزیں بعدمیں لکھی گئی ہیں ، لیکن کسی چیز کا بعدمیں لکھا جانا ، اورکسی چیز کا بعدمیں وجود میں آنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
ہم نے یہی کہا ہے کہ قران میں زبرزیربعدمیں لکھا گیا مگراس کا وجود پہلے سے تھا اب کیا آپ کسی ایک عالم کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے کہا ہوکہ قران میں اعراب پہلے تھا ہی نہیں ، جناب قران میں اعراب پہلے ہی سے تھا البتہ اس کی لکھا وٹ بعدمیں عمل آئی ہے۔

اور Razaصاحب ایک بات بتائیں ، کہ آج احادیث کے جو بھی ذخیرے تحریرکی شکل میں موجود ہیں کیا وہ سب کے سب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھے جا چکے تھے ہرگزنہیں ؟؟؟ بلکہ احادیث کا صرف کچھ ہی حصہ لکھا گیا تھا۔
تو جواحادیث نبویہ دورنبوت کے بعد لکھی گئی ہیں ، کیا ان کا وجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں نہ تھا؟؟؟؟؟؟؟؟
جناب کسی چیز کا بعد میں لکھا جانا الگ مسئلہ ہے اورکسی چیز کا بعدمیں وجود میں آنا الگ مسئلہ ہے۔
قران میں اعراب بعدمیں لکھے گئے مگران کا وجود پہلے ہی سے تھا۔
اورکیا آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کی تلاوت کی ہے، پھرکیا بغیراعراب کے قران مجید کی تلاوت ممکن ہے۔
میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں :
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔
الغرض یہ کہ قران میں اعراب پہلے ہی سے تھا اور لکھا بعد میں گیا ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
محترم کفایت اللہ بھائ، میں معذرت چاہتا ھوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ میں سے چند الفاظ کو نظر انداز کیا، دراصل جب آپ نے یہ لکھا تھا کہ "اہل البدعۃ یہ انکار کرتے ہیں کہ قرآن میں زیر زبر نہیں تھا، جس سے وہ بدعۃ الحسنہ کی حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" تو میرے دماغ یہی بات آئ کہ وہ تو اعراب کے لکھے جانے کو ہی اپنے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ کہ اس کے وجود پر، اور وہ اسی کو بدعۃ الحسنہ کہتے ہیں ہے۔ اسی غلط فہمی میں میں نے اس بات پر جواب دے دیا، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محترم کفایت اللہ بھائ، میں معذرت چاہتا ھوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ میں سے چند الفاظ کو نظر انداز کیا، دراصل جب آپ نے یہ لکھا تھا کہ "اہل البدعۃ یہ انکار کرتے ہیں کہ قرآن میں زیر زبر نہیں تھا، جس سے وہ بدعۃ الحسنہ کی حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" تو میرے دماغ یہی بات آئ کہ وہ تو اعراب کے لکھے جانے کو ہی اپنے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ کہ اس کے وجود پر، اور وہ اسی کو بدعۃ الحسنہ کہتے ہیں ہے۔ اسی غلط فہمی میں میں نے اس بات پر جواب دے دیا، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
محترم کفایت اللہ بھائی کا مضمون پڑھ دل باغ باغ ہو گیا بارک اللہ فیہ
اور رضا بھائی کی یہ خوبی انتھائی اہم ہے کہ غلطی سے رجوع کیا
اللہ تعالی ہم سب سے اپنے دین کا کام لے لے
 
Top